Surat ur Rehman

Surah: 55

Verse: 56

سورة الرحمن

فِیۡہِنَّ قٰصِرٰتُ الطَّرۡفِ ۙ لَمۡ یَطۡمِثۡہُنَّ اِنۡسٌ قَبۡلَہُمۡ وَ لَا جَآنٌّ ﴿ۚ۵۶﴾

In them are women limiting [their] glances, untouched before them by man or jinni -

وہاں ( شرمیلی ) نیچی نگاہ والی حوریں ہیں جنہیں ان سے پہلے کسی جن و انس نے ہاتھ نہیں لگایا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فِيهِنَّ ... Wherein will be, (meaning on these couches or beds), ... قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ ... Qasirat At-Tarf, chaste females, wives restraining their glances, desiring none except their husbands, seeing them as the most beautiful men in Paradise. This was said by Ibn Abbas, Qatadah, Ata' Al-Khurasani and Ibn Zayd. It was reported that one of these wives will say to her husband, "By Allah! I neither see anything in Paradise more handsome than you nor more beloved to me than you. So praise be to Allah Who made you for me and made me for you." Allah said, ... لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنسٌ قَبْلَهُمْ وَلاَ جَانٌّ whom never deflowered a human before nor Jinn. meaning they are delightful virgins of comparable age who never had sexual intercourse with anyone, whether from mankind or Jinns, before their husbands. This is also a proof that the believers among the Jinns will enter Paradise. Artat bin Al-Mundhir said, "Damrah bin Habib was asked if the Jinns will enter Paradise and he said, `Yes, and they will get married. The Jinns will have Jinn women and the humans will have female humans."' Allah's statement, ... لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنسٌ قَبْلَهُمْ وَلاَ جَانٌّ فَبِأَيِّ الاَء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

56۔ 1 جن کی نگاہیں اپنے خاوندوں کے علاوہ کسی پر نہیں پڑیں گی اور ان کے اپنے خاوند ہی سب سے زیادہ حسین اور اچھے معلوم ہونگے۔ 56۔ 2 یعنی باکرہ اور نئی نویلی ہوں گی۔ اس سے قبل وہ کسی کے نکاح میں نہیں رہی ہونگی۔ یہ آیت اور اس سے ماقبل کی بعض آیات سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جو جن مومن ہونگے وہ بھی مومن انسانوں کی طرح جنت میں جائیں گے اور ان کے لیے بھی وہی کچھ ہوگا جو دیگر اہل ایمان کے لیے ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٦] ان جنت کی عورتوں کی اولین اور اہم صفت یہ ہوگی کہ وہ شرمیلی اور حیادار ہوں گی اپنے شوہروں کے سوا کسی دوسرے کو دیکھنے کی کوشش نہ کریں گی۔ انتہائی خوبصورت ہونے کے باوجود دنیا کی عورتوں کی طرح اپنے چاہنے والوں سے آنکھیں ہی آنکھوں میں اشارے کرنے والے نہیں ہوں گی۔ اور ان کی دوسری صفت یہ ہوگی کہ وہ باکرہ یا کنواری ہوں گی۔ اہل جنت کو حوروں کے علاوہ جو عورتیں ملیں گی وہ وہی ہوں گی جو اس دنیا میں ان کی بیویاں تھیں۔ اگر وہ اس دنیا میں صاحب اولاد تھیں یا بوڑھی ہوچکی تھیں۔ تب بھی انہیں نوخیز اور کنواری بنا کر جنت میں داخل کیا جائے گا۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جنوں میں بھی توالد و تناسل کا سلسلہ موجود ہے۔ اور مومن جن جو جنت میں داخل ہوں گے ان کو بھی نوخیز اور کنواری بنا کر ہی ان کی دنیا کی بیویاں عطا کی جائیں گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ فِیْہِنَّ قٰـصِرٰتُ الطَّرْفِ :” فیھن “ کی ضمیر ” فرش “ کی طرف جا رہی ہے۔” قصرت “ قصر قیصرقصرا “ (روکنا ) سے اسم فاعل ہے ، آنکھوں کو خاوند پر روک کر رکھنے والیاں ۔ جنت کے محلوں ، چشموں اور باغوں میں بچھے ہوئے بستروں میں جنتیوں کے دل لگانے والی عورتوں کے ظاہری و باطنی اوصاف اور ان کے کمال و جمال کا بیان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے ان کا معنوی حسن بیان فرمایا کہ ان کی آنکھیں خاوندوں کے سوا کسی اور کی طرف نہیں اٹھیں گے اور نہ ہی ان کی نگاہ میں ان کی خاوندوں سے بڑھ کر کوئی ہوگا ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک وصف ہی ہزاروں اوصاف پر بھاری ہے ، کوئی عورت کتنی ہی حسین و جمیل ہو، اس وصف سے عاری ہو تو مرد غیور کی نگاہ میں اس کی کچھ قدر و قیمت نہیں رہتی ۔ عرب کا ایک شاعر کہتا ہے ؎ واترک حبھا من غیر بغض وذاک لکثۃ الشرکاء فیہ اذا وفع الذباب علی طعام رفعت یدی و نفسی تشتھیہ وتجتنب الاسود ورود ما اذا کان الکلاب ولغن فیہ ” میں اس کی محبت کسی بغض کے بغیر ترک کر رہا ہوں ، کیونکہ اس محبت میں اور بھی کئی شریک ہیں ۔ جب مکھی کھانے پر آگرے تو میں اپنا ہاتھ اٹھا لیتا ہوں ، حالانکہ میرا دل اسے چاہ رہا ہوتا ہے۔ اور شیر پانی پر آنے سے اجتناب کرتے ہیں ، جب کتوں نے اس میں منہ ڈال دیا ہو “۔ ٢۔ لَمْ یَطْمِثْہُنَّ اِنْسٌ قَبْلَہُمْ وَلَا جَآنٌّ :” طمث یطمث طمثاً “ (ض) چھونا۔ یعنی وہ عورتیں کنواری ہوں گی ، اگر دنیا میں خاوندوں کے پاس رہی ہوں گی تب بھی جنت میں آکر نئے سرے سے کنواری ہوجائیں گی اور جنت میں ملنے والے خاوندوں سے پہلے کسی نے انہیں چھوا تک نہ ہوگا ۔ اصحاب الیمین کو ملنے والی عورتوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(اِنَّـآ اَنْشَاْنٰـہُنَّ اِنْشَآئً فَجَعَلْنٰـہُنَّ اَبْکَارًا عُرُبًا اَتْرَابًا لِّاَصْحٰبِ الْیَمِیْنِ ) (الواقعہ : ٣٥ تا ٣٨)” بلا شبہ ہم نے ان (بستروں والی عورتوں) کو پیدا کیا ، نئے سرے سے پیدا کرنا ۔ پس ہم نے انہیں کنواریاں بنادیا ۔ جو خاوندوں کی محبوب ، ان کی ہم عمر ہیں ۔ دائیں ہاتھ والوں کے لیے ۔ “ پھر مقربین کو ملنے والی بیویوں کا معاملہ تو ان سے کہیں بڑھ کر ہوگا ۔ ٣۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ انسانوں کی طرح جن بھی جنت میں جائیں گے ، وہاں انسانوں کو ان کی جنس سے بیویاں ملیں گی اور جنوں کو ان کی جنس سے ، کیونکہ دوسری جنس سے نہ موافقت ہوتی ہے نہ انس ، پھر ” اتراباً “ ( مٹی میں کھیلنے والے ہم جولی) ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَانٌّ (...whom neither a man will have touched before them, nor a Jinn....55:56). The word طْمِث tamth has different meanings. &Menstrual discharge& is termed as tamth, and the menstruating woman as طْامِث &tamith&. It also means &sexual intercourse with a virgin&. This second sense is meant here in this verse.

لَمْ يَطْمِثْهُنَّ اِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلَا جَاۗنٌّ، لفظ طمث کئی معنی کے لئے استعمال ہوتا ہے، حیض کے خون کو طمث کہتے ہیں اور حائضہ عورت کو طامث کہا جاتا ہے اور کنواری لڑکی سے مباشرت کو بھی طمث کے لفظ سے تعبیر کیا جاتا ہے، اس جگہ یہی معنی مراد ہیں اور اس میں جو اس کی نفی کی گئی ہے کہ جن اہل جنت کے لئے یہ حوریں مقرر ہیں ان سے پہلے ان کو کسی انسان یا جن نے مس نہیں کیا ہوگا، اس کا مفہوم وہ بھی ہوسکتا ہے جو خلاصہ تفسیر میں بیان ہوا ہے کہ جو حوریں انسانوں کے لئے مقرر ہیں ان کو کسی انسان نے اور جو مومنین جنات کے لئے مقرر ہیں ان کو کسی جن نے ان سے پہلے مس نہیں کیا ہوگا اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ جیسے دنیا میں انسانی عورتوں پر کبھی جنات بھی مسلط ہوجاتے ہیں وہاں اس کا بھی کوئی امکان نہیں ہوگا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فِيْہِنَّ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ۝ ٠ ۙ لَمْ يَطْمِثْہُنَّ اِنْسٌ قَبْلَہُمْ وَلَا جَاۗنٌّ۝ ٥٦ ۚ قصر القِصَرُ : خلاف الطّول، وهما من الأسماء المتضایفة التي تعتبر بغیرها، وقَصَرْتُ كذا : جعلته قَصِيراً ، والتَّقْصِيرُ : اسم للتّضجیع، وقَصَرْتُ كذا : ضممت بعضه إلى