Surat ul Anaam

Surah: 6

Verse: 95

سورة الأنعام

اِنَّ اللّٰہَ فَالِقُ الۡحَبِّ وَ النَّوٰی ؕ یُخۡرِجُ الۡحَیَّ مِنَ الۡمَیِّتِ وَ مُخۡرِجُ الۡمَیِّتِ مِنَ الۡحَیِّ ؕ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ فَاَنّٰی تُؤۡفَکُوۡنَ ﴿۹۵﴾

Indeed, Allah is the cleaver of grain and date seeds. He brings the living out of the dead and brings the dead out of the living. That is Allah ; so how are you deluded?

بیشک اللہ تعالٰی دانہ کو اور گٹھلیوں کو پھاڑنے والا ہے وہ جاندار کو بے جان سے نکال لاتا ہے اور وہ بے جان کو جاندار سے نکالنے والا ہے اللہ تعالٰی یہ ہے سو تم کہاں الٹے چلے جا رہے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Recognizing Allah Through Some of His Ayat Allah إِنَّ اللّهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَى ... Verily! It is Allah Who causes the seed grain and the fruit stone to split and sprout. Allah states that He causes the seed grain and the fruit stone to split and sprout in the ground, producing various types, colors, shapes, and tastes of grains and produce. The Ayah, فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَى (Who causes the seed grain and the fruit stone to split and sprout) is explained by the next statement, ... يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَيِّتِ مِنَ الْحَيِّ ... He brings forth the living from the dead, and it is He Who brings forth the deed from the living. meaning, He brings the living plant from the seed grain and the fruit stone, which is a lifeless and inanimate object. Allah said, وَايَةٌ لَّهُمُ الاْاَرْضُ الْمَيْتَةُ أَحْيَيْنَاهَا وَأَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ يَأْكُلُونَ And a sign for them is the dead land. We gave it life, and We brought forth from it grains, so that they eat thereof. (36:33) until, وَمِنْ أَنفُسِهِمْ وَمِمَّا لاَ يَعْلَمُونَ (as well as of their own (human) kind (male and female), and of that which they know not. (36:36) Allah's statement, وَمُخْرِجُ الْمَيِّتِ مِنَ الْحَيِّ (and it is He Who brings forth the dead from the living). There are similar expressions in meaning such as, He brings the egg from the chicken, and the opposite. Others said that it means, He brings the wicked offspring from the righteous parent and the opposite, and there are other possible meanings for the Ayah. Allah said, ... ذَلِكُمُ اللّهُ ... Such is Allah, meaning, He Who does all this, is Allah, the One and Only without partners, ... فَأَنَّى تُوْفَكُونَ then how are you deluded away from the truth. meaning, look how you are deluded from Truth to the falsehood of worshipping others besides Allah. Allah's statement,

اس کی حیرت ناک قدرت دانوں سے کھیتیاں بیج اور گٹھلی سے درخت اللہ ہی اگاتا ہے تم تو انہیں مٹی میں ڈال کر چلے آتے ہو وہاں انہیں اللہ تعالیٰ پھاڑتا ہے ۔ کونپل نکالتا ہے پھر وہ بڑھتے ہیں قوی درخت بن جاتے ہیں اور دانے اور پھل پیدا ہوتے ہیں ۔ پھر گویا اسی کی تفسیر میں فرمایا کہ زندہ درخت اور زندہ کھیتی کو مردہ بیج اور مردہ دانے سے وہ نکالتا ہے جیسے سورۃ یٰسین میں ارشاد ہے آیت ( وَاٰيَةٌ لَّهُمُ الْاَرْضُ الْمَيْتَةُ ښ اَحْيَيْنٰهَا وَاَخْرَجْنَا مِنْهَا حَبًّا فَمِنْهُ يَاْكُلُوْنَ ) 36 ۔ یس:33 ) مخرج کا عطف فالق پر ہے اور مفسرین نے دوسرے انداز سے ان جملوں میں ربط قائم کیا ہے لیکن مطلب سب کا یہی ہے اور اسی کے قریب قریب ہے ، کوئی کہتا ہے مرغی کا انڈے سے نکلنا اور مرغ سے انڈے کا نکلنا مراد ہے ۔ بد شخص کے ہاں نیک اولاد ہونا اور نیکوں کی اولاد کا بد ہونا مراد ہے ۔ وغیرہ ۔ آیت درحقیقت ان تمام صورتوں کو گھیرے ہوئے ہے ۔ پھر فرماتا ہے ان تمام کاموں کا کرنے والا اکیلا اللہ ہی ہے پھر کیا وجہ کہ تم حق سے پھر جاتے ہو؟ اور اس لا شریک کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے لگتے ہو؟ وہی دن کی روشنی کا لانے والا اور رات کے اندھیرے کا پیدا کرنے والا ہے ۔ جیسے کہ اس سورت کے شروع میں فرمایا تھا کہ وہی نور و ظلمت کا پیدا کرنے والا ہے ۔ رات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے کو دن کی نورانیت سے بدل دیتا ہے ۔ رات اپنے اندھیروں سمیت چھپ جاتی ہے اور دن اپنی تجلیوں سمیت کائنات پر قبضہ جما لیتا ہے ، جیسے فرمان ہے وہی دن رات چڑھاتا ہے ۔ الغرض چیز اور اس کی ضد اس کے زیر اختیار ہے اور یہ اس کی بے انتہا عظمت اور بہت بڑی سلطنت پر دلیل ہے ۔ دن کی روشنی اور اس کی چہل پہل کی ظلمت اور اس کا سکون اس کی عظیم الشان قدرت کی نشانیاں ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَالضُّحٰى Ǻ۝ۙ وَالَّيْلِ اِذَا سَـجٰى Ą۝ۙ ) اور جیسے اس آیت میں فرمایا آیت ( وَالَّيْلِ اِذَا يَغْشٰى Ǻ۝ۙ وَالنَّهَارِ اِذَا تَجَلّٰى Ą۝ۙ ) 92 ۔ اللیل:1-2 ) اور آیت میں ہے ( وَالنَّهَارِ اِذَا جَلّٰىهَا Ǽ۝۽ وَاللَّيْلِ اِذَا يَغْشٰـىهَا Ć۝۽ ) 91 ۔ والشمس:3-4 ) ان تمام آیتوں میں دن رات کا اور نور و ظلمت روشنی اور اندھیرے کا ذکر ہے حضرت صہیب رومی رحمتہ اللہ علیہ سے ایک بار ان کی بیوی صاحبہ نے کہا کہ رات ہر ایک کے لئے آرام کی ہے لیکن میرے خاوند حضرت صہیب کے لئے وہ بھی آرام کی نہیں اس لئے کہ وہ رات کو اکثر حصہ جاگ کر کاٹتے ہیں ۔ جب انہیں جنت یاد آتی ہے تو شوق بڑھ جاتا ہے اور یاد اللہ میں رات گزار دیتے ہیں اور جب جہنم کا خیال آ جاتا ہے تو مارے خوف کے ان کی نیند اڑ جاتی ہے ۔ سورج چاند اس کو مقرر کئے ہوئے اندازے پر برابر چل رہے ہیں کوئی تغیر اور اضطراب اس میں نہیں ہوتا ہر ایک کی منزل مقرر ہے جاڑے کی الگ گرمی کی الگ اور اسی اعتبار سے دن رات ظاہر ہوتے ہیں چھوٹے اور بڑے ہوتے ہیں جیسے فرمان ہے آیت ( ھُوَ الَّذِيْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاۗءً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا وَّقَدَّرَهٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّـنِيْنَ وَالْحِسَابَ ) 10 ۔ یونس:5 ) اسی اللہ نے سورج کو روشن اور چاند کو منور کیا ہے ان کی منزلیں مقرر کر دی ہیں اور آیت میں ہے ( لَا الشَّمْسُ يَنْۢبَغِيْ لَهَآ اَنْ تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا الَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ ) 36 ۔ یس:40 ) نہ تو آفتاب ہی سے بن پڑتا ہے کہ چاند کو جا لے اور نہ رات دن پر سبق لے سکتی ہے ہر ایک اپنے فلک میں تیرتا پھرتا ہے اور جگہ فرمایا سورج چاند ستارے سب اس کے فرمان کے ما تحت ہیں ۔ یہاں فرمایا یہ سب اندازے اس اللہ کے مقرر کردہ ہیں جسے کوئی روک نہیں سکتا جس کے خلاف کوئی کچھ نہیں کر سکتا ۔ جو ہر چیز کو جانتا ہے جس کے علم سے ایک ذرہ باہر نہیں ۔ زمین و آسمان کی کوئی مخلوق اس سے پوشیدہ نہیں ۔ عموماً قرآن کریم جہاں کہیں رات دن سورج چاند کی پیدائش کا ذکر کرتا ہے وہاں کلام کا خاتمہ اللہ جل و علا نے اپنی عزت و علم کی خبر پر کیا ہے جیسے اس آیت میں اور ( واٰیتہ لھم اللیل ) میں اور سورۃ حم سجدہ کی شروع کی آیت ( وَزَيَّنَّا السَّمَاۗءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ ڰ وَحِفْظًا ۭ ذٰلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ ) 41 ۔ فصلت:12 ) میں ۔ پھر فرمایا ستارے تمہیں خشکی اور تری میں راہ دکھانے کے لئے ہیں بعض سلف کا قول ہے کہ ستاروں میں ان تین فوائد کے علاوہ اگر کوئی اور کچھ مانے تو اس نے خطا کی اور اللہ پر چھوٹ باندھا ایک تو یہ کہ یہ آسمان کی زینت ہیں دوسرے یہ شیاطین پر آگ بن کر برستے ہیں جبکہ وہ آسمانوں کی خبریں لینے کو چڑھیں تیسرے یہ کہ مسافروں اور مقیم لوگوں کو یہ راستہ دکھاتے ہیں ۔ پھر فرمایا ہم نے عقلمندوں عالموں اور واقف کار لوگوں کیلئے اپنی آیتیں بالتفصیل بیان فرما دی ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

