Surat ul Waqiya

Surah: 56

Verse: 59

سورة الواقعة

ءَاَنۡتُمۡ تَخۡلُقُوۡنَہٗۤ اَمۡ نَحۡنُ الۡخٰلِقُوۡنَ ﴿۵۹﴾

Is it you who creates it, or are We the Creator?

کیا اس کا ( انسان ) تم بناتے ہو یا پیدا کرنے والے ہم ہی ہیں؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Do you not see the semen you emit? Is it you who create it, or are We the Creator? meaning, `do you make the semen remain in the wombs and create life from it therein, stage after stage? Or is Allah the One Who does all this'? Allah said,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

591یعنی تمہارے بیویوں سے مباشرت کرنے کے نتیجے میں تمہارے جو قطرات منی عورتوں کے رحموں میں جاتے ہیں، ان سے انسانی شکل و صورت بنانے والے ہم ہیں یا تم ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٧] رحم مادر میں انسانی تخلیق کا نقطہ آغاز :۔ پہلی قابل غور بات یہ ہے کہ انسان کا نطفہ بذات خود کیا چیز ہے ؟ وہ کن چیزوں سے بنتا ہے ؟ جن چیزوں سے نطفہ بنتا ہے وہ زندہ تھیں یا مردہ ؟ اور اس نطفہ کے بننے میں یا بنانے میں تمہارا بھی کچھ عمل دخل یا اختیار تھا ؟ پھر اس نطفہ کو رحم مادر میں ٹپکانے کی حد تک تو اختیار انسان کو ہے۔ اس کے بعد پھر اس کا اختیار کلی طور پر ختم ہوجاتا ہے۔ نطفہ کا ایک قطرہ لاکھوں جراثیم یا کیڑوں پر مشتمل ہوتا ہے جو صرف طاقتور خوردبین سے نظر آسکتے ہیں۔ اسی طرح رحم مادر میں نسوانی بیضہ کا وجود بھی خورد بین کے بغیر نظر نہیں آسکتا۔ نطفہ کا ایک جرثومہ جب نسوانی بیضہ میں داخل ہوتا ہے۔ پھر ان دونوں کے ملنے سے ایک چھوٹا سا زندہ خلیہ (CeLL) بن جاتا ہے۔ یہی انسانی زندگی کا نقطہ آغاز ہے اور اسی کا نام استقرار حمل ہے۔ نطفہ ٹپکانے کی حد تک تو مرد کو اختیار ہے۔ مگر یہ طاقت نہ مرد میں ہے نہ عورت میں اور نہ دنیا کی کسی اور طاقت میں کہ وہ نطفہ سے حمل کا استقرار کرا دے۔ پھر اس نقطہ آغاز سے ماں کے پیٹ میں بچے کی درجہ بدرجہ پرورش۔ ہر بچے کی الگ الگ صورت گری۔ ہر بچے کے اندر مختلف ذہنی و جسمانی قوتوں کو ایک خاص تناسب کے ساتھ رکھنا جس سے وہ ایک امتیازی انسان بن کر اٹھے۔ کیا یہ ایک خالق کے سوا کسی اور کا کام ہوسکتا ہے ؟ یا اس میں ذرہ برابر بھی کسی دوسرے کا کوئی دخل ہے ؟ پھر یہ فیصلہ کرنا بھی اللہ کے اختیار میں ہے کہ بچہ لڑکی ہو یا لڑکا۔ خوش شکل ہو یا بدشکل، اس کے نقوش تیکھے ہوں یا بھدے ؟ طاقور اور قد کاٹھ والا ہو یا کمزور نحیف اور تھوڑے وزن والا، تندرست ہو یا اندھا، بہرا، لنگڑا، ذہین ہو یا کند ذہن۔ یہ سب ایسی باتیں ہیں جو خالصتاً اللہ تعالیٰ خالق کائنات کے اختیار میں ہیں۔ کیا ان سب باتوں کو سمجھ لینے کے بعد بھی انسان یہ تصدیق نہیں کرسکتا کہ اسے پیدا کرنے والا اللہ رب العالمین ہی ہوسکتا ہے۔ اور جو مردہ غذاؤں سے ہر روز لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں انسان اور دوسرے جاندار پیدا کر رہا ہے وہ مردہ انسانوں کے بےجان ذرات سے پھر انہیں دوبارہ زندگی نہیں بخش سکتا ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ءَ اَنْتُمْ تَخْلُقُوْنَہٗٓ اَمْ نَحْنُ الْخٰلِقُوْنَ۝ ٥٩ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے أَمْ»حرف إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه : أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص/ 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ { أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ } ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٩{ ئَ اَنْتُمْ تَخْلُقُوْنَہٓٗ اَمْ نَحْنُ الْخٰلِقُوْنَ ۔ } ” کیا اس کی تخلیق تم کرتے ہو یا ہم تخلیق کرنے والے ہیں ؟ “ تم تو پانی کی وہ بوند ٹپکا کر فارغ ہوجاتے ہو۔ اس کے بعد رحم مادر میں ایک حیرت انگیز تخلیقی عمل کا آغاز ہوجاتا ہے۔ وہ نطفہ علقہ میں تبدیل ہوتا ہے ‘ علقہ سے مغضہ بنتا ہے۔ پھر ہڈیاں بنتی ہیں ‘ جوڑ بند درست ہوتے ہیں ‘ آنکھوں ‘ کانوں اور دوسرے اعضاء کا نقشہ تیار ہوتا ہے اور یہ سارا عمل تین پردوں { فِیْ ظُلُمٰتٍ ثَلٰـثٍط } (الزمر : ٦) کے اندر پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے۔ کیا اس سارے عمل میں تمہارا بھی کوئی حصہ ہے ؟ ماں کے پیٹ میں مختلف پیچیدہ تخلیقی مراحل سے گزرتے ہوئے بچے کے کسی عضو کے بنانے میں کیا کوئی تمہارا کردار بھی ہے ؟ یا اس کی تذکیر و تانیث میں تمہارا کچھ اختیار ہے ؟ ظاہر ہے اس پورے تخلیقی عمل میں تمہارا حصہ یا کردار بالکل نہیں ہے ‘ اور تم تسلیم کرتے ہو کہ نہیں ہے ‘ تو پھر اس حقیقت کو قبول کیوں نہیں کرلیتے ہو کہ یہ سب کچھ اللہ کی مرضی و منشاء اور صناعی و خلاقی کا مظہر ہے۔ جب ہم ان آیات کی تلاوت کریں تو ہر سوال کے جواب میں عجز و انکساری سے عرض کرنا چاہیے : بَلْ اَنْتَ یَارَبِّ ! کہ اے میرے پروردگار ! یہ سب تیری کاریگری ‘ تیری صناعی اور تیری خلاقی کا مظہر ہے ‘ اس میں سے ہمارے بس میں کچھ بھی نہیں۔ (تفسیر عثمانی کے مطابق بعض روایات کی بنا پر علماء نے یہ مستحب سمجھا ہے۔ )

