Surat ul Waqiya
Surah: 56
Verse: 87
سورة الواقعة
تَرۡجِعُوۡنَہَاۤ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۸۷﴾
Bring it back, if you should be truthful?
اور اس قول میں سچے ہو تو ( ذرا ) اس روح کو تو لوٹاؤ ۔
تَرۡجِعُوۡنَہَاۤ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۸۷﴾
Bring it back, if you should be truthful?
اور اس قول میں سچے ہو تو ( ذرا ) اس روح کو تو لوٹاؤ ۔
تَرْجِعُونَهَا ... Then why do you not -- if you are not Madinin -- return the soul, means, `Will you not return this soul, that has reached the throat, to its body as it used to be, if you are exempt from the reckoning and recompense?' Sa`id bin Jubayr and Al-Hasan Al-Basri said, فَلَوْلاَ إِن كُنتُمْ غَيْرَ مَدِينِينَ (Then why do you not -- if you are not Madinin. ..), "If you do not believe that you will be reckoned, recompensed, resurrected and punished, then why do you not return this soul to its body" Mujahid said that, غَيْرَ مَدِينِينَ (...if you are not Madinin), means, "if you are not certain." ... إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ if you are truthful?
8 7 1یعنی اگر تم اس بات میں سچے ہو کہ کوئی تمہارا آقا اور مالک نہیں جس کے تم زیر فرمان اور ما تحت ہو یا کوئی جزا سزا کا دن نہیں آئے گا، تو اس قبض کی ہوئی روح کو اپنی جگہ پر واپس لوٹا کر دکھاؤ اور اگر تم ایسا نہیں کرسکتے اس کا مطلب تمہارا گمان باطل ہے۔ یقینا تمہارا ایک آقا ہے اور یقینا ایک دن آئے گا جس میں وہ آقا ہر ایک کو اسکے عمل کی جزا دے گا۔
[٤١] سورت کے آخر میں یاددہانی کے طور پر انہیں تین گروہوں کا اجمالاً انجام ذکر کیا جارہا ہے جن کا بیان ابتدا میں تفصیل سے گزر چکا ہے۔ یعنی مُقَّرَبِیْنَ ، أصْحَابُ الْیَمِیْنِ اور أصْحَاب الشِّمَالِ ۔
تَرْجِعُوْنَہَآ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ ٨٧ رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے صدق الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔
24: کافر لوگ قرآن کریم پر ایمان لانے سے جو انکار کرتے تھے، اس کا ایک بڑا حصہ ان کا یہ دعوی تھا کہ ہم مرنے کے بعد دوبارہ زندہ نہیں ہوں گے، جیسا کہ اسی سورت کی آیت نمبر ٤٥ میں گزرا ہے، اللہ تعالیٰ اب اس طرف توجہ دلارہے ہیں کہ اتنی بات تو تم بھی مانتے ہو کہ اس دنیا میں جو کوئی آتا ہے ایک نہ ایک دن اسے موت ضرور آتی ہے، اور ایسی حالت میں آتی ہے کہ اس کے عزیز رشتہ دار، دوست احباب اور اس کے معالج ہر قسم کے جتن کر گزرتے ہیں کہ کسی طرح وہ موت سے بچ جائے، لیکن موت اس طرح آجاتی ہے کہ وہ سب دیکھتے رہ جاتے ہیں، سوال یہ ہے کہ اگر مرنے کے بعد دوسری زندگی میں حساب و کتاب ہونا نہیں ہے تو آخر ہر انسان کسی نہ کسی وقت موت کے منہ میں کیوں جارہا ہے اور تم اس کو موت سے بچانے میں اتنے بے بس کیوں ہو؟ دنیا میں موت اور زندگی کا جو یہ نظام کارفرما ہے، وہ بذات خود اس بات کی دلیل ہے کہ موت اور زندگی کے مالک نے یہ کائنات اس مقصد کے لئے پیدا کی ہے کہ انسان کو عمر بھر کی مہلت دے کر آخر میں اس سے حساب لیاجائے کہ اس نے اس مہلت سے کیا فائد اٹھایا؟
