Surat ul Mulk

Surah: 67

Verse: 3

سورة الملك

الَّذِیۡ خَلَقَ سَبۡعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا ؕ مَا تَرٰی فِیۡ خَلۡقِ الرَّحۡمٰنِ مِنۡ تَفٰوُتٍ ؕ فَارۡجِعِ الۡبَصَرَ ۙ ہَلۡ تَرٰی مِنۡ فُطُوۡرٍ ﴿۳﴾

[And] who created seven heavens in layers. You do not see in the creation of the Most Merciful any inconsistency. So return [your] vision [to the sky]; do you see any breaks?

جس نے سات آسمان اوپر تلے بنائے ۔ ( تو اے دیکھنے والے ) اللہ رحمٰن کی پیدائش میں کوئی بے ضابطگی نہ دیکھے گا دوبارہ ( نظریں ڈال کر ) دیکھ لے کیا کوئی شگاف بھی نظر آ رہا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا ... Who has created the seven heavens one above the other; meaning stacked one on top of the other. Are they connected to each other, meaning that they are in elevated ascension, - some of them being stacked above others, - or separated with space between them There are two views concerning this, and the most correct opinion seems to be the latter as is proven in the Hadith of Isra' (the Prophet's Night Journey) and other narrations. Concerning Allah's statement, ... مَّا تَرَى فِي خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِن تَفَاوُتٍ ... you can see no fault in the creation of the Most Gracious. means, it (the creation) is done in a flawless manner, and these are connected with each other so as to forms a straight level, having no disunion, conflict, inconsistency, deficiency, flaw or defect. This is the reason that Allah says, ... فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَى مِن فُطُورٍ Then look again. Can you see any rifts. meaning, look at the sky and pay close attention to it. Do you see any flaw, deficiency, defect or rifts in it? Ibn `Abbas, Mujahid, Ad-Dahhak, Ath-Thawri and others said, "it means cracks". As-Suddi said that, هَلْ تَرَى مِن فُطُورٍ (Can you see any rifts) means any tears. Qatadah said, هَلْ تَرَى مِن فُطُورٍ (Can you see any rifts) means, `do you see any defects O Son of Adam (mankind)' In reference to Allah's statement,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 یعنی کوئی نقص، کوئی کجی اور کوئی خلل، بلکہ بالکل سیدھے اور برابر ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ان سب کا پیدا کرنے والا صرف ایک ہی ہے متعدد نہیں۔ 3۔ 2 بعض دفعہ دوبارہ دیکھنے سے کوئی نقص اور عیب نکل آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ دعوت دے رہا ہے کہ بار بار دیکھو کہ کیا تمہیں کوئی شگاف تو نظر نہیں آتا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦] سات آسمان اور ان کی کیفیت :۔ موجودہ ہیئت دانوں کے نظریہ کے مطابق آسمان کوئی چیز نہیں۔ فقط حد نگاہ کا نام ہے اور یہ جو نیلگوں چھت ہمارے سروں پر سایہ کئے ہوئے اور جھکی ہوئی نظر آتی ہے۔ تو اس کی یہ رنگت محض فضا کا رنگ ہے جو ہمارے چاروں طرف محیط ہے۔ جبکہ کتاب و سنت سے ہمیں یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ آسمان ٹھوس حقیقت کا نام ہے۔ ان کی تعداد سات ہے اور ان میں دروازے بھی ہیں۔ پھر یہ ایک دوسرے کے اوپر ہیں۔ ایک کے اوپر دوسرا، دوسرے کے اوپر تیسرا علی ہذا القیاس۔ یہ تہ بہ تہ بھی ہیں اور پوری مطابقت بھی رکھتے ہیں۔ جیسے طبقات الارض یا پیاز کے چھلکے ایک دوسرے کے اوپر تہ بہ تہ ہوتے ہیں اور مطابقت بھی رکھتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ طبقات الارض یا پیاز کے چھلکوں کے درمیان فاصلہ نہیں ہوتا جبکہ ہر آسمان سے دوسرے آسمان کے درمیان طول طویل فاصلہ بھی ہے۔ ایک آسمان تو وہ ہے جس پر ہم کھلی آنکھ سے بغیر دوربین کے ہر روز رات کو ستارے جگمگاتے دیکھتے ہیں۔ یہی آسمان ہم سے قریب ہے۔ یہ پہلا آسمان ہے اور اسے ہی قرآن میں دنیا کہا گیا ہے۔ اس کے آگے وہ آسمان ہے جس کے سیارے دوربین کی مدد سے ملاحظہ کیے جاتے ہیں۔ اور اس کے آگے پانچ آسمان ایسے ہیں جن تک دوربینوں کے ذریعہ سے بھی انسان کی رسائی نہیں ہوسکتی۔ اور ہیئت دانوں کے عجز کا یہ حال ہے جوں جوں وہ جدید قسم کی اور طاقتور دوربینیں ایجاد کر رہے ہیں تاکہ اس کائنات کی پنہائی اور وسعت کا کچھ اندازہ کرسکیں، کائنات اسی قدر مزید وسیع نظر آنے لگتی ہے۔ کائنات میں بھی وسعت پیدا ہوتی جارہی ہے۔ اکثر سیاروں کے درمیانی فاصلے بھی بڑھ رہے ہیں۔ یہ صورت حال دیکھ کر ہیئت دان ورطہ حیرت میں گم ہوجاتے ہیں۔ دراصل آسمانوں یا پوری کائنات کا احاطہ کرنا انسان کے بس کا روگ ہی نہیں۔ ان آسمانوں تک اگر موجودہ دنیا میں سے کسی کی رسائی ہوئی تو وہ فقط رسول اللہ کو اللہ کی قدرت کاملہ کی وجہ سے ہوئی تھی۔ [٧] تفاوت کا لغوی معنی :۔ تفاوت۔ فات بمعنی کسی چیز کا انسان کی دسترس سے اتنا دور ہوجانا کہ اس کا حاصل کرلینا اس کے لئے دشوار ہو اور تفاوت بمعنی دو چیزوں کے اوصاف اس طرح مختلف ہونا کہ ان میں سے ہر ایک کا وصف دوسری چیز کے وصف کو فوت کر رہا ہو۔ یعنی دو چیزوں کا آپس میں بےربط، بےجوڑ ہونا، آپس میں لگا نہ کھانا اور ان میں عدم تناسب ہونا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اس کائنات میں جو چیز بھی پیدا کی ہے کسی کا مقصد دوسرے سے نہ ٹکراتا ہے اور نہ بےجوڑ اور بےربط ہے۔ خ کائنات کا مربوط اور منظم نظام :۔ بلکہ ہر چیز اپنے مقصد میں دوسری چیزوں سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ تعاون کر رہی ہے اور مربوط و منظم ہے۔ اگر یہ صورت نہ ہوتی تو اس کائنات کا نظام چل ہی نہ سکتا تھا۔ جاندار مخلوق کا اس زمین پر زندہ رہنا تو دور کی بات ہے۔ اسی ہم آہنگی اور عدم تفاوت سے لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس کائنات کا خالق ایک ہی ہوسکتا ہے۔ پھر اس میں تصرف بھی صرف اسی اکیلے کا چل رہا ہے اور ایسی ذات کا علیم و حکیم ہونا بھی انتہائی ضروری ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا :” طباقاً “ یعنی تہ بہ تہ اوپر نیچے بنایا ، یہ باب مفاعلہ کا مصدر ہے ۔ حدیث معراج سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر آسمان ایک دوسرے سے جدا ہے ، چناچہ ہر آسمان میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ملاقات کسی نہ کسی رسول سے ہوئی۔ ( دیکھئے بخاری ، الصلاۃ باب ، کیف فرضت الصلاۃ فی الاسراء ٣٤٩) ٢۔ مَا تَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ : رحمان کے ( آسمانوں کو) پیدا کرنے میں تم کوئی تفاوت نہیں دیکھو گے ۔ جب تم آسمانوں جیسی عظیم الشان مخلوق میں کوئی تفاوت نہیں نکال سکتے تو دوسری مخلوق جو اس سے کہیں چھوٹی ہے ، اس میں تم کس طرح تفاوت نکال سکو گے ؟” تقوت “ کا معنی ہے کہ تم اتنے بڑے آسمان یا کسی بھی مخلوق کی کوئی چیز دوسری چیز سے بےجوڑ یا بےترتیب نہیں پاؤ گے ، بلکہ سب میں ایک توازن و ترتیب اور یکسانی پاؤ گے ، جس سے معلوم ہوگا کہ یہ ایک ہی خالق کی پیدا کی ہوئی ہیں ۔” من تقوت “ کا ایک مطلب یہ ہے کہ تم کسی چیز میں کوئی عیب یا کمی نہیں پاؤ گے کہ کہہ سکو کہ اگر اس طرح ہوتا تو بہتر تھا۔ ( قاموس) ” خلق الرحمن “ کے لفظ سے توجہ دلائی کہ اتنے عظیم الشان آسمان اور دوسری ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کی صفت رحمان کا نتیجہ ہے۔ ٣۔ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ھَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍ ” فطور “ ” فطر “ کی جمع ہے ، جیسے ” فلس “ کی جمع ” فلوس “ ہے ، پھٹی ہوئی جگہ ، دراڑ ، شگاف ، یعنی پہلی دفعہ اگر تمہیں رحمان کے پیدا کیے ہوئے آسمان میں کوئی عیب یا کمی بیشی نظر نہیں آئی تو دوبارہ نظر دوڑا کر دیکھ لو ، کیا کوئی دراڑیں یا کٹی پھٹی ہوئی جگہیں نظر آتی ہیں ؟ مطلب یہ کہ پوری کائنات میں ذروں سے لے کر آسمانوں تک اور ستاروں سے لے کر بڑی بڑ کہکشاؤں تک ہر چیز مستحکم اور مربوط ہے ، جتنا چاہو تلاش کرلو تمہیں ایک رخنہ بھی نہیں ملے گا ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

ارْ‌جِعِ الْبَصَرَ‌ هَلْ تَرَ‌ىٰ مِن فُطُورٍ‌ (So, cast your eye again. Do you see any rifts?...67:3). Apparently, this verse shows that it is possible to see the nearest sky with the naked eyes. Sky, in this context, does not necessarily refer to the bluish atmosphere seen over the earth. In fact, the sky may be very much higher than this, and the bluish colour may be that of the upper atmosphere, as claimed by the scientists. This, on the other hand, does not necessarily imply that the sky cannot be seen at all. It is possible that the bluish atmosphere, on account of being transparent, may not block the vision of the actual sky. However, if it is proved by any evidence that the sky cannot be seen with eyes, then the &casting ones eyes& in this verse would refer to &intellectual observation&. [ Bayan-ul-Qur’ an ]

(آیت) فَارْجِعِ الْبَصَرَ ۙ هَلْ تَرٰى مِنْ فُطُوْرٍ ، اس آیت سے ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا والے آسمان کو آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ نیلگوں فضا جو دکھائی دیتی ہے یہی آسمان ہو بلکہ ہوسکتا ہے آسمان اس سے بہت اوپر ہو اور یہ نیلگوں رنگ ہوا اور فضا کا ہو جیسا کہ فلاسفہ کہتے ہیں مگر اس سے یہ بھی لازم نہیں آتا کہ آسمان انسان کو نظر ہی نہ آئے، ہوسکتا ہے کہ یہ نیلگوں