Surat ul Waqiya

Surah: 56

Verse: 51

سورة الواقعة

ثُمَّ اِنَّکُمۡ اَیُّہَا الضَّآلُّوۡنَ الۡمُکَذِّبُوۡنَ ﴿ۙ۵۱﴾

Then indeed you, O those astray [who are] deniers,

پھر تم اے گمراہو جھٹلانے والو !

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لاَاكِلُونَ مِن شَجَرٍ مِّن زَقُّومٍ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ثُمَّ اِنَّکُمْ اَیُّہَا الضَّآلُّوْنَ الْمُکَذِّبُوْنَ ۔۔۔۔:” الھیم “” اھیم “ ( مذکر) اور ” ھیمائ “ ( مؤنث) کی جمع ہے ، بروزن ” فعل “ ” ہا “ پر اصل میں ضمہ تھا ، ” یائ “ کی مناسبت سے ضمہ کو کسرہ سے بدل دیا ، جیسے ” ابیض “ اور بیضائ “ کی جمع ” بیض “ ہے۔ وہ اونٹ جنہیں ہیام (بروزن زکام) کا مرض لا حق ہو ، یعنی ایسی پیاس جس سے اونٹ پانی پیتے جاتے ہیں مگر وہ بجھتی ہی نہیں حتیٰ کہ وہ مرجاتے ہیں یا قرب الموت ہوجاتے ہیں۔ ان آیات کی تفسیر کے لیے دیکھئے سورة ٔ صافات (٦٣ تا ٦٨)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ثُمَّ اِنَّكُمْ اَيُّہَا الضَّاۗلُّوْنَ الْمُكَذِّبُوْنَ۝ ٥١ ۙ أيا أَيُّ في الاستخبار موضوع للبحث عن بعض الجنس والنوع وعن تعيينه، ويستعمل ذلک في الخبر والجزاء، نحو : أَيًّا ما تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الإسراء/ 110] ، وأَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلا عُدْوانَ عَلَيَّ [ القصص/ 28] ( ا ی ی ) ای ۔ جب استفہام کیلئے ہو تو جنس یا نوع کی تعیین اور تحقیق کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور یہ خبر اور جزا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَيًّا مَا تَدْعُوا فَلَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى } ( سورة الإسراء 110) جس نام سے اسے پکارا اس کے سب نام اچھے ہیں { أَيَّمَا الْأَجَلَيْنِ قَضَيْتُ فَلَا عُدْوَانَ عَلَيَّ } ( سورة القصص 28) کہ میں جونسی مدت ( چاہو ) پوری کردوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی نہ ہو ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥١{ ثُمَّ اِنَّـکُمْ اَیُّـہَا الضَّآلُّوْنَ الْمُکَذِّبُوْنَ ۔ } ” پھر تم ‘ اے گمراہو اور جھٹلانے والو ! “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(56:51) ثم۔ حرف عطف ہے ماقبل سے مابعد کے متاخر ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ پھر۔ انکم : ان حرف مشبہ بالفعل۔ کم ضمیر جمع مذکر حاضر، بیشک تم، یہاں خطاب اہل مکہ سے ہے۔ یا خطاب عام ہے ہر گمراہ اور جھٹلانے والے سے۔ الضالون : ای الضالون عن الھدی۔ راہ ہدایت سے بھٹکے ہوئے اسم فاعل کا صیغہ جمع مذکر۔ ضلال (باب ضرب، مضاعف) مصدر بمعنی گمراہ ہوجانا۔ بہکنا۔ راہ سے دور ہوجا پڑنا۔ گم ہونا۔ ہلاک ہونا۔ ضائع ہونا۔ المکذبون : اسم فاعل جمع مذکر۔ تکذیب (تفعیل) مصدر۔ جھٹلانے والے ۔ تکذیب کرنے والے۔ مراد مکذبون بالبعث : دوبارہ جی اٹھنے کو جھٹلانے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ثم انکم ............ زقوم (٦ 5: ٢ 5) ” پھر اے گمرا ہوا اور جھٹلانے والو ، تم زقوم کے درخت کی غذا کھانے والے ہو۔ “ اور زقوم کے درخت کے بارے میں انسان صرف اسی قدر جانتے ہیں جس قدر اللہ نے قرآن میں بتایا ہے کہ اس کا پھل اس طرح ہے جس طرح شیطان کا سر اور شیطان کا سر تو کسی نے دیکھا نہیں ہے لیکن احساس کے اندر جو بری صورت کی سری ہوسکتی ہے وہ شیطان کا سر ہے اور اس طرح یہ پھل بھی۔ لفظ زقوم کا تلفظ بھی یہ بتاتا ہے کہ وہ کرخت کانٹے دار قسم کی کوئی بدصورت اور بدذائقہ چیز ہو کہ ہاتھوں میں لیتے ہی کانٹے چبھ جائیں گے۔ حلق کو زخمی کردے گا اور یہ ہے بمقابلہ ان بیریوں کے جن کے کانٹے صاف ہے اور ان کیلوں کے جو تہ بر تہ میزوں پر رکھے ہوئے ہیں۔ اور باوجود اس کے کہ وہ رؤس شیاطین کی طرح ہوں گے۔ یہ اس کو کھائیں گے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(51) پھر اے گمراہو اور دین حق کی تکذیب کرنے والو۔