95۔ 1 یہاں سے اللہ تعالیٰ کی بےمثال قدرت اور کاریگری کا بیان شروع ہو رہا ہے، فرمایا :۔ اللہ تعالیٰ دانے (حب) اور گھٹلی کو، جسے کاشتکار زمین کی طے میں دبا دیتا ہے، پھاڑ کر اس سے انواع و اقسام کے درخت پیدا فرماتا ہے۔ زمین ایک ہوتی ہے پانی بھی جس سے کھیتیاں سیراب ہوتی ہیں، ایک ہی ہوتا ہے۔ لیکن جس جس چیز کے وہ دانے یا گٹھلیاں ہوتی ہیں، اس کے مطابق ہی اللہ تعالیٰ مختلف قسم کے غلو اور پھلوں کے درخت ان سے پیدا فرماتا دیتا ہے۔ کیا اللہ کے سوا بھی کوئی ہے، جو یہ کام کرتا ہو یا کر سکتا ہو ؟ 95۔ 2 یعنی دانے اور گٹھلیوں سے درخت اگا دیتا ہے جس میں زندگی ہوتی ہے اور وہ بڑھتا پھیلتا ہے اور پھل یا غلہ دیتا ہے یا وہ خوشبو دار رنگ برنگ کے پھول ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر یا سونگھ کر انسان فرحت و انبسات محسوس کرتا یا نطفے اور انڈے سے انسان اور حیوانات پیدا کرتا ہے۔ 95۔ 3 یعنی حیوانات سے انڈے، جو مردہ کے حکم میں ہیں۔ حی اور میت کی تعبیر مومن اور کافر سے بھی کی گئی ہے، یعنی مومن کے گھر میں کافر اور کافر کے گھر میں مومن پیدا کردیتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٧۔ ١] نباتات کی روئیدگی میں اللہ کی قدرتیں :۔ یہ اللہ تعالیٰ کے خالق ومالک اور قادر مطلق ہونے کی ایک بہت بڑی دلیل ہے کہ وہ ہر قسم کے غلوں کے دانوں یا بیج کو اور ہر قسم کے پھلوں کی گٹھلیوں کو پھاڑنے والا ہے غلہ کے بیج یا پھل کی گٹھلی کو جب زمین میں دبا دیا جاتا ہے پھر جب اس زمین کو سیراب کیا جاتا ہے تو یہ بیج یا گٹھلی پھٹ کردو حصوں میں بٹ جاتی ہے اور دو شاخیں نکلتی ہیں۔ ایک شاخ تو زمین کے اندر جڑ کی صورت میں نیچے کی طرف بڑھنا شروع ہوجاتی ہے اور دوسری شاخ کونپل بن کر زمین کو پھاڑ کر اس سے باہر نکل آتی ہے پھر اسی سے برگ و بار اور پھل پھول نکلنے شروع ہوجاتے ہیں اور اس بات کے باوجود کہ تخم ایک ہوتا ہے۔ زمین ایک، پانی ایک اور طبیعت ایک مگر زمین سے باہر نکلنے والی شاخ کے اثرات زمین کے اندر جانے والی شاخ سے بالکل مختلف ہوتے ہیں اور باہر نکلنے والی شاخ کے آثار بھی کئی طرح کے ہیں۔ پتوں کی شکل اور ہے پھولوں کی اور پھلوں کی اور اور ہر بیج یا گٹھلی اسی پودے کے برگ و بار پیدا کرتا ہے جس کا وہ بیج یا گٹھلی ہوتی ہے یہ سب باتیں اللہ کی قدرت کی کمال کاریگری پر دلالت کرتی ہیں۔ [٩٨] آخروی زندگی پر دلیل :۔ یہ اللہ کے خالق ومالک اور قادر مطلق ہونے کی دوسری دلیل ہے کہ وہ زندہ چیز سے مردہ اور مردہ چیز سے زندہ چیز پیدا کرتا ہے کوئی انسان یا کوئی دوسری مخلوق یہ دونوں کام نہیں کرسکتی۔ پھر جب صورت حال یہ ہے تو دوسرے اللہ کے اختیار و تصرف میں شریک کیسے بن جاتے ہیں۔ پھر مردہ سے زندہ اور زندہ سے مردہ پیدا کرنے کی بھی کئی صورتیں ہیں مثلاً اللہ نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا جو بےجان چیز ہے پھر اس کی تمام ضروریات اسی مٹی یا زمین سے وابستہ کردیں۔ پھر یہ زندہ انسان مرنے کے بعد اسی مردہ مٹی میں چلا جاتا ہے۔ اسی حقیقت سے اللہ تعالیٰ نے معاد پر استدلال فرمایا ہے مثلاً زمین سے پودے اور درخت پیدا ہوتے ہیں جن میں زندگی کے آثار موجود ہوتے ہیں پھر یہی چیزیں زمین میں مل کر پھر مردہ بن جاتی ہیں۔ یا مثلاً مرغی سے انڈا پیدا ہوتا ہے پھر انڈا سے مرغی پیدا ہوتی ہے گویا زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ پیدا ہونے کی بیشمار مثالیں اس دنیا میں موجود ہیں اور یہ سب کام ایسے ہیں جو کسی انسان یا کسی دوسری ہستی کے بس کا روگ نہیں۔ اسی پر اخروی زندگی کو قیاس کیا جاسکتا ہے اور یہ سمجھنے میں کچھ دقت پیش نہیں آتی کہ انسان کے جسم کا مٹی میں مل کر مٹی بن جانے کے بعد اللہ اسے مٹی سے ہی دوبارہ پیدا کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ اللّٰهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰى ۭ۔۔ : اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس سے تعلق رکھنے والی کچھ چیزیں بیان کرنے کے بعد دوبارہ اللہ تعالیٰ کے وجود، اس کی توحید اور کمال قدرت و علم کا بیان شروع کیا جو اس سورت کا اصل موضوع ہے۔ ” َالنَّوٰى ۭ“ یہ ” نَوَاۃٌ“ کی جمع ہے، اس لیے ترجمہ ” گٹھلیاں “ کیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ زمین کے اندر دانے کو پھاڑ کر لہلہاتا ہوا پودا اور گٹھلی کو پھاڑ کر کھجور کا ہرا بھرا درخت نکالتا ہے۔ اس کی کاری گری دیکھیے کہ مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے، نطفے اور انڈے سے جان دار، دانے اور گٹھلی سے زندہ درخت اور کافر سے مسلمان کو پیدا کرتا ہے اور زندہ سے مردہ کو نکالتا ہے، جیسے حیوان اور پرندے سے نطفہ اور انڈا، پودوں اور درختوں سے دانے اور گٹھلیاں اور مسلمان سے کافر پیدا کرتا ہے۔ یہ ہے اللہ جو تمہاری عبادت کا حق دار ہے، پھر کیسی عجیب بات ہے کہ تم شیطان کے بہکاوے میں آکر اس کے غیر کی عبادت کرنے لگتے ہو۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Mentioned in the previous verses was how obstinate and unmind¬ful of consequences the disbelievers and polytheists were. Since such evils are caused when people remain unaware of Allah and His unmatched knowledge and power, the present four verses provide the an¬tidote. Here, Allah Ta’ ala cites some samples of His Knowledge and Power, and of blessings and favours bestowed on human beings, a lit¬tle reflection in which would make every sensible person admit that feats of such magnitude cannot be accomplished by any power other than that of Almighty Allah. In the first verse (95), it was said: إِنَّ اللَّـهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَىٰ (Surely, Allah is the one who splits the seed and the pit). Pointed to here is a marvel of creation. Splitting a dry seed and pit and bringing out from it a living green tree is the act of that Most Sacred Being who is the Creator of the Universe. Human input has nothing to do with it. The most a farmer can do is to remove impediments or things harmful away from the growth path of the tender bud or shoot rising from inside the seed or pit, a tribute to the great power of the Creator. Of course, there are processes of ploughing, cleaning, softening, leveling, fertilizing and watering of land - but, the maximum these efforts can achieve is to make sure that the tender newcomer has to face no hurdle on its way up. The rest of the job, the real job, that the seed and pit split, that a bud or shoot sprout out from it, that come leaves of many wonderful kinds and colour, that come flowers and fruits (of mindboggling colours, varieties, smells and tastes), is a job taken care of by someone else. This is art and power alive which no human ingenuity can even come close to by making one leaf, one petal in that manner. Therefore, at another place in the Qur&an, it was said: أَفَرَ‌أَيْتُم مَّا تَحْرُ‌ثُونَ ﴿٦٣﴾ أَأَنتُمْ تَزْرَ‌عُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِ‌عُونَ ﴿٦٤﴾ that is, ` Do you see the seed that you sow? Do you make it grow, or are We the One who makes it grow [ the real Creator to whom its growth has to be attributed ]? - 56-63.& Then, it was said: يُخْرِ‌جُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَمُخْرِ‌جُ الْمَيِّتِ مِنَ الْحَيِّ (He brings forth the living from the dead, and He is the one who brings forth the dead from the living). The ` dead& or lifeless refers to cell or egg which serves to create human and animal life forms. Similarly, the expression: ` dead from the living& refers to the same cell or egg which issues forth from the living. After that, it was said: ذَٰلِكُمُ اللَّـهُ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ (That is Allah. Whereto, then, are you straying away?). In other words, the sense is that all these things have been done by Allah Ta` ala alone, yet here you are knowlingly straying away to strange directions, such as, taking self-carved idols as your removers of difficulties and fulfillers of needs and thus the objects of your worship.

