Surat ul Waqiya

Surah: 56

Verse: 83

سورة الواقعة

فَلَوۡ لَاۤ اِذَا بَلَغَتِ الۡحُلۡقُوۡمَ ﴿ۙ۸۳﴾

Then why, when the soul at death reaches the throat

پس جبکہ روح نرخرے تک پہنچ جائے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

When the Soul reaches the Throat at the Time of Death, it cannot be brought back; this proves Reckoning shall occur Allah the Exalted said, فَلَوْلاَ إِذَا بَلَغَتِ ... Then why do you not (intervene) when it reaches, in reference to the soul, ... الْحُلْقُومَ Al-Hulqum, i.e., the throat, at the time of death. Allah the Exalted said in other Ayat, كَلَّ إِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِىَ وَقِيلَ مَنْ رَاقٍ وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِرَاقُ وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ إِلَى رَبِّكَ يَوْمَيِذٍ الْمَسَاقُ Nay, when (the soul) reaches to the collar bone, and it will be said: "Who can cure him (and save him from death)" And he will conclude that it was (the time) of parting (death); And one leg will be joined with another leg (shrouded). The drive will be on that Day to your Lord (Allah). (75:26-30) Allah said here, وَأَنتُمْ حِينَيِذٍ تَنظُرُونَ

عالم نزع کی بےبسی اسی مضمون کی آیتیں سورۃ قیامہ میں بھی ہیں ۔ فرماتا ہے کہ ایک شخص اپنے آخری وقت میں ہے نزع کا عالم ہے روح پرواز کر رہی ہے تم سب پاس بیٹھے دیکھ رہے ہو کوئی کچھ نہیں کر سکتا ہمارے فرشتے جنہیں تم دیکھ نہیں سکتے تم سے بھی زیادہ قریب اس مرنے والے سے ہیں ۔ جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً 61؀ ) 6- الانعام:61 ) اللہ اپنے بندوں پر غالب ہے وہ تم پر اپنے پاس سے محافظ بھیجتا ہے جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جاتا ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے اسے ٹھیک طور پر فوت کر لیتے ہیں پھر وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ مولائے حق کی طرف بازگشت کرائے جائیں گے جو حاکم ہے اور جلد حساب لے لینے والا ہے ۔ یہاں فرماتا ہے اگر سچ مچ تم لوگ کسی کے زیر فرمان نہیں ہوا اگر یہ حق ہے کہ تم دوبارہ جینے اور میدان قیامت میں حاضر ہونے کے قائل نہیں ہو اور اس میں تم حق پر ہو اگر تمہی حشر و نشر کا یقین نہیں اگر تم عذاب نہیں کئے جاؤ گے وغیرہ تو ہم کہتے ہیں اس روح کو جانے ہی کیوں دیتے ہو؟ اگر تمہارے بس میں ہے تو حلق تک پہنچی ہوئی روح کو واپس اس کی اصلی جگہ پہنچا دو ۔ پس یاد رکھو جیسے اس روح کو اس جسم میں ڈالنے پر ہم قادر تھے اور اس کو بھی تم نے بہ چشم خود دیکھ لیا یقین مانو اسی طرح ہم دوبارہ اسی روح کو اس جسم میں ڈال کر نئی زندگی دینے پر بھی قادر ہیں ۔ تمہارا اپنی پیدائش میں دخل نہیں تو مرنے میں پھر دوبارہ جی اٹھنے میں تمہارا دخل کہاں سے ہو گیا ؟ پھر کیوں تم کہتے پھرتے ہو کہ ہم مر کر زندہ نہیں ہوں گے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَلَوْلَآ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ ۔۔۔۔۔۔” مدینین “ ” دان یدین دینا “ ( جزادینا ، مالک ہونا ، حساب لینا ، حاکم ہونا) سے اسم مفعول ” مدین “ کی جمع ہے جو اصل میں ” مدیون “ تھا ، بدلا دیے گئے ، محاسبہ کیے گئے ، محکوم ، مملوک ، ان آیات میں ” فلولا “ دو دفعہ آیا ہے اور دونوں کی جزائ ” ترجعونھا ان کنتم صدقین “ ہے ۔ ان آیات میں نزع کے عالم کا نقشہ کھینچ کر قیامت کے منکروں سے کہا گیا ہے کہ ایسا کیوں نہیں کہ مرتے وقت جب جان حلق تک آپہنچتی ہے اور تم پاس بیٹھے مرنے والے کو دیکھ رہے ہوتے ہو اور ہم تم سے زیادہ اس مرنے والے کے قریب ہوتے ہیں ، تو پھر اگر تم کسی کے محکوم نہیں اور نہ تم سے کوئی محاسبہ کرنے والا ہے اور تم خود ہی ہر طرح صاحب اختیار ہو ، تو اگر تم سچے ہو تو نکلنے والی اس جان کو واپس کیوں نہیں لے آتے ؟ تمہاری بےبسی سے ثابت ہوا کہ تم سب اللہ تعالیٰ کے مملوک اور اس کے حکم کے پابند ہو ، جب وہ لے جانا چاہے گا لے جائے گا اور جب زندہ کر کے محاسبے کے لیے اپنے سامنے کھڑا کرنا چاہے گا کر دے گا ۔ اس لیے تمہاری بھلائی اسی میں ہے کہ اس کی توحید پر ، اس کے رسول پر اور یوم قیامت پر ایمان لے آؤ تا کہ تمہیں اس دن شرمندگی نہ اٹھانا پڑے۔ جان نکلنے کے وقت انسان کی حالت اور اس کے غم گساروں کے بےبسی کا نقشہ سورة ٔ قیامہ کی آیات (٢٦ تا ٣٠) میں بھی خوب کھینچا گیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In the current verse the word is used in the sense of hypocrisy and rejection of Allah&s verses carelessly. لَوْلَا إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ ﴿٨٣﴾ وَأَنتُمْ حِينَئِذٍ تَنظُرُ‌ونَ ﴿٨٤﴾ وَنَحْنُ أَقْرَ‌بُ إِلَيْهِ مِنكُمْ وَلَـٰكِن لَّا تُبْصِرُ‌ونَ ﴿٨٥﴾ فَلَوْلَا إِن كُنتُمْ غَيْرَ‌ مَدِينِينَ ﴿٨٦﴾ تَرْ‌جِعُونَهَا إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ﴿٨٧﴾ (So why [ do you ] not [ interfere ] when the soul [ of a dying person ] reaches the throat, and you are watching? And We are closer to him than you, but you do not perceive. So, if you are not going to be recompensed [ in the Hereafter for your deeds ], then why do you not bring the soul back, if you are truthful?...56:83-87) The preceding verses proved two facts through rational arguments and by swearing an oath by the falling stars: [ 1] that the Holy Qur&an-is the word of Allah. Neither Jinn nor devil can ever tamper with it. Everything it contains is the truth; and [ 2] one of the most fundamental articles of faith enshrined in the Qur&an is the Day of Resurrection and Reckoning. Towards the end of the passage, it is mentioned that the infidels and idolaters, in spite of clear arguments and evidence, reject life after death. Their denial of Resurrection by the unbelievers, in a way, amounts to a claim that their lives and souls are under their own control, and they have a say in the matter of life and death. In order to refute this assumption, the above verses give the example of a dying person. When the soul reaches his throat, all of his near and dear ones look at him and express their desire that he may live longer, but none of them is able to intervene and save his life. All the people around him seem absolutely helpless. However, Allah is nearer to the dying person than the people around him even though they are unable to see Him. In other words, that is, He is nearer to him in terms of knowledge and power. He is fully aware of the person&s inner and outer conditions and has complete control over him. In short, it is not within people&s power to get together and save a soul or life. Allah is nearer to a dying person than his soul or life. Allah has pre-designated a particular time for the soul to be separated from the body. None can avert it. In view of this graphic picture, the disbelievers are reminded that if they think that they cannot be resurrected after death, and they are too strong to come under Allah&s grasp, then they must restore the soul when it has reached the throat and is about to depart from the body or it has already departed and died. If it is not possible to do any of these, how illogical or irrational it is for man to think that he can escape the Divine grasp and reject life after death!

