Surat ul Waqiya

Surah: 56

Verse: 68

سورة الواقعة

اَفَرَءَیۡتُمُ الۡمَآءَ الَّذِیۡ تَشۡرَبُوۡنَ ﴿ؕ۶۸﴾

And have you seen the water that you drink?

اچھا یہ بتاؤ کہ جس پانی کو تم پیتے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

١۔ اَفَرَئَ یْتُمُ الْمَآئَ الَّذِیْ تَشْرَبُوْنَ ۔۔۔۔۔” المزن “ اسم جمع ہے ، بادل ۔ مفرد اس کا ” مزنۃ “ ہے۔ تیسیر القرآن میں ہے :” یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک اور کرشمہ ہے ، سطح سمندر سے سورج کی حرارت کی وجہ سے آبی بخارات اٹھتے ہیں ۔ یہی بخارات بعد میں بادلوں کی شکل اختیار کر کے بارش کی صورت میں برستے ہیں ۔ سمندر کا پانی جس سے بخارات اٹھتے ہیں ، سخت نمکین اور چھاتی جلانے والا ہوتا ہے ، مگر جو بارش برستی ہے اس میں نمکینی نام کو نہیں ہوتی ۔ حالانکہ جن جڑی بوٹیوں یا دوائیوں کا ہم اس طرح عرق کشید کرتے ہیں ان میں ذائق بھی منتقل ہوتا ہے اور بو بھی ۔ مثلاً سونف یا اجوائن یا گاؤ زبان یا گلاب کے عرق میں ان اشیاء کا ذائقہ بھی منتقل ہوجاتا ہے اور بو بھی ۔ لیکن سمندر کے پانی کی نمکینی آبی بخارات کے ساتھ منتقل نہیں ہوتی ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہے ، ورنہ اس زمین کا کوئی جاندار ایسا پانی پی کر زندہ ہی نہ رہ سکتا اور نہ ہی ایسے پانی سے پیدا وار اگ سکتی ہے جو پانی کے بعد جانداروں کی زندگی کا دوسرا بڑا سہارا ہے “۔ ( بتصرف) ٢۔ قیامت کی دلیل کے طور پر انسان کی پہلی پیدائش کا ذکر فرمایا اور زمین سے مردہ بیج سے کھیتی اگانے کا ذکر فرمایا ۔ کھیتی اگانے میں پانی خصوصاً بارش کا دخل ظاہر ہے ، اس لیے اس کا ذکر فرمایا ۔ قیامت کے دن انسانی جسم بھی بارش سے اگیں گے۔ حدیث کے لیے دیکھئے سورة ٔ نمل (٨٧) کی تفسیر ۔ اللہ تعالیٰ نے بارش کو قیامت کے علاوہ اپنی توحید کی دلیل کے طور پر جا بجا پیش فرمایا ہے، مثلاً دیکھئے سورة ٔ بقرہ (٢١، ٢٢) نم (٦٠) ، عنکبوت (٦٣) اور سورة ٔ روم (٤٨ تا ٥١) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَفَرَءَيْتُمُ الْمَاۗءَ الَّذِيْ تَشْرَبُوْنَ۝ ٦٨ ۭ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ ماء قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه : أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو، ( م ی ہ ) الماء کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء/ 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان/ 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے شرب الشُّرْبُ : تناول کلّ مائع، ماء کان أو غيره . قال تعالیٰ في صفة أهل الجنّة : وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] ، وقال في صفة أهل النّار : لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [يونس/ 4] ، وجمع الشَّرَابُ أَشْرِبَةٌ ، يقال : شَرِبْتُهُ شَرْباً وشُرْباً. قال عزّ وجلّ : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي - إلى قوله۔ فَشَرِبُوا مِنْهُ«4» ، وقال : فَشارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ [ الواقعة/ 55] ، والشِّرْبُ : النّصيب منه «5» قال تعالی: هذِهِ ناقَةٌ لَها شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الشعراء/ 155] ، وقال : كُلُّ شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] . والْمَشْرَبُ المصدر، واسم زمان الشّرب، ومکانه . قال تعالی: قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُناسٍ مَشْرَبَهُمْ [ البقرة/ 60] . والشَّرِيبُ : الْمُشَارِبُ والشَّرَابُ ، وسمّي الشّعر الذي علی الشّفة العلیا، والعرق الذي في باطن الحلق شاربا، وجمعه : شَوَارِبُ ، لتصوّرهما بصورة الشّاربین، قال الهذليّ في صفة عير : صخب الشّوارب لا يزال كأنه«1» وقوله تعالی: وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ [ البقرة/ 93] ، قيل : هو من قولهم : أَشْرَبْتُ البعیر أي : شددت حبلا في عنقه، قال الشاعر : فأشربتها الأقران حتی وقصتها ... بقرح وقد ألقین کلّ جنین «2» فكأنّما شدّ في قلوبهم العجل لشغفهم، وقال بعضهم «3» : معناه : أُشْرِبَ في قلوبهم حبّ العجل، وذلک أنّ من عادتهم إذا أرادوا العبارة عن مخامرة حبّ ، أو بغض، استعاروا له اسم الشّراب، إذ هو أبلغ إنجاع في البدن «4» ، ولذلک قال الشاعر : تغلغل حيث لم يبلغ شَرَابٌ ... ولا حزن ولم يبلغ سرور «5» ولو قيل : حبّ العجل لم يكن له المبالغة، [ فإنّ في ذکر العجل تنبيها أنّ لفرط شغفهم به صارت صورة العجل في قلوبهم لا تنمحي ] «6» وفي مثل : أَشْرَبْتَنِي ما لم أشرب «7» ، أي : ادّعيت عليّ ما لم أفعل . ( ش ر ب ) الشراب کے معنی پانی یا کسی اور مائع چیز کو نوش کرنے کے ہیں ۔ قرآن نے ہی جنت کے متعلق فرمایا : ۔ وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان/ 21] اور ان کا پروردگار انہیں نہایت پاکیزہ شراب پلائیگا ۔ اور اہل دوزخ کے متعلق فرمایا : ۔ لَهُمْ شَرابٌ مِنْ حَمِيمٍ [يونس/ 4] ان کے لئے پینے کو کھولتا ہوا پانی ۔ شراب کی جمع اشربۃ ہے اور شربتہ شربا وشربا کے معنی پینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي۔ إلى قوله۔ فَشَرِبُوا مِنْهُ«4» جو شخص اس میں سے پانی پے لے گا وہ مجھ سے نہیں ہے ۔ چناچہ انہوں نے اس سے پی لیا ۔ نیز فرمایا : ۔ فَشارِبُونَ شُرْبَ الْهِيمِ [ الواقعة/ 55] اور پیو گے بھی تو ایسے جیسے پیاسے اونٹ پیتے ہیں ۔ الشراب پانی کا حصہ پینے کی باری ۔ قرآن میں ہے هذِهِ ناقَةٌ لَها شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الشعراء/ 155] یہ اونٹنی ہے ( ایک دن ) اس کی پانی پینے کی باری ہے اور ایک معین تمہاری باری كُلُّ شِرْبٍ مُحْتَضَرٌ [ القمر/ 28] ہر باری والے کو اپنی باری پر آنا چاہیئے ۔ المشرب مصدر ) پانی پینا ( ظرف زمان یا مکان ) پانی پینے کی جگہ یا زمانہ قرآن میں ہے : ۔ قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُناسٍ مَشْرَبَهُمْ [ البقرة/ 60] . تمام لوگوں نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کرکے پانی پی لیا ۔ الشراب تم پیالہ یا شراب کو کہتے ہیں اور مونچھ کے بالوں اور حلق کی اندرونی رگ کو شارب کہا جاتا ہے گویا ان کو پینے والا تصور کیا گیا ہے اس کی جمع شوارب آتی ہے ۔ ھزلی نے گورخر کے متعلق کہا ہے ( الکامل ) ( 257 ) صخب الشوارب لا یزال کانہ اس کی مونچھیں سخت گویا وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْعِجْلَ [ البقرة/ 93] اور ان ( کے کفر کے سبب ) بچھڑا ( گویا ) ان کے دلوں میں رچ گیا تھا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ اشربت البعیر کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی اونٹ کے گلے میں رسی باندھنے کے ہیں شاعر نے کہا ہے ( 258 ) واشرب تھا الاقران حتیٰ وقص تھا بقرح وقد القین کل جنین میں نے انہیں باہم باندھ لیا حتیٰ کہ قرح ( منڈی ) میں لا ڈالا اس حال میں کہ انہوں نے حمل گرا دیئے تھے ۔ تو آیت کے معنی یہ ہیں کہ گویا بچھڑا ان کے دلوں پر باندھ دیا گیا ہے ۔ اور بعض نے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں پلادی گئی ہے کیونکہ عربی محاورہ میں جب کسی کی محبت یا بغض دل کے اندر سرایت کر جائے تو اس کے لئے لفظ شراب کو بطور استعارہ بیان کرتے ہیں کیونکہ یہ بدن میں نہایت تیزی سے سرایت کرتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الوافر ) ( 259 ) تغلغل حیث لم یبلغ شرابہ ولا حزن ولم یبلغ سرور اس کی محبت وہاں تک پہنچ گئی جہاں کہ نہ شراب اور نہ ہی حزن و سرور پہنچ سکتا ہے ۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ بچھڑے کی محبت ان کے دلوں میں اس قدر زیادہ نہیں تھی تو ہم کہیں گے کیوں نہیں ؟ عجل کا لفظ بول کر ان کی فرط محبت پر تنبیہ کی ہے کہ بچھڑے کی صورت ان کے دلوں میں اس طرح نقش ہوگئی تھی کہ محو نہیں ہوسکتی تھی مثل مشہور ہے ۔ اشربتنی ما لم اشرب یعنی تونے مجھ پر جھوٹا الزام لگایا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٨۔ ٦٩) اچھا یہ تو بتاؤ کہ جس میٹھے اور شیریں پانی کو تم خود پیتے اور اپنے جانوروں کو پلاتے اور باغوں کو سیراب کرتے ہو مکہ والو اس شیریں پانی کو بادل سے تم برساتے ہو یا ہم، نہیں بلکہ ہم تم پر برسانے والے ہیں تم نہیں برساتے۔ اگر ہم چاہیں تو اس شیریں پانی کو بالکل کڑوا تلخ کردیں پھر تم اس شیریں پانی پر شکر کیوں نہیں کرتے کہ ایمان لے آؤ۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٨{ اَفَرَئَ یْتُمُ الْمَآئَ الَّذِیْ تَشْرَبُوْنَ } ” کبھی تم نے غور کیا کہ وہ پانی جو تم پیتے ہو ؟ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(56:68) افرائیتم ۔۔ الخ ملاحظہ ہو آیت نمبر 58 متذکرہ الصدر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کھیتی کا ذکر کرنے کے بعد پانی کا تذکرہ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی توجہ اپنی ذات کی طرف مرکوز کروانے کے لیے ایک دفعہ پھر ار شاد فرمایا ہے کہ غور تو کرو ! کہ جو پانی تم پیتے ہو کیا تم نے اسے بادل سے اتارا ہے یا ہم نے اسے نازل کیا ہے ؟ اگر ہم چاہیں تو اس پانی کو کھارا بنادیں تو پھر تم اسے کس طرح میٹھا بنا سکتے ہو ؟ لیکن اس کے باوجود تم شکر نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مرتبہ ارشاد فرمایا ہے کہ ہم آسمان سے بارش نازل کرتے ہیں اور بارش کے ذریعے باغات، نباتات اور کھیتیاں اگاتے ہیں۔ یہ بات عرض ہوچکی ہے کہ سورج کی تپش سے سمندر کا پانی بخارات کی صورت میں اوپر اٹھتا ہے۔ جسے ہوا فضا میں ایک خاص مقام تک اوپر لے جاتی ہے، پھر بخارات بادلوں کی شکل اختیار کرتے ہیں اور بادلوں کا فرشتہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے جہاں اسے حکم دیتا ہے بادلوں کو ہانک کر وہاں لے جاتا ہے اور پھر وہاں بارش برستی ہے۔ یہاں اس بات کو اختصار کے ساتھ یوں بیان فرمایا ہے کہ اے لوگو ! جو تم پانی پیتے ہو اس پر غور کرو کہ کیا تم اسے بادل سے نازل کرتے ہو یا ہم نازل کرتے ہیں ؟ اگر اللہ تعالیٰ اس پانی کو کھارا بنادے تو نہ صرف پینے کے قابل نہ رہے بلکہ اس سے فصلیں بھی تباہ ہوجائیں گی۔ یہ اس کی مہربانی ہے کہ وہ سمندر کے کھارے پانی کو ہوا کے ذریعے صاف (FILTERIZE) فرما کر نازل کرتا ہے تاکہ لوگ اسے پئیں، فائدہ اٹھائیں اور اپنے رب کا شکر ادا کریں۔ لیکن لوگوں کی اکثریت اس کا شکر ادا نہیں کرتی۔ شکر کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ انسان صرف اللہ کو اپنا خالق، مالک، رازق اور حاکم سمجھے اور بلاشرکت غیرے اس کی عبادت کرے، یہی اس کا سب سے بڑا شکر ہے اور شکر گزار بندے ہی عبادت گزار اور اس کے حقیقی فرمانبردار ہوا کرتے ہیں۔ شکر وہ جذبہ ہے جس سے انسان اپنے محسن کو پہچانتا ہے اور اس کی اطاعت میں لذت محسوس کرتا ہے جس نے اپنے محسن حقیقی کو فراموش کردیا وہ پرلے درجے کا ناشکرا اور ناقدردان ٹھہرے گا۔ جب شیطان کو بارگاہ ایزدی سے دھتکارا گیا تو اس نے سب سے پہلے یہی بات کہی تھی کہ جس کی وجہ سے مجھے دھتکارا گیا ہے آپ ان کی اکثریت کو اپنا شکر گزار نہیں پائیں گے۔ (قَالَ فَبِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاَقْعُدَنَّ لَہُمْ صِرَاطَکَ الْمُسْتَقِیْمَ ثُمَّ لَاٰتِیَنَّہُمْ مِّنْ بَیْنِ اَیْدِیْہِمْ وَ مِنْ خَلْفِہِمْ وَ عَنْ اَیْمَانِہِمْ وَ عَنْ شَمَآءِلِہِمْ وَ لَا تَجِدُ اَکْثَرَہُمْ شٰکِرِیْنَ ) (الاعراف : ١٦، ١٧) ” اس نے کہا پھر جس وجہ سے تو نے مجھے دھتکارہ ہے۔ میں ضرور ان کے لیے تیرے سیدھے راستے پر بیٹھوں گا۔ پھر میں ہر صورت ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کی دائیں طرف سے اور ان کی بائیں طرف سے آؤں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر کرنے والے نہیں پائے گا۔ “ اللہ تعالیٰ کی ناشکری سے بچنے کے لیے انسان بالخصوص مسلمان کو اپنے رب کے حضور یہ دعا کرتے رہنا چاہئے۔ (أَللّٰھُمَّ أَعِنِّيْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ ) (رواہ أبوداوٗد : باب فی الإستغفار قال البانی صحیح) ” الٰہی ! اپنے ذکر، شکر اور بہترین طریقے سے عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔ “ مسائل ١۔ انسان کو پانی کی نعمت پر غور کرنا چاہیے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بارش نازل نہیں کرسکتا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ پانی کو کھارا کردے تو کوئی اسے میٹھا نہیں بنا سکتا۔ تفسیر بالقرآن لوگوں کو اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہونا چاہیے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے اپنا شکر ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ (لقمان : ١٢) ٢۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ (البقرۃ : ١٧٢) ٣۔ اللہ تعالیٰ شکر کرنے والے لوگوں کو اپنی نشانیاں دکھاتا ہے۔ (الاعراف : ٥٨) ٤۔ اللہ تعالیٰ شکر کرنے والے کو زیادہ عطا کرتا ہے۔ (ابراہیم : ٧) ٥۔ شکر کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے۔ (الزمر : ٧) ٦۔ اللہ تعالیٰ شکر کرنے والوں کو بہتر جزا دیتا ہے۔ (القمر : ٣٥) ٧۔ شکر گزار تھوڑے ہی ہوا کرتے ہیں۔ (سباء ١٣) ٨۔ اللہ تعالیٰ شکر گزار بندوں کا قدر دان ہے۔ (النساء : ١٤٧) ٩۔ شیطان کا مقصد انسان کو ناشکرا بنانا ہے۔ (الاعراف : ١٧)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

