Surat ul Waqiya
Surah: 56
Verse: 3
سورة الواقعة
خَافِضَۃٌ رَّافِعَۃٌ ۙ﴿۳﴾
It will bring down [some] and raise up [others].
وہ پست کرنے والی اور بلند کرنے والی ہوگی ۔
خَافِضَۃٌ رَّافِعَۃٌ ۙ﴿۳﴾
It will bring down [some] and raise up [others].
وہ پست کرنے والی اور بلند کرنے والی ہوگی ۔
Bringing low, exalting. indicates that Al-Waqi`ah lowers some people to the lowest parts of the Fire, even if they had been mighty in this life. It also elevates others to the highest grades in the residence of eternal delight, even if they were weak in this life. This was said by Al-Hasan, Qatadah and others. Al-`Awfi reported from Ibn Abbas, خَافِضَةٌ رَّافِعَةٌ (Bringing low, exalting), "It made the near and the far hear it," while Ikrimah said, "It lowered, and thus those who were close heard it, and elevated, and thus those in the distance heard it." Ad-Dahhak and Qatadah said similarly. Allah said, إِذَا رُجَّتِ الاَْرْضُ رَجًّا
3۔ 1 پستی اور بلندی سے مطلب ذلت اور عزت ہے۔ یعنی اللہ کے اطاعت گزار بندوں کو یہ بلند اور نافرمانوں کو پست کرے گی، چاہے دنیا میں معاملہ اس سے برعکس ہو،۔
[٢] اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جب قیامت قائم ہوگی تو نظام کائنات درہم برہم ہوجائے گا۔ ستارے جھڑ جائیں گے۔ پہاڑ اڑنے لگیں گے اور اس عالم کی تمام اشیاء زیر و زبر ہوجائیں گی۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ متکبر، سرکش اور ظالم لوگوں کے سرنگوں کردے گی اور وہ ذلیل اور رسوا ہوجائیں گے۔ جس بلند مقام پر اپنے آپ کو وہ سمجھے بیٹھے تھے وہاں سے نیچے پٹخ دیئے جائیں گے اور جو لوگ متواضع، منکسرالمزاج اور پاکیزہ سیرت کے مالک ہوں گے جنہیں متکبرین دنیا میں حقیر اور رذیل مخلوق سمجھتے تھے انہیں ہی سربلندی عطا ہوگی اور وہ بلند درجات کے مالک اور اونچے مقام پر فائز ہوں گے۔
خَافِضَۃٌ رَّافِعَۃٌ : یعنی وہ بڑے بڑے متکبروں کو جو دنیا میں معزز اور بلند مرتبہ سمجھے جاتے تھے ، گرا کر جہنم میں پھینک دے گی اور مستضعفین اہل ایمان کو جو دنیا میں حقیر اور کم مرتبہ سمجھے جاتے تھے ، اٹھا کر جنت کے اعلیٰ مراتب تک پہنچا دے گی۔ مزید دیکھئے سورة ٔ مصطففین (٢٩ تا ٣٥)
خَافِضَةٌ رَّافِعَةٌ (It will be abasing [ some ], exalting [ others ]...56:3). The verse means that the &Inevitable Event& referred to in the previous verse will bring about a great revolution in the lives of men, as is witnessed at the time of revolution of governments. The high and the mighty will be laid low and the despised and down-trodden will be exalted; the poor become rich and the rich become poor. This is how Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) interprets this statement. The purpose is to depict the horrors of the Day of Resurrection.
