Surat ul Waqiya
Surah: 56
Verse: 86
سورة الواقعة
فَلَوۡ لَاۤ اِنۡ کُنۡتُمۡ غَیۡرَ مَدِیۡنِیۡنَ ﴿ۙ۸۶﴾
Then why do you not, if you are not to be recompensed,
پس اگر تم کسی کے زیر فرمان نہیں ۔
فَلَوۡ لَاۤ اِنۡ کُنۡتُمۡ غَیۡرَ مَدِیۡنِیۡنَ ﴿ۙ۸۶﴾
Then why do you not, if you are not to be recompensed,
پس اگر تم کسی کے زیر فرمان نہیں ۔
[٤٠] موت کا منظر اور انسان کی بےبسی :۔ غَیْرَ مَدِیْنِیْنَ ۔ دین کا ایک معنی قانون جزا و سزا بھی ہے اور اس قانون کے مطابق اچھے اور برے اعمال کی جزا اور سزا دینا بھی۔ ان چند آیات میں مرنے والے اور اس کے عزیز و اقارب سب کی انتہائی بےبسی کا منظر پیش کیا گیا ہے۔ ایک طرف مرنے والا ہے جسے اپنی جان بچانا سب باتوں سے زیادہ عزیز ہے۔ پھر اس کے ساتھ اس کے عزیز و اقارب ہیں جنہوں نے اس کے علاج معالجہ میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی اور چاہتے ہیں کہ اس کی جان بچ جائے۔ دوسری طرف اللہ یا اس کے فرشتے ہوتے ہیں جو اس کی روح قبض کرنے آتے ہیں۔ پھر دیکھ لو غالب کون رہتا ہے اور مغلوب کون ؟ اللہ تعالیٰ کا ان منکرین آخرت سے سوال یہ ہے کہ آخرت کی چوکھٹ یا نقطہ آغاز موت ہے۔ اگر تم اپنے آپ کو کسی بالائی قانون کی گرفت سے آزاد سمجھتے ہو تو میت کی جان کو لوٹا کیوں نہیں لیتے پھر جب تم ہمارے فرشتوں سے پہلے قدم پر ہی مات کھا گئے تو آگے کیسے بچ سکو گے ؟
فَلَوْلَآ اِنْ كُنْتُمْ غَيْرَ مَدِيْـنِيْنَ ٨٦ ۙ «لَوْلَا» يجيء علی وجهين : أحدهما : بمعنی امتناع الشیء لوقوع غيره، ويلزم خبره الحذف، ويستغنی بجوابه عن الخبر . نحو : لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] . والثاني : بمعنی هلّا، ويتعقّبه الفعل نحو : لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] أي : هلّا . وأمثلتهما تکثر في القرآن . ( لولا ) لو لا ( حرف ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ایک شے کے پائے جانے سے دوسری شے کا ممتنع ہونا اس کی خبر ہمیشہ محذوف رہتی ہے ۔ اور لولا کا جواب قائم مقام خبر کے ہوتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْتُمْ لَكُنَّا مُؤْمِنِينَ [ سبأ/ 31] اگر تم نہ ہوتے تو ہمضرور مومن ہوجاتے ۔ دو م بمعنی ھلا کے آتا ہے ۔ اور اس کے بعد متصلا فعل کا آنا ضروری ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لَوْلا أَرْسَلْتَ إِلَيْنا رَسُولًا[ طه/ 134] تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجا ۔ وغیرہ ذالک من الا مثلۃ غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے مَدِينِينَ فَلَوْلا إِنْ كُنْتُمْ غَيْرَ مَدِينِينَ [ الواقعة/ 86] ، أي : غير مجزيّين . والمدین والمدینة : العبد والأمة : قال (أبو زيد) : هو من قولهم : دِينَ فلان يُدَانُ : إذا حمل علی مکروه وقیل : هو من دنته : إذا جازیته بطاعته، وجعل بعضهم المدینة من هذا الباب . اور آیت کریمہ : ۔ فَلَوْلا إِنْ كُنْتُمْ غَيْرَ مَدِينِينَ [ الواقعة/ 86] میں غیر مدینین کے معنی غیر مجزیین کے ہیں ۔ یعنی اگر تم سمجھتے ہو کہ تمہیں تمہارے اعمال کی جزا نہیں دی جائے گی المدین والمدینۃ ( ایضا ) کے معنی غلام اور لونڈی کے بھی آتے ہیں ۔ ابو زید نے کہا ہے کہ یہ دین فلان یدان سے ماخوذ ہے جس کے معنی کسی ناپسند کام پر مجبور کئے جانیکے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ دنتہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی طاعت کی جزا دینے کے ہیں بعض نے لفظ مدینۃ ( شہر ) بھی اسی معنی سے لیا ہے
(٨٦۔ ٨٧) سو اگر تمہارا حساب و کتاب ہونے والا نہیں ہے جیسا کہ تمہارا خیال ہے تو پھر تم اس روح کو بدن کی طرف کیوں نہیں لوٹاتے۔