افرءیتم ................ تشکرون (٠٧) (٦ 5: ٨٦) ” کبھی تم نے آنکھیں کھول کر دیکھا ، یہ پانی جو تم پیتے ہو ، اسے تم نے بادل سے برسایا ہے یا اس کے برسانے والے ہم ہیں ؟ ہم چاہیں تو اسے سخت کھاری بنا کر رکھ دیں ، پھر کیوں تم شکرگزار نہیں ہوتے ؟ “ یہ پانی تو زندگی کی اصل بنیاد ہے اور پانی کے سوا زندگی نشوونما ہی نہیں پاسکتی۔ اس طرح اللہ نے اسے مقدر کیا ہے۔ اس پانی کی تخلیق میں انسان کا کردار کیا ہے۔ اس کا کردار بس یہ ہے کہ انسان اسے حلق سے اتار دے۔ یہ کہ اس کے عناصر کس نے بنائے ، اسے بادلوں سے کس نے اتارا۔ اسے ندیوں میں کس نے بہایا۔ اسے میٹھا کس نے بنایا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بارش برسانے کی نعمت : ﴿اَفَرَءَيْتُمُ الْمَآءَ الَّذِيْ تَشْرَبُوْنَؕ٠٠٦٨َ﴾ الایات الثلاث ان آیات میں پانی کی نعمت کا تذکرہ فرمایا ہے ارشاد فرمایا کہ : بتاؤ یہ پانی جو تم پیتے ہو تم نے اسے بادل سے اتارا ہے یا ہم اتارنے والے ہیں (ظاہر ہے کہ پانی کو بادل سے اتارنے میں تمہارا کوئی دخل نہیں جب بارش نہیں ہوتی تو ٹک ٹک آسان کی طرف دیکھا کرتے ہیں اور ناامید ہوجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ بارش برسا دیتا ہے۔ کمافی سورة الشوریٰ ﴿ وَ هُوَ الَّذِيْ يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِنْۢ بَعْدِ مَا قَنَطُوْا وَ يَنْشُرُ رَحْمَتَهٗ ١ؕ ﴾ (اور اللہ وہی ہے جو لوگوں کے ناامید ہونے کے بعد بارش بھیجتا ہے اور اپنی رحمت کو پھیلا دیتا ہے) ۔ مزید فرمایا کہ یہ پانی جو ہم نے بادل سے اتارا ہے اگر ہم چاہیں تو اسے کڑوا بنا دیں اگر ہم ایسا کردیں تو تم کچھ بھی نہیں کرسکتے، یہ میٹھا پانی پیتے ہو تہارے مویشی پیتے ہیں اس سے نہاتے دھوتے ہو۔ تم پر اس کے پینے پلانے اور دیگر استعمال میں لانے کا شکر ادا کرنا لازم ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

