Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 141

سورة الأنعام

وَ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡشَاَ جَنّٰتٍ مَّعۡرُوۡشٰتٍ وَّ غَیۡرَ مَعۡرُوۡشٰتٍ وَّ النَّخۡلَ وَ الزَّرۡعَ مُخۡتَلِفًا اُکُلُہٗ وَ الزَّیۡتُوۡنَ وَ الرُّمَّانَ مُتَشَابِہًا وَّ غَیۡرَ مُتَشَابِہٍ ؕ کُلُوۡا مِنۡ ثَمَرِہٖۤ اِذَاۤ اَثۡمَرَ وَ اٰتُوۡا حَقَّہٗ یَوۡمَ حَصَادِہٖ ۫ ۖوَ لَا تُسۡرِفُوۡا ؕ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الۡمُسۡرِفِیۡنَ ﴿۱۴۱﴾ۙ

And He it is who causes gardens to grow, [both] trellised and untrellised, and palm trees and crops of different [kinds of] food and olives and pomegranates, similar and dissimilar. Eat of [each of] its fruit when it yields and give its due [zakah] on the day of its harvest. And be not excessive. Indeed, He does not like those who commit excess.

اور وہی ہے جس نے باغات پیدا کئے وہ بھی جو ٹٹیوں پر چڑھائے جاتے ہیں اور وہ بھی جو ٹٹیوں پر نہیں چڑھائے جاتے ہیں اور کھجور کے درخت اور کھیتی جن میں کھانے کی چیزیں مختلف طور کی ہوتی ہیں اور زیتون اور انار جو باہم ایک دوسر ےکے مشابہ بھی ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے مشابہ نہیں بھی ہوتے ان سب کے پھلوں میں سے کھاؤ جب وہ نکل آئے اور اس میں جو حق واجب ہے وہ اس کے کاٹنے کے دن دیا کرو اور حد سے مت گزرو یقیناً وہ حد سے گزرنے والوں کو نا پسند کرتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah Created the Produce, Seed Grains and Cattle Allah states that He created everything, including the produce, fruits and cattle that the idolators mishandled by their misguided ideas, dividing them into various designated parts, allowing some and prohibiting some. Allah said, وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَ جَنَّاتٍ مَّعْرُوشَاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشَاتٍ ... And it is He Who produces gardens Ma`rushat and not Ma`rushat, Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas commented, "Ma`rushat refers to what the people trellises, while `not Ma`rushat' refers to fruits (and produce) that grow wild inland and on mountains." Ata Al-Khurasani said that Ibn Abbas said, "Ma`rushat are the grapevines that are trellised, while `not Ma`rushat' refers to grapevines that are not trellised." As-Suddi said similarly. ... وَالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا أُكُلُهُ وَالزَّيْتُونَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَغَيْرَ مُتَشَابِهٍ ... and date palms, and crops of different shape and taste, and olives, and pomegranates, similar, and different. As for these fruits being similar, yet different, Ibn Jurayj said, "They are similar in shape, but different in taste." ... كُلُواْ مِن ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ ... Eat of their fruit when they ripen, Muhammad bin Ka`b said that the Ayah means, "(Eat) from the dates and grapes they produce." Allah said next, ... وَاتُواْ حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ ... but pay the due thereof on the day of their harvest, Mujahid commented, "When the poor people are present (on the day of harvest), give them some of the produce." Abdur-Razzaq recorded that Mujahid commented on the Ayah, "When planting, one gives away handfuls (of seed grains) and on harvest, he gives away handfuls and allows them to pick whatever is left on the ground of the harvest." Ath-Thawri said that Hammad narrated that Ibrahim An-Nakhai said, "One gives away some of the hay." Ibn Al-Mubarak said that Shurayk said that Salim said that Sa`id bin Jubayr commented; وَاتُواْ حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ (but pay the due thereof on the day of their harvest), "This ruling, giving the poor the handfuls (of seed grains) and some of the hay as food for their animals, was before Zakah became obligatory." Allah has chastised those who harvest, without giving away a part of it as charity. Allah mentioned the story of the owners of the garden in Surah Nun, (68:18-33) إِنَّا بَلَوْنَـهُمْ كَمَا بَلَوْنَأ أَصْحَـبَ الْجَنَّةِ ...... لَوْ كَانُواْ يَعْلَمُونَ When they swore to pluck the fruits of the (garden) in the morning. Without saying: "If Allah wills." Then there passed by on the (garden) a visitation (fire) from your Lord at night, burning it while they were asleep. So the (garden) became black by the morning, like a pitch dark night (in complete ruins). Then they called out one to another as soon as the morning broke. Saying: "Go to your tilth in the morning, if you would pluck the fruits." So they departed, conversing in secret low tones (saying). "No poor person shall enter upon you into it today." And they went in the morning with strong intention, thinking that they have power (to prevent the poor taking anything of the fruits therefrom). But when they saw the (garden), they said: "Verily, we have gone astray." (Then they said): "Nay! Indeed we are deprived of (the fruits)!" The best among them said: "Did I not tell you, why say you not: `If Allah wills'." They said: "Glory to Our Lord! Verily, we have been wrongdoers." Then they turned one against another, blaming. They said: "Woe to us! We have transgressed. We hope that our Lord will give us in exchange a better (garden) than this. Truly, we turn to our Lord." Such is the punishment (in this life), but truly, the punishment of the Hereafter is greater if they but knew. (68:18-33) Prohibiting Extravagance Allah said, ... وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ And waste not by extravagance. Verily, He likes not the wasteful. It was said that; the extravagance prohibited here refers to excessive charity beyond normal amounts. Ibn Jurayj said, "This Ayah was revealed concerning Thabit bin Qays bin Shammas, who plucked the fruits of his date palms. Then he said to himself, `This day, every person who comes to me, I will feed him from it.' So he kept feeding (them) until the evening came and he ended up with no dates. Allah sent down, وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ (And waste not by extravagance. Verily, He likes not the wasteful)." Ibn Jarir recorded this statement from Ibn Jurayj. However, the apparent meaning of this Ayah, and Allah knows best, is that; كُلُواْ مِن ثَمَرِهِ إِذَا أَثْمَرَ وَاتُواْ حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِ وَلاَ تُسْرِفُواْ (Eat of their fruit when they ripen, but pay the due thereof on the day of their harvest, and waste not...) refers to eating, meaning, do not waste in eating because this spoils the mind and the body. Allah said in another Ayah, وكُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ And eat and drink but waste not by extravagance. (7: 31) In his Sahih, Al-Bukhari recorded a Hadith without a chain of narration; كُلُوا وَاشْرَبُوا وَالْبَسُوا مِنْ غَيْرِ إِسْرَافٍ وَلاَ مَخِيلَة Eat, drink and clothe yourselves without extravagance or arrogance. Therefore, these Ayat have the same meaning as this Hadith, and Allah knows best. Benefits of Cattle Allah's statement,

مسائل زکوٰۃ اور عشر مظاہر قدرت خالق کل اللہ تعالیٰ ہی ہے کھیتیاں پھل چوپائے سب اسی کے پیدا کئے ہوئے ہیں کافروں کو کوئی حق نہیں کہ حرام حلال کی تقسیم از خود کریں ۔ درخت بعض تو بیل والے ہیں جیسے انگور وغیرہ کہ وہ محفوظ ہوتے ہیں بعض کھڑے جو جنگلوں اور پہاڑوں پر کھڑے ہوئے ہیں ۔ دیکھنے میں ایک دورے سے ملتے جلتے مگر پھلوں کے ذائقے کے لحاظ سے الگ الگ ۔ انگور کھجور یہ درخت تمہیں دیتے ہیں کہ تم کھاؤ مزہ اٹھاؤ لطف پاؤ ۔ اس کا حق اس کے کٹنے اور ناپ تول ہونے کے دن ہی دو یعنی فرض زکوٰۃ جو اس میں مقرر ہو وہ ادا کر دو ۔ پہلے لوگ کچھ نہیں دیتے تھے شریعت نے دسواں حصہ مقرر کیا اور ویسے بھی مسکینوں اور بھوکوں کا خیال رکھنا ۔ چنانچہ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ حضور نے فرمان صادر فرمایا تھا کہ جس کی کھجوریں دس وسق سے زیادہ ہوں وہ چند خوشے مسجد میں لا کر لٹکا دے تاکہ مساکین کھا لیں ۔ یہ بھی مراد ہے کہ زکوٰۃ کے سوا اور کچھ سلوک بھی اپنی کھیتیوں باڑیوں اور باغات کے پھلوں سے اللہ کے بندوں کے ساتھ کرتے رہو ، مثلاً پھل توڑنے اور کھیت کاٹنے کے وقت عموماً مفلس لوگ پہنچ جایا کرتے ہیں انہیں کچھ چھوڑ دو تاکہ مسکینوں کے کام آئے ۔ ان کے جانوروں کا چارہ ہو ، زکوٰۃ سے پہلے بھی حقداروں کو کچھ نہ کچھ دیتے رہا کرو ، پہلے تو یہ بطور وجوب تھا لیکن زکوٰۃ کی فرضیت کے بعد بطور نفل رہ گیا زکوٰۃ اس میں عشر یا نصف عشر مقرر کر دی گئی لیکن اس سے فسخ نہ سمجھا جائے ۔ پہلے کچھ دینار ہوتا تھا پھر مقدار مقرر کر دی گئی زکوٰۃ کی مقدار سنہ ٢ ہجری میں مقرر ہوئی ۔ واللہ اعلم ۔ کھیتی کاٹتے وقت اور پھل اتارتے وقت صدقہ نہ دینے والوں کی اللہ تعالیٰ نے مذمت بیان فرمائی سورۃ کہف ، میں ان کا قصہ بیان فرمایا کہ ان باغ والوں نے قسمیں کھا کر کہا کہ صبح ہوتے ہی آج کے پھل ہم اتار لیں گے اس پر انہوں نے ان شاء اللہ بھی نہ کہا ۔ یہ ابھی رات کو بےخبری کی نیند میں ہی تھے وہاں آفت ناگہانی آ گئی اور سارا باع ایسا ہو گیا گویا پھل توڑ لیا گیا ہے بلکہ جلا کر خاکستر کر دیا گیا ہے یہ صبح کو اٹھ کر ایک دوسرے کو جگا کر پوشیدہ طور سے چپ چاپ چلے کہ ایسا نہ ہو حسب عادت فقیر مسکین جمع ہو جائیں اور انہیں کچھ دینا پڑے یہ اپنے دلوں میں یہی سوچتے ہوئے کہ ابھی پھل توڑ لائیں گے بڑے اہتمام کے ساتھ صبح سویرے ہی وہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ سارا باغ تو خاک بنا ہوا ہے اولاً تو کہنے لگے بھئی ہم راستہ بھول گئے کسی اور جگہ آ گئے ہمارا باغ تو شام تک لہلہا رہا تھا پھر کہنے لگا نہیں باغ تو یہی ہے ہماری قسمت پھوٹ گئی ہم محروم ہو گئے ۔ اس وقت ان میں جو باخبر شخص تھا کہنے لگا دیکھو میں تم سے نہ کہتا تھا کہ اللہ کا شکر کرو اس کی پاکیزگی بیان کرو ۔ اب تو سب کے سب کہنے لگے ہمارا رب پاک ہے یقینا ہم نے ظلم کیا پھر ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے کہ ہائے ہماری بد بختی کہ ہم سر کش اور حد سے گذر جانے والے بن گئے تھے ۔ ہمیں اب بھی اللہ عزوجل سے امید ہے کہ وہ ہمیں اس سے بہتر عطا فرمائے گا ہم اب صرف اپنے رب سے امید رکھتے ہیں ۔ ناشکری کرنے اور تنہا خوری پسند کرنے والوں پر اسی طرح ہمارے عذاب آیا کرتے ہیں اور بھی آخرت کے بڑے عذاب باقی ہیں لیکن افسوس کہ یہ سمجھ بوجھ اور علم و عقل سے کام ہی نہیں لیتے ۔ یہاں اس آیت میں صدقہ دینے کا حکم فرما کر خاتمے پر فرمایا کہ فضول خرچی سے بچو فضول خرچ اللہ کا دوست نہیں ۔ اپنی اوقات سے زیادہ نہ لٹا فخر دریا کے طور پر اپنا مال برباد نہ کرو ۔ حضرت ثابت بن قیس بن شماس نے اپنے کھجوروں کے باغ سے کھجوریں اتاریں اور عہد کر لیا کہ آج جو لینے آئے گا میں اسے دوں گا لوگ ٹوٹ پڑے شام کو ان کے پاس ایک کھجور بھی نہ رہی ۔ اس پر یہ فرمان اترا ۔ ہر چیز میں اسراف منع ہے ، اللہ کے حکم سے تجاوز کر جانے کا نام اسراف ہے خواہ وہ کسی بارے میں ہو ۔ اپنا سارا ہی مال لٹا کر فقیر ہو کر دوسروں پر اپنا انبار ڈال دینا بھی اسراف ہے اور منع ہے ، یہ بھی مطلب ہے کہ صدقہ نہ روکو جس سے اللہ کے نافرمان بن جاؤ یہ بھی اسراف ہے گویہ مطلب اس آیت کے ہیں لیکن بظاہر الفاظ یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے کھانے کا ذکر ہے تو اسراف اپنے کھانے پینے میں کرنے کی ممانعت یہاں ہے کیونکہ اس سے عقل میں اور بدن میں ضرر پہنچا ہے ۔ قرآن کی اور آیت میں ہے آیت ( وَّكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا ۚ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ ) 7 ۔ الاعراف:31 ) کھاؤ پیو اور اسراف نہ کرو ۔ صحیح بخاری میں ہے کھاؤ پیو پہنو اوڑھو لیکن اسراف اور کبر سے بچوں واللہ اعلم ۔ اسی اللہ نے تمہارے لئے چوپائے پیدا کئے ہیں ان میں سے بعض تو بوجھ ڈھونے والے ہیں جیسے اونٹ گھوڑے خچر گدھے وغیرہ اور بعض پستہ قد ہیں جیسے بکری وغیرہ ، انہیں ( فرش ) اس لئے کہا گیا کہ یہ قد و قامت میں پست ہوتے ہیں زمین سے ملے رہتے ہیں ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ( حمولہ ) سے مراد سواری کے جانور اور ( فرشا ) سے مراد جن کا دودھ پیا جاتا ہے اور جن کا گوشت کھایا جاتا ہے جو سواری کے قابل نہیں ان کے بالوں سے لحاف اور فرش تیار ہوتے ہیں ۔ یہ قول حضرت سدی کا ہے اور بہت ہی مناسب ہے خود قرآن کی سورۃ یاسین میں موجود ہے کہ کیا انہوں نے اس بات پر نظر نہیں کی؟ کہ ہم نے ان کے لئے چوپائے پیدا کر دیئے ہیں جو ہمارے ہی ہاتھوں کے بنائے ہوئے ہیں اور اب یہ ان کے مالک بن بیٹھے ہیں ہم نے ہی تو انہیں ان کے بس میں کر دیا ہے کہ بعض سوریاں کر رہے ہیں اور بعض کو یہ کھانے کے کام میں لاتے ہیں اور آیت میں ہے آیت ( وَاِنَّ لَكُمْ فِي الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً ۭ نُسْقِيْكُمْ مِّمَّا فِيْ بُطُوْنِهٖ مِنْۢ بَيْنِ فَرْثٍ وَّدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَاۗىِٕغًا لِّلشّٰرِبِيْنَ ) 16 ۔ النحل:66 ) مطلب یہ ہے کہ ہم تمہیں ان چوپایوں کا دودھ پلاتے ہیں اور ان کے بال اون وغیرہ سے تمہارے اوڑھنے بچھونے اور طرح طرح کے فائدے اٹھانے کی چیزیں بناتے ہیں اور جگہ ہے اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لئے چوپائے جانور پیدا کئے تاکہ تم ان پر سواریاں کرو انہیں کھاؤ اور بھی فائدے اٹھاؤ ان پر اپنے سفر طے کر کے اپنے کام پورے کرو اسی نے تمہاری سواری کیلئے کشتیاں بنا دیں وہ تمہیں اپنی بیشمار نشانیاں دکھا رہا ہے بتاؤ تو کس کس نشانی کا انکار کرو گے؟ پھر فرماتا ہے اللہ کی روزی کھاؤ پھل ، اناج ، گوشت وغیرہ ۔ شیطانی راہ پر نہ چلو ، اس کی تابعداری نہ رو جیسے کہ مشرکوں نے اللہ کی چیزوں میں از خود حلال حرام کی تقسیم کر دی تم بھی یہ کر کے شیطان کے ساتھی نہ بنو ۔ وہ تمہارا دشمن ہے ، اسے دوست نہ سمجھو ۔ وہ تو اپنے ساتھ تمہیں بھی اللہ کے عذابوں میں پھنسانا چاہتا ہے ، دیکھو کہیں اس کے بہکانے میں نہ آ جانا اسی نے تمہارے باپ آدم کو جنت سے باہر نکلوایا ، اس کھلے دشمن کو بھولے سے بھی اپنا دوست نہ سمجھو ۔ اس کی ذریت سے اور اس کے یاروں سے بھی بچو ۔ یاد رکھو ظالموں کو برا بدلہ ملے گا ۔ اس مضمون کی اور بھی آیتیں کلام اللہ شریف میں بہت سی ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

