Surat ul Waqiya

Surah: 56

Verse: 73

سورة الواقعة

نَحۡنُ جَعَلۡنٰہَا تَذۡکِرَۃً وَّ مَتَاعًا لِّلۡمُقۡوِیۡنَ ﴿ۚ۷۳﴾

We have made it a reminder and provision for the travelers,

ہم نے اسے سبب نصیحت اور مسافروں کے فائدے کی چیز بنایا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

نَحْنُ جَعَلْنَاهَا تَذْكِرَةً ... We have made it a Reminder, According to Mujahid and Qatadah, "of the Hellfire". Qatadah said, "We were told that the Messenger of Allah said, يَا قَوْمِ نَارُكُمْ هذِهِ الَّتِي تُوقِدُونَ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِينَ جُزْءًا مِنْ نَارِ جَهَنَّم O people, this fire of yours that you kindle, is but one part out of seventy parts of the fire of Hell. They said, "O Allah's Messenger! This fire alone is sufficiently hot." The Messenger said, إِنَّهَا قَدْ ضُرِبَتْ بِالْمَاءِ ضَرْبَتَيْنِ أَوْ مَرَّتَيْنِ حَتْى يَسْتَنْفِعَ بِهَا بَنُو ادَمَ وَيَدْنُوا مِنْهَا It was submerged in the water twice so that the Children of `Adam would be able to benefit from it and draw closer to it. This narration from Qatadah which is Mursal, was recorded by Imam Ahmad in his Musnad from Abu Hurayrah, from the Prophet; إِنَّ نَارَكُمْ هذِهِ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِينَ جُزْءًا مِنْ نَارِ جَهَنَّمَ وَضُرِبَتْ بِالْبَحْرِ مَرَّتَيْنِ وَلَوْلاَ ذلِكَ مَا جَعَلَ اللهُ فِيهَا مَنْفَعَةً لاَِحَد Verily, this fire of yours is one part out of seventy parts of the fire of Hell. It was struck twice against the sea, otherwise, Allah would not have made benefit in it for anyone. Imam Malik also recorded that Abu Hurayrah said that Allah's Messenger said, نَارُ بَنِي ادَمَ الَّتِي يُوقِدُونَ جُزْءٌ مِنْ سَبْعِينَ جُزْءًا مِنْ نَارِ جَهَنَّم The fire that the Children of Adam kindle is one part out of seventy parts of the fire of Hell. They said, "O Allah's Messenger! This fire alone is sufficiently hot." He said, إِنَّهَا قَدْ فُضِّلَتْ عَلَيْهَا بِتِسْعَةٍ وَسِتِّينَ جُزْءًا (The fire of Hell) was made sixty-nine times hotter. Al-Bukhari collected this Hadith from Malik and Muslim from Abu Az-Zinad. Allah's statement, ... وَمَتَاعًا لِّلْمُقْوِينَ and an article of use for the Muqwin. Ibn Abbas, Mujahid, Qatadah, Ad-Dahhak and An-Nadr bin Arabi said, "The meaning of Al-Muqwin is travelers." This is also what Ibn Jarir chose, and he said, "From it comes the saying Aqwat Ad-Dar (the house has become empty), when its people traveled." Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam said that here Al-Muqwi means the hungry. Layth bin Abi Sulaym reported that Mujahid said about the Ayah, وَمَتَاعًا لِّلْمُقْوِينَ (and an article of use for the Muqwin). "For those who are present at their homes and travelers, for every kind of food that requires cooking by fire." Ibn Abi Najih also reported that Mujahid said, "For the Muqwin, means, all people who enjoy (eating food cooked by fire)." Similar was mentioned from Ikrimah, and this explanation is more general than the previous, since those who are in their own locale and traveling, whether rich or poor, all need fire for cooking, heating and lighting purposes. It is out of Allah's kindness that He has made the quality of kindling fire in some elements, such as stones, that people can use and take in the baggage for their journeys. When a traveler needs fire at his campsite for cooking and heating, he takes out these substances and uses them to kindle fire. He feels comfort next to the fire and he can use it for various needs that he has. Allah mentions this favor specifically in the case of travelers, even though everyone benefits from the fire. Allah's statement, فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

