Surat ul Waqiya

Surah: 56

Verse: 61

سورة الواقعة

عَلٰۤی اَنۡ نُّبَدِّلَ اَمۡثَالَکُمۡ وَ نُنۡشِئَکُمۡ فِیۡ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ ﴿۶۱﴾

In that We will change your likenesses and produce you in that [form] which you do not know.

کہ تمہاری جگہ تم جیسے اور پیدا کر دیں اور تمہیں نئے سرے سے اس عالم میں پیدا کریں جس سے تم ( بالکل ) بے خبر ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

عَلَى أَن نُّبَدِّلَ أَمْثَالَكُمْ ... To transfigure you, meaning, `to change your current shapes, on the Day of Resurrection,' ... وَنُنشِيَكُمْ فِي مَا لاَ تَعْلَمُونَ and create you in that you know not. meaning, `out of shapes and forms.' Allah the Exalted said, وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الاُْولَى فَلَوْلاَ تَذكَّرُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

611یعنی تمہاری صورتیں مسخ کر کے بندر اور خنزیر بنادیں اور تمہاری جگہ تمہاری شکل و صورت کی کوئی اور مخلوق پیدا کردیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٩] دوسری تخلیق زمین کے پیٹ میں اور اس کے لئے طبعی قوانین بالکل جداگانہ ہوں گے :۔ یعنی تمہارے طریقہ تخلیق کو ہی یکسر بدل ڈالے اور وہ اس بات پر بھی قادر ہے۔ پہلے تمہاری تخلیق ماں کے پیٹ میں ہوئی تھی۔ دوبارہ تمہاری تخلیق زمین کے پیٹ میں ہو۔ ماں کے پیٹ میں تمہارے تخلیقی مراحل اور قسم کے تھے۔ زمین کے پیٹ میں تمہارے تخلیقی مراحل ان مراحل سے بالکل جداگانہ ہوں ؟ پہلے تم بچے کی صورت میں پیدا ہوئے تھے اور دوبارہ تم اس حالت میں پیدا ہو جس حالت میں مرے تھے۔ اور اسی قدوقامت کے ساتھ پیدا ہو، پھر رحم مادر کی تخلیق کے بعد جو طبعی قوانین تمہارے لیے مقرر تھے۔ دوسری بار کی پیدائش کے لیے طبعی قوانین بھی جداگانہ نہ ہوں۔ اس دنیا میں موت تمہارے لیے مقدر تھی اور موت سے فرار ممکن نہ تھا۔ آخرت میں زندگی مقدر ہو اور موت کبھی نہ آئے۔ اس دنیا میں تمہاری آنکھوں کے سامنے غیب کے پردے حائل تھے۔ اس دنیا میں سب حقائق واشگاف نظر آنے لگیں۔ حتیٰ کہ انسان اللہ کے دیدار سے بھی مشرف ہوسکے۔ اگر تم اپنی پہلی تخلیق کا بہ نظر غائر مطالعہ کرلو گے تو تمہیں دوسری تخلیق میں کوئی بات ناممکن نظر نہیں آئے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

عَلٰٓی اَنْ نُّبَدِّلَ اَمْثَالَکُمْ ۔۔۔۔: یعنی ہم ہرگز اس سے عاجز نہیں کہ تمہاری جگہ تمہارے جیسے اور لوگ لے آئیں اور تمہاری شکلیں ایسی بنادیں جنہیں تم نہیں جانتے ، مثلاً تمہاری صورتیں مسخ کر کے بندریا خنزیر بنادیں ۔ اس میں شدید ڈانٹ ہے۔ مزید دیکھئے سورة ٔ نسائ ( ١٣٣) ، انعام (١٣٣) اور سورة ٔ ابراہیم (١٩، ٢٠) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

