Surat ur Rehman
Surah: 55
Verse: 72
سورة الرحمن
حُوۡرٌ مَّقۡصُوۡرٰتٌ فِی الۡخِیَامِ ﴿ۚ۷۲﴾
Fair ones reserved in pavilions -
۔ ( گوری رنگت کی ) حوریں جنتی خیموں میں رہنے والیاں ہیں ۔
حُوۡرٌ مَّقۡصُوۡرٰتٌ فِی الۡخِیَامِ ﴿ۚ۷۲﴾
Fair ones reserved in pavilions -
۔ ( گوری رنگت کی ) حوریں جنتی خیموں میں رہنے والیاں ہیں ۔
Hur (beautiful, fair females) guarded in pavilions; but He said about the first two gardens, فِيهِنَّ قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ (Wherein both will be Qasirat At-Tarf), There is no doubt that the chaste wives that restrain their glances themselves, are better than those guarded in pavilions even though both are secluded. About Allah's saying: فِي الْخِيَامِ (in pavilions), Al-Bukhari recorded that Abdullah bin Qays said that the Messenger of Allah said, إِنَّ فِي الْجَنَّةِ خَيْمَةً مِنْ لُوْلُوَةٍ مُجَوَّفَةٍ عَرْضُهَا سِتُّونَ مِيلً فِي كُلِّ زَاوِيَةٍ مِنْهَا أَهْلٌ مَا يَرَوْنَ الاْخَرِينَ يَطُوفُ عَلَيْهِمُ الْمُوْمِنُون Verily, in Paradise, the believer will have a tent from a hollow pearl, the width thereof is sixty miles. In each corner of it there are wives for the believer that do not see the other wives, and the believer will visit them all. In another narration the Prophet said that this tent is thirty miles wide. Muslim recorded this Hadith and in his narration, the Prophet said, إِنَّ لِلْمُوْمِنِ فِي الْجَنَّةِ لَخَيْمَةً مِنْ لُوْلُوَةٍ وَاحِدَةٍ مُجَوَّفَةٍ طُولُهَا سِتُّونَ مِيلً لِلْمُوْمِنِ فِيهَا أَهْلٌ يَطُوفُ عَلَيْهِمُ الْمُوْمِنُ فَلَ يَرَى بَعْضُهُمْ بَعْضًا Verily in Paradise, the believer will have a tent made of a hollow pearl the length thereof being sixty miles. In it, the believer will have wives who do not see each other, and the believer will visit them all. فَبِأَيِّ الاَء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ
72۔ 1 حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ' جنت میں موتیوں کے خیمے ہونگے، ان کا عرض ساٹھ میل ہوگا، اس کے ہر کونے میں جنتی کے اہل ہونگے، جس کو دوسرے کونے والے نہیں دیکھ سکیں گے۔ مومن اس میں گھومے گا ' (صحیح بخاری) ۔
[٤٤] اس آیت میں دراصل سابقہ آیت کی کچھ تفصیل ہے۔ خوب صورتی میں آنکھوں کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ آنکھ کی پتلی جتنی زیادہ سیاہ اور سفیدی جتنی زیادہ سفید ہو آنکھ اتنی ہی خوبصورت معلوم ہوتی ہے تو یہ ان کی صورت کی خوبی ہوئی اور سیرت کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے خیموں سے باہر نکلیں گی ہی نہیں۔ اور خیموں سے مراد اہل ثروت کے وہ خیمے ہیں جو وہ سیر و تفریح کی غرض سے سفر میں اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔
