Surat ul Waqiya

Surah: 56

Verse: 81

سورة الواقعة

اَفَبِہٰذَا الۡحَدِیۡثِ اَنۡتُمۡ مُّدۡہِنُوۡنَ ﴿ۙ۸۱﴾

Then is it to this statement that you are indifferent

پس کیا تم ایسی بات کو سرسری ( اور معمولی ) سمجھ رہے ہو؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Is it such a talk that you are Mudhinun, Al-`Awfi reported from Ibn Abbas that Mudhinun means, "You do not believe in and deny." Similar to this was said by Ad-Dahhak, Abu Hazrah and As-Suddi. Mujahid said, مُّدْهِنُونَ (Mudhinun) means "You want to fill yourselves with and rely upon." وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٨] مُدْھِنُوْنَ ۔ دُھْنٌ بمعنی روغن، تیل، چکنائی اور اَدْھَنَ بمعنی کسی چیز کو تیل لگا کر نرم کرنا مداھنت کے کئی معنی ہیں۔ مثلاً کسی بات میں لچک پیدا کرلینا۔ ڈھیلا پڑنا۔ منافقت کا رویہ اختیار کرنا۔ کسی چیز کو اپنی سنجیدہ توجہ کے قابل ہی نہ سمجھنا۔ یعنی اے کفار مکہ ! قرآن جیسی بلند پایہ کتاب کے بارے میں تمہارا رویہ یہ ہے کہ تم اسے کچھ اہمیت ہی نہیں دیتے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَفَبِہٰذَا الْحَدِیْثِ اَنْتُمْ مُّدْہِنُوْنَ ۔۔۔۔۔۔ پھر کیا اس ساری تفصیل کے بعد کہ قیامت حق ہے اور اللہ تعالیٰ اکیلا معبود برحق ہے اور قسم کے ساتھ تاکید کے بعد بھی کہ یہ قرآن اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ کلام ہے ، تم اس سے بےتوجہی کرتے ہو اور اس پر ایمان لانے میں سستی کرتے ہو اور اتنی بڑی نعمت میں سے تم یہی حصہ حاصل کرتے ہو کہ اسے جھٹلا دیتے ہو۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

أَفَبِهَـٰذَا الْحَدِيثِ أَنتُم مُّدْهِنُونَ (Is it this discourse that you take lightly,...56:81) The word mudhinun is the plural of mudhin, being the active participle from اِذھَان idhan, which literally means &to apply or rub oil on the body&. When oil is applied or rubbed on the body, the muscles are relaxed, and parts of the body become soft and supple. By extension, the word is employed in the sense of showing flexibility and softness on inappropriate occasions. Hence, it is used in the sense of hypocrisy.