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

24 In this brief sentence a very important question has been put before man. Apart from aII other things in the world, if man only considers as to how he himself has come into being, he can then neither have any doubts left about the doctrine of Tauhid presented by the Qur'an nor about its doctrine of the Hereafter. The process of man's own creation starts when the male has conveyed his sperm to the womb of the female. But the question is: Has the sperm by itself become endowed with the capability of producing a child, and necessarily a human child ? Or, has it been created by man himself, or, by another than God? And, is it in the power of the man, or of the woman, or of another agency in the world, to cause conception by this sperm? Then, who is responsible for the gradual formation and development of the foetus in the mother's womb, its shaping and moulding into a unique child, the provision in a particular proportion of different mental and physical powers and qualities in each child, so that it develops into a unique person, except One God? Has another than God any role to play in this? Is it done by the parents themselves? Or, by a doctor? Or, by the prophets of saints, who were themselves created in this very way? Or, by the sun and the moon and the stars, which arc themselves subject to a law? Or, by nature, which is devoid of any knowledge, wisdom, will and authority? Then, is it also in the power of another than God to decide whether the child is to be a boy or a girl? Whether it is to be beautiful or ugly, strong or weak, blind and deaf and a cripple or soundbodied, intelligent or stupid? Then, is it another than God who decides as to people of what calibre, good or and are to be created in a particular nation at a particular time, who would cause its rise or fall? If a person is not obdurate and stubborn, he will himself realize that no rational answer can be given to these questions on the basis of polytheism and atheism. Their rational answer is only one and it is this Man is wholly and entirely the creation of God; and when the truth is this, what right has this man, the creation of God, to claim freedom and independence as against his Creator, or serve another beside Him? As it is for Tauhid, so it is with regard to the Hereafter too. Man is created from a germ which cannot be seen without a powerful microscope. This gene combines in the darkness of the mother's body with the ovum (female germ) which is like itself an insignificant microscopic germ. Then by their combination a tiny living cell comes into being, which is the starting-point of human life. This cell also is too small to be seen without a microscope. Allah develops this insignificant cell in the mother's womb for nine months or so into a living human, and when its development and formation becomes complete, the mother's body itself pushes it out to raise a storm in the world. All human beings have been born into the world in this very way and are witnessing day and night this phenomenon of the birth of human beings like themselves. After this, only a foolish person could assert that the God Who is creating human beings in this way today would not be able to create the human beings created by Himself in some other way tomorrow.

