Surat ur Rehman

Surah: 55

Verse: 76

سورة الرحمن

مُتَّکِئِیۡنَ عَلٰی رَفۡرَفٍ خُضۡرٍ وَّ عَبۡقَرِیٍّ حِسَانٍ ﴿ۚ۷۶﴾

Reclining on green cushions and beautiful fine carpets.

سبز مسندوں اور عمدہ فرشوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Reclining on green Rafraf and rich beautiful `Abqariy. Ali bin Abi Talhah reported from Ibn Abbas: "Rafraf means cushions." Mujahid, Ikrimah, Al-Hasan, Qatadah, Ad-Dahhak and others also said that Rafraf means cushions. Al-`Ala' bin Badr said: "The Rafraf are arrayed hanging over the couches." Allah's statement, وَعَبْقَرِيٍّ حِسَانٍ (and rich beautiful `Abqariy), Ibn Abbas, Qatadah, Ad-Dahhak and As-Suddi said that `Abqariy means rich carpets. فَبِأَيِّ الاَء رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

76۔ 1 مطلب یہ ہے کہ جنتی ایسے تختوں پر بیٹھے ہوں گے جس پر سبز رنگ کی مسندیں، غالیچے اور اعلٰی قسم کے خوب صورت منقش فرش بچھے ہوں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٦] عبقری کا مفہوم :۔ عَبْقَرِیٍّ عرب کے دور جاہلیت کے انسانوں میں جنوں کے دارالسلطنت کا نام عبقر تھا جہاں صرف جن اور پریاں ہی رہتے تھے جسے ہم اردو میں پرستان بھی کہتے ہیں یعنی پریوں کے رہنے کی جگہ۔ پھر لفظ عبقری کا اطلاق ہر نفیس اور نادر چیز پر ہونے لگا تو یا وہ پرستان کی چیز ہے جس کا مقابلہ دنیا کی عام چیزیں نہیں کرسکتیں۔ پھر اس لفظ کا اطلاق ایسے آدمی پر بھی ہونے لگا جو غیر معمولی صلاحیتوں کا مالک ہو۔ اسی لیے اہل عرب کو جنت کے سروسامان کی غیر معمولی نفاست اور خوبی کا تصور دلانے کے لیے یہاں عبقری کا لفظ آیا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مُتَّکِئِیْنَ عَلٰی رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَّعَبْقَرِیٍّ حِسَانٍ :” زفرف “ اس جنس یا اسم جمع ہے ، مفردم اس کا ” رفرفۃ “ ہے ، منقش قالین جو بستر پر بچھایا جائے۔ ’ ’ عقبری “ کوئی بھی چیز جو اپنی جنس میں سب سے فائق اور نادر الوجودہو ۔ اس کی نسبت ” عبقر “ کی طرف ہے جو جاہلیت کے افسانوں میں جنوں کا شہر تھا۔ جسے اردو میں پرستان کہتے ہیں ۔ عرب میں فوق العادت خوبصورت یا کمال چیز کی نسبت اس کی طرف کردیتے تھے ، گویا یہ انسانوں کی سر زمین کی نہیں بلکہ جنوں اور پریوں کی سرزمین کی چیز ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے کنویں سے پانی کھینچنے والے خواب کے ذکر میں فرمایا :(ثم اخذھا عمر ، فاستحالت بیدہ غربا ، فلم ار عبقربا فی الناس یفری فریۃ) ( بخاری ، المناقب ، باب علامات النبوۃ فی الاسلام : ٣٦٣٤)” پھر وہ ڈول عمر (رض) نے پکڑا تو وہ ایک بڑے ڈول کی شکل میں بدل گیا ۔ تو میں نے کوئی نادر قوت والا شخص نہیں دیکھا جو اس جیسی کاٹ کاٹتا ہو۔ “ اس لیے اس کا ترجمہ شاہ رفیع الدین (رح) تعالیٰ نے ” نادر “ کیا ہے اور ” حسان “ کا ترجمہ ” نفیس “ کیا ہے۔ ” زفرف ‘ ‘ کا لفظ منفرد ہے ، اس کے مطابق ” عبقری “ صفت مفرد لائی گئی ہے اور اسم جنس یا اسم جمع ہونے کی وجہ سے اس میں جمع کا مفہوم پایا جاتا ہے ، اس لیے اس کی صفات ” خضر “ اور ” حسان “ جمع لائی گئی ہیں ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