141۔ 1 معروشات کا مادہ عرش ہے جس کے معنی بلند کرنے اور اٹھانے کے ہیں۔ معروشات سے مراد بعض درختوں کی وہ بیلیں ہیں ٹٹیوں (چھپروں منڈیروں وغیرہ) پر چڑھائی جاتی ہیں، جیسے انگور اور بعض ترکاریوں کی بیلیں ہیں۔ اور غیر معروشات، وہ درخت ہیں جن کی بیلیں اوپر نہیں چڑھائی جاتیں بلکہ زمین پر ہی پھیلتی ہیں، جیسے خربوزہ اور تربوز کی بیلیں درخت اور کھجور کے درخت اور کھیتیاں، جن کے ذائقے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اور زیتون اور انار، ان سب کا پیدا کرنے والا اللہ ہے۔ 141۔ 2 اس کے لیے دیکھئے آیت 99 کا حاشیہ۔ 141۔ 3 یعنی جب کھیتی سے غلہ کاٹ کر صاف کرلو اور پھل درختوں سے توڑ لو، تو اس کا حق ادا کرو۔ حق سے مراد علماء کے نزدیک نفلی صدقہ ہے اور بعض کے نزدیک صدقہ واجبہ یعنی عشر، دسواں حصہ اگر زمین بارانی ہو تو نصف عشر یعنی بیسواں حصہ (اگر زمین کنویں، ٹیوب ویل یا نہری پانی سے سیراب کی جاتی ہے) ۔ 141۔ 4 یعنی صدقہ خیرات میں بھی حد سے تجاوز نہ کرو، ایسا نہ ہو کل کو تم ضرورت مند ہوجاؤ۔ بعض کہتے ہیں اس کا تعلق حکام سے ہے یعنی صدقات اور زکوٰۃ کی وصولی میں حد سے تجاوز نہ کرو اور امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ سیاق آیت کی رو سے زیادہ صحیح لگتی ہے کہ کھانے میں اسراف مت کرو کیونکہ بسیار خوری عقل اور جسم کے لئے مضر ہے دوسرے مقامات پر بھی اللہ تعالیٰ نے کھانے پینے میں اسراف سے منع فرمایا، جس سے واضح ہے کہ کھانے پینے میں بھی اعتدال بہت ضروری ہے اور اس سے تجاوز اللہ کی نافرمانی ہے۔ آج کل مسلمانوں نے اس اسراف کو اپنی امارت کے اظہار کی علامت بنا لیا ہے۔ 141۔ 5 اس لئے اسراف کسی چیز میں بھی پسندیدہ نہیں، صدقہ و خیرات دینے میں نہ کسی اور چیز میں، ہر چیز میں اعتدال اور میانہ روی مطلوب اور محبوب ہے اس کی تاکید کی گئی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٥٠] اس آیت اور اس سے اگلی آیت میں مشرکوں کو یہ تنبیہ کی جا رہی ہے کہ کھیتیاں اور مویشی جن کے متعلق تم نے احکام کی ایک طویل فہرست اختراع کر رکھی ہے ان کو پیدا کرنے والا تو اللہ تعالیٰ ہے پھر کیا یہ نمک حرامی نہیں کہ تم اللہ کے دیئے ہوئے رزق سے درباروں اور بتوں کے حصے نکالو اور اس میں بھی بتوں کے ہی حصوں کو تمہیں پورا کرنے کی فکر ہوتی ہے اور اللہ سے زیادہ تم انہیں سے ڈرتے ہو۔ کھیتی اور مویشی تو اللہ نے پیدا کیے مگر حلال و حرام کے اختیار تم نے خود سنبھال رکھے ہیں۔ [١٥١] اس میں درختوں، پھلوں اور کھیتی کے متعلق جو کچھ ذکر ہوا ہے ان میں سے ایک ایک بات پر غور کیا جائے تو ان سے اللہ کی معرفت حاصل ہوسکتی ہے۔ اور ایسے حقائق بیان کیے جا رہے ہیں جنہیں سب اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ [١٥٢] زکوٰۃ اللہ کا بندوں پر حق ہے :۔ اللہ کے حق سے مراد وہ صدقہ ہے جو اللہ کے نام پر اس فصل میں سے فقراء و مساکین وغیرہ کو دیا جائے کیونکہ یہ فصل اللہ نے ہی اپنے فضل سے پیدا کی ہے۔ اس مقام پر اس && حق && کی مقدار معین نہیں کی گئی اور اسے صدقہ دینے والوں کی مرضی پر چھوڑا گیا۔ یہ سورة مکی ہے جبکہ زکوٰۃ مدینہ میں فرض ہوئی اور رسول اللہ نے یہ حق متعین فرما دیا کہ بارانی زمین سے زکوٰۃ پیداوار کا دسواں حصہ ہوگی اور آبپاشی والی زمین سے پیداوار کا بیسواں حصہ۔ نیز یہ بھی بتایا کہ کون کون سی پیداوار پر زکوٰۃ واجب ہے اور کتنی پیداوار ہو تو واجب ہے۔ اس سلسلہ میں درج ذیل امور کا لحاظ رکھا جائے گا۔ (١) پیداوار کی زکوٰۃ کے متعلق مسائل اور احادیث :۔ زرعی زکوٰۃ میں سال گزرنے کی شرط نہیں ہوتی۔ بلکہ جب فصل کاٹی جائے یا پھل توڑا جائے۔ اسی وقت زکوٰۃ واجب ہوگی جیسا کہ آیت مذکورہ سے واضح ہے۔ (٢) کھیتی اگر چشمہ یا بارانی پانی سے سیراب ہو تو اس میں عشر یا دسواں حصہ زکوٰۃ ہے اور اگر پانی مصنوعی طریقوں یعنی کنوئیں یا ٹیوب ویل یا نہروں سے دیا جا رہا ہو۔ جس پر محنت بھی ہو اور خرچ بھی تو اس میں نصف عشر یا بیسواں حصہ زکوٰۃ ہے۔ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ باب العشر فیما یسقی من ماء السماء والماء الجاری ) (٣) رسول اللہ کے زمانہ میں گندم، جو، منقیٰ (خشک انگور) اور کھجور سے زکوٰۃ لی جاتی تھی۔ مگر ہمارے یہاں اور بھی کئی اجناس بکثرت پیدا ہوتی ہیں۔ جیسے چاول، چنے، جوار، باجرہ، مکئی وغیرہ ان سب پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔ (٤) غلہ کی پیداوار اگر پانچ وسق یا ٩٤٨ کلو گرام سے کم پیدا ہو تو اس پر زکوٰۃ نہیں ہوگی، یہی غلہ کا نصاب ہے۔ اور اس قدر زکوٰۃ کو کاشتکار یا زمیندار کے گھر کا سالانہ خرچہ ہی تصور کیا جائے گا۔ ہاں اگر اس سے تھوڑی سے بھی زائد ہو تو ساری مقدار پر زکوٰۃ واجب ہوگی۔ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ && پانچ وسق کھجور سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے اور پانچ اوقیہ چاندی ساڑھے باون تولہ) سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے اور پانچ اونٹ سے کم میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ && (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب لیس فی مادون خمس ذود صدقۃ) (٥) عرب میں خشک پھلوں میں سے منقیٰ اور کھجور کا ذکر آیا ہے جبکہ ہمارے ہاں اور بھی بہت سے خشک پھل کثیر مقدار میں پیدا ہوتے ہیں۔ جیسے اخروٹ، بادام، خوبانی، مونگ پھلی، کشمش وغیرہ۔ یہ سب چیزیں جب حد نصاب کو پہنچ جائیں تو ان پر زکوٰۃ واجب ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ عرب میں گھوڑے بہت کم تھے تو آپ نے گھوڑوں کو زکوٰۃ سے مستثنیٰ قرار دیا۔ (بخاری۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب لیس علی المسلم فی فرسہ صدقۃ) مگر دور فاروقی میں جب ایران فتح ہوا جہاں گھوڑے بکثرت پائے جاتے تھے تو سیدنا عمر نے گھوڑوں پر زکوٰۃ عائد کردی اور انہیں گائے کے مثل قرار دیا۔ (٦) ایسی سبزیاں اور ترکاریاں جو جلد خراب نہیں ہوتیں مثلاً آلو، لہسن، ادرک، پیٹھا وغیرہ ان پر زرعی زکوٰۃ واجب ہوگی اور جو جلد خراب ہوجانے والی ہیں مثلاً کدو، ٹینڈا، کریلے، توریاں وغیرہ ان پر زرعی زکوٰۃ عائد نہیں ہوتی بلکہ سال کے بعد ان کے منافع پر تجارتی زکوٰۃ عائد ہوگی یعنی اڑھائی فیصد یا چالیسواں حصہ۔ (٧) حد نصاب پانچ وسق یا ٩٤٨ کلو گرام کا اطلاق صرف اس غلہ پر ہوگا جو عموماً اس ملک میں روزمرہ خوراک کا حصہ ہو اور کثیر مقدار میں پیدا کیا جاتا ہو۔ جیسے ہمارے ملک میں چاول، گندم اور چنے وغیرہ اور جو غلہ اس ملک کی خوراک کا حصہ نہ ہو اور کم پیدا ہوتا ہو یا کیا جاتا ہو۔ جیسے ہمارے ہاں جوار، باجرہ اور مکئی وغیرہ۔ ان میں حد نصاب شرط نہیں۔ جیسے دور نبوی میں کھجور اور منقیٰ بطور خوراک استعمال ہوتے تھے تو آپ نے ان چیزوں کو محل نصاب قرار دیا مگر ہمارے یہاں کوئی بھی پھل بطور خوراک استعمال نہیں ہوتا لہذا ان پر حد نصاب شرط نہ ہوگی۔ [١٥٣] اسراف کی صورتیں :۔ اسراف کے بھی کئی پہلو ہیں مثلاً ایک شخص فرض شدہ زکوٰۃ سے زیادہ دینا چاہتا ہے تو بلاشبہ یہ ایک بہت اچھا عمل اور نیکی کا کام ہے مگر اتنا بھی زیادہ نہ دے کہ خود محتاج ہوجائے۔ جیسا کہ رسول اللہ نے وضاحت فرما دی ہے کہ && افضل صدقہ وہ ہے جس کے بعد آدمی خود محتاج نہ ہوجائے۔ (مسلم۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب افضل الصدقہ عن ظھر غنی) اسراف کی دوسری شکل یہ ہے کہ کسی گناہ کے کام میں یا غیر ضروری کام میں خرچ کر دے۔ ایسے کاموں میں تھوڑا سا خرچ کرنا بھی گناہ ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ اپنی ذات پر ضرورت سے زیادہ خرچ کرے۔ غرض اسراف کی جتنی صورتیں ہیں سب ناجائز ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَهُوَ الَّذِيْٓ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ وَّغَيْرَ مَعْرُوْشٰتٍ ۔۔ : ” مَعْرُوْشٰتٍ “ کا مادہ ” عرش “ (ن، ض) ہے۔ جب اس کا ذکر کسی پودے کی بیل کے ساتھ ہو تو اس کا معنی اس کی ٹہنیوں کو لکڑیوں وغیرہ پر اوپر اٹھانا ہے۔ ” عَرَشَ الْکَرْمَ “ یعنی اس نے انگور کی بیل کو لکڑی وغیرہ پر بلند کیا۔ مُتَشَابِهًا وَّغَيْرَ مُتَشَابِهٍ : اس جملے کی تفسیر کے لیے دیکھیے اس سورت کی آیت (٩٩) کا حاشیہ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے زمین سے پیدا ہونے والی ہر کھیتی، پھل، سبزی اور درخت کا ذکر فرما کر حکم دیا ہے کہ کٹائی کے دن اس کا حق ادا کرو، اس لیے زمین سے پیدا ہونے والے ہر پھل اور کھیتی میں سے اللہ کا حق ادا کرنا ضروری ہے، خواہ وہ ” مَّعْرُوْشٰتٍ “ ہوں، یعنی جن کی بیلیں چھتوں پر چڑھائی جاتی ہیں، مثلاً انگور، توری وغیرہ، یا ایسے باغات ہوں جن کی بیلیں زمین پر پھیلتی ہیں، مثلاً خربوزہ، تربوز، گرما وغیرہ، یا ایسے پھل دار درخت ہوں جو اپنے تنے پر قائم ہوں، مثلاً کھجور، زیتون اور انار وغیرہ، یا کوئی بھی کھیتی ہو، زمین سے پیدا ہونے والے ہر پھل اور کھیتی میں سے اللہ تعالیٰ کا حق نکالنا فرض ہے اور مال میں اللہ کا سب سے بڑا حق زکوٰۃ و عشر ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق بارش، چشموں اور نہروں سے سیراب ہونے والی ہر فصل میں عشر، یعنی دس من میں سے ایک من اور پانی کھینچ کر سیراب کی جانے والی ہر فصل میں نصف العشر، یعنی بیس من میں سے ایک من ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں سے کسی فصل کو مستثنیٰ قرار نہیں دیا۔ مفصل احکام کتب احادیث میں ملاحظہ فرمائیں۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ سبزیوں میں اور ان پھلوں میں عشر نہیں ہے جن کا ذخیرہ نہ ہوسکتا ہو، مثلاً مالٹا، انار وغیرہ، دلیل کے طور پر ترمذی کی حدیث بیان کرتے ہیں کہ سبزیوں میں صدقہ نہیں ہے، مگر خود امام ترمذی (رض) نے فرمایا کہ نہ اس حدیث کی سند صحیح ہے اور نہ اس مطلب کی کوئی اور حدیث نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے۔ اس آیت میں ہر کھیتی، زیتون اور انار کا ذکر ہے، حالانکہ انار کا ذخیرہ نہیں ہوتا۔ دور رسالت کے عمل کو دیکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکومت ایسی چیزوں کے عشر لینے کا اہتمام کرے جن کا ذخیرہ کرسکے، باقی باغوں اور کھیتوں والے اللہ کا حق خود مستحقین میں تقسیم کردیں۔ فتاویٰ علمائے حدیث کی ساتویں جلد میں متعدد جلیل القدر علماء کے مقالات میں ہر پھل اور کھیتی میں سے عشر کی بات نہایت مفصل اور مدلل بیان کی گئی ہے۔ ’ وَلَا تُسْرِفُوْا “ سے مراد ناجائز جگہ خرچ کرنا بھی ہے اور اعتدال سے بڑھ کر خرچ کرنا بھی، اسی طرح کھانے میں زیادتی بھی منع ہے، جیسا کہ فرمایا : ( وَّكُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا ) [ الأعراف : ٣١ ] ” اور کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ گزرو۔ “ حافظ ابن کثیر (رض) کے مطابق یہ آخری معنی یہاں زیادہ موزوں ہے، اس لیے بھی کہ یہ جسم اور عقل دونوں کے لیے نقصان دہ ہے۔ اتنا صدقہ کرنا بھی اسراف ہے کہ اس کے بعد آدمی خود محتاج ہو کر مانگنے پر مجبور ہوجائے۔ یہ حکم حکمرانوں کے لیے بھی ہے کہ جتنا کسی کے ذمے بنتا ہے اس سے زیادہ وصول نہ کریں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر اور وہی (اللہ پاک) ہے جس نے باغات پیدا کئے وہ بھی جو ٹیٹوں پر چڑھائے جاتے ہیں (جیسے انگور) اور وہ بھی جو ٹیٹوں پر نہیں چڑھائے جاتے (یا تو اس لئے کہ بیلدار نہیں جیسے تنہ دار درخت، یا باوجود بیلدار ہونے کے عادت نہیں، جیسے خربوزہ، تربوز وغیرہ) اور کھجور کے درخت اور کھیتی (بھی اس نے پیدا کئے) جو (انار انار) باہم (اور زیتون زیتون باہم رنگ و مزہ و شکل و مقدار میں سے بعض صفات میں کبھی) ایک دوسرے کے مشابہ ہوتے ہیں اور (کبھی) ایک دوسرے کے مشابہ نہیں بھی ہوتے (اور اللہ نے ان چیزوں کو پیدا کرکے اجازت دی ہے کہ) ان سب کی پیداوار کھاؤ (خواہ اسی وقت سے سہی) جب وہ نکل آوے (اور پکنے بھی نہ پاوے) اور (البتہ اس کے ساتھ اتنا ضرور ہے کہ) اس میں جو حق (شرع سے) واجب ہے (یعنی خیرات) وہ اس کے کاٹنے (توڑنے) کے دن (مسکینوں کو) یاد کرو اور (اس دینے میں بھی) حد (اذن شرعی) سے مت گزرو، یقینا وہ (یعنی اللہ تعالیٰ ) حد (اذن شرعی) سے گزرنے والوں کو ناپسند کرتے ہیں، اور (جس طرح باغ اور کھیت اللہ نے پیدا کئے ہیں، اسی طرح حیوانات بھی چنانچہ) مواشی میں اونچے قد کے (بھی) اور چھوٹے قد کے (بھی اسی نے پیدا کئے، اور ان کے بارے میں بھی مثل باغ اور کھیت کے اجازت دی کہ) جو کچھ اللہ تعالیٰ نے تم کو دیا ہے (اور شرع سے حلال کیا ہے اس کو) کھاؤ اور (اپنی طرف سے تحریم کے احکام تراش کر) شیطان کے قدم بقدم مت چلو، بلاشک وہ تمہارا صریح دشمن ہے (کہ تم کو باوجود وضوح دلائل حق کے گمراہ کر رہا ہے) ۔ معارف و مسائل پچھلی آیتوں میں مشرکین مکہ کی اس گمراہی کا ذکر تھا کہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے جانوروں اور اس کی عطا کی ہوئی نعمتوں میں ان ظالموں نے اپنے خود تراشیدہ بےجان بےشعور بتوں کو اللہ تعالیٰ کا ساجھی قرار دے کر جو چیز وہ بطور عبادت یا صدقہ خیرات کے نکالتے ہیں ان میں ایک حصہ اللہ تعالیٰ کا اور دوسرا حصہ بتوں کا رکھتے ہیں، پھر اللہ کے حصہ کو بھی مختلف حیلوں حوالوں سے بتوں کے حصہ میں ڈالتے ہیں، اسی طرح کی اور بہت سی جاہلانہ رسموں کو شرعی قانون کی حیثیت دے رکھی ہے۔ مذکورہ آیتوں میں سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے نباتات اور درختوں کی مختلف قسمیں اور ان کے فوائد وثمرات کی تخلیق میں اپنی قدرت کاملہ کے حیرت انگیز کمالات کا ذکر فرمایا اور دوسری آیت میں اسی طرح جانوروں اور مویشی کی مختلف قسموں کی پیدائش کا ذکر فرما کر ان کی گمراہی پر متنبہ فرمایا کہ ان بےبصیرت لوگوں نے کیسے قادر مطلق علیم وخبیر کے ساتھ کیسے بیخبر ، بےشعور، بےجان اور بےبس چیزوں کو اس کا شریک و ساجھی بنا ڈالا ہے۔ اور پھر ان کو صراط مستقیم اور صحیح راہ عمل کی طرف ہدایت فرمائی، کہ جب ان چیزوں کے پیدا کرنے اور تم کو عطا کرنے میں کوئی سہیم و شریک نہیں تو عبادت میں ان کو شریک ٹھہرانا انتہائی کفران نعمت اور ظلم ہے، جس نے یہ چیزیں پیدا کرکے تم کو عطا فرمائیں اور تمہارے لئے حلال کردیا، تمہارا فرض ہے کہ اس کی ان نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کے وقت اس کے حق شکر کو یاد رکھو اور ادا کرو، شیطانی خیالات اور جاہلانہ رسموں کو اپنا دین نہ بناؤ۔ پہلی آیت میں انشَاَ کے معنی پیدا کیا اور معروشَات عرش سے بنا ہے، جس کے معنی اٹھانے کے اور بلند کرنے کے ہیں، مراد معروشات سے درختوں کی وہ بیلیں ہیں جو ٹٹیوں پر چڑھائی جاتی ہیں، جیسے انگور اور بعض ترکاریاں، اور اس کے بالمقابل غیر مَعرُوشَات میں وہ سب درخت شامل ہیں جن کی بیلیں اوپر نہیں چڑھائی جاتیں، خواہ وہ تنہ دار درخت ہوں جن کی بیل ہی نہیں یا بیل دار ہوں مگر ان کی بیلیں زمین ہی پر پھیلتی ہیں اوپر نہیں چڑھائی جاتیں، جیسے تربوز، خربوزہ وغیرہ۔ اور نَخُل کے معنی کھجور کا درخت، اور زرع ہر قسم کی کھیتی، اور زیتون درخت زیتون کو بھی کہتے ہیں اس کے پھل کو بھی، اور رُمَّان انار کو کہا جاتا ہے۔ ان آیات میں حق تعالیٰ نے اوّل تو باغات میں پیدا ہونے والے درختوں کی دو قسمیں بیان فرمائیں، ایک وہ جن کی بیلیں اوپر چڑھائی جاتی ہیں دوسری وہ جن کی بیلیں چڑھائی نہیں جاتیں، اس میں اپنی حکمت بالغہ اور رموز قدرت کی طرف اشارہ ہے کہ ایک ہی مٹی اور ایک ہی پانی اور ایک ہی ہوا فضاء سے کیسے کیسے مختلف انداز کے پودے پیدا فرمائے، پھر ان کے پھلوں کی تیاری اور سبزی و شادابی اور ان میں رکھے ہوئے ہزاروں خواص و آثار کی رعایت سے کسی درخت کا مزاج ایسا کردیا کہ جب تک بیل اوپر نہ چڑھے اول تو پھل آتا ہی نہیں، اور آبھی جائے تو بڑھتا اور باقی نہیں رہتا، جیسے انگور وغیرہ، اور کسی کا مزاج ایسا بنادیا کہ اس کی بیل کو اوپر چڑھانا بھی چاہو تو نہ چڑھے، اور چڑھ بھی جائے تو اس کا پھل کمزور ہوجائے جیسے خربوزہ، تربوز وغیرہ، اور بعض درختوں کو مضبوط تنوں پر کھڑا کرکے اتنا اونچا لے گئے کہ آدمی کی صنعت اختیار سے اتنا اونچا لے جانا عادةً ممکن نہ تھا۔ اور درختوں کی یہ نیرنگی محض اتفاقی نہیں، بلکہ بڑی حکمت کے ساتھ ان کے پھلوں کے مزاج کی رعایت سے ہے، بعض پھل زمین اور مٹی ہی میں بڑھتے اور پکتے ہیں، اور بعض کو مٹی لگنا خراب کردیتا ہے بعض کے لئے اونچی شاخوں پر لٹک کر مسلسل تازہ ہوا کھانا، آفتاب کی کرنوں اور ستاروں کی شعاعوں سے رنگ حاصل کرنا ضروری ہے، ہر ایک کے لئے قدرت نے اس کے مناسب انتظام فرما دیا، فتبارک اللہ احسن الخالقین۔ اس کے بعد خصوصی طور پر نخل اور زرع یعنی کھجور کے درخت اور کھیتی کا ذکر فرمایا، کھجور کا پھل عام طور پر تفریحاً کھایا جاتا ہے، اور بوقت ضرورت اس سے پوری غذا کا کام بھی لیا جاسکتا ہے، اور کھیتی میں پیدا ہونے والی اجناس سے عموماً انسانوں کی غذا اور جانوروں کا چارہ حاصل کیا جاتا ہے، ان دونوں کے ذکر کرنے کے بعد فرمایا مُخْتَلِفًا اُكُلُهٗ اس میں اُکُلُہ، کی ضمیر زرع کی طرف بھی راجع ہو سکتی ہے اور نخل کی طرف بھی، بہرحال مراد دونوں ہی ہیں، معنی یہ ہیں کہ کھجوروں میں مختلف قسمیں اور ہر قسم کا مختلف ذائقہ ہے، اور کھیتی میں تو سینکڑوں قسمیں اور ہر قسم کے ذائقے اور فوائد مختلف ہیں، ایک ہی آب و ہوا ایک ہی زمین سے نکلنے والے پھلوں میں اتنا عظیم الشان تفاوت اور پھر ہر قسم کے فوائد اور خواص کا حیرت انگیز اختلاف اور تنوع ایک ادنیٰ بصیرت رکھنے والے انسان کو یہ تسلیم کرنے پر مجبور کردیتا ہے کہ ان کو پیدا کرنے والی کوئی ایسی مافوق القیاس ہستی ہے جس کے علم و حکمت کا اندازہ بھی انسان نہیں لگا سکتا۔ اس کے بعد دو چیزویں اور ذکر فرمائیں، زیتون اور رمان یعنی انار، زیتون کا پھل، پھل بھی ہے ترکاری بھی، اور اس کا تیل سب تیلوں سے زیادہ صاف، شفاف اور نفیس ہونے کے ساتھ بیشمار فوائد و خواص پر مشتمل ہے، ہزاروں امراض کا بہترین علاج ہے، اسی طرح انار کے بیشمار فوائد خواص ہیں، جن کو سب عوام و خواص جانتے ہیں، ان دونوں پھلوں کا ذکر کر کے فرمایا مُتَشَابِهًا وَّغَيْرَ مُتَشَابِهٍ ، یعنی ان میں سے ہر ایک کے پھل کچھ ایسے ہوتے ہیں جو رنگ اور ذائقہ کے اعتبار سے ملے جلے ایک جیسے ہوتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے رنگ اور ذائقے مختلف ہوتے ہیں، اور یہ بعض دانوں کا رنگ و مزہ اور مقداریں یکساں اور بعض کا مختلف ہونا انار میں بھی پایا جاتا ہے، زیتون میں بھی۔ ان تمام اقسام کے درختوں اور پھلوں کا ذکر فرما کر اس آیت میں انسان کو دو حکم دئیے گئے، پہلا حکم تو خود انسان کی خواہش اور نفس کے تقاضے کو پورا کرنے والا ہے، فرمایا (آیت) كُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖٓ اِذَآ اَثْمَرَ ۔ یعنی ان درختوں اور کھیتوں کے پھلوں کو کھاؤ جب وہ پھل دار ہوجائیں، اس میں اشارہ فرما دیا کہ ان تمام انواع و اقسام کے درختوں کو پیدا کرنے سے پیدا کرنے والے مالک کو اپنی کوئی ضرورت پوری کرنا نہیں بلکہ تمہارے ہی فائدہ کے لئے پیدا کیا ہے، سو تمہیں اختیار ہے ان کو کھاؤ اور فائدہ اٹھاؤ، اِذَآ اَثْمَرَ فرما کر اس طرف اشارہ فرما دیا کہ درختوں کی شاخوں اور لکڑیوں میں سے پھل نکال لانا تمہارے تو بس کا کام نہیں، جب وہ پھل باذن اللہ نکل آئیں تو ان کے کھانے کا اختیار اسی وقت حاصل ہوگیا خواہ وہ ابھی پکے بھی نہ ہوں۔ زمین کا عشر دوسرا حکم یہ دیا گیا (آیت) وَاٰتُوْا حَقَّهٗ يَوْمَ حَصَادِهٖ ، آتوا کے معنی ہیں، ” لاؤ “ یا ” ادا کرو “ ، اور حصاد کہتے ہیں ” کھیتی کٹنے یا پھلوں کے توڑنے کے وقت کو “ اور حَقَّہ کی ضمیر ہر اس کھانے کی چیز کی طرف عائد ہے جن کا ذکر اوپر آیا ہے، معنی یہ ہیں کہ ان سب چیزوں کو کھاؤ پیو استعمال کرو، مگر ایک بات یاد رکھو کہ کھیتی کاٹنے یا پھل توڑنے کے وقت اس کا حق بھی ادا کیا کرو، حق سے مراد غرباء و مساکین پر صدقہ کرنا ہے، جیسا کہ دوسری ایک آیت میں عام الفاظ سے ارشاد ہے : (آیت) والذین فی اموالہم حق معلوم، للسائل والمحروم، ” یعنی نیک بندوں کے اموال میں معین حق ہوتا ہے مانگنے والے اور نہ مانگنے والے فقراء و مساکین کا “۔ مراد اس صدقہ سے عام صدقہ خیرات ہے یا وہ صدقہ جو زمین کی زکوٰة یا عشر کہلاتا ہے، اس میں ائمہ تفسیر صحابہ وتابعین کے دو قول ہیں، بعض حضرات نے پہلے قول کو اختیار فرمایا ہے اور وجہ یہ قرار دی ہے کہ یہ آیت مکی ہے، اور زکوٰة کا فریضہ ہجرت مدینہ طیبہ کے دو سال بعد عائد ہوا ہے، اس لئے یہاں حق سے مراد حق زکوٰة الارض نہیں ہوسکتا، اور بعض حضرات نے اس آیت کو مدنی آیات میں شمار فرمایا، اور حق سے مراد زمین کی زکوٰة اور عشر کو قرار دیا۔ اور امام تفسیر ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں اور ابن عربی اندلسی نے احکام القرآن میں اس کا فیصلہ اس طرح فرمایا ہے کہ آیت خواہ مکی ہو یا مدنی، دونوں صورتوں میں اس آیت سے زمین کی زکوٰة یعنی عشر مراد ہوسکتا ہے، کیونکہ ان کے نزدیک وجوب زکوٰة کا اصل حکم مکہ میں نازل ہوچکا تھا، سورة مزمل کی آیات زکوٰة کے حکم پر مشتمل ہے، جو باتفاق مکہ ہے، البتہ مقدار زکوٰة اور نصاب کا تعیّن وغیرہ ہجرت کے بعد ہوا، اور اس آیت سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ زمین کی پیداوار پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی حق عائد کیا گیا ہے، اس کی مقدار کا تعیّن اس میں مذکور نہیں، اس لئے بحق مقدار یہ آیت مجمل ہے، اور مکہ معظمہ میں اس تعیین مقدار کی یہاں ضرورت بھی اس لئے نہ تھی کہ وہاں مسلمانوں کو یہ اطمینان حاصل نہ تھا کہ زمینوں اور باغوں کی پیداوار سہولت کے ساتھ حاصل کرسکیں، اس لئے اس زمانہ میں تو رواج وہی رہا جو پہلے سے نیک لوگوں میں چلا آتا تھا، کہ کھیتی کاٹنے یا پھل توڑنے کے وقت جو غریب غرباء وہاں جمع ہوجاتے ان کو کچھ دیدتے تھے، کوئی خاص مقدار معیّن نہ تھی، اسلام سے پہلے دوسری امتوں میں بھی کھیتی اور پھلوں میں اس طرح کا صدقہ دینے کا رواج قرآن کریم کی آیت انا بلوناھم میں مذکور ہے، ہجرت کے دو سال بعد جس طرح دوسرے اموال کے نصاب اور مقدار زکوٰة کی تفصیلات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وحی الٓہی بیان فرمائی، اسی طرح زمین کی زکوٰة کا بیان فرمایا، جو حضرت معاذ بن جبل اور ابن عمر اور جابر بن عبداللہ (رض) کی روایت سے تمام کتب حدیث میں منقول ہے ما سقت السماء ففیہ العشر وما سقی بالسانیۃ فنصف العشر، یعنی بارانی زمینوں میں جہاں آبپاشی کا کوئی سامان نہیں صرف بارش پر پیداوار کا مدار ہے، ان زمینوں کی پیداوار کا دسواں حصہ بطور زکوٰة نکالنا واجب ہے، اور جو زمین کنوؤں سے سیراب کی جاتی ہیں ان کی پیداوار کا انیسواں حصہ واجب ہے۔ قانون زکوة میں شریعت اسلام نے ہر قسم کی زکوٰة میں اس بات کو بنیادی اصول کے طور پر استعمال کیا ہے، کہ جس پیداوار میں محنت اور خرچ کسی پیداوار پر بڑھتا جاتا ہے اتنی ہی زکوٰة کی مقدار کم ہوتی جاتی ہے، مثال کے طور پر یوں سمجھئے کہ اگر کسی کو کوئی قدیم خزانہ مل جائے، یا سونے چاندی وغیرہ کی کان نکل آئے تو اس کا پانچواں حصہ بطور زکوٰة کے اس کے ذمہ لازم ہے، کیونکہ محنت اور خرچ کم اور پیداوار زیادہ ہے، اس کے بعد بارانی زمین کا نمبر ہے، جس میں محنت اور خرچ کم سے کم ہے اس کی زکوٰة پانچویں حصہ سے آدھی یعنی دسواں حصہ کردیا گیا، اس کے بعد وہ زمین ہے جس کو کنویں سے یا نہری پانی خرید کر اس سے سیراب کیا جاتا ہے، اس میں محنت اور خرچ بڑھ گیا تو زکوٰة اس سے بھی آدھی کردی گئی، یعنی بیسواں حصہ، اس کے بعد عام نقد سونا یا چاندی اور مال تجارت ہے، جن کے حاصل کرنے اور بڑھانے پر خرچ بھی کافی ہوتا ہے اور محنت بھی زیادہ، اس لئے اس کی زکوٰة اس کی آدھی یعنی چالیسواں حصہ کردیا گیا۔ قرآن کی آیت مذکورہ میں اور حدیث کی روایت مذکورہ میں زمین کی پیداوار کے لئے کوئی نصاب مقرر نہیں فرمایا، اسی لئے امام اعظم ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ اور امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کا مذہب یہ ہے کہ زمین کی پیداوار خواہ تھوڑی ہو یا زیادہ، بہر حال اس کی زکوٰة نکالنا ضروری ہے، قرآن کی آیت سورة بقرہ جس میں زمین کی زکوٰة کا ذکر ہے وہاں بھی اس کے لئے کوئی نصاب مذکور نہیں، ارشاد ہے : (آیت) انفقوا من طیبت ماکسبتم ومما اخرجنالکم من الارض، ” یعنی خرچ کرو اپنی حلال کمائی میں سے اور اس چیز میں سے جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالی ہے “۔ تجارتی اموال اور مویشی کے لئے تو رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نصاب بیان فرما دیا، کہ ساڑھے باون تولہ چاندی سے کم میں زکوٰة نہیں، چالیس بکریوں، پانچ اونٹوں سے کم میں زکوٰة نہیں، لیکن پیداوار زمین کے متعلق جو بیان اوپر کی حدیث میں آیا ہے اس میں کوئی نصاب نہیں بتلایا گیا، اس لئے ہر قلیل و کثیر سے زمین کی زکوٰة یعنی دسواں یا بیسواں حصہ نکالنا واجب ہے۔ آخر آیت میں فرمایا (آیت) وَلَا تُسْرِفُوْا ۭ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ ،” یعنی حد سے زائد خرچ نہ کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ فضول خرچ لوگوں کو پسند نہیں کرتے “۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں اگر کوئی شخص اپنا سارا مال بلکہ جان بھی خرچ کر دے تو اس کو اسراف نہیں کہا جاسکتا، بلکہ حق کی ادائیگی کہنا بھی مشکل ہے، پھر اس جگہ اسراف سے منع کرنے کا کیا مطلب ہے ؟ جواب یہ ہے کہ کسی خاص شعبہ میں اسراف کا نتیجہ عادةً دوسرے شعبوں میں قصور و کوتاہی ہوا کرتا ہے، جو شخص اپنی خواہشات میں بےدریغ حد سے زائد خرچ کرتا ہے وہ عموماً دوسروں کے حقوق ادا کرنے میں کوتاہی کیا کرتا ہے، یہاں اسی کوتاہی سے روکا گیا ہے، یعنی ایک طرف کوئی آدمی اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں لٹا کر خالی ہو بیٹھے تو اہل و اولاد اور رشتہ داروں بلکہ خود اپنے نفس کے حقوق کیسے ادا کرے گا، اس لئے ہدایت یہ کی گئی کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے میں بھی اعتدال سے کام لے تاکہ سب حقوق ادا ہو سکیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَہُوَالَّذِيْٓ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ وَّغَيْرَ مَعْرُوْشٰتٍ وَّالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا اُكُلُہٗ وَالزَّيْتُوْنَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِہًا وَّغَيْرَ مُتَشَابِہٍ۝ ٠ ۭ كُلُوْا مِنْ ثَمَرِہٖٓ اِذَآ اَثْمَرَ وَاٰتُوْا حَقَّہٗ يَوْمَ حَصَادِہٖ۝ ٠ ۡ ۖ وَلَا تُسْرِفُوْا۝ ٠ ۭ اِنَّہٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ۝ ١٤١ ۙ نشأ النَّشْءُ والنَّشْأَةُ : إِحداثُ الشیءِ وتربیتُهُ. قال تعالی: وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولی[ الواقعة/ 62] . يقال : نَشَأَ فلان، والنَّاشِئُ يراد به الشَّابُّ ، وقوله : إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل/ 6] يريد القیامَ والانتصابَ للصلاة، ومنه : نَشَأَ السَّحابُ لحدوثه في الهواء، وتربیته شيئا فشيئا . قال تعالی: وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد/ 12] والإنْشَاءُ : إيجادُ الشیءِ وتربیتُهُ ، وأكثرُ ما يقال ذلک في الحَيَوانِ. قال تعالی: قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [ الملک/ 23] ، وقال : هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ النجم/ 32] ، وقال : ثُمَّ أَنْشَأْنا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْناً آخَرِينَ [ المؤمنون/ 31] ، وقال : ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ [ المؤمنون/ 14] ، وَنُنْشِئَكُمْ فِي ما لا تَعْلَمُونَ [ الواقعة/ 61] ، ويُنْشِئُ النَّشْأَةَالْآخِرَةَ [ العنکبوت/ 20] فهذه كلُّها في الإيجاد المختصِّ بالله، وقوله تعالی: أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِؤُنَ [ الواقعة/ 71- 72] فَلِتشبيه إيجادِ النَّارِ المستخرَجة بإيجادِ الإنسانِ ، وقوله : أَوَمَنْ يُنَشَّؤُا فِي الْحِلْيَةِ [ الزخرف/ 18] أي : يُرَبَّى تربيةً کتربيةِ النِّسَاء، وقرئ : يَنْشَأ» أي : يَتَرَبَّى. ( ن ش ء) النشا والنشاۃ کسی چیز کو پیدا کرنا اور اس کی پرورش کرنا ۔ قرآن میں ہے : وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ النَّشْأَةَ الْأُولی[ الواقعة/ 62] اور تم نے پہلی پیدائش تو جان ہی لی ہے ۔ نشافلان کے معنی کے بچہ کے جوان ہونے کے ہیں ۔ اور نوجوان کو ناشی کہاجاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : إِنَّ ناشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئاً [ المزمل/ 6] کچھ نہیں کہ رات کا اٹھنا دنفس بہیمی کی سخت پامال کرتا ہے ۔ میں ناشئۃ کے معنی نماز کے لئے اٹھنے کے ہیں ۔ اسی سے نشاء السحاب کا محاورہ ہے جس کے معنی فضا میں بادل کے رونما ہونے اور آہستہ آہستہ بڑھنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے َ : وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد/ 12] اور بھاری بھاری بادل پیدا کرتا ہے ۔ الانشاء ۔ ( افعال ) اس کے معنی کسی چیز کی ایجاد اور تربیت کے ہیں ۔ عموما یہ لفظ زندہ چیز ۔۔ کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : قُلْ هُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [ الملک/ 23] وہ خدا ہی جس نے تمہیں پیدا کیا ۔ اور تمہاری کان اور آنکھیں اور دل بنائے ۔ نیز فرمایا : هُوَ أَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَأَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ [ النجم/ 32] وہ تم کو خوب جانتا ہے جسب اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا ۔ ثُمَّ أَنْشَأْنا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْناً آخَرِينَ [ المؤمنون/ 31] پھر ان کے بعد ہم نے ایک اور جماعت پیدا کی ۔ وَنُنْشِئَكُمْ فِي ما لا تَعْلَمُونَ [ الواقعة/ 61] اور تم کو ایسے جہان میں جس کو تم نہیں جانتے پیدا کردیں ۔ ثُمَّ أَنْشَأْناهُ خَلْقاً آخَرَ [ المؤمنون/ 14] پھر اس کو نئی صورت میں بنا دیا ويُنْشِئُ النَّشْأَةَ الْآخِرَةَ [ العنکبوت/ 20] پھر خدا ہی پچھلی پیدائش پیدا کرے گا ۔ ان تمام آیات میں انسشاء بمعنی ایجاد استعمال ہوا ہے جو ذات باری تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اور آیت کریمہ : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ أَأَنْتُمْ أَنْشَأْتُمْ شَجَرَتَها أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِؤُنَ [ الواقعة/ 71- 72] بھلا دیکھو جو آگ تم درخت سے نکالتے ہو کیا تم نے اس کے درخت کو پیدا کیا ہے یا ہم پیدا کرتے ہیں ۔ میں آگ کا درخت اگانے پر بطور تشبیہ انشاء کا لفظ بولا گیا ہے اور آیت کریمہ ) أَوَمَنْ يُنَشَّؤُا فِي الْحِلْيَةِ [ الزخرف/ 18] کیا وہ جوز یور میں پرورش پائے ۔ میں ینشا کے معنی تربیت پانے کے ہیں نفی عورت جو زبور میں تربیت ۔ ایک قرآت میں ينشاء ہے یعنی پھلے پھولے ۔ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ عرش العَرْشُ في الأصل : شيء مسقّف، وجمعه عُرُوشٌ. قال تعالی: وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة/ 259] ، ومنه قيل : عَرَشْتُ الکرمَ وعَرَّشْتُهُ : إذا جعلت له كهيئة سقف، وقد يقال لذلک المُعَرَّشُ. قال تعالی: مَعْرُوشاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشاتٍ [ الأنعام/ 141] والعَرْشُ : شبهُ هودجٍ للمرأة شبيها في الهيئة بِعَرْشِ الکرمِ ، وعَرَّشْتُ البئرَ : جعلت له عَرِيشاً. وسمّي مجلس السّلطان عَرْشاً اعتبارا بعلوّه . قال : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف/ 100] ( ع رش ) العرش اصل میں چھت والی چیز کو کہتے ہیں اس کی جمع عروش ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهِيَ خاوِيَةٌ عَلى عُرُوشِها[ البقرة/ 259] اور اس کے مکانات اپنی چھتوں پر گرے پڑے تھے ۔ اسی سے عرشت ( ن ) الکرم وعرشتہ کا محاورہ ہے جس کے معنی انگور کی بیلوں کے لئے بانس وغیرہ کی ٹٹیاں بنانا کے ہیں اور ٹٹیوں پر چڑھائی ہوئی بیل کو معرش بھی کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : مَعْرُوشاتٍ وَغَيْرَ مَعْرُوشاتٍ [ الأنعام/ 141] ٹٹیوں پر چڑھائے ہوئے اور جو ٹٹیوں پر نہیں چڑھائے ہوئے ۔ وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ [ النحل/ 68] اور درختوں میں اور ان سے جنہیں ٹٹیوں پر چڑھاتے ہیں ۔ وَما کانُوا يَعْرِشُونَ [ الأعراف/ 137] جو ٹٹیوں پر چڑھاتے تھے ۔ العرش چھولدادی جس کی ہیت انگور کی ٹٹی سے ملتی جلتی ہے اسی سے عرشت لبئر ہے جس کے معنی کو یں کے اوپر چھولداری سی بنانا کے ہیں بادشاہ کے تخت کو بھی اس کی بلندی کی وجہ سے عرش کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَرَفَعَ أَبَوَيْهِ عَلَى الْعَرْشِ [يوسف/ 100] اور اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا ۔ نخل النَّخْلُ معروف، وقد يُستعمَل في الواحد والجمع . قال تعالی: كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر/ 20] وقال : كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ خاوِيَةٍ [ الحاقة/ 7] ، وَنَخْلٍ طَلْعُها هَضِيمٌ [ الشعراء/ 148] ، وَالنَّخْلَ باسِقاتٍ لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق/ 10] وجمعه : نَخِيلٌ ، قال : وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ [ النحل/ 67] والنَّخْلُ نَخْل الدّقيق بِالْمُنْخُل، وانْتَخَلْتُ الشیءَ : انتقیتُه فأخذْتُ خِيارَهُ. ( ن خ ل ) النخل ۔ کھجور کا درخت ۔ یہ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ خاوِيَةٍ [ الحاقة/ 7] جیسے کھجوروں کے کھوکھلے تنے ۔ كَأَنَّهُمْ أَعْجازُ نَخْلٍ مُنْقَعِرٍ [ القمر/ 20] اور کھجوریں جن کے خوشے لطیف اور نازک ہوتے ہیں ۔ وَالنَّخْلَ باسِقاتٍ لَها طَلْعٌ نَضِيدٌ [ ق/ 10] اور لمبی لمبی کھجوریں جن کا گا بھاتہ بہ تہ ہوتا ہے اس کی جمع نخیل آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْ ثَمَراتِ النَّخِيلِ [ النحل/ 67] اور کھجور کے میووں سے بھی ۔ النخل ( مصدر کے معنی چھلنی سے آٹا چھاننے کے ہیں اور انتخلت الشئی کے معنی عمدہ چیز منتخب کرلینے کے ؛ زرع الزَّرْعُ : الإنبات، وحقیقة ذلک تکون بالأمور الإلهيّة دون البشريّة . قال : أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ [ الواقعة/ 64] ( ز ر ع ) الزرع اس کے اصل معنی انبات یعنی اگانے کے ہیں اور یہ کھیتی اگانا در اصل قدرت کا کام ہے اور انسان کے کسب وہنر کو اس میں دخل نہیں اسی بنا پر آیت کریمہ : أَأَنْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ [ الواقعة/ 64] بھلا بتاؤ کہ جو تم بولتے ہو کیا اسے تم اگاتے ہو یا اگانے والے ہیں ۔ الاختلافُ والمخالفة والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم/ 37] ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم/ 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔ زيت زَيْتُونٌ ، وزَيْتُونَةٌ ، نحو : شجر وشجرة، قال تعالی: زَيْتُونَةٍ لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] ، والزَّيْتُ : عصارة الزّيتون، قال : يَكادُ زَيْتُها يُضِيءُ [ النور/ 35] ، وقد زَاتَ طعامَهُ ، نحو سمنه، وزَاتَ رأسَهُ ، نحو دهنه به، وازْدَاتَ : ادّهن . ( ز ی ت ) زیت وزیتونہ مثل شجر وشجرۃ ایک مشہور درخت کا نام ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ زَيْتُونَةٍ لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] زیتون کے درخت سے روشن ہو رہا ہے ۔ جو نہ شر قی ہے اور نہ غر بی الزبت زیتون کے تیل کو بھی کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ يَكادُ زَيْتُها يُضِيءُ [ النور/ 35] قریب ہے کہ اس کا تیل روشنی کرے ۔ اور زات طعامہ کے معنی ہیں اس نے طعام میں زیتون کا تیل ڈالا جیسے سمنھ اور دھنہ بہ کیطرح ذات راسہ کا محاورہ بھی استعمال ہوتا جس کے معنی ہیں ( اس نے سر میں تیل ڈالا جیسے سمنہ اور دجنہ بھ کیطرح ذات راء سہ کا محاورہ بھی استعمال ہوتا جس کے معنی ہیں ( اس نے سر میں تیل لگایا اور از دات بمعنی اذھب کے ہیں ۔ شبه الشِّبْهُ والشَّبَهُ والشَّبِيهُ : حقیقتها في المماثلة من جهة الكيفيّة، کاللّون والطّعم، وکالعدالة والظّلم، والشُّبْهَةُ : هو أن لا يتميّز أحد الشّيئين من الآخر لما بينهما من التّشابه، عينا کان أو معنی، قال : وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة/ 25] ، أي : يشبه بعضه بعضا لونا لا طعما وحقیقة، ( ش ب ہ ) الشیبۃ والشبۃ کے اصل معنی مماثلت بلحاظ کیف کے ہیں مثلا لون اور طعم میں باہم مماثل ہونا یا عدل ظلم میں اور دو چیزوں کا معنوی لحاظ سے اس قدر مماثل ہونا کہ ایک دوسرے سے ممتاز نہ ہو سکیں شبھۃ کہلاتا ہے پس آیت کریمہ : ۔ وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة/ 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے میں متشابھا کے معنی یہ ہیں کہ وہ میوے اصل اور مزہ میں مختلف ہونے کے باوجود رنگت میں ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہوں گے أكل الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد/ 35] ( ا ک ل ) الاکل کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے { أُكُلُهَا دَائِمٌ } ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔ ثمر الثَّمَرُ اسم لكلّ ما يتطعم من أحمال الشجر، الواحدة ثَمَرَة، والجمع : ثِمَار وثَمَرَات، کقوله تعالی: أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقاً لَكُمْ [ البقرة/ 22] ( ث م ر ) الثمر اصل میں درخت کے ان اجزاء کو کہتے ہیں جن کو کھایا جاسکے اس کا واحد ثمرۃ اور جمع ثمار وثمرات آتی ہے قرآن میں ہے :۔ أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقاً لَكُمْ [ البقرة/ 22] اور آسمان سے مبینہ پرسا کر تمہارے کھانے کے لئے انواع و اقسام کے میوے پیدا کیے ۔ إِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ حصد أصل الحَصْد قطع الزرع، وزمن الحَصَاد والحِصَاد، کقولک : زمن الجداد والجداد، وقال تعالی: وَآتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصادِهِ [ الأنعام/ 141] ، ( ح ص د ) الحصد والحصاد کے معنی کھیتی کاٹنے کے ہیں اور زمن الحصاد والحصاد یہ زمن من الجداد والجداد کی طرح ( بکسرہ حا وفتحہا ) دونوں طرح آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ آتُوا حَقَّهُ يَوْمَ حَصادِهِ [ الأنعام/ 141] اور جس دن ( پھل توڑ و اور کھیتی ) کا نو تو خدا کا حق بھی اس میں سے ادا کرو ۔ میں وہ کھیتی مراد ہے جو اس کی صحیح وقت میں کاٹی گئی ہو ۔ سرف السَّرَفُ : تجاوز الحدّ في كلّ فعل يفعله الإنسان، وإن کان ذلک في الإنفاق أشهر . قال تعالی: وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا[ الفرقان/ 67] ، وَلا تَأْكُلُوها إِسْرافاً وَبِداراً [ النساء/ 6] ، ويقال تارة اعتبارا بالقدر، وتارة بالکيفيّة، ولهذا قال سفیان : ( ما أنفقت في غير طاعة اللہ فهو سَرَفٌ ، وإن کان قلیلا) قال اللہ تعالی: وَلا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ [ الأنعام/ 141] ، وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحابُ النَّارِ [ غافر/ 43] ، أي : المتجاوزین الحدّ في أمورهم، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ [ غافر/ 28] ، وسمّي قوم لوط مسرفین من حيث إنهم تعدّوا في وضع البذر في الحرث المخصوص له المعنيّ بقوله : نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ [ البقرة/ 223] ، وقوله : يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ [ الزمر/ 53] ، فتناول الإسراف في المال، وفي غيره . وقوله في القصاص : فَلا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ [ الإسراء/ 33] ، فسرفه أن يقتل غير قاتله، إمّا بالعدول عنه إلى من هو أشرف منه، أو بتجاوز قتل القاتل إلى غيره حسبما کانت الجاهلية تفعله، وقولهم : مررت بکم فَسَرِفْتُكُمْ أي : جهلتكم، من هذا، وذاک أنه تجاوز ما لم يكن حقّه أن يتجاوز فجهل، فلذلک فسّر به، والسُّرْفَةُ : دویبّة تأكل الورق، وسمّي بذلک لتصوّر معنی الإسراف منه، يقال : سُرِفَتِ الشجرةُ فهي مسروفة . ( س ر ف ) السرف کے معنی انسان کے کسی کام میں حد اعتدال سے تجاوز کر جانے کے ہیں مگر عام طور پر استعمال اتفاق یعنی خرچ کرنے میں حد سے تجاوز کرجانے پر ہوتا پے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا[ الفرقان/ 67] اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بیچا اڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں ۔ وَلا تَأْكُلُوها إِسْرافاً وَبِداراً [ النساء/ 6] اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہوجائیں گے ( یعنی بڑی ہو کہ تم سے اپنا کا مال واپس لے لیں گے ) اسے فضول خرچی اور جلدی میں نہ اڑا دینا ۔ اور یہ یعنی بےجا سرف کرنا مقدار اور کیفیت دونوں کے لحاظ سے بولاجاتا ہے چناچہ حضرت سفیان ( ثوری ) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی میں ایک حبہ بھی صرف کیا جائے تو وہ اسراف میں داخل ہے ۔ قرآن میں ہے : وَلا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ [ الأنعام/ 141] اور بےجانہ اڑان کہ خدا بےجا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔ وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحابُ النَّارِ [ غافر/ 43] اور حد سے نکل جانے والے دوزخی ہیں ۔ یعنی جو اپنے امور میں احد اعتدال سے تجاوز کرتے ہیں إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ [ غافر/ 28] بیشک خدا اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جا حد سے نکل جانے والا ( اور ) جھوٹا ہے ۔ اور قوم لوط (علیہ السلام) کو بھی مسرفین ( حد سے تجاوز کرنے والے ) کیا گیا ۔ کیونکہ وہ بھی خلاف فطرف فعل کا ارتکاب کرکے جائز حدود سے تجاوز کرتے تھے اور عورت جسے آیت : نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ [ البقرة/ 223] تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں ۔ میں حرث قرار دیا گیا ہے ۔ میں بیچ بونے کی بجائے اسے بےمحل ضائع کر ہے تھے اور آیت : يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ [ الزمر/ 53] ( اے پیغمبر میری طرف سے لوگوں کو کہدد کہ ) اے میرے بندو جہنوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی میں اسرفوا کا لفظ مال وغیرہ ہر قسم کے اسراف کو شامل ہے اور قصاص کے متعلق آیت : فَلا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ [ الإسراء/ 33] تو اس کا چاہئے کہ قتل ( کے قصاص ) میں زیادتی نہ کرے ۔ میں اسراف فی القتل یہ ہے کہ غیر قاتل کو قتل کرے اس کی دو صورتیں ہی ۔ مقتول سے بڑھ کر باشرف آدمی کو قتل کرنے کی کوشش کرے ۔ یا قاتل کے علاوہ دوسروں کو بھی قتل کرے جیسا کہ جاہلیت میں رواج تھا ۔ عام محاورہ ہے ۔ کہ تمہارے پاس سے بیخبر ی میں گزر گیا ۔ تو یہاں سرفت بمعنی جھلت کے ہے یعنی اس نے بیخبر ی میں اس حد سے تجاوز کیا جس سے اسے تجاوز نہیں کرنا چاہئے تھا اور یہی معنی جہالت کے ہیں ۔ السرفتہ ایک چھوٹا سا کیڑا جو درخت کے پتے کھا جاتا ہے ۔ اس میں اسراف کو تصور کر کے اسے سرفتہ کہا جاتا ہے پھر اس سے اشتقاق کر کے کہا جاتا ہے ۔ سرفت الشجرۃ درخت کرم خور دہ ہوگیا ۔ اور ایسے درخت کو سرقتہ ( کرم خوردہ ) کہا جاتا ہے ۔ حب والمحبَّة : إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه : - محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه : وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] . - ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] . - ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم . ( ح ب ب ) الحب والحبۃ المحبۃ کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں اور محبت تین قسم پر ہے : ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے ( وھوالذی انشا جنت معروشات و غیر معروشات وہ اللہ ہی ہے جس نے طرح طرح کے باغ اور تاکستان پیدا کیے) تا قول باری ( واتوا حقہ یوم حصادہ ۔ اور اللہ کا حق ادا کرو جب ان کی فصل کاٹو) حضرت ابن عبا س اور سدی کا قول ہے کہ ( معروشات) سے مراد وہ انگوری باغ ہیں جن کی بیلیں ٹٹیوں پر چڑھائی جاتی ہیں۔ ایک قول کے مطابق تعریش کا مفہوم یہ ہے کہ باے کو کسی دییوار کے ذریعے گھیر دیا جاتے۔ اس لفظ کے اصل معنی بلند کرنے کے ہیں۔ اس سے قول باری ( خاویۃ علی عروشھا) ہے۔ یعنی اپنی بلند کی ہوئی ٹٹیوں پر گر پڑی تھیں۔ عرش تخت کو کہتے ہیں) اس لیے کہ عرش زمین سے بلند ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے کھیت ، کھجور، زیتون اور انار کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا ( کلوا من ثمرہ اذا اثمر واتو خقہ یوم حصادہ۔ کھائو ان کی پیداوار جب کہ یہ پھلیں اور اللہ کا حق ادا کرو جب ان کی فصل کاٹو) یہ ما قبل کی تمام مذکورہ چیزوں پر عطف ہے۔ یہ آیت زمین کی تمام پیداوار اور پھلوں میں جن کا ذکر آیت میں ہوا ہے۔ اللہ کے حق کے ایجاب کا مقتضی ہے۔ عُشر قول باری ( واتوا حقہ یوم حصادہ) سے کیا مراد ہے۔ اس بارے میں اختلاف رائے ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) ، جابر بن زید، محمد بن الحنفیہ، حسن بصری، سعید بن المسیب، طائوس، زید بن اسلم ، قتادہ اور ضحاک سے مروی ہے کہ اس سے عشر اور نصف عشر یعنی بیسواں حصہ مراد ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) ( ایک اور روایت کے مطابق) محمد بن الحنفیہ، سدی اور ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ اس آیت کے حکم نے عشر اور نص عشر کے حکم کو منسوخ کردیا ہے۔ حسن سے مروی ہے کہ زکوٰۃ کے حکم نے اسے منسوخ کردیا ہے۔ ضحاک کا قول ہے کہ زکوٰۃ کے حکم نے قرآن میں مذکور یہ صدقہ کو منسو، کردیا ہے۔ حضرت ابن عمر (رض) اور مجاہد سے منقول ہے کہ یہ آیت محکم ہے یعنی منسوخ نہیں ہوئی۔ نیز یہ کہ فصل کی کٹائی کے موقعہ پر آیت میں مذکور حق واجب ہے اور یہ زکوٰۃ کے علاوہ ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے رات کے وقت کھجور اتارنے اور انگور توڑنے نیز فصل کاٹنے سے منع فرمایا ہے۔ سفیان بن عینیہ کا قول ہے کہ حدیث میں وارد ممانعت فقراء و مساکین کو فائدہ پہنچانے کی خاطر کی گئی ہے تا کہ وہ اس موقع پر اکٹھے ہو سکیں۔ مجاہد کا قول ہے کہ جب ” کٹائی ہوجائے تو مساکین کا حق الگ کردیا جائے۔ اسی طرخ ان کا حق الگ کر دو جب پیداوار کا تخمینہ لگائو اور جب فصل کاٹ کر ڈھیر لگا دو ، نیز مساکین کو فصل کاٹنے والوں کے پیچھے پیچھے رہنے کی اجازت دے دی جائے، اور جب تم فصل سے حاصل شدہ اناج کو ناپنا شروع کرو تو اس میں انہیں لَپ پھر کر دے دو ۔ جب تمہیں اس کی مقدار معلوم ہوجائے تو اس کی زکوٰۃ الگ کر دو ۔ جب کھجور اتارنے لگو تو مساکین کے لیے اس میں سے الگر کر دو ۔ اسی طرح جب پھل کو تولنا شروع کرو تو اس وقت بھی انہیں اس میں سے کچھ دے دو اور جب تمہیں اس کی مقدار کا اندازہ ہوجائے تو اس کی زکوٰۃ الگ کر دو ۔ “ حضرت ابن عباس (رض) ، محمد بن الحنفیہ اور ابراہیم نخعی سے یہ جو مروی ہے کہ قول باری ( واتو حقہ یوم حصادہ کا حکم عشر اور نصف عشر کے حکم کی بنا پر منسوخ ہوگیا ہے اس سے ان حضرات کے اس مسلک کا پتہ چلتا ہے کہ قرآن کو سنت کے ذریعے منسوخ کردینا جائز ہے جس پیداوار پر عشر واجب ہوتا ہے اس کے متعلق فقہاء کے مابین دو طرح کا اختلاف ہے۔ ای تو یہ کہ پیداوار کی وہ کون کون سی اصناف ہیں جن میں عشر واجب ہوتا ہے اور دوسرے یہ کہ ان کی مقدار کیا ہے۔ عشر واجب ہونے والی پیداوار کے متعلق اختلاف رائے کا ذکر امام ابوحنیفہ اور زفر کا قول ہے کہ زمین سے حاصل ہونے والی ہر پیداوار پر عشر ہے صرف ایندھن کی لکڑی ، قصب ( ہر وہ لکڑی جس میں پورے اور گرہیں ہوں مثلاً بانس ، نرکل وغیرہ ) اور حشیش یعنی خشک گھاس اس سے مستثنیٰ ہیں۔ امام ابویوسف اور امام محمد قول ہے کہ زمین سے پیدا ہونے والی چیزوں میں سے صرف اس پیداوار پر عشر واجب ہوگا جس کا پھل باقی رہ جاتا ہو۔ امام مالک (رح) کا قول ہے کہ جن انج اور دانوں پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے وہ یہ ہیں گندم، جَو، مکئی ، چاول، چنا، لوبییا، باجرا ، مسور ، مٹر اور سلت یعنی بغیر چھلکے والا جَو، اور اس طرح کے دوسرے والے۔ نیز زیتون میں بھی زکوٰۃ واجب ہوتی ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ صرف اس اناج میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے جسے خشک کرلیا جاتا ہے۔ اور اس کا ذخیرہ کر کے غذا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ زیتون میں کوئی زکوٰۃ نہیں اس لیے کہ وہ اوام یعنی سالن کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ قاضی ابن ابی لیلیٰ اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ خشک کھجور ، خشک انگور یا انجیر ، گندم اور جَو کے سوا کسی اور اناج یا پھل میں زکوٰۃ نہیں ہوتی۔ حسن بن صالح کا بھی یہی قول ہے۔ حضرت علی (رض) ، حضرت عمر (رض) ، مجاہد، عطاء بن ابی رباح اور عمرو بن دینار سے مروی ہے کہ سبزیوں میں کوئی زکوٰۃ نہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ آپ بصرہ میں گندنا ( ایک قسم کی بدبودار ترکاری جس کی بعض قسمیں پیاز اور بعض لہسن سے مشابہ ہوتی ہیں) کے مٹھوں میں سے زکوٰۃ وصول کرتے تھے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری ( واتو حقہ یوم حصادہ) کے متعلق سلف کے اختلاف رائے کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ یہ بیان ہوچکا ہے کہ آیت میں مذکور حکم کی منسوخیت اور عدم منسوخیت کے متعلق بھی اختلاف رائے ہے۔ اس بارے مییں سلف کے مابین اختلاف آراء کو تین صورتوں میں محدود کیا جاسکتا ہے۔ آیا اس سے مراد فصلوں اور پھلوں کی زکوٰۃ ہے یعنی عشر اور نصف عشر یا اس کے سوا کوئی اور حق ہے۔ یا ی منسوخ ہے یا منسوخ نہیں۔ اس بات کی دلیل کہ یہ منسوخ نہیں ہے۔ اُمت کا یہ اتفاق ہے کہ بہت سے اناج اور پھلوں میں اللہ کا حق واجب ہے یعنی عشر اور نصف عشر۔ ہمیں جب کوئی ایسا حکم نظر آئے جس پر پوری امت عمل پیرا ہو اور کتاب اللہ کے الفاظ بھی اس حکم پر مشتمل ہوں اور یہ کہنا درست ہو کہ ان الفاظ میں اس حکم کی تعبیر موجود ہے تو اس صورت میں یہ حکم لگانا واجب ہوجاتا ہے کہ امت کے اس اتفاق کی بنیاد کتاب اللہ ہے نیز جس حکم پر امت متفق ہوگئی ہے وہی آیت میں بھی مراد ہے اس لیے اس حق کے سوا کس اور چییز کا اثبات درست نہیں ہوگا۔ نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول ( فیما سقت السماء العشر ۔ جن فصلوں کو آسمان نے سیرات کیا ہو ان میں عشر واجب ہے) کے ذریعے اس حق کو منسوخ ثابت کرنا بھی جائز نہییں ہوگا۔ اس لیے کہ اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ آیت میں مذکورہ حق وہ عشر ہی ہو جس کا ذکر حدیثی میں آیتا ہے۔ اس صورت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے ( فیما سقت السماء العشر) قول باری ( واتوا حقہ یوم حصادہ ) کی مراد کا بیان قرار پائے گا۔ جس طرح آپ کا یہ ارشاد ( فی ماتی درھم خمسۃ دراھم) ہر دو سو درہموں میں پانچ درہم زکوٰۃ ہے ) قول باری ( واتو الزکوٰۃ ۔ اور زکوٰۃ ادا کرو) نیز قول باری ( وانفقو من طیبات ما کسبتم و مما اخرجنالکم من الارض۔ ان پاکیزہ چیزوں میں سے خرچ کرو جو تم نے کمایا ہے اور ان میں سے جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالا ہے) کا بیان ہے۔ قول باری ( واتو حقہ یوم حصادہ) کا عشر اور نصف عشر کے حکم کے ذریعے منسوخ ہوجانا درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ نسخ کا ورود ایسے دو حکموں سے ایک پر ہوتا ہے جنہیں یک جا کرنا درست نہ ہوتا ہو۔ لیکن جہاں دو حکموں کو یکجا کرنا درست ہوتا ہو وہاں ایک حکم کو دوسرے کے ذریعے منسوخ کرنا جائز نہیں ہوتا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ یہ کہنا درست ہے کہ فصلوں کی کٹائی کے دن ان کا حق ادا کر دو یعنی دسواں حصہ علیحدہ کر دو ۔ جب یہ بات درست ہے تو پھر عشر کے حکم کے ذریعے اس کا منسوخ قرار پانا جائز نہیں ہوگا۔ جن لوگوں کا یہ قول ہے کہ آیت میں مذکورہ حق کا حکم ثابت ہے یعنی منسوخ نہیں ہوا اور یہ عشر کے سوا کوئی اور حق ہے جو فصل کی کٹائی کے قوت فصل کی گہائی کے وقت اور فصل ناپنے کے وقت واجب ہوتاے ( اشارہ مجاہد کے قول کی طرف ہے جس کا ذکر مصنف نے گزشتہ سطور میں کیا ہے) تو اس قول کو دو میں سے ایک معنی پر محمول کیا جاسکتا ہے۔ یا تو وہ اس سے وجوب یا اسحباب مراد لیتے ہیں۔ اگر اس سے استحباب مراد ہے تو کوئی دلالت قائم کیے بغیر ان کے لیے اس قول کی گنجائش نہیں ہے۔ اس لیے کہ کسی حکم کو ایجاب سے ندب یعنی استحباب کی طرف لے جانے کے لیے کوئی نہ کوئی دلیل ضرور ہونی چاہیے خواہ وہ اس حکم کو واجب کیوں نہ سمجھتے ہوں۔ اگر ان کے خیال کے مطابق یہ حکم اسی طرح ہے تو اس بارے میں تواتر کے ساتھ روایات کا منقول ونا ضروری ہے اس لیے کہ لوگوں کو عام طور پر اس کی ضرورت پیش آتی تھی اور اس کے متعلق کم از کم اتنی روایات ضرور منقول ہوتیں۔ جتنی عشر اور نصف عشر کے متعلق مروی ہیں۔ جب عامۃ السلف اور فقہا کے علم میں ایسی روایتیں نہیں ہیں تو اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ استحباب کا یہ حکم مراد نہیں ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیان کے مطابق آیت میں مذکورہ حق سے عشر اور نصف عشر مراد ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ فصل کی کٹائی کے دن زکوٰۃ نہیں نکالی جاتی بلکہ صاف کرنے کے بعد زکوٰۃ ادا کی جاتی ہے جس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ نے آیت زیر بحث میں زکوٰۃ مراد نہیں لی ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حصاد فصل کی کٹائی کا نام ہے۔ جس وقت ایک شخص فصل کاٹ لے گا اس پر حاصل شدہ فصل کا دسواں حصہ نکالنا واجب ہوجائے گا۔ تا ہم سبزیوں میں یہ حق یعنی عشر ان کی کٹائی کے دن نکال دیا جائے گا۔ اس کے لیے اس کے سوا کسی اور چیز کا انتظار نہیں کیا جائے گا۔ قول باری ( واتو حقہ یوم حصادہ ) کے متعلق یہ کہا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے یوم کو اس حق کی ادائیگی کے لیے ظرف قرار نہیں دیا جس کا حکم دیا گیا ہے بلکہ یہ کٹی ہوئی فصل پر واجب ہون والے حی کے لیے ظرف قرار دیا گیا ہے۔ گویا یوں فرمایا ” اس حق کی ادائیگی کر دو جو فصل کی کٹائی کے دن اسے صاف کرنے کے بعد واجب ہوا۔ “ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جب ہماری وضاحت کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ قول باری ( واتو حقہ یوم حصادہ) سے عشر مراد ہے تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ زمین سے پیدا ہونے والی تمام اجناس میں عشر واجب ہے۔ اس حکم سے صرف وہی اجناس خارج ہوگی جن کی کسی دلیل کے ذریعے تخصیص ہوجائے گی۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے زرع یعنی فصل کا ذکر عموم کے لفظ سے کیا ہے جس کے تحت انواع و اقسام کی تمام فصلیں آ جاتی ہیں ، پھر کھجور، زیتون اور انار کا الگ سے ذکر کیا تو اس کے بعد فرمایا ( واتو حقہ یوم حصادہ) یہ حکم ان تمام مذکورہ چیزوں کی طرف راجع ہے۔ اس لیے جو شخص ان میں کسی تخصیص کا دعویٰ کرے گا اس کا دعویٰ تسلیم نہیں کیا جائے گا الا یہ کہ وہ اس کی کوئی دلیل پیش کرے۔ اس لیے آیت کی بناء پر سبزیوں وغیرہ نیز زیتون اور انار میں حق یعنی عشر کا ایجاب ثابت ہوجائے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ اجناس میں ان کی کٹائی کے دن اس حق کا ایجاب کردیا ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ان اجناس میں پختگی آ جائے اور وہ اس مرحلے پر پہنچ جائیں ک ان میں لگے ہوئے دانے اور پھل باقیی رہنے کے قابل ہوجائیں۔ لیکن جو دانے اور سبز پھل کٹائی کے مرحلے میں پہنچنے سے پہلے اتار لیے جائیں انہیں آیت کے الفاظ شامل نہیں ہوں گے اس کے ساتھ یہ بات بھی اپنی جگہ ہے کہ زیتون اور انار کی کٹائی نہیں ہوتی اس لیے یہ دونوں لفظ عموم میں داخل نہیں ہوں گے ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا ک حصاد، کاٹ دینے اور جڑ سے اکھاڑ دینے کا نام ہے ۔ قول باری ہے ( حتیٰ جعلنا ھم حصیدا خامدین۔ یہاں تک کہ ہم نے انہیں اس طرح کردیا کہ وہ کٹے ہوئے بےحس و حرکت پڑے تھے) فتح مکہ کے دن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا ( ترون اوباش قریش احصدوھم حصدا۔ تم قریش کے سفلہ اور کمینے لوگوں کو دیکھو گے کہ ان کی جڑ کاٹ دی گئی ہے) اس لیے فصل کے حصاد کا دن اس کی کٹائی کا دن ہے۔ یہ کٹائی سبزیوں میں بھی ہوتی ہے اور ان تمام پھلوں میں بھی جنیں درختوں سے اتار لیا جاتا ہے خواہ و پک گئے ہوں یا ابھی سبز اور کچے ہوں۔ یوم حصادہ کا مفہوم نیز تمام فقہاء کے نزدیک یہ بات مسلم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پول ( واتو حقہ یوم حصادہ) کے ذریعے کھجور کے درختوں پر لگنے والے پھلوں میں عشر واجب کردیا ہے۔ یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ قول باری ( یوم حصادہ) سے ان کی کٹائی کا دن مراد ہے۔ اس لیے کہ حصاد کا لفظ کھجور کے درختوں سے پھل اتارنے کو بھی شامل ہے۔ یہاں لفظ حصاد کے ذکر کا یہ فائدہ ہے کہ درختوں میں ان پھلوں کے لگنے اور پکنے کے ساتھ حق یعنی عشر نکالنا اس وقت تک واجب نہیں ہوتا جب تک یہ پھل مالک کے ہاتھ نہ آ جائیں۔ مالک کے ہاتھ آ جانے کے بعد عشر نکالنا لازم ہوتاے۔ اس لیے کہ اس لفظ کے ذکر نہ ہونے کی صورت میں یہ خیال پیدا ہوسکتا تھا کہ درختوں میں ان پھلوں کے لگنے کے ساتھ ہی انہیں اتارنے اور سنبھالنے سے پہلے یہ حق واجب ہوجاتا ہے۔ اس لفظ کے ذکر سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ مالک پر ان پھلوں کی زکوٰۃ واجب ہوگی جو اس کے ہاتھ آ جائیں۔ تلف ہوجانے والے نیز ہاتھ نہ آنے والے پھلوں کو زکوٰۃ اس پر واجب نہیں ہوگی۔ زمین سے پیدا ہونے والی تمام چیزوں پر عشر کے وجوب پر یہ قول باری دلالت کرتا ہے ( انفقو من طیبات ما کسبتم و مما اخرجنا لکم مین الارض) اس میں زمین کی ہر قسم کی پیداوار کے لیے عموم ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ آیت مییں لفظ نفقہ کا ذکر ہے۔ اس سے صدقہ یعنی زکوٰۃ کا مفہوم سمجھ میں نہیں آتا اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ معترض کی یہ بات کئی وجوہ سے غلط ہے۔ اول یہ کہ نفقہ کے لفظ سے صدقہ کے سوا اور کوئی مفہوم سمجھ میں نہیں آتا۔ کتاب اللہ میں یہ لفظ اسی مفہوم کے ساتھ وارد ہوا ہے ۔ چناچہ ارشاد باری ہے ( ولا تیمموالخبیث منہ تنفقون اور تم خبیث مال کا ارادہ نہ کرو کہ پھر اس مییں سے خرچ کرنے لگو) نیز ارشاد ہوا ( والذین یھنزون الذھب والفضۃ ولا ینفقونھا فی سبیل اللہ فبشرھم بعذاب علیم۔ جو لوگ سونا چاندی ذخیرہ کرتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہییں ایک دردناک عذاب کی بشارت دے دو ) نیز فرمایا ( الذین یفقون اموالھم باللیل و النھار سرا و علانیۃ جو لوگ اپنے اموال دن رات اور چھپا کر نیز کھلے بندوں خرچ کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ) نیز دیگر آیات جو نفقہ کے اس مفہوم کی موجب ہیں جس کا ہم نے ذکر کیا ہے یعنی صدقہ ۔ نیز قول باری ( یایھا الذین امنو انفقوا من طیبات ما کسبتم) امر کا صیغہ ہے جو وجوب کا مقتضی ہے۔ اور زکوٰۃ و عشر کے علاوہ کوئی ایسا نفقہ نہیں ہے جو واجب ہو۔ کیونکہ اپنے اہل و عیال کا نفقہ واجب نہیں ہوتا۔ نیز اپنی ذات اور اپنیی اولاد کا نفقہ ایک معقول اور از خود سمجھ میں آنے والی بات ہے اسے سمجھانے کے لیے امر کے صیغے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے آیت کو اس پر محمول کرنا ایک بےمعنی سے بات ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس سے نفلی صدقہ مراد ہے تو اس کے جوا ب میں کہا جائے گا کہ یہ بات بھی دو وجوہ سے غلط ہے اول یہ کہ امر کو وجوب پر محمول کیا جاتا ہے اسے دلیل کے بغیر استحباب اور تطوع پر محمول کرنا درست نہیں ہوگا۔ دوم یہ کہ ارشاد باری ( ولستم باخذیہ الا ان تغمضوا فیہ۔ حالانکہ ویہ چیز اگر کوئی تمہیں دے تو تم ہرگز اسے نیتاً گوارا نہ کرو گے ۔ اِلا یہ کہ اس کو قبول کرنے میں تم اغماض برت جائو) وجوب پر دلالت کرتا ہے۔ اس لیے کہ اغماض واجب الاواء قرض کی واپسی کے تقاضے میں برتا جاتا ہے۔ لیکن جو چیز واجب الادا نہ ہو اس کے لینے میں کوئی اغماض برتا نہیں جائے گا اس لیے کہ لینے والے کے لیے یہ چیز منافع ار زائد رقم کی حیثیت رکھے گی۔ سنت کی جہت سے اس پر حضرت معاذ (رض) حضرت ابن عمر (رض) اور حضرت جابر (رض) کی روایت دلالت کرتی ہے۔ ان تمام حضرات نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا ( ماسقت السماء ففیہ العشر وما سقی بالسانیۃ فنصف العشر جس فصل کو آسمان نے سیراب کیا اس میں عشر ہے اور جسے رہٹ یا جانور کے ذریعے سیراب کیا گیا ہو اس میں نصف عشر یعنی بیسواں حصہ ہے) یعنی بارانی زمین کی فصلوں میں دسواں حصہ اور چاہی زمین کی فصلوں میں بیسواں حصہ۔ اس حدیث کو لوگوں نے قبول کیا اور اس پر عمل پیرا ہوئے اس لیے اس کی حیثیت خبر متواتر جیسی ہوگئی۔ اس کا عموم زمین کی ہر قسم کی پیداوار میں حق یعنی عشر اور اور نصف عشر کو واجب کرتا ہے۔ سبزیوں کا صدقہ اگر ہمارے مخالفین اس روایت سے استدلال کریں جسے یعقوب بن شیبہ نے بیان کیا ہے انہیں ابو کامل الحجدری نے ، انہیں حارث بن شہاب نے عطاء بن السال سے، انہوں نے موسیٰ بن طلحہ سے ، انہوں نے اپنے والد سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( لیس فی الحضروات صدقۃ ۔ سبزیوں میں صدقہ نہیں ہے) تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ خود یعقوب بن شیبہ کا قول ہے کہ یہ منکر حدیث ہے۔ یحییٰ بن معین کہا کرتے تھے کہ حارث بن شہاب کی روایتیں ضعیف ہوتی ہیں۔ یحییٰ کہتے ہیں کہ عبدالسلام بن حرب نے یہ حدیث عطاء بن السائل سے ، انہوں نے موسیٰ بن طلحہ سے مرسل روایت کی ہے۔ عبدالسلام بن حرب ثقہ راوی ہیں۔ موسیٰ بن طلحہ کی اصل روایت وہ ہے جسے یعقوب بن شیبہ نے بیان کیا ہے۔ انہیں جعفر بن عون نے، انہیں عمرو بن عثمان بن موہب نے موسیٰ بن طلحہ سے، کہ ایک حاکم ( علاقہ افسر) نے انہیں اپنیی زمین کی زکوٰۃ ادا کرنے کا پیغام بھیجا۔ انہوں نے جواب دیا کہ ” یہ عشری زمین نہیں یہاں تو سبزیوں اور ترکاریوں وغیرہ کی کاشت ہوتی ہے جبکہ تحصیل زکوٰۃ صدقات کے منتظم اعلیٰ حضرت معاذ (رض) کو حکم ہے کہ کھجور ، گندم جَو اور انگور میں زکوٰۃ وصول کی جائے “۔ موسیٰ بن طلحہ کی اصل روایت یہ ہے کہ اس میں حضرت معاذ (رض) کی روایت کی وضاحت کی گئی ہے کہ انہیں مذکورہ بالا اصناف سے زکوٰۃ کی وصولی کا حکم دیا گیا تھا۔ اگر اس کا ثبوت ہو بھی جائے تو اس میں باقی ماندہ پھلوں اور پیداوار سے زکوٰۃ وصول کرنے کی نفی نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ حضرت معاذ (رض) کو صرف مذکورہ بالا اصناف سے زکوٰۃ کی وصولی کا منتظم بنایا گیا ہو۔ باقی ماندہ پیداوار کے لیے کوئی اور منتظم ہو۔ نیز اگر موسیٰ بن طلحہ کی روایت کی سند درست بھی ہوجائے اور روایت صحیح تسلیم کرلی جائے تو بھی اسے حضرت معاذ (رض) کی عشر اور نصف عشر والی روایت کے بالمقابل پیش نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے کہ حضرت معاذ (رض) کی اس روایت کو امت نے پوری طرح قبول کر کے اس پر عمل بھی کیا جبکہ موسیٰ بن طلح کی روایت پر عمل میں امت کے اندر اختلاف رائے ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جب ایک مسئلے میں دو روایتیں منقول ہوں اور ایک پر عمل پیرا ہونے میں فقہا کے مابین اتفاق رائے ہو جب کہ دوسریی کے متعلق اختلاف رائے ہو تو پہلی روایت دوسری روایت کا ختمہ کر دے گی خواہ وہ روایت حکم خاص پر مشتمل ہو یا حکم عام پر۔ اس بنا پر حضرت معاذ (رض) کی روایت ( فیما سقت السماء العشر) کو موسیٰ بن طلحہ کی روایت ( لیس فی الخضروات صدقۃ) پر فیصلہ کن حیثیت حاصل ہونا ضروری ہے۔ نیز یہ بھی ممکن ہے کہ موسیٰ بن طلحہ کی روایت پر ان سبزیوں وغیرہ کے سلسلے میں عمل کیا جائے جنہییں لے کر لوگ عشر وصول کرنے والے کے پاس سے گزریں۔ امام ابوحنیفہ رحتمہ اللہ علیہ کے قول کے مطابق ایسی چییزوں سے عشر وصول نہیں کیا جائے گا جب کہ حضرت معاذ (رض) کی روایت پر زمین سے نکلنے والی ہر پیداوار کے سلسلے میں عمل کیا جائے۔ نظر اور قیاس کی جہت سے اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ زمین میں سبزیوں کی کاشت اس کی پیداوار اور آمدنی مقصود ہوتی ہے جس طرح مختلف فصلوں کی کاشت کی صورت میں یہی چیز مدنظر ہوتی ہے جب دونوں صورتوں میں ایک ہی چیز مد نظر وہتی ہے تو پھر سبزیوں میں بھیی اسی طرح زکوٰۃ واجب ہونی چاہیے جس طرح اناج وغیرہ کی فصلوں کی صورت میں ہوتی ہے۔ البتہ ایندھن میں استعمال ہونے والی لکڑی ، بانس، نرکل اور گھاس اس میں شامل نہیں ہیں اس لیے کہ پانی ملنے پر یہ چیزیں خود بخود اُگ آتی ہیں۔ ان کی کاشت مقصود نہیں ہوتی ہے اسی بناء ان میں کوئی زکوٰۃ وجب نہیں ہوئی۔ ان اشیاء میں وجوب حق یعنی زکوٰۃ کی نفی پر سب کا اتفاق ہے کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ کھجور کا عشر کھجور کا مالک کھجور کی جو مقدار اپنے استعمال میں لے آگے اس کی زکوٰۃ کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ امام ابو حنیفہ، زفر، امام مالک اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ زمین کا مالک جس قدر پیداوار اپنے استعمال میں لے آئے گا اس کا بھیی حساب کیا جائے گا اور باقی ماندہ پیداوار کے ساتھ ملکر پوری پیداوار کی زکوٰۃ نکالی جائے گی۔ امام ابو یوسف کا قول ہے کہ اگر زمین کا مالک پیدوار کا ایک حصہ اپنے استعمال میں لے آئے یا اپنے پڑوسیوں کو کھلا دے یا صدقہ کے طور پردے دے تو زکوٰۃ نکالنے میں اس مقدار کا حساب نہیں کیا جائے گا بلکہ باقی ماندہ پیداوار کی زکوٰۃ وصول کی جائے گی جب کہ اس کی مقدار کم از کم تین سو صاع ہو ( ایک پیمانہ جو تقریباً ساڑھے تین سیر کا ہوتا ہے) اس لیے کہ اسی مقدار پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے جو کہ اس نے کھالیا یا کھلا دیا اس کی زکوٰۃ وصول نہیں کی جائے گی۔ اگر اس نے تین سو صاع کھا لیے اور کھلا دیے تو بھیی اس سے کوئی عشر وصول نہیں کیا جائے گا اگر اس مقدار سے زائد اس کے پاس کچھ بچ رہا تو اس عشر یا نصف عشر وصول کیا جائے گا خواہ وہ مقدار قلیل ہو یا کثیر۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ اناج کی صورت میں خرچ کا حصہ نکالنے سے پہلے زکوٰۃ علیحدہ کردی جائے گی۔ البتہ جتنی مقدار مالک اور اہل و عیال نے استعمال کرلی ہوگی اس کی زکوٰۃ نہیں نکالی جائے گی اس حیثیت اس تر کھجور جیسی ہے جس کا تخمینہ لگایا جاتا بلکہ باغ کے مالک اور اس کے اہل و عیال کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ تخمینہ لگانے والا باغ کے مالک اور اس کے اہل و عیال کے استعمال کے لیے پیداوار کا ایک حصہ رہنے دے گا اور اس کا تخمینہ نہیں لگائے گا۔ اسی طرح جو شخص اپنے درختوں پر لگی ہوئی تر کھجور اتار کر کھالے گا اس کا بھی حساب نہیں کیا جائے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری ( واتو حقہ یوم حصادہ) حاصل شدہ پیداوار کی پوری مقدار پر حق یعنی عشر کے وجوب کا مقتضی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مقدار کی کوئی تخصیص نہیں کی جو مالک اور اس کے اہل خانہ اپنے استعمال میں لے آئیں اس لیے عشر کے حق کی پوری پیداوار پر محمول کیا جائے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے کٹائی کے دن حق کی ادائیگی کا حکم دیا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ اس لیے کٹائی سے پہلے جو مقدار استعمال میں لے آئی جائے اس پر حق یعنی عشر واجب نہیں ہوگا اس کے جواب کہا جائے گا کہ حصاد کاٹنے اور قطع کرنے کا نام ہے۔ اس لیے وہ اپنی پیداوار کا جو حصہ بھی قطع کرے گا اس کا دسواں حصہ نکالنا اس پر واجب ہوجائے گا۔ علاوہ ازیں قول باری ( واتو حقہ یوم حصادہ) میں کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جو کٹائی کے دن سے پہلے استعمال میں آنے والے حصے میں عشر کی نفی کرتی ہو اس لیے کہ آیت میں اللہ کی مراد یہ ہوسکتی ہے کہ پوری پیداوار کا حق اس کی کٹائی کے دن ادا کر دو ، اس حصے کا بھی جو تم استعمال میں لے آئے ہو اور اس حصے کا بھی جو ابھی تمہارے استعمال میں نہیں آیا ہے۔ جن لوگوں نے استعما میں آنے والی پیداوار کی مقدار کا حساب نہیں کیا انہوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے جسے شعبہ نے خبیب بن عبدالرحمن سے نقل کی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے عبدالرحمن بن مسعود کو کہتے ہوئے سنا تھا کہ حضرت سہل بن ابی ختمہ (رض) ایک دفعہ ہماری مجلس میں آئے تھے انہوں نے ہمیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ اراشد سناییا ( اذا خرصتم فخذوا و دعوا الثلث فان لم تدعوا الثلث فالریع جب تم پیدوار کا تخمیہ لگائو تو اسی حساب سے زکوٰۃ وصول کرلو اور تہائی حصہ رہنے دو اس کا تخمینہ نہ لگائو۔ اگر تہائی حصہ رہنے نہیں دیتے تو چوتھائی حصہ رہنے دو ) اس روایت میں یہ احتمال ہے کہ یہ اس روایت کے ہم معنی ہو جس کے راوی خود حضرت سہل بن ابی حثمہ (رض) ہیں، اس میں مذکور ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں پیداوار کا تخمینہ لگانے کے لیے روانہ کیا تھا۔ آپ کے پاس ایک شخص نے آ کر شکایت کی کہ انہوں نے پیداوار سے زائد کا تخمینہ لگایا ہے اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سہل (رض) سے فرمایا کہ تمہارے ابن عم کا خیال ہے تم نے زائد تخمینہ لگایا ہے۔ اس پر انہوں نے عرض کیا کہ میں نے پیداوار کی اتنی مقدار رہنے دی ہے یعنی تخمینہ نہیں لگایا ہے جو ان کے اہل و عیال کے استعمال میں آسکے۔ نیز جس سے وہ مساکین کو بھی کھلا سکیں اور وہ مقدار بھی جو آندھیوں کی زد میں آ کر ضائع ہوجائے۔ یہ سن کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص سے مخاطب ہو کر فرمایا : تمہارے ابن عم نے تمہیں اچھی خاصی مقدار دے دی ہے اور تمہارے ساتھ انصاف کیا ہے “ درج بالا روایت میں عریہ کے لفظ کا ذکر ہوا ہے۔ عریہ ( کھجور کا وہ درخت جس کے مالک نے اس کا پھل کھانے کے لیے کسی اور کو دے دیا ہو) دراصل صدقہ ہوتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دراصل تہائی پیداوار کو صدہ کردینے کا حکم دیا ہے۔ اس پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جو جریر بن حازم نے قیس بن مسعود سے اور انہوں نے مکحول شامی سے نقل کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ( خففو فی الخرص فان فی المال العریۃ والوصیۃ تخمینہ لگانے میں ذرا تخفیف سے کام لیا کرو اس لیے کہ پیداوار میں عریہ یعنی صدقہ بھی لاحق ہوتا ہے اور وصیت بھ) آپ نے عریہ اور وصیت دونوں کا ایک ساتھ ذکر کیا جو اس پر دلالت کرتا ہے کہ عریہ سے صدقہ مراد ہے، حضرت ابو سعید خدری (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت کی ہے کہ ( لیس فی العرایا صدقۃ عرایا ( عریہ کی جمع ہے) میں کوئی صدقہ نہیں) اس لیے کہ عریہ خود صدقہ ہے اس لیے آپ نے اس میں صدقہ واجب نہیں کیا : اس روایت کا فائدہ یہ ہے کہ عشر ادا کرنے والا جتنی مقدار وہ صدقہ کر دے گا اس کا حساب تو کیا جائے گا لیکن اس کی زکوٰۃ نہیں لی جائے گی، اور نہ ہی مالک اس کا تاوان ادا کرے گا۔ پیداوار کی اس مقدار میں اختلاف رائے کا ذکر جس پر زکوٰۃ واجت ہوتی ہے امام ابوحنیفہ اور زفر کا قول ہے کہ زمین کی پیداوار خواہ قلیل ہو یا کثیر اس میں عشر اور نصف عشر واجب ہوگا البتہ وہ چیزیں اس سے خارج رہیں گی جن کا ہم نے پہلے ذکر کیا ہے۔ امام ابویوسف امام محمد، امام مالک، قاضی ابن ابی لیلیٰ ، لیث بن سعد اور امام شافعی کا قول ہے کہ جب تک پیداوار پانچ وسق یعنی تین سو صاع ( ایک صاع تقریباً ساڑھے تین سیر کا ہوتا ہے) کو نہ پہنچ جائے جو حق یعنی عشر کے وجوب کی کم سے کم حد ہے اس وقت تک اس میں عشر واجب نہیں و گا۔ یہ اس وقت ہوگا جب پیداوار مکیل کی صورت میں ہو یعنی اسے ناپا جاتا ہو۔ اگر وہ جنس مکیل کے تحت آنے والی نہ و تو اس صورت میں امام ابو یوسف (رح) ن یہ اعتبار کیا ہے کہ وہ جنس مکیل کے تحت آنے والی اجناس میں سے جن میں عشر واجت ہوتا ہے سب سے گھٹیا جنس کے پانچ وسق کے برابر ہوجائے۔ شہد کا حکم البتہ شہد کو انہوں نے اس سے خارج رکھا ہے۔ ان سے یہ مروی ہے کہ جب شہد کی مقدار دس رطل کو پہنچ جائے تو اس میں عشر واجب ہوگا ( ایک رطل چالیس تولے ( آدھ سیر) کے مساوی ہوتا ہے) ایک روایت ہے کہ انہوں نے دس مشکیزوں کا اعتبار کیا ہے۔ ان سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ وسق کے تحت آنے والی اجلاس میں سب سے گھٹیاجنس کے پانچ وسق کی قیمت کی مقدار شہد میں عشر واجب ہوگا۔ امام محمد کا مسلک یہ ہے کہ وہ اس سلسلے میں سب سے اعلیٰ پیمانے کا اعتبار کرتےیں جس کے ذریعے اس پیداوار کا اندازہ لگایا جاتا ہے پھر جب وہ پیداوار اس پیمانے کے پانچ گنا ہوجائے تو اس میں عشر واجب کرتے ہیں مثلاً زعفران کو لے لیجیے اس کی پیمائش کا سب سے بڑا پیمان مَن ( دو رطل) ہے۔ امام محمد زعفران میں عشر کے وجوب کے لیے پانچ من کی مقدار کا اعتبار کرتے ہیں اس لیے کہ ایک من سے زائد مقدار کے زعفران کو مَن کے حساب سے دوگنا یا اس کی کسر شمار کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے ” دو من زعفران “ یا ” ساڑھے تین من، یا سوا تین من “ وغیرہ۔ روئی میں وہ پانچ گانٹھوں کا اعتبار کرتے ہیں۔ اس لیے کہ روئی کا سب سے بڑا پیمانہ گانٹھ ہے۔ اس سے جو زائد ہوگی وہ اسی گانٹھ کی دوگنی مقدار یا سہ گنی یا اس کی کوئی کسر ہوگی۔ شہد کا سب سے اعلیٰ پیمانہ فرق ہے ( ایک پیمانے کا نام جس سے شہد کی پیمائش کی جاتی تھی اب اس کا رواج ختم ہوچکا ہے) اس لیے امام محمد کے نزدیک پانچ فرق شہد میں عشر واجب و گا، امام ابوحنیفہ (رح) کے مسلک کے حق میں قول باری ( واتو حقہ یوم حصادہ ) سے استدلال کیا جاسکتا ہے۔ آیت کا حکم آیت میں مذکور تمام پیداوار کی طرف راجع ہے۔ اس حکم میں تمام پیداوار کے لیے عموم ہے اگرچہ واجب ہونے والی مقدار کے لحاظ سے آیت میں اجمال ہے اس لیے کہ قول باری ( حقہ) ایک مجمل لفظ ہے جسے بیان کی ضرورت ہے۔ تا ہم واجب ہونے والی مقدار کا بیان حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد عشر اور نصف عشر کی صورت میں وارد ہوچکا ہے۔ امام ابوحنیفہ کے مسلک پر قول باری ( انفقوا من طیبات ما سکبتم و مما اخرجنا لکم من الارض) سے بھی استدلال کیا جاتا ہے ۔ اس لیے کہ آیت میں زمین کی تمام پیداوار کے لیے عموم ہے۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول بھی دلالت کرتا ہے کہ ( فیما سقت السماء العشر) آپ نے قلیل اور کثیر کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا۔ قیاس اور نظر کی جہت سے بھیی یہ بات سامنے آتی ہے کہ زمینی پیداوار میں سب کے نزدیک سال گزرنے کا اعتبار نہیں کیا جاتا یعنی عشر کے وجوب کے لیے حولان حول ( سال گزرنے ) کی شرط کے اسقاط پر سب کا اتفاق ہے۔ اس لیے مقدار کے اعتبار کا سوقط بھی لازم ہوگیا جس طرح مال غنیمت اور رکاز یعنی مال مدغونہ اور زمین کے اندر پائی جانے والی معدنیات میں مقدار کا اعتبار نہیں کیا جاتا۔ جو لوگ عشر کے وجوب میں مقدار کا اعتبار کرتے ہیں وہ اپنے استدلال میں محمد بن مسلم الطائفی کی روایت پیش کرتے ہیں جو انہیں عمرو بن دینار نے حضرت جابر بن عبداللہ (رض) سے سنائی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( لا صدقۃ فی شئی من الزرع او الکرم اوالنخل حتی یبلغ خمسۃ اوسق۔ فصل یعنی غذائی اجناس انگور اور کھجور میں کوئی زکوٰۃ نہیں جب تک ان کی مقدار پانچ وسق کو نہ پہنچ جائے) لیث بن ابی سلیم نے نافع سے اور انہوں نے حضرت عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ( لیس فیما رون خمسۃ وسق صدقۃ ۔ پانچ وسق سے کم مقدار میں کوئی صدقہ یعنی زکوٰۃ نہیں ہے) ایوب بن موسیٰ نے نافع سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے اسے موقوف روایت کی ہے۔ یعنی اس روایت کا سلسلہ حضر ابن عمر (رض) پر جاکر ختم ہوگیا ہے۔ عبداللہ بن المبارک نے معمر سے، انہوں نے سہیل بن ابی صالح سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی طرح کی روایت کی ہے۔ امام ابوحنیفہ کی طرف سے ان روایات کی مختلف توجیہیں کی گئی ہیں۔ ایک تو یہ کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک مسئلے کے بارے میں دو روایتیں منقول ہوں جن میں سے ایک عام ہو اور دوسری خاص ، اور فقہاء ان میں سے ایک رویات پر عمل پیرا ہونے میں متفق ہوں۔ جب کہ دوسری روایت پر عمل کے متعلق ان میں اختلاف ہو تو ایسی صورت میں متفق علیہ روایت کو مختلف فیہ روایت پر فیصلہ کن حیثیت حاصل ہوگی۔ جب عشر والی روایت پر عمل پیرا ہون میں سب کا اتفاق ہے اور مقدار والی روایت میں اختلاف رائے ہے تو اس صورت میں عشر والی روایت کو اس کے عموم محمول کرنا اولیٰ ہوگا اور یہ مختلف فیہ روایت کی حیثیت کو ختم کر دے گی۔ اس صورت میں اس روایت کو یا تو منسوخ تسلیم کرلیا جائے گا یا اسے ایسے معنوں پر محمول کیا جائے گا جو عشر والی روایت کی کسی طرح منافی نہ ہو۔ ایک اور پہلو سے اس پر نظر ڈالیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ( فیما سقت السماء العشر) وسق کے پیمانے میں آنے والی اجناس اور نہ آنے والی اجناس دونوں کے اندر عشر کے ایجاب کے لیے عام ہے۔ جبکہ پانچ وسق والی روایت وسق کے پیمانے میں آنے والی اجناس کے لیے خاص ہے اس میں دوسری اجناس داخل نہیں ہیں۔ اس لیے وسق والی روایت کا عشر واجب ہونے والی مقدار کے لیے بیان بننا درست نہیں ہوگا۔ اس لیے ک بیان کی خاصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ ان تمام صورتوں کو شامل ہوتا ہے جو بیان کی مقتضی ہوتی ہیں۔ جب وسق والی روایت وسق کے تحت آنے والی اجناس کی تعداد کے بیان تک محدود ہے دوسری اجناس کو شامل نہیں ہے۔ اور اس کے برعکس عشر والی روایت وسق میں آنے والی اجناس اور نہ آنے والی اجناس دونوں کو شامل ہے تو اس سے ہمیں یہ بات معلوم ہوگئی کہ وسق والی روایت عشر واجب ہونے والی مقدار کا بیان بن کر وارد نہیں ہوئی۔ ایک اور پہلو سے دیکھیے جو اجناس وسق کے تحت آتی ہیں وسق والی روایت ان میں عشر کے ایجاب کے لیے ان کی مقدار پانچ وسق تک پہنچنے کی مقتضی ہوگی اور جو وسق کے تحت نہیں آتی ہیں ان کی قلیل اور کثیر دونوں مقداروں میں عشر واجب ہوگا اس لیے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے ( فیما سقت السماء العشر) اس صورت میں کوئی دلیل موجود نہیں ہوگی جو وسق کے تحت نہ آنے والی اجناس کی مقدار کی تخصیص کی موجب بن سکے۔ اس طرح یہ قول اس قابل ہوگا کہ اسے مطلقاً نظر انداز کردیا جائے اور اس کے قائل کو ساقط الاعتبار اور ناسمجھ گردانا جائے اس لیے کہ سلف اور خلف سب کا اس کے خلاف اتفاق ہے۔ وسق والی روایت کی حیثیت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد جیسی نہیں ہے ) فی الرقۃ ربع العشر چاندی میں چالیسواں حصہ ہے ) یا ( لیس فیما دون خمس اورا زکوٰۃ پانچ اوقیہ ( ایک وزن جو سات مثقال کا ہوتا ہے) سے کم مقدار میں زکوٰۃ نہیں ہے) اس کی وجہ یہ ہے کہ چاندی کی جو بھی مقدار ہوتی ہے وہ وزن میں داخل ہوتی ہے ۔ اوقیہ کا ذکر وزن کے لیے ہوتا ہے اس لیے دوسری روایت میں مذکورہ تمام چاندی کی مقدار کے لیے مذکورہ بالا روایت کا بیان بن جانا درست ہوگیا۔ نیز ہم نے بیان کردیا ہے کہ مال کے اندر زکوٰۃ کے سوال اللہ کے اور بھی حقوق واجب تھے جو زکوٰۃ کی بنا پر منسوخ ہوگئے جس طرح ابو جعفر محمد بن علی اور ضحاک سے مروی ہے کہ قرآن میں مذکور ہر صدقہ کو زکوٰۃ نے منسوخ کردیا۔ اس لیے یہ ممکن ہے کہ مقدار کا اعتبا ان حقوق میں کیا گیا ہو جو پہلے واجب تھے اور پھر منسوخ ہوگئے جس طرح یہ قول باری ہے ( واذاخضرالقسمۃ اولو القربی والیتامیٰ و المساکین فارزقوھم منہ اور جب تقسیم کے موقع پر کنبہ کے لوگ اور یتیم اور مسکین آئیں تو اس مال میں سے ان کو بھی کچھ دو ) یا جس طرح مجاہد سے مروی ہے ” جب فصل کاٹو تو مساکین کے لیے کچھ الگ کر دو ، اور جب گہائی کرو، اور جب دانے الگ کرو تو بھی کچھ دے دو اور جب ناپ کے ذریعے ۔۔۔۔ کی مقدار معلوم کرلو تو اس کی زکوٰۃ نکال دو “ یہ حقوق اب واجب نہیں رہے اس لیے ممکن ہے کہ پانچ وسق مقدار کی جو روایت منقول ہے ان کا ان جیسے حقوق میں اعتبار کیا گیا ہو۔ جب اس میں یہ احتمال پیدا ہوگیا تو اس روایت کے ذریعے آیت کی نیز اس حدیث کی تخصیص جائز نہیں رہی جس کی روایت پر سب کا اتفاق ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک روایت ہے ( لیس فیما دون خمسۃ و سق زکوٰۃ ۔ پانچ وسق سے کم مقدار میں زکوٰۃ نہیں ہے) یہ ممکن ہے کہ آپ نے اس سے مال تجارت کی زکوٰۃ مراد لی ہو وہ اس طرح کہ کسی شخص نے آپ سے تجارت کی غرض سے رکھے ہوئے طعام یا خشک کھجور کے متعلق جس کی مقدار پانچ وسق سے کمی تھی۔ سوال پوچھا ہو اور آپ نے اسے بتادیا ہو کہ اس میں زکوٰۃ نہیں ہے اس لیے کہ اس زمانے میں اس مقدار کی قیمت زکوٰۃ کے نصاب کو نہیں پہنچی ہوگی۔ راوی نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے الفاظ تو نقل کردیے لیکن سبب کا ذکر کرنا ضروری نہیں سمجھا جس طرح بہت سی روایات میں یہ صورت حال پائی جاتی ہے۔ عشر اور خراج کو اکٹھا کرنے کے متعلق اختلاف رائے کا ذکر امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف ، امام محمد اور زفر کا قول ہے کہ عشر اور زکوٰۃ اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ امام مالک، سفیان ثوری، حسن بن صالح ، شریک بن عبداللہ اور امام شافعی کا قول ہے کہ اگر خراجی زمین ہو تو اس صورت میں پیداوار پر عشر واجب ہوگا اور زمین پر خراج عائد ہوگا عشر اور خراج ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔ اس کی دلیل یہ ہ کہ حضرت عمر (رض) بن الخطاب نے عراق کے دیہی علاقے فتح کرلیے تو آپ نے وہاں کی زمینوں پر خراج عائد کردیا اور پیداوار پر عشر واجب نہیں کیا۔ آپ نے یہ قدم صحابہ کرام کے مشورے اور ان کی رضا مندی سے اٹھایا تھا اس طرح اس مسئلے پر سلف کا اجماع ہوگیا اور بعد میں آنے والے لوگوں نے بھی اس پر عمل کیا۔ اگر ان دونوں باتوں کو یکجا کرنا جائز ہوتا تو حضرت عمر (رض) مفتوحہ زمینوں پر دونوں چیزیں عائد کردیتے اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ قول بھی دلالت کرتا ہے ( فیما سقت السماء العشر فیما سقی بالناضح نصف العشر) یعنی بارانی زمین کی پیداوار میں عشر واجب ہے اور چاہی زمین کی پیداوار میں نصف عشر یعنی بیسواں حصہ واجب ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دونوں قسموں کی زمین کی پیداوار پر واجب ہونے والی پوری مقدار بیان فرما دی۔ اگر اس کے ساتھ خراج بھی واجب وہ جائے تو یہ واجب ہونے والی مقدار کا ایک حصہ بن جائے گا لیے کہ خراج کبھی تہائی حصہ ہوتا ہے اور کبھی چوتھائی، کبھی ایک قفیز ( ایک پیمانہ کا نام ) ہوتا ہے اور کبھی ایک درہم۔ نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چاہی زمین میں عشر کا نصف مقرر فرمایا اس لیے کہ زمنی کے مالک پر اخراجات کا بوجھ پڑجاتا ہے۔ اب اگر زمین پر خراج بھی عائد ہوجائے تو اس کے بوج کی وجہ سے باقی ماندہ نصف عشر کا سقوط بھی لازم ہوجائے گا اور اس سے یہ بھی لازم آئے گا کہ اخراجات کے بوجھ کی کمی بیشی کی بناء پر مختلف زمینوں کے احکام بھی مختلف ہوجائیں جس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بارانی اور چاہی زمنیوں کے احکام میں اخراجات کے بوجھ کی بنا پر فرق رکھا تھا۔ اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہ جسے سہیل بن بی صالح نے اپنے والد سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا (منعت العراق قفیزھا و درھمھا۔ عراق نے اپنے قفیز اور درہم کی ادائیگی روک دی) اس کے معنی ہیں وہ جلد ہی ادائیگی روک دے گا۔ اگر عراق کی دیہی زمنیوں میں ۔۔۔۔۔۔ عشر واجب ہوتا تو یہ بات محال ہوتی کہ خراج کی ادائیگی تو رکی رہے اور عشر کی ادائیگی جاری رہے اس لیے کہ جو شخص خراج کی ادائیگی روک دے وہ عشر کی ادائیگی اور زیادہ سختی سے روک سکتا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے درج بالا قول میں عشر کا ذکر نہیں کیا جو اس پر دلالت کرتا ہے کہ خراجی زمین میں عشر واجب نہیں ہوتا۔ ایک روایت ہے کہ نہر الملک ( ایک نہر یا دریا کا نام) کی ایک چودھرائن مسلمان ہوگئی ۔ حضرت عمر (رض) نے اس علاقے کے حاکم کو لکھا کہ اگر یہ اپنی زمین قبضے میں رکھنا پسند کرے تو اس سے خراج وصول کیا جائے گا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ اپنے علاقے کا ایک سردار مسلمان ہوگیا حضرت علی (رض) نے اس سے فرمایا کہ اگر تم اپنی زمین پر ٹھہرے رہو گے بعنی اپنی زمین قبضے میں رکھو گے تو ہم تم سے خراج وصول کریں گے۔ اگر خراج کے ساتھ عشر بھی واجب ہوتا تو حضرت عمر (رض) اور حضرت علی (رض) اس کے وجوب کی بھی انہیں خبر دیتے۔ ان دونوں حضرات کے اس اقدام کی کسی صحابی نے مخالفت نہیں کی۔ ایک اور پہلو سے دیکھیے۔ خراج اور عشر دونوں اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سے ہیں اس لیے بیک وقت ان دونوں کو ایک شخص پر اکٹھا کرنا درست نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ سب اس پر متفق ہیں کہ چرنے والے جانور اگر مال تجارت ہوں تو ان پر بیک وقت مویشیوں کی زکوٰۃ اور تجارت کی زکوٰۃ کا وجوب ممتنع ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ خراج کی حیثیت اجرت جیسی ہے اور عشر صدقہ ہے اس لیے جس طرح زمین کی اجرت اور اس کی پیداوار عشر کا یک ا ہوجانا جائز ہے۔ اسی طرح خراج اور عشر کا یکجا ہوجانا بھی جائز ہونا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مفتوحہ علاقے کی خراجی زمین ۔۔۔۔۔ یعنی مال غنیمت کے حکم میں ہوتی ہے اور یہ حکم اس پر باقی رہتا ہے اور اس پر کاشت کرنے والے خراج کی ادائیگی کے بدلے میں اس سے فائدہ اٹھانے کی اجازت ہوتی ہے۔ اس لیے خراج گویا زمین کی اجرت بن گیا۔ یہ صورت حال خراج کے ساتھ عشر کے وجوب کو مانع نہیں ہوتی۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ معترض کی یہ بات کئی وجوہ سے غلط ہے۔ ایک تو یہ کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک اجارہ پر لینے والے شخص پر بیک وقت عشر اور اجرت یکجا نہیں ہوسکتے اس لیے جب اجرت لازم ہوگی تو عشر ساقط ہوجائے گا۔ عشر زمین کے مالک پر واجب ہوگا جو اجرت وصول کرتا ہے۔ اس لیے امام اوب حنیفہ رحتمہ اللہ علیہ پر یہ اعتراض نہیں ہوسکتا جو شخص یہ کہتا ہے کہ خراجی زمین پر زمیندار کی ملکیت نہیں ہوتی بلکہ اسے فئی یعنیی مال غنیمت کے حکم میں رکھا جاتا ہے اس کا قول بھی ناقابل قبول ہے۔ اس لیے کہ ہمارے نزدیک اس قسم کی زمین پر زمیندار کی ملکیت ہوتی ہے اس موضوع پر کسی اور مقام میں بحث کی گئی ہے۔ پھر معترض کا یہ کہنا کہ خراج اجرت ہے کئی وجوہ سے غلط ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ درخت اور کھجور کے پودے کو کرایہ پر لینا جائز نہیں ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے جب کہ یہ بات سب کے علم میں ہے کہ ان دونوں کا خراج ادا کیا جاتا ہے اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ خراج اجرت نہیں ہے۔ نیز اجارہ اسی وقت درست ہوتا ہے جب یہ ایک مقررہ مدت کے لیے ہو جبکہ کسی بھی امام المسلمین نے خراجی زمینوں کے مالکان پر کچھ مقرر نہیں کیا۔ نیز اگر خراجی زمین اور اس پر بسنے والوں کو فئی کے حکم پر برقرار رکھا جائے تو پھر ان سے فی راس کے حساب سے جزیہ لینا جائز نہیں ہوگا کیونکہ فئی کی بناء پر ان کی حیثیت غلاموں کی ہوگی اور غلام پر کوئی جزیہ نہیں ہوتا۔ خراج اور عشر کے اسباب کا ایک دوسرے کے منافی ہونا بھیی ان دونوں کے اجتماع کی نفی پر دلالت کرتا ہے اس لیے کہ خراج کے وجوب کا سبب کفر ہے کیونکہ خراج جزیہ کی جگہ عائد کیا جاتا ہے جبکہ فئی یعنی غنیمت کے تحت حاصل ہونے والے تمام اموال نیز عشر کے وجوب کا سبب اسلام ہے جب ان دونوں کے اسباب ایک دوسرے سے مختلف ہوگئے تو پھر ان کے مسبب کا بھیی ایک دوسرے سے منافی ہونا ضروری ہوگیا۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤١) جس نے باغات پیدا کیے وہ بھی جو بغیرتنوں کے اونچی دیواروں وغیرہ پر پھیلائے جاتے ہیں جیسا کہ انگور وغیرہ اور وہ بھی جو خود تنوں پر کھڑے ہوتے ہیں یا یہ کہ ایسے باغات پیدا کیے جن کو زمین میں گاڑا جاتا ہے اور جن کو زمین میں نہیں گاڑا جاتا جن میں کھانے کی چیزیں مٹھاس اور کھٹاس کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہیں اور زیتوں اور انار کے درخت پیدا کیے جو رنگت اور منظر میں تو ایک دوسرے کے مشابہ ہیں لیکن ذائقے میں مختلف ہوتے ہیں ایسے ہی کھجور کے پھل جب پک جائیں تو اسے کھاؤ اور اس کے ماپنے وپھل اتارنیکے دن جو شریعت کا حق ہو یا یہ کہ کاٹنے کے دن حق شرع کو ادا کرو اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں مت خرچ کرو اور اپنے اموال کی اطاعت خداوندی سے مت روکو یا یہ کہ بحیرہ، سائبہ، وصیلہ، اور حام کو حرام مت سمجھو جو لوگ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں اپنے اموال کو خرچ کرتے ہیں یا یہ کہ جو مشرک ہیں ان کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا، کہا گیا ہے کہ یہ آیت چابت بن قیس کے بارے میں نازل ہوئی، انہوں نے اپنے ہاتھ سے پانچ سو کھجور کے درخت لگائے تھے اور سب کو تقسیم کردیا اور اپنے گھر والوں کے لیے کچھ بھی نہیں چھورا ،۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤١ (وَہُوَ الَّذِیْٓ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ وَّغَیْرَ مَعْرُوْشٰتٍ ) ’ ’ معروشات کے زمرے میں بیل نما پودے آتے ہیں ‘ جن کا اپنا تنا نہیں ہوتا جس پر خود وہ کھڑے ہوسکیں۔ اس لیے ایسے پودوں کو سہارا دے کر کھڑا کرنا پڑتا ہے ‘ جیسے انگور کی بیل وغیرہ۔ دوسری طرف غیرمعروشات میں عام درخت شامل ہیں جو خود اپنے مضبوط تنے پر کھڑے ہوتے ہیں ‘ جیسے انار یا آم کا درخت ہے۔ (وَّالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا اُکُلُہٗ وَالزَّیْتُوْنَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِہًا وَّغَیْرَمُتَشَابِہٍ ط) ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی صناعی کی مثالیں ہیں کہ اس نے مختلف النوع درخت ‘ کھیتیاں اور پھل پیدا کیے ‘ جو آپس میں ملتے جلتے بھی ہیں اور مختلف بھی۔ جیسے Citrus Family کے پھلوں میں کینو ‘ فروٹر اور مالٹا وغیرہ شامل ہیں۔ بنیادی طور پر یہ سب ایک ہی قسم یا خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور شکل ‘ ذائقہ وغیرہ میں ایک دوسرے کے مشابہ ہونے کے باوجود سب کی اپنی اپنی الگ پہچان ہے۔ (کُلُوْا مِنْ ثَمَرِہٖٓ اِذَا اَثْمَرَ وَاٰتُوْا حَقَّہٗ یَوْمَ حَصَادِہٖ ) یعنی جیسے زمین کی پیداوار میں سے عشرکا ادا کرنا فرض ہے ‘ ایسے ہی ان پھلوں پر بھی زکوٰۃ دینے کا حکم ہے۔ لہٰذا کھیتی اور پھلوں کی پیدوار میں سے اللہ تعالیٰ کا حق نکال دیا کرو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

116. Tle Arabic expression "Jannaatim Ma'rushaatin wa khairu ma'rushatin" signifies two kinds of gardens: first, those consisting of trellised plants and, second, those consisting of trees which stand on their own.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :116 اصل میں جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ وّ غَیْرَ مَعْرُوْشٰتٍ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن سے مراد دو طرح کے باغ ہیں ، ایک وہ جن کی بیلیں ٹٹیوں پر چڑھائی جاتی ہیں ، دوسرے وہ جن کے درخت خود اپنے تنوں پرکھڑے رہتے ہیں ۔ ہماری زبان میں باغ کا لفظ صرف دوسری قسم کے باغوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اس لیے ہم نے جَنّٰتٍّ غَیْرَ مَعْرُوْشٰتٍ کا ترجمہ”باغ“ کیا ہے اور جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ کے لیے ”تاکستان“ ( یعنی انگوری باغ ) کا لفظ اختیار کیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

72: تشریح کے لیے دیکھئے پیچھے آیت نمبر 99 کا حاشیہ 73: اس سے مراد عشر ہے جو زرعی پیداوار پر واجب ہوتا ہے مکی زندگی میں اس کی کوئی خاص شرح مقرر نہیں تھی، بلکہ جب کٹائی کا وقت آتا تو کھیتی کے مالک پر فرض تھا کہ جو فقراء اس وقت موجود ہوں ان کو اپنی صوابدید کے مطابق کچھ دے دیا کرے، مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد اس کے مفصل احکام آئے اور آنحضرتﷺ نے اس کی تفصیل بیان فرمائی کہ بارانی زمینوں پر پیداوار کا دسواں حصہ اور نہری زمینوں پر بیسواں حصہ غریبوں کا حق ہے، آیت نے بتایا ہے کہ یہ حق کٹائی ہی کے وقت ادا کردینا چاہئے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