١۔” حور “ ” حورا “ کی جمع ہے، مادہ اس کا ” حور “ ہے ، ” گورے رنگ کی عورتیں “ جنہیں دیکھ کر آنکھ حیران رہ جائے اور جن کی آنکھ کی سفیدی بہت سفید اور سیاہی بہت سیاہ ہو (دیکھئے بخاری : الجھاد والسیر ، باب الحور لعین و صفتھن ، قبل ح : ٢١٧٥) ٢۔ مَّقْصُوْرٰتٌ فِی الْخِیَامِ : لفظ ” حور “ میں ان کی صورت کا حسن بیان ہوا ہے اور ” مقصورت فی الخیام “ میں ان کی سیرت کا حسن بیان ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ عورت کی خوبی گھر رکے رہنے میں ہے۔ ان الفاظ میں ان عورتوں کے لیے ہر طرح کی خوش حالی اور نعمت میسر ہونے کا اشارہ بھی ہے ، کیونکہ دنیا میں سردار عورتوں کو کسی کی نوکری یا خدمت یا کھیتوں وغیرہ میں کام کرنے کے لیے گھر سے باہر نہیں جانا پڑتا ، حتیٰ کہ میل ملاقات کے لیے بھی دوسری عورتیں ہی ان کے پاس آتی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ نہایت معزز اور مخدوم ہیں ، جیسا کہ ابو قیس بن الاسلت نے کہا ہے ؎ ویکرمھا جارا تھا فیزرنھا وتعتل عن اتیانھن فتعذر ” اس کی پڑوسنیں اس کا اکرام کرتی ہیں ، اس لیے اس سے ملنے کے لیے خود آتی ہیں اور یہ انکے پاس آنے سے کوئی نہ کوئی بہانہ کردیتی ہے تو اسے قبول کرلیا جاتا ہے “۔ ( التحریر والتنویر) ٣۔ فی الخیام :” الخیام “ ” خیمۃ “ کی جمع ہے ، جو عموماً پشم یا بالوں کے بنے ہوئے کپڑے سے بنایا جاتا ہے ۔ پھر جتنے خوشحال لوگوں کا ہو اتنا ہی قیمتی ، اونچا اور شاندار بنایا جاتا ہے۔ جنت کے خیموں کا وصف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمایا : عبد اللہ بن قیس ( ابو موسیٰ اشعری (رض) ) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :( ان فی الجنۃ خیمۃ من لزکوۃ مجوفۃ عرضھا ستون میلا فی کل زاویۃ منھا اھل ما یرون الاخرین یطوف علیھم المومنون) ( بخاری التفسیر ، باب :( حور مقصورات فی الخیام) ٤٨٧٩)” جنت میں ایک خولدار موتی کا خیمہ ہے جس کا عرض ساٹھ (٦٠) میل ہے ، اسکے ہر کونے میں ایک گھر والے ہیں جو دوسروں کو نہیں دیکھتے ، مومن ان پر چکر لگائیں گے۔
حُوْرٌ مَّقْصُوْرٰتٌ فِي الْخِيَامِ ٧٢ ۚ حور الحَوْرُ : التّردّد إمّا بالذّات، وإمّا بالفکر، وقوله عزّ وجلّ : إِنَّهُ ظَنَّ أَنْ لَنْ يَحُورَ [ الانشقاق/ 14] ، أي : لن يبعث، وذلک نحو قوله : زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا، قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن/ 17] ، وحَارَ الماء في الغدیر : تردّد فيه، وحَارَ في أمره : تحيّر، ومنه : المِحْوَر للعود الذي تجري عليه البکرة لتردّده، وبهذا النّظر قيل : سير السّواني أبدا لا ينقطع «1» ، والسواني جمع سانية، وهي ما يستقی عليه من بعیر أو ثور، ومَحَارَة الأذن لظاهره المنقعر، تشبيها بمحارة الماء لتردّد الهواء بالصّوت فيه کتردّد الماء في المحارة، والقوم في حَوْرٍ أي : في تردّد إلى نقصان، وقوله : «نعوذ بالله من الحور بعد الکور» «2» أي : من التّردّد في الأمر بعد المضيّ فيه، أو من نقصان وتردّد في الحال بعد الزّيادة فيها، وقیل : حار بعد ما کار . والمُحاوَرَةُ والحِوَار : المرادّة في الکلام، ومنه التَّحَاوُر، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحاوُرَكُما [ المجادلة/ 1] ، وكلّمته فما رجع إليّ حَوَاراً ، أو حَوِيراً أو مَحُورَةً «3» ، أي : جوابا، وما يعيش بأحور، أي بعقل يحور إليه، وقوله تعالی: حُورٌ مَقْصُوراتٌ فِي الْخِيامِ [ الرحمن/ 72] ، وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] ، جمع أَحْوَرَ وحَوْرَاء، والحَوَر قيل : ظهور قلیل من البیاض في العین من بين السّواد، وأَحْوَرَتْ عينه، وذلک نهاية الحسن من العین، وقیل : حَوَّرْتُ الشّيء : بيّضته ودوّرته، ومنه : الخبز الحُوَّارَى، والحَوَارِيُّونَ أنصار عيسى صلّى اللہ عليه