731کہ اس کے اثرات اور فوائد حیرت انگیز ہیں اور دنیا کی بیشمار چیزوں کی تیاری کے لئے اسے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ جو ہماری قدرت عظیمہ کی نشانی ہے، پھر ہم نے جس طرح دنیا میں یہ آگ پیدا کی ہے، ہم آخرت میں بھی پیدا کرنے پر قادر ہیں جو اس سے69درجہ حرارت میں زیادہ ہوگی۔ 2 مقوین، مقوی کی جمع ہے، قواء یعنی خالی صحراء میں داخل ہونے والا، مراد مسافر ہے، یعنی مسافر صحراؤں اور جنگلوں میں ان درختوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اس سے روشنی، گرمی اور ایندھین حاصل کرتے ہیں۔ بعض نے مقوی سے وہ فقراء مراد لیے ہیں جو بھوک کی وجہ سے خالی پیٹ ہوں۔ بعض نے اس کے معنی مستمعین (فائدہ اٹھانے والے) کیے ہیں۔ اس میں امیر غریب، مقیم اور مسافر سب آجاتے ہیں اور سب ہی آگ سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اسی لیے حدیث میں جن تین چیزوں کو عام رکھنے کا اور ان سے کسی کو نہ روکنے کا حکم دیا گیا ہے، ان میں پانی اور گھاس کے علاوہ آگ بھی ہے، امام ابن کثیر نے اس مفہوم کو زیادہ پسند کیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٤] مقوین کا لغوی مفہوم :۔ مُقْوِیْنٌ۔ القوٰی بمعنی بھوک اور بات الْقَوٰی بمعنی بھوکا رہ کر رات گزاری اور القاویۃ بمعنی کم بارش کا سال اور تقاوٰی بمعنی بارش کی قلت یا افراط جس سے فصل تباہ ہوجائے اور قحط نمودار ہوجائے۔ اور تقاوی قرضے وہ ہوتے ہیں جو ایسے قحط کے سال میں حکومت زمینداروں کو بالا قساط ادائیگی کی شرط پر دیتی ہے اور تقاوی بمعنی بھوکے رات بسر کرنا اور قوت لایموت بمعنی خوراک کی اتنی کم مقدار جس سے انسان بس زندہ رہ سکے اور مقوین بمعنی قوت کی احتیاج میں سفر کرتے پھرتے لوگ۔ خانہ بدوش لوگ جو رزق کی تلاش میں ادھرادھر منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ درختوں کی لکڑیوں سے عارضی مکان بھی کھڑے کرسکتے ہیں۔ ایندھن بیچ کر اپنی دوسری ضروریات بھی پوری کرسکتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

نَحْنُ جَعَلْنٰـہَا تَذْکِرَۃً وَّمَتَاعًا لِّلْمُقْوِیْنَ :” قوی یقوی قیا واقوایۃ “ ( س) ” الدار “ گھر خالی ہوگیا ۔ ” وقوی “ سخت بھوکا ہونا ۔ ” المطر “ بار ش رک جانا ۔ ” القوائ “ خالی زمین ، بیانان بھوک ۔ ” بات القوی “ اس نے بھوکے رات گزاری ۔ ” المقوین “ اس مادہ کے باب افعال ” اقوی یقوی اقوا “ سے اسم فاعل ” مقوی “ کی جمع ہے ، اس کا معنی قوائ ( جنگل بیابان) کے مسافر یا اس میں ٹھہرنے یا رہنے والے خانہ بدوش بھی ہے اور بھوکے لوگ بھی ۔ کوئی شک نہیں کہ آگ کی ضرورت ہر ایک کو پڑتی ہے ، مگر ان لوگوں کو اس سے بہت زیادہ کام لینا پڑتا ہے جن کا آیت میں ذکر ہے۔ آیت کا یہ مطلب نہیں کہ آگ دوسرے لوگوں کے لیے نصیحت یا زندگی کا سامان نہیں ، بلکہ ان دونوں کا خصوصاًذکر اس لیے فرمایا کہ سفر اور بھوک میں یہ احساس زیادہ واضح ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کی قدر و قیمت زیادہ ہوتی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