اوپر ذکر تھا کہ مشرکین مکہ اپنی کھیتی کی پیداوار میں اور پھل دار درختوں کے پھل میں بتوں کا حصہ ٹھہراتے تھے اس آیت میں ان لوگوں کے یاد دلانے کے طور پر اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ جتلایا ہے کہ کھیتی کی پیداوار میں اور پھل دار درختوں کے پھل میں بتوں کا حصہ ٹھہراتے تھے اس آیت میں ان لوگوں کے یاد دلانے کے طور پر اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ جتلایا ہے کہ کھیتی کی پیدا وار پھل دار درختوں کے پھل یہ سب اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی چیزیں ہیں ان مشرکوں کے بتوں کا اس میں کچھ دخل نہیں ہے پھر ان لوگوں کی یہ بڑی نادانی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں بغیر کسی استحقاق کے یہ لوگ پتھر کی مورتوں کا حصہ ٹھہراتے ہیں اللہ تعالیٰ نے یہ چیزیں انسان کے کھانے کے لیے پیدا کی ہیں۔ انگور کی بیلیں چھتریوں پر چڑھائی جاتی ہیں اس لیے چھتری دار فرمایا۔ بعضے آم انگور انار صورت اور مزہ دونوں میں ملتے جلتے ہوتے ہیں اور بعضوں کی صورت ملتی جلتی ہوتی ہے لیکن مزہ الگ ہوتا ہے اور بعضوں کی صورت مزہ دونوں الگ الگ ہوتے ہیں اس لیے پھلوں اور پتوں کو آپس میں ملتے اور جدا فرمایا۔ حاصل مطلب آیت کا یہ ہے کہ اے لوگوں اللہ کی ذات وہ ہے جس نے تمہاری زندگی کا تمہارے آرام کا یہ سب سامان پیدا کیا پھر ایسے خالق کو چھوڑ کر تم اوروں کو جو اس کی تعظیم میں شریک کرتے ہو یہ بڑے وبال کی بات ہے بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری (رض) کی حدیث گذر چکی ہے جس کے ایک ٹکڑے کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہ بڑی بردباری ہے جو مشرک لوگوں کے رزق میں وہ کچھ خلل نہیں ڈلتا۔ یہ حدیث کا ٹکڑا آیت کے اس ٹکڑے کی گویا تفسیر ہے آیت کے ٹکڑے اور حدیث کے ٹکڑے کو ملانے سے یہ مطلب قرار پاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں اگرچہ لوگ شیطان کا حصہ ٹھہراتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنی بردباری سے ان چیزوں کے پیدا کرنے کو بدستور جاری رکھتا ہے شاہ صاحب نے موضح القرآن میں بلا بیان کرنے حد نصاب کے جو کھیتی کی زکوٰۃ بیان فرمائی ہے وہ حنفی مذہب کے موافق ہے لیکن اور ائمہ کے نزدیک پانچ وسق کی حدنصاب مقرر ہے جو بیس من پانچ سیر عالم گیری پیسوں کے حساب سے ہے یہ پیسہ چودہ ماشہ کا ہوتا ہے حاصل مطلب یہ ہے کہ سوائے حنفی مذہب کے اور مذاہب میں بیس من سے کم پیداوار پر زکوٰۃ نہیں ہے مسند امام احمد صحیح بخاری ومسلم میں جابر (رض) اور ابوسعید خدری (رض) سے جو روایتیں ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ پانچ وسق سے کم پیدا وار پر زکوۃ نہیں ہے اور سواگیہوں ‘ جو ‘ کھجور ‘ انگور ‘ جوار کے اور پیداوار کی زکوٰۃ میں بھی اختلاف ہے تفصیل اس کی فقہ اور حدیث کی شرح کی کتابوں میں ہے اس آیت کو بعضے مفسروں نے عشر کے حکم سے منسوخ کہا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ عشر کا حکم اس آیت کا بیان ہے ناسخ نہیں ہے اور یہ اس صورت میں ہے کہ جس طرح بعضے مفسروں نے کہا ہے کہ یہ آیت مکی ہے اس کو قائم رکھا جاوے اگر اس روایت کو لیا جاوے جو ابن جریر اور ابن جوزی نے اپنی تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے بیان کی ہے کہ یہ آیت مذنی ہے کھیتی کو زکوٰۃ اسی آیت کے حکم سے ثابت ہوئی ہے تو آیت اتوا الزکوۃ کے بیان کے طور پر کھیتی کی زکوٰۃ اسی آیت کے حکم سے ثابت ہوگی اور حدیث پانچ وسق سے نصاب زکوٰۃ اور بیسویں حصہ اور دسویں حصے سے مقدار زکوۃ معین ہوگی کہ محنت سے کھیتی کو پانی دیا جاوے تو پیدا وار کا بیسویں حصہ زکوٰۃ ہے ورنہ دسواں حصہ ہے ناسخ ہونے کی کوئی صورت نہیں ہے تفسیر ابن جریر میں ابن جریج سے روایت ہے کہ ثابت بن قیس کے پانسوں کھجور کے درخت تھے انہوں نے ایک روز میں سب ان درختوں کا پھل خیرات کردیا اس پر لاتسر فوا کا ٹکڑا اس آیت کا نازل ہوا بعضی روایتوں میں یہ شان نزول حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے بھی آئی ہے مجاہد نے کہا ہے کہ ثابت بن قیس نے اپنی اہل و عیال کا خرچ نہیں رکھا تھا اس لئے ان کی خیرات اسراف میں داخل ہوئی جن کا حق اللہ تعالیٰ نے آدمی پر رکھا ہے اس حق کو محفوظ رکھ کر ایک روز میں احد پہاڑ کے برابر سونا بھی کوئی شخص خیرات کر دے تو کچھ اسراف نہیں ہے۔ مسند امام احمد صحیح مسلم اور نسائی میں جابر (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو پیداوار قدرتی پانی سے ہو اس پر دسواں حصہ اور جس کو محنت کر کے پانی دیا جاوے اس پر بیسوں حصہ زکوٰۃ ہے زکوٰۃ مدینہ میں فرض ہوئی اس لئے جو علماء اس آیت کو مکی کہتے ہیں وہ زمین کی پیداوار پر زکوٰۃ کے فرض ہونے کا حکم سورة بقرہ کی آیت ومما اخرجنا لکم من الارض (٢: ٦٦٥) کو ٹھہرا کر جابر (رض) کی اس حدیث سے مقدار زکوٰۃ کی تفسیر کرتے ہیں لیکن سورة بقرہ میں ومما اخرجنا لکم من الارض کی شان نزول معتبر سند سے جو گذر چکی ہے اس سے وہ آیت نفلی صدقہ خیرات کے باب میں معلوم ہوتی ہے کیونکہ فرض زکوٰۃ کے وصول کے لئے تو عامل مقرر تھے پھر عاملوں کی موجودی میں بیکار اور بری چیز کا فرض زکوٰۃ میں وصول ہونا اور اس پر آیت کا نازل ہوتا کس طرح صحیح ہوسکتا ہے علاوہ اس کے سورة بقرہ کی آیت میں صدقہ خیرات کے ذکر کے ساتھ نذر کا بھی ذکر ہے اب یہ تو ظاہر ہے کہ جس طرح آدمی نذر اپنی طرف سے مانتا ہے اسی طرح نفلی صدقہ خیرات اپنی طرف سے دیتا ہے اسی سبب سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ نذر کی مناسبت سے اس آیت میں نفلی صدقہ خیرات کا ذکر ہے اور امام المفسرین حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے قول کے موافقیہ آیت مدنی اور اسی سے پیداوار زمین زکوۃ فرض ہوئی ہے اور حضرت جابر (رض) کی حدیث اسی آیت کی تفسیر ہے۔ معتبر سند سے مستدرک حاکم اور بیہقی میں موسیٰ اشعری (رض) اور معاذبن جبل (رض) کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو یمن بھیجتے وقت یہ فرمایا کہ سوا گیہوں ‘ جو ‘ انگور ‘ اور کھجور کے اور کسی پیداوار پر زکوٰۃ نہ لی جاوے اس سے ان علماء کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے جو ترکاری کی پیداوار پر عشر کے قائل نہیں ہیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانہ میں مزروعہ زمین کی دو حالتیں تھیں ایک زمین تو وہ تھی کہ زمین کے قابض کو اس زمین کا مالک کردیا جاتا تھا اب ایسی زمین کو اگر صرفہ اور محنت سے سے پانی دیا جاتا تھا تو پیداوار کا بیسواں حصہ اور اگر قدرتی پانی سے پیداوار ہوجاوے تو پیداوار کا دسواں حصہ سے پانی دیا جاتا تھا تو پیداوار کا بیسواں حصہ اور اگر قدرتی پانی سے پیدوار ہوجاوے تو پیداوار کا دسواں حصہ زکوۃ کی یہ دو شرح مقرر تھیں فتح یمن کے بعد اس ملک کی تمام زمینوں کی یہی حالت تھی ان دونوں شرحوں کا نصف عشر اور عشر تھا جن کا ذکر حضرت جابر (رض) کی حدیث میں اوپر گذرا ان زمینوں کے قابضوں سے سوا عشر یا نصف عشر کے اور کوئی محصول نہیں لیا جاتا تھا۔ دوسری قسم زمین کی وہ تھی قابض زمین کو زمین کا مالک قرار دیا جاتا تھا اور ایک معین حصہ پیداوار کا خراج کے نام سے ٹھہرایا جا کر زمین مزروعہ کرائی جاتی تھی نجران وغیرہ کی زمینیں اسی قسم کی تھیں ان زمینوں کے قابضوں سے سوائے بٹائی کی پیداوار کے اور کچھ نہیں لیا جاتا تھا اس سے معلوم ہوا کہ حاکم وقت کے عہد میں جس زمین پر بٹائی کی پیداوار کے قائم مقام نقدی محصول مقرر ہے اس زمین سے عشر یا نصف عشر نہیں لیا جاسکتا کیونکہ زمانہ حال کا محصول وہی زمانہ سلف کا خرج ہے جس کو نقدی کی صورت میں کرلیا گیا ہے اور جبکہ زمانہ سلف میں خراج اور عشر کا ملا کرلیا پایا نہیں جاتا ١ ؎ تو اب بھی ان دونوں کو ملانا شارع کے عندیہ کے برخلاف ٹھہرے گا بعضے علماء نے اس مسئلہ میں یہ جو لکھا ہے کہ اس وقت کے خراج کی رقم اسلامی مصارف میں آتی تھی اور محصول کی رقم کے مصارف جدا ہیں اس لئے خراج اور محصول کو ایک نہیں کہا جاسکتا اس کا جواب اور علماء نے یہ دیا ہے کہ یہاں حاکمانہ مصارف سے بحث نہیں ہے بلکہ قابضان زمین کے مصارف سے بحث ہے اور اس میں انکا بالکل محل نہیں کہ قابض زمین پر جس طرح خراج کی ادائیگی کا بار تھا اس سے زیادہ محصول کی ادائیگی کا بار اس بیچارہ پر ہے پھر جب شارع نے عشر کے نصف کردینے میں قابض زمین کی محنت اور مصارف کا لحاظ رکھا ہے تو اب بھی اس کے محصول کے بار کا لحاظ ضرور ہے کیونکہ بغیر اس لحاظ کے قطع نظر عشر اور خراج جمع ہوجانے کے بعضے ایسے کھیتوں پر بھی عشر قائم ہوجاوے گا جن کی پیداوار محصول کی منہائی کے بعد حد نصاب سے کم ہوگی :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:141) معروشت۔ اسم مفعول کی جمع مؤنث۔ معروشۃ واحد۔ عرش سے عشر اس نے لکڑی کا گھر بنایا۔ عرش چھتر۔ ٹٹی۔ عرشت الکرم۔ میں نے انگور کی بیل کے لئے چھتری بنادی۔ (باب ضرب) ہر چھتری کے لئے اونچا ہونا لازم ہے۔ اسی علو کے مفہوم کے لحاظ سے عرش بادشاہ کے تخت کو بھی کہتے ہیں۔ اور مجازاً اقتدار و سلطنت بھی مراد لیتے ہیں۔ معروشت۔ چھتری پر چڑھائی ہو بیلیں۔ ابن عباس کا قول ہے کہ اس سے عام بیلیں مراد ہیں خواہ چھتریوں پر چڑھائی گئی ہوں یا نہ۔ مگر اوپر پھیلائی جاتی ہوں۔ مثلاً انگور۔ خربوزہ۔ تربوز۔ کدو وغیرہ۔ غیر معروشت۔ وہ پودا جو چھتری پر نہ چڑھایا جائے۔ جس کی بیل نہ ہو اور اپنے تنہ پر کھڑا ہو۔ مثلاً کھجور کا درخت۔ گیہوں ۔ جو وغیرہ۔ اکلہ۔ اس کا میوہ۔ اس کا پھل۔ مضاف مضاف الیہ۔ ایسی کھیتیاں جس کے پھل۔ میوہ الگ الگ ہوں اپنے ذائقہ اور کیفیت میں مختلف ہوں۔ یا اپنے مزہ اور غذائیت میں مختلف ہوں ہ ضمیر الزرع کے لئے ہے۔ ثمرہ۔ میں ہ ضمیر ان میں سے ہر ایک کے لئے ہے۔ ای کل واحد من ذلک ۔ اتوا حقہ۔ اور اللہ کا حق ادا کرو۔ یعنی اس میں سے اللہ کی راہ میں دو ۔ یہ عشر کے متعلق بھی ہوسکتا ہے اور صدقہ اور خیرات کے متعلق بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن زکوۃ نہیں ۔ کیونکہ یہ آیت مکی ہے اور زکوۃ مدینہ میں فرض ہوئی تھی۔ لیکن بعض کے نزدیک یہ آیت مدنی ہے اور یہاں مراد زکوۃ ہے۔ یوم حصارہ۔ اس کے کاٹنے کے دن۔ یہاں حصار سے مراد وہ کھیتی ہے جو صحیح وقت میں کاٹی گئی ہو۔ فجعلناھا حصیداً (10:24) میں سے مراد وہ کھیتی جو بےوقت فساد اور تباہی کی غرض سے کاٹی گئی ہو۔ قرآن مجید میں ہے منھا قائم وحصید (11:100) ان میں سے بعض تو باقی ہیں اور بعض کا تہس نہس ہوگیا۔ (یہاں تباہ کی گئی بستیاں مراد ہیں) لاتسرفوا۔ فعل نہی جمع مذکر حاضر۔ اسراف (افعال) سے۔ تم بیجا مت اڑاؤ۔ تم حد سے نہ بڑھو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی ان میں سے کچھ حصہ فقیروں) مسکینوں بیوأؤں اور یتیموں کو بطور صدقہ دو ، یہ آیت مکہ معظمہ میں نازل ہوئی تھی، اس وقت رزعی پیدا رکے صدقہ کا یہ حکم عام تھا اور اس کی کوئی مقدار مقرر نہ تھی، مدینہ پہنچ کر 2 ھ میں زکوٰۃ (عشر) کی مقدار اور شرح مقرر ہوئی یعنی بارانی زمین کی پیدا وار میں دسواں حصہ اور جس زمین کو کنویں ی امحنت سے پانی لاکر سیراب کیا جائے تو اس کی پیداوار میں سے پیسواں حصہ۔ تفصیللات حدیث وفقہ کی کتابوں میں مذکور ہیں۔ ( ابن کثیر، قرطبی) مسئلہ، عشر صرف اقوات یعنی اس پیدار پر ہے جو بطور ذخیرہ جمع کر کے مصنوعی تدبیر کے بغیر رکھی جاسکتی ہو اس بنا پر ہے کیونکہ عشر کی فرضیت کے بعد عہد رسالت اور حضرت ابوبکر صدیق کے دور میں بھی ان سے عشر نہیں لیا گیا پھر اگر ان سے عشر ضروری ہوتا تو عہد صدیقی میں اس کی طرف ضرور توجہ دی جاتی جب کہ ایک عقال کے اوانہ کرنے پر حضرت ابوبکر (رض) صدیق نے اعلان جہاد فرمایا دیا تھا علامہ قرطبی، نے اس مسئلہ پر تفصیل سے لکھا ہے۔ ( دیکھئے قرطبی، زیر آیت)5 اسراف کے معنی کسی چیز میں حد سے تجاوز کرنے کے ہیں، عام کھانے پینے اور مال کے خرچ کرنے میں اسراف ہوتا ہے اور صدقہ خیرات میں بھی یعنی نہ تو ناحق کوئی چیز وصول کرو اور نہ ناحق چرچ ہی کرو بعض نے لکھا ہے کہ یہ خطاب ولاۃ) حکام) سے ہے یعنی حق واجب سے زیادہ وصول نہ کرو جیسا کہ حدیث میں ہے۔ المعتدی فی الصدقہ کما نعھال کہ صدقہ وصول کرنے میں ظلم کرنے والا اسی طرح گنہگار ہے جیسا کہ زکواۃ نہ دینے والا۔ ایک روایت میں ہے کہ ثابت بن قیس بن شماس نے ایک دن میں پانچ سو کھجور کے درخت سے پھل اتارا اور اسی روز سارے کا سارا خرچ کردیا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ سارا مال صدقہ و خیرات میں دے دینا منع ہے۔ (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر : 141 تا 142 : معروشت (اونچے چڑھائے ہوئے) النخل ( کھجور) الزرع ( کھیتی) اکل (پھل) الرمان (انار) متشابھا ( مشابہ۔ ایک دوسرے سے ملتے جلتے) اثمر (وہ پھل لے آیا) حقہ ( اس کا حق) حصاد ( پکی کیتی ۔ پکے پھل) لاتسرفوا ( حد سے نہ بڑھو۔ فضول خرچی نہ کرو) لا یحب ( وہ پسند نہیں کرتا) المسرفنو ( فضول خرچی کرنے والے) حمولۃ ( جس جانور پر بوجھ لاداجاتا ہے) فرش ( زمین سے لگے چھوٹے قد کے جانور) خطوات (خطوات) قدم۔ تشریح : آیت نمبر 141 تا 142 : اس سے پہلے ذکر تھا کہ کس طرح عرب کے کفار و مشرکین نے اناج ‘ پھل ‘ دودھ ‘ مویشی اور تمام غذائیات کے متعلق اپنے لئے حرام و حلال کے اصول بنارکھے تھے تاکہ مردوں اور بت خانے والوں کو زیادہ سے زیادہ حصہ ملے اور وہ اجارہ دار نبے بیٹھے رہیں جسے چاہیں جتنا دیں اور جسے چاہیں کم دیں یا بالکل نہ دیں۔ ان آیات میں زور اس بات پر ہے کہ ملک اللہ کا ‘ پیداوار اور پیدائش اسی کی ہے۔ اس لئے حکم بھی اسی کال چلے گا ‘ شریعت اسی کی نافذ ہوگی ‘ حلال و حرام کا قانون اسی کا ہے۔ اس کے علاوہ شکر و احسان کا تقاضا بھی یہی ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے احسان شناسی ‘ فکر ‘ بصارت ‘ بصیرت ‘ نمک خواری ‘ حق بندگی کی طرف پکارا ہے کہ آو موازنہ کرو اور مقابلہ کرو۔ تمہارے جھوٹے معبودوں نے تمہاری کون سی خدمت کی ہے جن کے چوکیدار اور پہرہ دار تمہیں احمق بنابنا کے سب کچھ لوٹ رہے ہیں۔ آئو دیکھو ذرا سوچو کہ اللہ نے تمہارے لئے کیا کچھ نہیں کیا ہے۔ یہ کھیتی ‘ یہ اناج جس سے تمہاری جان بنتی ہے۔ اس کی کتنی قسمیں ہیں ‘ کتنے مزے ہیں۔ کتنی شکلیں ہیں ‘ کتنے خواص ہیں۔ یہ پھل جن سے تاکستان بھی بنتے ہیں اور نخلستان بھی ‘ یہ بیلیں ‘ یہ لٹیں جو مچانوں پر چڑھنے والے یا نہ چڑھانے والے ‘ یہ تمہارے باغ اور خانہ باغ کی یہ سبزیاں ‘ یہ ترکاریاں ‘ وہ پھل جو سائز میں یارنگ میں یا مزے میں یا خواص میں باہم مشابہ ہیں۔ اور وہ پھل جو اپنی الگ جنس ‘ قوم یا خاندان رکھتے ہیں۔ وہ زیتون جو لکڑی بھی ہے ‘ خوشبو بھی ‘ کچا پھل بھی ‘ پکا پھل بھی ‘ روغن بھی ‘ غذا بھی اور مزا بھی ‘ دوا بھی اور شفا بھی ‘ وہ انار جو کلی سے لے کر دانہ اور دانہ سے لے کر درخت تک حسن ورنگ ‘ لطف و صحت ہے۔ دیکھو کس طرح اندر پیکنگ کرکے پھر ڈبہ بند ہوا بند محفوظ کر کے اتنی بلندیوں پر لٹکادیا کہ جہاں تمہارا ہاتھ بھی سہولت سے پہنچ سکے۔ جو ہر روز تازہ تازہ ملتا ہے۔ اسی طرح اس نے کتنے قسم کے جانور بنائے۔ اونچے بھی اور نیچے بھی جنہیں تم بار برداری غذا لباس فرش اور نہ جانے کتنے دوسرے استعمال میں لاتے ہو۔ ہر ملک کی آب و ہوا اور ضروریات زندگی کے لئے خاص موزوں جانور۔ پالتو بھی اور وحشی بھی ۔ انتہا یہ کہ سانپ کے زہر اور گدھے کے دودھ سے کچھ بیماریوں کا علاج بھی ہوتا ہے۔ یہاں اس کے بیشمار ان گنت احسانات میں صرف غلے ‘ پھل ‘ سبزیاں ‘ گوشت اور دودھ یعنی غذاؤں کا ذکر ہے۔ جنہیں یہ کفار و مشرکین غلط تقسیم کرکے کسی کو بد ہضمی کی ڈکاریں بخش رہے ہیں اور کسی کو باسی روٹی کے لئے بھی بھوکوں ما رہے ہیں۔ مال اس کا ‘ احسان اس کا پھر تم وہ من مانی کیوں کررہے ہو۔ اس کا حکم ہے کہ کھائو اور کھلائو لیکن برباد نہ کرو۔ فرمایا کہ اہل کنبہ ‘ اہل قرابت ‘ اہل ضرورت کو کھلائو۔ کھانے اور کھلانے ہی کے لئے یہ چیزیں بنائی گئی ہیں۔ جس دن کیتی کاٹو ‘ جس دن پھل توڑو ‘ خیرات کرو ‘ زکوۃ ادا کرو اور حقدار کو اس کا حق دو ‘ پھر گھر لائو ‘ پکائو کھائو ‘ اہل کنبہ میں ‘ اہل قرابت میں ‘ اہل محلہ میں ‘ مرد عورت ‘ آقا غلام میں تفریق نہ کرو۔ کھائو یہ اللہ کی نعمتیں ہیں۔ شرک کفر اور شیطان والوں کے چکمہ میں مت آئو۔ یہاں ” واتو حقہ یوم حصادہ “ سے بہت سے مفسرین نے جن میں امام ابوحنیفہ (رح) اور امام احمد بن حنبل (رح) پیش پیش ہیں یہ معنی لئے ہیں کہ نہ صرف اہل حق اور اہل ضرورت کو دیا جائے زمین کی زکوۃ اور عشر بھی ادا کی جائے۔ زکوۃ اور عشر کتنا ہے ‘ اس معاملے میں یہ آیت خاموش ہے۔ یہ سورت مکی ہے اور مکہ میں تفصیلات طے کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ یہ تفصیلات مدنی زندگی میں طے کی گئی ہیں۔ بہر حال ذہنوں کو تیار کرنے کے لئے یہ اشارہ ابھی سے کردیا گیا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

8۔ اس آیت میں جو حق شرعی خیرخیرات کا ذکر ہے اس سے عشرمراد نہیں جو کہ زمین کی زکوة ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جن کھیتوں میں مشرک غیر اللہ کا حصہ مقرر کرتے ہیں وہ تو اللہ ہی پیدا کرنے، اگانے اور پکانے والا ہے۔ زیتون : Olive (انگریزی، فرانسیسی، جرمن ) Oliva (روسی، لاطینی ) زیتون ( عربی، فارسی، ہندی، اردو، پنجابی) zayit , Zaith ( عبرانی) نباتاتی نام : Ole ae uropae a Linn. قرآنی آیات بسلسلہ زیتون : ١۔ سورة الانعام آیت : 100 ٢۔ سورة الانعام آیت : 142 ٣۔ سورة النحل آیت : 11 ٤۔ سورة المومنون آیت : 20 ٤۔ سورة التین آیت :2 زیتون کا ذکر قرآن پاک میں اس کے نام سے چھ بار آیا ہے اور ایک مرتبہ سورة المومنون، آیت : ٢٠ اس کی جانب یہ کہہ کر اشارہ کیا گیا ہے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے طور سینا کے اطراف ایک ایسا درخت پیدا کیا ہے جس میں ایسا تیل ہوتا ہے جو سالن کے کام آتا ہے۔ زیتون کا نباتاتی نام (Oleaeuropaea) ہے۔ یہ ایک چھوٹا درخت ہے جس کی اونچائی اوسطاً ٢٥ فٹ ہوتی ہے۔ اس کی پیداوار قلم لگا کر ہوتی ہے کیونکہ بغیر قلم لگائے ہوئے پودے اچھے پھل نہیں دیتے ہیں۔ اس کے کچے پھل چٹنی اور اچار کے کام میں لائے جاتے ہیں، جبکہ پکے ہوئے پھل انتہائی شیریں اور لذیذ ہوتے ہیں۔ یہ بیضاوی شکل کے ٢ سے ٣ سنٹی میٹر لمبے ہوتے ہیں ان کے گودے میں پندرہ سے چالیس فیصد تک تیل ہوتا ہے جو اپنی خصوصیات اور صاف و شفاف ہونے میں بےمثال مانا جاتا ہے۔ دل کے امراض میں زیتون کا تیل سود مند ثابت ہوتا ہے۔ زیتون کا اصل وطن فلسطین اور شام کا وہ علاقہ ہے جو فینی شیا (Phoenicia) کہلاتا ہے۔ یہیں اس کی کاشت تقریباً دو ہزار سال قبل مسیح شروع کی گئی اور اسی خطہ سے یہ پودہ مغرب اور مشرق کے ممالک میں لے جایا گیا۔ زیتون کی وطنیت (Nativity) کا حوالہ قرآن کریم کی سورة النور کی آیت ٣٥ میں دیا گیا ہے جس میں ارشاد ہوا ہے ” ایک مفید درخت زیتون ہے جو نہ پورب کا ہے نہ پچھم کا۔ “ زیتون کے باغات جنوبی یورپ، شمالی افریقہ اور عرب کے کئی ممالک میں ملتے ہیں، لیکن اسپین اور اٹلی زیتون کے پھل اور تیل پیدا کرنے میں سرفہرست ہیں۔ روغن زیتون کی عالمی پیداوار تین ملین میٹرک ٹن سے بھی زیادہ بتائی جاتی ہے۔ روغن زیتون چراغ کی روشنی کے لیے زمانہ قدیم سے بڑا مشہور اور بڑا اہم رہا ہے۔ عمدہ قسم کا تیل نہایت شفاف ہوتا ہے۔ اسے اگر کسی صاف برتن یا گلاس یا گلاس کی قندیل میں رکھ دیا جائے تو ایسا محسوس ہوگا کہ کوئی شے ہے جو خود ہی روشن ہے اور اگر اس سے چراغ جلایا جائے تو ایسا لگے گا کہ گویا نور سے نور نکل رہا ہے۔ اسی حقیقت کی منظر کشی سورة النور آیت ٣٥ میں کی گئی ہے اور روغن زیتون سے روشن قندیل کی روشنی کو ” نور علی نور “ کہا گیا ہے۔ انار قرآنی نام : رُمَّانٌ دیگر نام : Pomegranate (انگریزی) Granade (فرانسیسی) Granat ( روسی) Granatapfel ( جرمن) Punicum (لاطینی) Me lagrana ( اطالوی) Rimmon (عبرانی) Granada (ہسپانوی) Roa (یونانی) (سنسکرت) تیلگو داون (کشمیری) رمان (عربی) انار (فارسی، اردو، ہندی، پنجابی) نباتاتی نام : Punica granatum linn.