وسلم، قيل : کانوا قصّارین «1» ، وقیل : کانوا صيّادین، وقال بعض العلماء : إنّما سمّوا حواريّين لأنهم کانوا يطهّرون نفوس النّاس بإفادتهم الدّين والعلم المشار إليه بقوله تعالی: إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [ الأحزاب/ 33] ، قال : وإنّما قيل : کانوا قصّارین علی التّمثیل والتشبيه، وتصوّر منه من لم يتخصّص بمعرفته الحقائق المهنة المتداولة بين العامّة، قال : وإنّما کانوا صيّادین لاصطیادهم نفوس النّاس من الحیرة، وقودهم إلى الحقّ ، قال صلّى اللہ عليه وسلم : «الزّبير ابن عمّتي وحواريّ» «2» وقوله صلّى اللہ عليه وسلم : «لكلّ نبيّ حَوَارِيٌّ وحواريّ الزّبير» «3» فتشبيه بهم في النّصرة حيث قال : مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ : نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف/ 14] . ( ح و ر ) الحور ( ن ) کے اصل معنی پلٹنے کے ہیں خواہ وہ پلٹنا بلحاظ ذات کے ہو یا بلحاظ فکر کے اور آیت کریمہ ؛إِنَّهُ ظَنَّ أَنْ لَنْ يَحُورَ [ الانشقاق/ 14] اور خیال کر تھا کہ ( خدا کی طرف ) پھر کر نہیں آئے گا ۔ لن یحور ( سے دوبارہ زندہ ہوکر اٹھنا مرا د ہے جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا : زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنْ لَنْ يُبْعَثُوا، قُلْ بَلى وَرَبِّي لَتُبْعَثُنَّ [ التغابن/ 17] جو لوگ کافر ہیں ان کا اعتقاد یہ ہے کہ وہ ( دوبارہ ) ہر گز نہیں اٹھائے جائیں گے ۔ کہدو کہ ہاں ہاں میرے پروردگار کی قسم تم ضرور اٹھائے جاو گے ۔ حار الماء فی الغدید پانی کا خوض میں گھومنا ۔ حارفی امرہ کسی معاملہ میں متحری ہونا ۔ اسی سے محور ہے ۔ یعنی وہ لکڑی جس پر چرخی گھومتی ہے اور گھومنے کے معنی کے لحاظ سے کہاجاتا ہے ۔ سیر السوانی ابدا لا ینقطع کہ پانی کھیننچے والے اونٹ ہمیشہ چلتے رہتے ہیں ۔ محارۃ الاذن کان کا گڑھا ۔ یہ محارۃ الماء کے ساتھ تشبیہ کے طور پر بولا جاتا ہے کیونکہ اس میں آواز سے ہو اس طرح چکر کاٹتی ہے ۔ جیسے گڑھے میں پانی گھومتا ہے ۔ القوم فی حوار یعنی زیادتی کے بعد نقصان کیطرف لوٹ رہے ہیں حدیث میں ہے :۔ (101) نعوذ باللہ من الحور بعد الکور ہم زیادتی کے بعد کمی سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ۔ یا کسی کام کا عزم کرلینے کے بعد اس میں تردد سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں اسہ طرح کہا جاتا ہے ( مثل) حار بعد ماکار زیادہ ہونے کے بعد کم ہوگیا ۔ المحاورۃ رالحوار ایک دوسرے کی طرف کلام لوٹانا اسی سے تحاور ( تبادلہ گفتگو ) ہے قرآن میں ہے ۔ وَاللَّهُ يَسْمَعُ تَحاوُرَكُما [ المجادلة/ 1] اور خدا تم دونوں کی گفتگو سن رہا تھا ۔ کلمتہ فما رجع الی حوار احویرا ومحورۃ میں نے اس سے بات کی لیکن اس نے کوئی جواب نہ دیا ۔ مایعیش باحور وہ عقلمند سے زندگی بسر نہیں کر رہا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ حُورٌ مَقْصُوراتٌ فِي الْخِيامِ [ الرحمن/ 72] وہ حوریں ہیں جو خیموں میں مستور ہیں ۔ وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة/ 22] اور بڑی آنکھوں والی حوریں ۔ میں حور ، احور اور حواراء کی جمع ہے ۔ اور حور سے ماخوذ ہے جس کے معنی بقول بعض آنکھ کی ساہی میں تھوڑی سی سفیدی ظاہر ہونے کے ہیں ۔ کہا جتا ہے ۔ احورث عینہ یعنی اس کی آنکھ بہت سیاہی اور سفیدی والی ہے ۔ اور یہ آنکھ کا انتہائی حسن سمجھاجاتا ہے جو اس سے مقصود ہوسکتا ہے حورت الشئی کسی چیز کو گھمانا ۔ سفید کرنا ( کپڑے کا ) اسی سے الخبز الحوار ہے جس کے معنی امید سے کی روٹی کے ہیں عیسیٰ (علیہ السلام) کے انصار واصحاب کو حواریین کہاجاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ قصار یعنی دھوبی تھے ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ ان کو حواری اسلئے کہاجاتا ہے کہ وہ لوگوں کو علمی اور دینی فائدہ پہنچا کر گناہوں کی میل سے اپنے آپ کو پا کرتے تھے ۔ جس پاکیزگی کی طرف کہ آیت :۔ إِنَّما يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [ الأحزاب/ 33] میں اشارہ پایا جاتا ہے ۔ اس بنا پر انہیں تمثیل اور تشبیہ کے طور پر قصار کہہ دیا گیا ہے ورنہ اصل میں وہ ہوبی پن کا کام نہیں کرتے تھے اور اس سے شخص مراد لیا جاتا ہے جو معرفت حقائق کی بنا پر عوام میں متداول پیشوں میں سے کوئی پیشہ اختیار نہ کرے اسی طرح ان کو صیاد اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو حیرت سے نکال کر حق کیطرف لاکر گویا ان کا شتکار کرتے تھے ۔ آنحضرت نے حضرت زبیر کے متعلق فرمایا (102) الزبیر ابن عمتی وحوادی ۔ کہ زبیر میرا پھوپھی زاد بھائی اور حواری ہے نیز فرمایا (103) لکل بنی حواری الزبیر ۔ کہ ہر نبی کا کوئی نہ کوئی حواری رہا ہے اور میرا حواری زبیر ہے ۔ اس روایت میں حضرت زبیر کا حواری کہنا محض نصرت اور مدد کے لحاظ سے ہے ۔ جیسا کہ عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا تھا ۔ مَنْ أَنْصارِي إِلَى اللَّهِ قالَ الْحَوارِيُّونَ : نَحْنُ أَنْصارُ اللَّهِ [ الصف/ 14] بھلاکون ہیں جو خدا کی طرف ( بلانے میں ) میرے مددگار ہوں ۔ حواریوں نے کہا ہم خدا کے مددگا ہیں ۔ قصر القِصَرُ : خلاف الطّول، وهما من الأسماء المتضایفة التي تعتبر بغیرها، وقَصَرْتُ كذا : جعلته قَصِيراً ، والتَّقْصِيرُ : اسم للتّضجیع، وقَصَرْتُ كذا : ضممت بعضه إلى بعض، ومنه سمّي الْقَصْرُ ، وجمعه : قُصُورٌ. قال تعالی: وَقَصْرٍ مَشِيدٍ [ الحج/ 45] ، وَيَجْعَلْ لَكَ قُصُوراً [ الفرقان/ 10] ، إِنَّها تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ [ المرسلات/ 32] ، وقیل : الْقَصْرُ أصول الشّجر، الواحدة قَصْرَةٌ ، مثل : جمرة وجمر، وتشبيهها بالقصر کتشبيه ذلک في قوله : كأنّه جمالات صفر [ المرسلات/ 33] ، وقَصَرْتُه جعلته : في قصر، ومنه قوله تعالی: حُورٌ مَقْصُوراتٌ فِي الْخِيامِ [ الرحمن/ 72] ، وقَصَرَ الصلاةَ : جعلها قَصِيرَةً بترک بعض أركانها ترخیصا . قال : فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ [ النساء/ 101] وقَصَرْتُ اللّقحة علی فرسي : حبست درّها عليه، وقَصَرَ السّهمِ عن الهدف، أي : لم يبلغه، وامرأة قاصِرَةُ الطَّرْفِ : لا تمدّ طرفها إلى ما لا يجوز . قال تعالی: فِيهِنَّ قاصِراتُ الطَّرْفِ [ الرحمن/ 56] . وقَصَّرَ شعره : جزّ بعضه، قال : مُحَلِّقِينَ رُؤُسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ [ الفتح/ 27] ، وقَصَّرَ في كذا، أي : توانی، وقَصَّرَ عنه لم : ينله، وأَقْصَرَ عنه : كفّ مع القدرة عليه، واقْتَصَرَ علی كذا : اکتفی بالشیء الْقَصِيرِ منه، أي : القلیل، وأَقْصَرَتِ الشاة : أسنّت حتی قَصَرَ أطراف أسنانها، وأَقْصَرَتِ المرأة : ولدت أولادا قِصَاراً ، والتِّقْصَارُ : قلادة قَصِيرَةٌ ، والْقَوْصَرَةُ معروفة «1» . ( ق ص ر ) القصر یہ طول کی ضد ہے اور یہ دونوں اسمائے نسبتی سے ہیں جو ایک دوسرے پر قیاس کے ذریعہ سمجھے جاتے ہیں ۔ قصرت کذا کے معنی کسی چیز کو کوتاہ کرنے کے ۔ ہیں اور تقصیر کے معنی اور سستی کے ہیں اور قصرت کذا کے معنی سکیٹر نے اور کسی چیز کے بعض اجزاء کو بعض کے ساتھ ملانا کے بھی آتے ہیں ۔ اسی سے قصر بمعنی محل ہے اس کی جمع قصور آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقَصْرٍ مَشِيدٍ [ الحج/ 45] اور بہت سے محل : ۔ وَيَجْعَلْ لَكَ قُصُوراً [ الفرقان/ 10] نیز تمہارے لئے محل بنادے گا ۔ إِنَّها تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ [ المرسلات/ 32] اس سے آگ کی اتنی ( بڑی بڑی ) چنگاریاں اٹھتی ہیں ۔ جیسے محل ۔ بعض نے کہا ہے کہ قصر جمع ہے اور اس کے معنی درخت کی جڑوں کے ہیں ۔ اس کا واحد قصرۃ ہے جیسے جمرۃ وجمر اور ان شراروں کو قصر کے ساتھ تشبیہ دینا ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری آیت میں ان کا ۔ كأنّه جمالات صفر [ المرسلات/ 33] گویا زور درنگ کے اونٹ ہیں ۔ کہا ہے کہ اور قصرتہ کے معنی محل میں داخل کرنے کے ہیں اور اسی سے ارشاد الہٰی ہے ۔ حُورٌ مَقْصُوراتٌ فِي الْخِيامِ [ الرحمن/ 72] وہ حوریں ہیں جو خیموں میں ستور ہیں ۔ قصرالصلٰوۃ بموجب رخصت شرعی کے نماز کے بعض ارکان کو ترک کرکے اسے کم کرکے پڑھنا ۔ قرآن پاک میں ہے : فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ [ النساء/ 101] تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ نماز کو کم کر کے پڑھو ۔ قصرت اللقحتہ علٰی فرسی اونٹنی کا دودھ اپنی گھوڑی کے لئے مخصوص کردیا قصرالسھم عن الھدف ۔ تیر کا نشانے تک نہ پہنچنا ۔ امراءۃ قاصرۃ الطرف وہ عورت ناجائز نظر اٹھا کے نہ دیکھے ۔ قرآن پاک میں ہے : فِيهِنَّ قاصِراتُ الطَّرْفِ [ الرحمن/ 56] ان میں نیچی نگاہ والی عورتیں ۔ قصری شعرہ بال کتروانا قرآن پاک میں ہے : مُحَلِّقِينَ رُؤُسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ [ الفتح/ 27] اپنے سر منڈاوا کر اور بال کتروا کر ۔ قصرفی کذا : کسی کام میں سستی کرنا قصر عنہ کسی کام کے کرنے سے عاجز ہونا ۔ اقصرت عنہ ۔ باوجود قدرت کے کسی کام کرنے سے باز رہنا ۔ اقتصر علیٰ کذا تھوڑی چپز پر صبر کرنا ۔ اقتصرت الشاۃ بوڑھا ہونے کی وجہ سے بکری کے دانتوں کا کوتاہ ہوجانا ۔ اقصرت المرءۃ چھوٹی قد اولاد جننا تقصار چھوٹا سا رہا ۔ القوصرہ کھجور ڈالنے زنبیل جو کھجور پتوں یا نرکل کی بنئی ہوئی ہوتی ہے ۔
(٧٢۔ ٧٣) اور وہ عورتیں گوری گوری رنگت کی ہوں گی موتیوں کے خیموں میں محفوظ اور اپنے شوہروں پر قناعت کرنے و الی ہوں گی، سو اے جن و انس تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے۔
آیت ٧٢{ حُوْرٌ مَّقْصُوْرٰتٌ فِی الْْخِیَامِ ۔ } ” یعنی حوریں ‘ جو قیام پذیر ہوں گی خیموں میں۔ “ یہاں پر ” خیموں “ کا ذکر خصوصی طور پر عرب کے ماحول کی عکاسی کرتا ہے ۔ نزولِ قرآن کے وقت عرب میں شہروں کی تعداد بہت تھوڑی تھی اور زیادہ تر لوگ خیموں میں رہتے تھے۔ اس لیے یہاں پر گھر یا محل کے بجائے خیمے کا ذکر آیا ہے۔ یہاں { مَّقْصُوْرٰتٌ فِی الْخِیَامِ } کے الفاظ میں { وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ } (الاحزاب : ٣٣) کے حکم کی عملی جھلک دکھائی دیتی محسوس ہوتی ہے۔ یہ دراصل عورت کا وہ روپ ہے جس روپ میں اسلام اسے دیکھنا چاہتا ہے۔ اسلام عورت کو ” چراغ خانہ “ بن کر رہنے کی ترغیب دیتا ہے اور اسے ” شمع محفل “ بننے سے منع کرتا ہے۔ یہاں پر ایک بہت اہم نکتہ یہ بھی لائق توجہ ہے کہ ان آیات میں جن دو جنتوں کا ذکر ہو رہا ہے ان میں ” حوریں “ ہوں گی جبکہ قبل ازیں جن جنتوں کا ذکر ہوا تھا ان میں حوروں کا نہیں بلکہ ” جنتی عورتوں “ کا تذکرہ تھا : { فِیْہِنَّ قٰصِرٰتُ الطَّرْفِلا } ” ان میں ایسی عورتیں ہوں گی جن کی نگاہیں جھکی ہوئی ہوں گی “۔ اسی طرح سورة الواقعہ میں اصحاب الیمین کی جنت میں خوبصورت عورتوں { اِنَّآ اَنْشَاْنٰہُنَّ اِنْشَآئً ۔ } کا ذکر ہے جبکہ ” مقربین “ کے لیے جنت کے حوالے سے ” حُوْرٌ عِیْن “ (آیت ٢٧) کا تذکرہ ہے ۔
51 For the explanation of her see E. N's 28, 29 of Surah As-Saaffat and E.N. 42 of Surah Ad-Dukhan the tents probably will be similar to those pitched for the nobles and rich people in the public parks. Most probably the wives of the dwellers of Paradise will live with them in their palaces and in their parks there will be tents pitched here and there in which there will be the houris to entertain them. Our this presumption is based on this that in the foregoing verses beautiful and chase wives havc been mentioned; now, here, mention of the houris signifies that they will be a different kind of women from the wives. This presumption is further strengthened by the Hadith which Hadrat Umm Salamah has reported. She says: 'I asked: O messenger of AIIah, who are better: the women of the world or the houris! The Holy Prophet replied: The women of the world are superior to the houris in the same way as the outer layer of a garment is superior to its lining. I asked: On what grounds ? he replied: On the ground that the women have offered their Prayers, observed their Fasts, and performed other devotions." (Tabarani). This shows that the wives of the dwellers of Paradise will be the women who affirmed the faith in the world and left the world while they practised good and right. They will enter Paradise in consequence of their faith and good deeds, and will deserve the blessings of Paradise on merit. They would either become the wives of their previous husbands of their own free will and choice. if they too happened to be dwellers of Paradise, or AIIah will wed them to some other dweller of Paradise, if the two would like to live together as husband and wife. As for the houris they will not be entitled to dwell in Paradise as a result of any righteous deed of their own, but AIIah will create them as young, beautiful women and bestow them also as a blessing among the other blessings on the dwellers of Paradise so that they may enjoy their companionship. But they will not in any case be creatures of the kind of the jinn and fairies, for man cannot cohabit with a kind other than his own. Therefore, most probably these would be those innocent girls who died immature, and whose parents did not deserve Paradise so that they could be admitted to Paradise with them as the children of their righteous torrents.
سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :51 حور کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، تفسیر سورہ صافات ، حاشیہ 28 ۔ 29 ۔ اور تفسیر سورہ دخان حاشیہ 42 ۔ خیموں سے مراد غالباً اس طرح کے خیمے ہیں جیسے امراء و رؤساء کے لیے سیرگاہوں میں لگائے جاتے ہیں ۔ اغلب یہ ہے کہ اہل جنت کی بیویاں ان کے ساتھ ان کے قصروں میں رہیں گی اور انکی سیرگاہوں میں جگہ جگہ خیمے لگے ہو گے جن میں حوریں ان کے لیے لطف و لذت کا سامان فراہم کریں گی ۔ ہمارے اس قیاس کی بنا یہ ہے کہ پہلے خوب سیرت اور خوب صورت بیویوں کا ذکر کیا جا چکا ہے ۔ اس کے بعد اب حوروں کا ذکر الگ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ یہ ان بیویوں سے مختلف قسم کی خواتین ہوں گی ۔ اس قیاس کو مزید تقویت اس حدیث سے حاصل ہوتی ہے جو حضرت ام سلمہ سے مروی ہے ۔ وہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ، یا رسول اللہ ، دنیا کی عورتیں بہتر ہیں یا حوریں؟ حضور نے جواب دیا ، دنیا کی عورتوں کو حوروں پر وہی فضیلت حاصل ہے جو ابرے کو استر پر ہوتی ہے ۔ میں نے پوچھا کس بنا پر؟ فرمایا اس لیے کہ ان عورتوں نے نمازیں پڑھی ہیں ، روزے رکھے ہیں اور عبادتیں کی ہیں ۔ ( طبرانی ) ۔ اس سے معلوم ہو ا کہ اہل جنت کی بیویاں تو وہ خواتین ہوں گی جو دنیا میں ایمان لائیں ، اور اعمال صالحہ کرتی ہوئی دنیا سے رخصت ہوئیں ۔ یہ اپنے ایمان و حسن عمل کے نتیجے میں داخل جنت ہوں گی اور بذات خود جنت کی نعمتوں کی مستحق ہوں گی ۔ یہ اپنی مرضی اور پسند کے مطابق یا تو اپنے سابق شوہروں کی بیویاں بنیں گی اگر وہ بھی جنتی نہیں بنیں گی بلکہ اللہ تعالیٰ جنت کی دوسری نعمتوں کی طرح انہیں بھی اہل جنت کے لیے ایک نعمت کے طور پر جوان اور حسین و جمیل عورتوں کی شکل دے کر جنتیوں کو عطا کر دے گا تاکہ وہ ان کی صحبت سے لطف اندوز ہوں ۔ لیکن بہرحال یہ جن و پری کی قسم کی مخلوق نہ ہوں گی ، کیونکہ انسان کبھی صحبت ناجنس سے مانوس نہیں ہو سکتا ۔ اس لیے اغلب یہ ہے کہ یہ وہ معصوم لڑکیاں ہوں گی جو نابالغی کی حالت میں فوت ہو گئیں اور ان کے والدین جنت کے مستحق نہ ہوئے کہ وہ ان کی ذریت کی حیثیت سے جنت میں ان کے ساتھ رکھی جائیں ۔
12: ان خیموں کے بارے میں صحیح بخاری کی ایک حدیث میں یہ تفصیلی آئی ہے کہ یہ موتی سے بنے ہوئے بہت طویل و عریض خیمے ہوں گے۔
