Surat ur Rehman

Surah: 55

Verse: 74

سورة الرحمن

لَمۡ یَطۡمِثۡہُنَّ اِنۡسٌ قَبۡلَہُمۡ وَ لَا جَآنٌّ ﴿ۚ۷۴﴾

Untouched before them by man or jinni -

ان کو ہاتھ نہیں لگایا کسی انسان یا جن نے اس سے قبل ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Whom never were deflowered by a human before nor Jinn. We explained this meaning before. Allah added in the description of the first group of the believers' wives, كَأَنَّهُنَّ الْيَاقُوتُ وَالْمَرْجَانُ (they are like Yaqut (rubies) and Marjan (pearls). فَبِأَيِّ الاَء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٥] اہل جنت کو ملنے والی حوروں کی تیسری صفت یعنی وہ باکرہ یا کنواری ہوں گی۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو پرہیزگار جنّ جنت میں داخل ہوں گے ان کو بھی حوریں ملیں گی۔ واضح رہے کہ طمث کے معنی حیض کا خون بھی ہے۔ اور طمث کا معنی عورت کا حیض والا ہونا بھی اور مرد کا عورت کے پردہ بکارت کو زائل کرنا بھی۔ گویا یہ لفظ مجامعت کے معنوں میں پہلی بار کی مجامعت سے مخصوص ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَمْ يَطْمِثْہُنَّ اِنْسٌ قَبْلَہُمْ وَلَا جَاۗنٌّ۝ ٧٤ ۚ طمث الطَّمْثُ : دم الحیض والافتضاض، والطَّامِثُ : الحائض، وطَمِثَ المرأةَ : إذا افتضَّها . قال تعالی: لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلا جَانٌ [ الرحمن/ 56] ، ومنه استعیر : ما طَمِثَ هذه الرّوضةَ أحدٌ قبلنا أي : ما افتضَّها، وما طَمِثَ الناقةَ جَمَلٌ ( ط م ث ) الطمث ( ن س ) کے معنی ( 1 ) دم حیض اور ( 2 ) کسی عورت کی بکارت کو زائل کرنا کے ہیں اور طامت کے معنی حیض والی عورت کے ہیں طمث المرءۃ اس نے عورت کی بکارت زائل کردی قرآن میں ہے : ۔ لَمْ يَطْمِثْهُنَّ إِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَلا جَانٌ [ الرحمن/ 56] جس کو اہل جنت سے پہلے نہ کسی انسان نے ہاتھ لگایا اور نہ جن نے ۔ اور اسی سے استعارہ کے طور پر کہا جاتا ہے ماطمث ھذہ الروضۃ احد قبلنا یعنی ہم سے قبل اس سبز زار میں کوئی اور وارد نہیں ہؤا ماطمث الناقۃ جمل اس اونٹنی کو کسی اونٹ نے بھی نہیں چھوڑا۔ إنس الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب «1» ، وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان/ 49] . وقیل ابن إنسک للنفس «2» ، وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء/ 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه/ 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور/ 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه «3» ، وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي . ( ان س ) الانس یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ { وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا } ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ { فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا } ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ { حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا } ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔ جان وقوله تعالی: وَالْجَانَّ خَلَقْناهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نارِ السَّمُومِ [ الحجر/ 27] فنوع من الجنّ ، وقوله تعالی: كَأَنَّها جَانٌّ [ النمل/ 10] ، قيل : ضرب من الحيّات . اور آیت کریمہ ؛۔ وَالْجَانَّ خَلَقْناهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نارِ السَّمُومِ [ الحجر/ 27] اور جان کو اس سے بھی پہلے بےہوئیں کی آگ سے پیدا کیا تھا ۔ میں جان سے بھی جنوں کی ایک قسم مراد ہے ۔ لیکن آیت کریمۃ ؛ كَأَنَّها جَانٌّ [ النمل/ 10] میں جان سے ایک قسم سانپ مراد ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٤۔ ٧٥) جو حوریں انسانوں کے لیے ہوں گی ان پر ان کے خاوندوں سے پہلے کسی انسان نے تصرف نہ کیا ہوگا اور اسی طرح جنوں کے لیے جو حوریں ہوں گی ان پر ان کے خاوندوں سے پہلے کسی جن نے تصرف نہ کیا ہوگا۔ سو اے جن و انس تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٤{ لَمْ یَطْمِثْہُنَّ اِنْسٌ قَبْلَہُمْ وَلَا جَآنٌّ ۔ } ” نہیں چھوا ہوگا ان سے پہلے انہیں نہ کسی انسان نے اور نہ کسی جن نے۔ “ یہاں خصوصی طور پر جن اور انسان کے ذکر سے بھی میری اس رائے کو تقویت ملتی ہے کہ یہ جنوں اور انسانوں کے لیے الگ الگ جنتوں کا بیان ہے۔ اس اعتبار سے آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ جنوں کی جنت کی حوروں کو ان کے خاوندوں سے پہلے کسی جن نے نہیں چھوا ہوگا اور انسانوں کی جنت کی حوروں کو قبل ازاں کسی انسان نے ہاتھ نہیں لگایا ہوگا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(55:74) لم یطمثھن انس قبلہم ولا جان : ملاحظہ ہو آیت نمبر 56 مذکورہ بالا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

لم ............ جان (55:4 ٧) ” ان جنتیوں سے پہلے کبھی کسی انسان یا جن نے ان کو نہ چھوا ہوگا۔ “ اور ان جنتوں کے لوگ تو ان کے حالات یوں ہوں گے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿لَمْ يَطْمِثْهُنَّ اِنْسٌ قَبْلَهُمْ وَ لَا جَآنٌّۚ٠٠٧٤﴾ (ان سے پہلے کسی انسان یا جن نے ان حوروں کو استعمال نہ کیا ہوگا) ۔ بیویوں کی خوبی اور ان کا حسن و جمال بیان کرنے کے بعد فرمایا ﴿ مُتَّكِـِٕيْنَ عَلٰى رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَّ عَبْقَرِيٍّ حِسَانٍۚ٠٠٧٦﴾ (ان جنتوں میں داخل ہونیوالے لوگ سبز رنگ کے نقش و نگار والے خوبصورت بستروں پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے) لفظ عبقری کی شرح میں متعدد اقوال ہیں ایک قول کے مطابق اس کا ترجمہ نقش و نگار والا کیا گیا ہے صاحب معالم التنزیل لکھتے ہیں کہ ہر وہ چیز جو عمدہ اور بڑھیا فخر کے قابل ہو اہل عرب اسے عبقری کہتے ہیں اس اعتبار سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عمر (رض) کے بارے میں فرمایا عبقریا یفری فریہ۔ تبرک اسم ربک ذی الجلال والاکرام (بڑا بابرکت ہے آپ کے رب کا نام جو عظمت اور احسان والا ہے) یہ سورة الرحمن کی آخری آیت ہے جو اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اکرام کے بیان پر ختم ہو رہی ہے پہلے رکوع کے ختم پر بھی اللہ تعالیٰ کی صفت ذوالجلال والا کرام بیان فرمائی ہے وہاں اس کی تفسیر لکھ دی گئی ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(74) اہل جنت سے پہلے ان عورتوں کونہ کسی انسان نے استعمال کیا ہوگا نہ کسی جن نے استعمال کیا ہوگا۔