(Family:punicaceae) قرآنی آیات بسلسلہ انار : (١) سورة الانعام آیت :100 (٢) سورة الانعام آیت : 142 (٣) سورة الرحمن آیت : 68, 69 انار کا ذکر ’ رمان ‘ کے نام سے قرآن حکیم میں تین بار آیا ہے اور تینوں بار انسان کو اہم نصیحتیں کی گئی ہیں۔ مثلاً سورة الانعام کی آیت :142 میں حکم ہوا کہ کھجور، زیتون اور انار وغیرہ کی جب فصلیں کاٹی جائیں تو فوراً اس میں سے ایک حصہ حقدار کو دے دیا جائے اس طرح اشارہ کیا گیا قدرت کی نعمتیں عام انسانوں کے لیے بھی ہیں جو لوگ باغ کے پھلوں کو اور کھیت کی پیداوار کو اپنے لیے مخصوص رکھنا چاہتے ہیں اور دوسروں کی حق تلفی کرتے ہیں وہ اللہ کی نظر میں ناپسند یدہ انسان ہیں۔ قرآن کا یہ ارشاد سماج میں اجارہ داری اور سرمایہ داری کو نامناسب قرار دیتا ہے۔ نباتاتی سائنس کی رو سے انار کا نام Pumigranatum ہے۔ انار کے دانوں کا رس ایک ہلکی اور فرحت انگیز غذا ہے جو دل کے امراض میں بہت سود مند ہے میٹھا انار قبض کشا ہوتا ہے جبکہ تھوڑی سی کھٹاس والے انار کے دانے معدہ کے ورم اور دل کے لیے لا جواب دوا اور ٹانک ہیں ان دانوں سے تیار کیا گیا شربت Dyspepsia جیسے معدہ کی روگوں کو فائدہ دیتا ہے۔ اسہال یا پیچش میں مبتلا مریضوں کے لیے پچاس گرام انار کا رس ایک بہترین علاج بھی ہے اور کمزوری رفع کرنے کا طریقہ بھی۔ قلت خون، یرقان، بلڈ پریشر، بواسیر اور ہڈیوں وجوڑوں کے درد میں انار کے طبی فوائد طب یونانی آیورویدک اور ایلو پیتھی میں بھی تسلیم کیے گئے ہیں۔ شہد کے ساتھ انار رس Biliousness میں کمی لاتا ہے۔ انار کا پھل دل و دماغ کو فرحت اور تازگی بخشتا ہے۔ انار کی جڑ کی چھال ایک ایسی بےمثال دوا ہے جسے پانی میں ابال کر مریض کو پلانے سے Tape worm سمیت پیٹ کے کیڑے ختم ہوجاتے ہیں۔ بعض تحقیقات سے معلوم ہوا ہے اس کا ابلا ہوا پانی ٹی بی اور پرانے بخار کو ختم کرنے میں موثر ثابت ہوا ہے۔ مزید براں ملیریا کے بعد کی کمزوری کو بھی دور کرتا ہے۔ بعض نسوانی امراض میں انار کی جڑ کی چھال کا استعمال ایک حتمی علاج سمجھا جاتا ہے۔ انار کے پھولوں سے ایک لال رنگ حاصل کیا جاتا ہے جو غذائی اشیاء میں استعمال ہوسکتا ہے انار کے پھول اسقاط حمل کو روکنے کی بھی دوا ہیں۔ انار کے پھل کا چھلکا بھی طبی اہمیت کا حامل ہے۔ دودھ میں چھلکا ابال کر پلانے سے پرانی پیچش کے مریض کو فوراً افاقہ ہوتا ہے۔ یہ چھلکا تجارتی طور پر بھی بڑے کام کی چیز ہے کیونکہ اس میں بیس فیصد سے زیادہ (رض) annin ہوتا ہے اس لیے کچے چمڑے کو پکانے کے لیے ان چھلکوں کا استعمال بڑے پیمانے پر افریقہ کے کچھ ملکوں میں کیا جاتا ہے۔ مراکش اور اسپین کا جو چمڑا کسی زمانے میں بہت مشہور تھا اس کی (رض) anning انار کے چھلکوں سے کی جاتی تھی۔ اللہ تعالیٰ کی عنایت کردہ نعمتوں میں انار بھی ایک بڑی نعمت ہے جس کی بابت خدائے برتر فرماتا ہے : (فِیہِمَا فَاکِہَۃٌ وَنَخْلٌ وَرُمَّانٌ فَبِأَیِّ آَلَاءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَانِ )[ الرحمٰن : ٦٨] ” ان دونوں میں میوے ہوں گے اور کھجور اور انار۔ تم اپنے پرور دگا رکی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہی مختلف انواع و اقسام کے درخت اگاتا ہے۔ ٢۔ پھلوں کے علیحدہ رنگ و مختلف ذائقے ہونا اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ ہے۔ ٣۔ فصل کاٹتے وقت اس کا حق ادا کرنا چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

آیت ” نمبر ١٤١ تا ١٤٢۔ اللہ وہ ذات ہے جس نے ابتداء ان باغات کو پیدا کیا لہذا وہی ہے جو ایک مردہ سے زندہ چیز کو نکالتا ہے ۔ ان باغوں میں سے کچھ تو ایسے ہیں جو تاکستان کی شکل کے ہیں اور انسان انہیں اگاتا ہے ۔ اور ان کے اردگرد باڑ لگاتا ہے اور کچھ نخلستان کی شکل کے ہیں ۔ جو خود ہی پیدا ہوتے ہیں اور ان کو انسان کی جانب سے کسی قسم کی اعانت کی ضرورت نہیں ہے ۔ کچھ اور فصلیں اس نے اگائیں ۔ زیتون اور انار اس نے پیدا کیے اور قسم قسم کے پھل ہیں جو ملتے جلتے بھی ہیں اور جدا جدا بھی ہیں ۔ پھر حیوانات بھی اس نے پیدا کیے جن میں سے بعض اونچے قد کے ہیں اور کچھ چھوٹے جسم کے ہیں اور وہ تمہارے کھانے کے لئے اور لباس کے لئے ہیں اور جن کے بالوں سے تم فرش وقالین بناتے ہو۔ اور یہ اللہ ہی ہے جس نے اس کرہ ارض پر رنگا رنگ زندہ مخلوقات کو پھیلایا اور اس مخلوقات کی رنگارنگی حیرت انگیز ہے ۔ اور پھر اس مخلوق کو ان فرائض کیلئے نہایت ہی ساز گار ماحول دیا جو انسان کو اس کرہ ارض پر ادا کرتے ہیں ان کو ان ضروریات کے لئے بھی موافق بنایا جو انسان کی زندگی کے لئے لابدی ہیں ۔ ان آیات و دلائل اور ان رنگا رنگ مخلوقات کو دیکھ کر ایک انسان کس طرح کچھ اثر لئے بغیر گزر سکتا ہے ۔ پھر بھی وہ اس مخلوق اور ان زرعی اجناس میں اللہ کے سوا کسی اور کی حاکمیت و اختیارات کو تسلیم کرتا ہے ۔ قرآن کریم بار بار اس رزق کا ذکر کرتا ہے جو انسان کے لئے اللہ نے اس کرہ ارض پر بکھیر دیا ہے اس متنوع رزق کو اس بات پر دلیل کے طور پر پیش کرتا ہے کہ اگر رازق وہ ہے تو حاکم بھی وہی ہے ۔ انسانوں پر اس کی حکومت چلنی چاہئے ۔ اس لئے کہ جو خالق ہے ‘ رازق ہے ‘ رب ہے اور پوری زندگی میں کفیل ہے ‘ صرف وہی اس بات کا مستحق ہے کہ لوگ زرعی اجناس اور مویشیوں اور پوری زندگی کے معاملات میں اسے اپنا حاکم ‘ مختار اور قانون ساز سمجھیں ۔ اور اس میں اس کے ساتھ کوئی شریک نہ ہو ۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے باغات اور پھلوں کے کئی مناظر کی طرف اشارہ کیا ہے مختلف قسم کے جانوروں کا ذکر کیا ہے اور بتلایا ہے کہ یہ تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کے انعامات ہیں۔ اس سے پہلے ان مناظر سے اللہ کی الوہیت اور خدائی پر استدلال کیا گیا ہے ۔ اور یہاں اللہ تعالیٰ ان چیزوں کے ذکر سے اپنے حق حکمرانی پر استدلال کرتا ہے ۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ الوہیت اور حاکمیت دراصل ایک ہی حقیقت ہے ۔ وہی حاکم ہے اور یہ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے ۔ (لاالہ الا اللہ لا حاکم الا اللہ) اب فصلوں اور پھلوں کے ذکر کے بعد یہ حکم ہے ۔ ایک قانون کی طرف اشارہ ۔ آیت ” کُلُواْ مِن ثَمَرِہِ إِذَا أَثْمَرَ وَآتُواْ حَقَّہُ یَوْمَ حَصَادِہِ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ (141) ” کھاؤ ان کی پیداوار جب کہ یہ پھلیں اور اللہ کا حق ادا کرو جب ان کی فصل کاٹو اور حد سے نہ گزرو کہ اللہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا “۔ یہاں یہ کہا گیا ہے کہ جب تم اس کی فصل کاٹو تو اللہ کا حق دو ‘ اس فقرے کی وجہ سے بعض روایات میں آتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے ۔ لیکن ہم نے اس سورة کے مقدمہ میں اچھی طرح واضح کردیا ہے کہ یہ آیت مکی ہے ۔ اور اگر اس سورة سے اس آیت کو علیحدہ کردیاجائے تو بات مکمل نہیں ہوتی ۔ اس آیت سے قبل کا کلام اور بعد کا کلام ایک دوسرے سے اس وقت تک کٹ جاتا ہے جب تک یہ آیت مدینہ میں نازل نہیں ہوجاتی ‘ لہذا یہ بات درست نہیں ہے ۔ پھر ضروری نہیں ہے کہ اللہ کا حق جس کا اس سورة میں ذکر ہے وہ زکوۃ ہی ہو ۔ بعض روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ اس سے مراد مقدمہ ہے ۔ رہی زکوۃ تو اپنی متعین شرح کے ساتھ تو وہ ہجرت کے بعد دوسرے سال میں فرض ہوئی ۔ آیت ” وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ (141) ” اور حد سے نہ گزرو کہ اللہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا “۔ یہ آیت کھانے پر بھی مناسب حد بندی ہے اور عطا پر بھی مناسب حد بندی عائد کرتی ہے ۔ روایات میں آتا ہے کہ مسلمان جب دینے لگے تو حد سے گزر گئے ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ” اور حد سے نہ گزرو کہ اللہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا “۔ اسلام ہر بات میں اعتدال کو پسند کرتا ہے ۔ آیت ” وَمِنَ الأَنْعَامِ حَمُولَۃً وَفَرْشاً کُلُواْ مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّہُ وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّیْْطَانِ إِنَّہُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(14 ” پھر وہی ہے جس نے مویشیوں میں سے وہ جانور بھی پیدا کئے جن سے سواری وبار برداری کا کام لیا جاتا ہے اور وہ بھی جو کھانے اور بچھانے کے کام آتے ہیں ۔ کھاؤ ان چیزوں میں سے جو اللہ نے تمہیں بخشی ہیں اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔ “ مویشیوں کے ذکر میں یہ کہا گیا ۔ کیوں ؟ اس لئے کہ انسان کو یہ یاد دلانا مطلوب ہے کہ یہ تمام مخلوق اللہ کی پیدا کردہ ہے ۔ شیطان کسی چیز کا خالق نہیں ہے ۔ سوال یہ ہے کہ جب شیطان کا کچھ ہے ہی نہیں تو پھر یہ کیا ہے کہ نعمتیں اللہ کی اور پیروی شیطان کی ؟ جبکہ معلوم ہے کہ شیطان ہے بھی کھلا دشمن ۔ کیا سوچتے نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی چیزیں استعمال کرکے شیطان کی پیروی کرتے ہو اور وہ تو کھلا دشمن ہے ۔ اب قرآن کریم نہایت ہی گہرائی میں جا کر ادہام جاہلیت کو تلاش کرتا ہے ۔ نہایت ہی خفیہ گوشوں پر روشنی ڈالی جاتی ہے اور ایک ایک خفیہ گوشے کو روشنی میں لایا جاتا ہے ۔ ایسے ایسے گوشے واضح کرتا ہے جو بادی النظر میں بھی نامعقول ہیں اور ان کی کوئی توجہیہ نہیں کی جاسکتی اور بعض اوقات تو ان ادہام میں مبتلا لوگوں کو بہت زیادہ شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے ۔ خصوصا اس وقت جب ان کی یہ حرکات کھلے میدان میں آشکارا ہوجاتی ہیں اور جب وہ دیکھ لیتے ہیں کہ انکے ان ادہام کی پشت پر نہ کوئی سند ہے ‘ نہ کوئی کتاب منیر ہے اور نہ کوئی عقلی دلیل ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

باغات اور کھیتیاں اور چوپائے انسانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے بڑے انعامات ہیں ان آیات میں اللہ جل شانہٗ نے اپنے ان انعامات کا تذکرہ فرمایا جو اپنی مخلوق پر پھلوں اور کھیتیوں کے ذریعے فرمائے ہیں۔ اول تو یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے دو طرح کے باغ پیدا فرمائے کچھ باغ ایسے ہیں جو معروشات ہیں یعنی ان کی بیلیں جو چھپریوں پر چڑھائی جاتی ہیں جیسے انگوروں کی اور بعض سبزیوں کی بیلیں، اور بہت سے باغ ایسے ہیں جن کی شاخیں اوپر نہیں چڑھائی جاتیں۔ اس دوسری قسم میں کچھ درخت ایسے ہوتے ہیں جن کا تنا ہوتا ہے اس کی بیل ہی نہیں ہوتی جیسے زیتون، انار، انجیر، کھجور، آم اور جیسے گیہوں وغیرہ جو اپنے مختصر سے تنے پر کھڑے رہتے ہیں اور کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کی بیلیں تو ہوتی ہیں لیکن انہیں چھپریوں پر چڑھایا نہیں جاتا جیسے کدو، خربوزہ، تربوز وغیرہ اللہ تعالیٰ نے کسی درخت کو تنے والا بنایا اور کسی کو بیل والا اس سب میں اللہ تعالیٰ کی حکمتیں ہیں۔ جو سبزیاں بیل والی ہیں عموماً وہ بھاری بھاری ہوتی ہیں جیسے تربوز، خربوزہ، کھیتی کے بارے میں فرمایا۔ (وَ الزَّرْعَ مُخْتَلِفًا اُکُلُہٗ ) کہ اللہ تعالیٰ نے کھیتی پیدا فرمائی جس میں طرح طرح کے کھانے کی چیزیں ہوتی ہیں۔ ایک ہی آب و ہوا اور ایک ہی زمین سے نکلنے والے غلوں میں کئی قسم کا تفاوت ہوتا ہے پھر ان کے فوائد اور خواص اور ذائقے بھی مختلف ہیں۔ صاحب معالم التنزیل ج ٢ ص ١٣٥ پر لکھتے ہیں۔ ثمرہ و طعمہ منھا الحلو و الحامض و الجید و الردی یعنی کھیتیوں کے پھل مختلف ہیں کوئی میٹھا ہے کوئی کھٹا ہے کوئی بڑھیا ہے کوئی ردی ہے پھر فرمایا (وَ الزَّیْتُوْنَ وَ الرُّمَّانَ مُتَشَابِھًا وَّ غَیْرَ مُتَشَابِہٍ ) یعنی اللہ تعالیٰ نے زیتون اور انار پیدا فرمائے۔ ان میں سے ایک جنس کے پھل دیکھنے میں دوسرے کے مشابہ ہوتے ہیں لیکن مزے میں مشابہ نہیں ہوتے رنگ ایک اور مزہ مختلف ہوتا ہے۔ اس کے بعد فرمایا۔ (کُلُوْا مِنْ ثَمَرِہٖٓ اِذَآ اَثْمَرَ الخ) کہ اس کے پھلوں میں سے کھاؤ جب وہ پھل لائے۔ (وَ اٰتُوْاحَقَّہٗ یَوْمَ حَصَادِہٖ ) اور کٹائی کے دن اس کا حق ادا کرو۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ اس حق سے پیداوار کی زکوٰۃ مراد ہے جو بعض صورتوں میں عشر یعنی ١٠ ؍ ١ اور بعض صورتوں میں نصف العشر ٢٠ ؍ ١ واجب ہوتی ہے اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ چونکہ آیت کریمہ مکیہ ہے اور زکوٰۃ مدینہ میں فرض ہوئی اس لیے اس سے زکوٰۃ کے علاوہ محتاجوں پر خرچ کرنا مراد ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) ہی سے یہ بھی مروی ہے کہ شروع میں کھیتی کا ٹنے کے وقت غیر معین مقدار غریبوں کو دینا واجب تھا پھر یہ وجوب زکوٰۃ کی فرضیت سے منسوخ ہوگیا۔ اور بعض حضرات نے فرمایا کہ مذکورہ بالا آیت مدنیہ ہے (اگرچہ سورة مکیہ ہے) اس صورت میں پیداوار کی زکوٰۃ مراد لینا بھی درست ہے۔ (من روح المعانی) پیداوار کی زکوٰۃ کے مسائل سورة بقرہ کی آیت (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ وَ مِمَّآ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ ) کی تفسیر میں ملاحظہ فرما لیں۔ (انوار البیان، جلد اول) پھر فرمایا (وَ لَا تُسْرِفُوْا) ( اور حد سے آگے مت بڑھو) بیشک حد سے آگے بڑھنے والوں کو اللہ پسند نہیں فرماتا۔ عربی میں اسراف حد سے آگے بڑھنے کو کہتے ہیں۔ عام طور سے اس لفظ کا ترجمہ فضول خرچی سے کیا جاتا ہے اور چونکہ اس میں بھی حد سے آگے بڑھ جانا ہے اس لیے یہ معنی بھی صحیح ہے۔ اور فضول خرچی کے علاوہ جن افعال اور اعمال میں حد سے آگے بڑھا جائے ان سب کے بارے لفظ اسراف مشتمل ہوتا ہے۔ اگر سارا ہی مال فقراء کو دیدے اور تنگ دستی کی تاب نہ ہو تو یہ بھی اسراف میں شمار ہوتا ہے۔ صاحب روح المعانی نے ج ٨ ص ٣٨ پر حضرت ابن جریج سے نقل کیا ہے کہ یہ آیت حضرت ثابت بن قیس بن شماس (رض) کے بارے میں نازل ہوئی انہوں نے ایک دن کھجوروں کے باغ کے پھل توڑے اور کہنے لگے کہ آج جو بھی شخص آئے گا اسے ضرور دے دوں گا، لوگ آتے رہے اور یہ دیتے رہے حتیٰ کہ شام کے وقت ان کے پاس کچھ بھی نہ بچا اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت بالا نازل فرمائی۔ حضرت ابو مسلم نے فرمایا کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ کٹائی سے پہلے پیداوار میں سے مت کھاؤ کیونکہ اس سے فقراء کے حق میں کمی آئے گی۔ حضرت ابن شہاب زہری نے آیت کا مطلب یہ بتایا کہ پیداوار کو گناہوں میں خرچ نہ کرو۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

154:۔ یہ نذر غیر اللہ کا چوتھی بار ذکر ہے یہاں اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ تک غلوں، پھلوں اور میووں کی مختلف انواع و اقسام کا ذکر کرے کے فرمایا ان سے خالص اللہ کا حق ادا کرو اور ان میں غیر اللہ کی نذرو نیاز مت دو ۔ مَعْرُوْشَاتٍ وَّ غَیْڑَ مَعْرُوْشَاتٍ ۔ بعض مفسرین نے ان دونوں صفتوں کو انگور سے متعلق کیا ہے یعنی بعض انگور ایسے ہیں جن کے لیے لکڑی کے عریش (چھپر) بنا کر ان پر ان کو چڑھا یا جاتا ہے اور بعض ویسے ہی زمین پر پھیل جاتے ہیں۔ بعض کے نزدیک معروشات سے انگور اور دوسری اسی قسم کی بیلیں مراد ہیں جو عریش پر چڑھائی جاتی ہیں اور غیر معروشات سے تناور درخت مراد ہیں۔ مُتَشَابِھًا، غَیْرَ مُتَشَابِہٍ یعنی یہ پھل اور میوے شکل و صورت اور رنگ میں تو ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ لیکن ذائقہ میں مختلف ہیں۔ کوئی میٹھا کوئی ترش اور کوئی تلخ۔ متشباھہا فی اللون غیر متشابہ فی الطعم (مدارک ج 2 ص 28) ۔ 155 یعنی مذکورہ بالا اشیاء میں سے اللہ کا حق ادا کرو جو اس نے تم پر فرض کیا ہے۔ واٰتوا حقہ الذی اوجبہ اللہ تعالیٰ (روح) مشرکین زمین کے حاصلات سے اللہ کا حصہ تو پہلے بھی نکالتے تھے جیسا کہ پہلے گذر چکا ہے۔ وَجَعَلُوْا لِلّٰہِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَالْاَنْعَامِ نَصِیْبًا الخ۔ اس لیے یہاں مراد یہ ہے۔ اٰتُوْا حَقَّہٗ خَاصَّۃً یعنی زمین کی پیداوار سے صرف اللہ ہی کا حق ادا کرو اور اس میں سے نذر و نیاز صرف اللہ ہی کے نام کی دو وَ لَا تُسْرِفُوْا امام مجاہد اور امام زہری کہتے ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ خدا کی نافرمانی میں خرچ نہ کرو المعنی لاتنفقوا فی معصیۃ اللہ تعالیٰ (روح ج 8 ص 38) امام مقاتل فرماتے ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ معبودان باطلہ کو چوپایوں اور زمین کی پیداوار میں شریک نہ کرو یعنی ان سے ان کے نام کی نذریں نیازیں مت دو ۔ قال مقاتل المراد لا تشرکوا الاصنام فی الحرث و الانعام (روح، خازن ج 2 ص 158) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

141 اور اللہ تعالیٰ کی وہ مقدس ذات ہے جس نے ایسے باغات پیدا کئے جن کی بیلیں ٹیٹوں اور چھتریوں وغیرہ پر پھیلائی جاتی ہیں جیسے انگور اور ایسے باغ بھی جن کی بیلیں ٹیٹوں وغیرہ پر نہیں چڑھائی جاتیں یعنی یا تو کوئی بیل ہی نہیں سب تنے دار درخت ہیں یا بیل ہو لیکن اس کے چڑھانے کا قاعدہ نہ ہو جیسے خربوزہ اور ککڑی وغیرہ کی بیلیں اور اس اللہ تعالیٰ نے کھجور کے درخت بھی پیدا کئے اور کھیتی بھی پیدا کی ان سب کے پھل مختلف قسم کے ہوتے ہیں یعنی رنگ بو اور مزے وغیرہ میں اور اسی نے زیتون اور انار کو پیدا کیا ان درختوں کے پھلآپس میں ایک دوسرے کے مشابہ بھی ہوتے ہیں اور غیر مشابہ بھی یعنی زیتون کے پھل آپس میں ایک دور سے سے مزے میں رنگ میں مقدار میں ملتے جلتے ہوتے ہیں اور بعض ایک دوسرے سے نہیں بھی ملتے اسی طرح انار باہم ایک دوسرے سے رنگ اور مزے وغیرہ میں مشابہ ہوتے ہیں اور غیر مشابہ بھی ان سب چیزوں کے پھل کھائو جب یہ پھل لائیں یعنی ان میں کوئی چیز حرام نہیں ہاں ! جس دن ان کے پھل اور غلہ وغیرہ کاٹ کر جمع کیا کرو اس دن مقررہ حق ادا کرو یعنی جس دن پھل وغیرہ کاٹو اس دن جو شرعی حق مقرر ہو وہ مقررہ حق مساکین کو دے دیا کرو اور اتنا خیال رکھو کہ حد شرعی سے تجاوز نہ کیا کرو اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں اور حد سے آگے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا یعنی خیر خیرات میں حد سے تجاوز نہ کیا کرو یا عاملین عشر و زکوۃ کو حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے بلکہ بیت المال کا جو حق مقرر ہوتانا ہی وصول کرنا چاہئے امام کا حق وصول کرنے میں تعدی اور ظلم نہیں کرنا چاہئے۔