مُتَّكِئِينَ عَلَىٰ رَ‌فْرَ‌فٍ خُضْرٍ‌ وَعَبْقَرِ‌يٍّ حِسَانٍ (...reclining on green cushions and marvelously beautiful mattresses....55:76) Qamus explains that the word رَ‌فْرَ‌ف rafraf means &silk fabric greenish in colour& which is used in making carpets, pillows, cushions and other items of decoration. It is mentioned in the Arabic lexicon Sihah that they are embellished with arboreal and floral patterns, which, in Urdu, is called مُشَجَّر mushajjar. The noun عَبْقَرِ‌يٍّ &abqariyy refers to &every fine, beautiful fabric or material& and the adjective hisan [ beautiful ] qualifies it.

مُتَّكِــــِٕيْنَ عَلٰي رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَّعَبْقَرِيٍّ حِسَانٍ ، قاموس میں ہے کہ رفرف سبز رنگ کا ریشمی کپڑا ہے جس کے فرش اور تکئے اور دوسرا زینت کا سامان بنایا جاتا ہے اور صحاح میں ہے کہ اس پر نقش و نگار درختوں اور پھولوں کے ہوتے ہیں، جس کو اردو میں مشجر کہا جاتا ہے عبقری ہر عمدہ خوبصورت کپڑے کو کہا جاتا ہے حسان سے اسی کا وصف خوبصورتی بیان کیا گیا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مُتَّكِــــِٕيْنَ عَلٰي رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَّعَبْقَرِيٍّ حِسَانٍ۝ ٧٦ ۚ تكأ المُتَّكَأ : المکان الذي يتكأ عليه، والمخدّة : المتکأ عليها، وقوله تعالی: وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف/ 31] ، أي : أترجا «1» . وقیل : طعاما متناولا، من قولک : اتكأ علی كذا فأكله، ( ت ک ء ) التکاء ( اسم مکان سہارہ لگانے کی جگہ ۔ تکیہ جس پر ٹیک لگائی جائے اور آیت کریمہ : ۔ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَأً [يوسف/ 31] اور ان کے لئے ایک محفل مرتب کی ۔ میں متکاء کے معنی ترنج کے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ مراد کھانا ۔ رَفْرَفٍ والرَّفْرَفُ : المنتشر من الأوراق، وقوله تعالی: عَلى رَفْرَفٍ خُضْرٍ [ الرحمن/ 76] ، فضرب من الثّياب مشبّه بالرّياض، وقیل : الرَّفْرَفُ : طرف الفسطاط، والخباء الواقع علی الأرض دون الأطناب والأوتاد، وذکر عن الحسن أنها المخادّ. ( ر ف ف ) رفیف الشجر ۔ درخت کی شاخوں کا ہوا سے لہلہانا اور منتشر ہونا کہا جا تا ہے ۔ رف الطیر جناحیہ پرند کا اپنے بچے کی حفاظت کے لئے دونوں بازو پھیلانا ۔ یہ باب رف یرف ( ن) سے ہے اور استعارہ کے طور پر رف کا لفظ کسی چیز کی دیکھ بھال کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے عام محاورہ میں کہا جاتا ہے ۔ ما لفلان حاف ولا راف یعنی اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔ اس پر کوئی شفقت کرنے والا نہیں رہا ۔ مثل مشہور ہے ( مثل ) من حفنا اور فنا فلیقتصد : جو ہم پر شفقت کرے اسے چاہیے کہ اعتدال سے کام لے ۔ الرفرف : کے معنی درخت کے منتشر پتوں کے ہیں ۔ اور قرآن کی آیت : عَلى رَفْرَفٍ خُضْرٍ [ الرحمن/ 76] وہ سبز قالینوں پر ( تکیہ لگائے ) رفرف سے خاص قسم کے کپڑے مراد ہیں ۔ جو مرغزار کے مشابہ ہوتے ہیں ۔ اور بعض کا قول ہے ۔ کہ رفرف سے خیمے کا کنارہ مراد ہے ۔ جو زمین پر پڑا رہتا ہے اور حسن ( بصری ) سے مروی ہے کہ اس سے گاؤتکئے مراد ہیں ۔ خضر قال تعالی: فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً [ الحج/ 63] ، وَيَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً مِنْ سُنْدُسٍ [ الكهف/ 31] ، فَخُضْرٌ جمع أخضر، والخُضْرَة : أحد الألوان بين البیاض والسّواد، وهو إلى السّواد أقرب، ولهذا سمّي الأسود أخضر، والأخضر أسود قال الشاعر : قد أعسف النازح المجهول معسفه ... في ظلّ أخضر يدعو هامه البوم«2» وقیل : سواد العراق للموضع الذي يكثر فيه الخضرة، وسمّيت الخضرة بالدّهمة في قوله سبحانه : مُدْهامَّتانِ [ الرحمن/ 64] ، أي : خضراوان، وقوله عليه السلام : «إيّاكم وخَضْرَاء الدّمن» «3» فقد فسّره عليه السلام حيث قال :«المرأة الحسناء في منبت السّوء» ، والمخاضرة : المبایعة علی الخَضْرِ والثمار قبل بلوغها، والخضیرة : نخلة ينتثر بسرها أخضر . ( خ ض ر ) قرآن میں ہے : فَتُصْبِحُ الْأَرْضُ مُخْضَرَّةً [ الحج/ 63] تو زمین سر سبز ہوجاتی ہے۔ وَيَلْبَسُونَ ثِياباً خُضْراً مِنْ سُنْدُسٍ [ الكهف/ 31] سبز رنگ کے کپڑے ۔ خضرا کا واحد اخضر ہے اور الخضرۃ ایک قسم کا دنگ ہوتا ہے جو سفیدی اور سیاہی کے بین بین ہوتا ہے مگر سیاہی غالب ہوتی ہے یہی وجہ ہے ک اسور ( سیاہ ) اور اخضر ( سبز) کے الفاظ ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ۔ ( البسیط) (136) قد اعسف النازح المجھود مسفۃ فی ظل اخضر یدعوھا مہ الیوم میں تاریک اور بھیانک راتوں میں دور دراز راستوں میں سفر کرتا ہوں جو بےنشان ہوتے ہیں ۔ اور سبزی اور شادابی کی وجہ سے عراق کے ایک حصہ کو سواد العراق کہاجاتا ہے اور آیت کریمہ :۔ مُدْهامَّتانِ [ الرحمن/ 64] کے معنی سر سبز کے ہیں اور خضرۃ کی جگہ دھمۃ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی سیاہی کے ہیں ۔ حدیث میں ہے :۔ (114) ایاکم وخضواء الدمن تم کوڑی کی سر سبزی سے بچو۔ اور خضراء الدمن کی تفسیر بیان کرتے ہوئے آنحضرت نے فرمایا المرآۃ الحسنۃ فی منبت السوء یعنی خوبصورت عورت جو بدطنت ہو ۔ المخاضرۃ سبزیوں اور کچے پھلوں کی بیع کرنا ۔ الخضیرۃ کھجور کا درخت جس کی سبزا در نیم پختہ کھجوریں جھڑجائیں عبقر عَبْقَرٌ قيل : هو موضعٌ للجنّ ينسب إليه كلّ نادر من إنسان، وحیوان، وثوب، ولهذا قيل في عمر : «لم أر عَبْقَرِيّاً مثله» ، قال تعالی: وَعَبْقَرِيٍّ حِسانٍ [ الرحمن/ 76] ، وهو ضرب من الفرش فيما قيل، جعله اللہ مثلا لفرش الجنّة . ( ع ب ق ر ) عبقر بعض نے کہا ہے کہ جنوں کی آبادی کا نام ہے ۔ عرب لوگ جب کسی انسان حیوان یا کپڑے وغیرہ میں نادرہ کاری دیکھتے تو اسے اسکی طرف نسبت کردیتے اسی بنا حضرت عمررضی اللہ عنہ کے بارے میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک خواب بیان کرتے ہوئے فرمایا ۔ لم ارعبقریامثلہ کہ میں نے اس جیسا نادر المثال شخص نہیں دیکھا ۔ اور ایت کریمہ : ۔ وَعَبْقَرِيٍّ حِسانٍ [ الرحمن/ 76] اور نفس مسندوں پر میں عبقری کے معنی ایک قسم کے عمدہ فرش کے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے جنت کے فروش کے لئے ضرب المثل کے طور پر بیان فرمایا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧٦۔ ٧٧) اور وہ لو سبز شجر اور عجیب خوبصورت کپڑوں کے فرشوں پر خوشی کے ساتھ تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے سو اے جن و انس تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٦{ مُتَّکِئِیْنَ عَلٰی رَفْرَفٍ خُضْرٍ وَّعَبْقَرِیٍّ حِسَانٍ ۔ } ” وہ تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے سبز مسندوں اور بہت نفیس بچھونوں پر۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