خَافِضَةٌ رَّافِعَةٌ، یعنی واقعہ قیامت بہت سی بلند رتبہ قوموں اور افراد کو پست و ذلیل کر دے گا اور بہت سی پست و حقیر قوموں اور افراد کو سر بلند کر دے گا، حضرت ابن عباس سے اس جملہ کی یہی تفسیر منقول ہے اور مقصد اس کا ہولناک ہونا اور اس میں عجیب قسم کے انقلابات پیش آنے کا بیان ہے، جیسا کہ سلطنتوں اور حکومتوں کے انقلاب کے وقت مشاہدہ ہوا کرتا ہے کہ اوپر والے نیچے اور نیچے والے اوپر ہوجاتے ہیں، فقیر مالدار ہوجاتے ہیں مالدار فقیر ہوجاتے ہیں (روح)
خَافِضَۃٌ رَّافِعَۃٌ ٣ ۙ خفض الخَفْض : ضدّ الرّفع، والخَفْض الدّعة والسّير اللّيّن وقوله عزّ وجلّ : وَاخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِ [ الإسراء/ 24] ، فهو حثّ علی تليين الجانب والانقیاد، كأنّه ضدّ قوله : أَلَّا تَعْلُوا عَلَيَّ [ النمل/ 31] ، وفي صفة القیامة : خافِضَةٌ رافِعَةٌ [ الواقعة/ 3] ، أي : تضع قوما وترفع آخرین، فخافضة إشارة إلى قوله : ثُمَّ رَدَدْناهُ أَسْفَلَ سافِلِينَ [ التین/ 5] . ( خ ف ض ) الخفض ۔ یہ رفع کی ضد ہے اور خفض کے معنی نرم رفتاری اور سکون و راحت بھی آتے ہیں اور آیت کریمہ : وَاخْفِضْ لَهُما جَناحَ الذُّلِ [ الإسراء/ 24] اور عجز ونیاز سے ان کے آگے جھکے رہو ۔ میں ماں باپ کے ساتھ نرم بر تاؤ اور ان کا مطیع اور فرمانبردار ہوکر رہنے کی ترغیب دی گئی ہے ۔ گویا یہ ( کہ مجھ سے سر کشی نہ کرنا ) کی ضد ہے اور قیامت کے متعلق فرمایا : خافِضَةٌ رافِعَةٌ [ الواقعة/ 3] کسی کو پست کر ہی اور کسی کو بلند ۔ کیونکہ وہ بعض کو پست اور بعض کو بلند کردے گی پس خافضتہ میں آیت کریمہ : ثُمَّ رَدَدْناهُ أَسْفَلَ سافِلِينَ [ التین/ 5] کے مضمون کی طرف اشارہ ہے ۔ رفع الرَّفْعُ في الأجسام الموضوعة إذا أعلیتها عن مقرّها، نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 93] ، قال تعالی: اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد/ 2] ( ر ف ع ) الرفع ( ف ) کے معنی اٹھانے اور بلند کرنے کے ہیں یہ مادی چیز جو اپنی جگہ پر پڑی ہوئی ہو اسے اس کی جگہ سے اٹھا کر بلند کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة/ 93] اور ہم نے طو ر پہاڑ کو تمہارے اوپر لاکر کھڑا کیا ۔ اللَّهُ الَّذِي رَفَعَ السَّماواتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَها[ الرعد/ 2] وہ قادر مطلق ہے جس نے آسمان کو بدوں کسی سہارے کے اونچا بناکر کھڑا کیا ۔
آیت ٣{ خَافِضَۃٌ رَّافِعَۃٌ ۔ } ” وہ پست کرنے والی اور بلند کرنے والی ہوگی۔ “ بہت سے ایسے لوگ جو دنیا میں بہت بلند مقام و مناصب کے مالک تھے ‘ قیامت انہیں ذلیل و رسوا کر دے گی۔ اس کے برعکس کئی فقراء و مساکین جن کا دنیا میں کوئی ُ پرسانِ حال نہیں تھا ‘ اس دن بہت بلند مقامات پر فائز نظر آئیں گے۔ اس دن حضرت ابوہریرہ ‘ حضرت ابودردائ ‘ حضرت ابوذر غفاری اور دوسرے فقراء صحابہ کو ایسے اعلیٰ مراتب عطا ہوں گے جن کے بارے میں آج ہم لوگ تصور بھی نہیں کرسکتے۔
2 Literally: "that which causes (something or somebody j to rise and to Fall. " Its one meaning can be that it will upset every order: it will turn things up-side-down. Another meaning also can be that it will exalt the lowly and bring low the high and mighty; that is, on its advent the decision as to who is noble and who is ignoble among the people will be made on quite a different basis. Those who posed as honourable people in the world, would become contemptible and those who were considered contemptible would become honourable.
