Surat ul Waqiya

Surah: 56

Verse: 8

سورة الواقعة

فَاَصۡحٰبُ الۡمَیۡمَنَۃِ ۬ ۙ مَاۤ اَصۡحٰبُ الۡمَیۡمَنَۃِ ؕ﴿۸﴾

Then the companions of the right - what are the companions of the right?

پس داہنے ہاتھ والے کیسے اچھے ہیں داہنے ہاتھ والے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَأَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ مَا أَصْحَابُ الْمَشْأَمَةِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

8۔ 1 اس سے عام مومنین مراد ہیں جن کو ان کے اعمال نامے دائیں ہاتھوں میں دیئے جائیں گے جو ان کی خوش بختی کی نشانی ہوگی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥] یمین بمعنی دایاں ہاتھ بھی اور دائیں جانب بھی۔ اس لحاظ سے اس کے معنی یہ ہوئے کہ جن لوگوں کو ان کا اعمال نامہ ان کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اور قیامت کے دن انہیں اللہ تعالیٰ کے دائیں جانب جگہ ملے گی۔ جب رسول اللہ کو شب معراج میں آسمانوں کی سیر کرائی گئی تو آپ نے پہلے آسمان پر سیدنا آدم (علیہ السلام) کو دیکھا کہ وہ جب اپنی دائیں طرف دیکھتے ہیں تو ہنس دیتے ہیں اور بائیں طرف دیکھتے ہیں تو رو دیتے ہیں۔ سیدنا جبریل نے آپ کو بتایا کہ سیدنا آدم کی دائیں جانب وہ لوگ تھے جو جنت میں داخل ہونے والے ہیں اور بائیں طرف وہ لوگ تھے جو جہنم میں داخل ہوں گے، اس سے بھی اصحاب الیمین سے مراد اہل جنت ہوئے۔ اور اگر یمین کو یمن سے مشتق سمجھا جائے جو برکت اور خوش بختی کے معنوں میں آتا ہے تو اس سے مراد خوش بخت اور خیر و برکت والے اصحاب ہیں اور مطلب دونوں معنوں کے لحاظ سے ایک ہی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ مَآ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ ۔۔۔۔۔:” اصحاب المیمنۃ ‘ ‘ مبتداء ہے اور ” ماَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ “ جملہ ہو کر خبر ہے۔ دائیں ہاتھ والے جنہیں دائیں ہاتھ میں اعمال نامے دیئے جائیں گے۔ ( دیکھئے حاقہ : ١٩) استفہام سے مراد ان کی عظمت شان کا اظہار ہے ، یعنی وہ اتنی شان والے ہیں کہ ان کے متعلق سوال کیا جاتا ہے کہ ” اصحاب المیمنۃ “ کیا ہیں ؟ یہاں ان کی شان اجمالاً بیان ہوئی ہے، تفصیل آگے ” واصحب الیمین ما اصحب الیمین “ میں آرہی ہے۔ اسی طرح ” وَاَصْحٰبُ الْمَشْئَمَۃِ مَآ اَصْحٰبُ الْمَشْئَمَۃِ “ میں بائیں ہاتھ والوں کی بری حالت کا اظہار مقصود ہے کہ وہ کیا ہی بری ہے ، تفصیل اس کی ” واصحب الشمال ما اصحب الشمال “ میں آرہی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاَصْحٰبُ الْمَيْمَنَۃِ۝ ٠ۥۙ مَآ اَصْحٰبُ الْمَيْمَنَۃِ۝ ٨ ۭ صحب الصَّاحِبُ : الملازم إنسانا کان أو حيوانا، أو مکانا، أو زمانا . ولا فرق بين أن تکون مُصَاحَبَتُهُ بالبدن۔ وهو الأصل والأكثر۔ ، أو بالعناية والهمّة، ويقال للمالک للشیء : هو صاحبه، وکذلک لمن يملک التّصرّف فيه . قال تعالی: إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] ( ص ح ب ) الصاحب ۔ کے معنی ہیں ہمیشہ ساتھ رہنے والا ۔ خواہ وہ کسی انسان یا حیوان کے ساتھ رہے یا مکان یا زمان کے اور عام اس سے کہ وہ مصاحبت بدنی ہو جو کہ اصل اور اکثر ہے یا بذریعہ عنایت اور ہمت کے ہو جس کے متعلق کہ شاعر نے کہا ہے ( الطوایل ) ( اگر تو میری نظروں سے غائب ہے تو دل سے تو غائب نہیں ہے ) اور حزف میں صاحب صرف اسی کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر ساتھ رہے اور کبھی کسی چیز کے مالک کو بھی ھو صاحبہ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح اس کو بھی جو کسی چیز میں تصرف کا مالک ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِذْ يَقُولُ لِصاحِبِهِ لا تَحْزَنْ [ التوبة/ 40] اس وقت پیغمبر اپنے رفیق کو تسلی دیتے تھے کہ غم نہ کرو ۔ يمین ( دائیں طرف) اليَمِينُ : أصله الجارحة، واستعماله في وصف اللہ تعالیٰ في قوله : وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ [ الزمر/ 67] علی حدّ استعمال الید فيه، و تخصیص اليَمِينِ في هذا المکان، والأرض بالقبضة حيث قال جلّ ذكره : وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 67] «1» يختصّ بما بعد هذا الکتاب . وقوله :إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنا عَنِ الْيَمِينِ [ الصافات/ 28] أي : عن الناحية التي کان منها الحقّ ، فتصرفوننا عنها، وقوله : لَأَخَذْنا مِنْهُ بِالْيَمِينِ [ الحاقة/ 45] أي : منعناه ودفعناه . فعبّر عن ذلک الأخذ باليَمِينِ کقولک : خذ بِيَمِينِ فلانٍ عن تعاطي الهجاء، وقیل : معناه بأشرف جو ارحه وأشرف أحواله، وقوله جلّ ذكره : وَأَصْحابُ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 27] أي : أصحاب السّعادات والمَيَامِنِ ، وذلک علی حسب تعارف الناس في العبارة عن المَيَامِنِ باليَمِينِ ، وعن المشائم بالشّمال . واستعیر اليَمِينُ للتَّيَمُّنِ والسعادة، وعلی ذلک وَأَمَّا إِنْ كانَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 90- 91] ، وعلی هذا حمل : 477- إذا ما راية رفعت لمجد ... تلقّاها عرابة باليَمِين ( ی م ن ) الیمین کے اصل معنی دایاں ہاتھ یا دائیں جانب کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَالسَّماواتُ مَطْوِيَّاتٌ بِيَمِينِهِ [ الزمر/ 67] اور آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لیپٹے ہوں گے ۔ میں حق تعالیٰ کی طرف یمن نسبت مجازی ہے ۔ جیسا کہ ید وغیر ہا کے الفاظ باری تعالیٰ کے متعلق استعمال ہوتے ہیں یہاں آسمان کے لئے یمین اور بعد میں آیت : ۔ وَالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 67] اور قیامت کے دن تمام زمین اس کی مٹھی میں ہوگی ۔ میں ارض کے متعلق قبضۃ کا لفظ لائے میں ایک باریک نکتہ کی طرف اشارہ ہے جو اس کتاب کے بعد بیان ہوگا اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكُمْ كُنْتُمْ تَأْتُونَنا عَنِ الْيَمِينِ [ الصافات/ 28] تم ہی ہمارے پاس دائیں اور بائیں ) اسے آتے تھے ۔ میں یمین سے مراد جانب حق ہے یعنی تم جانب حق سے ہمیں پھیرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ لَأَخَذْنا مِنْهُ بِالْيَمِينِ [ الحاقة/ 45] تو ہم ان کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے ۔ میں دایاں ہاتھ پکڑ لینے سے مراد روک دینا ہے جیسے محاورہ ہے : ۔ یعنی فلاں کو ہجو سے روک دو ۔ بعض نے کہا ہے کہ انسان کا دینا ہاتھ چونکہ افضل ہے سمجھاجاتا ہے اسلئے یہ معنی ہو نگے کہ ہم بہتر سے بہتر حال میں بھی اسے با شرف اعضاء سے پکڑ کر منع کردیتے اور آیت کریمہ : ۔ وَأَصْحابُ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 27] اور دہنے ہاتھ والے ۔ میں دہنی سمت والوں سے مراد اہل سعادت ہیں کو ین کہ عرف میں میامن ( با برکت ) ) کو یمین اور مشاے م ( منحوس ) کو شمالی کے لفظ سے یاد کیا جاتا ہے اور استعارہ کے طور پر یمین کا لفظ بر کت وسعادت کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَأَمَّا إِنْ كانَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ [ الواقعة/ 90- 91] اگر وہ دائیں ہاتھ والوں یعنی اصحاب خیر وبر کت سے ہے تو کہا جائیگا تجھ پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام اور ایس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( 426 ) اذا ما رایۃ رفعت ملجد تلقا ھا عرا بۃ بالیمین جب کبھی فضل ومجد کے کاموں کے لئے جھنڈا بلند کیا جاتا ہے تو عرابۃ اسے خیر و برکت کے ہاتھ سے پکڑ لیتا ہے ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» . الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨{ فَاَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ لا مَآ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ ۔ } ” تو جو داہنے والے ہوں گے ‘ کیا خوب ہوں گے وہ داہنے والے ! “ داہنے والوں کی خوش نصیبی کا کیا کہناہو گا۔۔۔ یا تم لوگوں کو کیا معلوم کہ وہ داہنے والے لوگ کون ہوں گے ‘ ان کی کیا شان ہوگی اور وہ کس کیفیت میں ہوں گے۔ مَیْمَنَۃ ” یمین “ سے بھی ہوسکتا ہے جس کے معنی سیدھے ہاتھ کے ہیں ‘ اور ” یُمن “ سے بھی ہوسکتا ہے جس کے معنی برکت اور خوش نصیبی کے ہیں۔ اس اعتبار سے اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃ کا ترجمہ مبارک لوگ یا خوش نصیب اور نیک بخت لوگ بھی ہوسکتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

