Surat ul Waqiya

Surah: 56

Verse: 5

سورة الواقعة

وَّ بُسَّتِ الۡجِبَالُ بَسًّا ۙ﴿۵﴾

And the mountains are broken down, crumbling

اور پہاڑ بالکل ریزہ ریزہ کر دیئے جائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And the mountains will be powdered to dust, meaning, relentlessly pulverized. This was said by Ibn Abbas, Mujahid, Ikrimah and Qatadah and others. Ibn Zayd said: "The mountains will become just like Allah described them, كَثِيباً مَّهِيلً A heap of sand poured out. (73:14)" Allah's saying: فَكَانَتْ هَبَاء مُّنبَثًّا

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

5۔ 1 رَجًا کے معنی حرکت و اضطراب (زلزلہ) اور بس کے معنی ریزہ ریزہ ہوجانے کے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣] یعنی زمین پر زلزلہ کسی مقامی سطح پر نہیں آئے گا۔ بلکہ ساری کی ساری زمین ہی لرزنے کپکپانے اور ہچکولے کھانے لگے گی۔ پہاڑوں کی گرفت زمین پر سے ڈھیلی پڑجائے گی۔ اور ایک پتھر دوسرے پر گر کر ریت کی طرح ریزہ ریزہ ہوجائے گا۔ پھر تیز ہوا ان پہاڑوں کے ذرات کو پراگندہ کرکے اڑاتی پھرے گی۔ سوچ لو کیا اس وقت تمہارا زمین پر زندہ رہنا ممکن رہ جائے گا ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَّ بُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا :” بس یبس بسا “ ( ن) ریزہ ریزہ کرنا۔” بسا “ مصدر کے ساتھ پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کرنے میں مبالغے کا اظہار مقصود ہے ، جیسا کہ فرمایا :(وَ یَسْئَلُوْنَـکَ عَنِ الْجِبَالِ فَقُلْ یَـنْسِفُھَا رَبِّی نَسْفًا فَـیَـذَرُھَا قَاعًا صَفْصَفًا لَّا تَرٰی فِیْھَا عِوَجاً وَّلَآ اَمْتًا ) (طہٰ : ١٠٥ تا ١٠٧) ” اور تجھ سے پہاڑوں کے بارے میں پوچھیں گے تو تو کہہ دے میرا رب انہیں اڑا کر بکھیر دے گا۔ پھر انہیں ایک چٹیل میدان بنا کر چھوڑے گا ۔ جس میں تو نہ کوئی کچی دکھے گا اور نہ کوئی ابھری جگہ “۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا۝ ٥ ۙ بسَ قال اللہ تعالی: وَبُسَّتِ الْجِبالُ بَسًّا[ الواقعة/ 5] ، أي : فتّتت، من قولهم : بَسَسْتُ الحنطة والسویق بالماء : فتتّه به، وهي بَسِيسَةٌ ، وقیل : معناه : سقت سوقا سریعا، من قولهم : انْبَسَّتِ الحيّات : انسابت انسیابا سریعا، فيكون کقوله عزّ وجلّ : وَيَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبالَ [ الكهف/ 47] ، وکقوله : وَتَرَى الْجِبالَ تَحْسَبُها جامِدَةً وَهِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحابِ [ النمل/ 88] . وبَسَسْتُ الإبلَ : زجرتها عند السوق، وأَبْسَسْتُ بها عند الحلب، أي : رقّقت لها کلاما تسکن إليه، وناقة بَسُوس : لا تدرّ إلا علی الإِبْسَاس، وفي الحدیث : «جاء أهل الیمن يَبُسُّونَ عيالهم» أي : کانوا يسوقونهم . ( ب س س ) آیت کریمہ : وَبُسَّتِ الْجِبالُ بَسًّا[ الواقعة/ 5] میں بست کے معنی پہاڑوں کے ریزہ ریزہ ہوہوجانا کے ہیں اور یہ بسست الحنطۃ والسویق بالماء کے محاورہ سے ماخوذ ہے ۔ جس کے معنی پانی میں گندم یا جو کے ستو ڈال کر نشاستہ نکالنے کے ہیں اور نشاستہ کو بسیسۃ کہا جاتا ہے بعض نے اس کے معنی تیز ہنکانا کئے ہیں اور کہا ہے یہ انبست الحیۃ کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی سانپ کے نہایت تیزی کے ساتھ اپنے بل کی طرف دوڑنا کے ہیں اور اسی معنی کو دوسری جگہ وَيَوْمَ نُسَيِّرُ الْجِبالَ [ الكهف/ 47] اور : وَتَرَى الْجِبالَ تَحْسَبُها جامِدَةً وَهِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحابِ [ النمل/ 88] کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے اونٹو کو ہنکاتے وقت ڈانٹنا اونٹی دوہنے کے وقت اس کو چمکارنا اور اس اونٹنی کو جو بغیر چمکارنے کے دودھ دے بسوس کہا جاتا ہے ۔ حدیث میں ہے ؟ کہ اہل یمن اپنے اہل و عیال کو نرمی سے چلاتے ہوئے آپہنچے ہیں ۔ جبل الجَبَل جمعه : أَجْبَال وجِبَال، وقال عزّ وجل : أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ/ 6- 7] ( ج ب ل ) قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ/ 6- 7] کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا |" ۔ اور پہاڑوں کو ( اس کی میخیں ) نہیں ٹھہرایا ؟