23:۔ ” افرایتم الماء الخ “ یہ تیسری عقلی دلیل ہے۔ اچھا اب یہ بتاؤ کہ یہ میٹھا اور خوشگوار پانی جو تم پیتے ہو یہ بادلوں سے تم نے اتارا ہے یا ہم ہی اسے اتارتے ہیں ؟ اگر تم خود مینہ برسا سکتے ہو تو خشک سالی میں خود ہی بارش برسا لیا کرو، خدا سے کیوں دعائیں مانگتے ہو ؟ مشرکین کو اس کا بھی اعتراف تھا کہ بارش اللہ ہی برساتا ہے۔ ” لونشاء۔ الایۃ “ اگر ہم چاہیں تو پانی کو بد مزہ اور کڑوا بنا دیں جو پینے کے قابل نہ رہے تو بتاؤ کیا تم مجھے ایسا کرنے سے روک سکتے ہو ؟ ہرگز نہیں، تو پھر اللہ کی ان نعمتوں کا شکر کیوں نہیں بجا لاتے ہو ؟ اور صرف اسی ہی کو منعم و محسن اور برکات دہندہ کیوں نہیں سمجھتے ہو ؟ اور غیر اللہ کو برکت دینے میں اس کا شریک کیوں بناتے ہو ؟ یہ تو انتہائی سفاہت و شقاوت ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(68) بھلا دیکھو تو جو پانی تم پیتے ہو۔