أَفَرَ‌أَيْتُم مَّا تَحْرُ‌ثُونَ (Well, tell Me about that [ seed ] which you sow:...56:63) In the matter of human creation, man The last answer is summarized thus in verse [ 73] نَحْنُ جَعَلْنَاهَا تَذْكِرَ‌ةً وَمَتَاعًا لِّلْمُقْوِينَ |"We have made it a reminder [ of Our infinite power, and of the fire of hell ] and a benefit for travelers in deserts....56:73) The word muqwin is derived from the infinitive iqwa& and it comes from the root-word qiwa& which means &waste, barren land, ruin or desert&. Thus the word muqwin means &a traveler or a wayfarer of a desert who alights to prepare his meals&. The verse purports to say that all these creations are the result of Allah&s power and wisdom.

نَحْنُ جَعَلْنٰهَا تَذْكِرَةً وَّمَتَاعًا لِّلْمُقْوِيْنَ ، مقوین، اقواء سے مشتق ہے اور وہ قواء بمعنی صحرا سے مشتق ہے، مقوی کے معنے ہوئے صحرا میں اترنے والا، مراد اس سے مسافر ہے جو جنگل میں کہیں ٹھہر کر اپنے کھانے کے انتظام میں لگا ہو اور مراد آیت کی یہ ہے کہ یہ سب تحقیقات ہماری ہی قدرت و حکمت کا نتیجہ ہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