5 The word maintanah in ashab al-maimanah, in the original, stay have been derived from Yamin, which means the right hand, and also from yumn, which means good omen. If it is taken to be derived from yamin, ashab almaimanah would mean: `those of the right hand." This, however, dces not imply its lexical meaning, but it signifies the people of exalted rank and position. The Arabs regarded the right hand as a symbol of strength and eminence and honour, and therefore would seat a person whom they wished to do honour, on the right hand, in the assemblies. And if it is taken as derived from yumn, ashab almaimanah would mean fortunate and blessed people.

سورة الْوَاقِعَة حاشیہ نمبر :5 اصل میں لفظ اَصْحَابُ لْمَیْمَنَہ استعمال ہوا ہے ۔ میمنہ عربی قاعدے کے مطابق یمین سے بھی ہو سکتا ہے جس کے معنی سیدھے ہاتھ کے ہیں ، اور یُمن سے بھی ہو سکتا ہے جس کے معنی ہیں چال نیک ۔ اگر اس کو یمین سے ماخوذ مانا جائے تو اصحاب المیمنہ کے معنی ہوں گے سیدھے ہاتھ والے لیکن اس سے لغوی معنی مراد نہیں ہیں بلکہ اس کا مطلب ہے عالی مرتبہ لوگ ، اہل عرب سیدھے ہاتھ کو قوت اور رفعت اور عزت کا نشان سمجھتے تھے ۔ جس کا احترام مقصود ہوتا تھا اسے مجلس میں سیدھے ہاتھ پر بٹھاتے تھے ۔ کسی کے متعلق یہ کہنا ہوتا کہ میرے دل میں اس کی بڑی عزت ہے تو کہتے فلانٌ مِنِّی بالیمین ، وہ تو میرے سیدھے ہاتھ کی طرف ہے اردو میں بھی کسی شخص کو کسی بڑی ہستی کا دست راست اس معنی میں کہا جاتا ہے کہ وہ اس کا خاص آدمی ہے ۔ اور اگر اس کو یُمن سے ماخوذ مانا جائے تو اصحاب المیمنہ کے معنی ہوں گے خوش نصیب اور نیک بخت لوگ ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: دائیں ہاتھ والوں سے مراد وہ خوش نصیب مومن ہیں جن کا نامہ اعمال ان کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا، جو اس بات کی علامت ہوگی کہ یہ صاحب ایمان ہیں اور ان کو جنت نصیب ہونے والی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(56:8) فاصحب المیمنۃ یہ جملہ شرطیہ اذا وقعت الواقعۃ کا جملہ جزائیہ ہے جواب اذا ھو قولہ : فاصحب المیمنۃ فالمعنی اذا قامت القیامۃ و حصلت ھذہ الاحوال العظیمۃ ظھرت منزلۃ اصحب المیمنۃ واصحاب المشئمۃ (اضواء البیان) اذا کا جواب شرط خداوند تعالیٰ کا قول فاصحب المیمنۃ ہے۔ مطلب یہ کہ جب قیامت وقوع پذیر ہوگی اور یہ احوال عظیمہ (زمین کا یکبارگی ہلا دیا جانا۔ پہاڑوں کا ریزہ ریزہ کردیا جانا۔ اور ان کا پراگندہ غبار بن کر رہ جانا اور لوگوں کا تین گروہوں میں تقسیم ہوجانا) واقع ہوں گے۔ تو اصحاب المیمنہ اور اصحاب المشئمہ کی قدرو منزلت عیاں ہوگی۔ فاصحب المیمنۃ : ف عاطفہ ہے۔ اصحب المیمنۃ مضاف مضاف الیہ مل کر مبتداء ما استفہامیہ ہے (کون ہوں گے وہ ؟ ان کی کیا حالت ہوگی ؟ اور ان کی کیا صفت ہوگی ؟ ) یا استفہامیہ برائے تعجب ہے (کیا ہی ان کی شان ہوگی) ما مبتدا ثانی ہے اور اصحب المیمنۃ اس کی خبر، یہ مبتداء اپنی خبر سے مل کر مبتداء اول (اصحب المیمنۃ) کی خبر ہوا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی ان کی خوش حالی اور عیش و آرام کا کیا پوچھنا ! مراد عام جنتی لوگ ہیں جو عشر کی دائیں جانب ہونگے یا جنہیں حضرت آدم کے دائیں پہلو سے پیدا کیا گیا یا جنہیں ان کے اعمالنامے دائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے یا جنہیں دائیں طرف سے لے جایا جائے گا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ مراد اس سے وہ ہیں جن کے نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیئے جائیں گے، اور گو یہ مفہوم مقربین میں بھی مشترک ہے لیکن اس صفت پر اکتفا کرنا مشیر اس طرف ہے کہ ان میں اصحاب الیمین سے زائد کوئی اور صفت قرب خاص کی نہیں پائی جاتی، اس طرح مراد اس سے عوام مومنین ہوگئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فاصاحب ............ المیمنة (٦ 5: ٨) ” دائیں بازو والے ، کیا عظیم ہیں وہ دائیں بازو والے ! “ اسی انداز میں دوسرے گروہ بائیں بازو والوں کا ذکر ہے اور اس کے بعد تیسرے فریق السابقون کا ذکر ہے اور ان السابقون کو ان کی صفات سے ذکر کیا جاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قیامت کے دن حاضر ہونے والوں کی تین قسمیں ان آیات میں اصحاب المیمنہ کی دونوں قسموں یعنی مقربین اور عام مومنین کا تذکرہ فرمایا ہے اور ان کے انعامات بتائے ہیں۔ اولاً اجمالاً یوں فرمایا ﴿ فَاَصْحٰبُ الْمَيْمَنَةِ ١ۙ۬ مَاۤ اَصْحٰبُ الْمَيْمَنَةِؕ٠٠٨﴾ (سو داہنے ہاتھ والے کیا ہی اچھے ہیں داہنے ہاتھ والے) وَ اَصْحٰبُ الْمَشْـَٔمَةِ ١ۙ۬ مَاۤ اَصْحٰبُ الْمَشْـَٔمَةِؕ٠٠٩ (اور بائیں ہاتھ والے کیا ہی برے ہیں بائیں ہاتھ والے) پہلی قسم کے افراد کو ﴿اَصْحٰبُ الْمَيْمَنَةِ﴾ (داہنے ہاتھ والے) كس اعتبار سے فرمایا ؟ اس کے بارے میں صاحب روح المعانی نے دو قول لکھے ہیں، اول یہ کہ ان حضرات کے صحائف اعمال (یعنی اعمال نامے) داہنے ہاتھ میں دیئے جائیں گے، دوم یہ کہ جب یہ حضرات جنت میں جانے لگیں گے تو میدان حشر سے ہٹ کر داہنے ہاتھ کو چل دیں گے۔ صاحب معالم التنزیل نے تیسرا قول یہ لکھا ہے کہ جب صلب آدم سے نکالے گئے تو یہ لوگ ان کے داہنے طرف سے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے انہیں جنت کے لیے پیدا کیا ہے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ یہ لفظ یمن (بمعنی مبارک) سے ماخوذ ہے اور مطلب یہ ہے کہ یہ حضرات مبارک ہیں۔ ان کی زندگیاں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں گزری ہوں گی، ان کے مقابل اَصْحٰبُ الْمَشْـَٔمَةِ کو سمجھ لیا جائے۔ مذکورہ اقوال میں سے ہر بات کا مقابل ذہن میں لے آنا چاہئے یعنی اَصْحٰبُ الْمَشْـَٔمَةِ کے اعمال نامے ان کے بائیں ہاتھ میں دیئے جائیں گے اور جب ان کو دوزخ کی طرف لے جائیں تو میدان حشر سے بائیں طرف لے جایا جائے گا جدھر دوزخ ہوگا اور جب انہیں آدم (علیہ السلام) کی پشت سے نکالا تھا تو یہ ان کے بائیں طرف سے تھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ میں نے انہیں دوزخ کے لیے پیدا کیا اور یہ لوگ نامبارک (یعنی بدبختی کے کام کرتے تھے اپنی عمریں اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں نہیں لگاتے تھے) اس کے بعد سابقین (یعنی آگے بڑھنے والوں) کی نعمتوں کا تذکرہ فرمایا : ﴿اَصْحٰبُ الْمَيْمَنَةِ﴾ کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے جو صفات بیان کی گئیں ان کے اعتبار سے یہ حضرات مقربین بھی اصحاب المیمنہ ہی ہیں لیکن اعمال میں سبقت لے جانے کی وجہ سے ان کو سابقین کا لقب دیا گیا ان کے انعامات بھی خوب بڑے بڑے بتائے، اس اعتبار سے میدان حشر میں حاضر ہونے والوں کی مذکورہ دو قسموں (اَصْحٰبُ الْمَيْمَنَةِ اور اَصْحٰبُ الْمَشْـَٔمَةِ کے علاوہ تیسری قسم یہی مقربین کی جماعت ہوگی) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(8) ایک داہنے والے سو کیسے اچھے ہیں داہنے والے۔ یعنی وہ اہل سعادت جن کے نامہ اعمال داہنے ہاتھوں میں ہوں گے یا ابتداء میں جب حضرت آدم (علیہ السلام) کی ذریت کو ان کی پشت سے نکالا تو یہ حضرت آدم کی دائیں جانب تھے یا قیامت کے دن جب لوگ عزت کے ساتھ بٹھائے جائیں گے تو یہ داہنی طرف ہوں گے۔