بعض، ومنه سمّي الْقَصْرُ ، وجمعه : قُصُورٌ. قال تعالی: وَقَصْرٍ مَشِيدٍ [ الحج/ 45] ، وَيَجْعَلْ لَكَ قُصُوراً [ الفرقان/ 10] ، إِنَّها تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ [ المرسلات/ 32] ، وقیل : الْقَصْرُ أصول الشّجر، الواحدة قَصْرَةٌ ، مثل : جمرة وجمر، وتشبيهها بالقصر کتشبيه ذلک في قوله : كأنّه جمالات صفر [ المرسلات/ 33] ، وقَصَرْتُه جعلته : في قصر، ومنه قوله تعالی: حُورٌ مَقْصُوراتٌ فِي الْخِيامِ [ الرحمن/ 72] ، وقَصَرَ الصلاةَ : جعلها قَصِيرَةً بترک بعض أركانها ترخیصا . قال : فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ [ النساء/ 101] وقَصَرْتُ اللّقحة علی فرسي : حبست درّها عليه، وقَصَرَ السّهمِ عن الهدف، أي : لم يبلغه، وامرأة قاصِرَةُ الطَّرْفِ : لا تمدّ طرفها إلى ما لا يجوز . قال تعالی: فِيهِنَّ قاصِراتُ الطَّرْفِ [ الرحمن/ 56] . وقَصَّرَ شعره : جزّ بعضه، قال : مُحَلِّقِينَ رُؤُسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ [ الفتح/ 27] ، وقَصَّرَ في كذا، أي : توانی، وقَصَّرَ عنه لم : ينله، وأَقْصَرَ عنه : كفّ مع القدرة عليه، واقْتَصَرَ علی كذا : اکتفی بالشیء الْقَصِيرِ منه، أي : القلیل، وأَقْصَرَتِ الشاة : أسنّت حتی قَصَرَ أطراف أسنانها، وأَقْصَرَتِ المرأة : ولدت أولادا قِصَاراً ، والتِّقْصَارُ : قلادة قَصِيرَةٌ ، والْقَوْصَرَةُ معروفة «1» . ( ق ص ر ) القصر یہ طول کی ضد ہے اور یہ دونوں اسمائے نسبتی سے ہیں جو ایک دوسرے پر قیاس کے ذریعہ سمجھے جاتے ہیں ۔ قصرت کذا کے معنی کسی چیز کو کوتاہ کرنے کے ۔ ہیں اور تقصیر کے معنی اور سستی کے ہیں اور قصرت کذا کے معنی سکیٹر نے اور کسی چیز کے بعض اجزاء کو بعض کے ساتھ ملانا کے بھی آتے ہیں ۔ اسی سے قصر بمعنی محل ہے اس کی جمع قصور آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقَصْرٍ مَشِيدٍ [ الحج/ 45] اور بہت سے محل : ۔ وَيَجْعَلْ لَكَ قُصُوراً [ الفرقان/ 10] نیز تمہارے لئے محل بنادے گا ۔ إِنَّها تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ [ المرسلات/ 32] اس سے آگ کی اتنی ( بڑی بڑی ) چنگاریاں اٹھتی ہیں ۔ جیسے محل ۔ بعض نے کہا ہے کہ قصر جمع ہے اور اس کے معنی درخت کی جڑوں کے ہیں ۔ اس کا واحد قصرۃ ہے جیسے جمرۃ وجمر اور ان شراروں کو قصر کے ساتھ تشبیہ دینا ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری آیت میں ان کا ۔ كأنّه جمالات صفر [ المرسلات/ 33] گویا زور درنگ کے اونٹ ہیں ۔ کہا ہے کہ اور قصرتہ کے معنی محل میں داخل کرنے کے ہیں اور اسی سے ارشاد الہٰی ہے ۔ حُورٌ مَقْصُوراتٌ فِي الْخِيامِ [ الرحمن/ 72] وہ حوریں ہیں جو خیموں میں ستور ہیں ۔ قصرالصلٰوۃ بموجب رخصت شرعی کے نماز کے بعض ارکان کو ترک کرکے اسے کم کرکے پڑھنا ۔ قرآن پاک میں ہے : فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ [ النساء/ 101] تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ نماز کو کم کر کے پڑھو ۔ قصرت اللقحتہ علٰی فرسی اونٹنی کا دودھ اپنی گھوڑی کے لئے مخصوص کردیا قصرالسھم عن الھدف ۔ تیر کا نشانے تک نہ پہنچنا ۔ امراءۃ قاصرۃ الطرف وہ عورت ناجائز نظر اٹھا کے نہ دیکھے ۔ قرآن پاک میں ہے : فِيهِنَّ قاصِراتُ الطَّرْفِ [ الرحمن/ 56] ان میں نیچی نگاہ والی عورتیں ۔ قصری شعرہ بال کتروانا قرآن پاک میں ہے : مُحَلِّقِينَ رُؤُسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ [ الفتح/ 27] اپنے سر منڈاوا کر اور بال کتروا کر ۔ قصرفی کذا : کسی کام میں سستی کرنا قصر عنہ کسی کام کے کرنے سے عاجز ہونا ۔ اقصرت عنہ ۔ باوجود قدرت کے کسی کام کرنے سے باز رہنا ۔ اقتصر علیٰ کذا تھوڑی چپز پر صبر کرنا ۔ اقتصرت الشاۃ بوڑھا ہونے کی وجہ سے بکری کے دانتوں کا کوتاہ ہوجانا ۔ اقصرت المرءۃ چھوٹی قد اولاد جننا تقصار چھوٹا سا رہا ۔ القوصرہ کھجور ڈالنے زنبیل جو کھجور پتوں یا نرکل کی بنئی ہوئی ہوتی ہے ۔ طرف طَرَفُ الشیءِ : جانبُهُ ، ويستعمل في الأجسام والأوقات وغیرهما . قال تعالی: فَسَبِّحْ وَأَطْرافَ النَّهارِ [ طه/ 130] ، أَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهارِ [هود/ 114] ( ط رف ) الطرف کے معنی کسی چیز کا کنارہ اور سرا کے ہیں اور یہ اجسام اور اوقات دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَسَبِّحْ وَأَطْرافَ النَّهارِ [ طه/ 130] اور اس کی بیان کرو اور دن کے اطراف میں ۔ أَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهارِ [هود/ 114] اور دن ۔ کے دونوں سروں ( یعنی صبح اور شام کے اوقات میں ) نماز پڑھا کرو ۔ طمث الطَّمْثُ : دم الحیض والافتضاض، والطَّامِثُ : الحائض، وطَمِثَ المرأةَ : إذا افتضَّها . قال تعالی: لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلا جَانٌ [ الرحمن/ 56] ، ومنه استعیر : ما طَمِثَ هذه الرّوضةَ أحدٌ قبلنا أي : ما افتضَّها، وما طَمِثَ الناقةَ جَمَلٌ ( ط م ث ) الطمث ( ن س ) کے معنی ( 1 ) دم حیض اور ( 2 ) کسی عورت کی بکارت کو زائل کرنا کے ہیں اور طامت کے معنی حیض والی عورت کے ہیں طمث المرءۃ اس نے عورت کی بکارت زائل کردی قرآن میں ہے : ۔ لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلا جَانٌ [ الرحمن/ 56] جس کو اہل جنت سے پہلے نہ کسی انسان نے ہاتھ لگایا اور نہ جن نے ۔ اور اسی سے استعارہ کے طور پر کہا جاتا ہے ماطمث ھذہ الروضۃ احد قبلنا یعنی ہم سے قبل اس سبز زار میں کوئی اور وارد نہیں ہؤا ماطمث الناقۃ جمل اس اونٹنی کو کسی اونٹ نے بھی نہیں چھوڑا۔ إنس الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب «1» ، وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان/ 49] . وقیل ابن إنسک للنفس «2» ، وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء/ 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه/ 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور/ 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه «3» ، وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي . ( ان س ) الانس یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ { وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا } ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ { فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا } ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا } ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔ جان وقوله تعالی: وَالْجَانَّ خَلَقْناهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نارِ السَّمُومِ [ الحجر/ 27] فنوع من الجنّ ، وقوله تعالی: كَأَنَّها جَانٌّ [ النمل/ 10] ، قيل : ضرب من الحيّات . اور آیت کریمہ ؛۔ وَالْجَانَّ خَلَقْناهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نارِ السَّمُومِ [ الحجر/ 27] اور جان کو اس سے بھی پہلے بےہوئیں کی آگ سے پیدا کیا تھا ۔ میں جان سے بھی جنوں کی ایک قسم مراد ہے ۔ لیکن آیت کریمۃ ؛ كَأَنَّها جَانٌّ [ النمل/ 10] میں جان سے ایک قسم سانپ مراد ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٦۔ ٥٧) اور ان تمام باغوں میں نیچی نگاہ والیاں حوریں ہوں گی جو صرف اپنے شوہروں پر قانع ہوں گی غیر کی جانب اصلا نگاہ اٹھا کر بھی دیکھنے والی نہ ہوں گے اور ان جنتی لوگوں سے پہلے ان پر نہ تو کسی آدمی نے تصرف کیا ہوگا اور نہ کسی جن نے یعنی انسانوں کے لیے جو حوریں ہیں ان کے خاوندوں سے پہلے کسی انسان نے ان کے ساتھ تصرف نہیں کیا ہوگا سو اے جن و انس تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٦{ فِیْہِنَّ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ لا } ” ان میں ایسی عورتیں ہوں گی جن کی نگاہیں جھکی ہوئی ہوں گی۔ “ عورت کی جھکی ہوئی نگاہیں شرم و حیا کی علامت ہیں اور شرم و حیا نسوانیت کا خاص زیور بھی ہے اور اس کے اخلاق کا سب سے بڑا محافظ بھی ۔ جنتی عورتوں کی جھکی ہوئی نظروں کا ذکر گویا ان کے حسن ظاہری و باطنی کا بیان ہے۔ { لَمْ یَطْمِثْہُنَّ اِنْسٌ قَبْلَہُمْ وَلَا جَآنٌّ ۔ } ” ان کو چھوا نہیں ہوگا ان سے پہلے نہ کسی انسان نے اور نہ کسی جن نے۔ “ جنتی جنوں کی بیویاں ظاہر ہے انہی کی جنس سے ہوں گی جنہیں پہلے کسی جن نے نہیں چھوا ہوگا ‘ جبکہ انسانوں کی بیویاں انسان ہوں گی اور انہیں بھی پہلے کسی انسان نے نہیں چھوا ہوگا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

45 This is the real character of the woman: she should neither be shameless nor immodest, but should have modesty in her looks. That is why AIIah while making a mention of women among the blessings ofParadise has first of aII praised their modesty and chastity and not their beauty and physical charms. Beautiful women can get together in mixed clubs and film studios and beauty contests where the select beautiful women onlv are admitted. but a person of low taste and mentality only can show any interest in them. No noble person can find any charm in the beauty that attracts every evil look and is ready to tall in every lap! 46 This means that in the worldly life whether a woman died a spinster. or as the wife of somebody. or died young, or as an old woman, in the Hereafter when aII the righteous women enter Paradise, they will be made young and virgins: and any of the women who is made a lift-partner of a righteous man, will not have heen possessed by anyone before that husband, in Paradise. This verse also shows that the righteous jinn too will enter Paradise like the righteus men. Men will havc women from their own kind and the jinn their wives from their own kind: both the kinds will have their mates from their own particular kind. No person of one kind will be made a partner of a member of :mother kind with whom he cannot live as husband or wife naturally. The words of the verse "...whom neither man nor jinn will havc touched before them," do not mean that the women there will only be of human species and they will not havc heen touched by any man or jinn before their husbands, but its real meaning is: In Paradise there will be women of both the jinn and the human species; they aII will he modest and untouched: neither a jinn female will have been touched by a jinn male before her husband in Paradise, nor a human female will have been touched by a human male before her husband in Paradise.

سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :45 یہ عورت کی اصل خوبی ہے کہ وہ بے شرم اور بیباک نہ ہو بلکہ نظر میں حیا رکھتی ہو ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے جنت کی نعمتوں کے درمیان عورتوں کا ذکر کرتے ہوئے سب سے پہلے ان کے حسن و جمال کی نہیں بلکہ ان کی حیا داری اور عفت مآبی کی تعریف فرمائی ہے ۔ حسین عورتیں تو مخلوط کلبوں اور فلمی نگار خانوں میں بھی جمع ہو جاتی ہیں ، اور حسن کے مقابلوں میں تو چھانٹ چھانٹ کر ایک سے ایک حسین عورت لائی جاتی ہے ، مگر صرف ایک بد ذوق اور بد قوارہ آدمی ہی ان سے دلچسپی لے سکتا ہے ۔ کسی شریف آدمی کو وہ حسن اپیل نہیں کر سکتا جو ہر بد نظر کو دعوت نظارہ دے اور ہر آغوش کی زینت بننے لیے تیار ہو ۔ سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :46 اس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کی زندگی میں خواہ کوئی عورت کنواری مر گئی ہو یا کسی کی بیوی رہ چکی ہو ، جوان مری ہو یا بوڑھی ہو کر دنیا سے رخصت ہوئی ہو ، آخرت میں جب یہ سب نیک خواتین جنت میں داخل ہوں گی تو جوان اور کنواری بنا دی جائیں گی ، اور وہاں ان میں سے جس خاتون کو بھی کسی نیک مرد کی رفیقہ حیات بنایا جائے گا وہ جنت میں اپنے اس شوہر سے پہلے کسی کے تصرف میں آئی ہوئی نہ ہوگی ۔ اس آیت سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ جنت میں نیک انسانوں کی طرح نیک جن بھی داخل ہوں گے ، اور وہاں جس طرح انسان مردوں کے لیے انسان عورتیں ہونگی اسی طرح جن مردوں کے لیے جن عورتیں ہونگی ۔ دونوں کی رفاقت کے لیے انہی کے ہم جنس جوڑے ہونگے ۔ ایسا نہ ہو گا کہ ان کا جوڑ کسی ناجنس مخلوق سے لگا دیا جائے جس سے وہ فطرتاً مانوس نہیں ہو سکتے ۔ آیت کے یہ الفاظ کہ ان سے پہلے کسی انسان یا جن نے ان کو نہ چھوا ہوگا ، اس معنی میں نہیں ہیں کہ وہاں عورتیں صرف انسان ہوں گی اور ان کو ان کے شوہروں سے پہلے کسی انسان یا جن نے نہ چھوا ہوگا ، بلکہ ان کا اصل مطلب یہ ہے کہ وہاں جن اور انسان ، دونوں جنسوں کی عورتیں ہوں گی ، سب حیا دار اور اچھوتی ہوں گی ، نہ کسی جن عورت کو اس کے جنتی شوہر سے پہلے کسی جن مرد نے ہاتھ لگایا ہوگا اور نہ کسی انسان عورت کو اس کے جنتی شوہر سے پہلے کسی انسان مرد نے ملوث کیا ہو گا

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(55:56) فیھن : میں ضمیر جمع مؤنث غائب یا تو جنتوں کے محلات کے لئے ہے یا جنت کی جملہ نعمتوں کے لئے۔ ان باغات میں جو محلات اور مکانات ان جنتیوں کے لئے بنائے گئے ان میں ایسی عورتیں ہوں گئی جو شرم و حیا کا پیکر ہوں گی ان کی نگاہیں جھکی ہوں گے۔ قصرت الطرف : مضاف مضاف الیہ۔ قصرت اسم فاعل جمع مؤنث۔ قاصرۃ واحد قصر باب ضرب مصدر۔ نظر روکنے والیاں۔ پاک دامن عورتیں۔ وہ عورتیں جن کی نظر اپنے شوہروں سے ہٹ کر دوسروں پر نہ پڑے۔ قصر البصر کے معنی ہیں نظر کو روکا۔ نظر کو سمیٹا۔ الطرف نگاہ۔ اسم فاعل کی اضافت اپنے مفعول کی طرف کی گئی ہے۔ لم یطمثھن مضارع نفی تاکید۔ بلم۔ صیغہ واحد مذکر غائب ھن ضمیر مفعول جمع مؤنث غائب ازواج کی طرف راجع ہے جس پر قصرت الثرف دال ہے۔ طمث باب ضرب مصدر کے معنی۔ (1) دم حیض، حیض کا خون۔ (2) کسی عورت کا بکارت کو ضائع کرنا۔ طمث المرأۃ اس مرد نے عورت کی بکارت زائل کردی اور ما طمث الناقۃ جمل۔ اس اونٹنی کو کسی اونٹ نے بھی نہیں چھوڑا۔ (3) الجماع یا المس (چھونا) ۔ لم یطمث میں ضمیر فاعل انسن اور جان کی طرف راجع ہے۔ قبلہم میں بھی ضمیر کا مرجع انس اور جان ہیں ۔ جن کو بہشت میں ایسی ازواج ملیں گی۔ ترجمہ ہوں ہوگا :۔ (اب باغات کے) محلات میں اور مکانات میں نگاہ نیچے رکھنے والی عورتیں ہوں گے جن سے کسی انسان یا کسی جن نے ان کے اپنے سے پہلے (نہ تو) جماع کیا ہوگا (اور نہ ہی چھوا ہوگا) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 یعنی وہ پاک باز اور حیادار بھی ہوں گی اور بالکل کنواری بھی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جنت کی نعمتوں کا ذکر جاری ہے۔ جنت کی عورتوں کا حسن و جمال اور حیاء۔ جنت میں شرمیلی اور نیچی نگاہ رکھنے والی حوریں ہوں گی جنہیں جنتی سے پہلے کسی انسان اور جن نے نہیں چھوا ہوگا۔ جنت کی حوریں اتنی خوبصورت ہوں گی جسے یاقوت اور مرجان خوبصورت اور پرکشش ہوتے ہیں یاد رہے کہ یاقوت اپنی سرخی میں بےمثال ہوتا ہے اور مرجان اپنی سفیدی میں بےمثل سمجھا جاتا ہے۔ جنتی کو اس لیے خوبصورت عورتیں دی جائیں گی کیونکہ یہ دنیا میں اللہ کے حکم کے مطابق نیکیاں کرتے رہے اور ہر نیکی کا بدلہ احسان ہی ہونا چاہیے۔ جنت کی عورتوں کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ انہیں انسانوں اور جنوں میں سے کسی نے چھوا نہیں ہوگا۔ اس سے مراد اگر دنیا کی نیک عورتیں ہیں تو اس کا معنٰی ہوگا کہ جب انہیں دوبارہ پیدا فرما کر جنت جانے کا حکم ہوگا تو اس وقت سے لے کر جنت میں داخلے تک انہیں کسی نے ہاتھ نہیں لگا یا ہوگا۔ اگر اس سے مراد صرف حوریں ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ جنت کی مخلوق ہیں اور جنتی سے پہلے انہیں نہ کسی نے دیکھا ہوگا اور نہ ہی کسی نے چھوا ہوگا۔ جہاں تک دنیا کی عورتوں کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ جنت میں داخل کرنے سے پہلے انہیں اتنا حسن و جمال دے گا کہ جنت کی حوریں بھی ان کے حسن و جمال پر رشک کریں گی اور وہ جنت میں حوروں کی سردار ہوں گی۔ جنت میں مردوں کو نیک بیویاں دی جائیں گی اور جنوں کو ان کی ہم جنس بیویاں ملیں گی۔ اس سے ثابت ہوا کہ نیک جنوں اور جننیوں کو بھی جنت میں داخلہ ملے گا اور برے جنوں اور جننیوں کو جہنم میں جھونکا جائے گا۔ یہاں جنت کی ہر نعمت کا ذکر کرنے کے بعد ارشاد ہوا کہ اے جنوں اور انسانو ! تم اپنے رب کی کون کونسی نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟ جنت کے صلہ کا ذکر کرتے ہوئے دونوں مرتبہ احسان کا لفظ استعمال کیا ہے۔ پہلے احسان کا معنٰی پُرخلوص نیکی ہے اور دوسری مرتبہ احسان کا لفظ استعمال کرنے کا مفہوم اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی ہے گویا کہ جنت میں داخل کرنا اللہ کا اپنے بندوں پر سراسر احسان ہوگا۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لوگوں میں تشریف فرما تھے۔ آپ کے پاس جبریل (علیہ السلام) آئے۔ انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا احسان کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے گویا کہ اسے دیکھ رہا ہے، اگر یہ نہیں ہوسکتا تو یہ خیال کرے کہ اللہ تعالیٰ تجھے دیکھ رہا ہے۔ “ (رواہ البخاری : کتاب الایمان) حضرت حذیفہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم ایسے نہ ہوجاؤ کہ جس طرح کسی کو دیکھو ویسے ہوجاؤ۔ تم کہتے ہو اگر لوگ ہمارے ساتھ اچھا سلوک کریں گے تو ہم بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے۔ اگر وہ ظلم کریں گے تو ہم بھی ان پر ظلم کریں گے۔ لیکن اپنے آپ کو اس بات کا عادی بنا لو کہ اگر لوگ تمہارے ساتھ اچھا سلوک کریں تو تم بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر وہ تمہارے ساتھ برا سلوک کریں تو تم ان پر ظلم نہ کرو۔ “ (رواہ الترمذی : باب ما جاء فی الاحسان والعفو، قال الترمذی ہذا حدیث حسن غریب ) مسائل ١۔ جنت کی عورتوں اور حوروں کو جنت میں جانے سے پہلے کسی مرد اور جن نے نہیں چھوا ہوگا۔ ٢۔ جنت کی عورتیں یاقوت اور مرجان سے زیادہ خوبصورت ہوں گی۔ ٣۔ احسان کا بدلہ احسان ہی ہونا چاہیے۔ ٤۔ جنتی کو جنت میں داخل کرنا ان پر اللہ تعالیٰ کا احسان ہوگا۔ تفسیر بالقرآن جنت کی بیویوں کا حسن و جمال : ا۔ حوریں نوجوان، کنواریاں اور ہم عمر ہوں گی۔ (الواقعہ : ٢٥ تا ٣٨) ٢۔ یا قوت و مرجان کی مانند ہوں گی۔ (الرحمن : ٥٨) ٣۔ خوبصورت اور خوب سیرت ہوں گی۔ (الرحمن : ٧٠) ٤۔ خیموں میں چھپی ہوئی ہوں گی۔ (الرحمن : ٧٢) ٥۔ شرم و حیا کی پیکر ہونگی اور انہیں کسی نے چھوا نہیں ہوگا۔ (الرحمن : ٥٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فیھن ................ والمرجان فبای الاء ربکما تکذبن (٩ 5) (55: ٦ 5 تا ٩ 5) ” ان نعمتوں کے درمیان شرمیلی نگاہوں والیاں ہوں گی جنہیں ان جنتیوں سے پہلے کبھی کسی انسان یا جن نے نہ چھوا ہوگا۔ اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے ؟ ایسی خوبصورت جیسے ہیرے اور موتی ، اپنے رب کے کن کن انعامات کو تم جھٹلاؤ گے ؟ “ قصرت الطرف (55: ٦ 5) ” شرمیلی نگاہوں والیاں “ پاکیزہ شعور رکھنے والیاں ہوں گی۔ ان کی نظریں جھکی ہوں گی اور وہ اپنے مالکوں کے سوا کسی اور کی طرف دیکھنے والیاں نہ ہوگی۔ لم یطمثھن (55: ٦ 5) ” ان کو چھوا نہ ہوگا “ نہ انسان نے نہ جن نے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اہل جنت کی بیویاں : اس کے بعد اہل جنت کی بیویوں کا تذکرہ فرمایا یہ بیویاں دنیا والی بھی ہوں گی اور وہ حورعین بھی ہوں گی جن سے وہاں نکاح کیا جائے گا، ان سب کا حسن و جمال بھی بہت زیادہ ہوگا، وہ اپنی آنکھوں کو نیچے رکھیں گی اپنے شوہروں کے علاوہ کسی کو ذرا سی نظر بھی اٹھا کر نہ دیکھیں گی۔ مزید فرمایا ﴿ لَمْ يَطْمِثْهُنَّ اِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَ لَا جَآنٌّۚ٠٠٥٦﴾ ان کے جنتی شوہروں سے پہلے کبھی کسی انسان یا جن نے ان کو اپنے رجولیت والے کام میں استعمال نہیں کیا ہوگا وہ بالکل بکر یعنی کنواری ہوں گی کسی مرد نے انہیں ہاتھ نہ لگایا ہوگا اور ہر مرتبہ ان کے پاس جائیں گے تو کنواری ہی پائیں گے۔ قال صاحب الروح : واصل الطمث خروج الدم ولذلک یقال للحیض طمث ثم اطلق علی جماع الابکار لما فیہ من خروج الدم ثم عمم لکل جماع وھو المروی ھنا عن عکرمة والی الاول ذھب الکثیر، وقیل ان التعبیر بہ للاشارة الی انھن یوجدن ابکارًا کلما جو معن (صفحہ ١٩٩: ج ٢٧) پھر ان بیویوں کا حسن و جمال بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ﴿ كَاَنَّهُنَّ الْيَاقُوْتُ وَ الْمَرْجَانُۚ٠٠٥٨﴾ (گویا کہ وہ یاقوت ہیں اور مرجان ہیں) یہ دونوں موتیوں کی قسمیں ہیں مرجان کا تذکرہ گزر چکا ہے، حضرت قتادہ (رض) نے فرمایا کہ یاقوت کی صفائی اور لولو کی سفیدی سے تشبیہ دی ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ چہرے کی سرخی کو یاقوت سے اور باقی جسم کو موتیوں کی سفیدی سے تشبیہ دی ہے، حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ سب سے پہلی جماعت جو جنت میں داخل ہوگی ان کی صورتیں ایسی ہوں گی جیسے چودھویں رات کا چاند ہوتا ہے۔ پھر جو دوسری جماعت جنت میں داخل ہوگی ان کے چہرے ایسے روشن ہوں گے جیسے کوئی خوب روشن ستارہ آسمان میں نظر آتا ہو، ان میں سے ہر شخص کے لئے حورِعین میں سے دو بیویاں ہوں گی ان کی پنڈلیوں کے اندر کا گودہ حسن کی وجہ سے ہڈی اور گوشت کے باہر سے نظر آئے گا۔ (یہ صحیح بخاری کی روایت ہے صفحہ ٤٦١: ج ١) اور سنن ترمذی کی روایت میں یوں ہے کہ ہر بیوی پر ستر جوڑے ہوں گے اس کی پنڈلی کا گودا باہر نظر آئے گا۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٤٩٧) حدیث بالا میں دو بیویوں کا ذکر ہے جو کم سے کم ہر شخص کو دی جائیں گی اور ان کے علاوہ جتنی زیادہ جس کو ملیں وہ مزید اللہ تعالیٰ کا کرم بالائے کرم ہوگا۔ حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ سب سے کم درجہ کے جنتی کو اسی ہزار خادم اور بہتر (٧٢) بیویاں دی جائیں گی۔ (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٤٩٩ از ترمذی) ملا علی قاری (رح) مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں کہ دنیا والی عورتوں میں سے دو بیویاں اور حورعین سے ستر بیویاں ملیں گی۔ (واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

20:۔ فیھن قصرات الطرف۔ الایۃ۔ کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ جنت میں جنسی تسکین کی خاطر حوریں بھی ہوں گی جن میں ایک اچھی فیقہ حیات کے تمام اوصاف موجود ہوں گے وہ سراپا شرم و حیا ہوں گے اور اپنے شوہروں کے علاوہ کسی کی طرف نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھیں گی اور وہ کنواری ہوں گی جن کو ملیں گی ان سے پہلے کسی دوسرے جن یا انسان نے انہیں چھو اتک نہیں ہوگا۔ کانہن الیاقوت والمرجان۔ اخلاقی حسن کے علاوہ وہ ظاہری حسن و جمال کی بھی تصویر ہوں گی۔ وہ حسن صورت میں، رنگ روپ میں، چہرے کی چمک دم میں اور رنگ کی آب و تاب میں یاقوت و مرجان اور لعل و جواہر کی مانند ہوں گی۔ یہ بیشمار نعمتیں اہل جنت کو ملیں گی یہ سب اللہ کا انعام و احسان ہوگا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(56) اور ان باغوں کے مکانات اور محلات میں نیچی نگاہ والی ایسی عورتیں ہوں گی جن کو اہل جنت سے پہلے نہ کسی انسان نے استعمال کیا ہوگا نہ کسی جن نے ان کو استعمال کیا ہوگا۔ یعنی بالکل محفوظ ہوں گی وہ حوریں۔