سابقہ آیات میں پہلے عقلی دلائل سے پھر حق تعالیٰ کی طرف سے ستاروں کی قسم کھا کر اور ان کے مقہور و مغلوب ہونے کی کیفیت کی طرف اشارہ کر کے دو باتیں ثابت کی گئی ہیں، اول یہ کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اس میں کسی شیطان و جن وغیرہ کا کوئی تصرف نہیں ہو سکتا، جو کچھ اس میں ہے وہ حق ہے، دوسرا مسئلہ جو قرآن کے مسائل میں خاص اہمیت رکھتا ہے، وہ قیامت کا آنا اور سب مردوں کا زندہ ہو کر رب العزت کے سامنے حساب کے لئے پیش ہونا ہے اور اس کے آخر میں کفار و مشرکین کا ان سب دلائل واضحہ کے خلاف قرآن کی حقانیت اور قیامت میں مردوں کے زندہ ہونے سے انکار کا ذکر کیا گیا تھا۔ قیامت اور مرنے کے بعد زندہ ہونے سے انکار گویا ان کی طرف سے اس کا دعویٰ ہے کہ ان کی جان اور روح خود ان کے قبضہ میں ہے اور ان کی اپنی زندگی میں ان کو بھی کچھ دخل ہے، ان کے اس خیال باطل کی تردید کے لئے آیات مذکورہ میں ایک قریب الموت انسان کی مثال دے کر بتلایا کہ جب اس کی روح حلق میں پہنچتی ہے اور تم یعنی مرنے والے کے عزیز، دوست و احباب سب اس کے حال کو دیکھ رہے ہوتے ہیں اور بتقاضائے محبت وتعلق یہ بھی چاہتے ہیں کہ اس کی روح نہ نکلے، یہ زندہ رہے، مگر اس وقت سب کو اپنی بیچارگی اور عاجزی کا احساس و اقرار ہوتا ہے کہ کوئی اس مرنے والے کی جان نہیں بچا سکتا اس پر حق تعالیٰ نے فرمایا کہ اس وقت اپنے علم وقدرت کے لحاظ سے ہم تمہاری نسبت اس مرنے والے سے زیادہ قریب ہوتے ہیں، قریب ہونے سے مراد اس کے اندرونی اور ظاہری حالات سے واقفیت اور اس پر پوری قدرت ہے اور فرمایا کہ مگر تم ہمارے اس قرب کو اور مرنے والے کے زیر تصرف ہونے کو آنکھوں سے نہیں دیکھتے، خلاصہ یہ ہے کہ تم سب مل کر اس کی زندگی اور روح کی حفاظت چاہتے ہو مگر تمہاری بات نہیں چلتی، ہم اپنے علم وقدرت کے اعتبار سے اس کے زیادہ قریب ہیں، وہ ہمارے زیر تصرف اور مشیت و حکم کے تابع ہے، جس لمحہ میں اس کی روح نکالنا ہم طے کرچکے ہیں، اس کو کوئی روک نہیں سکتا، اس مثال کو سامنے کر کے ارشاد ہوتا ہے کہ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ مرنے کے بعد تمہیں زندہ نہیں کیا جاسکتا اور تم اتنے قوی اور بہادر ہو کر خدا تعالیٰ کی گرفت سے باہر ہو تو ذرا اپنی قوت وقدرت کا امتحان یہیں کر دیکھو کہ اس مرنے والے کی روح کو نکلنے سے بچا لو، یا نکلنے کے بعد اس میں لوٹا دو اور جب تم سے اتنا بھی نہیں ہوسکتا تو پھر اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی گرفت سے باہر سمجھنا اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے سے انکار کرنا کس قدر بےعقلی کی علامت ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَوْلَآ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ۝ ٨٣ ۙ «لَوْلَا» يجيء علی وجهين : أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] . والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن . ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو : 11-إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ بلغ البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] ( ب ل غ ) البلوغ والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ حلق الحَلْق : العضو المعروف، وحَلَقَهُ : قطع حلقه، ثم جعل الحَلْق لقطع الشعر وجزّه، فقیل : حلق شعره، قال تعالی: وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة/ 196] ، وقال تعالی: مُحَلِّقِينَ رُؤُسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ [ الفتح/ 27] ، ورأس حَلِيق، ولحية حلیق، و «عقری حَلْقَى» في الدعاء علی الإنسان، أي : أصابته مصیبة تحلق النساء شعورهنّ ، وقیل معناه : قطع اللہ حلقها . وقیل للأكسية الخشنة التي تحلق الشعر بخشونتها : مَحَالِق والحَلْقَة سمّيت تشبيها بالحلق في الهيئة، وقیل : حلقه، وقال بعضهم : لا أعرف الحَلَقَة إلا في الذین يحلقون الشعر، وهو جمع حالق، ککافر وکفرة، والحَلَقَة بفتح اللام لغة غير جيدة . وإبل مُحَلَّقَة : سمتها حلق . واعتبر في الحلقة معنی الدوران، فقیل : حَلْقَة القوم، وقیل : حَلَّقَ الطائر : إذا ارتفع ودار في طيرانه ( ح ل ق ) الحلق حلق ( وہ جگہ جہاں سے جانور کو ذبح کیا جاتا ہے ) حلقۃ ( ض ) اسکے حلق کو قطع کر ڈالا ۔ پھر یہ لفظ بال مونڈے نے پر بولا جاتا ہے ہی کہا جاتا ہے حلق شعرۃ اس نے اپنے بال منڈوا ڈالے قرآن میں ہے : ۔ وَلا تَحْلِقُوا رُؤُسَكُمْ [ البقرة/ 196] اور سر نہ منڈ واو ۔ مُحَلِّقِينَ رُؤُسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ [ الفتح/ 27] اپنے سر منند وا کر اور اپنے بال کتر وا کہ راس حلیق مونڈا ہوا مہر ۔ لحیۃ حلیقۃ مونڈی ہوئی داڑھی ۔ اور کسی انسان کے حق میں بددعا کے وقت عقرٰی حلقیٰ کہا جاتا ہے یعنی اسے ایسی مصیبت پہنچنے جس پر عورتیں اپنے سرکے بال منڈوا ڈالیں ۔ بعض نے اس کے معنی یہ کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کے حلق کو قطع کر ڈالے ۔ المحالق وہ کمبل جو کھردار ہونے کی وجہ سے بدن کے بال کاٹ ڈالیے ۔ جماعت جو دائرہ کی شکل میں جمع ہو ۔ کیونکہ وہ دائرہ ہیئت میں انسان کے حلق کے مشابہ ہوتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ حلقۃ کا لفظ صرف اس جماعت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو اپنے سر منڈوا ڈالتے ہیں ۔ ابل محلقۃ شتراں کہ بمشکل حلقہ داغ بر آنہا کردہ باشند اور حلقہ میں معنی دوران کا اعتبار کر کے حلق الطائر کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی پرندے کا چکر لگا کر اڑنا کے ہیں ۔.

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

جیسا کہ قبل ازیں بھی بار بار ذکر ہوا ہے کہ سورة الرحمن اور سورة الواقعہ باہم جوڑا ہیں اور ان کے مضامین بھی باہم مشابہ و مربوط ہیں۔ البتہ زیر مطالعہ آیات کا مضمون صرف اسی سورت میں آیا ہے۔ اس کے مقابل سورة الرحمن میں ایسا کوئی مضمون نہیں ہے۔ گویا یہ مضمون اس سورة کی اضافی شان ہے۔ آیت ٨٣{ فَلَوْلَآ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَ ۔ } ” تو کیوں نہیں ‘ جب جان حلق میں آ (کر پھنس) جاتی ہے۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٨٣۔ ٩٦۔ اوپر ذکر تھا کہ جن لوگوں نے محض عقل سے حشر کا انکار کیا ہے اور اس انکار کے سبب سے عقبیٰ کا کچھ سامان وہ لوگ نہیں کرتے ‘ یہ ان لوگوں کی کمی عقل اور ان کی سمجھ کا فتور ہے کیونکہ عقلی تجربہ سے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے ‘ کہ اللہ تعالیٰ کے لیے دوسری دفعہ کا پیدا کرنا بہ نسبت پہلی دفعہ کے پیدا کرنے سے زیادہ آسان ہے ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اور طرح ان لوگوں کو سمجھایا ہے کہ عقلی تجربہ سے حشر کے ہونے میں شک باقی نہ رہنے کے بعد اگر ان کے دل میں یہ وہم بس گیا ہے کہ یہ انتظام الٰہی جو ان لوگوں کو جتلایا اور بتایا گیا ہے کہ مرنے کے بعد پھر جینا ہوگا۔ اور سزا اور جزا ہوگی۔ اس انتظام میں جو بات ان کی مرضی کے خلاف ہوگی اس کو یہ لوگ روک سکتے ہیں ‘ تو اس عقلی تجربہ سے ان کا یہ وہم بھی یوں رفع ہوسکتا ہے کہ جس وقت حشر کا موقعہ پیش آئے گا ‘ اس وقت تو یہ لوگ مٹی کا ڈھیر ہو کر پڑے ہوں گے۔ اب دنیا میں ان کا زور ان کی طاقت سب کچھ قائم ہے ‘ اور انتظام الٰہی کے موافق ان کی اولاد ان کے عزیز و اقارب کی روح ان کی آنکھوں کے سامنے قبض ہوتی ہے۔ اور مریض کے سرہانے ان اوپر والوں کے پاس اللہ تعالیٰ کے فرشتے قبض روح کیلئے موجود ہوتے ہیں۔ لیکن نہ ان کو وہ اللہ کے فرشتے نظر آتے ہیں ‘ نہ ان لوگوں میں یہ قدرت ہے ‘ کہ اپنے رشتہ داروں کی روح کو یہ لوگ نہ نکلنے دیں اسی طرح حشر کے خلاف مرضی ‘ انتظام کا روکنا ان کی طاقت سے باہر ہے ‘ اور یہ یاد رہے ‘ کہ جب یہ لوگ اپنے عزیزوں کے اور اپنے مرنے کو نہیں روک سکتے تو مرنے کے بعد حشر ضرور ہوگا تاکہ دنیا کا پیدا کرنا ٹھکانے لگے۔ غرض جب عقلی تجربہ سے نہ حشر کے قائم ہونے میں یہ لوگ شک کرسکتے ہیں نہ انتظام الٰہی کے روکنے کی ان کو طاقت ہے تو یہ یقینی باتیں عقبیٰ کے قائم کرنے کی ان لوگوں کو انتظام الٰہی کے موافق جو بتائی جاتی ہیں ان کو نہ ماننا اور ان پر عمل نہ کرنا ان لوگوں کی کم عقلی کی نشانی ہے اب اس فہمایش کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم فرمایا کہ باوجود اس قدر فہمایش کے اگر یہ لوگ نہیں مانتے تو اس کا تم کچھ اندیشہ نہ کرو وقت مقرہ آجانے کے بعد جن کو اللہ کی طرف سے ہدایت ہونی ہے وہ خود ہوجائے گی۔ تم اللہ کے حکم کے موافق اللہ کی عبادت میں مصروف رہو۔ مسند امام احمد صحیح ١ ؎ مسلم ابو داؤود ‘ ابن ماجہ نسائی وغیرہ میں جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ سبحن ربی العظیم کو رکوع میں اور سبحن ربی الاعلی کو سجدہ میں میں آپ نے پڑھنے کو فرمایا۔ اور یہ بھی فرمایا ٢ ؎۔ سبحن اللہ العظیم وبحمدہ کے ایک دفعہ کے کہنے سے ایک پیڑ جنت میں لگایا جاتا ہے۔ بیہقی ٣ ؎ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سورة واقعہ کے پڑھنے سے فقر و فاقہ دفع ہوتا ہے اس باب میں اور بھی روایتیں ہیں جس سے ایک روایت سے دوسری کو قوت ہوجاتی ہے موت کے وقت اچھے لوگوں کو جنت کی خوش خبری اور برے لوگوں کو دوزخ کی غم ناک خبر جو فرشتے سناتے ہیں اس کا حال براء بن عازب کی حدیث کے حوالہ سے اوپر گزر چکا ہے۔ (٢ ؎ صحیح بخاری باب قول اللہ عزو جل و تجعلون رزقکم انکم تکذبون ص ١٤١ ج ١ و صحیح مسلم باب بیان کفر من قال مطرنا بالنوء ص ٥٨ ج ١۔ ) (١ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٢٩٨ ج ٤۔ ) (٢ ؎ جامع ترمذی باب ماجاء فی فضل التسبیح والتھلیل والتکبیر والتحمید ص ٢٠٦ ج ٢۔ ) (٣ ؎ مشکوٰۃ شریف کتاب فضائل القران الفصل الثالث ص ١٨٩۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(56:83) فلولا : ای ہلا۔ کیوں نہیں۔ اذا۔ ظرف زمان۔ جب۔ جس وقت۔ بلغت ماضی واحد مؤنث غائب۔ بلوغ (باب نصر) مصدر۔ وہ پہنچی۔ الحلقوم۔ حلق ، گلا، حلاقیم جمع ۔ بلغت کا مفعول ہے۔ بلغت کا فاعل محذوف ہے ۔ ای النفس والروح۔ ترجمہ :۔ بھلا جب روح (یا جان) گلے میں آپہنچتی ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کو جھٹلانے والوں کو ان کی موت یاد کروائی گئی ہے تاکہ وہ ہوش کے ناخن لیں اور اپنے آپ کو سیدھی راہ پر ڈال کر اصحاب الیمین میں شامل ہوجائیں۔ اس سورت کا آغاز قیامت کی ہولناکیوں کے بیان سے ہوا۔ جس میں بتلایا گیا کہ قیامت کے دن لوگ ” اَصْحَابَ الْیَمِیْنِ ، اَصَحَاب الشِّمَالِ “ اور ” سَابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ “ کی تقسیم کے مطابق ہوں گے لیکن بنیادی طور پر لوگ دو ہی گروہوں میں منقسم ہوں گے۔ ایک جنتی اور دوسرے جہنمی ہوں گے الواقعہ کا اختتام بھی اسی مضمون پر کیا جارہا ہے کیونکہ قیامت کے انعام اور اس کی سزاؤں کا آغاز انسان کی موت کے ساتھ ہی شروع ہوجاتا ہے۔ اس لیے پہلے موت کی واردات کا ذکر فرمایا کہ جب موت آتی ہے تو جان حلق میں اٹک جاتی ہے اور تم اس وقت فوت ہونے والے کی بےبسی دیکھ رہے ہوتے ہوں، بظاہر تم اس کے قریب ہوتے ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ تم سے ہم اس کے زیادہ قریب ہوتے ہیں لیکن تمہیں نظر نہیں آتے، اگر تم میں طاقت ہے تو اس کی نکلنے والی روح کو واپس کیوں نہیں لاتے ؟ اس بات کو دوسرے مقام پر یوں بھی بیان کیا گیا ہے۔ (قُلْ فَادْرَءُ وْا عَنْ اَنْفُسِکُمُ الْمَوْتَ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ) (آل عمران : ١٦٨) ” اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان سے فرمائیں کہ اگر تم سچے ہو اور کسی قسم کا اختیار رکھتے ہو تو پھر اپنی موت کو ٹال کر دکھاؤ۔ “ پھر ارشاد فرمایا : (یُدْرِکْکُّمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ کُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَۃٍ ) ( النساء : ٧٨) ” تم مضبوط قلعوں میں بند ہوجاؤ تو بھی موت تمہیں دبوچ لے گی۔ “ موت کا ہاتھ لخت جگر کو مامتا کی چھاتی سے، جوان بیٹے کو بوڑھے باپ سے اور ماں کو بلکتے ہوئے بچوں سے چھین لیتا ہے۔ موت کے مقابلے میں کوئی کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ یہاں اشارۃً بتلایا جارہا ہے کہ جب تم اپنے آپ اور کسی عزیز کو اس کی موت سے نہیں چھڑا سکتے تو اس قیامت سے کس طرح بچ سکتے ہو جو ہر چیز کو تہس نہس کرکے رکھ دے گی، یہاں تک کہ ساتوں آسمان اور ساتوں زمینوں کو ہلا کر الٹ پلٹ کردے گی۔ پہاڑ ریزہ ریز ہوجائیں گے، آسمان ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گرپڑیں گے اور زمین چٹیل میدان بنا دی جائے گی۔ اگر تم ذات کبریا کے مطیع نہیں ہو تو پھر مرنے والے کی روح کو کیوں نہیں لٹاتے ؟ حقیقت یہ ہے کہ تم اللہ ذوالجلال کے سامنے محض عضو معطل ہو مگر اپنی حقیقت بھول چکے ہو۔ جس نے اپنے آپ اور اپنے رب کو پہچان لیا وہ اس کے مقرب بندوں میں شامل ہوگا۔ جس نے اپنے رب اور موت کو بھلا دیا وہ کلی طور پر گمراہ ہوا۔ موت کی آسانی کے لیے دعا : (اللَّہُمَّ أَعِنِّی عَلَی سَکَرَاتِ الْمَوْتِ ) (رواہ احمد : مسند عائشہ (رض) ” اے اللہ مجھے موت کی سختیویوں پر فتح عطا فرما۔ “ مسائل ١۔ انسان کی موت کے وقت اللہ تعالیٰ اس کے سب سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ ٢۔ موت کے وقت انسان کے عزیز و اقرباء اس کی کوئی مدد نہیں کرسکتے۔ تفسیر بالقرآن موت کا وقت مقرر ہے جو آگے پیچھے نہیں ہوسکتا : ١۔ موت کا وقت مقرر ہے۔ (آل عمران : ١٤٥) ٢۔ موت کی جگہ متعین ہے۔ (آل عمران : ١٥٤) ٣۔ موت کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ (آل عمران : ١٦٨) ٤۔ موت سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ (النساء : ٧٨) ٥۔ سب کو موت آنی ہے۔ (الانبیاء : ٣٥) ٦۔ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر کسی نے مرنا ہے۔ (الرحمن : ٢٦، القصص : ٨٨) ٧۔ جب کسی کی اجل آجائے تو اس میں تقدیم و تاخیر نہیں ہوتی۔ ( یونس : ٤٩) ٨۔ تمہارے لیے قیامت کا دن مقرر ہے، اس میں تقدیم و تاخیر نہیں ہوگی۔ ( سبا : ٣٠) ٩۔ قیامت آچکی ہے لیکن تم غفلت میں پڑے ہوئے ہو۔ ( الانبیاء : ١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فلو لا ................ تبصرون (5 ٨) (٦ 5: ٣٨ تا 5 ٨) ” تو جب مرنے والے کی جان حلق تک پہنچ چکی ہوتی ہے اور تم آنکھوں دیکھ رہے ہوتے ہو کہ وہ مررہا ہے۔ اس وقت تمہاری بہ نسبت ہم اس کے زیادہ قریب ہوتے ہیں مگر تم کو نظر نہیں آتے “ یہ ایسی تصویر کشی ہے کہ ان الفاظ۔ بلغت الحلقوم (٦ 5: ٣٨) ” کے اندر سے سکرات الموت کی آواز سنائی دیتی ہے۔ ہمیں نظر آتا ہے چہرے کے فیچر کھیچے جارہے ہیں ، سختی اور شدت نظر آرہی ہے۔ پھر۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اگر تمہیں جزا ملنی نہیں ہے نہیں ہے تو موت کے وقت روح کو کیوں واپس نہیں لوٹا دیتے ان آیات میں اولاً انسانوں کی بےبسی ظاہر فرمائی ہے جو موت کے وقت ظاہر ہوتی ہے، ثانیاً انسانوں کی انہیں تینوں جماعتوں کا عذاب وثواب بیان فرمایا ہے جن کا پہلے رکوع میں تذکرہ فرمایا تھا۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے انسانوں کو پیدا فرمایا اور انہیں بہت سے اعمال کرنے کا حکم دیا اور بہت سے اعمال سے منع فرمایا تاکہ بندوں کی فرمانبرداری اور نافرمانی کا امتحان لیا جائے، سورة الملک میں فرمایا ﴿خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ﴾ (موت اور حیات کو پیدا فرمایا تاکہ وہ آزمائے کہ تم میں اچھے عمل والا کون ہے ؟ ) لہٰذا زندگی کے بعد موت بھی ضروری ہے اور ان دونوں میں سے بندوں کو کسی کے بارے میں کچھ بھی اختیار نہیں اللہ تعالیٰ نے زندگی دی، وہی موت دے گا، اس نے دونوں کا وقت مقرر اور مقدر فرما دیا ہے کسی کو اختیار نہیں کہ خود سے پیدا ہوجائے یا وقت مقرر سے پہلے مرجائے۔ خالق تعالیٰ شانہٗ کی قضاء اور قدر کے خلاف اور اس کی مشیت کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا ارشاد فرمایا ﴿ فَلَوْ لَاۤ اِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُوْمَۙ٠٠٨٣﴾ (الآت الخمس) کہ جب مرنے والے کی روح حلق کو پہنچ جاتی ہے تو تم وہاں موجود ہوتے ہو اسے حسرت کی آنکھوں سے ٹک ٹک دیکھا کرتے ہو اور اس پر ترس کھاتے ہو اور تمہاری آرزو ہوتی ہے کہ اسے موت نہ آئے اور ہم بہ نسبت تمہارے مرنے والے سے زیادہ قریب ہوتے ہیں (کیونکہ تم اس کی طرف ظاہری حالت کو دیکھتے ہو اور ہم اس کی باطنی حالت پر بھی مطلع ہوتے ہیں) لیکن تم نہیں سمجھتے اگر تم یہ سمجھتے ہو اور اپنے خیال میں سچے ہو کہ تمہیں اعمال کے بدلے دیئے جانے والے نہیں ہیں تو مرنے والے کی موت کو روک کر دکھا دو ۔ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کی موت کا وقت مقرر فرمایا ہے وہ اپنے فرشتے بھیجتا ہے جو روح نکالتے ہیں حاضرین بےبس ہیں کچھ نہیں کرسکتے جس طرح یہاں بےبس ہیں اسی طرح اس وقت بھی بےبس ہوں گے جب اللہ تعالیٰ شانہ ٗ اعمال کی جزا دینے کے لیے جسموں میں روحیں ڈالے گا، یہ عاجز بندے نہ دنیا میں کسی مرنے والے کی روح کو واپس کرسکتے ہیں نہ قیامت کے دن دوبارہ زندگی کو روک سکتے ہیں، یہ دوبارہ زندہ ہونا اور پہلی زندگی کے اعمال کا بدلہ دیا جانا خالق تعالیٰ شانہ کی طرف سے طے شدہ ہے تم قیامت ہونے اور دوبارہ زندہ ہونے اور اعمال کا بدلہ دیا جانے کے منکر ہو اور اس انکار کی تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے اگر تمہیں موت سے بچنے بچانے کی قدرت ہوتی تو یہ کہنے کا بھی موقع تھا کہ ہم دوبارہ زندہ نہ ہونگے اور جزا اور سزا کے لیے پیشی نہ ہوگی، جب اسی دنیا میں اپنی عاجزی دیکھ رہے ہو تو دوبارہ زندہ ہونے اور قیامت کی پیشی کا انکار کس بنیاد پر کر رہے ہو جبکہ خالق جل مجدہ نے اپنی کتاب میں واضح طور پر بتادیا ہے کہ تم سب کو مرنا ہے اور اعمال کی جزا ملنی ہے۔ كذا فسر حکیم الامة قدس سرہ فی بیان القرآن وان ردہ صاحب روح المعانی وقال : انہ لیس بشی، ثم فسر بتفسیر اٰخر وجعل المدینین بمعنی مربوبین وقال : التقدیر فلو لا ترجعونھا اذا بلغت الحلقوم، وحاصل المعنی انکم ان کنتم غیر مربوبین کما تقتضیة اقوالکم وافعالکم فما لکم لا ترجعون الروح الی البدین اذا بلغت الحلقوم و تردونھا کما کانت بقدرتکم او بواسطة علاج للطبیعۃ ١ ھ والاقرب الی السیاق ما ذکر فی بیان القرآن۔ وقال القرطبی صفحہ ٢١١: ج ١٧ ای فھلا ان کنتم غیر محاسبین ولا مجزین باعمالکم ای ولن ترجعوھا فبطل زعمکم انکم غیر مملوکین ولا محاسبین ثم قال : ترجعونھا جواب لقولہ تعالیٰ فلو لا اذا بلغت الحلقوم ولقولھہ فلو لا ان کنتم غیر مدینین اجیبا بجوابٍ واحد قالہ الفراء اور بما اعادت العرب الحرفین ومعناھما واحد وقیل حذف احدھما لدلالہ الآخر علیہ انتھی ـ

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

29:۔ ” فلولا اذا بلغت الحلقوم “ یہ معاندین پر زجر ہے۔ اذا، ترجعون، مؤخر سے متعلق ہے اور یہی لولا کا جواب ہے۔ حینئذ تنظرون اور ونحن اقرب الیہ منکم ولکن لا تبصرون۔ دونوں جملہ سابقہ کے مضمون سے حال ہیں۔ اور فلولا ثانی، بعد عہد کی وجہ سے لولا اول کا اعادہ ہے۔ اور ان کنتم صدقین، ان کنتم غیرمدینین کا اعادہ ہے۔ غیرمدینین ای غیر مملوکین ولا مقہورین (قرطبی ج 17 ص 231) ۔ غیر مجزیین (روح) ۔ وترجعونہا جواب لقولہ تعالیٰ فلولا اذا بلغت الحلقوم الخ، (ایضا) ۔ اب ترتیب عبارت یوں ہوگی۔ فلولا ترجعونہا اذا بلغت الحلقوم، ان کنتم غیر مدینین (کشاف) ۔ حاصل معنی یہ ہوا کہ اگر تم اس دعوے میں سچے ہو کہ تم اللہ کے مملوک اور اس کی قدرت کے آگے مغلوب و مقہور نہیں ہو اور جزا وسزا کا دن نہیں آئے گا تو جب تم میں سے کسی جان نکلنے لگے اور حلقوم تک پہنچ جائے تو اس کو واپس کیوں نہیں لوٹالیتے۔ حالانکہ ت اس وقت وہاں موجود ہوتے ہو لیکن اس مرنے والے آدمی سے تمہاری نسبت زیادہ نزدیک ہوتے ہیں مگر تم دیکھ نہیں سکتے اور اس وقت ہماری گرفت کے سامنے تم سب عاجز ہوتے ہو۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تم سب اللہ تعالیٰ کے مملوک اور اس کے سامنے مقہور و مغلوب ہو۔ قیامت ضرور آئے گی اور ہر شخص اپنے اعمال کی جزاء وسزا پائے گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(83) پس جب کسی کی روح گلے تک پہنچ جاتی ہے۔