(56:87) ترجعونھا : ترجعون مضارع جمع مذکر حاضر رجع (باب ضرب) مصدر ھا ضمیر مفعول واحد مؤنث غائب ۔ کا مرجع النفس الروح ہے۔ تم اس کو لوٹا دیتے ہو۔ تم اس کو پھیر لاتے ہو۔ آیات کی ترتیب کچھ یوں ہوگی : ان کنتم غیر مدینین (و) ان کنتم (فی ذلک) صدقین فلولا اذا بلغت الروح الحلقوم ترجعونھا۔ اگر تم کسی کے تابع فرمان نہیں ہو کسی کا تم پر حکم نہیں چلتا تم اپنی من مانی کرسکتے ہو اور تم یہ ایمان رکھتے ہو کہ مرنے کے بعد نہ تمہارا حساب ہوگا اور نہ تمہیں تمہارے کئے کی سزاو جزاء ملے گی اور اگر تم اس میں حق پر ہو تو پھر ایک قریب المرگ (ساتھی) جس کی جان حلق تک آگئی ہو تو کیوں اس کی جان کو واپس اس کے جسم میں لوٹا نہیں دیتے۔ کیوں اس وقت کمال بےبسی میں اسے تک رہے ہوتے ہو اور حال یہ ہے کہ ہم تمہاری نسبت اس مرنے والے کے زیادہ نزدیک ہوتے ہیں اور اس کی کیفیت سے تمہارے سے زیادہ باخبر ہوتے ہیں ۔ لیکن تم کو نظر نہیں آتے۔ دوسرا لولا پہلے لولا کی تائید میں ہے۔ ان کنتم غیر مدینین جملہ شرطیہ ہے اور فلولا ترجعونھا جواب شرط ہے۔ ان کنتم صدقین ذیلی شرط ہے اور پہلی شرط کا جواب ہی اس شرط کا جواب ہے۔
ف 3 یعنی اسے بدن میں لوٹا کر بیمار کو موت کے ہاتھوں سے کیوں نہیں بچا لیتے ؟ 4 یعنی اگر اپنی ناشکری کی موجود ہر وش کو صحیح سمجھتے ہو
5۔ مطلب یہ کہ قرآن صادق ہے، اور وہ وقوع بع کا ناطق ہے، پس مقتضی وقوع متحقق ہوا، اور مانع کوئی امر ہے نہیں، پس وقوع ثابت ہوگیا، اور اس پر بھی تمہارا انکار اور نفی کئے چلا جانا بدلالت حال اس کو مستلزم ہے، کہ گویا تم روح کو اپنے بس میں سمجھتے ہو کہ گو قیامت میں خدا دوبارہ روح ڈالنا چاہئے جیسا مقتضا قرآن کا ہے، مگر ہم نہ ڈالنے دیں گے اور بعض نہ ہونے دیں گے جب ہی تو ایسی زور سے نفی کرتے ہو، ورنہ جو اپنے کو عاجز جانے وہ دلائل وقوع کے بعد ایسے زور کی بات کیوں کہے۔
(87) اور تم خود مختاری کے دعوے میں سچے ہو تو اس روح کو گلے میں آئے پیچھے بدن میں لوٹا کیوں نہیں دیتے یعنی اگر تم کسی کے حکم میں نہیں ہو اور کسی کے زیر فرمان اور زیر اختیار نہیں ہو اور تمہارا حساب کتاب ہونا ہے نہ تم کو خدا کے حضور میں پیش ہونا ہے بلکہ تم خود مختار ہو اور تم اپنے ا س دعوے میں سچے ہو تو اس جان کو جو حلقوم میں پہنچ گئی ہے اس کو پھر واپس جسم میں کیوں نہیں پھیر لاتے اور واپس کیوں نہیں کردیتے یعنی وقوع قیامت اور بعث لعدالموت حق ہے جیسا کہ قرآن ناطق ہے اور دلائل عقل ونقلی سے ثابت ہے لیکن تم نہیں مانتے اور انکار کئے جاتے ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ روح پر اپنا قابو مانتے ہو یا تمہارے سے انکار کو یہ مستلزم ہے کہ روح تمہارے پس میں ہے اور خالق الارواح کے بس میں نہیں ہے۔ تو اچھا بعث کے عوقت تو روح اجسام میں داخل کی جائیگی اور اب نکالی جارہی ہے اور تمہارے آنکھوں کے روبرو یہ ہورہا ہے اور تم غمگین پریشان بھی ہو تو اچھا اس روح کو واپس لے آئو تاکہ ہم تمہاری طاقت اور زور آزمائی کا حال معلوم کرلیں اگر تم اس دعوے میں سچے ہو اور خود مختار ہو تو جان کو واپس کرلو تاکہ یہ ثابت ہوجائے کہ نہ کوئی جان نکال سکتا ہے اور نہ جان کو کوئی تمہاری منشاء کے خلاف جسم میں داخل کرسکتا ہے اور تم واپس کر نہیں سکتے لہٰذا معلوم ہوا تم کو جان پر کوئی دسترس نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ جب چاہے اس کو جسم سے نکال دے اور جب چاہے داخل کردے۔ وھوالمطوب کیونکہ یہی خلاصہ ہے بعث بعدالموت کا ۔ آگے مرنے والوں کی تقسیم ہے جو بات ابتدائے سورت میں تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہے اسی کو سورت کے ختم پر اجمالاً بیان کرتے ہوئے سورت کو ختم کرتے ہیں۔