آیت ٨٦ ‘ ٨٧{ فَلَوْلَآ اِنْ کُنْتُمْ غَیْرَ مَدِیْنِیْنَ (رض) تَرْجِعُوْنَہَآ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ۔ } ” تو اگر تم کسی کے اختیار میں نہیں ہو تو اس (جان) کو لوٹا کیوں نہیں لیتے اگر تم سچے ہو ؟ “ یہاں الفاظ کی ترتیب اس طرح ہے کہ ان دونوں آیات کو ملانے سے ایک فقرہ مکمل ہوتا ہے۔ قرآن کے خصوصی اسلوب کی وجہ سے لَوْلَا پہلی آیت کے شروع میں آگیا ہے ‘ لیکن اس کا مفہوم دوسری آیت کے ساتھ ملنے سے واضح ہوتا ہے۔ چناچہ مفہوم کی وضاحت کے لیے یوں سمجھیں کہ ان دونوں آیات میں الفاظ کی اصل ترتیب یوں ہے : فَاِنْ کُنْتُمْ غَیْرَ مَدِیْنِیْنَ ‘ لَوْلَا تَرْجِعُوْنَہَا اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ؟ کہ تم لوگ آئے دن اپنے عزیز و اقارب کی اموات کا مشاہدہ کرتے رہتے ہو ۔ تم میں سے جب کسی کی موت کا وقت آجاتا ہے تو تم سب مل کر بھی اور اپنے تمام وسائل استعمال میں لا کر بھی اس کو بچا نہیں پاتے ہو۔ اس معاملے میں تمہارے بڑے بڑے صاحب اختیار و اقتدار لوگ بھی بالکل بےبس ہوجاتے ہیں۔ شاہی اطباء اور ماہر ڈاکٹرز کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہیں اور بادشاہ سلامت ان کی آنکھوں کے سامنے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ تم لوگ دعویٰ کرتے ہو کہ تم خود ہی پیدا ہوتے ہو اور خود ہی مرتے ہو اور تمہاری زندگی اور موت اللہ کے اختیار میں نہیں ہے۔ اگر تم اپنے اس دعوے میں سچے ہو تو اپنے پیاروں کو موت کے منہ میں جاتے دیکھ کر بےبسی کی تصویر بن کر کیوں رہ جاتے ہو ؟ اپنے وسائل کو استعمال میں لا کر انہیں بچا کیوں نہیں لیتے ہو ؟ اس کے بعد اگلی آیات میں ان تین گروہوں کی جزا و سزا کا تذکرہ ہے جن کا ذکر سورة کے آغاز میں ہوا تھا۔
(56:86) فلولا : یہ تکرار پہلے لولا کی تائید کے لئے آیا ہے۔ ان کنتم غیر مدینین جملہ شرطیہ ہے اس کا جواب محذوف ہے۔ غیر مدینین۔ صاحب لسان العرب لکھتے ہیں :۔ الدین۔ الذل۔ والمدین : العبد والمدینۃ الامۃ المملوکۃ : کانھما اذلہما العمل۔ یعنی دین کا معنی سرافگندی اور تابعداری ہے غلام کو مدین اور کنز کو مدینہ کہتے ہیں کیونکہ وہ دونوں اپنے مالک کے حکم کے سامنے سرافگندہ ہوتے ہیں۔ اور اس کے حکم سے اسے سرتابی کی مجال نہیں ہوتی (ضیاء القرآن) غیر مدینین : ای غیر مملوکین۔ کسی کے تابع فرمان اور تابع حکم نہ ہونا۔ غیر مدینین کے معنی غیر محاسبین وغیر مجزیین۔ یعنی جن کا اللہ کے ہاں نہ محاسبہ ہوگا نہ جزا و سزا ان کو ملے گی۔ ان کنتم غیر مدینین : اگر تم یہ سمجھتے ہو یا تمہارا عقیدہ ہے کہ تم کسی کے تابع فرمان نہیں ہو اور نہ ہی بعد الموت تمہارا حساب کتاب ہوگا اور نہ ہی تمہارے اعمال کی جزاوسزا ہوگی (تو پھر کیوں تم مرنے والے کی روح کو لوٹا نہیں دیتے)
ف 2 یعنی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی تابعداری و محکومیت سے آزاد سمجھتے ہو
فلو لا ............ صدقین (٧٨) (٦ 5: ٦٨۔ ٧٨) ” اب اگر تم کسی کے محوم نہیں اور اپنے خیال میں سچے ہو تو اس وقت اس کی نکلتی ہوئی جان کو واپس کیوں نہیں لاتے۔ “ اگر بات اس طرح ہے جس طرح تم کہتے ہو ، کہ کوئی جزا وسزا نہیں ہے اور تم آزاد ہو تو روح جب حلقوم کو آجائے تو وہاں سے لوٹا دو کیونکہ وہ تو حساب و کتاب دینے جارہی ہے اور تمہارے ہوتے ہوئے جارہی ہے تم بےبس کھڑے کے کھڑے رہ جاتے ہو وہ تو ایک بڑی ذمہ داری کا جواب دینے جارہی ہے اور تم خاموش اور بےبس کھڑے ہو۔ اب تمام صحبتیں ختم ہوجاتی ہیں۔ ہر دلیل رد ہوجاتی ہے۔ ہر حیلہ اور ہر بہانہ ختم ہوتا ہے اور اس حقیقت کا دباؤ انسانی جسم اور عقل پر اور زیادہ ہوجاتا ہے اور وہ دفاع کی قوت نہیں رکھتا۔ اسے تسلیم کرنے کے سوا چارہ نہیں رہتا الا یہ کہ وہ ہٹ دھرمی پر اترآئے۔ اب تھوڑا سا تبصرہ اس روح پر ہوتا ہے جو پرواز کرگئی ہے۔ یہ حلقوم تک آئی ، اس نے اس فانی زندگی پر آخری نظر ڈالی اور باقی رہنے والی دنیا پر نظر ٹکا دی اور اس میدان کی طرف سفر کرگئی۔ جس میں ہر شخص سے باز پرس ہوگی جس کی یہ مکذبین تکذیب کررہے ہیں :۔