خلاصہ تفسیر بیشک اللہ تعالیٰ پھاڑنے والا ہے دانہ کو اور گٹھلیوں کو (یعنی زمین میں دبانے کے بعد جو دانہ یا گٹھلی پھوٹتی ہے یہ اللہ ہی کا کام ہے) وہ جاندار (چیز) کو بےجان (چیز) سے نکال لاتا ہے (جیسے نطفہ سے آدمی پیدا ہوتا ہے) اور وہ بےجان (چیز) کو جاندار (چیز) سے نکالنے والا ہے (جیسے آدمی کے بدن سے نطفہ ظاہر ہوتا ہے) اللہ یہ ہے (جس کی ایسی قدرت ہے) سو تم (اس کی عبادت چھوڑ کر) کہاں ( غیر اللہ کی عبادت کی طرف) الٹے چلے جا رہے ہو وہ (اللہ تعالیٰ ) صبح (صادق) کا (رات میں سے) نکالنے والا ہے (یعنی رات ختم ہوجاتی ہے اور صبح صادق ظاہر ہوتی ہے) اور اس نے رات کو راحت کی چیز بنائی ہے (کہ سب تھکے تھکائے سو کر آرام پاتے ہیں) اور سورج اور چاند (کی رفتار) کو حساب سے رکھا ہے، (یعنی ان کی رفتار منضبط ہے جس سے اوقات کے انضباط میں سہولت ہو) یہ (کہ حساب سے ان کی رفتار ہو) ٹھہرائی ہوئی بات ہے ایسی ذات کی جو کہ قادر (مطلق) ہے (کہ اس طرح حرکت پیدا کرنے پر اس کو قدرت ہے اور) بڑے علم والا ہے (کہ اس رفتار کی مصلحتیں اور حکمتیں جانتا تھا اس لئے اس خاص طرح پر ٹھہرا دیا) اور وہ (اللہ) ایسا ہے جس نے تمہارے (فائدہ کے) لئے ستاروں کو پیدا کیا (اور وہ فائدہ یہ ہے) تاکہ تم ان کے ذریعہ سے (رات کے) اندھیروں میں خشکی میں بھی اور دریا میں بھی راستہ معلوم کرسکو، بیشک ہم نے (یہ) دلائل (توحید و انعام کے) خوب کھول کھول کر بیان کر دئیے ہیں (اور گو پہنچیں گے سب کو مگر نافع) ان (ہی) لوگوں کیلئے (ہوں گے) جو (بھلے برے کی کچھ) خبر رکھتے ہیں (کیونکہ غور ایسے ہی لوگ کیا کرتے ہیں) اور وہ (اللہ) ایسا ہے جس نے تم (سب) کو (اصل میں) ایک شخص سے (کہ آدم (علیہ السلام) ہیں) پیدا کیا پھر (آگے تو توالد و تناسل کا اس طرح سلسلہ جاری چلا آرہا ہے کہ تم میں سے ہر شخص کے لئے مرتبہ مادہ میں) ایک جگہ زیادہ رہنے کی ہے، (یعنی ماں کا رحم) اور ایک جگہ چندے رہنے کی (یعنی باپ کی پشت لقولہ تعالیٰ (آیت) (من بین الصلب) بیشک ہم نے (یہ) دلائل (بھی توحید و انعام کے) خوب کھول کھول کر بیان کردیئے ہیں (عام طور پر مگر ان کا نفع بھی مثل سابق) ان (ہی) لوگوں کے لئے (ہوگا) جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں (یہ تفصیل ہوگئی يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ الخ کی) ۔ معارف و مسائل پچھلی آیات میں کفار و مشرکین کی ہٹ دھرمی اور حقائق و نتائج سے غفلت کا تذکرہ تھا، اور ان سب خرابیوں کی اصل بنیاد خدا تعالیٰ اور اس کے بےمثال علم وقدرت سے بیخبر ی ہے، اس لئے مذکورہ چار آیات میں حق تعالیٰ نے غافل انسان کے اس روگ کا علاج اس طرح فرمایا ہے کہ اپنے وسیع علم اور عظیم قدرت کے چند نمونے اور انسان پر اپنے انعامات و احسانات کا ایک سلسلہ ذکر فرمایا، جن میں ادنیٰ غور کرنے سے ہر سلیم الفطرت انسان خالق کائنات کی عظمت اور بےمثال قدرت کا اور اس بات کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ عظیم الشان کارنامے ساری کائنات میں سوائے خدا تعالیٰ کے کسی کی قدرت میں نہیں۔ پہلی آیت میں ارشاد فرمایا : اِنَّ اللّٰهَ فَالِقُ الْحَبِّ یعنی اللہ تعالیٰ پھاڑنے والا ہے دانہ کو اور گٹھلیوں کو، اس میں قدرت کا ایک حیرت انگیز کرشمہ بتلایا گیا ہے کہ خشک دانہ اور خشک گٹھلی کو پھاڑ کر اس کے اندر سے ہرا بھرا درخت نکال دینا صرف اسی ذات پاک کا فعل ہے جو خالق کائنات ہے، انسان کے سعی و عمل کو اس میں کوئی دخل نہیں، کاشتکار کی ساری کوششوں کا حاصل اس سے زائد نہیں ہوتا کہ دانہ اور گٹھلی کے اندر سے جو نازک کونپل قدرت خداوندی نے نکالی ہے اس کی راہ سے موانع اور مضر چیزوں کو دور کردے، زمین کو ہل وغیرہ کے ذریعہ نرم کرنا پھر کھاد ڈالنا پانی دینا ان سب اعمال کا اثر زیادہ سے زیادہ یہی ہے کہ نکلنے والی نازک کونپل کی راہ میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے، باقی اصل کام کہ دانہ اور گٹھلی پھٹ کر اس میں سے درخت کی کونپل نکلے اور پھر اس میں رنگ برنگ کے عجیب و غریب پتے اور پھر ایسے پھل پھول لگیں کہ انسان کی عقل و دماغ اس کا ایک پتہ یا ایک پنکھڑی بنانے سے عاجز ہے، اس میں ظاہر ہے کہ کسی انسانی عمل کو دخل نہیں، اسی لئے قرآن میں دوسری جگہ ارشاد فرمایا : (آیت) افرایتم ما تحرثون، یعنی کیا تم ان دانوں کو نہیں دیکھتے جن کو تم مٹی میں ڈال دیتے ہو کہ ان کو تم نے بویا اور بنایا ہے یا ہم نے۔ دوسرا جملہ یہ ارشاد فرمایا يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ ، یعنی اللہ تعالیٰ ہی بےجان چیزوں میں سے جاندار چیزوں کو پیدا کرتا ہے، بےجان سے مراد نطفہ یا انڈا ہے، جن سے انسان اور حیوانات کی تخلیق ہوتی ہے، اسی طرح جانداروں سے بےجان چیزیں نکال دیتا ہے، یہاں بےجان چیزوں سے مراد وہی نطفہ اور انڈا ہے کہ وہ جاندار چیزوں سے نکلتا ہے۔ اس کے بعد فرمایا : ذٰلِكُمُ اللّٰهُ فَاَنّٰى تُؤ ْفَكُوْنَ ، یعنی یہ سب کام صرف ایک اللہ تعالیٰ کے لئے اور بنائے ہوئے ہیں، پھر یہ جانتے بوجھتے ہوئے تم کس طرف بہکے چلے جا رہے ہو کہ خود تراشیدہ بتوں کو اپنا مشکل کشا اور حاجت روا معبود کہنے لگے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ اللہَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰى۝ ٠ۭ يُخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَيِّتِ مِنَ الْـحَيِّ۝ ٠ۭ ذٰلِكُمُ اللہُ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ۝ ٩٥ فلق الفَلْقُ : شقّ الشیء وإبانة بعضه عن بعض . يقال : فَلَقْتُهُ فَانْفَلَقَ. قال تعالی: فالِقُ الْإِصْباحِ [ الأنعام/ 96] ، إِنَّ اللَّهَ فالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوى [ الأنعام/ 95] ، فَانْفَلَقَ فَكانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ [ الشعراء/ 63] ، وقیل للمطمئنّ من الأرض بين ربوتین : فَلَقٌ ، وقوله : قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ [ الفلق/ 1] ، أي : الصّبح، وقیل : الأنهار المذکورة في قوله : أَمَّنْ جَعَلَ الْأَرْضَ قَراراً وَجَعَلَ خِلالَها أَنْهاراً [ النمل/ 61] ، وقیل : هو الکلمة التي علّم اللہ تعالیٰ موسیٰ فَفَلَقَ بها البحر، والْفِلْقُ : الْمَفْلُوقُ ، کالنّقض والنّكث للمنقوض والمنکوث، وقیل الْفِلْقُ : العجب، والْفَيْلَقُ كذلك، والْفَلِيقُ والْفَالِقُ : ما بين الجبلین وما بين السّنامین من ظهر البعیر . ( ف ل ق ) الفلق ( ض ) کے معنی کسی چیز کو پھاڑنے اور اس کے ایک ٹکڑے کو دوسرے سے الگ کرنے ہیں ۔ محاورہ ہے ۔ فلقتہ میں اسے پھاڑ دیا فانفلق چناچہ وہ چیز پھٹ گئ۔ قرآن میں ہے : فالِقُ الْإِصْباحِ [ الأنعام/ 96] وہی رات کے اندھیرے سے ) صبح کی روشنی پھاڑ نکالتا ہے ۔إِنَّ اللَّهَ فالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوى [ الأنعام/ 95] بیشک خدا ہی والے اور کٹھلی کو پھاڑ کر ان سے درخت وغیرہ اگاتا ہے ۔ فَانْفَلَقَ فَكانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ [ الشعراء/ 63] تو دریا پھٹ گیا اور ہر ایک ٹکڑہ یوں ہوگیا یا بڑا پہاڑ ہے ۔ اور دوٹیلوں کے درمیان پست جگہ کو بھی فلق کہاجاتا ہ اور آیت کریمہ : قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ [ الفلق/ 1] کہو کہ میں صبح پروردگار کی پناہ مانگتا ہوں ۔ میں فلق سے مراد صبح ہے بعض نے کہا ہے کہ اس سے نہریں مراد ہیں جن کا آیت کریمہ : أَمَّنْ جَعَلَ الْأَرْضَ قَراراً وَجَعَلَ خِلالَها أَنْهاراً [ النمل/ 61] بھلا کس نے زمین کو قراسگاہ بنایا اور اس کے بیچ نہریں بنائیں ۔ میں تذکرہ پایا جاتا ہے ۔ اور بعض نے وہ کلمہ مراد لیا ہے جس کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تعلیم دی تھی اور انہوں نے اس کی برکت سے سمندر پھاڑ دیا تھا اور فلق بمعنی مفلوق ہے جس طرح کہ نقض بمعنی منقوض اور نکث بمعنی منکوث آتا ہے بعض نے کہا ہے کہ فلق اور فیلق کے معنی تعجب کے ہیں اور دو پہاڑوں کی درمیانی جگہ کو فیلق وفالق کہاجاتا ہے اور اونٹ کی دوکہاں کے درمیانی حصہ کو بھی فلیق وفالق کہتے ہیں ۔ حب ( دانه) الحَبُّ والحَبَّة يقال في الحنطة والشعیر ونحوهما من المطعومات، والحبّ والحبّة في بزور الریاحین، قال اللہ تعالی: كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ [ البقرة/ 261] ، وقال : وَلا حَبَّةٍ فِي ظُلُماتِ الْأَرْضِ [ الأنعام/ 59] ، وقال تعالی: إِنَّ اللَّهَ فالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوى [ الأنعام/ 95] ، وقوله تعالی: فَأَنْبَتْنا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ [ ق/ 9] ، أي : الحنطة وما يجري مجراها ممّا يحصد، وفي الحدیث : «كما تنبت الحبّة في حمیل السیل» ( ج ب ب ) الحب والحبۃ ( فتحہ حاء ) گندم ۔ جو وغیرہ مطعومات کے دانہ کو کہتے ہیں ۔ اور خوشبو دار پودوں اور پھولوں کے بیج کو حب وحبۃ کہا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ [ البقرة/ 261]( ان کے دلوں ) کی مثال اس دانے کی سی ہے جس سے سات بالیں اگیں اور ہر ایک بالی میں سو سودانے ہوں ۔ وَلا حَبَّةٍ فِي ظُلُماتِ الْأَرْضِ [ الأنعام/ 59] اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ ایسا نہیں ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ فالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوى [ الأنعام/ 95] بیشک خدا ہی دانے اور گھٹلی کو پھاڑ کر ( ان سے درخت اگاتا ہے ۔ ) اور آیت کریمۃ ؛۔ فَأَنْبَتْنا بِهِ جَنَّاتٍ وَحَبَّ الْحَصِيدِ [ ق/ 9] اور اس باغ سے دلبستان اگائے اور اناج ۔ میں حب الحصید سے گندم وغیرہ مراد ہے جو کاٹا جاتا ہے اور حدیث میں ہے ۔ کما تنبت الحبۃ فی جمیل السیل ۔ جیسے گھاس پات کے بیج جو سیلاب کے بہاؤ میں آگ آتے ہیں ۔ ( النوی) ، جمع نواة، اسم جامد لبذر التمر ونحوه، والألف فيه منقلبة عن ياء أصله النوي بياء في آخره، جاءت متحرکة بعد فتح قلبت ألفا، وزنه فعل بفتحتین . خرج خَرَجَ خُرُوجاً : برز من مقرّه أو حاله، سواء کان مقرّه دارا، أو بلدا، أو ثوبا، وسواء کان حاله حالة في نفسه، أو في أسبابه الخارجة، قال تعالی: فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] ، ( خ رج ) خرج ۔ ( ن) خروجا کے معنی کسی کے اپنی قرار گاہ یا حالت سے ظاہر ہونے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ قرار گاہ مکان ہو یا کوئی شہر یا کپڑا ہو اور یا کوئی حالت نفسانی ہو جو اسباب خارجیہ کی بنا پر اسے لاحق ہوئی ہو ۔ قرآن میں ہے ؛ فَخَرَجَ مِنْها خائِفاً يَتَرَقَّبُ [ القصص/ 21] موسٰی وہاں سے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ۔ أنى أَنَّى للبحث عن الحال والمکان، ولذلک قيل : هو بمعنی كيف وأين ، لتضمنه معناهما، قال اللہ عزّ وجل : أَنَّى لَكِ هذا [ آل عمران/ 37] ، أي : من أين، وكيف . ( انیٰ ) انی۔ یہ حالت اور جگہ دونوں کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اس لئے بعض نے کہا ہے کہ یہ بمعنیٰ این اور کیف ۔ کے آتا ہے پس آیت کریمہ ؛۔ { أَنَّى لَكِ هَذَا } ( سورة آل عمران 37) کے معنی یہ ہیں کہ کھانا تجھے کہاں سے ملتا ہے ۔ أفك الإفك : كل مصروف عن وجهه الذي يحق أن يكون عليه، ومنه قيل للریاح العادلة عن المهابّ : مُؤْتَفِكَة . قال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكاتُ بِالْخاطِئَةِ [ الحاقة/ 9] ، وقال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم/ 53] ، وقوله تعالی: قاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ [ التوبة/ 30] أي : يصرفون عن الحق في الاعتقاد إلى الباطل، ومن الصدق في المقال إلى الکذب، ومن الجمیل في الفعل إلى القبیح، ومنه قوله تعالی: يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ [ الذاریات/ 9] ، فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ [ الأنعام/ 95] ، وقوله تعالی: أَجِئْتَنا لِتَأْفِكَنا عَنْ آلِهَتِنا [ الأحقاف/ 22] ، فاستعملوا الإفک في ذلک لمّا اعتقدوا أنّ ذلک صرف من الحق إلى الباطل، فاستعمل ذلک في الکذب لما قلنا، وقال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ جاؤُ بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ [ النور/ 11] ( ا ف ک ) الافک ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنے صحیح رخ سے پھیردی گئی ہو ۔ اسی بناء پر ان ہواؤں کو جو اپنا اصلی رخ چھوڑ دیں مؤلفکۃ کہا جاتا ہے اور آیات کریمہ : ۔ { وَالْمُؤْتَفِكَاتُ بِالْخَاطِئَةِ } ( سورة الحاقة 9) اور وہ الٹنے والی بستیوں نے گناہ کے کام کئے تھے ۔ { وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوَى } ( سورة النجم 53) اور الٹی ہوئی بستیوں کو دے پٹکا ۔ ( میں موتفکات سے مراد وہ بستیاں جن کو اللہ تعالیٰ نے مع ان کے بسنے والوں کے الٹ دیا تھا ) { قَاتَلَهُمُ اللهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ } ( سورة التوبة 30) خدا ان کو ہلاک کرے ۔ یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں ۔ یعنی اعتقاد و حق باطل کی طرف اور سچائی سے جھوٹ کی طرف اور اچھے کاموں سے برے افعال کی طرف پھر رہے ہیں ۔ اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ { يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ } ( سورة الذاریات 9) اس سے وہی پھرتا ہے جو ( خدا کی طرف سے ) پھیرا جائے ۔ { فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ } ( سورة الأَنعام 95) پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ { أَجِئْتَنَا لِتَأْفِكَنَا عَنْ آلِهَتِنَا } ( سورة الأَحقاف 22) کیا تم ہمارے پاس اسلئے آئے ہو کہ ہمارے معبودوں سے پھیردو ۔ میں افک کا استعمال ان کے اعتقاد کے مطابق ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنے اعتقاد میں الہتہ کی عبادت ترک کرنے کو حق سے برعمشتگی سمجھتے تھے ۔ جھوٹ بھی چونکہ اصلیت اور حقیقت سے پھرا ہوتا ہے اس لئے اس پر بھی افک کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : { إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ } ( سورة النور 11) جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تمہیں لوگوں میں سے ایک جماعت ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٥) یعنی اللہ تعالیٰ ہر قسم کے دانوں کا پیدا کرنے والا ہے یا یہ کہ ان چیزوں کا خالق ہے جو دانوں اور گٹھلیوں میں ہے وہ گوشت کے لوتھڑے اور جانوروں کو نطفہ سے پیدا کرتا ہے پرندوں کو انڈے سے یا یہ کہ پھلوں اور بالوں کی گٹھلی اور دانہ سے جس کو ان تمام باتوں پر قدرت ہے وہی اللہ ہے اللہ ایسا نہیں کرتے تو پھر تم جھوٹ کیوں بولتے ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٥ (اِنَّ اللّٰہَ فٰلِقُ الْحَبِّ وَالنَّوٰی ط) ۔ عالم خلق کے اندر جو امور اور معاملات معمول کے مطابق وقوع پذیر ہو رہے ہیں ‘ یہاں ان کی حقیقت بیان کی گئی ہے۔ مثلاً آم کی گٹھلی زمین میں دبائی گئی ‘ کچھ دیر کے بعد وہ گٹھلی پھٹی اور اس میں سے دو پتے نکلے۔ اسی طرح پوری کائنات کا نظام چل رہا ہے۔ بظاہر یہ سب کچھ خود بخود ہوتا نظر آرہا ہے ‘ مگر حقیقت میں یہ سب کچھ ان فطری قوانین کے تحت ہو رہا ہے جو اللہ نے اس دنیا میں فزیکل اور کیمیکل تبدیلیوں کے لیے وضع کردیے ہیں۔ اس لیے اس کائنات میں وقوع پذیر ہونے والے ہر چھوٹے بڑے معاملے کا فاعل حقیقی اللہ تعالیٰ ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کا ذکر شیخ عبدالقادر جیلانی (رض) نے اپنے وصایا میں کیا ہے۔ وہ اپنے بیٹے کو وصیت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اے میرے بچے اس حقیقت کو ہر وقت مستحضر رکھنا کہ لَا فاعلَ فی الحقیقۃ ولا مؤثِّر اِلّا اللّٰہ یعنی حقیقت میں فاعل اور مؤثر اللہ کے سوا کوئی نہیں۔ اشیاء میں جو تاثیر ہے وہ اسی کی عطا کردہ ہے ‘ اسی کے اذن سے ہے۔ تم کسی فعل کا ارادہ تو کرسکتے ہو لیکن فعل کا بالفعل انجام پذیر ہونا تمہارے اختیار میں نہیں ہے ‘ کیونکہ ہر فعل اللہ کے حکم سے انجام پذیرہو تا ہے ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

62. The one who causes the seed-grain to split open under the surface of the earth and then makes it grow and appear on the surface as a plant is no other than God. 63. To 'bring forth the living from the dead' means creating living beings out of dead matter. Likewise, 'to bring out the dead from the living' means to remove the lifeless elements from a living organism.

سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :62 یعنی زمین کی تہوں میں بیج کو پھاڑ کر اس سے درخت کی کونپل نکالنے والا ۔ سورة الْاَنْعَام حاشیہ نمبر :63 زندہ کو مردہ سے نکالنے کا مطلب بے جان مادہ سے زندہ مخلوقات کو پیدا کرنا ہے ، اور مردہ کو زندہ سے خارج کرنے کا مطلب جاندار اجسام میں سے بے جان مادوں کو خارج کرنا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

35: بے جان سے جاندار کو نکالنے کی مثال یہ ہے کہ انڈے سے مرغی نکل آتی ہے اور جاندار سے بے جان کے نکلنے کی مثال جیسے مرغی سے انڈا 36: اس ترجمے میں دو باتیں قابل ذکر ہیں۔ ایک یہ کہ بظاہر قرآن کریم میں ’’ لوگوں !‘‘ کا لفظ نظر نہیں آ رہا، لیکن در حقیقت یہ ذلکم میں جمع مخاطب کی ضمیر کا ترجمہ ہے۔ عربی کے قاعدے سے یہ جمع کی ضمیر مشار الیہ کی جمع نہیں ہوتی، بلکہ مخاطب کی جمع ہوتی ہے۔ دوسرے ’’ کوئی تمہیں بہکا کر کس اوندھی طرف لیے جا رہا ہے‘‘ اس ترجمے میں ’’ توفکون‘‘ کے صیغہ مجہول کی رعایت کی گئی ہے۔ اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ یہ ان کی خواہشات ہیں جو انہیں گمراہ کر رہی ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(95 ۔ 97) ۔ اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے توحید اور نبوت کا ذکر فرمایا تھا اب اس ڈیڑھ رکوع میں ان عجائبات موجودات دنیا کا ذکر فرمایا ہے جن کے پیدا کرنے میں وہ وحدہ لاشریک منفرد ہے مقصد ان موجودات کے ذکر فرمانے سے یہ ہے کہ مشرکین مکہ میں دوسخت عیب جو تھے اس کی اصلاح ہوجائے بڑا عیب تو بت پرستی کا تھا اس کی اصلاح موجودات پر غور کرنے سے یوں ہوسکتی ہے کہ دیکھنے میں تو وہ موجودات روز مرہ کی چیزیں معلوم ہوتی ہیں لیکن ہر شے کے پیدا کرنے میں وہ قدرت اور حکمت نہیں حاصل ہوسکتی مثلا علاوہ روایات شرعی کے عقل سے بھی یہ بات معلوم ہوسکتی ہے کہ زمین پانی پر پھیلائی گئی ہے کیونکہ جہاں زمین کو کھودا جاتا ہے وہاں پانی نکلتا ہے اب ان بادشاہوں اولوالعزم سے جو ملک کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو قبضہ میں لانے کے لیے اپنی اور اپنی فوج کی ہزارہا آدمیوں کی جانیں کھوتے ہیں اور یہ کہا جاوے کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے منفرد اپنی ذات سے پانی پر زمین بچھادی ہے۔ تم کئی بادشاہ مل کر اور اپنی فوج ساتھ لیا کرو سمندر پر زمین بچھا دو کہ دنیا سے کئی حصہ زیادہ ملک کے بادشاہ بن جائیں گے انار کی یا آم کی کچھ گٹھلیاں پرانی سوکھی ہوئی لے کر دنیا بھر کے حکیموں سے پوچھا جائے کہ ان سب گھٹلیوں کا ایک ساسوکھی لکڑی کا مزہ ہے پھر ذراعقل تو لگاؤ کہ ایک گٹھلی سے میٹھا انار اور آم اور دوسرے سے کھٹا کیونکہ پیدا ہوتا ہے ان دونوں سوالوں کے جواب میں دونوں فریق سواحیران رہنے کے کچھ جواب نہ دین گے اس سے معلوم ہوا کہ تمام مخلوقات میں سے کوئی فرد بشر اس وحدہ لاشریک کی قدرت کا شریک نہیں پھر معبود بنے کا شریک کوئی کس استحقاق اور برتے پر بن کستا ہے دوسرا عیب یہ تھا کہ وہ مر کر پھر جینے کے حکم کو جب سنتے تھے تو کبھی کہتے تھے ھذاشیء عجیب اور کبھی کہتے تھے من یحییٰ العظام وھی رمیم (٣٢۔ ١٧٨) موجودات پر غور کرنے سے اس عیب کی اصلاح یوں ہوسکتی ہے کہ جب منی جیسی رقیق چیز سے ایسی سخت ہڈیاں بنیں اور باوجود سر و تر مزاج منی کے اس طرح مختلف مزاج کے پتلے اور جسیم تنگ جائے میں اسی منی سے بن چکے ہیں اور اندھیرے میں گھبرانے والی شیٔ روح کا تعلق اس کے جسم کے ساتھ پیٹ کے اندر اندہیرے میں ہوچکا ہے تو زمین کی مٹی سے جس میں مردوں کی مٹی مل چکی ہے جس کو چاروں کیفیتوں گرم سروتر اور خشک کا خمیر کہنا چاہئے دوبارہ جسموں کا بن جانا اور کھلے روشن میدان میں روح کا تعلق ان جسموں سے ہوجانا کیا ایسا مشکل ہے جس طرح پہلی دفعہ جسم کا بننا ورروح کا تعلق مشکل تھا نہیں نہیں ہرگز نہیں شیطان نے آسمان سے اتارے جانے کے وقت اللہ تعالیٰ سے یہ کہا تھا لا تخذن من عبادک نصیبا مفروضا (٤۔ ١٨٨) اور حضرت نوح ( علیہ السلام) کی امت سے لے کر اب تک بت پرستی اور سب برے کام جو روئے زمین پر ہوتے ہیں شیطان اور اس کے شیاطینوں کے بہکانے سے ہوتے ہیں اور برے کاموں کے کرنے میں وہ شیطان کی اطاعت نکلتی ہے جو اچھے کاموں کے کرنے میں خدا کو زیبا تھی اسی واسطے ان آیات میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جس خدا نے ان کو پیدا کیا ہے اس کی عبادت میں لوگوں نے شیطانوں کو شریک ٹھہرا رکھا ہے حاصل یہ ہے کہ زمین میں لوہے کی کوئی چیز وبائی جاوے تو وہ خاک ہوجاتی ہے یہ اللہ کی قدرت ہے کہ بجائے خاک ہوجانے کے سوکھا دانہ اور خشک گٹھلی بوئی جاکر پھر ان میں سے سبز پیڑ نکلتا ہے اور اس پیڑ میں ایک دانہ سے بہت سے اناج کے دانے اور گٹھلی سے بہت سے میوے کے پھل پیدا ہوجاتے ہیں۔ بےجان انڈے سے جاندار مرغی کا بچہ پیدا ہوتا ہے اور جاندار مرغی کے پیٹ سے بےجان انڈانکلتا ہے اللہ کی یہ قدرت دیکھ کر جو لوگ اللہ کی تعظیم میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں ان کو فرمایا کہ وہ سیدھے راستے سے پھرے ہوئے ہیں یہ ایک اور اس کی قدرت کا نمونہ ہے کہ وہ قادر مطلق رات کے اندھیرے کو پھاڑ کر اس میں سے صبح کے اجالے کو نکالتا ہے تاکہ صحیح کے اجالے میں ہر ایک آدمی اپنا کام دھندا کرلے اور دن پھر کے کام دھندے سے انسان تھک جاتا ہے اس لیے اس خالق نے انسان کے آرام کے لیے رات کو پیدا کیا تاکہ رات کو انسان آرام پاکر دوسرے دن پھر کام دھندے کے قابل ہوجاوے۔ سورج اور چاند کی منزلیں اور چال اس زبردست صاحب قدرت اور صاحب علم نے اس حساب سے رکھے ہیں جس سے دن مہینہ اور سال کا حساب معلوم ہوتا ہے جس پر دین کا نماز روزہ حج زکوٰۃ کا حساب اور دنیا کے بےگنتی معاملات کا حساب منحصر ہے لوگ دین کے کاموں کا وقت ٹھہرانے کا کام سورج اور چاند سے لیتے ہیں ان کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کے اچھے بندے فرمایا ١ ؎ آسمان پر تارے اس کی قدرت کی ایک بڑی نشانی ہے جس سے جنگل اور دریا کے مسافروں کو اندھیرے راتوں میں سیدھا راستہ معلوم ہوجاتا ہے بخاری میں بغیر سند کے اور تفسیر عبد بن حمید میں مع معتبر سند کے قتادہ کا قول ہے کہ تارے آسمان کی زینت شیطانوں کی مار اور اندہیری رات میں مسافروں کو سیدھا راستہ معلوم ہوجانے کے لیے پیدا ہوئے ٢ ؎ ہیں جس کسی نے سوا اس کے تاروں سے اور کوئی کام لیا وہ غلطی پر ہے آخر کو فرمایا کہیے سب نشانیاں ان لوگوں کے لئے ہیں جن میں کچھ ہوشیاری اور جنگو کچھ سمجھ ہے جو لوگ رات دن غفلت آپ پھندے میں پھنسے ہوئے ہیں وہ ان نشانیوں سے کچھ فائدہ نہیں اٹھاسکتے اسی واسطے ایسے لوگ ان نشانیوں کے پیدا کر نیوالے کی تعظیم کو چھوڑ کر اوروں کی تعظیم میں لگے ہوئے ہیں صحیح بخاری میں زیدبن خالد جہنی (رض) کی روایت سے حدیث قدسی ہے جس میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ مینہ کا برسنا اللہ کے فضل سے جانتے ہیں وہ ایماندار ہیں اور جو لوگ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ تاروں کی تاثیر سے مینہ برسا کرتا ہے وہ کافر ہیں حاصل معنی حدیث کے یہ ہیں کہ جو لوگ تاروں میں مستقل تاثیر مینہ برسانے کے جانتے ہیں وہ مشرک ہیں کیونکہ اللہ کی قدرت میں وہ تاروں کو شریک ٹھہراتے ہیں ہاں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ تاروں کی تاثیر کا یہ ایک تجرب ہوا ہے کہ تاروں کے خاص خاص طلوع و غروب کے وقت مینہ برستا ہے وہ لوگ مشرک تو نہیں مگر غلطی پر ضرور ہیں کیونکہ با رہا ان کا تجربہ غلط ٹھہراتا ہے اس لیے سچے ایمان دار وہی ہیں جو مینہ کا برسنا اللہ کے فضل سے جانتے ہیں اس باب میں اور بھی صحیح حدیثیں ہیں ان صحیح حدیثوں کے موافق قتادہ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ جس نے سوا ان تین باتوں کے تاروں سے اور کوئی کام لیا اور یہ اعتقاد رکھا کہ تاروں میں اس کام کی مستقل تاثیر ہے تو وہ مشرک ہے ورنہ غلطی پر ہے سورة والصافات میں آویگا کہ جب شیاطین غیب کی باتیں سننے کو آسمان تک جاپہنچتے ہیں تو فرشتے تاروں کی روشنی میں سے شعلے لے کر ان کو مارتے ہیں قتادہ کے قول میں شیاطینوں کی مار کا یہی مطلب ہے :۔ ١ ؎ تفسیر فتح البیان ج ١ ص ٨٥٥۔ ٨٥٦ ٢ ؎ تفسیر الدرالمنثور ج ٣ ص ٤٣ و صحیح بخاری ج ١ ص ٤٥٤ باب فی النجوم۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(6:95) فالق۔ اسم فاعل واحد مذکر۔ فلق مصدر۔ پھاڑنے والا۔ بیج اور گٹھلی کو پھاڑ کر سبزہ نکالنے والا۔ (فالق الحب والنوی) تاریکی کو پھاڑ کر صبح کرنے والا۔ فالق الاصباح۔ الحب۔ دانہ۔ غلہ۔ گندم۔ اناج۔ اس کی جمع حبوب ہے۔ عام (دوائی وغیرہ کی گولیوں کو) بھی حب کہتے ہیں۔ النوی۔ النواۃ۔ اس کی واحد۔ کھجور کی گٹھلیاں۔ تؤفکون تم پلٹائے جاتے ہو۔ تم پھیرے جاتے ہو۔ افک سے جس کے معنی کسی شے کے اپنے اصل رض سے پھرنے کے ہیں یہاں اعتقاد میں حق سے باطل کی طرف ۔ قول میں راستی سے دروغ بیانی کی طرف اور فعل میں نکوکاری سے بدکاری کی طرف پھیرا جانا مراد ہے۔ مضارع مجہول جمع مذکر حاضر۔ ذلکم اللہ فانی تؤفکون۔ یہ ہے اللہ (ان خوبیوں والا) اور (تم دیکھو) تم کدھر بہکے چلے جا رہے ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی جب وہ پھٹتے ہیں تو ان سے ہرے بھرے کھیت اور درخت اگتے ہیں۔ (کذافی الوحیدی) توحید ونبوت اور اس کی بعض تفریعات پر بحث کے بعد اب دوبارہ سانع حکیم کے وجود کا اثبات اور اس کے کمال علم وقدرت کا بیان شرع کیا ہے جو اس سورت کا اصل موضوع ہے۔ (رازی)10 جیسے جاندار کو نطفہ سے اور نطفہ ی افضلہ کو جاندار سے سرسبز لہلہاتی کھیتی کو خشک دانے سے اور خشک دانے کو سرسبز لہلہلاتی کھیتی سے پیدا کرتا ہے۔11 سچے خدائے پاک وبر تر کو چھوڑکر اور روں کو اپنا معبود بناتے ہو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 95 تا 98 : فالق (تنہا) الحب ( تم نے چھوڑا) النوی ( ہم نے دیا) ‘ الحی ( زندہ) المیت (مردہ) الاصباح ( صبح) سکن (سکون) ‘ تقدیر ( اندازہ) ‘ النجوم ( نجم) ۔ ستارہ) مستودع ( سپرد کرنے کی جگہ) ۔ تشریح : آیت نمبر 95 تا 98 : ان آیات میں اور ان کے بعد آنیوالی چند آیات میں اللہ تعالیٰ نے شرک کو مٹانے کے لئے انسان کو بصارت اور بصیرت کی دعوت دی ہے۔ وہ معاملات فطرت جو دن رات مستقل طور پر ہوتے رہتے ہیں ‘ عموماً انسان انہیں نظر انداز کرجاتا ہے۔ اگر دیکھتا بھی ہے تو صرف ظاہر کو۔ اگر متاثر ہوتا ہے تو ان کی پرستش کرنے لگتا ہے۔ وہ نہیں دیکھتا کہ ان مظاہر فطرت کے پیچھے حقیقی خالق ومالک کون ہے۔ ؟ عام طور پر جو چیزیں پوجی جاتی ہیں وہ ہیں غذائی نباتات اور کائنات کی چھوٹی بڑی چیزیں یعنی غلہ اور پھل ‘ سورجذ چاند ستارے اور باپ ماں اولاد اور مردے۔ ہندوستان میں تلسی ‘ سورج مکھی ‘ کنول ‘ کٹھل ‘ برگدو غیرہ بھی عام طور پر پوجے جاتے ہیں کفر کا کون سا مذہب ہے جس میں چاند سروج اور ستاروں کو دیوتا او دیوی قرار نہ دیا گیا ہو یہاں تک کہ قدیم ایران ‘ ہندوستان ‘ چین ‘ قدیم مصر وغیرہ میں تو باشاہوں کو سورج کا بیٹا چاند کا بیٹا یا چاند کا باٹن تک کہا جاتا تھا اور ان کی پوجا ہوتی تھی۔ ہندوؤں میں تری مورتی کا تیسرا ممبر دیوتا و شنو ہے جو تناسل او پیدائش کا قلم دان رکھتا ہے۔ اس لئے والدین اور اولاد کی بھی پوجا ہوتی ہے۔ اگرچہ ہندوؤں میں ‘ یونانیوں میں ‘ آتش پرستوں وغیرہ میں موت کا دیوتا ہے لیکن مردہ پرستی کا جو ریکارڈ چین کے بد مذہب ‘ کنفیوشس مذہب اور ٹائو مذہب نے قائم کیا ہے وہ توحیرت ناک ہے شاید کوئی اس کا مقابلہ کرسکتا ۔ ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ زمین کی گہرائیوں میں حقیر دانہ تخم کو یہ صلاحیت عطا کرنا کہ زمین کو پھاڑ کر کونپل نکالے ‘ گھٹلیوں کو پھاڑ کر اندر سے سر نکالے اور پھر رفتہ رفتہ کھیت اور باغ بنادے۔ ابتدا سے لے کر انتہا تک ہر ہر منزل پر وہ دانہ اللہ تعالیٰ کے اشارے کا محتاج ہے۔ اس کے حکم سے وہ پیدا ہوتا ہے ‘ بڑھتا ہے ‘ پھلتا اور پھولتا ہے ان بےحقیقت چیزوں کو پوجنے والوں سے فرمایا گیا ہے کہ تم گھاس پھوس پتے ‘ پھل ‘ پھول ‘ اور درخت کی پوجا کررہے ہو۔ تمہیں تو اس طاقت کی عبادت کرنی چاہیے جو ان کے پیچھے ہے اور وہ اللہ کی ذات ہے۔ وہی اللہ ہے جو اپنی قدرت اور حکمت سے جاندار مرغی سے بےجان انڈا نکالتا ہے اور بےجان انڈے سے جاندار مرغی ‘ یہ جتنے انسان چرندے پرندے درندے جیتے ‘ جاگتے ‘ چلتے ‘ پھرتے نظر آرہے ہیں ابتدائی منزل میں بےجان نطفہ تھے اور آئندہ جتنے جاندار آئیں گے بےجان نطفوں سے آئیں گے زمین پر اور پانی میں یہی اصول کام کررہا ہے۔ کسی جاندار یا بےجان میں طاقت نہیں ہے کہ وہ اولاد پیداکرے۔ اس سلسلہ تناسل کے پیچھے صرف ایک اللہ ہی کی طاقت اور حکمت کار فرما ہے۔ جب سے دنیا قائم ہوئی ہے اور قائم رہے گی۔ روشنی ‘ اندھیرا ‘ دن رات ‘ سورج ‘ چاند اور ستاروں کا ایک خاص نظام الاوقات ہے اور ان کے راستوں میں وہ پابندی ہے جو زندگی کو ممکن بلکہ مزیددار بناتی ہے۔ اگر کبھی ذرا سا بال برابر فرق ہوجائے تو دنیا کا نظام بگڑ جائے۔ یہ ستارے کچھ روشنی تو زیادہ نہیں دیتے لیکن یہ سمندروں اور صحراؤں میں جب کہ انسان بھٹک جاتا ہے کہ کدھر جاؤں اور کدھر نہ جاؤں اس وقت یہ راستہ بتاتے ہیں۔ یہ سارا نظام فلک کون چلارہا ہے ؟ یہاں پر روشنی اور اندھیرے دن اور رات کا تذکرہ آیا ہے یہ اسیکم کس نے بنائی اور عمل کس نے کیا۔ جس طرح کام کے لئے دن ضروری ہے اسی طرح آرام کے لئے رات ضروری ہے۔ یہ ان کا باقاعدہ آنا اور جانا ‘ صحیح مدت کے لئے آنا اور صحیح مدت کے لئے جانا ‘ صحیح درجہ حرارت بڑھانا اور گھٹانا تاکہ نہ صرف زندگی چلے ‘ بلکہ کام بھی ہوتا رہے۔ اور ساتھ ساتھ آرام بھی ہوتا رہے۔ یہ کس کی قدرت ‘ حکمت اور رحمت ہے ؟ ۔ کیا یہ اللہ کی حکمت نہیں ہے کہ ایک ہی جوڑے آدم (علیہ السلام) وحوا سے اتنے اربوں اور کھربوں انسان بنادئے اور وہ بنتے ہی چلے جارہے ہیں۔ اور جس طرح پیدائش اس کے ہاتھ میں ہے اسی طرح موت بھی اس کے ہاتھ میں ہے۔ جس طرح اس نے اک اک شخص کی پیدائش کا وقت اور مقام مقرر کر رکھا ہے ‘ اسی طرح اس نے اک اک شخص کی روزی کا وقت اور مقام بھی اور پھر موت کا وقت اور مقام بھی مقررکر رکھا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو فوراً یہ حقیقت نکھر کر سامنے آجائیگی کہ ان سارے اور دوسرے کاموں میں اللہ کا کوئی شریک ہو ہی نہیں سکتا۔ لیکن ان سچائیوں کے باوجود بھی انسان بہک کر دوسرے جھوٹے معبودوں کی طرف لپکتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی زمین میں دبانے کے بعد جو دانہ یا گٹھلی پھوٹتی ہے تو یہ اللہ ہی کا کام ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس طرح اللہ تعالیٰ زمین میں پڑے ہوئے دانے کو اگاتا اور نکالتا ہے۔ اسی طرح وہ مردہ انسان کو قبر سے زندہ کرکے نکالے گا۔ اب مسلسل آیات میں نباتات، آفاق اور دیگر حوالوں سے توحید باری تعالیٰ کے دلائل دیے جاتے ہیں۔ زندگی کی پیدائش اور حرکت ایک معجزہ ہے جسے پیدا کرنا ایک طرف، اس کے بھید کو بھی کوئی نہیں پاسکتا۔ زمین میں ہر لحظہ دانوں سے پھوٹ پھوٹ کر تنا ور اور پھلنے پھولنے والے درخت نکلتے ہیں۔ خاموش، ساکن، اور سوکھی گٹھلیوں سے بلند کھجوریں پھوٹتی ہیں۔ جو زندگی دانے اور گٹھلی میں پوشیدہ ہے وہ پودے اور کھجور میں آکرظاہر اور متحرک ہوجاتی ہے۔ اس کا بھید ایک سر بستہ راز ہے جسے صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ حیات کی حقیقت اور اس کا مصدر صرف خالق کو معلوم ہے۔ انسان آج بھی پہلے انسان کی مانند ظواہر و اشکال کے سامنے کھڑا ہو کر اس کے خصائص واطوار کا مشاہدہ تو کرسکتا ہے مگر اس سے پہلے انسان کی طرح اس کے غیب سے پردہ نہیں اٹھا سکتا۔ حرکت و نشو و نما کو دیکھتا ہے مگر مصدر اور جو ہر سے ناواقف ہے۔ لیکن زندگی اپنی راہ پر رواں دواں ہے، اور معجزہ ہر لحظہ واقع ہو رہا ہے۔ زندہ کا مردہ سے نکلنا شروع سے چلا آیا ہے، یہ کائنات تھی، زمین تھی مگر اس میں حیات نہ تھی۔ پھر زندگی آئی جس کو موت میں سے نکالا گیا کیسے نکالا گیا ؟ ہم نہیں جانتے۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، کہ زندگی موت سے اور زندہ مردہ سے نکل رہا ہے ! ہر لحظہ ذرات زندوں کے اجسام و اعضا کا حصہ بن رہے ہیں اور زندہ خلیوں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ پھر اس کے برعکس ہر لحظہ زندہ خلیے مردہ ذروں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ حتی کہ ایک دن پورا زندہ جسم مردہ ہوجاتا ہے۔ اور اس پر اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی قادر نہیں۔ ابتدا میں موت سے زندگی نکالنے والا وہی تھا، پھر مردہ ذرات کو انسانی اجسام کا حصہ بنا کر زندہ کرنے والا بھی وہی ہے۔ یہ ایک ایسا چکر ہے جس کی ابتداء و انتہا اور اس کی کیفیت و نتائج کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا۔ اس میں کسی کا ذرہ بھر دخل نہیں ہے۔ سب کچھ اسی قادر وعلیم کی قدرت و علم سے ہو رہا ہے۔ زندگی اللہ کی صفت خلق سے وجود میں آئی۔ اس کے سوا اس کی جو تعبیر بھی کی جائے وہ غلط اور باطل ہے۔ یورپ کے لوگ جب سے کلیسا سے بھاگے ہیں ’ ’ گویا کہ وہ گدھے ہیں جو شیر سے بھاگے ہوں “ اسی دن سے وہ کائنات کی موت وحیات کی پیدائش کا راز معلوم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انھوں نے اللہ کے وجود کا اعتراف کرنا چھوڑ دیا۔ جس کی وجہ سے ان کوششوں کا نتیجہ صفر ہے۔ حیات پر جدید تحقیق کے نتائج : ڈاکٹر فرینک ایلن جو کینیڈا کی ایک یونیورسٹی کا بیالوجی کا پروفیسر ہے کہتا ہے : (مقالہ): ” علم کی نشو ونما اتفاقاً ہوئی ہے یا قصداً ؟ “ اس کا ترجمہ ڈاکٹر ترشاش عبدالمجید سرمانی ” اگر زندگی کسی حکمت سے اور کسی سابق منصوبے سے پیدا نہیں ہوئی تو، پھر یہ اتفاقاً پیدا ہوئی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ اتفاق کونسا ہے ؟ تاکہ ہم اس پر غور کریں اور زندگی کی پیدائش کا پتہ چلائیں۔ اتفاق اور احتمال کے نظریات کی اب کچھ درست حسابی بنیادیں موجود ہیں۔ جو انھیں ان معاملات پر منطبق کرتی ہیں۔ جہاں مطلق صحیح حکم نہ لگایا جاسکے۔ یہ نظریات ہمیں ایسے فیصلے پر پہنچاتے ہیں جو درستی سے قریب تر ہو، ریاضی کے طریقے سے اتفاق اور احتمال کا نظریہ تحقیق کے لحاظ سے بہت آگے بڑھ چکا ہے۔ حتی کہ ہم بعض ظواہر کی پیشگوئی پر قادر ہوچکے ہیں۔ جن کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ وہ اتفاق سے واقع ہوتے ہیں۔ بعض ایسی چیزیں جن کے وقوع کی ہم کوئی اور تفسیر نہیں کرسکتے۔ ان تحقیقات کی ترقی کے باعث ہم اس پر قادر ہیں کہ اتفاقاً واقع ہونے والی چیزوں میں اور ان میں جن کا اس طرح وقوع ناممکن ہے، تمیز کرسکیں۔ ہم زمانے کی ایک معین مدت میں اس وقوع کا احتمال ظاہر کرسکتے اب ہم اس چکر کو دیکھتے ہیں جو زندگی کی پیدائش میں اتفاقات کے کھیل سے ہوتا ہے۔ (معلوم رہے کہ یہ ڈاکٹر فرینکلن کا خیال ہے ورنہ اسلامی نقطۂ نظر سے کائنات میں کوئی چیز بھی اتفاقیہ طور پر نہیں ہوتی۔ ہر ایک ضابطہ، قانون وقوت، جگہ وغیرہ خدا کے ہاں مقرر ہے اور سب کچھ لگے بندھے قوانین کے مطابق ہو رہا ہے۔ ) تمام زندہ خلیوں میں پرو ٹین بنیادی مرکب ہے اور اس میں پانچ عناصر ہوتے ہیں : کاربن، ہائیڈروجن، نائٹروجن، آکسیجن اور سلفر اور ایک جزء میں ذرات کی تعداد ٤ لاکھ تک ہوتی ہے۔ چونکہ کیمیاوی عناصر کی تعداد ١٠٠ سے زائد ہے، ہر ایک کو اندازے کی غیر مرتب تقسیم پر بانٹا گیا ہے۔ پس ان پانچ عناصر کا اجتماع تاکہ وہ پروٹین کے جزئیات میں سے ایک جزیہ بن جائے، اس مادے کی کمیت کو معلوم کرنے کے لیے اس کا حساب معلوم کیا جاسکتا ہے۔ جس کو ہمیشہ کے لیے باہم ملایا جائے تاکہ وہ جزئی حاصل ہو سکے، پھر زمانے کا فاصلہ بھی معلوم ہوسکتا ہے تاکہ اس جزئی کے درجات میں اجتماع ہو سکے۔ مشہور ریاضی دان عالم شارنر یوجین نے تمام عوامل کا حساب کیا ہے اور معلوم کیا ہے کہ اتفاقیہ طور پر ایک پروٹین جزئی کا بننا ١٠؍١ کی نسبت سے ہوسکتا ہے۔ یعنی ایک کو دس تک ہر ہند سے میں فی نفسہ ضرب دینا ١٦٠ بار اور یہ ایک ایسی رقم ہے جس کا بولنا یا کلمات میں اس کی تعبیر کرنا ناممکن ہے۔ مناسب ہے کہ اس تفاعل کے لیے جتنا مادہ ضروری ہے تاکہ ایک جزئی پیدا ہو سکے۔ یہ اس ساری کائنات سے لاکھوں کروڑوں مرتبہ زیادہ ہوگا اور زمین پر صرف ایک جزئی کو پیدا کرنے کے لیے۔۔ یعنی اتفاقیہ طور پر پیدا کرنے کے لیے۔۔ لا انتہا سالوں کی ضرورت ہوگی۔ جسے اس عالم ریاضی نے اندازًا یہ بتایا ہے کہ دس کو اس کے نفس میں ٢٤٣ بار ضرب دی جائے تو اتنے سال لگیں گے۔ پروٹین لمبے سلسلوں کے ساتھ اپنی کھٹائیوں سے پیدا ہوتے ہیں۔ سو ان جزئیات کے ذریعے کس طرح تالیف پاتے ہیں ؟ جب وہ اس طریقے کے علاوہ مرکب ہوں جس سے وہ ہوتے ہیں تو زندگی کے قابل نہیں ہوتے بلکہ بعض دفعہ زہربن جاتے ہیں۔ جے بی سیتھر نے وہ طریقے شمار کیے ہیں جن سے کہ ذرات کا پروٹین کے ایک بسیط جزئی میں مرکب ہونا ممکن ہوتا ہے۔ اس نے کہا کہ دس کو اسی طرح فی نفسہ ١٨ سے ضرب دیں تو اتنے ملین اس کی تعداد ہوگی۔ اس بنا پر یہ عقلاً محال ہے کہ یہ تمام اتفاقات ایک بھی پروٹین کو پیدا کرسکیں۔ لیکن پروٹین کیمیاوی مردہ مادہ ہے اور اس میں زندگی اس وقت رینگتی ہے جب وہ عجیب بھید اس میں داخل ہوتا ہے۔ جس کی حقیقت کو ہم نہیں جانتے۔ وہ ایک غیر محدود عقل ہے (اس سے اس کی مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور یہ ایک فلسفیانہ نام ہے) اور وہ اکیلا خدا ہے جو اپنی حکمت کے ساتھ یہ پاسکتا ہے کہ یہ پروٹینی جزئی زندگی کا مسکن بن سکتی ہے، سو اس نے اس کو بنایا، اس کی تصویر کھینچی، اور اس پر زندگی کا بھید انڈیل دیا۔ مشی گن یونیورسٹی کا علوم طبیعات کا پروفیسر ڈاکٹر ایرفنگ ولیم اپنے مقالے :” مادیت تنہا کافی نہیں “ (جو اسی نام کی کتاب میں وارد ہے ! ) میں لکھتا ہے : ” سائنس ہمیں یہ بتانے سے قاصر ہے کہ وہ نہایت چھوٹے چھوٹے غیر محدوددقائق کیسے پیدا ہوتے ہیں۔ اور انھی سے تمام مادے بنتے ہیں۔ اسی طرح سائنس ہم پر یہ کھولنے سے بھی قاصر ہے کہ یہ چھوٹے چھوٹے ذرے کیونکر جمع ہوتے ہیں اور ان میں زندگی کیونکر آتی ہے۔ اس کا مدار محض اتفاقات پر ہے۔ بیشک یہ نظریہ جو دعویٰ کرتا ہے کہ ترقی یافتہ حیات کی تمام صورتیں موجودہ ترقی کی حالت تک محض اندھا دھند چھلانگوں اور اجتماعات کے باعث پہنچی ہیں بلاشبہ ایک نظریہ ہے مگر اسے قبول نہیں کیا جاسکتا، صرف فرض کیا جاسکتا ہے۔ پس یہ منطق اور دلیل کی بنیاد پر قائم نہیں ہے۔ ڈاکٹر مالکوم ونسٹر پروفیسر زوالوجی بائلر یونیورسٹی اپنے مقالے : ” سائنس میرے ایمان کو مضبوط کرتی ہے “ میں لکھتا ہے کہ : میں زوالوجی کے مطالعہ میں مشغول ہوا۔ جو ان وسیع علمی میدانوں میں سے ہے جو علم الحیاۃ سے بحث کرتے ہیں۔ اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اللہ کی ساری مخلوقات میں کائنات میں بسنے والی کوئی چیز زندوں سے زیادہ حیران کن نہیں ہے۔ تم کسی راستے کے کنارے پر اگی ہوئی کمزور سی برسیم کو دیکھو، کیا تمہیں انسان کی بنائی ہوئی تمام چیزوں اور آلات میں اتنی تابناک چیز نظر آتی ہے ؟ یہ ایک زندہ آلہ ہے جو دن رات ایک دائمی صورت میں کھڑا رہتا ہے۔ اس میں ہزار ہا کیمیاوی اور طبیعی عمل پائے جاتے ہیں۔ اور یہ سب پروٹو پلازم کی قوت کے تحت پورے ہوتے ہیں۔ یہ وہی مادہ ہے جو تمام زندہ کائنات کی ترکیب میں داخل ہوتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ پیچ در پیچ زندہ آلہ کہاں سے آیا ہے ؟ اللہ نے اس کو یوں اکیلا نہیں بنایا۔ بلکہ اس نے حیات کو پیدا کیا ہے اور اپنے نفس کی حفاظت پر اسے قادر بنایا ہے۔ یہ کہ وہ ایک نسل سے دوسری نسل تک برابر چلتا ہے اور ان تمام خاصیتوں اور امتیازات کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ جو ہمیں ایک نبات اور دوسری میں تمیز کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ زندہ چیزوں میں کثرت کا مطالعہ کرنا نہایت عجیب اور چونکا دینے والا ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی قدرت ظاہر ہوئی ہے۔ جدید نبات جس تناسلی خلیے سے بار آور ہوتی ہے وہ اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ طاقتور خورد بین کے بغیر نظر نہیں آسکتا۔ اور یہ عجیب بات ہے کہ نباتات کی صفات میں سے ہر صفت، ہر رگ، و ریشہ، ہر شاخ، ہر بیج یا پتہ ان انجینئروں کے زیر نگرانی بنتا ہے جو نہایت چھوٹے ہیں۔ وہ اس خلیے کے اندر رہ سکتے ہیں جس سے نبات پیدا ہوتی ہے۔ انجینئروں کا یہ فرقہ کروموسوم کہلاتا ہے۔ (یعنی وراثت کو نقل کرنے والے) حیات اور حیاتیات پر اسی قدر بات چیت کے بعد اب ہم قرآنی آیات کی طرف لوٹتے ہیں۔ (ذلکم اللّٰہ ربکم)[ الانعام : ١٠٢] ” یہ ہے تمہارا اللہ تمہارا رب “ جو اس دائمی مسلسل و متواتر معجزے کا موجد ہے۔ وہی اس کا حق دار ہے کہ تم اس کے آگے جھکو۔ اس کی عبودیت، خضوع، خشوع اور اتباع کا اقرار و اعلان کرو۔ پھر فرمایا : ” پھر تم کہاں اور کیونکر پھرائے جاتے ہو ؟ “ (ظلال القرآن) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ ہی بےجان سے جاندار چیزوں کو پیدا کرتا ہے۔ ٢۔ زندگی وموت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں دیکھتے ہی اپنا ایمان پختہ کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن ” اللہ “ نباتات اگانے والا ہے : ١۔ اللہ پانی سے تمہارے لیے کھیتی، زیتون، کھجور اور انگور اگاتا ہے۔ ( النحل : ١١) ٢۔ اللہ نے کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے۔ (المومنوں : ١٩) ٣۔ اللہ نے زمین میں کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے۔ ( یٰسٓ: ٣٤) ٤۔ اللہ نے پانی سے ہر قسم کی نباتات کو پیدا کیا۔ ( الانعام : ٩٩) ٥۔ اللہ نے باغات، کھجور کے درخت اور کھیتی پیدا کی جو ذائقہ کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ ( الانعام : ١٤١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(آیت) ” نمبر ٩٥۔ یہ وہ معجزہ ہے جس کے راز تک کوئی نہیں پہنچ سکا یہ تو بڑی بات ہوگی کہ کوئی یہ معجزہ کر دیکھائے ۔ کیا معجزہ ؟ یعنی زندگی کی تخلیق اور اس کی نشوونما اور اس کی حرکت ‘ ہر وقت ایک زندہ اور بڑھنے والے درخت سے مردہ بیج نکالتا ہے اور ایک بےجان گٹھلی ایک بڑھنے والے درخت سے نکلتی ہے ۔ پھر اس بیج اور اس گٹھلی کے اندر پوشیدہ زندگی ایک پودے اور ایک درخت کی شکل اختیار کرتی ہے ۔ یہ ایک خفیہ راز ہے جس کی حقیقت کا علم صرف اللہ کی ذات کریم کو ہے ۔ اس زندگی کا اصل مصدر اور منبع کیا ہے ‘ اس بات کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے ۔ انسان نے جو بھی عملی ترقی کی ہے ‘ جس قدر زندگی کے ظاہری امور کا مطالعہ کیا ہے اور جس قدر خصائص بھی متعین کئے ہیں اس کی انتہاء پر ایک راز ہے جو غائب ہے ۔ اس سلسلے میں جس طرح پہلے انسان کا علم محدود تھا اسی طرح اس آخری دور کے ترقی یافتہ انسان کا علم بھی محدود ہے ۔ انسان صرف مظاہر اور خواص حیات سے واقف ہے لیکن اسے زندگی کے اصل منبع اور اس کی اصل ماہیت کا علم نہیں ہے ۔ صورت حال یہ ہے کہ زندگی ہماری آنکھوں کے سامنے رواں دواں ہے اور یہ معجزہ ہر لحظہ واقعہ ہوتا رہتا ہے ۔ اللہ وہ ذات ہے جس نے روز اول سے ایک مردہ حالت سے انسان کو زندگی پخشی ۔ یہ کائنات تو تھی مگر انسان نہ تھا یہ زمین تھی مگر اس پر زندگی نہ تھی ۔ پھر یہ زندگی اذان الہی سے نمودار ہوئی ۔ یہ کیسے نمودار ہوئی ؟ اس کا ہمیں علم نہیں ہے اور اس وقت سے لے کر آج تک یہ زندگی مردے سے نمودار ہو رہی ہے اور مردہ ذرات زندگی کے ذریعے زندگی پاتے ہیں ۔ یہ بےجان مواد زندہ عضوی شکل اختیار کرتا ہے ‘ اور پھر یہ زندگی خلیہ انسان کے جسم میں اور تمام جانداروں کے جسم میں داخل ہوتا ہے ۔ یہ زندہ ذرات اب مزید تغیر پذیری کے ذریعے زندہ خلیے بن جاتے ہیں اور اس کے بعد یہ زندہ خلیے پھر مرجاتے ہیں ۔ کیونکہ زندہ خلیے ہر وقت مردہ خلیوں کی شکل اختیار کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ ہو یہ زندہ شخص یا جانور ایک دن مردہ ذرات کی شکل میں تبدیل ہوجاتا ہے ۔ یہ ہے مفہوم اس جملے کا ۔ (آیت) ” یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَیِّتِ مِنَ الْحَیَِّ (95) ” وہ زندہ کو مردے سے خارج کرنے والا ہے اور مردے کو زندہ سے خارج کرنے والا ہے ۔ “ اللہ کے سوا کوئی بھی یہ کام نہیں کرسکتا اور یہ بھی ناممکن ہے کہ آغاز حیات کے وقت اللہ کے سوا کوئی اور حیات پیدا کرسکے اور نہ کوئی یہ قدرت رکھتا کہ وہ مردہ ذروں کو زندہ ذروں کی شکل دے دے ۔ یہ اللہ ہی ہے جو ان زندہ ذروں کو پھر مردہ ذروں کی شکل دیتا ہے اور یہ سرکل ایک ایسا سرکل ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ اس کا آغاز کب ہوا اور کب یہ سرکل ختم ہوگا ۔ سائنس دان جو قیافے لگاتے رہتے ہیں وہ محض احتمالات ہیں ۔ اس کرہ ارض پر ظہور حیات کے خصائص کے بارے میں آج تک سائنس دانوں نے جو نظریات بیان کیے ہیں ان میں سے کوئی نظریہ بھی تشفی بخش نہیں ہے ۔ صرف یہ نظریہ تشفی بخش ہے کہ اس دنیا پر تخلیق کائنات ذات باری کا کارنامہ ہے اور یورپ میں جب قرون وسطی میں عوام کنیسہ سے بھاگ کھڑے ہوئے جس طرح بدکے ہوئے گدھے ہوں یا جس طرح شیر کے ڈر سے جانور بھاگ کھڑے ہوتے ہیں ۔ مذہب سے فرار اختیار کرنے والوں نے جب اس کرہ ارض پر تخلیق حیات کے راز کے عقدے کو حل کرنا چاہا ‘ پھر جب انہوں نے خود اس کائنات کی تخلیق کے رازوں سے پردہ اٹھانا چاہا ‘ اور یہ کام انہوں نے خدا کے نظریے کو اپناتے ہوئے کیا تو ان کی تمام مساعی ناکام رہیں اور بیسوی صدی میں اس موضوع پر جو کچھ بھی لکھا گیا وہ ایک مذاق کے سوا کچھ نہ تھا اور یہ تمام تحریریں عناد اور انکار مذہب پر مبنی تھیں اور کوئی مخلصانہ مساعی نہ تھیں ۔ ان سائنس دانوں میں سے بعض صحیح الفکر لوگوں نے اپنے عجز ناتوانی کا اعراف کیا ہے ۔ ایسے لوگوں کی باتوں سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس موضوع پر انسان کا علم کس قدر محدود ہے ۔ ہمارے ہاں بعض ایسے لوگ اب بھی موجود ہیں جو سترہویں یا انیسویں صدی کے مغربی افکار کو نقل کرتے ہیں ۔ اور دعوی کرتے ہیں کہ وہ سائنس دان ہیں اور صرف مشاہدے کے قائل ‘ جبکہ اہل مذہب عالم غیب کو ماننے والے ہوتے ہیں ۔ ایسے لوگ کو سمجھانے کے لئے میں یہاں بعض بڑے سائنس دانوں کے اقوال نقل کرنا مناسب سمجھتا ہوں مثلا بعض امریکی علماء یہاں تک پہنچے ہیں۔ ڈاکٹر فرانک ایلن ‘ کو رنل یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں اور کینیڈا کی مانٹویا یونیورسٹی میں حیاتیات کے استاد ہیں ۔ اپنے ایک مقالے میں جس کا عنوان ہے ” یہ دنیا یہ یا اتفاقا وجود میں آئی یا منصوبے کے تحت “ ۔ یہ مقالہ بتجلی فی عصر العلم کتاب ترجمہ ڈاکٹر مرداش عبدالحمید سرفان سے نقل کیا گیا ہے ۔ ” اگر یہ زندگی کسی سابقہ متعین منصوبے اور اسکیم کے تحت وجود میں نہیں لائی گئی تو پھر یہ اتفاقا وجود میں آگئی ہوگی ۔ وہ ” اتفاق “ کیا ہے ؟ معلوم ہونا چاہئے تاکہ ہم اس پر غور کریں اور دیکھیں کہ اس ” اتفاق “ کے ذریعے زندگی کا ظہور کس طرح ہوتا ہے ۔ “ ” اتفاق اور احتمال (بخت واتفاق) کے جو نظریات اس وقت پائے جاتے ہیں پہلے کی طرح نہیں ہیں ۔ دور جدید میں اب ان کے لئے ریاضی کے کچھ ٹھوس اصول اور قواعد مرتب ہوچکے ہیں اور اگر کسی موضوع پر یقینی فیصلہ نہ کی جاسکتا ہو تو ان اصولوں کے مطابق بخت واتفاق کے اصولوں کو کام میں لایا جاتا ہے اور ان اصولوں کے مطابق جو نتائج سامنے آتے ہیں وہ اقرب الی الصواب ہوتے ہیں اگرچہ ان نتائج کے غلط ہوئے کے امکان کو بھی مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ حقیقت ہے کہ ریاضی کے زاویہ سے نظریہ بخت واتفاق نے کافی ترقی کرلی ہے ۔ ان قواعد اور اصولوں کے مطابق انسان کے لئے ممکن ہوگیا ہے کہ وہ بعض واقعات کے بارے میں بات کرسکے ۔ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ واقعات اتفاقا ہوگئے ہیں اور جن کے ظہور کے اسباب و عوامل دوسرے ذرائع سے معلوم نہیں ہو سکتے ۔ (مثلا تاش کے کھیل میں پھول کا پھینکنا) ان تحقیقات کی وجہ سے انسان اس بات پر قادر ہوگیا ہے کہ وہ یہ بتا سکے کہ کیا چیز اتفاقا وجود میں آجاتی ہے اور کیا امر جو اتفاقا وجود میں نہیں آسکتا ۔ (اسلامی تصورحیات کے مطابق اس دنیا میں بخت واتفاق نہیں ہے ۔ ہر چیز کی تخلیق تقدیر الہی کے مطابق ہوتی ہے ۔ ان خلقلنا کل شیء بقدر۔ (ہم نے ہر چیز کو اندازے کے مطابق تخلیق کیا) اللہ نے تخلیق کائنات کے لئے اٹل قوانین وضع کئے ہیں ۔ جو واقعات ہوتے ہی ان ہر بار سنت الہیہ کے مطابق تقدیر الہی تصرف کرتی ہے ۔ اسی طرح یہ قوانین قدرت بھی کبھی کبھی ٹال دئیے جاتے ہیں اور ایک خارق عادت معجزہ صادر ہوجاتا ہے ۔ یہ بھی ایک خاص حکمت الہیہ کے مطابق ہوتا ہے کیونکہ یہ نوامیس فطرت اور خارق عادت بظاہر دونوں اللہ کی تقدیر کے مطابق ہوتے ہیں ۔ ہم نے جو سائنس دانوں کے حوالے دیئے ہیں تو ضروری نہیں ہے کہ ہم محولہ بالاعبارت سے پوری طرح متفق بھی ہوں) اور یہ بھی بتایا جاسکتا ہے کہ کون سا واقعہ کس قدر عرصے کے بعد اتفاقا نمودار ہوسکتا ہے ۔ اس تمہید کے بعد اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ آیا اس کرہ ارض پر زندگی کا ظہور بطور اتفاق ہو سکتا ہے ۔ “ تمام زندہ خلیوں میں پروٹین بنیادی عناصر ترکیبی ہیں ۔ یہ پروٹین پانچ عناصر سے مرکب ہوتے ہیں ۔ کاربن ہائیڈوجن ‘ نائٹروجن ‘ آکسیجن اور گندھک ۔ ایک پروٹین میں چالیس ہزار ایٹم ہوتے ہیں ، کیمیاوی عناصر کی تعداد ٢٩ ہے ۔ اور یہ سب غیر منظم اور نامعلوم مقداروں میں بکھرے ہوئے ہیں ۔ (عقل انتہائی بھی فلسفیانہ اصطلاحات میں سے ایک ہے ۔ ایک مسلمان اللہ پر صرف اس کے اسمائے حسنی ہی کا اطلاق کرسکتا ہے اس لئے اللہ پر اس لفظ کا اطلاق مناسب نہیں ہے) ان پانچ عناصر کے آپس میں ملنے کے احتمال کے تعین کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس مادے کی مقدار اور زمانے کا تعین ہو اور وہ مادہ مسلسل ان عناصر پر مشتمل مخلوطہ میں رہے اور پھر اس قدر طویل عرصے تک وہ مادہ یونہی رہے تاکہ اس عرصے میں ” اتفاقا “ واقعہ ہوجائے اور یوں ایک عدد پروٹین حاصل ہوجائے ۔ “ غرض یہ تعین ضروری ہے کہ کتنا مادہ کتنے عرصے کے لئے ضروری ہے ۔ “ ” سوئٹزر لینڈ کے ایک ریاضی دان نے کچھ حساب لگایا ہے (چار لزیوجین جے) اس نے اس کا حساب لگا کر کہا ہے کہ احتمال کے طور پر ایک پروٹین کی تشکیل پر ایک نسبت : دس کی قیمت ١٦٠ مرتبہ لگائی جائے (١ : ١٦٠ : ١) یہ اس قدر بڑی رقم بنتی ہے کہ زبان سے اس کا ادا کرنا بھی مشکل ہے نہ الفاظ کے ذریعے اسے بیان کیا جاسکتا ہے اور بطور اتفاق اس عمل کی تکمیل کے لئے یعنی ایک پروٹین کی تشکیل کے لئے اس قدر مادے کی ضرورت ہے جس کے ساتھ اس پوری کائنات کو کئی ملین بار بھرا جاسکتا ہو اور اگر صرف روئے زمین پر اتفاقا ایک پروٹین کو پیدا کرنا ہو تو اس کے لئے کئی بلین سالوں کی ضروری ہوگی اور یعنی ١٠ کی ” ٢٤٣ (٢٤٣ : ١٠) یہ زمانہ مذکور ماہر طبیات نے تجویز کیا ہے ۔ ” پروٹین اینوایسڈ کے طویل سلسلوں سے تشکیل پاتے ہیں ‘ تو سوال یہ ہے کہ ان جزئیات کے ذرات کی باہم تالیف کس طرح ہوتی ہے ؟ جس طرح ان کی تشکیل طبعی ہوتی ہے اگر اس کے سوا کسی اور طریق سے ان کی تالیف ہو تو وہ زندگی کے اہل ہی نہیں رہتے ‘ اور بعض اوقات ایسے پروٹین زہربن جاتے ہیں ۔ ایک برطانوی سکالر ۔ ج ۔ ب سیتھر (J.B.SeAther) نے حساب لگایا ہے کہ ان سلسلوں میں پروٹینی ایٹم کس تعداد میں ہوتے ہیں انکے نزدیک انکی تعداد (٤٨ : ١٠) ہوتی ہے ۔ اس لئے عقلا یہ بات محال ہے کہ احماض امینہ کا یہ پورا سلسلہ محض اتفاقی طور پر تالیف پا جائے اور دنیا میں ایک پروٹین بن جائے ۔ “ ” لیکن ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ یہ بات پیش نظر رہے کہ پروٹین ایک کیمیاوی مادہ ہے جس کے اندر کوئی زندگی نہیں ہوتی اور اس کے اندر زندگی اس وقت تک پیدا نہیں ہوتی جب تک اس کے اندر وہ خفیہ عمل نہیں ہوجاتا جو آج تک ایک عجیب راز ہے اور جس کی حقیقت کا ہمیں کوئی علم نہیں ہے اور اس بات کو صرف ” عقل لا انتہائی “ ٢۔ جانتا ہے اور یہ صرف اللہ ہے جس کی حکمت بالغہ کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے کہ یہ پروٹینی جزء مقرحیات بنتا ہے ۔ یہ حیات کی منزل ہے جسے اللہ نے بنایا ۔ اس کو ایک بہترین شکل دی ہے اور اس کو راز حیات بخشا ہے ۔ “ نباتات کی موروثی صفات کے ایک ماہر مسٹر ایرٹنگ ولیم ‘ استاد طبیعیات جامعہ ایوی مچیگن مقالے بعنوان ” صرف مادیت کافی نہیں ہے “ میں لکھتے ہیں : سائنس اس بات پر قادر نہیں ہے کہ نہایت ہی چھوٹے ایٹم لاتعداد صورت میں کس طرح وجود میں آجاتے ہیں ‘ جن سے دنیا کے تمام مادے مرکب ہوتے ہیں اور اس طرح سائنس کوئی قابل اعتماد توجیہ نہیں کرسکتی کہ ان چھوٹے چھوٹے ایٹموں سے ذی حیات جاندار کس طرح اتفاقا بن جاتے ہیں اور یہ نظریہ کہ تمام جاندار اپنی موجودہ ترقی یافتہ صورت میں بسبب حدوث غفرات عشورئیہ اور ھجائن کے تجمعات کی وجہ سے پہلے پہنچے ایک ایسا نظریہ ہے جو کسی ایسی دلیل ومنطق کی اساس پر قائم نہیں ہے جس پر اطمینان ہوتا ہو ‘ یہ بات محض تسلیم کرلینے کی وجہ سے ہی ممکن ہے ۔ “ (یہ بھی سائنس دانوں کا خبط ہے کہ عناصر کی مقدار معلوم نہیں ہے ۔ ان عناصر کی مقدار بھی مقرر ہے) باہلر یونیورسٹی کے پروفیسر طبیعیات ڈاکٹر البرٹ میکومب ونسٹر اپنے ایک مقالے کا عنوان یہ دیتے ہیں ” سائنس نے میرا ایمان باللہ کو مضبوط کردیا “۔ وہ لکھتے ہیں : ’ میں نے حیاتیات کے مطالعہ میں اپنے آپ کو مصروف رکھا ۔ حیاتیات وہ علم ہے جس کا موضوع زندگی ہے جس کا میدان مطالعہ بہت ہی وسیع ہے اور اللہ کی تمام مخلوقات میں سے زیادہ دلکش چیز اس دنیا کی زندہ مخلوق ہے ۔ “ ” ذرا پودے کو دیکھئے ‘ یہ نہایت ہی چھوٹا پودا ہے ۔ یہ راستے کے ایک کنارے پر اگا ہوا ہے ۔ کیا آپ بیشمار انسانی مصنوعات وآلات میں سے کسی چیز کو اس کے مقابلے میں پیش کرسکتے ہیں ۔ یہ ایک زندہ آلہ ہے اور مسلسل رات دن چلتا رہتا ہے ۔ اس کے اندر ہزاروں کیمیاوی عمل اور ردعمل واقعہ ہوتے رہتے ہیں ‘ طبعی تغیرات ہوتے ہیں اور پروٹوپلازم کے تحت ہوتے ہیں ۔ یہ وہ مادہ ہے جو تمام زندہ کائنات کی ترکیب میں داخل ہوتا ہے ۔ “ ” سوال یہ ہے کہ یہ زندہ اور پیچیدہ آلہ کہاں سے آگیا ؟ اسے اللہ نے صرف اس کو اس شکل میں نہیں بنایا بلکہ اللہ نے پوری زندگی کو بھی تخلیق کیا ہے اور اسے اپنے تحفظ کی قوت بھی دی ہے ۔ وہ اس زندگی کو تسلسل بھی ہے اور اس نے اس کے اندر وہ تمام خواص رکھے ہیں اور تمام خصوصی صفات اس کے اندر ودیعت کیں ہیں جن کی وجہ سے ہم ایک پودے اور دوسرے پودے کے درمیان فرق کرتے ہیں ۔ زندہ اشیاء میں اس عظیم کثرت کا مطالعہ بھی ایک عظیم اور دلچسپ موضوع ہے اور اس سے قدرت کی طاقت کی بو قلمونیوں کا اظہار ہوتا ہے ۔ وہ خلیہ جس کے ذریعے نسل کشی ہوتی ہے اور ایک نیا پودا وجود میں آتا ہے اس قدر چھوٹا ہوتا ہے کہ صرف مائیکرو سکوپ سے نظر آتا ہے ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ اس پودے کے خواص ‘ ہر رگ ‘ ہر ریشہ ‘ ہر شاخ اور ہر تنا ‘ ہر جڑ اور ہر چھوٹا ریشہ ‘ ایسے انجینئروں کی زیر نگرانی سرانجام پاتا ہے کہ یہ تمام نقوش اس چھوٹے سے خلیہ کے اندر موجود ہوتے ہیں اور اس کے اندر موجود رہتے ہیں ۔ یہ انجینئرکون ہوتے ہیں ؟ یہ کروموسوم ہوتے ہیں ۔ “ میں سمجھتا ہوں کہ اس قدر حوالے کافی ہیں اب پھر ہم دوبارہ اس حسن ادا کی طرف لوٹتے ہیں جو قرآن کریک کی عبارت میں موجود ہے ۔ : (آیت) ” ذَلِکُمُ اللّہُ رَبُّکُمْ (٦ : ١٠٢) (یہ سارے کام کرنے والا تو اللہ تمہارا رب ہے ۔ “ جو اس معجزہ حیات کا موجد ہے اور اس معجزے کا ظہور تسلسل سے ہو رہا ہے لیکن راز حیات کسی کو بھی معلوم نہیں ہے ۔ یہ ہے اللہ تعالیٰ تمہارا رب اور وہی اس بات کا مستحق ہے کہ تم لوگ اس کے حلقہ بگوش بنو ۔ اس کے ساتھ خشوع و خضوع کرو اور اس کے احکام کا اتباع کرو۔ (آیت) ” فَأَنَّی تُؤْفَکُونَ (95) ” پھر تم کدھر بہکے چلے جارہے ہو ؟ “ تم اس سچائی سے صرف نظر کر کے دوسری راہوں پر چل رہے ہو حالانکہ یہ راہ حق ہے عقلی طور پر واضح ہے ‘ دل لگتی بات ہے اور چشم بصیرت کے لئے تشفی ہے ۔ یہ معجزہ یعنی مردے سے زندہ کو نکالنا ‘ قرآن نے اس کا ذکر بار بار کیا ہے اور اس حقیقت کو بھی قرآن نے باربار دہرایا ہے کہ اللہ نے اس کائنات کو سب سے پہلے پیدا کیا گیا ہے جو بتلاتے ہیں کہ خالق خائنات وحدہ لاشریک ہے ۔ یہ اس لئے کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ خالق کائنات ایک ہے اور اسی وحدہ لا شریک کی بندگی کی ضرورت ہے ۔ عقیدہ ونظریہ میں بھی وحدہ لا شریک کو مانا جائے اور ربوبیت بھی اسی وحدہ لاشریک کی تسلیم کی جائے ۔ مراسم عبودیت بھی اسی کے سامنے بجا لائے جائیں اور زندگی کے قوانین اور ضوابط بھی اسی کے احکام سے اخذ کئے جائیں ۔ صرف اسی کے نافذ کردہ قانونی نظام یعنی شریعت کی پابندی کی جائے ۔ (اس مصنف نے اس مقالے میں برٹرینڈرسل کے اس نظریے کی تردید کی ہے کہ زندگی اتفاق کے طور پر وجود میں آتی ہے اور اتفاقا چلی جاتی ہے) قرآن کریم میں ان باتوں کا ذکر محض لاہوتی فلسفیانہ انداز میں نہیں کیا جاتا ۔ یہ دین تو بہت ہی معقول اور سنجیدہ دین ہے اور لوگوں کا وقت لاہوتی مباحث اور فلسفیانہ موشگافیوں میں ضائع نہیں کرتا ۔ دین اسلام کا مقصد صرف یہ ہے کہ لوگوں کے تصور حیات کو درست کیا جائے اور انہیں صحیح افکار اور صحیح عقائد دیئے جائیں تاکہ انکی ظاہری اور باطنی زندگی درست ہو سکے ۔ لوگوں کی زندگی کی اصلاح صرف اس صورت میں ممکن ہے کہ وہ صرف اللہ وحدہ کی بندگی کی طرف لوٹ جائیں اور اپنے جیسے انسانوں کی غلامی کا طوق اپنے گلے سے اتار پھینکیں ۔ جب تک کہ وہ اپنی پوری زندگی میں اللہ کی اطاعت اختیار نہ کرلیں اور روز مرہ کی زندگی میں اللہ وحدہ کی شریعت کو نہ اپنالیں ۔ حیات کے بارے میں ان کا عقیدہ اور نظریہ درست نہیں ہوسکتا ، ان کی زندگی میں ایسے لوگوں کا اقتدار نہ ہو جو زبردستی ان پر مسلط ہوگئے ہوں ‘ جو بالفاظ دیگر حق الوہیت کے دعویدار ہیں اور لوگوں کی زندگیوں پر اللہ کے حق حاکمیت کے بجائے وہ خود اپنا حق استعمال کرتے ہی ۔ یوں وہ اس دنیا کے جھوٹے خداؤں میں شامل ہوگئے ہیں انہوں نے لوگوں کی حیات دنیوی میں بگاڑ پیدا کردیا ہے اور یہ فساد محض اس لئے ہے کہ لوگ اللہ کے سوا کسی اور کی اطاعت کرنے لگتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان باتوں پر تعقیب یہ آتی ہے ۔ (آیت) ” ذَلِکُمُ اللّہُ فَأَنَّی تُؤْفَکُونَ (95) ” یہ سارے کام تو اللہ تمہارے رب کے ہیں پھر تم کدھر بہکے چلے جارہے ہو ؟ “ تمہاری زندگی میں ربوبیت یعنی مکمل اطاعت کا مستحق تو وہی ہے ۔ رب کا مفہوم ہے مربی ‘ جس کی طرف انسان متوجہ ہو ‘ جو سردار اور حاکم ہو ‘ اپنے ان مفہومات کے ساتھ اللہ کے سوا کوئی اور رب نہیں ہے ۔ (لفظ رب کی توضیح کے لئے دیکھئے امیر جماعت اسلامی پاکستان کی کتاب المصطلحات الاربعہ فی القرآن)