عَلٰٓي اَنْ نُّبَدِّلَ اَمْثَالَكُمْ وَنُنْشِـىَٔـكُمْ فِيْ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۝ ٦١ بدل الإبدال والتَّبدیل والتَّبَدُّل والاستبدال : جعل شيء مکان آخر، وهو أعمّ من العوض، فإنّ العوض هو أن يصير لک الثاني بإعطاء الأول، والتبدیل قد يقال للتغيير مطلقا وإن لم يأت ببدله، قال تعالی: فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة/ 59] ، وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور/ 55] وقال تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان/ 70] قيل : أن يعملوا أعمالا صالحة تبطل ما قدّموه من الإساءة، وقیل : هو أن يعفو تعالیٰ عن سيئاتهم ويحتسب بحسناتهم «5» . وقال تعالی: فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة/ 181] ، وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل/ 101] ، وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ/ 16] ، ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف/ 95] ، يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم/ 48] أي : تغيّر عن حالها، أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر/ 26] ، وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة/ 108] ، وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد/ 38] ، وقوله : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق/ 29] أي : لا يغيّر ما سبق في اللوح المحفوظ، تنبيها علی أنّ ما علمه أن سيكون يكون علی ما قد علمه لا يتغيّرعن حاله . وقیل : لا يقع في قوله خلف . وعلی الوجهين قوله تعالی: تَبْدِيلَ لِكَلِماتِ اللَّهِ [يونس/ 64] ، لا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ [ الروم/ 30] قيل : معناه أمر وهو نهي عن الخصاء . والأَبْدَال : قوم صالحون يجعلهم اللہ مکان آخرین مثلهم ماضین «1» . وحقیقته : هم الذین بدلوا أحوالهم الذمیمة بأحوالهم الحمیدة، وهم المشار إليهم بقوله تعالی: فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان/ 70] والبَأْدَلَة : ما بين العنق إلى الترقوة، والجمع : البَئَادِل «2» ، قال الشاعر : 41- ولا رهل لبّاته وبآدله ( ب د ل ) الا بدال والتبدیل والتبدل الاستبدال کے معنی ایک چیز کو دوسری کی جگہ رکھنا کے ہیں ۔ یہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض سے عام ہے کیونکہ عوض میں پہلی چیز کے بدلہ میں دوسری چیز لینا شرط ہوتا ہے لیکن تبدیل مطلق تغیر کو کہتے ہیں ۔ خواہ اس کی جگہ پر دوسری چیز نہ لائے قرآن میں ہے فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ [ البقرة/ 59] تو جو ظالم تھے انہوں نے اس لفظ کو جس کا ان کو حکم دیا گیا تھا بدل کو اس کی جگہ اور لفظ کہنا شروع گیا ۔ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً [ النور/ 55] اور خوف کے بعد ان کو امن بخشے گا ۔ اور آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان/ 70] کے معنی بعض نے یہ کئے ہیں کہ وہ ایسے نیک کام کریں جو ان کی سابقہ برائیوں کو مٹادیں اور بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف فرمادیگا اور ان کے نیک عملوں کا انہیں ثواب عطا کریئگا فَمَنْ بَدَّلَهُ بَعْدَ ما سَمِعَهُ [ البقرة/ 181] تو جو شخص وصیت کو سننے کے بعد بدل ڈالے ۔ وَإِذا بَدَّلْنا آيَةً مَكانَ آيَةٍ [ النحل/ 101] جب ہم گوئی آیت کسی آیت کی جگہ بدل دیتے ہیں ۔ وَبَدَّلْناهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ [ سبأ/ 16] ثُمَّ بَدَّلْنا مَكانَ السَّيِّئَةِ الْحَسَنَةَ [ الأعراف/ 95] پھر ہم نے تکلیف کو آسودگی سے بدل دیا ۔ اور آیت کریمہ : يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ [إبراهيم/ 48] کے معنی یہ ہیں کہ زمین کی موجودہ حالت تبدیل کردی جائے گی ۔ أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ [ غافر/ 26] کہ وہ ( کہیں گی ) تہمارے دین کو ( نہ ) بدل دے ۔ وَمَنْ يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمانِ [ البقرة/ 108] اور جس شخص نے ایمان ( چھوڑ کر اس کے بدلے کفر اختیار کیا وَإِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَيْرَكُمْ [ محمد/ 38] 47 ۔ 38 ) اور اگر تم منہ پھروگے تو وہ تہماری جگہ اور لوگوں کو لے آئیگا ۔ اور آیت کریمہ : ما يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَ [ ق/ 29] ہمارے ہاں بات بدلا نہیں کرتی ۔ کا مفہوم یہ ہے کہ لوح محفوظ میں جو کچھ لکھا جا چکا ہے وہ تبدیل نہیں ہوتا پس اس میں تنبیہ ہے کہ جس چیز کے متعلق اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ وقوع پذیر ہوگی وہ اس کے علم کے مطابق ہی وقوع پذیر ہوگی اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آسکتی ۔ بعض نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ اس کے وعدہ میں خلف نہیں ہوتا ۔ اور فرمان بار ی تعالیٰ : { وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِ اللهِ } ( سورة الأَنعام 34) قوانین خدا وندی کو تبدیل کرنے والا نہیں ۔{ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللهِ } ( سورة الروم 30) نیز : لا تبدیل لخلق اللہ فطرت الہیٰ میں تبدیل نہیں ہوسکتی ( 30 ۔ 30 ) بھی ہر دو معافی پر محمول ہوسکتے ہیں مگر بعض نے کہاں ہے کہ اس آخری آیت میں خبر بمعنی امر ہے اس میں اختصاء کی ممانعت ہے الا ابدال وہ پاکیزہ لوگ کہ جب کوئی شخص ان میں سے مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ دوسرے کو اس کا قائم مقام فرمادیتے ہیں ؟ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں ۔ درحقیقت ابدال وہ لوگ ہیں جہنوں نے صفات ذمیمہ کی بجائے صفات حسنہ کو اختیار کرلیا ہو ۔ اور یہ وہی لوگ ہیں جنکی طرف آیت : فَأُوْلئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ [ الفرقان/ 70] میں ارشاد فرمایا ہے ۔ البادلۃ گردن اور ہنسلی کے درمیان کا حصہ اس کی جمع بادل ہے ع ( طویل ) ولارھل لباتہ وبآدلہ اس کے سینہ اور بغلوں کا گوشت ڈھیلا نہیں تھا ۔ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ نشأ النَّشْءُ والنَّشْأَةُ : إِحداثُ الشیءِ وتربیتُهُ. قال تعالی: وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولی[ الواقعة/ 62] . يقال : نَشَأَ فلان، والنَّاشِئُ يراد به الشَّابُّ ، وقوله : إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل/ 6] يريد القیامَ والانتصابَ للصلاة، ومنه : نَشَأَ السَّحابُ لحدوثه في الهواء، وتربیته شيئا فشيئا . قال تعالی: وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد/ 12] والإنْشَاءُ : إيجادُ الشیءِ وتربیتُهُ ، وأكثرُ ما يقال ذلک في الحَيَوانِ. قال تعالی: قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [ الملک/ 23] ، وقال : هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ النجم/ 32] ، وقال : ثُمَّ أَنْشَأْنا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْناً آخَرِينَ [ المؤمنون/ 31] ، وقال : ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ [ المؤمنون/ 14] ، وَنُنْشِئَكُمْ فِي ما لا تَعْلَمُونَ [ الواقعة/ 61] ، ويُنْشِئُ النَّشْأَةَالْآخِرَةَ [ العنکبوت/ 20] فهذه كلُّها في الإيجاد المختصِّ بالله، وقوله تعالی: أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِؤُنَ [ الواقعة/ 71- 72] فَلِتشبيه إيجادِ النَّارِ المستخرَجة بإيجادِ الإنسانِ ، وقوله : أَوَمَنْ يُنَشَّؤُا فِي الْحِلْيَةِ [ الزخرف/ 18] أي : يُرَبَّى تربيةً کتربيةِ النِّسَاء، وقرئ : يَنْشَأ» أي : يَتَرَبَّى. ( ن ش ء) النشا والنشاۃ کسی چیز کو پیدا کرنا اور اس کی پرورش کرنا ۔ قرآن میں ہے : وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولی[ الواقعة/ 62] اور تم نے پہلی پیدائش تو جان ہی لی ہے ۔ نشافلان کے معنی کے بچہ کے جوان ہونے کے ہیں ۔ اور نوجوان کو ناشی کہاجاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل/ 6] کچھ نہیں کہ رات کا اٹھنا دنفس بہیمی کی سخت پامال کرتا ہے ۔ میں ناشئۃ کے معنی نماز کے لئے اٹھنے کے ہیں ۔ اسی سے نشاء السحاب کا محاورہ ہے جس کے معنی فضا میں بادل کے رونما ہونے اور آہستہ آہستہ بڑھنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے َ : وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد/ 12] اور بھاری بھاری بادل پیدا کرتا ہے ۔ الانشاء ۔ ( افعال ) اس کے معنی کسی چیز کی ایجاد اور تربیت کے ہیں ۔ عموما یہ لفظ زندہ چیز ۔۔ کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [ الملک/ 23] وہ خدا ہی جس نے تمہیں پیدا کیا ۔ اور تمہاری کان اور آنکھیں اور دل بنائے ۔ نیز فرمایا : هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ النجم/ 32] وہ تم کو خوب جانتا ہے جسب اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ۔ ثُمَّ أَنْشَأْنا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْناً آخَرِينَ [ المؤمنون/ 31] پھر ان کے بعد ہم نے ایک اور جماعت پیدا کی ۔ وَنُنْشِئَكُمْ فِي ما لا تَعْلَمُونَ [ الواقعة/ 61] اور تم کو ایسے جہان میں جس کو تم نہیں جانتے پیدا کردیں ۔ ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ [ المؤمنون/ 14] پھر اس کو نئی صورت میں بنا دیا ويُنْشِئُ النَّشْأَةَ الْآخِرَةَ [ العنکبوت/ 20] پھر خدا ہی پچھلی پیدائش پیدا کرے گا ۔ ان تمام آیات میں انسشاء بمعنی ایجاد استعمال ہوا ہے جو ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِؤُنَ [ الواقعة/ 71- 72] بھلا دیکھو جو آگ تم درخت سے نکالتے ہو کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ہے یا ہم پیدا کرتے ہیں ۔ میں آگ کا درخت اگانے پر بطور تشبیہ انشاء کا لفظ بولا گیا ہے اور آیت کریمہ ) أَوَمَنْ يُنَشَّؤُا فِي الْحِلْيَةِ [ الزخرف/ 18] کیا وہ جوز یور میں پرورش پائے ۔ میں ینشا کے معنی تربیت پانے کے ہیں نفی عورت جو زبور میں تربیت ۔ ایک قرآت میں ينشاء ہے یعنی پھلے پھولے ۔ لا «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت . ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] لا وأبيك ابنة العامريّ «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] وقوله : ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] . فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه : مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة : لا حدّ. أي : لا أحد . ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

