Surat ul Waqiya

Surah: 56

Verse: 41

سورة الواقعة

وَ اَصۡحٰبُ الشِّمَالِ ۬ ۙ مَاۤ اَصۡحٰبُ الشِّمَالِ ﴿ؕ۴۱﴾

And the companions of the left - what are the companions of the left?

اور بائیں ہاتھ والے کیا ہیں بائیں ہاتھ والے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Those on the Left and Their Recompense After Allah mentioned the condition of those on the right hand, He then mentioned the condition of those on the left hand, وَأَصْحَابُ الشِّمَالِ مَا أَصْحَابُ الشِّمَالِ And those on the left How will be those on the left, meaning, `What is the condition of those on the left,' then explains His statement, by saying,

اصحاب شمال اور عذاب الٰہی اصحاب یمین کا ذکر کرنے کے بعد اصحاب شمال کا ذکر ہو رہا ہے فرماتا ہے ان کا کیا حال دھوئیں کے سخت سیادہ سائے میں جیسے اور جگہ آیت ( اِنْــطَلِقُوْٓا اِلٰى مَا كُنْتُمْ بِهٖ تُكَذِّبُوْنَ 29؀ۚ ) 77- المرسلات:29 ) فرمایا ہے یعنی اس دوزخ کی طرف چلو جسے تم جھٹلاتے تھے ۔ چلو تین شاخوں والے سایہ کی طرف جو نہ گھنا ہے نہ آگ کے شعلے سے بچا سکتا ہے ، وہ دوزخ محل کی اونچائی کے برابر چنگاریاں پھینکتی ہے ، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ سرد اونٹنیاں ہیں ۔ آج تکذیب کرنے والوں کی خرابی ہے ۔ اسی طرح یہاں بھی فرمان ہے کہ یہ لوگ جن کے بائیں ہاتھ میں عمل نامہ دیا گیا ہے یہ سخت سیاہ دھوئیں میں ہوں گے جو نہ جسم کو اچھا لگے نہ آنکھوں کو بھلا معلوم ہو ، یہ عرب کا محاورہ ہے کہ جس چیز کی زیادہ برائی بیان کر لی ہو وہاں اس کا ہر ایک برا وصف بیان کر کے اس کے بعد ( ولا کریم ) کہدیتے ہیں ۔ پھر اللہ تعالیٰ بیان فرمایا ہے یہ لوگ ان سزاؤں کے مستحق اس لئے ہوئے کہ دنیا میں جو اللہ کی نعمتیں انہں ملی تھیں ان میں یہ سست ہو گئے ۔ رسولوں کی باتوں کی طرف نظر بھی نہ اٹھائی ۔ بدکاریوں میں پڑ گئے اور پھر توبہ کی طرف دلی توجہ بھی نہ رہی ۔ ( حنث عظیم ) سے مراد بقول حضرت ابن عباس کفر شرک ہے ، بعض کہتے ہیں جھوٹی قسم ہے ، پھر ان کا ایک اور عیب بیان ہو رہا ہے کہ یہ قیامت کا ہونا بھی محال جانتے تھے ، اس کی تکذیب کرتے تھے اور عقلی استدلال پیش کرتے تھے کہ مر کر مٹی میں مل کر پھر بھی کہیں کوئی جی سکتا ہے؟ انہیں جواب مل رہا ہے کہ تمام اولاد آدم قیامت کے دن نئی زندگی میں پیدا ہو کر اور ایک میدان میں جمع ہوگی ، کوئی ایک وجود بھی ایسا نہ ہوگا جو دنیا میں آیا ہو اور یہاں نہ ہو ، جیسے اور جگہ ہے اس دن سب جمع کر دیئے جائیں گے یہ حاضر باشی کا دن ہے ، تمہیں دنیا میں چند روز مہلت ہے قیامت کے دن کون ہے جو بلا اجازت اللہ لب بھی ہلا سکے انسان دو قسم پر تقسیم کر دیئے جائیں گے نیک الگ اور بد علیحدہ ۔ وقت قیامت محدود اور مقرر ہے ، کمی زیادتی تقدیم تاخیر اس میں بالکل نہ ہوگی ۔ پھر تم اے گمراہو اور جھٹلانے والو زقوم کے درخت تمہیں پینا پڑے گا اور وہ بھی اس طرح جیسے پیاسا اونٹ پی رہا ہو ، ہیم جمع ہے اس کا واحد اہیم ہے مونٹ ہماء ہے ہائم اور ہوتی اور نہ اس بیماری سے اونٹ جانبر ہوتا ہے ، اسی طرح یہ جنت جبراً سخت گرم پانی پلائے جائیں گے جو خود ایک بدترین عذاب ہوگا بھلا اس سے پیاس کیا رکتی ہے؟ حضرت خالد بن معدان رضی اللہ فرماتے ہیں کہ ایک ہی سانس میں پانی پینا یہ بھی پیاس والے اونٹ کا سا پینا ہے اس لیے مکروہ ہے پھر فرمایا ان مجرموں کی ضیافت آج جزا کے دن یہی ہے ، جیسے متقین کے بارے میں اور جگہ ہے کہ ان کی مہمانداری جنت الفردوس ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

411اس سے مراد اہل جہنم ہیں، جن کو ان کے اعمال نامے بائیں ہاتھ میں پکڑائے جائیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَ اَصْحٰبُ الشِّمَالِ ۔۔۔۔۔۔:” سموم “ کی وضاحت کے لیے دیکھئے سورة ٔ طور (٢٧) کی تفسیر ۔ ” یحموم “ سیاہ دھواں۔ یہ ” حمم “ (بروزادا ” صرد “ بمعنی کوئلہ) سے ” یفعول “ کے وزن پر ہے۔ ” احم “ سیاہ ۔ یعنی وہ دھواں جس میں سیاہی اور گرمی دونوں ہوں ۔ یعنی جہنمیوں کو کہیں سایہ نہیں ملے گا ، ملے گا تو سخت سیاہ اور گرم دھوئیں کا ، جس میں نہ کوئی ٹھنڈک ہوگی اور نہ کوئی راحت یا آسائش ہوگی ۔ مزید دیکھئے سورة ٔ مرسلات (٢٩ تا ٣٤)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَصْحٰبُ الشِّمَالِ۝ ٠ۥۙ مَآ اَصْحٰبُ الشِّمَالِ۝ ٤١ ۭ صحب الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] ( ص ح ب ) الصاحب ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ شمل الشِّمَالُ : المقابل للیمین . قال عزّ وجلّ : عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق/ 17] ، ويقال للثّوب الذي يغطّى به : الشِّمَالُ وذلک کتسمية كثير من الثّياب باسم العضو الذي يستره، نحو : تسمية كمّ القمیص يدا، وصدره، وظهره صدرا وظهرا، ورجل السّراویل رجلا، ونحو ذلك . والِاشْتِمَالُ بالثوب : أن يلتفّ به الإنسان فيطرحه علی الشّمال . وفي الحدیث : «نهي عن اشْتِمَالِ الصمّاء» والشَّمْلَةُ والْمِشْمَلُ : کساء يشتمل به مستعار منه، ومنه : شَمَلَهُمُ الأمر، ثم تجوّز بالشّمال، فقیل : شَمَلْتُ الشاة : علّقت عليها شمالا، وقیل : للخلیقة شِمَالٌ لکونه مشتملا علی الإنسان اشتمال الشّمال علی البدن، والشَّمُولُ : الخمر لأنها تشتمل علی العقل فتغطّيه، وتسمیتها بذلک کتسمیتها بالخمر لکونها خامرة له . والشَّمَالُ : الرّيح الهابّة من شمال الکعبة، وقیل في لغة : شَمْأَلٌ ، وشَامَلٌ ، وأَشْمَلَ الرّجل من الشّمال، کقولهم : أجنب من الجنوب، وكنّي بِالْمِشْمَلِ عن السّيف، كما کنّي عنه بالرّداء، وجاء مُشْتَمِلًا بسیفه، نحو : مرتدیا به ومتدرّعا له، وناقة شِمِلَّةٌ وشِمْلَالٌ: سریعة کا لشَّمال، وقول الشاعر : ولتعرفنّ خلائقا مشمولة ... ولتندمنّ ولات ساعة مندم قيل : أراد خلائق طيّبة، كأنّها هبّت عليها شمال فبردت وطابت . ( ش م ل ) الشمال ۔ بایاں ضد یمین ۔ قرآن میں ہے ۔ عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمالِ قَعِيدٌ [ ق/ 17] جو دائیں اور بائیں بیٹھے ہیں ۔ نیز چھوٹی چادر جس سے بائیں جانب ڈھانپ لی جائے اسے بھی شمال کہا جاتا ہے جس طرح کہ عربی زبان میں دوسرے اعضار کی مناسبت سے لباس کے مختلف نام رکھے گئے ہیں ۔ مثلا قمیض کی آستین کو ید ( ہاتھ ) اور جو حصہ سینہ اور پشت پر آئے اسے صدر اور ظہر کہا جاتا ہے اور پائجامہ کے پائتہ کو رجل سے موسم کردیتے ہیں وغیرہ ذالک ۔ اور الاشتمال بالثوب کپڑے کو اس طرح لپیٹا کہ اس کا بالائی سرا بائیں جانب ڈالا جائے حدیث میں ہے ۔ ( 101 ) «نهي عن اشْتِمَالِ الصمّاء» کہ اشتمال الصماء ممنوع ہے ۔ اور استعارہ کے طور پر کمبل کو جو جسم پر لپیٹا جاتا ہے ۔ شملۃ ومشمل کہا جاتا ہے اور اسی سے شملھم الامر کا محاورہ ہے جس کے معنی کسی امر کے سب کو شامل اور عام ہوجانے کے ہیں ۔ پھر شمال کے لفظ سے مجازا کہا جاتا ہے ۔ شملت الشاۃ بکری کے تھنوں پر غلاف چڑھانا اور شمال کے معنی عادت بھی آتے ہیں ۔ کیونکہ وہ بھی چادر کی طرح انسان پر مشتمل ہوجاتی ہے ۔ الشمول شراب کیونکہ وہ عقل کو ڈھانپ لیتی ہے اور شراب کو شمول کہنا ایسے ہی ہے جیسا کہ عقل کو ڈھانپ لینے کی وجہ سے خمر کہا جاتا ہے ۔ الشمال ( بکسرالشین ) وہ ہوا جو کعبہ کی بائیں جانب سے چلتی ہے اور اس میں ایک لغت شمال ( بفتحہ شین بھی ہے ۔ شامل واشمل کے معنی شمال کی جانب میں جانے کے ہیں جیسے جنوب سے اجنب ۔ ( جنوب کو جانا ) کنایہ کے طور پر تلوار کو مشتمل کہا جاتا ہے جیسا کہ اسے رداع سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ اسی سے مرتد بالسیف ومتدرعا لہ کی طرح جاء مشتملا بسیفہ کا محاورہ ہے ۔ : ناقۃ شملۃ و شمال ۔ باد شمالی کی طرح تیز اونٹنی ۔ اور شاعر کے قول ع ( الکامل ) ( 262 ) ولتعرفنّ خلائقا مشمولة ... ولتندمنّ ولات ساعة مندم تم عمدہ اخلاق کو پہچان لو گے اور تم پشیمانی اٹھاؤ گے لیکن وہ وقت پشیمانی کا نہیں ہوگا ۔ میں مشمولۃ سے مراد پاکیزہ اخلاق ہیں گویا باد شمال نے ( شراب کی طرح ) انہیں ٹھنڈا اور خوش گوار بنا دیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤١{ وَاَصْحٰبُ الشِّمَالِ مَـآ اَصْحٰبُ الشِّمَالِ ۔ } ” اور بائیں والے ! کیا (ہی برا) حال ہوگا بائیں والوں کا ! “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤١۔ ٥٦۔ مقربین اور دائیں ہاتھ والوں کے بعد یہ بائیں ہاتھ والوں کے حال کا ذکر فرمایا۔ سموم اس گرم ہوا کو کہتے ہیں جو آدمی کے جسم کے اندر گھس جاتی ہے اور دل اور جگر کو جلا دیتی ہے۔ یحموم کے معنی دھواں زقوم وہ کانٹے دار درخت دوزخ میں ہوا جو بھوک کے وقت دزخیوں کو کھلایاجائے گا۔ ترمذی ١ ؎ نسائی اور ابن ماجہ وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر تھوڑا سا زقوم بھی زمین پر آن پڑے تو اس کی بدبو سے تمام اہل دنیا کی زندگی تلخ ہوجائے۔ ترمذی اور حاکم نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ معتبر سند سے بیہقی مسند ٢ ؎ امام احمد وغیرہ میں ابی امامہ اور اب دردا سے جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب زقوم اہل دوزخ کو کھلایا جائے گا اور اس کے کانٹے ان کے حلق میں پھنسیں گے تو ایسا گرم پانی ان کو پلایا جائے گا جس سے ان کی انتڑیاں کٹ کر نکل پڑیں گی۔ سورة المرسلات میں آئے گا کہ حساب سے فارغ ہونے تک ایسے لوگوں پر دوزخ کی آگ کا دھواں سایہ کی طرح چھا رہے گا جس میں بڑی بڑی چنگاریاں آگ کی ان لوگوں پر جھڑتی رہیں گی۔ اسی کا ذکر ان آیتوں میں فرمایا کہ اس دھویں کا سایہ میں نہ تو کچھ ٹھنڈک ہے نہ وہ سایہ کچھ ان کی عزت بڑھانے کے لئے ہوگا بلکہ وہ تو ان پر آگ کی چنگاریاں برسانے کا گویا ایک بادل ہوگا۔ ان آیتوں میں ایسے لوگوں کے عذاب میں پکڑے جانے کا سبب بھی بتایا کہ یہ لوگ اپنی خوشحالی میں ایسے بدمست ہوگئے تھے کہ اللہ کی عبادت میں بتوں کو شریک کرتے تھے اور دنیا کی خوشحالی کے نشہ میں عقبیٰ کے منکر تھے۔ حالانکہ اللہ کا یہ وعدہ ہے کہ اس طر کے سب اگلے پچھلوں کو جمع کرکے ان کو زقوم اور کھولتا پانی اس طرح کھلایا پلایا جایا کرے گا جس طرح اصرار سے مہمان کو کھانا پانی کھلایا پلایا جاتا ہے ھیم ان اونٹوں کو کہتے ہیں جن کو تونس ہوجاتی ہے اور کتنا ہی پانی وہ پی جائیں لیکن ان کی پیاس نہیں بجھتی۔ نزل اس کھانے کو کہتے ہیں جو مہمان کے سامنے رکھا جاتا ہے۔ صحیح ١ ؎ مسلم کی انس بن مالک کی حدیث اوپر گزر چکی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ سے فرمایا ‘ دوزخ کا تفصیلی حال جو کچھ میں نے دیکھا ہے وہ تم لوگوں کو معلوم ہوجائے تو تمہاری ہنسی کم ہوجائے اور ہر وقت تم روتے رہو۔ اس سے معلوم ہا کہ دنیا کا انتظام قائم رہنے کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دوزخ کا جو کچھ حال بیان فرمایا ہے وہ مختصر ہے تفصیلی بیان دوزخ کا اس سے بہت زیادہ ہے۔ (١ ؎ جامع ترمذی باب ماجاء فی صفۃ شراب اھل النار ص ٩٥ ج ٢۔ ) (٢ ؎ الرتغیب الترہیب فصل و شراب اھل النار ص ٨٩٤ ج ٤ ایضاً فی فصل طعام اھل النار ص ٨٩٩ ج ٣ و جامع ترمذی باب ماجاء فی طعام اھل النار ص ٩٥ و ٩٦ ج ٢۔ ) (١ ؎ صحیح مسلم باب الامر بتحسین الصلوٰۃ واتمام مھا الخ ص ١٧٠ ج ١۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(56:41) واصحب الشمال ما اصحب الشمال۔ شمال ، جانب شمال، بائیں طرف اسم ہے۔ اشمل وشمل اس کی جمع ہے۔ آیت ہذا کا عطف آیت 27 پر ہے۔ اور جو بائیں طرف والے ہیں۔ ما اصحاب الشمال : میں ما استفہامیہ ہے یا استفہامیہ برائے تعجب ہے (ملاحظہ ہو آیت 8) مذکورہ بالا۔ اصحب الیمین کے متعلق آیت 27 کے تحت مختلف اقوال درج کئے گئے ہیں کہ ان کو اصحاب الیمین کیوں کہا گیا ہے۔ شمال : یمین کی ضد ہے۔ لہٰذا اصحاب الیمین کے خلاف صفات رکھنے والے اصحاب الشمال ہوں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام :” اَصْحَابُ الْیَمِیْنِ “ کے بعد ” اَصْحَاب الشِّمَالِ “ کا ذکر۔ یہاں بھی قرآن مجید نے اپنے اسلوب کے مطابق دو فریقوں کا مقابلتاً ذکر کیا ہے۔ پہلے ” اَصْحَابُ الْیَمِیْنِ “ کے بارے میں فرمایا کہ ” اَصْحَابُ الْیَمِیْنِ “ کی خوش بختی کا کیا کہنا ؟ انہیں اللہ تعالیٰ قسما قسم کے انعامات سے نوازے گا اور کھانے کے لیے ہر قسم کے پھل اور پرندوں کا گوشت دیا جائے گا۔ پینے کے لیے ایسے مشروبات دیئے جائیں گے جن میں کسی قسم کی غنودگی اور نشہ نہیں ہوگا۔ ان کے مقابلے میں اصحاب الشمال کے بارے میں فرمایا ہے کہ ” اَصْحَاب الشِّمَالٍ “ کی بد نصیبی کا کیا کہنا ؟ وہ شدید ترین آگ کی لو، کھولتے ہوئے پانی اور اور کالے دھوئیں میں پھنسے ہوئے ہوں گے، انہیں نہ ٹھنڈا پانی دیا جائے گا اور نہ ہی پرسکون جگہ میسر ہوگی۔ دوسرے مقام پر فرمایا ہے کہ جب انہیں پیاس لگے گی تو نہ صرف انہیں کھولتا ہوا پانی پلایا جائے گا بلکہ جہنم کی پیپ بھی پلائی جائے گی۔ (ابراہیم : ١٦) پیاس کی شدت کی وجہ سے جہنمی پیپ اور کھولتا ہوا پانی پیئیں گے اسی سورت میں ذکر کیا ہے کہ پیاس کی شدت کی وجہ سے جہنمی اس طرح کھولتا ہوا پانی پئیں گے جس طرح پیاسا اونٹ پانی پیتا ہے۔ (الواقعہ : ٥٤، ٥٥) مسائل ١۔ بائیں طرف والوں کا براحال ہوگا۔ ٢۔ بائیں جانب والوں کو نہ ٹھنڈا پانی ملے گا اور نہ ہی وہ آرام پائیں گے۔ ٣۔ بائیں طرف والے آگ کی لپیٹ، کھولتے ہوئے پانی اور کالے دھوئیں سے دوچار ہوں گے۔ تفسیر بالقرآن بائیں طرف والوں کی مختلف سزائیں : ١۔ آنتوں اور کھالوں کا بار بار جلنا۔ (النساء : ٥٦) ٢۔ ان کی کی کھال کا بار بار بدلہ جانا۔ (الحج : ٢٠) ٣۔ کانٹے دار جھاڑیوں کا کھانادیا جانا۔ (الغاشیہ : ٦) ٤۔ کھانے کا گلے میں اٹک جانا۔ (المزمل : ١٣) (الانعام : ٧٠) (النبا : ٢٥) (الحج : ١٩) (الحج : ٢١، ٢٢) (بنی اسرائیل : ٩٧) (الواقعہ : ٤٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

واصحب الشمال ............ یوم الدین (٦ 5) (٦ 5: ١ 4 تا 45) ” اور بائیں بازو والے ، بائیں بازو والوں (کی کا کیا پوچھنا ، وہ لو کی لپٹ اور کھولتے ہوئے پانی اور کالے دھوئیں کے سائے میں ہوں گے جو نہ ٹھنڈا ہوگا نہ آرام دہ۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جو اس انجام کو پہنچنے سے پہلے خوشحال تھے اور گناہ عظیم پر اصرار کرتے تھے۔ کہتے تھے ” کیا جب ہم مرکر خاک ہوجائیں گے اور ہڈیوں کا پنجر رہ جائیں گے تو پھر اٹھا کھڑے کئے جائیں گے ؟ اور کیا ہمارے باپ دادا بھی اٹھائے جائیں گے جو پہلے گزر چکے ہیں ؟ “ اے نبی ان لوگوں سے کہو ، یقینا اگلے اور پچھلے سب ایک دن ضرور جمع کئے جانے والے ہیں جس کا وقت مقرر کیا جاچکا ہے پھر اسے گمراہو اور جھٹلانے والو ، تم زقوم کے درخت کی غذا کھانے والے ہو۔ اسی سے تم پیٹ بھروگے اور اوپر سے کھولتا ہوا پانی تونس لگے ہوئے اونٹ کی طرح پیو گے۔ یہ ہے (ان بائیں بازوہ والوں) کی ضیافت کا سامان روز جزا میں۔ “ واصحب الیمین (٦ 5: ٧٢) لمبی چھاؤ میں اور بہتے ہوئے پانیوں کے پاس۔ واصحب ................ ولا کریم (44) (٦ 5: ١ 4 تا 44) وہ لو کی لپٹ اور کھولتے ہوئے پانی اور کالے دھوئیں کے سائے میں ہوں گے جو نہ ٹھنڈا ہوگا اور نہ آرام دہ۔ ہوا ایسی گرم ہوگی جس طرح آگ کے شعلے۔ وہ مساموں میں پہنچ کر جسم کو بھون ڈالے گی اور پانی اس قدر گرم ہوگا کہ وہ ٹھنڈک نہیں پہنچائے گا اور نہ پیاس بجھائے گا سایہ ہوگا مگر وہ دھویں کا سایہ ہوگا جس سے گلا گھٹ جائے گا اور اسے سایہ محض بطور مزاح کیا گیا ہے۔ سایہ نہ ٹھنڈا ہوگا اور نہ آرام دہ ہوگا۔ یہ تو کرم سایہ ہوگا اس میں آرام اور ٹھنڈک نہ ہوگی۔ وہ اس قدر سخت ہوگا کہ اس سے گلا گھٹ جائے گا۔ آرام تو دور کی بات ہے اور یہ نان جویں ان کے لئے ٹھیک سزا ہے کیونکہ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اصحاب الشمال کا عذاب ان آیات میں اصحاب الشمال کے عذاب کا تذکرہ فرمایا ہے جنہیں شروع سورت میں اصحاب المشئمہ سے تعبیر فرمایا تھا، ارشاد فرمایا ﴿ وَ اَصْحٰبُ الشِّمَالِ ١ۙ۬ مَاۤ اَصْحٰبُ الشِّمَالِؕ٠٠٤١﴾ (اور بائیں جانب والے کیسے ہی برے ہیں بائیں جانب والے) ﴿فِيْ سَمُوْمٍ ﴾ (یہ لوگ سخت گرم زہریلی ہوا میں ہوں گے) ﴿ وَّ حَمِيْمٍۙ٠٠٤٢﴾ خوب زیادہ سخت گرم پانی میں ہوں گے) ﴿وَّظِلٍّ مِّنْ يَّحْمُوْمٍۙ٠٠٤٣﴾ (اور ایسے سایہ میں ہوں گے جو یحموم کا سایہ ہوگا) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ یحموم سے دخان اسود یعنی کالا دھواں مراد ہے۔ یہ ظل ممدود کے مقابلہ میں بیان فرمایا ہے، اصحاب الیمین بہت بڑے لمبے چوڑے گہرے سایہ میں ہوں گے اور ﴿ اَصْحٰبُ الشِّمَالِ ﴾ اس کے برعکس سخت گرم کالے دھوئیں میں ہوں گے ﴿ لَّا بَارِدٍ وَّ لَا كَرِيْمٍ ٠٠٤٤﴾ (یہ دھواں نہ ٹھنڈا ہوگا نہ فرحت بخش ہوگا) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

15:۔ ” واصحب الشمال “ یہ دوسری جماعت کے احوال کا بیان ہے۔ اصحاب الشمال کا کیا پوچھتے ہو ان کا حال نہایت برا اور ناگفتہ بہ ہوگا۔ فی سموم الخ، مبتدا ” ھم “ محذوف ہے اور یہ اصحاب الشمال کے حال بد کا بیان ہے۔ ان کو ٹھنڈی ہوا اور ٹھنڈے پانی کے بجائے نہایت ہی گرم اور زہریلی ہوا اور کھولتا ہوا پانی نصیب ہوگا اور گرمی سے بچنے کے لیے کوئی سایہ نہ ہوگ سوا اس دھواں کے جو جہنم کی آگ سے اٹھے گا۔ اہل دوزخ دوڑ کر اس کے سائے میں پناہ لینے کی کوشش کریں گے۔ ” لا بارد ولا کریم “ مگر وہ سایہ نہ ٹھنڈا ہوگا اور نہ کسی حد تک مفید ہوگا اس سے ان کے عذاب میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوگی۔ السموم الریح الحارۃ التی توثرتاثیر السیم (مفردات راغب ) ۔ حمیم وھو الماء الشدید الھرارۃ (روح ج 27 ص 143) ۔ (یحموم) ای دخان شدیدالسواد۔ (لا بارد) کسائر الظل (ولا کریم) ای لا نافع بوجہ ما (مطیر ج 9 ص 176) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(41) اور بائیں ہاتھ والے سو وہ بائیں ہاتھ والے کیسی بری حالت میں ہیں۔ یعنی جن کے نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں دیئے گئے یا ان کو بائیں جانب کھڑا کیا گیا۔