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مظاہر قدرت الٰہیہ اور دلائل توحید اس عالم میں اللہ جل شانہٗ کے جو تصرفات ہیں ان آیات میں ان میں سے بعض تصرفات کا تذکرہ فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ کی جو بندوں پر نعمتیں ہیں ان میں سے بعض یاد دلائی ہیں۔ ان سب میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی نشانیاں بھی ہیں، اول تو یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دانوں اور گٹھلیوں کو پھاڑ دیتا ہے ذرا سا دانہ اور چھوٹی سی گٹھلی ہوتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا ہے کہ کوئی دانہ تخم بن جائے جس سے کھیتی کے پودے نکل آئیں تو اللہ تعالیٰ کی قدرت سے وہ دانہ پھٹ جاتا ہے اس سے پودا نکل آتا ہے۔ اسی طرح جب گٹھلی سے کوئی درخت نکالنا منظور ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے وہ گٹھلی پھٹ جاتی ہے اور اس سے بڑے بڑے درخت نکل آتے ہیں۔ جن کے پھلوں سے زمین پر بسنے والے مستفید اور منتفع ہوتے ہیں۔ پھر فرمایا (یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنَ الْمَیّتِ ) کہ وہ زندہ کو مردہ سے نکالتا ہے (وَ مُخْرِجُ الْمَیِّتِ مِنَ الْحَیِّ ) اور وہ مردہ کو زندہ سے نکالنے والا ہے۔ ان دونوں باتوں کی تشریح میں مختلف اقوال ہیں ان کا ذکر سورة آل عمران کے رکوع نمبر ٣ میں گزر چکا ہے۔ اس کی ایک بہت زیادہ معروف مثال یہ ہے کہ زندہ جانور سے انڈا نکلتا ہے۔ جو بےجان ہوتا ہے پھر اس بےجان انڈے سے چوزہ نکلتا ہے جو زندہ ہوتا ہے۔ درختوں سے خشک دانے نکلنا اور دانوں سے ہر بھرے درختوں کا وجود میں آجانا یہ بھی زندہ کو میت سے اور میت کو زندہ سے نکالنے کا مصداق ہے۔ پھر فرمایا (ذٰلِکُمُ اللّٰہُ فَاَنّٰی تُؤْفَکُوْنَ ) (یہ قادر مطلق اللہ ہے سو تم کہاں الٹے پھرے جا رہے ہو) اس کی عبادت کو چھوڑ کر شرک میں کیوں مبتلا ہو۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

