Surat ul Waqiya
Surah: 56
Verse: 52
سورة الواقعة
لَاٰکِلُوۡنَ مِنۡ شَجَرٍ مِّنۡ زَقُّوۡمٍ ﴿ۙ۵۲﴾
Will be eating from trees of zaqqum
البتہ کھانے والے ہو تھوہر کا درخت ۔
لَاٰکِلُوۡنَ مِنۡ شَجَرٍ مِّنۡ زَقُّوۡمٍ ﴿ۙ۵۲﴾
Will be eating from trees of zaqqum
البتہ کھانے والے ہو تھوہر کا درخت ۔
[٢٥] زَقُّوْمٍ بمعنی تھوہر کا درخت جس کے پتے چوڑے، موٹے & بڑے بڑے اور خار دار ہوتے ہیں۔ ذائقہ میں نہایت کڑوا اور اس کا لعاب زہریلا ہوتا ہے۔ بدن کے کسی حصہ سے لگ جائے تو پھوڑے پھنسیاں نکل آتی ہیں۔ مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورة صافات کی آیت نمبر ٦٤ کا حاشیہ۔
لَاٰكِلُوْنَ مِنْ شَجَرٍ مِّنْ زَقُّوْمٍ ٥٢ ۙ أكل الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد/ 35] ( ا ک ل ) الاکل کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے { أُكُلُهَا دَائِمٌ } ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔ شجر الشَّجَرُ من النّبات : ما له ساق، يقال : شَجَرَةٌ وشَجَرٌ ، نحو : ثمرة وثمر . قال تعالی: إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح/ 18] ، وقال : أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها [ الواقعة/ 72] ، وقال : وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ [ الرحمن/ 6] ، لَآكِلُونَ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ [ الواقعة/ 52] ، إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ [ الدخان/ 43] . وواد شَجِيرٌ: كثير الشّجر، وهذا الوادي أَشْجَرُ من ذلك، والشَّجَارُ الْمُشَاجَرَةُ ، والتَّشَاجُرُ : المنازعة . قال تعالی: حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء/ 65] . وشَجَرَنِي عنه : صرفني عنه بالشّجار، وفي الحدیث : «فإن اشْتَجَرُوا فالسّلطان وليّ من لا وليّ له» «1» . والشِّجَارُ : خشب الهودج، والْمِشْجَرُ : ما يلقی عليه الثّوب، وشَجَرَهُ بالرّمح أي : طعنه بالرّمح، وذلک أن يطعنه به فيتركه فيه . ( ش ج ر ) الشجر ( درخت وہ نبات جس کا تنہ ہو ۔ واحد شجرۃ جیسے ثمر و ثمرۃ ۔ قرآن میں ہے : إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح/ 18] جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے ۔ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها [ الواقعة/ 72] کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ۔ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ [ الرحمن/ 6] اور بوٹیاں اور درخت سجدہ کررہے ہیں ۔ مِنْ شَجَرٍ مِنْ زَقُّومٍ [ الواقعة/ 52] ، تھوہر کے درخت سے إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ [ الدخان/ 43] بلاشبہ تھوہر کا درخت گنجان درختوں والی وادی ۔ بہت درختوں والی جگہ ۔ ھذا الوادی اشجر من ذالک اس وادی میں اس سے زیادہ درخت ہیں ۔ الشجار والمشاجرۃ والتشاجر باہم جھگڑنا اور اختلاف کرنا ۔ قرآن میں ہے ۔ فِيما شَجَرَ بَيْنَهُمْ [ النساء/ 65] اپنے تنازعات میں ۔ شجرنی عنہ مجھے اس سے جھگڑا کرکے دور ہٹا دیا یا روک دیا حدیث میں ہے ۔ (189) فان اشتجروا فالسلطان ولی من لا ولی لہ اگر تنازع ہوجائے تو جس عورت کا ولی نہ ہو بادشاہ اس کا ولی ہے الشجار ۔ ہودہ کی لکڑی چھوٹی پالکی ۔ المشجر لکڑی کا اسٹینڈ جس پر کپڑے رکھے یا پھیلائے جاتے ہیں ۔ شجرہ بالرمح اسے نیزہ مارا یعنی نیزہ مار کر اس میں چھوڑ دیا ۔ زقم إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان/ 43- 44] ، عبارة عن أطعمة كريهة في النار، ومنه استعیر : زَقَمَ فلان وتَزَقَّمَ : إذا ابتلع شيئا كريها . ( ز ق م ) الزقوم تھوہر کا درخت ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ شَجَرَةَ الزَّقُّومِ طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان/ 43- 44] بیشک سینڈھ کا درخت ۔ میں زقوم سے دوزخ کے کریہہ کھانے مراد ہیں اور اس سے استعارہ کے طور پر کہا جاتا ہے ۔ زقم فلان وتزقم اس نے کوئی کریہہ چیز نگل لی ۔
آیت ٥٢{ لَاٰکِلُوْنَ مِنْ شَجَرٍ مِّنْ زَقُّوْمٍ ۔ } ” ضرور کھائو گے زقوم کے درخت سے۔ “ تم بھٹکے ہوئے تھے ‘ ہم نے تمہاری راہنمائی کے لیے اپنا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجا ‘ کتاب ہدایت بھیجی : { تَـبْصِرَۃً وَّذِکْرٰی لِکُلِّ عَبْدٍ مُّنِیْبٍ ۔ } (قٓ) یہ سب کچھ تمہاری آنکھیں کھولنے کے لیے تھا ۔ لیکن اس کے باوجود تم نے ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی جھٹلادیا ‘ ہماری کتاب کی بھی تکذیب کی اور گمراہ رہنے کو ہی ترجیح دی ۔ تو اے بھٹکے ہوئے اور ہماری ہدایت کو جھٹلانے والے لوگو ! اب جہنم کے اندر تمہاری ضیافت زقوم کے درخت سے ہی کی جائے گی۔ (١) (١) زقوم کے حوالے سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (لَـوْ اَنَّ قَطْرَۃً مِنَ الزَّقُّوْمِ قُطِرَتْ فِیْ دَارِ الدُّنْیَا لَاَفْسَدَتْ عَلٰی اَھْلِ الدُّنْیَا مَعَایِشَھُمْ فَکَیْفَ بِمَنْ یَکُوْنُ طَعَامَہٗ ) (سنن الترمذی ‘ ابواب صفۃ جھنم ‘ باب ما جاء فی صفۃ شراب اھل النار) ” اگر زقوم کا ایک قطرہ بھی دنیا میں ٹپکا دیا جائے تو دنیا والوں کے لیے ان کی زندگی برباد کر دے ‘ تو پھر ان لوگوں کا کیا حال ہوگا جن کی غذا ہی یہی ہوگی ! “ ” زقوم “ صحرائے عرب کا ایک درخت ہے ‘ جس کے بارے میں مولانا مودودی (رح) نے لکھا ہے : ” زقوم ایک قسم کا درخت ہے جو تہامہ کے علاقے میں ہوتا ہے ۔ مزہ اس کا تلخ ہوتا ہے ‘ بو ناگوار ہوتی ہے اور توڑنے پر اس میں سے دودھ کا سا رس نکلتا ہے جو اگر جسم کو لگ جائے تو ورم ہوجاتا ہے۔ غالباً یہ وہی چیز ہے جسے ہمارے ملک میں تھوہر کہتے ہیں۔ “ (تفہیم القرآن ‘ جلد ٤ ‘ ص ٢٨٩) اس کے بارے میں مفتی محمد شفیع (رح) رقم طراز ہیں : ” بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح سانپ بچھو وغیرہ دنیا میں بھی ہوتے ہیں اسی طرح دوزخ میں بھی ہوتے ہیں ‘ لیکن دوزخ کے سانپ بچھو یہاں کے سانپ بچھوئوں سے کہیں زیادہ خوفناک ہوں گے ‘ اسی طرح دوزخ کا زقوم بھی اپنی جنس کے لحاظ سے تو دنیا ہی کے زقوم کی طرح ہوگا ‘ لیکن یہاں کے زقوم سے کہیں زیادہ کریہہ المنظر اور کھانے میں کہیں زیادہ تکلیف دہ ہوگا ‘ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم ! “ (معارف القرآن ‘ جلد ٧ ‘ ص ٢٤١)