کہ تمہیں ہلاک کر کے تمہاری جگہ تم سے بہتر اور فرمانبردار آدمی پیدا کردیں اور تمہیں قیامت کے دن ایسی صورتوں میں پیدا کریں جن کو تم جانتے بھی نہیں یعنی سیاہ صورتوں اور نیکی آنکھوں والے تمہیں بنادیں یا یہ کہ بندروں اور سوروں کی صورت میں مسخ کردیں یا یہ کہ تمہاری روحوں کو ایسے مقام پر پہنچا دیں جن کو نہ تم جانتے ہو اور نہ اس کی تصدیق کرتے ہو یعنی دوزخ۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

26 That is, "Just as We were not powerless to create you in your present form and appearance, so also We are not powerless to change the method of your creation and bring you into being in another form and shape with another set of qualities and characteristics. Today the method We have adopted for your creation is that conception takes place by your sperm then you arc gradually form and developed in your mother's womb, and then you are brought out as a child. This method of creation also has been devised by Us. But this is not the only method apart from which We may not he knowing, or may not be able to adopt, any other method. On the Day of Resurrection We can create you in the form of the man of the same age at which you died. Today We have set one particular mesure for your sight and hearing and other faculties. But this is not the only measure that We have for man, which We may not have the power to change. On the Day of Resurrection We shall change it absolutely; so much so that you will be able to see and hear things which you cannot see and cannot hear here. Today your skin and your limbs and your eyes do not possess the power of speech. But, it is We Who have given the tongue the power of speech; so We are not powerless to cause your every limb and every part of the skin of yow body to speak by Our command on the Day of Resurrection. Today you live up to a certain age and then die. Your this living and dying also is controlled by a law ordained by Us. Tomorrow We can makr another law to control yow life under which you may never die. Today you can endure punishment only to a certain extent: you cannot survive if the punishment is increased beyond it. This rule also has been made by Us. Tomorrow We can make another rule for you Under which you will be able to suffer much severer punishments endlessly, and death would not come to you even if you were given the severest torment. Today you cannot imagine that an old man could return to youth, that he could never become ill, that a young man could never be old, and, that he could stay young for ever and ever. But youth here changes into old age according to the biological laws made by Us. Tomorrow We can make some other laws for your life under which every old man may become young as soon as he entered Paradise and stay young and healthy eternally.

