Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 93

سورة الأنعام

وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوۡ قَالَ اُوۡحِیَ اِلَیَّ وَ لَمۡ یُوۡحَ اِلَیۡہِ شَیۡءٌ وَّ مَنۡ قَالَ سَاُنۡزِلُ مِثۡلَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ ؕ وَ لَوۡ تَرٰۤی اِذِ الظّٰلِمُوۡنَ فِیۡ غَمَرٰتِ الۡمَوۡتِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ بَاسِطُوۡۤا اَیۡدِیۡہِمۡ ۚ اَخۡرِجُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ اَلۡیَوۡمَ تُجۡزَوۡنَ عَذَابَ الۡہُوۡنِ بِمَا کُنۡتُمۡ تَقُوۡلُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ غَیۡرَ الۡحَقِّ وَ کُنۡتُمۡ عَنۡ اٰیٰتِہٖ تَسۡتَکۡبِرُوۡنَ ﴿۹۳﴾

And who is more unjust than one who invents a lie about Allah or says, "It has been inspired to me," while nothing has been inspired to him, and one who says, "I will reveal [something] like what Allah revealed." And if you could but see when the wrongdoers are in the overwhelming pangs of death while the angels extend their hands, [saying], "Discharge your souls! Today you will be awarded the punishment of [extreme] humiliation for what you used to say against Allah other than the truth and [that] you were, toward His verses, being arrogant."

اور اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہوگا جو اللہ تعالٰی پر جھوٹ تہمت لگائے یا یوں کہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے حالانکہ اس کے پاس کسی بات کی بھی وحی نہیں آئی اور جو شخص یوں کہے کہ جیسا کلام اللہ نے نازل کیا ہے اسی طرح کا میں بھی لاتا ہوں اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب کہ یہ ظالم لوگ موت کی سختیوں میں ہونگے اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہونگے کہ ہاں اپنی جانیں نکالو ، آج تم کو ذلت کی سزا دی جائے گی اس سبب سے کہ تم اللہ تعالٰی کے ذمہ جھوٹی باتیں لگاتے تھے اور تم اللہ تعالٰی کی آیات سے تکبر کرتے تھے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

None is Worse Than One who Invents a Lie Against Allah and Claims that Revelation Came to Him Allah said, وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللّهِ كَذِبًا ... And who can be more unjust than he who invents a lie against Allah, Therefore, none is more unjust than one who lies about Allah claiming that He has partners or a son, or falsely claiming that Allah sent hi... m as a Prophet; ... أَوْ قَالَ أُوْحِيَ إِلَيَّ وَلَمْ يُوحَ إِلَيْهِ شَيْءٌ ... or says: "I have received inspiration," whereas he is not inspired with anything; Ikrimah and Qatadah said that; this Ayah was revealed about Musaylimah Al-Kadhdhab. ... وَمَن قَالَ سَأُنزِلُ مِثْلَ مَا أَنَزلَ اللّهُ ... and who says, "I will reveal the like of what Allah has revealed." This refers to he, who claims that the lies he invents rival the revelation that came from Allah. In another Ayah, Allah said, وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ ايَاتُنَا قَالُواْ قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاء لَقُلْنَا مِثْلَ هَـذَا And when Our verses (of the Qur'an) are recited to them, they say: "We have heard this (the Qur'an); if we wish we can say the like of this." (8:31) The Condition of These Unjust People Upon Death and on the Day of Resurrection Allah, the Most Honored, said, ... وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ ... And if you could but see when the wrongdoers are in the agonies of death... suffering from the hardships, agonies and afflictions of death, ... وَالْمَليِكَةُ بَاسِطُواْ أَيْدِيهِمْ ... while the angels are stretching forth their hands... beating them. Allah said in other Ayat: لَيِن بَسَطتَ إِلَىَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِى If you do stretch your hand against me to kill me.. (5:28) and, وَيَبْسُطُواْ إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ And stretch forth their hands and their tongues against you with evil. (60:2) Ad-Dahhak and Abu Salih said that, `stretch forth their hands,' means, `with torment'. In another Ayah, Allah said, وَلَوْ تَرَى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُواْ الْمَلَـيِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَـرَهُمْ And if you could see when the angels take away the souls of those who disbelieve they smite their faces and their backs. (8:50) Allah said, وَالْمَليِكَةُ بَاسِطُواْ أَيْدِيهِمْ (while the angels are stretching forth their hands), beating them, until their souls leave their bodies, saying, أَخْرِجُواْ أَنفُسَكُمُ ("Deliver your souls!"), When the disbeliever is near death, the angels will convey the `good news' to him of torment, vengeance, chains, restraints, Hell, boiling water and the anger of the Most Beneficent, Most Merciful. The soul will then scatter in the body of the disbeliever and refuse to get out of it. The angels will keep beating the disbeliever until his soul exits from his body, ... أَخْرِجُواْ أَنفُسَكُمُ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللّهِ غَيْرَ الْحَقِّ ... (Saying): "Deliver your souls! This day you shall be recompensed with the torment of degradation because of what you used to say about Allah other than the truth." This Ayah means, today, you will be utterly humiliated because you used to invent lies against Allah and arrogantly refused to follow His Ayat and obey His Messengers. ... وَكُنتُمْ عَنْ ايَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ And you used to reject His Ayat with disrespect!" There are many Hadiths, of Mutawatir grade, that explain what occurs when the believers and disbelievers die, and we will mention these Hadiths when explaining Allah's statement, يُثَبِّتُ اللّهُ الَّذِينَ امَنُواْ بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الاخِرَةِ (Allah will keep firm those who believe, with the word that stands firm in this world, and in the Hereafter). (14:27) Allah said next,   Show more

مغضوب لوگ اللہ پر جھوٹ باندھنے والوں سے زیادہ ظالم اور کوئی نہیں خواہ اس جھوٹ کی نوعیت یہ ہو کہ اللہ کی اولاد ہے یا اس کے کئی شریک ہیں یا یوں کہے کہ وہ اللہ کا رسول ہے حالانکہ دراصل رسول نہیں ۔ خواہ مخواہ کہدے کہ میری طرف وحی نازل ہوتی ہے حالانکہ کوئی وحی نہ اتری ہو اور اس سے بڑھ کر بھی کوئی ظالم...  نہیں ہو جو اللہ کی سچی وحی سے صف آرائی کا مدعی ہو ۔ چنانچہ اور آیتوں میں ایسے لوگوں کا بیان ہے کہ وہ قرآن کی آیتوں کو سن کر کہا کرتے تھے کہ اگر ہم چاہیں تو ہم بھی ایسا کالم کہہ سکتے ہیں ، کاش کہ تو ان ظالموں کو سکرات موت کی حالت میں دیکھتا جبکہ فرشتوں کے ہاتھ ان کی طرف بڑھ رہے ہوں گے اور وہ مار پیٹ کر رہے ہونگے ، یہ محاورہ مار پیٹ سے ہے ، جسیے ہابیل قابیل کے قصے میں آیت ( لَىِٕنْۢ بَسَطْتَّ اِلَيَّ يَدَكَ لِتَقْتُلَنِيْ مَآ اَنَا بِبَاسِطٍ يَّدِيَ اِلَيْكَ لِاَقْتُلَكَ ۚ اِنِّىْٓ اَخَافُ اللّٰهَ رَبَّ الْعٰلَمِيْنَ ) 5 ۔ المائدہ:28 ) ہے اور آیت میں ( وَّيَبْسُطُوْٓا اِلَيْكُمْ اَيْدِيَهُمْ وَاَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوْۗءِ وَوَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ ) 60 ۔ الممتحنہ:2 ) ہے ضحاک اور ابو صالح نے بھی یہی تفسیر کی ہے ، خواہ قران کی آیت میں ( يَضْرِبُوْنَ وُجُوْهَهُمْ وَاَدْبَارَهُمْ ۚ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِيْقِ ) 8 ۔ الانفال:50 ) موجود ہے یعنی کافروں کی موت کے وقت فرشتے ان کے منہ پر اور کمر پر مارتے ہیں ۔ یہی بیان یہاں ہے کہ فرشتے ان کی جان نکالنے کیلئے انہیں مار پیٹ کرتے ہیں اور کہتے ہیں اپنی جانیں نکا لو ۔ کافروں کی موت کے وقت فرشتے انہیں عذابوں ، زنجیروں ، طوقوں کی ، گرم کھولتے ہوئے جہنم کے پانی اور اللہ کے غضب و غصے کی خبر سناتے ہیں جس سے ان کی روح ان کے بدن میں چھپتی پھرتی ہے اور نکلنا نہیں چاہتی ، اس پر فرشتے انہیں مار پیٹ کر جبراً گھسیٹتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب تمہاری بدترین اہانت ہو گی اور تم بری طرح رسوا کئے جاؤ گے جیسے کہ تم اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے اس کے فرمان کو نہیں مانتے تھے اور اس کے رسولوں کی تابعداری سے چڑتے تھے ۔ مومن و کافر کی موت کا منظر جو احادیث میں آیا ہے وہ سب آیت ( يُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْاٰخِرَةِ ۚ وَيُضِلُّ اللّٰهُ الظّٰلِمِيْنَ ڐ وَيَفْعَلُ اللّٰهُ مَا يَشَاۗءُ ) 14 ۔ ابراہیم:27 ) کی تفسیر میں ہے ، ابن مردویہ نے اس جگہ ایک بہت لمبی حدیث بیان کی ہے لیکن اس کی سند غریب ہے واللہ اعلم ، پھر فرماتا ہے کہ جس دن انہیں ان کی قبروں سے اٹھایا جائے گا اس دن ان سے کہا جائے گا کہ تم تو اسے بہت دور اور محال مانتے تھے تو اب دیکھ لو جس طرح شروع شروع میں ہم نے تمہیں پیدا کیا تھا اوب دوبارہ بھی پیدا کر دیا ۔ جو کچھ مال متا ہم نے تمہیں دنیا میں دیا تھا سب تم وہیں اپنے پیچھے چھوڑ آ ئے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں انسان کہتا ہے میرا مال میرا مال حالانکہ تیرا مال وہی ہے جسے تو نے کھاپی لیا وہ تو فنا ہو گیا یا تو نے پہن اوڑھ لیا وہ پھٹا پرانا ہو کر ضائے ہو گیا یا تو نے نام مولی پر خیرات کیا وہ باقی رہا اس کے سوا جو کچھ ہے اسے تو تو اوروں کے لئے چھوڑ کر یہاں سے جانے والا ہے ۔ حسن بصری فرماتے ہیں انسان کو قیامت کے دن اللہ کے سامنے کھڑا کیا جائے گا اور رب العالمین اس سے دریافت فرمائے گا کہ جو تو نے جمع کیا تھا وہ کہاں ہے؟ یہ جواب دے گا کہ خوب بڑھا چڑھا کر اسے دنیا میں چھوڑ آیا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اے ابن آدم پیچھے چھوڑا ہوا تو یہاں نہیں ہے البتہ آگے بھیجا ہوا یہاں موجود ہے اب جو یہ دیکھے گا تو کچھ بھی نہ پائے گا پھر آپ نے یہی آیت پڑھی ، پھر انہیں ان کا شرک یاد دلا کر دھمکایا جائے گا کہ جنہیں تم اپنا شریک سمجھ رہے تھے اور جن پر ناز کر رہے تھے کہ ہمیں بچا لیں گے اور نفع دیں گے وہ آج تمہارے ساتھ کیوں نہیں؟ وہ کہاں رہ گئے ؟ انہیں شفاعت کے لئے کیوں آگے نہیں بڑھاتے؟ حق یہ ہے کہ قیامت کے دن سارے جھوٹ بہتان افترا کھل جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ سب کو سنا کر ان سے فرمائے گا جنہیں تم نے میرے شریک ٹھہرا رکھا تھا وہ کہاں ہیں؟ اور ان سے کہا جائے گا کہ جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے تھے وہ کہاں ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ نہ وہ تمہاری مدد کرتے ہیں نہ خود اپنی مدد وہ آپ کرتے ہیں ۔ تم تو دنیا میں انہیں مستحق عبادت سمجھتے رہے ۔ بینکم کی ایک قرأت بینکم بھی ہے یعنی تمہاری یکجہتی ٹوٹ گئی اور پہلی قرأت پر یہ معنی ہیں کہ جو تعلقات تم میں تھے جو وسیلے تم نے بنا رکھے تھے سب کٹ گئے معبودان باطل سے جو غلط منصوبے تم نے باندھ رکھے تھے سب برباد ہو گئے جیسے فرمان باری ہے آیت ( اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِيْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْا وَرَاَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْاَسْـبَابُ ) 2 ۔ البقرۃ:266 ) یعنی تابعداری کرنے والے ان سے بیزار ہوں گے جن کی تابعداری وہ کرتے رہے اور سارے رشتے ناتے اور تعلقات کٹ جائیں گے اس وقت تابعدار لوگ حسرت و افسوس سے کہیں گے کہ اگر ہم دنیا میں واپس جائیں تو تم سے بھی ایسے ہی بیزار ہو جائیں گے جیسے تم ہم سے بیزار ہوئے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ انہیں ان کے کرتوت دکھائے گا ان پر حسرتیں ہوں گی اور یہ جہنم سے نہیں نکلیں گے اور آیت میں ہے جب صور پھونکا جائے گا تو آپس کے نسب منقطع ہو جائیں گے اور کوئی کسی کا پرسان حال نہ ہو گا اور آیت میں ہے کہ جن جن کو تم نے اپنا معبود ٹھہرا رکھا ہے اور ان سے دوستیاں رکھتے ہو وہ قیامت کے دن تمہارے اور تم ان کے منکر ہو جاؤ گے اور ایک دوسرے پر لعنت کرو گے تو تم سب کا ٹھکانا جہنم ہو گا اور کوئی بھی تمہارا مددگار کھڑا نہ ہو گا اور آیت میں ہے آیت ( وَقِيْلَ ادْعُوْا شُرَكَاۗءَكُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَهُمْ وَرَاَوُا الْعَذَابَ ۚ لَوْ اَنَّهُمْ كَانُوْا يَهْتَدُوْنَ ) 28 ۔ القصص:64 ) یعنی ان سے کہا جائے گا کہ اپنے شریکوں کو آواز دو وہ پکاریں گے لیکن انہیں کوئی جواب نہ ملے گا اور آیت میں ہے آیت ( وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِيْنَ اَشْرَكُوْٓا اَيْنَ شُرَكَاۗؤُكُمُ الَّذِيْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ ) 6 ۔ الانعام:22 ) یعنی قیامت کے دن ہم ان سب کا حشر کریں گے پھر مشرکوں سے فرمائیں گے کہاں ہیں تمہارے شریک؟ اس بارے کی اور آیتیں بھی بہت ہیں ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

93۔ 1 ظالم سے مراد ہر ظالم ہے اور اس میں کتاب الٰہی کا انکار کرنے والے اور جھوٹے مدعیان نبوت سب سے پہلے شامل ہیں۔ ' فرشتے ہاتھ بڑھا رہے ہونگے، یعنی جان نکالنے کے لئے (آج) سے مراد قبض روح کا دن اور یہی عذاب کے آغاز کا وقت بھی ہے جس کا مبداء قبر ہے۔ اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عذاب قبر برحق ہے۔ ورنہ ہات... ھ پھیلانے اور جان نکالنے کا حکم دینے کے ساتھ اس بات کے کہنے کے کوئی معنی نہیں کہ آج تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا۔ خیال رہے قبر سے مراد برزخ کی زندگی ہے۔ یعنی دنیا کی زندگی کے بعد آخرت کی زندگی سے قبل، یہ ایک درمیان کی زندگی ہے جس کا عرصہ انسان کی موت سے قیامت کے وقوع تک ہے۔ یہ برزخی زندگی کہلاتی ہے۔ چاہے اسے کسی درندے نے کھایا ہو، اس کی لاش سمندر کی موجوں کی نذر ہوگئی ہو یا اسے جلا کر راکھ بنادیا گیا یا قبر میں دفنا دیا گیا ہو۔ یہ برزخ کی زندگی ہے جس میں عذاب دینے پر اللہ تعالیٰ قادر ہے۔ 93۔ 2 اللہ کے ذمے جھوٹی باتیں لگانے میں انزال کتب اور ارسال رسل کا انکار بھی ہے اور جھوٹا دعوائے نبوت بھی ہے اسی طرح نبوت و رسالت کا انکار و استکبار ہے۔ ان دونوں وجوہ سے انھیں ذلت و رسوائی کا عذاب دیا جائے گا۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٥] سب سے زیادہ ظالم کون ہے ؟ :۔ اس آیت میں سب سے بڑے ظالموں کی تین اقسام بیان فرمائیں ایک وہ جس نے کوئی بات تو خود تراشی ہو اور اللہ کے ذمے لگا دے کہ یہ اللہ کا حکم ہے۔ اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو شرک و بدعات کی مختلف اقسام کو ایجاد تو خود کرتے ہیں پھر انہیں شریعت سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں... ۔ اور اس طرح ان رسوم و بدعات پر مذہبی تقدس کا خول چڑھا دیتے ہیں اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اللہ کی آیات کا غلط مطلب نکال کر اور ان کی غلط تاویل کر کے غلط سلط فتوے دیتے ہیں اور اس کے عوض عارضی فوائد حاصل کرتے ہیں۔ دوسرے وہ جھوٹے نبی جنہوں نے آپ کے بعد اپنی نبوت کا دعویٰ کیا ہے یا کریں گے حالانکہ آپ خاتم النبیین ہیں جیسے مسیلمہ کذاب، اسود عنسی، سجاح بنت حارث اور مرزا غلام احمد قادیانی اور ایسے ہی دوسرے لوگ اور آپ نے فرمایا ہے کہ میرے بعد تیس کے لگ بھگ ایسے کذاب اور دجال پیدا ہوں گے جو اپنی نبوت کا دعویٰ کریں گے (مسلم۔ کتاب الفتن۔ باب قولہ ان بین یدی الساعۃ کذابین قریبا من ثلاثین) اور تیسرے وہ لوگ جو یہ دعویٰ کریں کہ ہم بھی قرآن جیسی چیز بنا سکتے ہیں۔ جیسا کہ ایک دفعہ کفار مکہ نے بھی کہا تھا کہ (لَوْ نَشَاۗءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هٰذَآ 31؀) 8 ۔ الانفال :31) حالانکہ جب قرآن نے ان کو ایسی ایک ہی سورت بنا لانے کا چیلنج کیا تو وہ اپنی بھرپور اور اجتماعی کوششوں کے باوجود اس کی نظیر لانے پر قادر نہ ہو سکے تھے۔ [٩٦] مندرجہ بالا اقسام کے ظالم اس لحاظ سے سب سے بڑھ کر ظالم ہیں کہ انہوں نے براہ راست اللہ پر الزام لگائے انہیں سزا بھی سب ظالموں سے بڑھ کر ہوگی۔ ان پر موت طاری ہوتے ہی فرشتے انہیں ڈانٹنا شروع کردیں گے اور نہایت شدت اور سختی کے ساتھ ان کی روحیں قبض کریں گے اسی وقت انہیں اپنی قدر و عافیت ٹھیک ٹھیک معلوم ہوجائے گی اور سب شیخیاں کر کری ہوجائیں گی اور اسی دن سے انہیں رسوا کرنے والے عذاب سے دو چار کردیا جائے گا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي ۔۔ : اس آیت کریمہ میں تین قسم کے لوگوں کا ذکر کر کے یہ بتایا گیا ہے کہ ان سے زیادہ اپنے حق میں کون ظالم ہوسکتا ہے، ایک تو وہ لوگ جو اللہ پر جھوٹ باندھتے ہوئے غیروں کو اللہ کا شریک بناتے ہیں، یا جو اپنی طرف سے حلال و حرام کے احکام وضع کرتے ہیں، دوسرے وہ لوگ جو نبوت کا...  جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم پر اللہ کی جانب سے وحی کی جاتی ہے، جیسے اسود عنسی، مسیلمہ کذاب اور قادیانی دجال وغیرہ اور تیسرے وہ لوگ جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ قرآن جیسا کلام پیش کرسکتے ہیں، جیسا کہ قرآن میں ہے کچھ مشرکوں نے کہا تھا : (لَوْ نَشَاۗءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هٰذَآ ۙ ) [ الأنفال : ٣١ ] اگر ہم چاہیں تو یقیناً اس جیسا ہم بھی کہہ دیں حالانکہ یہ ممکن نہیں۔ تین ہی وعیدیں ان کے حق میں بیان کی گئی ہیں، ایک سب سے بڑے ظالم ہونا، دوسری فرشتوں کا ان کی روح قبض کرتے وقت سختی کرنا اور تیسری ذلت کا عذاب۔ اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَكُمْ ۭ: نکالو اپنی جانیں اور انھیں ہمارے حوالے کرو کہ سزا دیں، یا انھیں موت کی سختیوں اور عذاب سے بچا کر تو دکھاؤ۔ (فتح القدیر) اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ ۔۔ : آج سے مراد وہ دن ہے جس میں ان کی روح قبض کی جائے گی اور عذاب قبر کی ابتدا ہوگی۔ اس آیت میں واضح عذاب قبر کی طرف اشارہ ہے، کیونکہ قیامت تو جب اللہ چاہے گا قائم ہوگی، درمیان کا وقفہ یعنی برزخ ہم سے پردے میں ہے۔ انسان کا کوئی جز کسی بھی جگہ میں ہو یا راکھ بن جائے، اسے وہیں عذاب قبر ہوگا۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللہِ كَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِيَ اِلَيَّ وَلَمْ يُوْحَ اِلَيْہِ شَيْءٌ وَّمَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مِثْلَ مَآ اَنْزَلَ اللہُ۝ ٠ۭ وَلَوْ تَرٰٓي اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِيْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰۗىِٕكَۃُ بَاسِطُوْٓا اَيْدِيْہِمْ۝ ٠ۚ اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَكُمْ۝ ٠ۭ ... اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَي اللہِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ اٰيٰتِہٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ۝ ٩٣ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں فری الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] ، ( ف ری ) الفری ( ن ) کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے نزل النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ. يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] ( ن ز ل ) النزول ( ض ) اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء/ 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا غمر أصل الغَمْرِ : إزالة أثر الشیء، ومنه قيل للماء الکثير الذي يزيل أثر سيله، غَمْرٌ وغَامِرٌ ، قال الشاعر : 342- والماء غَامِرُ جدّادها «1» . وبه شبّه الرّجل السّخيّ ، والفرس الشّديد العدو، فقیل لهما : غَمْرٌ كما شبّها بالبحر، والغَمْرَةُ : معظم الماء الساترة لمقرّها، وجعل مثلا للجهالة التي تَغْمُرُ صاحبها، وإلى نحوه أشار بقوله : فَأَغْشَيْناهُمْ [يس/ 9] ، ونحو ذلک من الألفاظ قال : فَذَرْهُمْ فِي غَمْرَتِهِمْ [ المؤمنون/ 54] ، الَّذِينَ هُمْ فِي غَمْرَةٍ ساهُونَ [ الذاریات/ 11] ، وقیل للشَّدائِد : غَمَرَاتٌ. قال تعالی: فِي غَمَراتِ الْمَوْتِ [ الأنعام/ 93] ، ورجل غَمْرٌ ، وجمعه : أَغْمَارٌ. والغِمْرُ : الحقد المکنون «2» ، وجمعه غُمُورٌ والْغَمَرُ : ما يَغْمَرُ من رائحة الدّسم سائر الرّوائح، وغَمِرَتْ يده، وغَمِرَ عِرْضُهُ : دنس، ودخل في غُمَارِ الناس وخمارهم، أي : الذین يَغْمُرُونَ. والْغُمْرَةُ : ما يطلی به من الزّعفران، وقد تَغَمَّرْتُ بالطّيب، وباعتبار الماء قيل للقدح الذي يتناول به الماء : غُمَرٌ ، ومنه اشتقّ : تَغَمَّرْتُ : إذا شربت ماء قلیلا، وقولهم : فلان مُغَامِرٌ: إذا رمی بنفسه في الحرب، إمّا لتوغّله وخوضه فيه کقولهم يخوض الحرب، وإمّا لتصوّر الغَمَارَةِ منه، فيكون وصفه بذلک کو صفه بالهوج «3» ونحوه . ( غ م ر ) الغمر ( ض ) کے اصل معنی کسی چیز کے اثر کو زائل کردینے کے ہیں ۔ اسی سے غمرۃ غامر اس زیادہ پانی کو کہتے ہیں جس کا سیلاب ہر قسم کے اثرات کو چھپا کر زائل کردے شاعر نے کہا ہے ( المتقاریب ( 330 ) والماء غامر خدا دھا اور پانی اپنے گڑھوں کو چھپانے والا تھا ۔ اسی مناسبت سے فیاض آدمی اور تیز رو رگھوڑی کو بھی غمر کہا جاتا ہے جس طرح کہ تشبیہ کے طور پر اسے بحر کہہ دیا جاتا ہے اور غمرۃ اس پانی کثیر کو کہتے ہیں جس کی اتھا ہ نظڑ نہ آئے ۔ اور یہ اس جہالت کے لئے ضرب المثل ہے جو آدمی پر چھا جاتی ہے اور قرآن پاکنے وغیرہ الفاظ سے اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ فَذَرْهُمْ فِي غَمْرَتِهِمْ [ المؤمنون/ 54] تو ان کو ۔۔۔۔ ان کی غفلت ہی میں رہنے دو ۔ الَّذِينَ هُمْ فِي غَمْرَةٍ ساهُونَ [ الذاریات/ 11] جو بے خبر ی میں بھولے ہوئے ہیں ۔ اور غمرات کے معنی شدائد کے ہیں ( کیونکہ وہ بھی انسان پر ہجوم کر کے اسے بد حواس کردیتے ) ہیں فرمایا : ۔ فِي غَمَراتِ الْمَوْتِ [ الأنعام/ 93]( جب موت کی سختی میں ۔ اور نا تجربہ کار آدمی کو بھی غمر کہا جاتا ہے والجمع اغمار نیز غمر کے معنی پوشیدہ کینہ کے بھی آتے ہیں ۔ والجمع غمور اور غمر کے معنی چربی کی بدبو کے آتے ہیں جو تمام چیزوں کی بو پر غالب آجاتی ہے غمرت یدہ اس کا ہاتھ میلا ہوگیا غمر عر ضہ اس کی عزت پر بٹہ لگ گیا محاورہ ہے ۔ وہ لوگوں کے ہجوم میں داخل ہوگیا ۔ الغمرۃ زعفران سے تیار کیا ہوا طلا جو چہرے پر ملتے ہیں تغمرت باالطیب میں نے ( اپنے چہرہ پر ) زعفرانی خوشبو اور پانی پینے کے چھوٹے پیا لے کو غمر کہا جاتا ہے اسی سے تغمرت ہے جس کے معنی تھوڑا سا پانی پینے کے ہیں اور کسی شخص کو مغافر اس وقت کہتے ہیں جب کہ وہ اپنے آپ کو لڑائی کی آگ میں جھونک دے اور یہ یا تو دشمن کی صفوں میں گھسنے کے لئے ہوتا ہے جیسا کہ فلان یخوض الحرب کا محاورہ ہے اور یا نا تجربہ کاری کی وجہ سے اور اس صؤرت میں اسے مغافر کہنا ایسے ہی ہے جیسا کہ اناڑی آدمی کو ھوج وغیرہ کہا جاتا ہے ۔ موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی مینب مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے فرشته الملائكة، ومَلَك أصله : مألك، وقیل : هو مقلوب عن ملأك، والمَأْلَك والمَأْلَكَة والأَلُوك : الرسالة، ومنه : أَلَكَنِي إليه، أي : أبلغه رسالتي، والملائكة تقع علی الواحد والجمع . قال تعالی: اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا [ الحج/ 75] . قال الخلیل : المَأْلُكة : الرسالة، لأنها تؤلک في الفم، من قولهم : فرس يَأْلُكُ اللّجام أي : يعلك . ( ا ل ک ) الملئکۃ ( فرشتے ) اور ملک اصل میں مالک ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ ملاک سے معلوب ہے اور مالک وما لکۃ والوک کے معنی رسالت یعنی پیغام کے ہیں اسی سے لکنی کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں اسے میرا پیغام پہنچادو ، ، ۔ الملائکۃ کا لفظ ( اسم جنس ہے اور ) واحد و جمع دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ { اللهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا } ( سورة الحج 75) خدا فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے منتخب کرلیتا ہے ۔ خلیل نے کہا ہے کہ مالکۃ کے معنی ہیں پیغام اور اسے ) مالکۃ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ بھی منہ میں چبایا جاتا ہے اور یہ فرس یالک اللجام کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں گھوڑے کا منہ میں لگام کو چبانا ۔ بسط بَسْطُ الشیء : نشره وتوسیعه، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِساطاً [ نوح/ 19] والبِسَاط : الأرض المتسعة وبَسِيط الأرض : مبسوطه، واستعار قوم البسط لکل شيء لا يتصوّر فيه تركيب وتأليف ونظم، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة/ 245] ، ( ب س ط ) بسط الشئ کے معنی کسی چیز کو پھیلانے اور توسیع کرنے کے ہیں ۔ پھر استعمال میں کبھی دونوں معنی ملحوظ ہوتے ہیں اور کبھی ایک معنی متصور ہوتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے بسط لثوب ( اس نے کپڑا پھیلایا ) اسی سے البساط ہے جو ہر پھیلائی ہوئی چیز پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِساطاً [ نوح/ 19] اور خدا ہی نے زمین کو تمہارے لئے فراش بنایا ۔ اور بساط کے معنی وسیع زمین کے ہیں اور بسیط الارض کے معنی ہیں کھلی اور کشادہ زمین ۔ ایک گروہ کے نزدیک بسیط کا لفظ بطور استعارہ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے جس میں ترکیب و تالیف اور نظم متصور نہ ہوسکے ۔ اور بسط کبھی بمقابلہ قبض آتا ہے ۔ جیسے وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة/ 245] خدا ہی روزی کو تنگ کرتا ہے اور ( وہی اسے ) کشادہ کرتا ہے ۔ يد الْيَدُ : الجارحة، أصله : وقوله : فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] ، ( ی د ی ) الید کے اصل معنی تو ہاتھ کے ہیں یہ اصل میں یدی ( ناقص یائی ) ہے کیونکہ اس کی جمع اید ویدی اور تثنیہ یدیان اور آیت کریمہ : ۔ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْواهِهِمْ [إبراهيم/ 9] تو انہوں نے اپنے ہاتھ ان کے مونہوں پر رکھ دئے ۔ جزا الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان/ 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، ( ج ز ی ) الجزاء ( ض ) کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا } ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ هين الْهَوَانُ علی وجهين : أحدهما : تذلّل الإنسان في نفسه لما لا يلحق به غضاضة، فيمدح به نحو قوله : وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ونحو ما روي عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم :«المؤمن هَيِّنٌ ليّن» الثاني : أن يكون من جهة متسلّط مستخفّ بهفيذمّ به . وعلی الثاني قوله تعالی: الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام/ 93] ، فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت/ 17] ، وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة/ 90] ، وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران/ 178] ، فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج/ 57] ، وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج/ 18] ويقال : هانَ الأمْرُ علی فلان : سهل . قال اللہ تعالی: هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم/ 21] ، وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم/ 27] ، وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور/ 15] والْهَاوُونَ : فاعول من الهون، ولا يقال هارون، لأنه ليس في کلامهم فاعل . ( ھ و ن ) الھوان اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے انسان کا کسی ایسے موقعہ پر نر می کا اظہار کرتا جس میں اس کی سبکی نہ ہو قابل ستائش ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر متواضع ہوکر چلتے ہیں ۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے المؤمن هَيِّنٌ ليّن» کہ مومن متواضع اور نرم مزاج ہوتا ہے دوم ھان بمعنی ذلت اور رسوائی کے آتا ہے یعنی دوسرا انسان اس پر متسلط ہو کر اسے سبکسار کرے تو یہ قابل مذمت ہے چناچہ اس معنی میں فرمایا : ۔ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام/ 93] سو آج تم کو ذلت کا عذاب ہے ۔ فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت/ 17] تو۔ کڑک نے ان کو آپکڑا اور وہ ذلت کا عذاب تھا وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة/ 90] اور کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے ۔ وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران/ 178] اور آخر کار ان کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج/ 57] انکے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج/ 18] اور جس کو خدا ذلیل کرے اس کو کوئی عزت دینے ولاا نہیں ۔ علی کے ساتھ کے معنی کسی معاملہ کے آسان ہو نیکے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم/ 21] کہ یہ مجھے آسان ہے ۔ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم/ 27] اور یہ اس پر بہت آسان ہے ۔ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور/ 15] اور تم اسے ایک ہلکی بات سمجھتے ہو ۔ ھاودن کمزور یہ ھون سے ہے اور چونکہ قاعل کا وزن کلام عرب میں نہیں پایا اسلئے ھاون کی بجائے ہارون بروزن فا عول کہا جاتا ہے ۔ غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ الاسْتِكْبارُ والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة . والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين : أحدهما : أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود . والثاني : أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] . ( ک ب ر ) کبیر اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔ الاستکبار ( اسعاے ل ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مذموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٣) اس شخص سے زیادہ سرکش اور دلیر کون ہوگا جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹی تہمت لگائے، جیسا کہ مالک بن صیف کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی بشر پر کوئی چیز نازل نہیں کی یا یہ کہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے حالانکہ اس کے پاس کسی چیز کی بھی وحی نہیں آئی۔ جیسا کہ مسیلمہ کذاب (جھوٹا نبی) اور اسی طرح عبداللہ بن سعد بن ... ابی سرح کہتا ہے کہ میں بہت جلد وہی باتیں بیان کروں گا جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیان کرتے ہیں، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ بدر کے دن ان منافقوں مشرکوں کو دیکھیں جب کہ یہ موت کی سختیوں اور نزع کے عالم میں گرفتار ہوں گے اور فرشتے اپنے ہاتھوں کو ان کی ارواح پر مارتے اور کہتے ہوں گے کہ اپنی روحوں کو نکالو، بدر کے دن یا قیامت کے دن تمہیں ذلت کی سزا دی جائے گی، اس لیے کہ تم دنیا میں جھوٹی باتیں بناتے تھے اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان لانے سے تکبر کرتے تھے۔ شان نزول : (آیت) ومن اظلم ممن افتری “۔ (الخ) ابن جریر (رح) نے عکرمہ (رح) سے روایت کی ہے کہ یہ آیت مسیلمہ کذاب (جھوٹے نبی) کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور (آیت) ” ومن قال سانزل مثل ما انزل اللہ “۔ (الخ) یہ عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، نیز سدی سے بھی اسی طرح روایت نقل کی ہے البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے کہ وہ کہتا تھا کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس وحی آتی ہے، تو میرے پاس بھی وحی آتی ہے اور اگر اللہ تعالیٰ آپ پر کتاب نازل کرتا ہے تو میرے پاس بھی ویسی ہی کتاب نازل ہوتی ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٣ (وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ قَالَ اُوْحِیَ اِلَیَّ وَلَمْ یُوْحَ اِلَیْہِ شَیْءٌ) کوئی بات خود گھڑ کر اللہ کی طرف منسوب کردینا یا یہ کہنا کہ مجھ پر کوئی شے وحی کی گئی ہے یہ دونوں شناعت کے اعتبار سے برابر کے گناہ ہیں۔ تو اے اہل مکہ ! ذرا غورتو کرو کہ محمد (صل... ی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنہوں نے تمہارے درمیان ایک عمر بسر کی ہے کیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت و کردار ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں تم کوئی ایسا پہلو دیکھتے ہو کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اتنے بڑے بڑے گناہوں کے مرتکب بھی ہوسکتے ہیں ؟ اور ان دو باتوں کے سا تھ ایک تیسری بات : (وَّمَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مِثْلَ مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ ط) ۔ وہ لوگ اگرچہ اچھی طرح سمجھتے تھے کہ اس کلام کی نظیر پیش کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں ‘ پھر بھی زبان سے الفاظ کہہ دینے کی حد تک کسی نے ایسا کہہ دیا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن نے زبان دانی کا دعویٰ کرنے والے ماہرین ‘ شعراء اور اُدَباء سمیت اس معاشرے کے تمام لوگوں کو ایک بار نہیں ‘ بار بار یہ چیلنج کیا کہ تم سب سر جوڑ کر بیٹھ جاؤ اور اس جیسا کلام بنا کر دکھاؤ ‘ لیکن کسی میں بھی اس چیلنج کا جواب دینے کی ہمت نہ ہوسکی۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

اوپر کی آیت میں ان لوگوں کا ذکر تھا جو باوجود معجزوں کے دیکھنے اور کلام الٰہی کے اترنے کے آنحضرت کو نبی نہیں مانتے تھے ان کے قریب قریب وہ لوگ ہیں جو بغیر معجزہ اور بغیر شہادت کلام الٰہی کے پانے آپ کو نبی مشہور کرتے تھے جیسے مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی جن دونوں کے وحشی اور فیروز کے ہاتھ سے مارے جانے کا...  قصہ اوپر گذر چکا ہے ان دونوں کے قریب قریب عبداللہ بن سرح کا قصہ ہے اس قسم کے وہ لوگ بھی ہیں جو اللہ پر جھوٹ بہتان باندھتے ہیں کہ اللہ کا بیٹا ہے یا اللہ نے سانڈھ یا کان پھٹے جانور حرام کئے ہیں اس طرح کے سب لوگوں کی شان میں یہ آیت اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے تفسیر ابن ١ ؎ جریر اور تفسیر سدی میں جو شان نزول اس آیت کی بیان کئی گئی ہے اس کا حاصل اسی قدر ہے جو بیان کیا گیا لیکن اور علماء مفسرین نے لکھا ہے کہ جو شخص اب بھی عقلی بات کو دین کی بات مشہور کرے وہ اس حکم داخل ہے ترمذی ابو داؤد اور نسائی میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بغیر علم نقلی کے محض عقل سے قرآن کی تفسیر کے باب میں جو شخص کچھ کہے گا تو اس کی اپنا ٹھکانا دوزخ میں ٹھہرا لینا چاہئے ٢ ؎ اس حدیث کی سند میں ایک راوی سہل بن عبداللہ کو اگرچہ بعضے علماء نے ضعیف کہا ہے لیکن ابن معین نے اس کو معتبر قرار دیا ہے اس باب میں اور بھی روایتیں ہیں جن کے سبب سے ایک روایت کو دوسری روایت سے تقویت ہوجاتی ہے۔ حاصل مطلب یہ ہے کہ شان نزول ناسخ منسوخ معنے آیت قرآنی یہ ایسی باتیں ہیں جن میں محض عقل سے مفسر کو کچھ ہیں کہنا چاہیے بلکہ اس میں تابعین تک کی روایت ضرور ہے۔ ہاں علم لغت اور صرف ونحو میں اس فن کی کتابوں کی مدد سے کوئی عقلی بات بھی ممکن ہے۔ صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص میرے ذمہ کوئی جھوٹی بات لگاوے گا تو اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اس باب میں اور بھی صحیح حدیثیں ہیں یہ حدیثیں اس آیت کی تفسیر ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی جن باتوں میں عقل کو دخل نہیں ہے ان کی تفسیر عقل سے کرنا یا جان بوجھ کر حدیث کی غلط سلط روایت کرنا اسی طرح کے وبال کی بات ہے جس طرح کی وبال کی باتوں کا آیت میں ذکر ہے۔ ان حدیثوں سے علمائے مفسرین کے اس قول کی پوری تائید ہوتی ہے عقلی بات کو دینی بات قرار دینے والا شخص اس آیت کے حکم میں داخل ہے۔ سورة انفال میں آویگا کہ عبداللہ بن سرح کی طرح قریش میں اور لوگ بھی تھے جو کہتے تھے لَوْنَشَاء ُ لَقُلْنَا مَثْلَ ھٰذَ اجنکا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم بھی چاہیں تو قرآن جیسا کلام بناسکتے ہیں لیکن ان لوگوں کا یہ دعویٰ جھوٹا تھا کیونکہ اس وقت کے تاریخی قصوں سے معلوم ہوتا ہے کہ باوجود تقاضے کے قرآن کے مانند ایک چھوٹی سی سورت بنا کر بھی یہ لوگ پیش نہ کرسکے۔ سورة مدثر میں ولیدبن مغیرہ کا قصہ آویگا جس کا حاصل یہ ہے کہ بڑا شاعر اور فصیح البیان جان کر ابوجہل وغیرہ نے اس کو قرآن کے مقابلہ کہ میں کچھ عبارت بنا کر پیش کرنے کے لیے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بھیجا تھا وہ قرآن کی چند آیتیں سن کر حیران رہ گیا اور قرآن کی مقابلہ میں کچھ عبادت بنا کر نہ پیش کا سکا اور قرآن کو جادو بتلایا اس قسم کے اور بھی چند قصے میں حال یہ ہے کہ قرآن کے لفظ وحی میں جن کو رات دا اہل مکہ بولتے تھے اسی خیال سے وہ لوگ لونشاء لقلنا مثل ھذا کہہ دیتے تھے لیکن انہیں معلولی لفظوں میں طرز بیان قرآن شریف کا ایسا ہے جس کے مقابلہ سے وہ لوگ گھبرائے اور دین کی لڑائی کے حکم سے پہلے اس طرز بیان کے اثر سے ان میں کے صدہا آدمی مسلمان ہوگئے کیونکہ طرز بیان کی خوبی کی باتیں اور غیب کی باتیں قرآن میں سینکڑوں ایسی ہیں جن کو سوا اللہ کے نہ کوئی جان سکتا تھا نہ کسی کے کلام میں وہ باتیں پائی جاسکتی تھیں اس لیے ان باتوں کا اثر بھی ان لوگوں کے دل پر زیادہ پڑتا تھا اور وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ ان سب باتوں کا مقابلہ ناممکن ہے اس واسطے بلاشک یہ قرآن کلام الٰہی ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں :۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اوپر کی میت میں ظالم فرمایا وہ یا ان کے سے عمل کرنے والے اور جو لوگ ہوں ان کے عذاب قبر اور عذاب حشر کا ذکر تو آگے آویگا اس آیت میں ان کی موت کے وقت کی شدت اور سختی کا ذکر ہے حدیث کی کتابوں میں اس شدت اور سختی کی تفصیلی بہت صراحت سے صحیح بخاری مسلم ترمذی نسائی وغیرہ میں حضرت عائشہ (رض) انس (رض) ابوہریرہ (رض) وعباوہ بن صامت (رض) براء بن عازب (رض) کی روایتیں یہیں مختصر طور پر جن کا ذکر یہ ہے کہ علم الٰہی میں جو لوگ لائق عذاب کے ہیں ان کی قبض روح کے وقت بڑے ہیبت ناک صورت کے فرشتے آتے ہیں اور اس لائق عذاب شخص کی روح کو خبر سناتے ہیں کہ جسم سے الگ ہوتے ہی سخت عذاب قبر اس پر ہونے والا ہے اس عذاب کے خوف سے روح جسم میں جگہ جگہ چھپتی ہے اور فرشتے بڑی سختی سے اس روح کو نکالتے ہیں اور روح کے نکالتے وقت یہ کہتے جاتے ہیں کہ اے ناپاک روح اللہ کے عذاب میں پھنسنے کے لیے جلدی نکل اور اس شخص کے منہ اور پیٹھ پر طرح طرح کی مار مارتے ہیں جب اس خرابی سے روح نکلتی ہے تو ایک طرح کی بدبو روئے زمین پر پھیل جارہی ہے جس سے ان فرشتوں کو جو اپنے اپنے کام کے لیے روئے زمین پر ہیں معلوم ہوجاتا ہے کہ کوئی ناپاک روح کسی جسم سے جدا ہوئی ہے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بدبو کا ذکر فرمایا وقت اپنی ناک پر کپڑا ڈھاک لیا کرتے تھے کیونکہ برکت نبوت کے سبب سے بدبو کے فکر کے وقت اصلی بدبو آپ کے دماغ میں اثر کرنے لگتی تھی اس روح کو فرشتے آسمان پر لے جانا چاہتے ہیں لیکن آسمان کے دروازے نہیں کھلتے اس بیان کے وقت آنحضرت یہ آیت پڑھا کرتے تھے لاتفتح لھم ابواب السماء ولاید خلن الجنۃ حتی یلج الجمل فی سم الخیاط (٧۔ ١٤٠) جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اونٹ سوئی کے ناکے میں گھس جائے مگر یہ نافرمان لوگ نہ جنت میں جاسکتے ہیں نہ ان کی روح کے لیے آسمان کے دروازے کھل سکئے ہیں ١ ؎ اب اس ناپاک روح کے لیے جب آسمان کی دروازے نہیں کھلتے تو روح پھر جس میں لائی جاتی ہے اور منکر نکیر کا سوال قبر ہو کر قیامت کے قائم ہونے تک طرح طرح کی قبر کے عذاب میں گرفتار رہتی ہے جس کی تفصیل عذاب قبر کے ذکر میں آوے گی بعضے علماء کا یہ مذہب ہے کر منکرنکیر صرف اہل قبلہ کی میت کے پاس آتی ہیں تاکہ خالص مسلمان اور منافق میں فرق پیدا ہوجاوے محض کافر کی میت پر منکر نکیر نہیں آتے لیکن اور علماء نے اکثر آیات اور احادیث سے اس مذہب کو غلط ثابت کیا ہے مسند اما احمد اور رابواد ‘ و کی براء بن عازب (رض) کی صحیح روایت میں کاروں اور منافقوں کی میت پر جبکہ منکرنکیر کے آنے اور سوال کرنے کا اور میت کے لاعلمی کے جواب کا صراحب سے ذکر آچکا ہے ١ ؎ تو یہی قول صحیح معلوم ہوتا ہے کہ اہل قبلہ عیزابی قبلہ سب کی میت پر منکر نکیر آتے اور سوال کرتے ہیں حاصل معنے آیت کے یہ ہیں کہ اے رسول اللہ کے اب تو یہ لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں کوئی غیروں کو اللہ کا شریک ٹھہراتا ہے کوئی اپنے آپ کو نبی بتلاتا ہے لیکن عذاب قبر اور عذاب قیامت کے علاوہ ان لوگوں کا جان کنی کا وقت بھی دیکھنے کے قابل ہے کہ اللہ کے فرشتے بڑی دست درازی سے ان کو جان قبض کرتے ہیں اور یہ کہتے جاتے ہیں کہ اے نافرمان لوگوں عذاب الٰہی میں گرفتار ہوجانے کے لیے جلدی اپنی جانیں ہمارے حوالہ کرو کہ تم لوگ اللہ کی شان میں جھوٹی باتیں جو کہا کرتے تھے اور قرآن کی آیتوں کو بڑی نخوت سے پچھلے لوگوں کی کہانیاں جو بتلایا کرتے تھے آج اس کا خمیازہ بھگتنے کا دن ہے :۔ ١ ؎ صحیح بخاری ج ١ ص ١٨ باب فضل عن علم وعلم ٢ ؎ صحیح بخاری ج ٢ ص ٧٤٤ باب کیف نزل لوحی وصعیع مسلم ج ١ ص ٨٦ باب وجوب الایمان برستالۃ نبینا الخ  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:93) افتری۔ اس نے جھوٹ باندھا۔ اس نے بہتان تراشا۔ اشتراء (افتعال) سے ماضی واحد مذکر غائب۔ من قال۔ ای من اظلم ممن قال۔ اور کون زیادہ ظالم ہے اس سے جو کہے۔ ولو تری۔ کاش تو دیکھے۔ کاش تو دیکھ سکے۔ غمرات۔ غمرۃ کی جمع۔ موت کی سختیاں۔ جو سارے اعضاء پر چھا جائیں۔ غمرۃ وہ کثیر پانی جس کی تہ نظر نہ آئے۔ بط... ور تشبیہ اس سے مراد جہالت۔ غفلت لی جاتی ہے۔ جو قوی پر غالب آجائے۔ باسطوا۔ اصل میں باسطون تھا۔ ایدیہم کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے ن ساقط ہوگیا۔ کھولنے والے۔ بڑھانے والے یعنی کاش تو ان ظالمین کو اس حالت میں دیکھ سکے جب موت کی سختیاں ان پر غالب ہوں گی۔ اور فرشتے (ان کی جان نکالنے کے لئے) ہاپنے ہاتھ ان کی طرف بڑھا رہے ہوں گے۔ اخرجوا انفسکم۔ اس سے پہلے یقولون لہم محذوف ہے۔ اخرجوا انفسکم لاؤ اپنی جانیں۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ۔ اگر ہوسکتا ہے تو چھڑا لو اپنی جانیں ہمارے ہاتھوں سے اخرجوا فعل امر حاضر۔ انفسکم مفعول بہٖ ۔ تجزون۔ تم بدلہ دئیے جاؤ گے۔ تم جزا دئیے جاؤ گے۔ جزاء سے جمع مذکر حاضر۔ عذاب الھون۔ اسم ہے۔ الھون کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے۔ (1) انسان کا کسی ایسے موقع پر نرمی کا اظہار کرنا کہ جس میں اس کی سبکی نہ ہو۔ یہ قابل ستائش ہے قرآن حکیم میں ہے وعبا والرحمن الذین یمشون علی الارض ھونا (25:63) اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر متواضع ہوکر چلتے ہیں۔ (2) ھوان بمعنی ذلت اور رسوائی کے بھی آتا ہے یعنی دوسرا انسان اس پر مسلط ہوکر اس کو سبکسار کرے۔ تو یہ قابل مذمت ہے قرآن حکیم میں ہے فاخذتھم صاعقۃ العذاب الھون (41:17) تو ۔۔ کڑک نے ان کو آپکڑا اور وہ ذلت کا عذاب تھا۔ اور اگر علی کے ساتھ آئے تو معنی معاملہ کے آسان ہونے کے ہیں جیسے ھو علی ھین (19:31) کہ یہ مجھے آسان ہے۔ سو عذاب الھون بمعنی ذلت کا عذاب۔ تستکبرون۔ استکبار (استفعال) سے مضارع جمع مذکر حاضر۔ تم تکبر کرتے تھے۔ تم گھمنڈ کرتے تھے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 قرآن کی منزل من اللہ ہونے کو بیان کرنے کے بعد اب نبوت کا جھوٹا دعوی کرنے والوں کے حق میں وعید فرمائی اور اس وعید میں تین باتیں بیان فرمائی ہیں (رازی) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو صادق اور امین تھے پھر آپ غلط طور پر نبوت کا دعوی کیسے کرسکتے ہیں۔ اس قسم کا غلط دعوی اگر کوئی شخص کرسکتا ہے ت... و وہی جو پر لے درجے کا جھوٹا ہے مکار ہو اور اس کا اللہ وآخرت پر ذرہ بھر ایمان نہ ہو جیسے مسیلمہ کذاب اسود عنی سجاح اور دوسرے سارے جھوٹے مدعیان نبوت2 یہ تیسری چیز ہے جیسے اس زمانے میں بعض کفار قریش نضر بن حارث) نے کہا تھا لو نشا لقلنا مثل ھذا سورت انفال 31) اسی طرح مسیلمہ کذاب نے بھی معارضہ کا دعوی کیا تھا مگر قرآن کے باربار چیلنج کرنے کے باوجود قرآن جیسی ایک آیت بھی بناکر پیش نہ کرسکے (ابن کثیر)3 اور انہیں ہمارے حوالے کرو کہ سزا دیں یا انہیں موت کی سختیوں اور عذاب سے تو بچاکر دکھا و (فتح القدیر) آج سے مراد وہ دن ہے جس میں ان پر عذاب قبر کی ابتدا ہوگی اس آیت میں عذاب کی طرف صاف اشارہ ہے (وحیدی)5 یعنی اللہ کے شریک بناتے تھے، (وحیدی)6 اور اس کے بھیجے ہو رسول اور اتاری ہوئی کتاب پر ایمان لانے کو بیوقوفی تصور کرتے تھے  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 93 : اوحی (وحی کی گئی) سانزل (بہت جلد اتاروں گا) ‘ غمرات الموت ( غمرۃ ض موت کی سختیاں) باسطوا (کھولنے والے۔ پھیلانے والے) اخرجوا (نکالو) تجزون ( تم بدلہ دیئے جائو گے) الھون ( ذلت) تستکبرون (تم تکبر کرتے ہو) ۔ تشریح : آیت نمبر 93 : کفر جب شدید ہوجائے تو کتنی شکلیں اختیار کرسکتا...  ہے (1) یہ کہنا کہ اللہ اپنا کلام بشر پر نازل نہیں کرتا خواہ وہ نبی ہو (2) یہ دعویٰ کرنا کہ میں نبی ہوں جبکہ وہ نبی نہ ہو (3) یہ دعویٰ کرنا کہ میں بھی قرآن جیسی کتاب تصنیف کرسکتا ہوں۔ پہلی قسم پر تو بحث ہوچکی۔ رہی دوسری اور تیسری قم۔ تو قرآن کی یہ آیت خبردار کررہی ہے کہ ایسے شدید کفار بھی دور نہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے وقت جھوٹے مدعیان نبوت بڑے زور شور شے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ہر جھوٹا بنی یہی دعویٰ کرتا تھا کہ قرآن جیسی کتاب میں بھی پیش کرسکتا ہوں۔ مسلیمہ ‘ نضر ‘ عبد اللہ وغیرہ اسی قسم کے کفار تھے۔ وہ عذاب جو انہیں موت کے بعد ملے گا وہ اپنی جگہ پر ہے۔ یہاں پر ذکر اس عذاب کا ہے جو انہیں سکرات موت کے وقت ہوگا موت کے فرشتے زور اور زبردستی سے ان کی روحیں قبض کریں گے ڈانٹ ڈانٹ کر کہیں گے کہ اب چلو اس عظیم عذاب کی طرف جو تمہارا انتظار کررہا ہے۔ تم نے جو اللہ کے مقابلے میں سرکشی اختیار کر رکھی تھی اس کی پوری پوری سزا دی جائیگی۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قرآن مجید کی آیات کا انکار کرنا، یا یہ نبوت کا دعویٰ کرنا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی دوسرا بھی وحی یا کتاب نازل کرسکتا ہے یہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنے کے مترادف ہے۔ رسول محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مخالف آپ پر صرف یہ الزام ہی نہیں لگاتے تھے کہ آپ پر کوئی کتاب نازل نہیں...  ہوئی۔ بلکہ ان میں ایسے بدبخت بھی تھے جو یہ دعویٰ کرنے میں شرم محسوس نہیں کرتے تھے کہ ہم پر بھی اللہ تعالیٰ وحی نازل کرتا ہے۔ ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو یہ لاف زنی کرتے کہ عنقریب ہم بھی ایسی کتاب لانے والے ہیں اس ضمن میں مفسرین نے مسیلمہ کذّاب اور عبداللہ بن ابی سرحہ کا ذکر کیا ہے مسیلمہ کذّاب کو حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی خلافت میں اس کے ساتھیوں سمیت قتل کردیا گیا اور عبداللہ بن ابی سرحہ نے یا وہ گوئی پر معذرت کی اور خالص توبہ کی اور فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور اس کی توبہ قبول ہوئی۔ جہاں تک کسی شخص کا یہ دعویٰ کرنا کہ میں بھی قرآن مجید جیسی کتاب لاسکتا ہوں تو ایسے لوگوں کو قرآن مجید نے ایک دفعہ نہیں بلکہ تین مرتبہ یکے بعد دیگرے چیلنج دیا ہے اور یہ چیلنج کسی ایک فرد یا خاص قوم کے لیے نہیں بلکہ روئے زمین کے ہر زمانے کے لوگوں کے لیے ہے۔ کہ کوئی ایک سورة اس جیسی بنا کر پیش کرے۔ تفصیل کے لیے سورة البقرۃ آیت ٣٣ اور ٢٤ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں وہاں قرآن مجید کے مقابلہ میں کوئی ایک سورة لانے کا چیلنج کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ تم سب مل کر بھی اس جیسی سورة نہیں لاسکتے۔ جب تم ایسا نہیں کرسکتے پھر تمہیں جہنم کی اس آگ سے بچنا اور ڈرنا چاہیے جس میں باغی انسان اور پتھرپھینکے جائیں گے۔ یہ سزا مرنے کے بعد ہوگی اور موت کے وقت ان کو یہ سزا دی جائے گی کہ ملائکہ ان کے چہروں پر تھپڑ اور ان کی کمروں پر ہتھوڑے مارتے ہوئے کہیں گے کہ اپنی جان نکال کر ہمارے حوالے کرو۔ بدن سے روح نکالنا اور داخل کرنا صرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ اس لیے جب اپنی روح نہیں نکال سکیں گے تو انھیں اذیت ناک تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا اور ملائکہ اذیت دیتے ہوئے کہیں گے کہ آج اس عذاب کا مزا چکھو۔ یہ سزا موت کے وقت ہوگی اور مرنے کے بعد یہ لوگ ہمیشہ کے لیے عذاب میں مبتلا رہیں گے۔ ملائکہ انھیں مزید ذلیل کرنے کے لیے کہیں گے کہ اب ذلّت ناک عذاب جھیلتے رہو کیونکہ تم تکبر کی و جہ سے اللہ تعالیٰ کے احکام کا انکار کرتے اور اس کی ذات کے بارے میں حقیقت کے خلاف باتیں کرتے تھے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ پر افترابازی کرنا بہت بڑا ظلم ہے۔ ٢۔ نبوت کا جھوٹادعویٰ کرنے والا بہت بڑا ظالم ہوتا ہے۔ ٣۔ فاسق لوگوں کو موت کے وقت ہی سزا شروع ہوجاتی ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کے ذمہ خود ساختہ باتیں لگانے والوں کو ذلت آمیز عذاب ہوگا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کو کم تر سمجھنے والوں کو سخت ترین عذاب دیا جائے گا۔  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٩٣ تا ٩٤۔ حضرت قتادہ (رض) اور حضرت ابن عباس (رض) سین یہ روایت ہے کہ یہ آیت مسیلمہ کذاب اور اس کی بیوی سجاح بنت حارث کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور اسود عنسی کے بارے میں بھی ۔ یہی لوگ تھے جنہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں نبوت کا دعوی کیا تھا ۔ انہوں نے یہ دعوی بھی کیا ... تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر وحی نازل کی ہے ۔ رہی یہ بات کہ (آیت) ” سانزل مثل ما انزل اللہ “۔ (٦ : ٩٣) یا جس نے کہا کہ ” میری طرف بھی وحی آئی ہے ۔ “ تو حضرت ابن عباس کی ایک روایت میں ہے کہ اس سے مراد عبداللہ ابن سعد ابن ابی سرح ہیں ۔ یہ ایمان لائے تھے ۔ اور یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کاتب وحی تھے ۔ جب سورة المومنون کی یہ آیت نازل ہوئی ۔ (آیت) ” لقد خلقنا الانسان من سللۃ من طین “۔ (٢٣ : ١٢) تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے بلایا اور اسے لکھوانا شروع کیا اور جب یہ آیات یہاں تک پہنچیں ۔ (آیت) ” ثم انشانہ خلقا اخر “۔ (٢٣ : ١٤) تو عبداللہ کی تخلیق کی ان تفصیلات پر تعجب ہوا ۔ تو اس نے کہا : (آیت) ” فتبرک اللہ احسن الخلقین “۔ (٢٣ : ١٤) تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا کہ اسی طرح آیت نازل ہوئی ہے ۔ اس مقام پر عبداللہ نے شک کرلیا کہ اگر محمد سچا ہو تو پھر مجھ پر بھی ویسے ہی وحی نازل ہوگئی جس طرح ان پر نازل ہوئی اور اگر ہوں تو جس طرح انہوں نے کہا ویسا ہی میں نے بھی کہا ۔ اسی طرح وہ اسلام کو چھوڑ کر مرتد ہوگیا اور مشرکین سے دوبارہ مل گیا ۔ یہ ہے مصداق اس آیت کا ۔ (آیت) ” سانزل مثل ماانزل اللہ “۔ (٦ : ٩٣) (روایت کلبی عن عباس) یہاں سیاق کلام میں ‘ ان مشرک ظالموں کے جس انجام کا ذکر ہوا ہے وہ نہایت خوفناک ‘ کربناک اور ہراساں کنندہ ہے ۔ نظر آتا ہے کہ یہ ظالم سکرات الموت کی حالت میں ہیں اور اس حالت کے لئے لفظ غمرات کا استعمال بتایا ہے کہ ان کی حالت نہایت دردناک ہوگی ۔ فرشتے ان کی جان لینے کے لئے ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے اور فرشتوں کی یہ گرفت بھی سزا دہی کے طور پر ہوگی ۔ یہ فرشتے ان کی روح نکال لیں گے اور پھر عذاب الہی ان کے لئے حاضر ہوگا ۔ (آیت) ” وَلَوْ تَرَی إِذِ الظَّالِمُونَ فِیْ غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلآئِکَۃُ بَاسِطُواْ أَیْْدِیْہِمْ أَخْرِجُواْ أَنفُسَکُمُ الْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْہُونِ بِمَا کُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَی اللّہِ غَیْْرَ الْحَقِّ وَکُنتُمْ عَنْ آیَاتِہِ تَسْتَکْبِرُونَ (93) ” کاش تم ظالموں کو اس حالت میں دیکھ سکو جب کہ وہ سکرات موت میں ڈبکیاں کھا رہے ہوتے ہیں اور فرشتے ہاتھ بڑھا بڑھا کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ” لاؤ“ نکالو اپنی جان ‘ آج تمہیں ان باتوں کی پاداش مین ذلت کا عذاب دیا جائے گا جو تم اللہ پر تہمت رکھ کر ناحق بکا کرتے تھے اور اس کی آیات کے مقابلے میں سرکشی دکھاتے تھے “ ۔ ان کے استکبار اور سرکشی کی وجہ سے انہیں عذاب عظیم میں مبتلا ہونا ہوگا ۔ یہ توہین آمیز سزا انہیں اس لئے دی جا رہی ہے کہ انہوں نے اللہ پر افتراء باندھا ۔ ان تمام امور کے تذکرے سے اس منظر پر ایک خوفناک فضا طاری ہوجاتی ہے اور اس کو دیکھ کر انسان مارے خوف فضا طاری ہوجاتی ہے اور اس کا دیکھ کر انسان مارے خوف کے دہشت زدہ ہوجاتا ہے اور اس کا کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔ آخر میں یہ توبیخ اور جھڑک اس وقت ہوتی ہے جب وہ اللہ کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا اور اللہ تعالیٰ کا خطاب ان سے ایسے حالات میں یوں ہوتا ہے ۔ (آیت) ” وَلَقَدْ جِئْتُمُونَا فُرَادَی کَمَا خَلَقْنَاکُمْ أَوَّلَ مَرَّۃٍ (٦ : ٩٤) (اور اللہ فرمائے گا) ” لو اب تم ویسے ہی تنا تنہا ہمارے سامنے حاضر ہوگئے ہو جیسا کہ ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ اکیلا پیدا کیا تھا “۔ اب تمہارے پاس فقط تمہاری ذات ہے ۔ تم بالکل اکیلے ہو ‘ تم اپنے رب کے سامنے گروہ کی شکل میں نہ ہوگے بلکہ فردا فردا جس طرح تم ماں کے پیٹ سے اکیلے اس جہان میں آئے تھے ‘ ننگا جسم اور بےیارومددگار ۔ اب تم سے تمہارے تمام یارومددگار دور ہوچکے ہیں ۔ ہر سہارا اور وسیلہ تم سے دور ہوچکا ہے ۔ اب تمہیں ان چیزوں پر بھی اختیارات حاصل نہیں ہیں جنہیں اللہ نے تمہاری ملکیت میں دیا تھا ۔ (آیت) ” وَتَرَکْتُم مَّا خَوَّلْنَاکُمْ وَرَاء ظُہُورِکُمْ “ (٦ : ٩٤) ” جو کچھ ہم نے تمہیں دنیا میں دیا تھا ‘ وہ سب تم پیچھے چھوڑ آئے ہو “۔ وہ مال وزینت جس کے تم دنیا میں مالک تھے ‘ وہ تم سے پیچھے رہ گیا ہے ۔ اولاد اور مرتبہ تم سے پیچھے رہ گیا ہے ۔ قوت اور اختیارات سب کے سب ختم ہوگئے ۔ یہ سب چیزیں دنیا میں رہ گئیں اور اب تمہارے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے اور نہ کسی دنیاوی امر پر اب تمہیں کوئی اختیار حاصل ہے ۔ (آیت) ” وَمَا نَرَی مَعَکُمْ شُفَعَاء کُمُ الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ أَنَّہُمْ فِیْکُمْ شُرَکَاء (٦ : ٩٤) ” اور اب ہم تمہارے ساتھ تمہارے ان سفارشیوں کو بھی نہیں دیکھتے جن کے متعلق تم سمجھتے تھے کہ تمہارے کام بنانے میں ان کا بھی کچھ حصہ ہے ۔ ‘ یہ لوگ جن کے بارے میں تم سمجھتے تھے کہ یہ لوگ مشکلات میں تمہاری سفارش کریں گے اور تم انہیں اپنی زندگی اور اپنے مال میں شریک ٹھہراتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ اللہ کے ہاں یہ تمہارے سفارشی ہوں گے ۔ دوسری جگہ میں آتا ہے ۔ (آیت) ” ما نعبدھم الا لیقربونا الی اللہ زلفی “۔ ہم تو ان کی بندگی صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ کے قریب کردیں ۔ “ چاہئے یہ شریک لوگ ہوں ‘ کاہن ہوں یا وقت کے حکمران ہوں ‘ یا پتھر ہوں یا حجر وشجر کے بت ہوں ‘ جنات ہوں یا ملائکہ ہوں ‘ ستارے ہوں یا سیارے ہوں یا اولیاء فقراء ہوں بتاؤ وہ کہاں ہیں ؟ بتوں کی نسبت یا ستاروں کی نسبت وہ اپنے جھوٹے خداؤں کی طرف کرتے تھے اور اپنے مال اور اپنی زندگی میں یہ لوگ انہیں شریک بناتے تھے ۔ اللہ میاں سوال کریں گے ‘ بتاؤ وہ کہاں گئے ؟۔ (آیت) ” لَقَد تَّقَطَّعَ بَیْْنَکُمْ “۔ (٦ : ٩٤) ” تمہارے آپس میں سب رابطے ٹوٹ گئے اور وہ سب تم سے گم ہوگئے جن کا تم زعم رکھتے تھے ۔ “ تمام رابطے ٹوٹ گئے ‘ تمام تعلقات ختم ہوگئے اور تمام اسباب اور وسیلے ختم ہوگئے ۔ اب وہ تمہارے تمام مزعومہ خدا اور الہ غائب ہوگئے ہیں ‘ جس طرح شرکاء غائب ہیں اسی طرح تمہارے مزعومہ عقائد بھی کافور ہوگئے ہیں ۔ تم دیکھ رہے ہو کہ میرے ہاں اب ان کا نہ کوئی اثر ہے نہ کوئی سفارش ہے اور نہ اثر ورسوخ ہے ۔ غرض یہ ایک ایسا منظر ہے جو انسان کو جھنجوڑ کر رکھ دیتا ہے ۔ یہ منظر نہایت ہی مجسم شکل میں اور متحرک طور پر سامنے نظر آتا ہے ۔ نفس انسانی پر اس کی چھاؤں پڑتی ہے ۔ دل میں مومن معرفت سے بھر جاتا ہے ۔ یہ سائے نہایت ہی خوفناک اور دہشتناک ہیں ۔ بیشک یہ قرآن ہی کا انداز بیان ہے اور قرآن ہی کا حصہ ہے ۔ درس نمبر ٦٦ ایک نظر میں : مناسب ہے کہ یہاں وہ تبصرہ ہمارے پیش نظر رہے جو ہم نے اس سورة پر کیا تھا ‘ اور یہ بات بھی ہمارے سامنے رہے کہ اس سورة کے مضامین دریا کی لہروں کی طرح ٹھاٹھیں مارتے ہوئے آرہے ہیں اور لہر کے پیچھے لہر چلی آرہی ہے اس کا انداز بیان اس حد تک خوبصورت اور اس قدر فصیح وبلیغ ہے کہ حسن تعبیر کے بارے میں انسان جس حد تک سوچ سکتا ہے ۔ اثر آفریں کلام کی جو آخری حد ہو سکتی ہے یہ سورة اس سے بھی آگے بڑھ رہی ہے ۔ ہم نے کہا تھا : ” یہ سورة اپنے اساسی موضوع کو ایک منفرد طریقے پر لے رہی ہے ۔ ہر لمحے ‘ ہر موقف اور ہر منظر میں اس کا انداز بیان خیرہ کن ہے ۔ جب انسان اس پر غور کرتا ہے اور اس کے مناظر کی سیر کرتا ہے تو احساس اس کے مناظر کا گرفتار ہوجاتا ہے اور ایک لمحہ کے لئے سانس رک سا جاتا ہے خصوصا جب انسان اس کے مناظر پر غور کرے ۔ اس کے زیروبم کو سمجھنے کی کوشش کرے اور اس کے اثرات کو محسوس کرے ۔ “ ” یہ سورة اپنے مشاہد ومواقف ‘ اپنے اشارات واثرات اور اپنی تقاریر وشیڈز کے ساتھ اس طرح جاری وساری ہے جس طرح کوئی لہر اور دریا اپنی امواج اور لہروں کے ساتھ جاری وساری رہتا ہے ۔ ایک لہر ساحل سے نہیں ٹکراتی کہ دوسری اٹھ رہی ہوتی ہے ۔ امواج کے اس تلاطم میں اس سورة کا دریا اپنی رفتار سے آگے بڑھتا رہتا ہے ۔ “ ” یہ سورة اپنی امواج کے اس تلاطم کے ساتھ اور اپنی لہروں کے باہم ٹکراؤ کے روشنی میں اس قدر خوبصورت نظر آتی ہے کہ انسان مسحور ہوجاتا ہے ۔ اس خوبصورتی کے ساتھ ساتھ مضامین اور مفہومات کو نہایت ہی ہم آہنگی اور خوش اسلوبی کے ساتھ ادا کیا گیا ہے اور اس قدر اثر انگیز طریقے سے مضامین پیش کئے گئے ہیں کہ انسان کے احساسات دنگ رہ جاتے ہیں ۔ نہایت ہی زندہ ‘ متحرک ‘ ہم آہنگ اور موثر صوتی اثرات کے ذریعے نفس انسانی پر ہر جہت اور ہر سمت سے اثر انداز ہو کر اسے مسحور کردیتے ہیں ۔ “ وغیرہ وغیرہ ۔ یہ تمام خصوصیات جن کا اوپر اس سورة کے بارے میں ذکر ہوا ‘ اس سبق میں پوری طرح عیاں اور نمایاں ہیں ۔ قاری یوں محسوس کرتا ہے کہ یہ مناظر اسکرین پر یکے بعد دیگرے چل رہے ہیں ۔ چمک دمک کے ساتھ سامنے آرہے ہیں ۔ جس طرح الفاظ کا سیل رواں سامنے آتا ہے ‘ اسی طرح معانی کا بھی ایک سیلاب ہے جو امڈتا چلا آرہا ہے اور دونوں کے درمیان ہم آہنگی ہے ۔ جس طرح یہ مناظر سب کچھ دکھا رہے ہیں ‘ اسی طرح لفظی تعبیر بھی پورے مفہوم و مراد کو واضح کرتی چلی جاتی ہے اور دونوں اپنے ہدف کی طرف بڑھتے چلے جاتے ہیں ۔ ان مناظر ومشاہد میں سے ہر منظر کسی نامعلوم خزانہ سے نہایت ہی چمک دمک اور نہایت ہی دل کشی ساتھ لے کر سامنے آتا ہے اور دل دل و دماغ اور قلب ونظر کو روشن کر کے غائب ہوجاتا ہے ۔ پھر الفاظ وعبارات اس طرح ہیں جس طرح ایک قدرتی چشمہ سے پانی پھوٹتا ہے ۔ عبارت یوں چلتی ہے جس طرح کہ گویا کسی منظر پر رننگ کمنٹری ہو رہی ہو اور الفاظ اور ان سے مراد مناظر دونوں نہایت تابانی کے ساتھ ہم قدم ہو کر چلتے ہیں ۔ یہ مناظر اور یہ تصورات اور یہ الفاظ ونعرے یوں چلتے ہیں جس طرح لہریں اور موجیں یکے بعد دیگرے ایک توازن کے ساتھ چلتی ہیں ۔ انسان کی نظریں ان کا تعاقب کرتی ہیں اور یوں کہ جس طرح چندھیا جائیں ‘ خیالات و تصورات کی اہل لہر ابھی ساحل کے ساتھ ٹکرا کر ختم نہیں ہوتی کہ تصورات کی اور بہت سی لہریں اٹھتی ہیں ۔ اس سبق یا اس لہر میں وہ تمام خواص نمایاں ہیں جن کا ہم نے سورة کے آغاز میں ذکر کیا ہے ۔ خوبصورتی اس لہر کی نمایاں خصوصیت ہے ‘ اس قدر خوبصورتی کہ انسان حیران رہ جاتا ہے ۔ اس سبق میں جو مناظر ہیں وہ بالکل صاف ہیں اور خوبصورتی کے اعتبار سے منتخب ہیں ۔ الفاظ ‘ عبارتیں اپنے مفہوم ومدلول کے اعتبار سے اور اپنے لفظی حسن کے اعتبار سے ار اپنے تصورات اور حقائق کے اعتبار سے نہایت ہی اعلی میعار کی اور حسین و جمیل ہیں ۔ غرض مفہوم اور حقائق موتیوں کی طرح چمکتے نظر آتے ہیں ۔ اس سبق کی خوبصورتی اور تروتازہ حسن کا اظہار اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ خود اللہ جل شانہ نے ایک منظر کے حسن و خوبی کی طرف متوجہ کیا ہے ۔ باغات کے اندر پھلوں کی تازگی اور حسن کے سلسلے میں دعوت نظارہ دی گئی ہے ۔ فرمایا گیا ہے ۔ (آیت) ” انظُرُواْ إِلِی ثَمَرِہِ إِذَا أَثْمَرَ وَیَنْعِہِ (٦ : ٩٩) ” یہ درخت جب پھلتے ہیں تو ان میں پھل آنے اور پھر ان کے پکنے کی کیفیت ذرا غور کی نظر سے دیکھو “۔ یہ براہ راست دعوت نظارہ ہے کہ اس قدرتی جمال کو دیکھو ‘ اس پر غور کرو اور لطف اندوز ہوتے رہو۔ اب ایک ایسا مقام آتا ہے کہ یہ خوبصورتی اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے ۔۔۔۔ ۔ نہایت ہی تعجب میں پڑجاتا ہے اور اس کے دل و دماغ روشن ہوجاتے ہیں ۔ اب یہ بہار اس کائنات کے دائرے سے نکل کر ماوراء کی حدود میں داخل ہوجاتی ہے ۔ اور اب یہ بہار ‘ تروتازگی اور خوبصورت بیان بدیع السماوات والارض ‘ ذات کبریا کی طرف لوٹ جاتا ہے ۔ ذات کبریا کے بارے میں یہاں جو بات کی جاتی ہے بتائی جاتی ہے اس میں معیار فصاحت وبلاغت بدستور ہے ۔ ذرا قرآن ہی کے الفاظ میں پڑھئے ۔ (آیت) ” لاَّ تُدْرِکُہُ الأَبْصَارُ وَہُوَ یُدْرِکُ الأَبْصَارَ وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ (103) ” نگائیں اس کو نہیں پاسکتیں اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے ۔ وہ نہایت ہی باریک بین اور باخبر ہے ۔ “ اب میں ایک دوسرے پہلو کو لیتا ہوں ۔ اس سبق میں ہم اس کائنات کی کھلی کتاب کو پڑھتے ہیں ۔ اس کتاب کو غافل لوگ ہر لحظہ دیکھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں مگر وہ کتاب کائنات کے عجائبات اور معجزات کو گہری نظر سے نہیں دیکھتے ۔ “ جو صاف اندھے ہیں انہیں تو کچھ نہیں ہی نہیں آتا ۔ وہ کیا دیکھیں کہ اس میں کیا کیا اعجوبے ہیں لیکن قرآن کریم کی یہ آیات ہمیں ایک ایک اعجوبے کے سامنے لاکھڑا کرتی ہیں ۔ یوں نظر آتا ہے کہ شاید اس سے پہلے ہم اس دنیا میں نہ تھے اور اب اس میں اتر رہے ہیں ۔ یہ آیات ہمیں اس کتاب کے عجیب و غریب نشانات کے سامنے کھڑا کردیتی ہیں ۔ اور ہمارے تجسس کو ان عجائبات کی طرف ابھارتی ہیں جن پر سے دنیا کے غافل انسان یونہی گزر جاتے ہیں ۔ اب ہم ایک ایسے خارق العادت اعجوبے کے سامنے ہیں جو رات کے ہر لحظہ میں رونما ہوتا رہتا ہے ‘ یہ کہ اس دنیا میں مردہ چیزوں سے زندہ اشیاء رات اور دن نمودار ہو رہی ہیں ۔ ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے کہ مردہ زمین سے یہ روئیدگی کس طرح نمودار ہو رہی ہے ؟ ہم اس کرہ ارض پر زندگی کے مختلف نمونے پاتے ہیں اور ہمارے پاس اس کے سوا کوئی اور تعبیر نہیں ہے کہ اللہ کے حکم اور فیصلے کے مطابق سب کچھ ہو رہا ہے ۔ انسان نہ تو یہ عمل کرسکتا ہے کہ کسی مردہ چیز سے زندہ چیز کو نکالے اور نہ ہی وہ اس کی حقیقت کو سمجھ سکتا ہے ۔ اب ہم زمین و آسمان کے نظام کی گردش بلکہ گردشوں کے سامنے ہیں ۔ یہ گردشیں بھی عجیب ہیں ۔ زمین کی گردش جو رات دن ہو رہی ہے ‘ نہایت ہی تعجب خیز ہے اور ہر لمحہ اور ہر سیکنڈ میں اس کی تکمیل ہو رہی ہے ۔ اب ہم خود تخلیقی انسان کے سامنے ہیں ایک ہی نفس سے انسان پیدا ہوتا ہے اور اپنی نسل کشی کے نظام سے بڑھتا جاتا ہے ۔ اب ہم نباتات اگائی کے نظام کے سامنے ہیں ۔ نباتات کو زندگی مل رہی ہے ۔ بارشیں ہو رہی ہیں ‘ پھل پھول اگ رہے ہیں ‘ کیا ہی خوبصورت ہیں اور کیا ہی خوش ذائقہ ہیں ۔ ان میں قسم قسم کے حیوانات ہیں اور عجیب و غریب مناظر ہیں ‘ اگر ہم زندہ احساس اور روشن آنکھوں سے انہیں دیکھیں تو ہر ایک میں سامان عبرت ہے ۔ اب ہم اس پوری کائنات کے سامنے ہیں ۔ اب یہ ہمیں اس طرح نظر آرہی ہے گویا ہم اسے پہلی بار دیکھ رہے ہیں ۔ یہ ایک زندی کائنات ہے ۔ وہ ہم سے پیار کرتی ہے اور ہم اس سے پیار کرتے ہیں ۔ یہ رواں دواں ہے ‘ اس کی رگ رگ میں حرکت اور دوڑ ہے ۔ یہ ہمارے احساس و شعور کا دامن پکڑتی ہے اور اپنے خالق کی بات کرنا چاہتی ہے وہ اپنی انفرادی اور انوکھی حیثیت میں اللہ کی قدرت اور اس کی ذات کے لئے دلیل وبرہان ہے ۔ یہاں آکر اچانک بات کا رخ شرک باللہ کی طرف پھرجاتا ہے اور شرک اور مشرکین کی مذمت کی جاتی ہے ۔ یہ اس کائنات کی فطرت اور اس کے وجود کے مزاج ہی کے خلاف تصور ہے ‘ یہ فطرت کائنات کے خلاف ہے ۔ جو شخص دلائل و شواہد کی اس بھری کائنات کا مطالعہ کرتا ہے اس کے آئینہ فطرت پر یہ ایک بدنما داغ نظر آتا ہے ۔ شرک اور اللہ کے ساتھ ! اس کائنات کا گہرا مطالعہ اسے یکسر ردکر دیتا ہے اور یوں غور کرنے والے کا دل گہرے ایمان سے بھر جاتا ہے ۔ قرآن کریم جب شخصیت انسانی کو ذات باری کے بارے میں خطاب کرتا ہے تو اس کا انداز بحث یہ ہوتا ہے ۔ دیکھو وہ تمہارا اور پوری کائنات کا خالق ہے اس نے اس کرہ ارض پر سب سے پہلے زندگی اور روئیدگی پیدا کی ۔ پھر اس نے تمام جانداروں اور نباتات کی زندگی میں نشوونما کا انتظام کیا اور ان کے اپنی پوری کائنات کی قوتوں کو ممدومعاون بنایا ۔ اللہ وہ ذات ہے کہ عالم اسباب اور اس کائنات کے اندر ہونے والے تمام تغیرات اور تصرفات صرف اس کی مرضی اور ادارے سے ہوتے ہیں ۔ اس دنیا کے تمام ظاہری اسباب کو اللہ ہی نے تاثیر بخشی ہوئی ہے ۔ لہذا تمہیں چاہئے کہ تم صرف اللہ کی بندگی کرو ۔ کیا تم اشارات فطرت کو نہیں پاتے ؟ کیا اس دنیا کی رنگا رنگ بو قلمونیاں انسان کے لئے برہان ناطق نہیں ہیں کی وہ صرف اللہ وحدہ کی بندگی کرے ‘ صرف اللہ ہی کے سامنے مراسم عبودیت بجا لائے اور اسی کے سامنے عاجزی اور خشوع کرے اور اس کی اطاعت کرے ؟ اس کائنات کی کھلی کتاب کو برائے مطالعہ پیش کرکے قرآن کریم یہ دعوت دیتا ہے کہ چونکہ تخلیق اس کی ہے رزق اس کا ہے ‘ کفالت اس کی ہے تو سلطنت اور بندگی بھی اس کی ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم خدائی اور خدائی کے حقوق میں اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں ۔ اسی کے لئے مراسم عبودیت بجا لائیں ‘ وہی حاکم ہو اور زندگی کے تمام امور میں وہی متصرف ہو ‘ اور اس کے سوا جو بھی ان حقوق وخصائص کا مدعی ہو اس کا انکار کیا جائے ۔ اس سبق میں آتا ہے ۔ (آیت) ” ذَلِکُمُ اللّہُ رَبُّکُمْ لا إِلَـہَ إِلاَّ ہُوَ خَالِقُ کُلِّ شَیْْء ٍ فَاعْبُدُوہُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ وَکِیْلٌ(102) ” یہ سب کام تمہارے رب کے ہیں ۔ اس کے سوا کوئی حکم نہیں ہے ۔ وہ ہر چیز کا خالق ہے ‘ پس اس کی بندگی کرو اور وہ ہر چیز کانگہبان ہے ۔ “ یہ ہے قرآن کریم کا منہاج استدلال کہ چونکہ اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور ہر چیز کا نگہبان ہے اس کے لئے بندگی اسی کی چاہئے وہی اس کا مستحق ہے ۔ اس سبق کے آخر میں ‘ کتاب کائنات کا کھولنے اور اس کے اندر سے خوارق ومعجزات دکھانے کے بعد یہ بتایا جاتا ہے کہ اس کائنات کے ہوتے ہوئے بھی جو لوگ مزید معجزات اور خوارق عادت امور کے طالب ہیں وہ نہایت ہی کم عقل ہیں ۔ بتایا جاتا ہے کہ جو لوگ اب بھی منکر ہیں وہ دلائل ومعجزات کی کمی کی وجہ سے منکر نہیں ہیں بلکہ انکی چشم بصیرت میں بینائی نہیں ہے ورنہ اس کائنات میں تو ہر طرف وجود باری اور خصائص الوہیت پر دلائل ومعجزات کے انبار لگے ہوئے ہیں اور دعوت نظارہ دیتے ہیں ۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ پر افتراء کرنے والوں اور نبوت کے جھوٹے دعویداروں سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا ؟ اس سے پہلی آیت میں بعض یہودیوں کا ذکر تھا جنہوں نے ضد اور عناد کے جوش میں کہہ دیا کہ اللہ نے کسی بشر پر کچھ بھی نازل نہیں فرمایا۔ اب اس شخص کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولے اور اللہ کی طرف یہ بات منسوب کرے ک... ہ اس نے مجھے نبی بنایا یا کسی اور طرح سے اللہ پر افتراء کرے مثلاً یوں کہے کہ اللہ نے اپنے شریک بنا لیے ہیں یا اللہ نے کسی کو اپنا بیٹا بنا لیا ہے۔ یا یوں کہے کہ میں بھی ایسا کلام نازل کروں گا جیسا اللہ نے نازل کیا۔ مفسر ابن کثیر ج ٢ ص ١٥٧ (سَاُنْزِلُ مِثْلَ اَنْزَلَ اللّٰہُ ) کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ای من ادعی انہ یعارض ماجاء من عند اللہ من الوحی یعنی اس سے بڑھ کر کون ظالم ہوگا جو یہ دعویٰ کرے کہ اللہ نے جو کچھ وحی بھیجی ہے میں اس کا معارضہ کروں گا اور اس جیسی عبارت بنا لوں گا۔ علماء نے فرمایا کہ یہ آیت مسیلمہ کذاب کے بارے میں نازل ہوئی جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ ہی میں نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ یہ شخص تک بندی کے طور پر کچھ جملے بنا لیتا تھا اور کچھ شعبدہ بازی بھی کرلیتا تھا جب لوگوں کے سامنے قرآن مجید کا چیلنج آیا کہ اس جیسی ایک سورت بنا کر لاؤ تو اس پر بعض لوگوں نے اپنی جہالت سے کچھ جملے بنائے تھے لیکن خود ہی آپس میں ان کو ناقابل معارضہ تسلیم کرلیا تھا۔ اس کذاب نے بھی کچھ جملے بنائے تھے وہ بھی ایسے ہی جاہلانہ اور احمقانہ تھے۔ قرآن مجید کے مقابلہ میں نہ کوئی لاسکا ہے اور نہ لاسکے گا۔ بعض لوگوں کو قائد بننے اور مشہور ہونے اور عوام الناس کو معتقد بنانے کا شوق ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں نے خاتم النّبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد نبوت کے دعوے کیے۔ آپ کے بعد جتنے بھی مدعیان نبوت گزرے ہیں سب ذلیل و خوار ہوئے۔ بعض لوگوں نے مسیح موعود ہونے کا اور کسی نے مہدی بننے کا دعویٰ کیا۔ جھوٹ کا سہارا کہاں تک لیا جاسکتا ہے۔ اس طرح کے سب لوگ ذلیل ہو کر ناپید ہوگئے۔ کافروں کی ذلت موت کے وقت : جھوٹے مدعیان نبوت کو سب سے بڑا ظالم بتانے کے بعد ظالموں کی ذلت اور بد حالی اور موت کے وقت کی تکلیف کا تذکرہ فرمایا (وَ لَوْ تَرٰٓی اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَ الْمَلآءِکَۃُ بَاسِطُوْٓا اَیْدِیْھِمْ اَخْرِجُوْٓا اَنْفُسَکُمْ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْھُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ غَیْرَ الْحَقِّ وَ کُنْتُمْ عَنْ اٰیٰتِہٖ تَسْتَکْبِرُوْنَ ) (اور اگر تو دیکھے اس موقعہ کو جب کہ ظالم موت کی سختیوں میں ہوں گے اور فرشتے اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے کہہ رہے ہوں گے کہ نکالو اپنی جانوں کو۔ آج تم کو اس کے بدلہ ذلت کا عذاب دیا جائے گا کہ تم اللہ کے ذمہ وہ بات لگاتے تھے جو ناحق تھی اور تم اس کی آیات کے قبول کرنے سے تکبر کرتے تھے) ۔ یعنی آیات قبول کرنے کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے تھے۔ اور تمہارے نفسوں کو آیات کے قبول کرنے میں عار اور ذلت محسوس ہوتی تھی اور تم یہ سمجھتے تھے کہ اللہ کی آیات کے سامنے جھکنا ہماری خود داری کے خلاف ہے۔ جس نے اللہ کے ذمہ جھوٹ لگایا اور یہ کہا کہ اللہ نے کوئی چیز نازل نہیں فرمائی اور جس نے اللہ کے کلام کا معارضہ اور مقابلہ کرنے کی بات کہی اور جس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا ان لوگوں کا یہ سب عمل دنیاوی بڑائی اور جاہ و اقتدار حاصل کرنے اور حاصل شدہ قیادت اور پیشوائی اور بڑائی کی حفاظت کے لیے تھا ان کے لیے ذلت کا عذاب ہے جو موت کے وقت سے شروع ہوگا۔ کافروں کو موت کے وقت جو عذاب ہوتا ہے اس کا ذکر سورة محمد میں بھی فرمایا ہے ارشاد فرمایا (فَکَیْفَ اِذَا تَوَفَّتْھُمُ الْمَلَآءِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وَجوْھَھُمْ وَاَدْبَارَھُمْ ) (پس کیا حال ہوگا جب فرشتے ان کی جانیں نکال رہے ہوں گے، مار رہے ہوں گے ان کے چہروں اور پشتوں کو) ۔ موت کے وقت جو کافروں کو عذاب ہوتا ہے اس کی تفصیلات احادیث شریفہ میں وارد ہوئی ہیں حضرت براء بن عازب (رض) سے روایت ہے جب کافر کے دنیا سے جانے کا اور آخرت کی طرف پہنچنے کا وقت ہوتا ہے تو اس وقت آسمان سے سیاہ چہروں والے فرشتے نازل ہوتے ہیں ان کے ساتھ ٹاٹ ہوتے ہیں۔ وہ اس کے پاس آکر وہاں تک بیٹھ جاتے ہیں جہاں تک نظر پہنچتی ہے۔ پھر ملک الموت تشریف لاتے ہیں وہ اس کے سرکے پاس بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے خبیث جان ! تو نکل اللہ کی ناراضگی کی طرف، وہ روح اس کے جسم میں متفرق ہوجاتی ہے (یعنی جسم میں ادھر ادھر پھرتی ہے کیونکہ نکلنا نہیں چاہتی) حضرت ملک الموت (زبردستی) اس کی جان کو اس طرح نکالتے ہیں جیسے بھیگا ہوا اون سیخ پر لپٹا ہوا ہو اور طاقت کے ذریعے اس اون سے نکالا جائے جب اس کی روح کو ملک الموت اس طرح نکال لیتے ہیں تو دوسرے فرشتے جو وہاں موجودہوتے ہیں وہ پلک جھپکنے کے برابر ذراسی دیر بھی ان کے ہاتھ میں نہیں چھوڑتے ان کے ہاتھ سے لے کر ان ٹاٹوں میں رکھ دیتے ہیں جو ساتھ لے کر آئے تھے اور اس روح سے ایسی بد بو نکلتی ہے جیسے زمین پر سب سے زیادہ سٹری ہوئی نعش سے کبھی بد بو آئی ہو۔ اس روح کو لے کر وہ آسمان کی طرف چڑھ جاتے ہیں فرشتوں کی جس جماعت پر بھی گزرتے ہیں تو وہ پوچھتے ہیں یہ کون خبیث روح ہے ؟ وہ اس کا برے سے برا نام لے کر جس سے وہ دنیا میں پکارا جاتا تھا جواب دیتے ہیں کہ وہ فلاں بن فلاں ہے۔ یہاں تک کہ قریب والے آسمان تک لے جاتے ہیں۔ وہاں پہنچ کردروازہ کھلواتے ہیں تو وہ دروازہ نہیں کھولا جاتا اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة اعراف کی یہ آیت تلاوت فرمائی۔ (لَا تُفَتَّحُ لَھُمْ اَبْوَاب السَّمَآءِ وَ لَایَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخَیَاطِ ) (نہیں کھولے جائیں گے ان کے لیے آسمان کے دروازے اور نہیں داخل ہوں گے جنت میں یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ میں داخل ہوجائے) اونٹ سوئی کے ناکہ میں داخل نہیں ہوسکتا لہٰذا کافر بھی جنت میں داخل نہیں ہوسکتے۔ یہ حدیث طویل ہے جس میں اس کے بعد عذاب قبر کا ذکر ہے جو مشکوٰۃ المصابیح ص ١٤٢ پر بحوالہ مسند احمد مذکور ہے۔ پوری حدیث انشاء اللہ تعالیٰ ہم سورة اعراف کی مذکورہ بالا آیت کے ذیل میں لکھیں گے۔ معلوم ہوگیا کہ کافر کا عذاب موت کے وقت سے شروع ہوجاتا ہے اور پھر قبر میں بھی عذاب ہے۔ حشر میں بھی ہے اور اس کے بعد دوزخ میں بھی ہے۔ جو دائمی ہے، کافر کے عذاب کی ابتداء تو موت کے وقت سے ہی ہوگی اور اس کی انتہا نہیں ہے۔ ابدالآباد ہمیشہ ہمیشہ عذاب ہی میں رہے گا۔ ثَبَّتَنَا اللّٰہُ عَلَی اِلْایْمَانِ وَ اَمَاتَنَا عَلَی الْھُدٰی  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

98 یہ مشرکین کے لیے زجر ہے۔ کَذِباً سے شرک مراد ہے یعنی غیر اللہ کے تحریمات کرنا اور غیرا للہ کی نذر ونیاز وغیرہ مثل عمرو بن لحی واتباعہ القائلین بان اللہ حرم السوائب والحوامی الخ (مظھری ج 3 ص 300) اَوْ قَالَ اُوْحِیَ اِلَیَّ یہ شکوی ہے جیسا کہ مسیملہ کذاب نے نبوت اور نزول وحی کا دعویٰ کیا تھا وَمَن... ْ قَالَ سَاُنْزِلُ الخ جیسا کہ مشرکین نے کہا تھا۔ لَوْنَشَاءُ لَقُلْنَا مِثْلَ ھٰذَا۔ 99 یہ تخویف اخروی ہے غَمَرَاتِ الْمَوتِ یعنی موت کی شدائد اور سختیاں بَاسِطُوْا اَیْدِیْھِم ہاتھ پھیلانے والے روح قبض کرنے کے لیے یا مارنے کے لیے ای بالعذاب عن ابن عباس (رض) انہم یضربون وجوھھم و ادبارھم۔ وذھب بعضہم ان ھذا تمثیل لفعل الملئکۃ فی قبض ارواح الظلمۃ بفعل الغریم الملح یبسط یدہ الی من علیہ الحق ویعنف علیہ فی المطالبۃ ولا یمھلہ الخ (روح ج 7 ص 223) بِمَا کُنْتُمْ میں با سببیہ ہے یعنی عذاب تمہیں اللہ پر افتراء کرنے اور اس کی آیتوں سے انکار اور استکبار کی وجہ سے دیا جائے گا۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

93 اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم اور ناانصاف ہوگا جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹا بہتان باندھے اور جھوٹی تہمتیں لگائیں اور جھوٹی باتیں اس کی طرف منسوب کرے یا یوں کہے کہ میری جانب وحی کی گئی ہے حالانکہ اس کی جانب کچھ بھی وحی نہیں کی گئی یعنی خد کی طرف سے اس پر کوئی وحی نہیں آئی اور وہ وحی کا مدعی ہے اور اسیر...  طح اس سے زیادہ کون ظالم ہوگا جو یوں کہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کلام نازل کیا ہے میں بھی اسی جیسا کلا بنا سکتا ہوں اور لاسکتا ہوں اور اے پیغمبر ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اگر ان ظالموں اور نا انصافوں کو اس وقت دیکھتے تو بہت ہولناک اور خطرناک حالت میں دیکھتے جبکہ یہ ظالم موت کی سختیوں اور تکلیفوں میں پڑے ہونگے اور موت کے فرشتے اپنے ہاتھ پھیلا پھیلا کر اور بڑھا بڑھا کر ان سے کہتے ہونگے کہ اپنی جانوں کو نکالو آج مرتے ہی تم کو ان جھوٹی باتوں کے سبب جو تم اللہ پر گھڑا کرتے تھے اور اللہ کے ذمے ناحق کی باتیں لگا یا کرتے تھے اور اس سرکشی کی وجہ سے جو تم اللہ کی آیتوں کے مقابلہ میں کیا کرتے تھے سخت ذلیل کن اور توہین آمیز سزا دی جائے گی یعنی اگرچہ جان تو فرشتے ہی نکالیں گے لیکن ڈرانے اور مزید سختی کے لئے یہ کہتے جائیں گے کہ لائو نکالو اپنی جان کو بڑی سرکشی کرتے پھرتے تھے۔  Show more