نَحْنُ جَعَلْنٰہَا تَذْكِرَۃً وَّمَتَاعًا لِّلْمُقْوِيْنَ۝ ٧٣ ۚ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ تَّذْكِرَةُ : ما يتذكّر به الشیء، وهو أعمّ من الدّلالة والأمارة، قال تعالی: فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر/ 49] ، كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس/ 11] ، أي : القرآن . وذَكَّرْتُهُ التذکرۃ جس کے ذریعہ کسی چیز کو یاد لایا جائے اور یہ دلالت اور امارت سے اعم ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر/ 49] ان کو کیا ہوا کہ نصیحت سے روگرداں ہورہے ہیں ۔ كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس/ 11] دیکھو یہ ( قرآن ) نصیحت ہے ۔ مراد قرآن پاک ہے ۔ ذَكَّرْتُهُ كذا متع الْمُتُوعُ : الامتداد والارتفاع . يقال : مَتَعَ النهار ومَتَعَ النّبات : إذا ارتفع في أول النّبات، والْمَتَاعُ : انتفاعٌ ممتدُّ الوقت، يقال : مَتَّعَهُ اللهُ بکذا، وأَمْتَعَهُ ، وتَمَتَّعَ به . قال تعالی: وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس/ 98] ، ( م ت ع ) المتوع کے معنی کیس چیز کا بڑھنا اور بلند ہونا کے ہیں جیسے متع النھار دن بلند ہوگیا ۔ متع النسبات ( پو دا بڑھ کر بلند ہوگیا المتاع عرصہ دراز تک فائدہ اٹھانا محاورہ ہے : ۔ متعہ اللہ بکذا وامتعہ اللہ اسے دیر تک فائدہ اٹھانے کا موقع دے تمتع بہ اس نے عرصہ دراز تک اس سے فائدہ اٹھایا قران میں ہے : ۔ وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس/ 98] اور ایک مدت تک ( فوائد دینوی سے ) ان کو بہرہ مندر کھا ۔ مُقْوِينَ ( قوي) وسمّيت المفازة قِوَاءً ، وأَقْوَى الرّجل : صار في قِوَاءٍ أي : قفر، وتصوّر من حال الحاصل في القفر الفقر، فقیل : أَقْوَى فلان، أي : افتقر، کقولهم : أرمل وأترب . قال اللہ تعالی: وَمَتاعاً لِلْمُقْوِينَ [ الواقعة/ 73] . مفازۃ یعنی ریگستان کو قعواء کہا جاتا ہے اور افوا الرجل کے معنی کسی آدمی کے قواء یعنی بیابان میں چلے جانے کے ہیں ۔ پھر قفر یعنی بیابان سے قفر کا معنی لے کر اقوی الرجل کا محاورہ افتقر یعنی محتاج اور نادار کے معنی استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَمَتاعاً لِلْمُقْوِينَ [ الواقعة/ 73] اور محتاج اور ضرورتمندوں کے لئے سامان آسا آسا ئش بنایا ہے ۔ میں مقوین کا لفظ اسی معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ المقوین : اسم فاعل جمع مذکر۔ مجرور۔ المقوی واحد۔ اقواء ( افعال) مصدر قواء یاقوۃ ماخذ۔ اس لفظ کے ترجمہ میں اہل تفسیر کا اختلاف ہے :۔ حضرت علامہ ثناء اللہ پانی پتی (رح) لکھتے ہیں :۔ مقوین کا ترجمہ کیا گیا ہے مسافر۔ یہ لفظ قواء سے مشتق ہے قواء کا معنی ہے ویران، بیابان۔ جہاں کوئی عمارت نہ ہو۔ آبادی سے دور۔ سو مسافروں کو بہ نسبت اہل اقامت آگ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ درندوں اور جنگلی جانوروں سے حفاظت کے لئے وہ اکثر اوقات رات کو آگ روشن رکھتے ہیں ( کہیں ٹیلے یا پہاڑی پر) آگ جل رہی ہو تو مسافروں کو راستہ مل جاتا ہے ۔ پھر سردی کی وجہ سے ان کو تانبے کی اور جسم کو سینکنے کی بھی زیادہ ضرورت پڑتی ہے اسی لئے مسافروں کے لئے فائدہ رساں ہونے کا ذکر کیا۔ اکثر اہل تفسیر نے مقوین کا یہی ترجمہ کیا ہے۔ ترجمہ :۔ ہم نے ہی اس کو مسافروں کے لئے نصیحت اور فائدہ مند چیز بنایا۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧٣{ نَحْنُ جَعَلْنٰہَا تَذْکِرَۃً وَّمَتَاعًا لِّلْمُقْوِیْنَ } ” ہم نے بنا دیا اس کو ایک نشانی یاد دلانے کو اور ایک بہت فائدہ مند چیز صحرا کے مسافروں کے لیے ۔ “ جیسا کہ سورة یٰسین کی آیت ٨٠ کے ضمن میں بھی وضاحت کی جا چکی ہے ‘ بعض صحرائوں میں ایسے درخت پائے جاتے ہیں جن کی سبز گیلی شاخوں کو آپس میں رگڑنے سے آگ پیدا ہوتی ہے۔ یہاں پر شَجَرَتَہَآ سے وہ مخصوص درخت بھی مراد ہے اور عام درخت بھی۔ کیونکہ درختوں کی لکڑی آگ جلانے کا ایک بہت بڑاذریعہ ہے۔ اور یہ درخت ظاہر ہے اللہ نے پیدا کیے ہیں اور اسی نے ان میں جلنے کی خصوصیت رکھی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

33 Making the fire "a means of remembrance" means; "The fire by virtue of its quality of being kindled at, all times reminds man of his forgotten lesson that without it human life could not be any different from animal life. Because of the fire only did man learn to cook food for eating instead of eating it raw like the animals, and then new and ever new avenues to industry and invention went on opening up before him. Obviously, if God had not created the means of kindling the fire and the substances that could be kindled, man's inventive potentialities would have remained dormant. But the man has forgotten that his Creator is a wise Sustainer, Who created him with human capabilities on the one hand, and on the other, created such materials on the earth by which his these capabilities could become active and operative. If he is not lost in Heedlessness, the fire alone is enough to remind him of the favours and bounties of his Creator, which he is so freely enjoying in the world." 34 The word muqwin in the original has been interpreted differently by the lexicographers. Some have taken it in the meaning of the travellers who have halted in the desert, some in the meaning of a hungry man, and some take it in the meaning of aII those who derive benefit from the fire, whether it is the benefit of cooking food or of light or of heat.