52 The word abqari in the original is from abqar. the capital city of the jinn in the legends of the pre-Islamic Arabia. It was on that account that the Arabs called every fine and rare thing abqari as if it belonged to the fairyland and had no match in the material world. So mach so that in their idiom the man who possessed extraordinary abilities and who performed wonderful works was also called abqari The English word genius also is spoken in the same sense and is also derived from genii which is a synonym of jinn. That is why the word abqari; has been used here to give an idea of the extraordinary exquisiteness of the provisions of Paradise to the Arabs.

سورة الرَّحْمٰن حاشیہ نمبر :52 اصل میں لفظ عَبْقَرِی استعمال ہوا ہے ۔ عرب جاہلیت کے افسانوں میں جنوں کے دارالسلطنت کا نام عَبْقَر تھا جسے ہم اردو میں پرستان کہتے ہیں ۔ اسی کی نسبت سے عرب کے لوگ ہر نفیس و نادر چیز کو عَبْقَری کہتے تھے ، گویا وہ پرستان کی چیز ہے جس کا مقابلہ اس دنیا کی عام چیزیں نہیں کر سکتیں ۔ حتیٰ کہ ان کے محاورے میں ایسے آدمی کو بھی عبقری کہا جاتا تھا جو غیر معمولی قابلیتوں کا مالک ہو ، جس سے عجیب و غریب کارنامے صادر ہوں ۔ انگریزی میں لفظ ( Genius ) بھی اسی معنی میں بولا جاتا ہے ، اور وہ بھی Genii سے ماخوذ ہے جو جن کا ہم معنی ہے ۔ اسی لیے یہاں اہل عرب کو جنت کے سروسامان کی غیر معمولی نفاست و خوبی کا تصور دلانے کے لیے عبقری کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

13: رَفرَف نقش ونگار والے قالین کو کہتے ہیں۔ یہاں یہ واضح رہنا چاہئے کہ جنت کی نعمتوں میں سے جن جن چیزوں کا ذکر فرمایا گیا ہے، اگرچہ دُنیا میں بھی اُن کے وہی نام ہیں جو ان آیات میں مذکور ہیں، لیکن اُن کی حقیقت اُن کا حسن اور اُن کی لذت دُنیا کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوگی ؛ کیونکہ صحیح حدیث کے مطابق اﷲ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے لئے ایسی نعمتیں تیار فرمائی ہیں جو آج تک نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہیں نہ کسی کان نے سنی ہیں، اور نہ کسی کے دِل پر اُن کا خیال گزرا ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو ان سے بہرہ ور فرمائیں۔ آمین۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(55:76) متکئین اسم فاعل جمع مذکر۔ بحالت نصب، اتکاء (افتعال) مصدر۔ تکیہ لگائے ہوئے یہ منصوب بوجہ حال کے ہے جس کا ذوالحال محذوف ہے جس کی طرف قبلہم میں ضمیر ہم دلالت کرتی ہے۔ رفرف۔ قالین۔ تکیے۔ زمخشری لکھتے ہیں :۔ دیبا وغیرہ کا باریک خوش رنگ کپڑا ہے۔ موصوف، خضر، سبز، ہرے، اخضر اور خضراء کی جمع ہے۔ رفرف کی صفت ہے۔ عبقری : علامہ سید مرتضے زبیدی تاج العروس من جواہر القاموس میں لکھتے ہیں کہ :۔ عبقر بادیہ میں ایک موضع ہے جہاں بہت جنات ہیں۔ چناچہ مثل ہے کانھم جن عبقر گویا وہ عبقر کے جنات ہیں۔ لبید کا شعر ہے :۔ ومن فاد من اخوانھم وبینھم : کھول و شبان کجنۃ عبقر بعد میں ہر چیز کو کہ جس سے اس کی مہارت یا خوبی صنعت اور قوت کی بناء پر تعجب ہوتا ہو اسے عبقر کی طرف منسوب کرنے لگے۔ امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں :۔ عبقر جنوں کی ایک بستی ہے جس کی طرف ہر نادر چیز کو انسان ہو یا حیوان یا پکڑا منسوب کردیا جاتا ہے اسی واسطے حدیث میں حضرت عمر (رض) کے لیے آیا ہے : ۔ فلم اری عبقریا مشلہ۔ میں نے ان جیسا عجیب و غریب کسی کو نہیں دیکھا۔ قاموس میں ہے کہ :۔ خاص قسم کا بچھونا اور فرش۔ وہ چیز جس میں کمال ہو۔ تاج العروس میں ہے :۔ دبیزفرش۔ دیبا۔ واحد اور جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے یہاں بطور موصوف آیا ہے ۔ حسان صفت ہے عبقری کی، خوبصورت ، حسین۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 ” عبقر “ دراصل عربوں کے افسانوں میں جنوں کی ایک بستی کا نام تھا جس کے لئے ہم اردو میں پرستان کا لفظ اسعتمال کرتے ہیں۔ اس کی طرف نسبت کرتے ہوئے اہل عرب ہر غیر معمولی نفیس اور نادر چیز کو عبقری کہا کرتے تھے۔ اب بھی عربی زبان میں یہ لفظ اس شخص کے لئے استعمال ہوتا ہے جو غیر معمولی ذہانت اور قابلیت کا مالک ہو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