101: یہ توحید پر گیارہویں عقلی دلیل ہے یعنی ہر چیز میں متصرف صرف اللہ تعالیٰ ہے اور کوئی نہیں۔ یہ دلیل یہاں سے لے کر اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ تک ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے بہت سے نشانات عالم علوی اور عالم سفلی سے متعلق بیان فرمائے ہیں۔ الحب، حبۃ کی جمع ہے۔ حبۃ کے منعی دانے کے ہیں۔ النوی، نواۃ (گٹھلی) کی جمع ہے جب دانہ یا گٹھلی کو زمین میں بو دیا جاتا ہے تو دست قدرت ان میں شگاف ڈال دیتا ہے جس میں سے پودا پھوٹ نکلتا ہے۔ وہ حی (جاندار، مومن یا پرندے) سے میت (بےجان، کافر یا انڈے) کو نکالتا ہے اور میت سے حی کو یعنی کافر سے مومن کو پیدا کرتا ہے اور بےجان انڈے سے جاندار بچہ پیدا کرتا ہے۔ یہ تینوں باتیں عالم سفلی سے تعلق رکھتی ہیں۔ ذٰلِکُمُ اللہُ الخ یعنی جو ہستی ان مذکورہ بالا صفات کی مالک ہے۔ حقیقت میں وہی الہ ہے اور وہی متصرف و کارساز ہے اس کے سوا اور کوئی نہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

95 بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہی دانے اور گٹھلی کو پھاڑتا ہے یعنی بیج ہر قسم کے اور ہر قسم کی گٹھلیاں جب زمین میں دبا دی جائیں تو ان کو شگاف دیکر اگانا یہ اسی کا کام ہے وہی جان دار کو بےجان سے نکالنا ہے اور بےجان کو جاندار سے نکالنے والا ہے یعنی انڈے سے مرغی اور مرغی سے انڈا یا نطفہ سے انسان اور انسان سے نطفہ یہی تو اللہ تعالیٰ ہے جو عبادت کا حقیقی مستحق ہے پھر تم کہاں الٹے پھرے جا رہے ہو یعنی غیروں کی عبادت کے لئے