سورة الْوَاقِعَة حاشیہ نمبر :33 اس آگ کو یاد دہانی کا ذریعہ بنانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ وہ چیز ہے جو ہر وقت روشن ہو کر انسان کو اس کا بھولا ہوا سبق یاد دلاتی ہے ۔ اگر آگ نہ ہوتی تو انسان کی زندگی حیوان کی زندگی سے مختلف نہ ہو سکتی ۔ آگ ہی سے انسان نے حیوانات کی طرح کچی غذائیں کھانے کے بجائے ان کو پکا کر کھانا شروع کیا اور پھر اس کے لیے صنعت و ایجاد کے نئے نئے دروازے کھلتے چلے گئے ۔ ظاہر ہے کہ اگر خدا وہ ذرائع پیدا نہ کرتا جن سے آگ جلائی جا سکے ، اور وہ آتش پذیر مادے پیدا نہ کرتا جو آگ سے جل سکیں ، تو انسان کی ایجادی صلاحیتوں کا قفل ہی نہ کھلتا ۔ مگر انسان یہ بات فراموش کر گیا ہے کہ اس کا خالق کوئی پروردگار حکیم ہے جس نے اسے ایک طرف انسانی قابلیتیں دے کر پیدا کیا تو دوسری طرف زمین میں وہ سرو سامان بھی پیدا کر دیا جس سے اس کی یہ قابلیتیں رو بعمل آ سکیں ۔ وہ اگر غفلت میں مد ہوش نہ ہو تو تنہا ایک آگ ہی اسے یہ یاد دلانے کے لیے کافی ہے کہ یہ کس کے احسانات اور کس کی نعمتیں ہیں جن سے وہ دنیا میں متمتع ہو رہا ہے ۔ سورة الْوَاقِعَة حاشیہ نمبر :34 اصل میں لفظ مُقْوِیْن استعمال کیا گیا ہے ۔ اس کے مختلف معنی اہل لغت نے بیان کیے ہیں ۔ بعض اسے صحرا میں اترے ہوئے مسافروں کے معنی میں لیتے ہیں ۔ بعض اس کے معنی بھوکے آدمی کے لیتے ہیں ۔ اور بعض کے نزدیک اس سے مراد وہ سب لوگ ہیں جو آگ سے فائدہ اٹھاتے ہیں ، خواہ وہ کھانا پکانے کا فائدہ ہو یا روشنی کا یا تپش کا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

20: نصیحت کا سامان اس لئے کہ اول تو اس پر غور کرکے انسان اللہ تعالیٰ کی قدرت کو یاد کرتا ہے کہ اس نے کس طرح ایک درخت کو آگ پیدا کرنے کا ذریعہ بنادیا، اور دوسرے اس سے دوزخ کی آگ بھی یاد آتی ہے تو اس سے بچنے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے، اور اگرچہ یہ درخت سبھی کے لئے آگ جلانے کے کام آتے ہیں ؛ لیکن صحرا میں سفر کرنے والوں کے لئے یہ خاص طور پر بڑی نعمت تھی کہ چلتے چلتے یہ درخت مل جائے اور مسافر اس سے اپنی ضرورت پوری کرلے، اس لئے مسافروں کا بطور خاص ذکر فرمایا گیا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(56:73) جعلناھا۔ میں ضمیر ھا واحد مؤنث غائب النار کے لئے ہے۔ تذکرۃ : یاد دہانی۔ نصیحت ، یاد کرنے کی چیز، بروزن تفعلۃ (باب تفعیل) کا مصدر ہے ۔ جعلنا کا مفعول ثانی۔ ومتاعا فائدہ اور تمتع کی چیز۔ اسباب خانہ۔ جمع امتعۃ۔ کلام کے وزن پر۔ باب تفعیل سے مصدر ہے۔ جعلنا کا مفعول ثالث۔ المقوین : اسم فاعل جمع مذکر۔ مجرور۔ المقوی واحد۔ اقواء (افعال) مصدر قواء یاقوۃ ماخذ۔ اس لفظ کے ترجمہ میں اہل تفسیر کا اختلاف ہے :۔ حضرت علامہ ثناء اللہ پانی پتی (رح) لکھتے ہیں :۔ مقوین کا ترجمہ کیا گیا ہے مسافر۔ یہ لفظ قواء سے مشتق ہے قواء کا معنی ہے ویران، بیابان۔ جہاں کوئی عمارت نہ ہو۔ آبادی سے دور۔ سو مسافروں کو بہ نسبت اہل اقامت آگ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ درندوں اور جنگلی جانوروں سے حفاظت کے لئے وہ اکثر اوقات رات کو آگ روشن رکھتے ہیں (کہیں ٹیلے یا پہاڑی پر) آگ جل رہی ہو تو مسافروں کو راستہ مل جاتا ہے ۔ پھر سردی کی وجہ سے ان کو تانبے کی اور جسم کو سینکنے کی بھی زیادہ ضرورت پڑتی ہے اسی لئے مسافروں کے لئے فائدہ رساں ہونے کا ذکر کیا۔ اکثر اہل تفسیر نے مقوین کا یہی ترجمہ کیا ہے۔ ترجمہ :۔ ہم نے ہی اس کو مسافروں کے لئے نصیحت اور فائدہ مند چیز بنایا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دنیا کی آگ جسے لوگ سلگاتے ہیں (تیزی میں) جہنم کی آگ کا سترواں حصہ ہے۔ شوکانی7 مقوین کے اصل معنی قوء یعنی بیابان میں ٹھہرنے یا رہنے والے لوگ میں جیسے مسافر یا خانہ بدوش کوئی شک نہیں کہ آگ کی ضرورت ہر ایک کو پڑتی ہے لیکن ان لوگوں کو اس سے بہت زیادہ کام لینا پڑتا ہے خصوصاً سردی کے موسم میں اس لئے ان کا خصوصیت سے ذکر فرمایا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