اَفَبِھٰذَا الْحَدِيْثِ اَنْتُمْ مُّدْهِنُوْنَ ، مدہنون، ادہان سے مشتق ہے، جس کے لغوی معنی تیل کی مالش کرنے کے ہیں اور تیل مالش سے اعضاء نرم ہوجاتے ہیں اس لئے نرم کرنے اور ناجائز مواقع میں نرمی برتنے کے معنی اور نفاق کے مفہوم میں استعمال ہونے لگا، آیت مذکورہ میں یہ لفظ آیات الٰہیہ کی تصدیق میں نفاق یا تکذیب کے معنی میں استعمال ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَفَبِھٰذَا الْحَدِيْثِ اَنْتُمْ مُّدْہِنُوْنَ۝ ٨١ ۙ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) حدیث وكلّ کلام يبلغ الإنسان من جهة السمع أو الوحي في يقظته أو منامه يقال له : حدیث، قال عزّ وجلّ : وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم/ 3] ، وقال تعالی: هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية/ 1] ، وقال عزّ وجلّ : وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ [يوسف/ 101] ، أي : ما يحدّث به الإنسان في نومه، حدیث ہر وہ بات جو انسان تک سماع یا وحی کے ذریعہ پہنچے اسے حدیث کہا جاتا ہے عام اس سے کہ وہ وحی خواب میں ہو یا بحالت بیداری قرآن میں ہے ؛وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلى بَعْضِ أَزْواجِهِ حَدِيثاً [ التحریم/ 3] اور ( یاد کرو ) جب پیغمبر نے اپنی ایک بی بی سے ایک بھید کی بات کہی ۔ أَتاكَ حَدِيثُ الْغاشِيَةِ [ الغاشية/ 1] بھلا ترکو ڈھانپ لینے والی ( یعنی قیامت کا ) حال معلوم ہوا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأْوِيلِ الْأَحادِيثِ [يوسف/ 101] اور خوابوں کی تعبیر کا علم بخشا۔ میں احادیث سے رویا مراد ہیں دهن قال تعالی: تَنْبُتُ بِالدُّهْنِ [ المؤمنون/ 20] ، وجمع الدّهن أدهان . وقوله تعالی: فَكانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهانِ [ الرحمن/ 37] ، قيل : هو درديّ الزّيت، والمُدْهُن : ما يجعل فيه الدّهن، وهو أحد ما جاء علی مفعل من الآلة وقیل للمکان الذي يستقرّ فيه ماء قلیل : مُدْهُن، تشبيها بذلک، ومن لفظ الدّهن استعیر الدَّهِين للناقة القلیلة اللّبن، وهي فعیل في معنی فاعل، أي : تعطي بقدر ما تدهن به . وقیل : بمعنی مفعول، كأنه مَدْهُون باللبن . أي : كأنها دُهِنَتْ باللبن لقلّته، والثاني أقرب من حيث لم يدخل فيه الهاء، ودَهَنَ المطر الأرض : بلّها بللا يسيرا، کالدّهن الذي يدهن به الرّأس، ودَهَنَهُ بالعصا : كناية عن الضّرب علی سبیل التّهكّم، کقولهم : مسحته بالسّيف، وحيّيته بالرّمح . والإِدْهَانُ في الأصل مثل التّدهين، لکن جعل عبارة عن المداراة والملاینة، وترک الجدّ ، كما جعل التّقرید وهو نزع القراد عن البعیر عبارة عن ذلك، قال : أَفَبِهذَا الْحَدِيثِ أَنْتُمْ مُدْهِنُونَ [ الواقعة/ 81] ، قال الشاعر : الحزم والقوّة خير من ال إدهان والفکّة والهاع وداهنت فلانا مداهنة، قال : وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ [ القلم/ 9] . ( د ھ ن ) الدھن ۔ تیل ۔ چکنا ہٹ ج ادھان قرآن میں ہے : ۔ تَنْبُتُ بِالدُّهْنِ [ المؤمنون/ 20] جو روغن لئے ہوئے اگتا ہے : ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَكانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهانِ [ الرحمن/ 37] پھر ۔۔۔۔ تیل کی تلچھٹ کیطرح گلابی ہوجائیگا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہپ دھان کے معنی تلچھٹ کے ہیں المدھن ۔ ہر وہ برتن جس میں تیل ڈالا جائے ۔ یہ اسم آلہ کے منجملہ ان اوزان کے ہے جو ( بطور شواز ) مفعل کے وزن پر آتے ہیں اور بطور تشبیہ ( پہاڑ میں ) اس مقام ( چھوٹے سے گڑھے ) کو بھی مدھن کہا جاتا ہے جہاں تھوڑا سا پانی ٹھہر جاتا ہو اور دھن سے بطور استعارہ کم دودھ والی اونٹنی کو دھین کہا جاتا ہے اور یہ فعیل بمنعی فاعل کے وزن پر ہے یعنی وہ بقدر دہن کے دودھ دیتی ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ فعیل بمعنی مفعول ہے ۔ گویا اسے دودھ کا دھن لگایا گیا ہے ۔ یہ بھی دودھ کے کم ہونے کی طرف اشارہ ہے ۔ یہ دوسرا قول الی الصحت معلوم ہوتا ہے ۔ کیونکہ اس کے آخر میں ہ تانیث نہیں آتی ۔ ( جو فعیل بمنعی مفعول ہونیکی دلیل ہی دھن المطر الارض ۔ بارش نے زمین کو ہلکا سنم کردیا جیسا کہ سر پر تیل ملا جاتا ہے ۔ دھنۃ بالعصا ر ( کنایۃ ) لاٹھی سے اس کی تواضع کی ۔ یہ بطور تہکم کے بولا جاتا ہے جیسا کہ مسحۃ ہ بالسیف وحیتہ بالروح کا محاورہ ہے ۔ الادھان ۔ یہ اصل میں تذھین کی طرح ہے ۔ لیکن یہ تصنع ، نرمی برتنے اور حقیقت کا دامن ترک کردینے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ تقدیر کا لفظ جس کے اصل معنی اونٹ سے چیچڑ دور کر نا کے ہیں پھر تصنع اور نرمی برتنا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَبِهذَا الْحَدِيثِ أَنْتُمْ مُدْهِنُونَ [ الواقعة/ 81] کیا تم اسی کتاب سے انکار کرتے ہو ؟ شاعر نے کہا ہے : ۔ کہ حزم و احتیاط اور قوت چاپلوسی اور جزع فزع سے بہتر ہیں ۔ میں نے فلاں کے سامنے چاپلوسی کی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ [ القلم/ 9] کہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ تم مداہنت سے کام لو یہ بھی نرم ہوجائیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨١۔ ٨٥) تو کیا اے اہل مکہ تم اس قرآن کریم کی جو تمہیں کو رسول اکرم پڑھ کر سناتے ہیں جھٹلاتے ہو یعنی یہ جنت و دوزخ بعث اور حساب کو جو بیان کرتے ہے انہیں اور اس سے بڑھ کر یہ ستاروں کے بارے میں کہتے ہو کہ فلاں ستارے کی وجہ سے ہم پر بارش ہوئی سو جس وقت روح حلق تک آپہنچتی ہے اور مکہ والو تم اس وقت دیکھا کرتے ہو کہ جب جان نکلے تو اس وقت ملک الموت مرنے والے شخص کے اس کے گھر والوں سے بھی زیادہ نزیک ہوتے ہیں اور وہ تمہیں نظر نہیں آتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨١{ اَفَبِہٰذَا الْحَدِیْثِ اَنْتُمْ مُّدْہِنُوْنَ ۔ } ” تو کیا تم لوگ اس کتاب کے بارے میں مداہنت کر رہے ہو ؟ “ اس آیت کا مفہوم ہمیں تب سمجھ آئے گا جب ہم میں سے ہر ایک خود کو اس کا مخاطب سمجھے کہ یہ آیت براہ راست اس سے پوچھ رہی ہے کہ اے اللہ کے بندے ! کیا تم اپنے دنیوی معاملات و مفادات کو اللہ کی اس نعمت کے مقابلے میں ترجیح دے رہے ہو ؟ کیا تم اس عظیم کتاب کو سیکھنے سکھانے اور سمجھنے میں سستی اور کاہلی کا مظاہرہ کر رہے ہو ؟ ذرا سوچوتو ! تم نے کیسے کیسے مشکل علوم و فنون میں مہارت حاصل کرلی ہے۔ ان علوم کو سیکھنے کے لیے تم نے کیسی کیسی محنت کی ہے اور کتنا وقت کھپایا ہے ! اس کے مقابلے میں قرآنی زبان سیکھنے کے لیے تم نے کتنی کوشش کی ہے ؟ تو کیا تم نے اپنی دنیا کے لیے اللہ تعالیٰ کی اس قدر عظیم نعمت کو پس پشت ڈالنے کا فیصلہ کرلیا ہے ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