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥{ وَّبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا ۔ } ” اور پہاڑ بالکل ریزہ ریزہ کردیے جائیں گے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(56:5) وبست الجبال بسا۔ اس جملہ کا عطف جملہ سابقہ پر ہے۔ بست ماضٰ مجہول واحد مؤنث غائب۔ بس (باب نصر) مصدر بمعنی خلط ملط کرنا۔ اجزاء کا باہم دگر ملا دینا ریزہ ریزہ کرنا۔ عربی قاعدہ ہے کہ جب فاعل اسم ظاہر ہوتا ہے تو فعل کو واحد لاتے ہیں۔ اور جمع مکسر کا حکم (یعنی جس میں واحد کا وزن سلامت نہ رہے) مؤنث غیر حقیقی کا حکم ہے اس کے لئے مذکر کا صیغہ بھی لایا جاسکتا ہے اور مؤنث کا بھی۔ چناچہ بست الجبال بسا میں چونکہ جبال جمع مکسر ہے۔ اس لئے اس کے لئے واحد مؤنث کا صیغہ لایا گیا۔ لہٰذا یہاں بست کے ترجمہ میں صیغہ جمع کے معنی لینا چاہئیں۔ یعنی جب پہاڑ ریزہ ریزہ کر دئیے جائیں گے : بسا مفعول مطلق ہے تاکید کے لئے لایا گیا ہے

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وبست ............ بثا (٦) (54:5 تا ٦) ” اور پہاڑ اس طرح ریزہ ریزہ کردیئے جائیں گے کہ پراگندہ غبار بن کر رہ جائیں گے۔ “ اس خوف کا کیا عالم ہوگا کہ زمین مسلسل ہل رہی ہوگی اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے اور غبار کے ذرات کی طرح فضائے آسمان میں بکھر جائیں گے۔ کتنے ہی جاہل ہیں وہ لوگ جو اپنے آپ کو اس خطرے سے دو چار کرتے ہیں۔ اس طرح کہ وہ آخرت کا انکار کرتے ہیں اور اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔ زمین اور پہاڑوں کا یہ حشر ہوگا تو انسان کیا کرسکیں گے۔ سورة کا آغاز اس خوفناک فضا میں ہوتا ہے۔ انسانی احساس و شعور پر ڈر چھا جاتا ہے۔ یہ ہوگا وہ عظیم واقعہ جس کا کافر انکار کرتے ہیں۔ مشرکین اسے جھٹلاتے ہیں۔ یہ ہے اس سورة کا پہلا منظر جس میں زمین متزلزل ، پہاڑ ریزہ ریزہ اور تمام چیزوں کو زیروزبر کردیا جائے گا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(5) اور پہاڑ بالکل ریزہ ریزہ کردیئے جائیں گے۔