21 For the explanation of zaqqum, sec E.N. 34 of As-Saaffat.
سورة الْوَاقِعَة حاشیہ نمبر :21 زقوم کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، تفسیر سورہ صافات ، حاشیہ 34 ۔
13: دوزخ کے اس درخت کا ذکر پیچھے سورۃ صافات : 62 اور سورۃ دخان : 43 میں گذر چکا ہے۔
(56:52) لاکلون : لام تاکید کا ہے۔ اکلون اسم فاعل جمع مذکر۔ اکل باب نصر۔ مصدر۔ کھانے والے۔ من شجر من رقوم : پہلا من ابتدائیہ ہے دوسرا من بیانیہ ہے (بیضاوی) من شجرۃ الزقوم کی بجائے من شجر من زقوم کہہ کر عبادت میں زور پیدا کیا گیا ہے۔ اور شجر کو نکرہ لاکر اس کی تنقیص کی ہے۔ ترجمہ آیات 5152:۔ پھر تم اے گمراہ ہونے والو ! اے جھٹلانے والو (ضرور بالضرور حکما) تھوہر کے درخت کو کھاؤ گے۔
ف 5 اس تھوہر کے درخت سے متعلق سورة صافات میں ارشاد ہے کہ وہ ایک ایسا درخت ہے جو دوزخ کی تہ میں اگتا ہے۔ اس کی کلیاں ایسی ہیں جیسے شیطانوں کے سر (یا سانپوں کے پھن) آیت 65 ۔ 64)
فہم القرآن ربط کلام : لوگوں کے حقوق غصب کرنے، بڑے بڑے گناہوں پر اصرار کرنے اور قیامت کا انکار کرنے والوں کی مزید سزا۔ جو لگ حق داروں کو ان کے حق سے محروم رکھتے ہیں اور اپنے گناہوں پر اصرار کرتے ہیں انہیں جہنم میں جھونکا جائے گا۔ ان کے لیے تھور کا کھانا ہوگا اور پینے کے لیے کھولتا ہوا پانی دیا جائے گا۔ وہ اس طرح گھونٹ بھریں گے جس طرح پیاسا اونٹ گھونٹ بھرتا ہے۔ ملائکہ انہیں جھڑکتے ہوئے کہیں گے آج کے دن تمہاری یہی مہمان نوازی ہے۔ زقوم کا درخت جہنم کی تہہ سے پیدا ہوگا۔ (الصّٰفٰت : ٦٤) ” شدید آگ میں جھلس رہے ہوں گے۔ انہیں پینے کو کھولتے ہوئے چشمے کا پانی دیا جائے گا۔ خاردار سوکھی گھاس کے سوا کوئی کھانا نہیں ہوگا۔ جو نہ موٹا کرے نہ ان کی بھوک مٹائے گا۔ “ (الغاشیہ : ٤ تا ٧) مسائل ١۔ جہنمی کو کھانے کے لیے زقوم دیا جائے گا۔ ٢۔ جہنمی کو پینے کے لیے انتہائی ابلتا ہوا پانی دیا جائے گا جسے وہ پیاسے اونٹ کی طرح پینے کی کوشش کریں گے۔ ٣۔ ملائکہ جہنمی کو جھڑکیاں دیتے ہوئے کہیں گے کہ آج تمہاری یہی مہمان نوازی ہے۔ تفسیر بالقرآن جہنمی کی جہنم میں خوراک : (الغاشیہ : ٦) (الحج : ٢١، ٢٢) (المزمل : ١٣) (الانعام : ٧٠) (النبا : ٢٥) (الحج : ١٩) (الواقعہ : ٥٤ تا ٥٥) (الواقعہ : ٤٢)