سورة الْوَاقِعَة حاشیہ نمبر :26 یعنی جس طرح ہم اس سے عاجز نہ تھے کہ تمہیں تمہاری موجودہ شکل و ہیئت میں پیدا کریں ، اسی طرح ہم اس سے بھی عاجز نہیں ہیں کہ تمہاری تخلیق کا طریقہ بدل کر کسی اور شکل و ہیئت میں کچھ دوسرے صفات و خصوصیات کے ساتھ تم کو پیدا کر دیں ۔ آج تم کو ہم اس طرح پیدا کرتے ہیں کہ تمہارا نطفہ قرار پاتا ہے اور تم ماں کے پیٹ میں درجہ بدرجہ بن کر ایک بچہ کی صورت میں برآمد ہوتے ہو ۔ یہ طریق تخلیق بھی ہمارا ہی مقرر کیا ہوا ہے ۔ مگر ہمارے پاس بس یہی ایک لگا بندھا طریقہ نہیں ہے جس کے سوا ہم کوئی اور طریقہ نہ جانتے ہوں ، یا نہ عمل میں لا سکتے ہوں ۔ قیامت کے روز ہم تمہیں اسی عمر کے انسان کی شکل میں پیدا کر سکتے ہیں جس عمر میں تم مرے تھے ۔ آج تمہاری بینائی ، سماعت اور دوسرے حواس کا پیمانہ ہم نے کچھ اور رکھا ہے ۔ مگر ہمارے پاس انسان کے لیے بس یہی ایک پیمانہ نہیں ہے جسے ہم بدل نہ سکتے ہوں ۔ قیامت کے روز ہم اسے بدل کر کچھ سے کچھ کر دیں گے یہاں تک کہ تم وہ کچھ دیکھ اور سن سکو گے جو یہاں نہیں دیکھ سکتے اور نہیں سن سکتے ۔ آج تمہاری کھال اور تمہارے ہاتھ پاؤں اور تمہاری آنکھوں میں کوئی گویائی نہیں ۔ مگر زبان کو بولنے کی طاقت ہم ہی نے تو دی ہے ۔ ہم اس سے عاجز نہیں ہیں کہ قیامت کے روز تمہارا ہر عضو اور تمہارے جسم کی کھال کا ہر ٹکڑا ہمارے حکم سے بولنے لگے ۔ آج تم ایک خاص عمر تک ہی جیتے ہو اور اس کے بعد مر جاتے ہو ۔ یہ تمہارا جینا اور مرنا بھی ہمارے ہی مقرر کردہ ایک قانون کے تحت ہوتا ہے ۔ کل ہم ایک دوسرا قانون تمہاری زندگی کے لیے بنا سکتے ہیں جس کے تحت تمہیں کبھی موت نہ آئے ۔ آج تم ایک خاص حد تک ہی عذاب برداشت کر سکتے ہو ، جس سے زائد عذاب اگر تمہیں دیا جائے تو تم زندہ نہیں رہ سکتے ۔ یہ ضابطہ بھی ہمارا ہی بنایا ہوا ہے ۔ کل ہم تمہارے لیے ایک دوسرا ضابطہ بنا سکتے ہیں جس کے تحت تم ایسا عذاب ایسی طویل مدت تک بھگت سکو گے جس کا تم تصور تک نہیں کر سکتے ، اور کسی سخت سے سخت عذاب سے بھی تمہیں موت نہ آئے گی ۔ آج تم سوچ نہیں سکتے کہ کوئی بوڑھا جوان ہو جائے ، کبھی بیمار نہ ہو ، کبھی اس پر بڑھاپا نہ آئے اور ہمیشہ ہمیشہ وہ ایک ہی عمر کا جوان رہے ۔ مگر یہاں جوانی پر بڑھاپا ہمارے بنائے ہوئے قوانین حیات ہی کے مطابق تو آتا ہے ۔ کل ہم تمہاری زندگی کے لیے کچھ دوسرے قوانین بنا سکتے ہیں جن کے مطابق جنت میں جاتے ہی بوڑھا جوان ہو جائے اور اس کی جوانی و تندرستی لا زوال ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