سورة الْوَاقِعَة حاشیہ نمبر :2 اصل الفاظ ہیں خَافِضَۃٌ رَّافِعَۃٌ ، گرانے والی اور اٹھانے والی ۔ اس کا ایک مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ وہ سب کچھ الٹ پلٹ کر کے رکھ دے گی ۔ نیچے کی چیزیں اوپر اور اوپر کی چیزیں نیچے ہو جائیں گی ۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ گرے ہوئے لوگوں کو اٹھانے والی اور اٹھے ہوئے لوگوں کو گرانے والی ہو گی ، یعنی اس کے آنے پر انسانوں کے درمیان عزت و ذلت کا فیصلہ ایک دوسری ہی بنیاد پر ہو گا ۔ جو دنیا میں عزت والے بنے پھرتے تھے وہ ذلیل ہو جائیں گے اور جو ذلیل سمجھے جاتے تھے وہ عزت پائیں گے ۔
(56:3) خافضۃ رافعۃ خبر مبتدا محذوف کی : ای ہی۔ خافضۃ اقواما کانوا مرتفعین فی الدنیا ورافعۃ اقواما کانوا منخفضین فی الدنیا (اضواء البیان) ۔ پست اور ذلیل کرنے والی۔ جو دنیا میں مغرور تھے۔ ان لوگوں کو بلند کرنے والی جو کہ دنیا میں منکر المزاج تھے۔ مطلب یہ کہ قیامت کی گھڑی پست کرنے والی ہوگی بہت سے دنیا کے سربلندوں کو جو خدا تعالیٰ سے غافل اور اس کے منکر اور اس کے احکام کی پابندی نہ کرنے والے تھے لیکن پست و ذلیل سمجھے جاتے تھے۔ خافضۃ رافعۃ صفت ہے الواقعۃ کی۔ خافضۃ اسم فاعل واحد مؤنث غائب خفض باب ضرب مصدر بمعنی پست کرنا۔ پست ہونا۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے واخفض جناحک لمن اتبعک من المؤمنین (26:215) اور مومنوں میں سے جو تمہارے پیروکار ہوگئے ہیں ان پر اپنے (تواضع اور شفقت کے) پر نیچے کردے (پھیلادے) رافعۃ اسم فاعل واحد مؤنث رفع (باب فتح) مصدر۔ بمعنی بلند کرنا۔ اوپر اٹھانا۔
ف 8 یعنی بڑے بڑے متکبروں کو جو دنیا میں معزز اور بلند مرتبہ سمجھے جاتے تھے دھکیل کر دوزخ میں پھینکے گی اور بہت سے اہل حق کو جو دنیا میں حقیر و کم مرتبہ نظر آئی تھے جنت کے اعلیٰ مراتب تک پہنچائے گی۔
1۔ یعنی کفار کی ذلت کا اور مومنین کی رفعت کا اس روز ظہور ہوگا۔
3:۔ ” خافضۃ رافعۃ “ یہ مبتدا محذوف کی خبر بعد خبر ہے یعنی قیامت کچھ لوگوں کو پست اور ذلیل و خوار کرنے والی ہے ان سے اصحاب الشمال (کفار و مشرکین) مراد ہیں اور کچھ لوگوں کو بلند کرنے والی ہوگی اس سے السابقون اور اصحاب الیمین مراد ہیں۔ ایھی خافضۃ رافعۃ ترفع اقواما وتضع اخرین۔ (مدارک ج 4 ص 162) ۔