Surat ur Rehman
Surah: 55
Verse: 64
سورة الرحمن
مُدۡہَآ مَّتٰنِ ﴿ۚ۶۴﴾
Dark green [in color].
جو دونوں گہری سبز سیاہی مائل ہیں ۔
مُدۡہَآ مَّتٰنِ ﴿ۚ۶۴﴾
Dark green [in color].
جو دونوں گہری سبز سیاہی مائل ہیں ۔
Mudhammatan, being dark, because of the intense irrigation. Ibn Abbas said, "Mudhammatan means, they have become dark green because of extensive water irrigation." Muhammad bin Ka`b said: مُدْهَامَّتَانِ (Mudhammatan), "Full of greenery." فَبِأَيِّ الاَء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
64۔ 1 کثر سیرابی اور سبزے کی فروانی کی وجہ سے وہ مائل بہ سیاہی ہوں گے
[٤٠] مُدْھَامَّتٰنِ : دَھَمٌ بمعنی کسی چیز کا تاریکی میں ڈھک جانا۔ کہتے ہیں دَھَمَتِ النَّارُ الْقَدَرَ یعنی آگ نے ہنڈیا کو سیاہ کردیا۔ اس آیت میں مفہوم یہ ہے کہ ان دونوں باغوں کے درختوں کے پتے اتنے گہرے سبز ہوں گے جیسے سیاہ ہو رہے ہوں۔
مُدْہَآ مَّـتٰنِ :” ادھم یدھم ادھماماً “ ( افعلال) سیاہ ہونا اور ” ادھام یدھام ادھماماً “ ( افعیلال) بہت سیاہ ہونا ۔ یعنی وہ دونوں باغ گہرے سبز ہوں گے جیسے بہت سیاہ ہوں ۔ پہلے دو باغوں میں شاخوں اور پتوں کی کثرت کا ذکر ہے جن کے ضمن میں ان کا گہرا سبز ہونا خود بخود آجاتا ہے اور یہاں صرف ان کے گہرے سبز رنگ کا ذکر ہے۔
مُدْهَامَّتَانِ (both dark green!...55:64). This is one word verse, and it means &dark green with foliage&. The word is derived from idhimam signifying, for a meadow or garden, to become of dark green hue inclining to black by reason of abundance of moisture or irrigation. This description is not assigned to the first two Gardens. This does not necessarily imply that they do not have this quality. The former Gardens are described as ذَوَاتَا of &having lot of branches&. This comprehends the quality of &dark green& as well.
مُدْهَاۗمَّتٰنِ ، گہری سبزی کی وجہ سے جو سیاہی جھلکنے لگتی ہے اس کو ادہمام کہا جاتا ہے، مراد یہی ہے کہ ان دونوں باغوں کی سر سبزی ان کے سیاہی مائل ہونے کا سبب ہوگی، یہ صفت اگرچہ پہلے دو باغوں میں ذکر نہیں کی گئی ہے مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان میں یہ صفت نہ ہو، بلکہ ذَوَاتَآ اَفْنَانٍ جو وہاں کی صفت بتلائی ہے، اس میں مدہامتان کی صفت بھی شامل ہے۔
مُدْہَاۗمَّتٰنِ ٦٤ ۚ دهم الدُّهْمَة : سواد اللیل، ويعبّر بها عن سواد الفرس، وقد يعبّر بها عن الخضرة الکاملة اللّون، كما يعبّر عن الدُّهْمَة بالخضرة إذا لم تکن کاملة اللّون، وذلک لتقاربهما باللون . قال اللہ تعالی: مُدْهامَّتانِ [ الرحمن/ 64] ، وبناؤهما من الفعل مفعالّ ، يقال : ادهامّ ادهيماما، قال الشاعر في وصف اللیل : في ظلّ أخضر يدعو هامه البوم ( د ھ م ) الدھمۃ ۔ کے اصل معنی تورات کی سیاہی کے ہیں اور یہ لفظ گھوڑے کی سیاہی پر بولا جاتا ہے ۔ کبھی اس سے نہایت گہرا سبز رنگ مراد ہوتا ہے جیسا کہ ہلکے سیاہ رنگ کو خضرۃ سے تعبیر کرلیتے ہیں ۔ کیونکہ یہ دونوں قسم کی رنگت قریبا ملتی جلتی سی ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ مُدْهامَّتانِ [ الرحمن/ 64] دونوں خوب گہرے سے سبز یہ ادھام ادھیما ما سے مفعال کے وزن پر ہے ۔ کسی زشاعر نے رات کا وصف بیان کرتے ہوئے کہا ہے ۔ یعنی تاریک رات جس میں کہ بوم اپنے ہام کو بلا رہا ہوتا ہے ۔
(٦٤۔ ٦٥) اور یہ دونوں باغ گہرے سبز ہوں گے سو اے جن و انس تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے۔
آیت ٦٤{ مُدْہَآمَّتٰنِ ۔ } ” دونوں گہرے سبز رنگ کی ہوں گی۔ “ ان دو نوں جنتوں کا رنگ سیاہی مائل سبز ہوگا۔ یعنی بہت گھنی اور سرسبز و شاداب ۔ اس رنگ کے ذکر کی توجیہہ آگے آیت ٦٨ کے ضمن میں بیان کی گئی ہے۔
50 The word madhammatan has been used in praise of these gardens. Mudhamma is such luxuriant vegetation which because of its extreme luxuriance assumes a darkish hue.
سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :50 ان باغوں کی تعریف میں لفظ مُدْھَا مَّتَان استعمال فرمایا گیا ہے ۔ مُدْھَامَّۃ ایسی گھنی سرسبزی کو کہتے ہیں جو انتہائی شادابی کے باعث سیاہی مائل ہو گئی ہو ۔
11: سبزہ جب خوب گھنا اور گہرا ہوجائے تو وہ دور سے سیاہی مائل نظر آتا ہے یہ اسی کیفیت کی طرف اشارہ ہے۔
(55:64) مدھامتن اسم فاعل تثنیہ مؤنث اسھیمام (افعیلال) ۔ مصدر۔ واحد مدھامۃ۔ دو گہری سبز (جنتیں) ادھیمام کے اصل معنی بہت زیادہ سیاہ ہونا کے ہیں۔ چونکہ انتہائی سرسبز و شاداب باغ سیاہی مائل ہوتا ہے اس لئے یہ تعبیر کی گئی یہ جنتن کی صفت ہے۔
فہم القرآن ربط کلام : جنت کی بیویوں کا ذکر کرنے کے بعد جنت کی بہاروں اور اس کے باغات کا ذکر۔ اسی سورت کی آیت ٤٦ میں دو جنتوں کا ذکر کیا گیا۔ اب دو اور جنتوں کا ذکر کیا جاتا ہے جن کے لیے ” دُوْنَ “ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ عربی زبان میں ” دُوْنَ “ کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ١۔ اعلیٰ کے مقابلے میں حقیر۔ ٢۔ ایک کے علاوہ سب کی نفی ہو جس طرح قرآن مجید میں ” من دون اللّٰہ “ یا ” من دونہٖ “ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ٣۔ یہاں ذکر ہونے والی دو جنتوں کے لیے ” دُوْنَ “ کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس کا اہل تفسیر نے یہی معنٰی لیا ہے کہ یہ پہلی دو جنتوں سے نسبتاً کم درجے کی جنتیں ہوں گی۔ گویا کہ جس طرح جنتوں کے درمیان درجہ بندی ہوگی اسی طرح جنت کے باغوں اور نعمتوں کے درمیان بھی فرق ہوگا۔ تاہم یہ جنت بھی اپنی خوبصورتی اور شادابی کے اعتبار سے دیکھنے میں کسی صورت بھی پہلی جنت سے کم نہیں ہوں گی۔ جس طرح اعلیٰ جنتوں میں چشمے جاری ہوں گے اسی طرح ہی ان جنتوں میں بھی چشمے جاری ہوں گے۔ جس طرح اعلیٰ جنت میں قسماں قسم کے پھل ہوں گے اسی طرح اس میں بھی کھجوروں، اناروں اور ہر قسم کے پھل ہوں گے۔ جس طرح دوسری جنت میں نیک سیرت اور خوبصورت عورتیں ہوں گی اسی طرح ان میں بھی خوبصورت عورتیں اور حوریں ہوں۔ پہلی جنت کی عورتوں کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ شرمیلی اور نیچی نگاہ رکھنے والی ہوں گی۔ یہاں بھی باحیا اور ایسی عورتیں ہوں گی جو خیموں میں قیام پذیر ہوں گی۔ انہیں نہ کسی مرد نے دیکھا ہوگا اور نہ وہ اپنے خاوندوں کے سوا کسی کو دیکھنے والی ہوں گی۔ جس طرح پہلی جنت کی عورتوں کو کسی نے نہیں چھوا ہوگا اسی طرح ان جنتوں کی عورتوں اور حوروں کو بھی اس سے پہلے کسی جن اور انسان نے نہیں چھوا ہوگا۔ جس طرح پہلی جنت کی ایک ایک نعمت کا ذکر کرنے کے بعد ارشاد فرمایا ہے کہ اے جنوں اور انسانوں ! تم اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤگے ؟ اسی طرح ہی ان جنتوں کی بڑی بڑی نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد ارشاد ہوا کہ اے جنوں اور انسانو ! تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟ (وَلَوْ اَنَّ اِمْرَاَۃً مِّنْ نِّسَآءِ أَھْلِ الْجَنَّۃِ اطَّلَعَتْ اِلَی الْاَرْضِ لَاَضَآءَ تْ مَا بَیْنَھُمَا وَلَمَلَاَتْ مَا بَیْنَھُمَا رِیْحًا وَلَنَصِیْفُھَا یَعْنِی الْخِمَارَ خَیْرٌ مِّنَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْھَا) (رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب صفۃ الجنۃ والنار ) ” اگر اہل جنت کی عورتوں سے کوئی زمین کی طرف جھانک لے تو مشرق و مغرب اور جو کچھ اس میں ہے روشن اور معطر ہوجائے۔ نیز اس کے سر کا دوپٹہ دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے اس سے قیمتی ہے۔ “ (لَوْ أَنَّ امْرَأَۃً مِنْ أَہْلِ الْجَنَّۃِ اطَّلَعَتْ إِلَی أَہْلِ الأَرْضِ لأَضَاءَ تْ مَا بَیْنَہُمَا) (رواہ البخاری : کتاب الجہاد، باب الحور العین) ” اگر وہ آسمان سے نیچے جھانکے تو ہر چیز منور ہوجائے۔ “ (عَنْ أَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مَنْ اٰمَنَ باللّٰہِ وَبِرَسُوْلِہٖ وَأَقَام الصَّلٰوۃَ وَصَامَ رَمَضَانَ کَانَ حَقًّا عَلَی اللّٰہِ أَنْ یُّدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ جَاھَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ أَوْجَلَسَ فِیْ أَرْضِہِ الَّتِیْ وُلِدَ فِیْھَا فَقَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! أَفَلَا نُبَشِّرُ النَّاسَ قَالَ : إِنَّ فِی الْجَنَّۃِ ماءَۃَ دَرَجَۃٍ أَعَدَّھَا اللّٰہُ لِلْمُجَاھِدِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مَابَیْنَ الدَّرَجَتَیْنِ کَمَا بَیْنَ السَّمَآءِ وَالْأَرْضِ فَإِذَا سَأَلْتُمُ اللّٰہَ فَاسْأَلُوْہُ الْفِرْدَوْسَ فَإِنَّہٗ أَوْسَطُ الْجَنَّۃِ وَأَعْلَی الْجَنَّۃِ أُرَاہُ قَالَ وَ فَوْقَہٗ عَرْشُ الرَّحْمٰنِ وَمِنْہُ تَفَجَّرُ أَنْھَارُ الْجَنَّۃِ ) (رواہ البخاری : کتاب الجھاد والسیر) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو اللہ و رسول پر ایمان لایا اور اس نے نماز قائم کی اور رمضان کے روزے رکھے۔ اسے جنت میں داخل کرنا اللہ پر حق ہے اس نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا ہو یا اپنی جائے پیدائش میں ٹھہرا رہا۔ صحابہ نے کہا اللہ کے رسول ! تو کیا ہم لوگوں کو خوشخبری نہ دیں ؟ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے فی سبیل اللہ جہاد کرنے والوں کے لیے جنت میں سو درجات بنائے ہیں ہر درجے کا درمیانی فاصلہ زمین و آسمان کے درمیانی فاصلہ جتنا ہے جب تم اللہ سے جنت کا سوال کرو تو جنت الفردوس مانگا کرو کیونکہ یہ جنت کا وسط اور اعلیٰ جگہ ہے راوی کہتے ہیں میرا خیال ہے آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اس کے اوپررحمان کا عرش ہے اور وہاں سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں۔ “ مسائل ١۔ دوسری جنتیں بھی خوبصورت اور سرسبز و شاداب ہوں گی۔ ٢۔ ان جنتوں میں بھی چشمے ابل رہے ہوں گے۔ ٣۔ ان جنتوں میں بھی کھجوروں اور اناروں اور ہر قسم کے پھل ہوں گے۔ ٤۔ اس جنت کی عورتیں بھی نہایت خوبصورت اور نیک سیرت ہوں گی۔ ٥۔ اس جنت میں رہنے والی حوریں بھی خیموں میں مستور ہوں گی۔ ٦۔ ان عورتوں کو بھی کسی مرد اور جن نے نہیں چھوا ہوگا۔ ٧۔ اے جنوں اور انسانو ! تم اپنے رب کی کس کس نعمت کا انکار کر وگے ؟
مدھامتن (55:4 ٦) ” گھنے ، سرسبز اور شاداب باغ “ یعنی ایسے سبز جو سیاہی مائل ہوں گے کیونکہ وہ گھنے ہوں گے۔
لفظ مُدْهَآمَّتٰنِكی تحقیق : مُدْهَآمَّتٰنِۚ٠٠٦٤ (یہ دونوں جنتیں بہت گہرے سبز رنگ والی ہوں گی) یہ کلمہ لفظ ادھیمام باب افعیلال سے اسم فاعل مونث کا تثنیہ کا صیغہ ہے جو لفظ دھمة سے مشتق ہے۔ دھمت سیاسی کو کہتے ہیں جب سبزی بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے تو سیاہی کی طرف مائل ہوجاتی ہے اس لیے مُدْهَآمَّتٰنِ فرمایا جس کا ترجمہ سبز گہرے رنگ کا کیا گیا، قرآن مجید میں یہی ایک آیت ہے جو کلمہ واحدہ پر مشتمل ہے۔