40 Literally, idhan (from which mudhinun of the Text is derived) means to treat something with contempt, to deny its due importance, to regard it as unworthy of serious attention, to hold it in light esteem.

سورة الْوَاقِعَة حاشیہ نمبر :40 اصل الفاظ ہیں اَنْتُمْ مُّدْھِنُون ۔ اِدْھَان کے معنی ہیں کسی چیز سے مداہنت برتنا ۔ اس کو اہمیت نہ دینا ۔ اس کو سنجیدہ توجہ کے قابل نہ سمجھنا ۔ انگریزی میں ( To take lightly ) کے الفاظ اس مفہوم سے قریب تر ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(56:81) افبھذا الحدیث : ف عاطفہ ہمزہ استفہامیہ ہے۔ ھذا الحدیث سے مراد قرآن کریم ہے۔ پھر کیا اس کلام (یعنی قرآن) کے ساتھ تم بےاعتنائی برتتے ہو۔ اس کے ساتھ لاپرواہی برتتے ہو۔ اس کو نظر انداز کرتے ہو۔ انتم خطاب اہل مکہ سے ہے۔ مدھنون : اسم فاعل جمع مذکر۔ ادھان (افعال) مصدر۔ مادہ دھن سے مشتق ہے۔ الدھن بمعنی تیل ، چکناہٹ۔ جمع ادھان۔ بعض نے کہا ہے کہ دھان کے معنی تلچھٹ کے ہیں۔ جیسے قرآن مجید میں ہے :۔ فکانت وردۃ کالدھان (55:37) تیل کی تلچھٹ کی طرح گلابی ہوجائے گا۔ ادھان کے اصل معنی ہیں چکنا کرنا۔ تیل لگانا۔ مجازا اس کا اطلاق فریب کاری چکنی چپڑی مگر اصول اور عقیدہ سے گری ہوئی باتیں کرنے پر ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے :۔ ودوالو تدھن فیدھنون (68:9) یہ لوگ چاہتے ہیں کہ تم نرمی اختیار کرو تو یہ بھی نرم ہوجائیں گے۔ یعنی اگر آپ ان کی خاطر اپنے بعض اصول و عقائد کو جو انہیں ناپسند ہیں چھوڑ کر ان کے ساتھ نرمی اور رواداری کا سلوک کریں تو یہ بھی اپنی مخالفت میں نرمی اختیار کرلیں گے۔ مدھنون کی تشریح کرتے ہوئے علامہ پانی پتی (رح) تحریر فرماتے ہیں :۔ مدھبون۔ ادھان کا لغوی معنی ہے نرم کرنے کے لئے تیل کا استعمال۔ مجازا اخلاق اور معاملات کو بظاہر نرم کرنا۔ پھر اس لفظ کا استعمال بمعنی نفاق ہونے لگا۔ تو آیت ھذا ودوالو تدھن فیدھنون میں یہی نفاق والا معنی مراد ہے۔ قاموس میں ہے :۔ دھن نفاق کیا۔ مداہنت اور ادھان (باب فاعلۃ و افعال) جو بات دل میں ہے اس کے خلاف ظاہر کرنا۔ پھر تکذیب کرنے والے اور جھٹلانے والے کو مدھن کہا جانے لگا۔ خواہ وہ منافقت نہ کرے۔ اور تکذیب و کفر کو نہ چھپائے۔ بغوی نے اس کی صراحت کی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے مدھنون کا ترجمہ کیا ہے جھٹلانے والے۔ اور مقاتل بن حیان نے کہا کہ مدھنون انکار کرنے والے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 یعنی منافقت برتنے والے

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی اس کو واجب والتصدیق نہیں جانتے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