متکئین ............ حسان (55: ٦٧) ” وہ جنتی سبز قالینوں اور نفیس اور نادر فرشوں پر تکئے لگائے بیٹھیں گے۔ “ رفرف فرش عبقری عبقر کے بنے ہوئے ، مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو خصوصاً عربوں کے فریب الفہم کرنے کے لئے۔ عبقر جنوں کی وادی کو کہتے ہیں اور ہر عجیب چیز کو وہ عبقری کہتے تھے لیکن پہلے باغ والوں کے تکیوں کا استرا استبرق کے بنے ہوئے تھے۔ لہٰذا پہلے دو باغوں والوں دوسرے دو باغوں والوں کے رتبے میں فرق ہوگا اور ان تمام صفات و کمالات کے بعد یہ فقرے ” اے انس وجن تم اپنے رب کے کن کن انعامات کو جھٹلاؤ گے ؟ “ اس کائنات میں اللہ کی نعمتوں کا تذکرہ اور مخلوقات میں اللہ کی نعمتوں کا تذکرہ اور آخرت میں اللہ کی نعمتوں کا تذکر اس سورة کا موضوع تھا۔ اب اس کے آخر میں آخری سبق اور آخری نتیجہ کہ اللہ کی تسبیح کرو ، اللہ کی برکتوں کا اعتراف کرو کہ وہی ہے جو ہر زندہ کو موت دیتا ہے اور وہی اکیلا قائم رہے گا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

24:۔ ” متکئین۔ الایۃ “ رفرفۃ، سبز رنگ کی چادر جو بستر پر ڈالی جاتی ہے۔ فی الصحاح الرفرف ثیاب خضر تتخذ منھا المجالس الواحد الرفرۃ (قرطبی ج 17 ص 19) ۔ عبقری، موٹے ریشم کی چادریں یا فرش پر بچھانے کے لیے منقش مفروشات یعنی غالیچے اور قالین وغیرہ۔ عن مجاھد انہ الدیباج الغلیظ (روح) ۔ العبقری ثیاب منقوشۃ تبسط والعبقری الطنافس الثخان (قرطبی) ۔ جہاں وہ آرام کریں گے وہاں فرش پر سبز دریاں اور ان پر اعلی قسم کے خوبصورت قالین بچھے ہوں گے حضرت شخ قد سرہ فرماتے ہیں نیچے سبز دریاں ہوں گی اور اوپر پتلے غالیچے ہوں گے یہ اللہ تعالیٰ کی بیشمار نعمتیں ہیں ان میں سے کونسی نعمت کا انکار کرو گے۔ یہ انعام و اکرام ان لوگوں کو نصیب ہوگا جنہوں نے دعوت کو مان لیا کہ اللہ کے سوا کوئی کارساز اور برکات دہندہ نہیں اور برکت اسی کے نام میں ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(76) وہ اہل جنت عجیب خوشنما فرشوں پر سبزرنگ کے تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے۔ رفرف ہر اس ستھرے اور پاکیزہ فرش کو کہتے ہیں جو گائو تکیے کے آگے بچھایا جائے عبقری مسند جو خوشنما اور بہترین ہو جیسے بہت بڑھیا قالین وغیرہ۔