٧٢۔ ٧٧ صحیح ١ ؎ بخاری صحیح مسلم ترمذی میں چند صحابہ سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ جنت کے خیمے دنیا کے خیموں کی طرح کپڑے کے نہیں ہوں گے بلکہ ساٹھ میل کی چوڑائی کے اندر سے خالی موتی ہوں گے ان موتیوں کے وہ خیمے ہوں گے۔ ایک ایک خیمہ کے ستر ستر دروازے ہوں گے تفسیر حسن بصری میں لکھا ہے کہ یہی دنیا کی نیک عورتیں اچھی صورت کی ہو کر جنت میں پیدا ہوں گی۔ ان کو قرآن شریف میں حور فرمایا ہے لیکن اور مفسروں نے اس قول پر اعتراض کیا ہے کہ حوریں اولاد آدم میں سے نہیں ہیں بلکہ وہ ایک مخلوق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت میں پیدا کی ہے۔ ترمذی ٢ ؎ اور ابن ماجہ میں حضرت معاذبن جبل کی جو حدیث ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو عورت اپنے خاوند کو دنیا میں کچھ ایذا دیتی ہے تو وہ حور جو جنت میں اس مرد کو ملنے والی ہے اس عورت کو اپنی جگہ پر برا کہتی ہے اور یہ بھی کہتی ہے کہ اس مرد کو کیوں ایذاء دیتی ہے یہ تیرے پاس چند روزہ مہمان ہے پھر ہمارے پاس آنے والا ہے اس حدیث سے اور اس قسم کی اور احادیث سے یہی معلومہوتا ہے حوریں دنیا کی مخلوق سیجدا ہیں۔ (١ ؎ صحیح بخاری باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وانھا مخلوقۃ ص ٤٦٠ ج ١ و صحیح مسلم باب الجنۃ وصفۃ نعیمھا واھلھا ص ٣٨٠ ج ٢ الخ۔ ) (٢ ؎ جامع ترمذی آخر ابواب النکاح ص ١٧٣ و ١٧٤ ج ١۔ )
(55:72) حور مقصورات فی الخیام۔ جملہ یا خیرات سے بدل ہے۔ یا حور مبتداء ہے اور اس کی خبر فیہن محذوف ہے ای فیہن حور مقصورات فی الخیام۔ مقصورات فی الخیام حال ہے حور سے۔ درآں حالیکہ وہ خیموں میں مقیم ہوں گی : یا یہ صفت ہے حور کی، حوریں خیموں میں بیٹھی ہوئی۔ ترجمہ : حوریں ہوں گی خیموں میں بیٹھی ہوئی۔ حورا۔ حورائ کی جمع فعلاء فعل کے وزن پر، نہایت گوری عورتیں، جن کی آنکھ کی سفیدی نہایت سفید اور سیاہی نہایت گہری ہو مقصورات اسم مفعول جمع مؤنث قصر (باب نصر) مصدر۔ چھپائی ہوئی عورتیں، پردہ نشین، یا وہ عورتیں جنہوں نے اپنی نگاہ کو اپنے شوہروں تک روک رکھا ہوگا اور کسی دوسرے کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھیں گی۔ اسم مفعول بمعنی اسم فاعل۔ (قصرت الطرف) ۔ الخیام خیمۃ کی جمع ہے۔
ف 3 یعنی پردہ نشین ہوں گی۔ ” حود “ کی تشریح پہلے گزر چکی ہے۔ یعنی ایسی عورتیں جن کے رنگ سفید اور آنکھیں بڑی اور سیاہ ہوں گی۔ جنت کے یہ خیمے موتیوں کے ہونگے۔ حضرت قیس سے مرفو عاً مروی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : جنت میں کھوکھلے موتی کا ایک خیمہ ہے جس کا عرض ساٹھ میل ہے۔ اس کے ہر کونے میں رہنے والے دوسرے کو نے میں رہنے والوں کو نہ دیکھ پائیں گے۔ جنتی ان کے پاس لائے جائینگے۔ (شوکانی)
حور ............ الخیام (55: ٢٧) ” خیموں میں ٹھہرائی ہوئی حوریں ہوں گی۔ “ خیموں میں رکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بدوی لوگوں کو ان کے ذوق بداوت کے مطابق سہولتیں ہوں گی۔ مقصورات کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ وہ شرمیلی اور نظریں جھکانے والیاں ہوں گی یا وہاں ٹھہرائی ہوں گی۔