افبھذا ................ صدقین (٨٧) (٦ 5: ١٨ تا ٧٨) ” پھر کیا اس کلام کے ساتھ تم بےاعتنائی برتتے ہو اور تم نے تکذیب کو اپنا رزق بنا لیا ہے۔ اب اگر تم کسی کے محکوم نہیں ہو اور اپنے اس خیال میں سچے ہو تو جب مرنے والے کی جان حلق تک پہنچ چکی ہوتی ہے اور تم آنکھوں دیکھ رہے ہوتے ہو کہ وہ مررہا ہے اس وقت اس کی نکلتی ہوئی جان کو واپس کیوں نہیں لے آتے ؟ اس وقت تمہاری بہ نسبت ہم اس کے زیادہ قریب ہوتے ہیں مگر تم کو نظر نہیں آتے۔ “ کیا تم اس کتاب کی باتوں میں شک کرتے ہو اور اس لئے کہ یہ تمہیں یہ کہتی ہے کہ تم دوبارہ اٹھائے جاؤ گے۔ تم قرآن اور اس کے بیان کردہ قصص آخرت کی تکذیب کرتے ہو اور قرآنی عقائد و تصورات کی تکذیب کرتے ہو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿اَفَبِهٰذَا الْحَدِيْثِ اَنْتُمْ مُّدْهِنُوْنَۙ٠٠٨١﴾ لفظ مُدْھِنُوْنَ کا ترجمہ صاحب روح المعانی نے متھاونون کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ تم قرآن کو معمولی چیز سمجھتے ہو پھر لکھا ہے کہ یہ لفظ ادھان سے ماخوذ ہے چمڑے کو تیل وغیرہ لگا کر جو نرم کرتے ہیں اس کو ادھان کہتے ہیں، بطور مجاز یا بطور استعارہ یہ لفظ لایا گیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ قرآن کریم کی طرف جو مضبوط توجہ ہونی چاہئے تمہارے اندر وہ توجہ نہیں ہے اور ہمزہ استفہام لاکر اس پر توبیخ فرمائی۔ ” یوں ہی سرسری بات سمجھتے ہو۔ “ یہ اس کا اصل ترجمہ ہے : (وَتَجْعَلُوْنَ رِزْقَكُمْ اَنَّكُمْ تُكَذِّبُوْنَ ٠٠٨٢) اس کا ایک ترجمہ اور مطلب تو وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا کہ تمہیں نزول قرآن کی نعمت پر شکر کرنا چاہئے تھا شکر کی بجائے تم نے جھٹلانے ہی کو اختیار کرلیا۔ اب تمہارا نصیب یہی رہ گیا کہ تم تکذیب کیا کرو اس صورت میں رزقکم بمعنی شکر کم یا بمعنی حظکم لیا جائے گا۔ قال صاحب الروح و قیل معنی الآیة وتجعلون شکر کم لنعمة القرآن انکم تکذبون بہ ویشیر الی ذلک ما رواہ قتادہ عن الحسن بئس ما اخذ القوم لانفسھم لم یرزقوا من کتاب اللّٰہ تعالیٰ الا التکذیب۔ یہ اس صورت میں ہے جبکہ ﴿فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِۙ٠٠٧٥﴾ سے لے کر ﴿ وَ تَجْعَلُوْنَ رِزْقَكُمْ اَنَّكُمْ تُكَذِّبُوْنَ ٠٠٨٢﴾ تک تمام آیات کا تعلق نزول قرآن مجید ہی سے ہو۔ ( صحیح مسلم صفحہ ٥٩: ج ١) میں حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں بارش ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ آج صبح کچھ لوگ شاکر ہوئے اور کچھ لوگ کافر ہوئے جن لوگوں نے یوں کہا کہ یہ بارش اللہ کی رحمت ہے وہ لوگ شاکر ہوئے اور جن لوگوں نے یوں کہا کہ فلاں فلاں ستارہ کے سقوط یعنی نیچے جانے کی وجہ سے بارش ہوئی وہ لوگ کافر ہوئے اس پر ﴿ فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِۙ٠٠٧٥ سے وَ تَجْعَلُوْنَ رِزْقَكُمْ اَنَّكُمْ تُكَذِّبُوْنَ ٠٠٨٢﴾ تک آیات نازل ہوئیں۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ﴿ وَ تَجْعَلُوْنَ رِزْقَكُمْ ﴾ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو بارش نازل فرماتا ہے جو تمہارے لیے رزق کا سبب بنتی ہے اس کا شکر ادا کرنے کی بجائے تم اللہ کی نعمت کی تکذیب کرتے ہو یعنی بارش کی نعمت کو ستاروں کی طرف منسوب کرتے ہو اللہ تعالیٰ کی نعمت نہیں مانتے، علامہ نووی (رح) نے شرح مسلم میں شیخ ابوعمر ابن الصلاح سے نقل کیا ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پانچوں آیات ستاروں ہی کے بارے میں نازل ہوئیں، (جن کے سقوط اور غروب کو اہل عرب بارش کا ذریعہ سمجھتے تھے) کیونکہ پوری آیات کی تفسیر اس کی موافقت نہیں کرتی، بات یہ ہے کہ بارش کے بارے میں آیت کریمہ ﴿ وَ تَجْعَلُوْنَ رِزْقَكُمْ اَنَّكُمْ تُكَذِّبُوْنَ ٠٠٨٢ ﴾ نازل ہوئی اور باقی آیات میں دوسرے مضامین بیان کیے گئے ہیں، چونکہ سب آیات بیک وقت نازل ہوئی تھیں اس لیے حضرت ابن عباس (رض) نے ان سب کی تلاوت کردی۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ آیت کی یہ تفسیر کہ تم نعمت قرآن کا شکر ادا کرنے کے بجائے تکذیب کو اختیار کرتے ہو، سبب نزول کے خلاف نہیں ہے کیونکہ قرآن حکیم میں دنیاوی اور اخروی دونوں قسم کی نعمتوں کا بیان ہے۔ قرآن کریم میں جو نعمتیں بیان کی گئی ہیں ان کو سامنے رکھ کر خالق تعالیٰ شانہ کا شکر ادا کرنا لازم تھا لیکن تم شکر کی بجائے تکذیب اور انکار میں لگے ہوئے ہو اسی ناشکری میں یہ بات بھی ہے کہ بارش ہوتی ہے تو تم اسے ستاروں کیطرف منسوب کرتے ہو حالانکہ قرآن کریم میں بار ہا بتایا گیا کہ تمہارا عقیدہ صحیح عقیدہ کے خلاف ہے، بارش برسانے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں۔ قال صاحب الروح : فما جاء من تفسیر تکذبون بتقولون مطرنا بنوء کذا و كذا لیس المراد منہ الایمان نوع اقتضاہ الحال من التکذیب بالقرآن المنعوت بتلک النعوت الجلیلة وکون ذلک علی الوجہ الذی یزعمہ الکفار تکذیبا بہ مما لا ینطح فیہ کبشان وھذالا تمحل فیہ (صفحہ ١٥٧ ج : ٢٧)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(81) تو کیا تم اس کلام کے بارے میں مداہنت اور کاہلی برتتے ہو۔ مداہنت کے معنی ہیں کسی کام میں نرمی برتنا اور سستی اور کاہلی سے بےپروائی برتنا اردو میں یہ لفظ بولا جاتا ہے کہ حق اور سچی بات نہیں کہتے مداہنت برتتے ہو کسی امر میں ڈھیلی بات کہنی لا یتصلب بہ تھاونا بہ مطلب یہ کہ قرآن کے بارے میں مداہنت کرتے ہو اور اس کو قبول کرنے میں تھاون اور سستی ظاہر کرتے ہو اور اس کو ایک سرسری اور معمولی بات سمجھتے ہو۔