سورة الْوَاقِعَة حاشیہ نمبر :24 اس مختصر سے فقرے میں ایک بڑا اہم سوال انسان کے سامنے پیش کیا گیا ہے ۔ دنیا کی تمام دوسری چیزوں کو چھوڑ کر انسان اگر صرف اسی ایک بات پر غور کرے کہ وہ خود کس طرح پیدا ہوا ہے تو اسے نہ قرآن کی تعلیم توحید میں کوئی شک رہ سکتا ہے ۔ نہ اس کی تعلیم آخرت میں ۔ انسان آخر اسی طرح تو پیدا ہوتا ہے کہ مرد اپنا نطفہ عورت کے رحم تک پہنچا دیتا ہے مگر کیا اس نطفہ میں بچہ پیدا کرنے کی ، اور لازماً انسان ہی کا بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت آپ سے آپ پیدا ہو گئی ہے؟ یا انسان نے خود پیدا کی ہے؟ یا خدا کے سوا کسی اور نے پیدا کر دی ہے؟ اور کیا یہ مرد کے ، یا عورت کے ، یا دنیا کی کسی طاقت کے اختیار میں ہے کہ اس نطفے سے حمل کا استقرار کرا دے؟ پھر استقرار حمل سے وضع حمل تک ماں کے پیٹ میں بچے کی درجہ بدرجہ تخلیق و پرورش ، اور ہر بچے کی الگ صورت گری ، اور ہر بچے کے اندر مختلف ذہنی و جسمانی قوتوں کو ایک خاص تناسب کے ساتھ رکھنا جس سے وہ ایک خاص شخصیت کا انسان بن کر اٹھے ، کیا یہ سب کچھ ایک خدا کے سوا کسی اور کا کام ہے؟ کیا اس میں کسی اور کا ذرہ برابر بھی کوئی دخل ہے؟ کیا یہ کام ماں باپ خود کرتے ہیں؟ یا کوئی ڈاکٹر کرتا ہے؟ یا وہ انبیاء اور اولیاء کرتے ہیں جو خود اسی طرح پیدا ہوئے ہیں؟ یا سورج اور چاند اور تارے کرتے ہیں جو خود ایک قانون کے غلام ہیں؟ یا وہ فطرت ( Nature ) کرتی ہے جو بجائے خود کوئی علم ، حکمت ۔ ارادہ اور اختیار نہیں رکھتی؟ پھر کیا یہ فیصلہ کرنا بھی خدا کے سوا کسی کے اختیار میں ہے کہ بچہ لڑکی ہو یا لڑکا ؟ خوبصورت ہو یا بد صورت؟ طاقتور ہو یا کمزور؟ اندھا بہرہ لنگڑا لولا ہو یا صحیح الاعضاء؟ ذہین ہو یا کند ذہن؟ پھر کیا خدا کے سوا کوئی اور یہ طے کر تا ہے کہ قوموں کی تاریخ میں کس وقت کس قوم کے اندر کن اچھی یا بری صلاحیتوں کے آدمی پیدا کرے جو اسے عروج پر لے جائیں یا زوال کی طرف دھکیل دیں؟ اگر کوئی شخص ضد اور ہٹ دھرمی میں مبتلا نہ ہو تو وہ خود محسوس کرے گا کہ شرک یا دہریت کی بنیاد پر ان سوالات کا کوئی معقول جواب نہیں دیا جا سکتا ۔ ان کا معقول جواب ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان پورا کا پورا خدا کا ساختہ و پرداختہ ہے ۔ اور جب حقیقت یہ ہے تو خدا کے ساختہ و پرداختہ اس انسان کو کیا حق پہنچتا ہے کہ اپنے خالق کے مقابلے میں آزادی و خود مختاری کا دعویٰ کرے؟ یا اس کے سوا کسی دوسرے کی بندگی بجا لائے؟ توحید کی طرح یہ سوال آخرت کے معاملہ میں بھی فیصلہ کن ہے ۔ انسان کی تخلیق ایک ایسے کیڑے سے ہوتی ہے جو طاقتور خورد بین کے بغیر نظر تک نہیں آ سکتا ۔ یہ کیڑا عورت کے جسم کی تاریکیوں میں کسی وقت اس نسوانی انڈے سے جا ملتا ہے جو اسی کی طرح ایک حقیر سا خورد بینی وجود ہوتا ہے ۔ پھر ان دونوں کے ملنے سے ایک چھوٹا سا زندہ خلیہ ( Cell ) بن جاتا ہے جو حیات انسانی کا نقطہ آغاز ہے ، اور یہ خلیہ بھی اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ خورد بین کے بغیر اس کو نہیں دیکھا جا سکتا ۔ اس ذرا سے خلیے کو ترقی دے کر اللہ تعالیٰ 9 مہینے چند روز کے اندر رحم مادر میں ایک جیتا جاگتا انسان بنا دیتا ہے ، اور جب اس کی تخلیق مکمل ہو جاتی ہے تو ماں کا جسم خود ہی اسے دھکیل کر دنیا میں اُودھم مچانے کے لیے باہر پھینک دیتا ہے ۔ تمام انسان اسی طرح دنیا میں آئے ہیں اور شب و روز اپنے ہی جیسے انسانوں کی پیدائش کا یہ منظر دیکھ رہے ہیں ۔ اس کے بعد صرف ایک عقل کا اندھا ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ جو خدا اس طرح انسانوں کو آج پیدا کر رہا ہے وہ کل کسی وقت اپنے ہی پیدا کیے ہوئے ان انسانوں کو دوبارہ کسی اور طرح پیدا نہ کر سکے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

