Commentary Mentioned in the previous verses was how obstinate and unmind¬ful of consequences the disbelievers and polytheists were. Since such evils are caused when people remain unaware of Allah and His unmatched knowledge and power, the present four verses provide the an¬tidote. Here, Allah Ta’ ala cites some samples of His Knowledge and Power, and of blessings and favours bestowed on human beings, a lit¬tle reflection in which would make every sensible person admit that feats of such magnitude cannot be accomplished by any power other than that of Almighty Allah. In the first verse (95), it was said: إِنَّ اللَّـهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَىٰ (Surely, Allah is the one who splits the seed and the pit). Pointed to here is a marvel of creation. Splitting a dry seed and pit and bringing out from it a living green tree is the act of that Most Sacred Being who is the Creator of the Universe. Human input has nothing to do with it. The most a farmer can do is to remove impediments or things harmful away from the growth path of the tender bud or shoot rising from inside the seed or pit, a tribute to the great power of the Creator. Of course, there are processes of ploughing, cleaning, softening, leveling, fertilizing and watering of land - but, the maximum these efforts can achieve is to make sure that the tender newcomer has to face no hurdle on its way up. The rest of the job, the real job, that the seed and pit split, that a bud or shoot sprout out from it, that come leaves of many wonderful kinds and colour, that come flowers and fruits (of mindboggling colours, varieties, smells and tastes), is a job taken care of by someone else. This is art and power alive which no human ingenuity can even come close to by making one leaf, one petal in that manner. Therefore, at another place in the Qur&an, it was said: أَفَرَأَيْتُم مَّا تَحْرُثُونَ ﴿٦٣﴾ أَأَنتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ ﴿٦٤﴾ that is, ` Do you see the seed that you sow? Do you make it grow, or are We the One who makes it grow [ the real Creator to whom its growth has to be attributed ]? - 56-63.& Then, it was said: يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَيِّتِ مِنَ الْحَيِّ (He brings forth the living from the dead, and He is the one who brings forth the dead from the living). The ` dead& or lifeless refers to cell or egg which serves to create human and animal life forms. Similarly, the expression: ` dead from the living& refers to the same cell or egg which issues forth from the living. After that, it was said: ذَٰلِكُمُ اللَّـهُ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ (That is Allah. Whereto, then, are you straying away?). In other words, the sense is that all these things have been done by Allah Ta` ala alone, yet here you are knowlingly straying away to strange directions, such as, taking self-carved idols as your removers of difficulties and fulfillers of needs and thus the objects of your worship.
خلاصہ تفسیر بیشک اللہ تعالیٰ پھاڑنے والا ہے دانہ کو اور گٹھلیوں کو (یعنی زمین میں دبانے کے بعد جو دانہ یا گٹھلی پھوٹتی ہے یہ اللہ ہی کا کام ہے) وہ جاندار (چیز) کو بےجان (چیز) سے نکال لاتا ہے (جیسے نطفہ سے آدمی پیدا ہوتا ہے) اور وہ بےجان (چیز) کو جاندار (چیز) سے نکالنے والا ہے (جیسے آدمی کے بدن سے نطفہ ظاہر ہوتا ہے) اللہ یہ ہے (جس کی ایسی قدرت ہے) سو تم (اس کی عبادت چھوڑ کر) کہاں ( غیر اللہ کی عبادت کی طرف) الٹے چلے جا رہے ہو وہ (اللہ تعالیٰ ) صبح (صادق) کا (رات میں سے) نکالنے والا ہے (یعنی رات ختم ہوجاتی ہے اور صبح صادق ظاہر ہوتی ہے) اور اس نے رات کو راحت کی چیز بنائی ہے (کہ سب تھکے تھکائے سو کر آرام پاتے ہیں) اور سورج اور چاند (کی رفتار) کو حساب سے رکھا ہے، (یعنی ان کی رفتار منضبط ہے جس سے اوقات کے انضباط میں سہولت ہو) یہ (کہ حساب سے ان کی رفتار ہو) ٹھہرائی ہوئی بات ہے ایسی ذات کی جو کہ قادر (مطلق) ہے (کہ اس طرح حرکت پیدا کرنے پر اس کو قدرت ہے اور) بڑے علم والا ہے (کہ اس رفتار کی مصلحتیں اور حکمتیں جانتا تھا اس لئے اس خاص طرح پر ٹھہرا دیا) اور وہ (اللہ) ایسا ہے جس نے تمہارے (فائدہ کے) لئے ستاروں کو پیدا کیا (اور وہ فائدہ یہ ہے) تاکہ تم ان کے ذریعہ سے (رات کے) اندھیروں میں خشکی میں بھی اور دریا میں بھی راستہ معلوم کرسکو، بیشک ہم نے (یہ) دلائل (توحید و انعام کے) خوب کھول کھول کر بیان کر دئیے ہیں (اور گو پہنچیں گے سب کو مگر نافع) ان (ہی) لوگوں کیلئے (ہوں گے) جو (بھلے برے کی کچھ) خبر رکھتے ہیں (کیونکہ غور ایسے ہی لوگ کیا کرتے ہیں) اور وہ (اللہ) ایسا ہے جس نے تم (سب) کو (اصل میں) ایک شخص سے (کہ آدم (علیہ السلام) ہیں) پیدا کیا پھر (آگے تو توالد و تناسل کا اس طرح سلسلہ جاری چلا آرہا ہے کہ تم میں سے ہر شخص کے لئے مرتبہ مادہ میں) ایک جگہ زیادہ رہنے کی ہے، (یعنی ماں کا رحم) اور ایک جگہ چندے رہنے کی (یعنی باپ کی پشت لقولہ تعالیٰ (آیت) (من بین الصلب) بیشک ہم نے (یہ) دلائل (بھی توحید و انعام کے) خوب کھول کھول کر بیان کردیئے ہیں (عام طور پر مگر ان کا نفع بھی مثل سابق) ان (ہی) لوگوں کے لئے (ہوگا) جو سمجھ بوجھ رکھتے ہیں (یہ تفصیل ہوگئی يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ الخ کی) ۔ معارف و مسائل پچھلی آیات میں کفار و مشرکین کی ہٹ دھرمی اور حقائق و نتائج سے غفلت کا تذکرہ تھا، اور ان سب خرابیوں کی اصل بنیاد خدا تعالیٰ اور اس کے بےمثال علم وقدرت سے بیخبر ی ہے، اس لئے مذکورہ چار آیات میں حق تعالیٰ نے غافل انسان کے اس روگ کا علاج اس طرح فرمایا ہے کہ اپنے وسیع علم اور عظیم قدرت کے چند نمونے اور انسان پر اپنے انعامات و احسانات کا ایک سلسلہ ذکر فرمایا، جن میں ادنیٰ غور کرنے سے ہر سلیم الفطرت انسان خالق کائنات کی عظمت اور بےمثال قدرت کا اور اس بات کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ عظیم الشان کارنامے ساری کائنات میں سوائے خدا تعالیٰ کے کسی کی قدرت میں نہیں۔ پہلی آیت میں ارشاد فرمایا : اِنَّ اللّٰهَ فَالِقُ الْحَبِّ یعنی اللہ تعالیٰ پھاڑنے والا ہے دانہ کو اور گٹھلیوں کو، اس میں قدرت کا ایک حیرت انگیز کرشمہ بتلایا گیا ہے کہ خشک دانہ اور خشک گٹھلی کو پھاڑ کر اس کے اندر سے ہرا بھرا درخت نکال دینا صرف اسی ذات پاک کا فعل ہے جو خالق کائنات ہے، انسان کے سعی و عمل کو اس میں کوئی دخل نہیں، کاشتکار کی ساری کوششوں کا حاصل اس سے زائد نہیں ہوتا کہ دانہ اور گٹھلی کے اندر سے جو نازک کونپل قدرت خداوندی نے نکالی ہے اس کی راہ سے موانع اور مضر چیزوں کو دور کردے، زمین کو ہل وغیرہ کے ذریعہ نرم کرنا پھر کھاد ڈالنا پانی دینا ان سب اعمال کا اثر زیادہ سے زیادہ یہی ہے کہ نکلنے والی نازک کونپل کی راہ میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے، باقی اصل کام کہ دانہ اور گٹھلی پھٹ کر اس میں سے درخت کی کونپل نکلے اور پھر اس میں رنگ برنگ کے عجیب و غریب پتے اور پھر ایسے پھل پھول لگیں کہ انسان کی عقل و دماغ اس کا ایک پتہ یا ایک پنکھڑی بنانے سے عاجز ہے، اس میں ظاہر ہے کہ کسی انسانی عمل کو دخل نہیں، اسی لئے قرآن میں دوسری جگہ ارشاد فرمایا : (آیت) افرایتم ما تحرثون، یعنی کیا تم ان دانوں کو نہیں دیکھتے جن کو تم مٹی میں ڈال دیتے ہو کہ ان کو تم نے بویا اور بنایا ہے یا ہم نے۔ دوسرا جملہ یہ ارشاد فرمایا يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ ، یعنی اللہ تعالیٰ ہی بےجان چیزوں میں سے جاندار چیزوں کو پیدا کرتا ہے، بےجان سے مراد نطفہ یا انڈا ہے، جن سے انسان اور حیوانات کی تخلیق ہوتی ہے، اسی طرح جانداروں سے بےجان چیزیں نکال دیتا ہے، یہاں بےجان چیزوں سے مراد وہی نطفہ اور انڈا ہے کہ وہ جاندار چیزوں سے نکلتا ہے۔ اس کے بعد فرمایا : ذٰلِكُمُ اللّٰهُ فَاَنّٰى تُؤ ْفَكُوْنَ ، یعنی یہ سب کام صرف ایک اللہ تعالیٰ کے لئے اور بنائے ہوئے ہیں، پھر یہ جانتے بوجھتے ہوئے تم کس طرف بہکے چلے جا رہے ہو کہ خود تراشیدہ بتوں کو اپنا مشکل کشا اور حاجت روا معبود کہنے لگے۔