نحن ............ تذکرة (٦ 5: ٣٧) ” یہ اس کو یاددہانی کا ذریعہ بنایا۔ “ یعنی آخرت کی آگ کی یاددہانی کا اور ہم نے اس کو۔ ومتاعا للمقوین (٦ 5: ٣٧) ” حاجت مندوں مسافروں کے لئے سامان زیست بنایا ہے۔ “ مقوین کے معنی مسافر ہیں۔ مخاطین کے نفوس پر اس کا بہت اثر تھا کیونکہ ان کے سامنے ان کا ایک زندہ تجربہ پیش کیا گیا۔ جس اس حد تک اسرار ورموزفاش کردیئے گئے جن سے دلائل ایمان روز روشن کی طرح سامنے آگئے۔ اور لوگوں کے لئے قابل فہم ، تو اب اشارہ کرنا لازم ہوگیا کہ یہ سب کچھ فراہم کرنے والاکون ہے ؟ کیا ایک عظیم خالق اور رب کی موجودگی کا سوال تمہارے ذہنوں میں پیدا نہیں ہوتا۔ یہ ایک حقیقت ہے جس کی طرف فطرت متوجہ ہوتی ہے اور وہ فطرت انسان کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا جاتا ہے کہ آپ اللہ کی تسبیح کریں اور اس حقیقت کو زندہ کریں اور دلوں کو اس سے متاثر کریں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

وَّ مَتَاعًا لِّلْمُقْوِيْنَ کا معنی : آخر میں فرمایا ﴿ وَّ مَتَاعًا لِّلْمُقْوِيْنَ﴾ یعنی آگ کو ہم نے مسافروں کے لیے نفع کا ذریعہ بنا دیا مسافر جب کہیں جنگلوں میں ٹھہرتے ہیں تو آگ جلا لیتے ہیں روٹی سالن بھی پکاتے ہیں اور سردی میں تاپتے بھی ہیں اسے دیکھ کر درندے بھاگتے ہیں اور جو راستہ بھول گئے ہوں وہ بھی جلتی ہوئی آگ دیکھ کر جلانے والوں کے قریب آجاتے ہیں۔ قال البغوی فی معالم التنزیل المقوی النازل فی الارض والقواء ھو القفر الخالیة البعیدة من العمران یقال قویت الدار اذا خلت من سکانھا والمعنی انہ ینتفع بھا اھل البوادی والاسفار ـ (صفحہ ٢٨٨: ج ٤)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(73) ہم نے اس آگ کو موجب نصیحت اور مسافروں کے لئے بڑے فائدے کی چیز بنایا ہے۔