Surat ul Waqiya

Surah: 56

Verse: 6

سورة الواقعة

فَکَانَتۡ ہَبَآءً مُّنۡۢبَثًّا ۙ﴿۶﴾

And become dust dispersing.

پھر وہ مثل پراگندہ غبار کے ہوجائیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

So that they will become floating dust particles. Abu Ishaq narrated from Al-Harith, from Ali: "It will become like the rising dust storm that soon fades away leaving no trace of itself behind." Al-`Awfi reported from Ibn Abbas about Allah's saying: فَكَانَتْ هَبَاء مُّنبَثًّا (So that they will become floating dust particles). "It describes the rising embers from the fire when it is kindled, but when the embers land, they are extinguished quickly." Ikrimah said, "The floating dust particles that the wind scatters all around," while Qatadah said, هَبَاء مُّنبَثًّ (floating particles), "Like the dry parts of trees that the wind scatters all about." This Ayah is similar to several other Ayat that indicate that the mountains will be moved from their places, demolished and blown off their bases, becoming like carded wool on the Day of Resurrection. Three Categories of People on the Day of Resurrection Allah's statement, وَكُنتُمْ أَزْوَاجًا ثَلَثَةً

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ فَکَانَتْ ہَبَآئً مُّنْبَثًّا :” ھباء ً “ غبار کے ان ذرات کو کہتے ہیں جو روشن دان سے کمرے میں آنے والی دھوپ میں چمک رہے ہوتے ہیں ، پکڑنا چاہیں تو کچھ ہاتھ نہیں آتا ۔ ” بث یبث بشا “ ( ن) پھیلانا ۔ ’ ’ انبت انبثاتا “ ( انفعال) پھیلنا ۔ ” مثبثاً ‘ ‘ اسم فاعل ہے ، پھیلنے والا ۔ قیامت کے دن پہاڑوں پر گزرنے والے احوال کے لیے دیکھئے سورة ٔ نبا کی آیت (٢٠) کی تفسیر۔ ٢۔ ان آیات میں ” اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ “ سے لے کر ” وَّ کُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰـثَۃً “ تک بعض واقعات صور میں پہلے نفخہ کے وقت کے بیان فرمائے ہیں ، جیسے ” اِذَا رُجَّتِ الْاَرْضُ رَجًّا “ اور ” َّ بُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا “ ہے اور بعض دوسرے نفخہ کے وقت کے ہیں ، جیسے ” خَافِضَۃٌ رَّافِعَۃٌ “ اور ” َّ کُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰـثَۃً “ اور بعض دونوں نفخوں میں مشرک ہیں ، جیسے ” اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ “ اور ” لَیْسَ لِوَقْعَتِہَا کَاذِبَۃٌ “ ہے۔ چونکہ پہلے اور دوسرے نفحے کا سارا وقت قیامت ہی کا ہے ، اس لیے اس کے ہرجڑ کو ہر واقعہ کا وقت کہا جاسکتا ہے ۔ چناچہ قرآن مجید میں عموماً دونوں نفخوں کے نتیجے میں واقع ہونے والے معاملات اکٹھے ہی ذکر کیے گئے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَكَانَتْ ہَبَاۗءً مُّنْۢبَثًّا۝ ٦ ۙ هبا هَبَا الغبار يَهْبُو : ثار وسطع، والهَبْوَة کا لغبرة، والهَبَاء : دقاق التّراب وما نبت في الهواء فلا يبدو إلّا في أثنا ضوء الشمس في الكوّة . قال تعالی: فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان/ 23] ، فَكانَتْ هَباءً مُنْبَثًّا . [ الواقعة/ 6] . ( ھ ب و ) ھبا ( ن ) الغبار کے معنی غبار کے اڑنے اور فضا میں پھیل جانے کے ہیں اور ھبرۃ ( بر وزن غبرۃ اور ھباء کے معنی غبار یا ان باریک ذرات کے ہیں جو کمرے کے اندر رو شندان سے دھوپ کی کرنیں اندر پڑنے سے اڑتے ہوئے نظر آتے ہیں قرآن پاک میں ہے ۔ فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان/ 23] اور ان کو ( اس طرح رائگاں کردیں گے جیسے بکھری ہوئی دھول فَكانَتْ هَباءً مُنْبَثًّا . [ الواقعة/ 6] تو ( پہاڑ ایسے ) ہوجائیں گے ( جیسے ذرے پڑے ہوئے اڑ رہے ہیں ۔ بث أصل البَثِّ : التفریق وإثارة الشیء کبث الریح التراب، وبثّ النفس ما انطوت عليه من الغمّ والسّرّ ، يقال : بَثَثْتُهُ فَانْبَثَّ ، ومنه قوله عزّ وجل : فَكانَتْ هَباءً مُنْبَثًّا[ الواقعة/ 6] وقوله عزّ وجل : نَّما أَشْكُوا بَثِّي وَحُزْنِي[يوسف/ 86] أي : غمّي الذي أبثّه عن کتمان، فهو مصدر في تقدیر مفعول، أو بمعنی: غمّي الذي بثّ فكري، نحو : توزّعني الفکر، فيكون في معنی الفاعل . ( ب ث ث) البث ( ن ض) اصل میں بث کے معنی کسی چیز کو متفرق اور پراگندہ کرنا کے ہیں جیسے بث الریح التراب ۔ ہوانے خاک اڑائی ۔ اور نفس کے سخت تریں غم یا بھید کو بت النفس کہا جاتا ہے شتتہ فانبث بیں نے اسے منتشر کیا چناچہ وہ منتشر ہوگیا اور اسی سے فَكانَتْ هَباءً مُنْبَثًّا[ الواقعة/ 6] ہے یعنی پھر وہ منتشراذرات کی طرح اڑنے لگیں اور آیت کریمہ اِ نَّما أَشْكُوا بَثِّي وَحُزْنِي[يوسف/ 86] میں بث کے معنی سخت تریں اور یہ پوشیدہ غم کے ہیں جو وہ ظاہر کررہے ہیں اس صورت میں مصدر بمعنی مفعول ہوگا ۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مصدربمعنی فاعل ہو یعنی وہ غم جس نے میرے فکر کو منتشتر کر رکھا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦{ فَکَانَتْ ہَبَآئً مُّنْبَثًّا ۔ } ” پس وہ ہوجائیں گے اڑتا ہوا غبار۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(56:6) فکانت : ف سببیہ ہے پس بسبب اس کے۔ فکانت ای فکانت الجبال۔ پس پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے۔ ھبائ۔ اسم مفرد (ھ ب و۔ مادہ) باریک خاکم باریک ذرات، جو سورج کے رخ پر کواڑ کے سوراخوں سے نظر آتے ہیں۔ کانت کی خبر ہے۔ قرآن مجید میں اور جگہ آیا ہے :۔ فجعلنہ ھباء منشورا۔ (25:23) اور ہم ان کو اڑتی ہوئی خاک کردیں گے۔ منبتا اسم فاعل واحد مذکر، پراگندہ ۔ اصل میں منبثث تھا۔ یا یہ اسم مفعول ہے۔ اس صورت میں یہ منبثث ہے ث کو ث میں ادغام کردیا گیا ہے۔ انبثاث (انفعال) مصدر۔ بکھر جانا۔ پھیل جانا۔ متشر ہونا۔ پراگندہ ہونا۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے یوم یکون الناس کالفراش المبثوث (101:4) جس دن لوگ بکھرے ہوئے پتنگوں کی طرح ہوں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(6) پھر وہ پہاڑ پراگندہ غبار کی مانند ہوجائیں گے۔ یعنی ایسا سخت زلزلہ ہوگا کہ پہاڑ چورا چورا ہوکر خاک کی طرح اڑتے پھریں گے اور یہ معلوم ہوگا کہ بادل ہوا پر اڑ رہے ہیں۔ بہرحال جب یہ ہولناک چیز واقع ہوگی تو اس دن ہوگا۔