15: اس سے مراد خود نطفے کی تخلیق بھی ہوسکتی ہے کہ اسے پیدا کرنے میں انسان کا کوئی دخل نہیں ہے، اور اس نطفے سے جو بچہ پرورش پاتا ہے، اس کی تخلیق بھی مراد ہوسکتی ہے، کیونکہ نطفے کے اس قطرے کو کئی مرحلوں سے گزار کر انسان کی شکل دینا، اس میں جان ڈالنا اور پھر اسے دیکھنے، سننے اور سمجھنے کی طاقت عطا فرمانا سوائے اللہ تعالیٰ کے کس کا کام ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(56:59) ء انتم تخلقونہ : ء استفہامیہ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب جو ما موصولہ آیت 58 کی طرف راجع ہے۔ تخلقون مضارع جمع مذکر حاضر۔ خلق (باب نصر) مصدر۔ تم پیدا کرتے ہو ؟ کیا تم اس کو (انسان کی صورت میں) پیدا کرتے ہو۔ ام : یا (ہم پیدا کرنے والے ہیں) ۔ یقینا تم تخلیق بشر نہیں کرتے ہم ہی کرتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

‘9 مطلب یہ ہے کہ اسے ہم نے بنایا۔ تم نہ اسے بنا سکتے تھے اور نہ رحم مادر میں اسے بچہ کی شکل دے سکتے تھے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ مطلب یہ کہ بنانا اور بنائے ہوئے کو ایک وقت خاص تک باقی رکھنا یہ سب ہمارا ہی کام ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(59) کیا تم اس کو انسان بناتے ہو یا ہم اس کے بنانے والے ہیں۔ یعنی مادہ منویہ کا ڈال دینا اور منی کا رحم میں پہنچانا بظاہر تمہارا کام ہے۔ لیکن نطفے کے رحم میں پہنچنے کے بعد اس کو بنانا اور رحم مادر میں اس کی تخلیق یہ کس کا کام ہے اور اندھیری کوٹھری میں کس کا دست صنعت اپنی کاریگری کے جوہر دکھاتا ہے اور وہ کس کی کلک قدرت ہے جو پانی کی بوند کو جیتا جاگتا خوش نما انسان بنانکالتا ہے۔