16: یہاں بتایا جارہا ہے کہ جس طرح انسان کی تخلیق اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے اسی طرح اسے موت دینا بھی اسی کا کام ہے، اور اس کے بعد اس کو کسی بھی ایسی صورت میں دوبارہ پیدا کردینا بھی اسی کی قدرت میں ہے جس سے اس کو کوئی عاجز نہیں کرسکتا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(56:61) علی ان تبدل امثالکم : ان مصدریہ ہے نبدل مضارع معروف جمع متکلم۔ تبدیل (تفعیل) تمہارے عوض میں لے آئیں۔ یعنی تمہاری جگہ اور تم جیسے آدمی پیدا کردیں۔ امثالکم مضاف مضاف الیہ۔ تمہاری طرح کے۔ تم جیسے ، تمہاری مثل۔ علامہ پانی پتی اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں :۔ یہ قدرنا کے فاعل سے حال ہے یعنی ہم نے تمہارے درمیان موت کو مقدر کردیا ہے۔ اور ہم اس امر پر قادر ہیں کہ تمہاری جگہ تمہارے عوض دوسروں کو لے آویں۔ یا قدرنا سے اس کا تعلق ہے اور علی بمعنی لام (یعنی لام علت) کے ہے اور علی علت ہے ان قدرنا کی۔ یعنی ہم نے موت کو تمہارے لئے مقدر کردیا ہے اس لئے کہ تمہاری جگہ دوسروں کو لے آئیں۔ یا مسبوقین سے اس کا تعلق ہے یعنی ہم مغلوب نہیں ہیں کہ تمہارے عوض تمہاری جگہ دوسروں کو لانے کی ہم کو قدرت نہ ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امثال بمعنی مقام و مکان نہ ہو بلکہ اس کا معنی ہو صفت و حالت یعنی ہم اس امر سے عاجز نہیں ہیں کہ تمہاری حالت اور صفت کو بدل دیں۔ اور مرنے کے بعد تم کو ان احوال میں پیدا کریں جن کو تم نہیں جانتے۔ یعنی ثواب و عذاب۔ مثل بمعنی صفت۔ دوسری آیت میں آیا ہے فرمایا : مثل الجنۃ التی وعد المتقون (13:35) جس باغ کا جنتیوں سے وعدہ کیا گیا ہے اس کے اوصاف یہ ہیں کہ ۔۔ الخ۔ وننشئکم فی مالا تعلمون : واؤ عاطفہ ننشئکم، ننشئی مضارع جمع متکلم انشاء (افعال) مصدر کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر ہم تم کو پیدا کردیں یا ہم تم کو پیدا کردیں گے۔ فی ای فی الھیئۃ والحالۃ ما موصولہ لا تعلمون صلہ۔ یعنی ہم تم کو ایسی ہیئت و حالت میں پیدا کردیں کہ جن کو تم جانتے بھی نہیں ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 یعنی تمہیں کسی اور جہان میں لے جائیں اور یہاں تمہاری جگہ کسی دوسری مخلوق کو بسا دیں۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تمہاری شکل ایسی بنادیں جسے تم نہیں پہچانتے۔ یعنی تمہیں بندر اور سور بنادیں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یعنی مثلا آدمی سے جانور کی صورت میں مسخ کردیں جس کا گمان بھی نہ ہو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(61) کہ تمہاری جگہ تم ہی جیسی کوئی اور قوم لے آئیں اور تم کو وہاں اٹھا کر کھڑا کریں جہاں تم نہیں جانتے یعنی موت کو تمہارے مابین ٹھہرا رکھا ہے اور ایک اندازہ مقرر کررکھا ہے جس طرح رزق تقسیم شدہ ہے اور ایک اندازے سے بٹتا ہے اسی طرح موت بھی تقسیم شدہ ہے اور مقررہ وقت پر پہنچتی ہے اور جب موت اور زندگی پر ہمارا قبضہ اور کنٹرول ہے توہ ہم اس بات سے عاجز نہیں ہیں کہ تم کو مار کر ختم کردیں ار تم کو موت بھیج کر ماردیں اور تمہاری جگہ تم ہی جیسی شکل وشباہت کی کوئی اور قوم لے آئیں جیسا کہ انقلاب ارضی میں یہ عام طور پر ہوتا رہا ہے بلکہ ہزار ہا تاریخی شواہد موجود ہیں کہ ایک قوم کو ختم کیا دوسری قوم کو لے آئے اور اگر لفظ موت نہ ہوتا تو شاید تبادلہ آبادی بھی آیت شامل ہوجاتی۔ الایہ کہ یوں کہا جائے کہ موت حقیقی ہو یا مجازی یعنی تمکو مار کر کسی دوسری قوم کو تم سے بدل دیں یا تم کو ایک حصہ ارضی سے بالکل نکال دیں اور تمہاری جگہ دوسری قوم کو لاکر آباد کردیں۔ جیسا کہ فرمایا ان یشایذھبکم ایھا الناس ویات باخرین والمحصنات۔ وہاں تبادلہ آبادی کا استدلال بلا تکلیف موجود ہے لیکن یہاں تکلف وتعسف سے خالی نہیں ہے اس لئے ہم نے اس کو ترک کردیا اور آزاد منش لوگوں کی طرح تفسیر نہیں کی۔ بہرحال ہم اس بات سے عاجز نہیں کہ تم کو موت دے کر مٹا دیں اور تم ہی جیسی کوئی اور قوم یعنی انسانوں کی قوم کو لابسائیں اور تم کو کہیں اور لے جائیں جس کو تم نہ جانتے ہو یعنی تمہاری شکل و صورت کو مسخ کردیں بندر اور سور بنادیں جیسا کہ صاحب جلالین نے فرمایا۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی تم کو اور جہاں میں لے جاویں تمہاری جگہ یہاں اور خلقت بسا دیں۔ خلاصہ : یہ کہ صورت شکل بدل دیں یا اس عالم میں لے جائیں جس کو تم نہیں جانتے اور اس عالم کا انکار کرتے ہو یعنی عالم برزخ اور عالم آخرت۔