فضا شفاف ہونے کے سب اصل آسمان کو جو اس سے بہت اوپر ہے دیکھنے میں مانع نہ ہو اور اگر کسی دلیل سے یہ ثابت ہوجائے کہ دنیا میں رہتے ہوئے آسمان کو آنکھ سے نہیں دیکھا جاسکتا تو پھر اس آیت میں رویت سے مراد رویت عقلی یعنی غرو و فکر ہوگا (بیان القرآن)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا۝ ٠ ۭ مَا تَرٰى فِيْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ۝ ٠ ۭ فَارْجِعِ الْبَصَرَ۝ ٠ ۙ ہَلْ تَرٰى مِنْ فُطُوْرٍ۝ ٣ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے سبع أصل السَّبْع العدد، قال : سَبْعَ سَماواتٍ [ البقرة/ 29] ، سَبْعاً شِداداً [ النبأ/ 16] ، يعني : السموات السّبع وسَبْعَ سُنْبُلاتٍ [يوسف/ 46] ، سَبْعَ لَيالٍ [ الحاقة/ 7] ، سَبْعَةٌ وَثامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ [ الكهف/ 22] ، سَبْعُونَ ذِراعاً [ الحاقة/ 32] ، سَبْعِينَ مَرَّةً [ التوبة/ 80] ، سَبْعاً مِنَ الْمَثانِي[ الحجر/ 87] . قيل : سورة الحمد لکونها سبع آيات، السَّبْعُ الطّوال : من البقرة إلى الأعراف، وسمّي سور القرآن المثاني، لأنه يثنی فيها القصص، ومنه : السَّبْعُ ، والسَّبِيعُ والسِّبْعُ ، في الورود . والْأُسْبُوعُ جمعه : أَسَابِيعُ ، ويقال : طفت بالبیت أسبوعا، وأسابیع، وسَبَعْتُ القومَ : كنت سابعهم، وأخذت سبع أموالهم، والسَّبُعُ : معروف . وقیل : سمّي بذلک لتمام قوّته، وذلک أنّ السَّبْعَ من الأعداد التامّة، وقول الهذليّ : 225- كأنّه عبد لآل أبي ربیعة مسبع «2» أي : قد وقع السّبع في غنمه، وقیل : معناه المهمل مع السّباع، ويروی ( مُسْبَع) بفتح الباء، وكنّي بالمسبع عن الدّعيّ الذي لا يعرف أبوه، وسَبَعَ فلان فلانا : اغتابه، وأكل لحمه أكل السّباع، والْمَسْبَع : موضع السَّبُع . ( س ب ع ) السبع اصل میں |" سبع |" سات کے عدد کو کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛ سَبْعَ سَماواتٍ [ البقرة/ 29] سات آسمان ۔ سَبْعاً شِداداً [ النبأ/ 16] سات مضبوط ( آسمان بنائے ) ۔ وسَبْعَ سُنْبُلاتٍ [يوسف/ 46] سات بالیں ۔ سَبْعَ لَيالٍ [ الحاقة/ 7] سات راتیں ۔ سَبْعَةٌ وَثامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ [ الكهف/ 22] سات ہیں اور آٹھواں ان کا کتا ہے ۔ سَبْعُونَ ذِراعاً [ الحاقة/ 32] ستر گز سَبْعِينَ مَرَّةً [ التوبة/ 80] ستر مرتبہ اور آیت : سَبْعاً مِنَ الْمَثانِي[ الحجر/ 87] ( الحمد کی ) سات آیتیں ( عطا فرمائیں جو نماز کی ہر رکعت میں مکرر پڑھی جاتی ہیں میں بعض نے کہا ہے کہ سورة الحمد مراد ہے ۔ کیونکہ اس کی سات آیتیں ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ السبع الطوال یعنی سورة بقرہ سے لے کر اعراف تک سات لمبی سورتیں مراد ہیں ۔ اور قرآن پاک کی تمام سورتوں کو بھی مثانی کہا گیا ہے ۔ کیونکہ ان میں واقعات تکرار کے ساتھ مذکور ہیں منجملہ ان کے یہ سات سورتیں ہیں السبیع والسبع اونٹوں کو ساتویں روز پانی پر وارد کرتا ۔ الاسبوع ۔ ایک ہفتہ یعنی سات دن جمع اسابیع طفت بالبیت اسبوعا میں نے خانہ کعبہ کے گرد سات چکر لگائے سبعت القوم میں ان کا ساتواں بن گیا ۔ اخذت سبع اموالھم میں نے ان کے اموال سے ساتواں حصہ وصول کیا ۔ السبع ۔ درندہ کو کہتے ہیں ۔ کیونکہ اس کی قوت پوری ہوتی ہے جیسا کہ سات کا عدد |" عدد تام |" ہوتا ہے ۔ ھذلی نے کہا ہے ( الکامل) كأنّه عبد لآل أبي ربیعة مسبعگویا وہ آل ابی ربیعہ کا غلام ہے جس کی بکریوں کو پھاڑ کھانے کے لئے درندے آگئے ہوں ۔ بعض نے مسبع کا معنی مھمل مع السباع کئے ہیں یعنی وہ جو درندوں کی طرح آوارہ پھرتا ہے اور بعض نے مسبع ( بفتح باء ) پڑھا ہے ۔ اور یہ دعی سے کنایہ ہے یعنی وہ شخص جسکا نسب معلوم نہ ہو ۔ سبع فلانا کسی کی غیبت کرنا اور درندہ کی طرح اس کا گوشت کھانا ۔ المسبع ۔ درندوں کی سر زمین ۔ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ طبق المُطَابَقَةُ من الأسماء المتضایفة، وهو أن تجعل الشیء فوق آخر بقدره، ومنه : طَابَقْتُ النّعلَ ، قال الشاعر :إذا لاوذ الظّلّ القصیر بخفّه ... وکان طِبَاقَ الخُفِّ أو قَلَّ زائدا ثم يستعمل الطَّبَاقُ في الشیء الذي يكون فوق الآخر تارة، وفیما يوافق غيره تارة، كسائر الأشياء الموضوعة لمعنيين، ثم يستعمل في أحدهما دون الآخر کالکأس والرّاوية ونحوهما . قال تعالی: الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ طِباقاً [ الملک/ 3] ، أي : بعضها فوق بعض، وقوله : لَتَرْكَبُنَّ طَبَقاً عَنْ طَبَقٍ [ الانشقاق/ 19] ، أي : يترقّى منزلا عن منزل، وذلک إشارة إلى أحوال الإنسان من ترقّيه في أحوال شتّى في الدّنيا، نحو ما أشار إليه بقوله : خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ [ الروم/ 20] ، وأحوال شتّى في الآخرة من النشور، والبعث، والحساب، وجواز الصّراط إلى حين المستقرّ في إحدی الدّارین . وقیل لكلّ جماعة مُتَطَابِقَةٍ : هم في أُمِّ طَبَقٍ وقیل : الناس طَبَقَاتٌ ، وطَابَقْتُهُ علی كذا، وتَطَابَقُوا وأَطْبَقُوا عليه، ومنه : جوابٌ يُطَابِقُ السّؤالَ. والمُطَابَقَةُ في المشي كمشي المقيّد، ويقال لما يوضع عليه الفواکهُ ، ولما يوضع علی رأس الشیء : طَبَقٌ ، ولكلّ فقرة من فقار الظّهر : طَبَقٌ لِتَطَابُقِهَا، وطَبَّقْتُهُ بالسّيف اعتبارا بِمُطَابَقَةِ النّعلِ ، وطِبْقُ اللَّيلِ والنهارِ : ساعاته المُطَابِقَةُ ، وأَطْبَقْتُ عليه البابَ ورجل عياياءُ طَبَاقَاءُ : لمن انغلق عليه الکلام، من قولهم : أَطْبَقْتُ البابَ ، وفحلٌ طَبَاقَاءُ : انْطَبَقَ عليه الضِّرابُ فعجز عنه، وعُبِّرَ عن الدّاهية بِبِنْتِ الطَّبَقِ ، وقولهم : وَافَقَ شِنٌّ طَبَقَةً وهما قبیلتان ( ط ب ق ) المطابقۃ اسمائے متضایفہ سے ہے جس کے معنی ایک چیز کے اوپر اس کے برابر دوسری چیز رکھنا اسی سے طابقت النعل ہے جس کے معنی کسی کے نقش قدم پر چلنا کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے (289) اذالاوذالظل القصیر نجفہ وکان طباق الخف او قل زائد پھر طباق لفظ کبھی اس چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے دوسری کے اوپر ہو اور کبھی اس چیز کو کہتے ہیں جو دوسری کے مطابق اور موافق ہو جیسا کہ تمام ان الفاظ کا حال ہے جو دو معنوں کے لئے وضع کئے گئے ہیں اور پھر کسی ایک معنی میں استعمال ہونے لگے ہوں ۔ جیسے کاس ونادیۃ وغیرھما چناچہ آیت کریمہ : الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ طِباقاً [ الملک/ 3] کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے سات آسمان اوپر تلے بنائے ۔ اور آیت کریمہ ؛لَتَرْكَبُنَّ طَبَقاً عَنْ طَبَقٍ [ الانشقاق/ 19] کے معنی یہ ہوں گے کہ تم ایک منزل سے دوسری منزل کی طرف بلند ہوتے چلے جاؤ گے اور یہ ان مختلف احوال و مراتب کی طرف اشارہ ہے جن پر سی انسان گزر کر ترقی کے منازل طے کرتا ہے اور اس تددیجی ارتقاء کیطرف آیت خَلَقَكُمْ مِنْ تُرابٍ ثُمَّ مِنْ نُطْفَةٍ [ الروم/ 20] اور خدا ہی نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر نطفے سے ۔ میں اشارہ فرمایا ہے ۔ نیز آخرت میں حشر و نشر حساب وکتاب اور پلصراط سے لے کر جنت اور دوزخ میں پہنچنے تک جو مختلف حالات انسان کو پیش آنے والے ہیں ان کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے اور ایک جماعت جو باہم مطابقت اور موافقت رکھتی ہو اس کے متعلق کہاجاتا ہے ھم فی ام طبق ۔ نیز کہاجاتا ہے ۔ الناس طبقات لوگوں کے مختلف طبقے ہیں طابقتۃ علی کذا وتطابقوا واطبقوا علیہ باہم مطابق ہونا اسی سے جواب یطابق السوال کا محاورہ ہے یعنی جواب سوال کے عین مطابق ہے ۔ المطابقۃ اس آدمی کی طرح چلنا جس کے پاؤں میں بیڑیاں پڑی ہوں الطبق واطباق (1) تھالی یا طباق جس پر فروٹ رکھتے ہیں (2) ہر چیز کا ڈھکنا یز ۔ پیٹھ کے مہروں میں سے ہر مہر ہ کو طبق کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ وہ باہم مطابق ہوتے ہیں اور طبقۃ بالسیف کا محاورہ بھی مطابقۃ النعل کی مناسبت سے استعمال ہوتا ہے اور اس کے معنی ہیں میں نے ٹھیک اس کے جوڑ میں تلوار ماری اور اسے الگ کردیا ۔ طبق اللیل والنھار ( رات اور دن کی ساعات جو باہم مطابق ہوں اطبقت علیہ الباب میں نے اس پر دروازہ بند کردیا ۔ رجل عیایاء طباقاء آنکہ بردے سخن بستہ گردو ۔ یہ اطبقت الباب کے محاورہ سے ماخوذ ہے اور فحل طباقاء اس سانڈھ کو کہتے ہیں جو جفتی سے عاجز ہو اور بڑی مصیبت کو بنت الطبق کہاجاتا ہے ۔ مثل مشہور ہے وافق شن طبقۃ کہ شن طبقۃ کے موافق ہوگئی اور شن وطبقۃ دو قبیلوں کے نام ہیں ۔ ما مَا في کلامهم عشرةٌ: خمسة أسماء، وخمسة حروف . فإذا کان اسما فيقال للواحد والجمع والمؤنَّث علی حدّ واحد، ويصحّ أن يعتبر في الضّمير لفظُه مفردا، وأن يعتبر معناه للجمع . فالأوّل من الأسماء بمعنی الذي نحو : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] ثمّ قال : هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] لمّا أراد الجمع، وقوله : وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] ، فجمع أيضا، وقوله : بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] . الثاني : نكرة . نحو : نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] أي : نعم شيئا يعظکم به، وقوله : فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] فقد أجيز أن يكون ما نكرة في قوله : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها [ البقرة/ 26] ، وقد أجيز أن يكون صلة، فما بعده يكون مفعولا . تقدیره : أن يضرب مثلا بعوضة «1» . الثالث : الاستفهام، ويسأل به عن جنس ذات الشیء، ونوعه، وعن جنس صفات الشیء، ونوعه، وقد يسأل به عن الأشخاص، والأعيان في غير الناطقین . وقال بعض النحويين : وقد يعبّر به عن الأشخاص الناطقین کقوله تعالی: إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] ، إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] وقال الخلیل : ما استفهام . أي : أيّ شيء تدعون من دون اللہ ؟ وإنما جعله كذلك، لأنّ «ما» هذه لا تدخل إلّا في المبتدإ والاستفهام الواقع آخرا . الرّابع : الجزاء نحو : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ الآية [ فاطر/ 2] . ونحو : ما تضرب أضرب . الخامس : التّعجّب نحو : فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] . وأمّا الحروف : فالأوّل : أن يكون ما بعده بمنزلة المصدر كأن الناصبة للفعل المستقبَل . نحو : وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] فإنّ «ما» مع رَزَقَ في تقدیر الرِّزْق، والدّلالة علی أنه مثل «أن» أنه لا يعود إليه ضمیر لا ملفوظ به ولا مقدّر فيه، وعلی هذا حمل قوله : بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] ، وعلی هذا قولهم : أتاني القوم ما عدا زيدا، وعلی هذا إذا کان في تقدیر ظرف نحو : كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] ، كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] ، كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] . وأما قوله : فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] فيصحّ أن يكون مصدرا، وأن يكون بمعنی الذي «3» . واعلم أنّ «ما» إذا کان مع ما بعدها في تقدیر المصدر لم يكن إلّا حرفا، لأنه لو کان اسما لعاد إليه ضمیر، وکذلک قولک : أريد أن أخرج، فإنه لا عائد من الضمیر إلى أن، ولا ضمیر لهابعده . الثاني : للنّفي وأهل الحجاز يعملونه بشرط نحو : ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] «1» . الثالث : الکافّة، وهي الدّاخلة علی «أنّ» وأخواتها و «ربّ» ونحو ذلك، والفعل . نحو : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ، إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] ، كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] وعلی ذلك «ما» في قوله : رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] ، وعلی ذلك : قَلَّمَا وطَالَمَا فيما حكي . الرابع : المُسَلِّطَة، وهي التي تجعل اللفظ متسلِّطا بالعمل، بعد أن لم يكن عاملا . نحو : «ما» في إِذْمَا، وحَيْثُمَا، لأنّك تقول : إذما تفعل أفعل، وحیثما تقعد أقعد، فإذ وحیث لا يعملان بمجرَّدهما في الشّرط، ويعملان عند دخول «ما» عليهما . الخامس : الزائدة لتوکيد اللفظ في قولهم : إذا مَا فعلت کذا، وقولهم : إمّا تخرج أخرج . قال : فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] ، وقوله : إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما[ الإسراء/ 23] . ( ما ) یہ عربی زبان میں دو قسم پر ہے ۔ اسمی اور حر فی پھر ہر ایک پانچ قسم پر ہے لہذا کل دس قسمیں ہیں ( 1 ) ما اسمی ہو تو واحد اور تذکیر و تانیث کے لئے یکساں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر لفظا مفرد ہونے کے لحاظ سے اس کی طرف ضمیر مفرد بھی لوٹ سکتی ہے ۔ اور معنی جمع ہونے کی صورت میں ضمیر جمع کا لانا بھی صحیح ہوتا ہے ۔ یہ ما کبھی بمعنی الذی ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَضُرُّهُمْ [يونس/ 18] اور یہ ( لوگ ) خدا کے سوا ایسی چیزوں کی پر ستش کرتے ہیں جو نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہیں ۔ تو یہاں ما کی طرف یضر ھم میں مفرد کی ضمیر لوٹ رہی ہے اس کے بعد معنی جمع کی مناسب سے هؤُلاءِ شُفَعاؤُنا عِنْدَ اللَّهِ [يونس/ 18] آگیا ہے اسی طرح آیت کریمہ : ۔ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ ما لا يَمْلِكُ لَهُمْ رِزْقاً ... الآية [ النحل/ 73] اور خدا کے سوا ایسوں کو پوجتے ہیں جوان کو آسمانوں اور زمین میں روزیدینے کا ذرہ بھی اختیار نہیں رکھتے میں بھی جمع کے معنی ملحوظ ہیں اور آیت کریمہ : ۔ بِئْسَما يَأْمُرُكُمْ بِهِ إِيمانُكُمْ [ البقرة/ 93] کہ تمہارا ایمان تم کو بری بات بتاتا ہے ۔ میں بھی جمع کے معنی مراد ہیں اور کبھی نکرہ ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهِ [ النساء/ 58] بہت خوب نصیحت کرتا ہے ۔ تو یہاں نعما بمعنی شیئا ہے نیز فرمایا : ۔ فَنِعِمَّا هِيَ [ البقرة/ 271] تو وہ بھی خوب ہیں ایت کریمہ : ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة/ 26] کہ مچھر یا اس سے بڑھ کر کیس چیز کی میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما نکرہ بمعنی شیاء ہو اور یہ بھی کہ ماصلہ ہو اور اس کا ما بعد یعنی بعوضۃ مفعول ہو اور نظم کلام دراصل یوں ہو أن يضرب مثلا بعوضة اور کبھی استفھا فیہ ہوتا ہے اس صورت میں کبھی کبھی چیز کی نوع یا جنس سے سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی کسی چیز کی صفات جنسیہ یا نوعیہ کے متعلق سوال کے لئے آتا ہے اور کبھی غیر ذوی العقول اشخاص اور اعیان کے متعلق سوال کے لئے بھی آجاتا ہے ۔ بعض علمائے نحو کا قول ہے کہ کبھی اس کا اطلاق اشخاص ذوی العقول پر بھی ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَّا عَلى أَزْواجِهِمْ أَوْ ما مَلَكَتْ أَيْمانُهُمْ [ المؤمنون/ 6] مگر ان ہی بیویوں یا ( کنیزوں سے ) جو ان کی ملک ہوتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ [ العنکبوت/ 42] جس چیز کو خدا کے سوا پکارتے ہیں خواہ وہ کچھ ہی ہو خدا اسے جانتا ہے ۔ میں خلیل نے کہا ہے کہ ماتدعون میں ما استفہامیہ ہے ای شئی تدعون من دون اللہ اور انہوں نے یہ تکلف اس لئے کیا ہے کہ یہ ہمیشہ ابتداء کلام میں واقع ہوتا ہے اور مابعد کے متعلق استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جو آخر میں واقع ہوتا ہے جیسا کہ آیت : ۔ ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها، وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُالآية [ فاطر/ 2] خدا جو اپنی رحمت کا در وازہ کھول دے اور مثال ماتضرب اضرب میں ہے ۔ اور کبھی تعجب کے لئے ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ فَما أَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ [ البقرة/ 175] یہ ( آتش جہنم کیسی بر داشت کرنے والے ہیں ۔ ما حرفی ہونے کی صورت میں بھی پانچ قسم پر ہے اول یہ کہ اس کا بعد بمنزلہ مصدر کے ہو جیسا کہ فعل مستقبل پر ان ناصبہ داخل ہونے کی صورت میں ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِمَّا رَزَقْناهُمْ يُنْفِقُونَ [ البقرة/ 3] اور جو کچھ ہم نے انہیں عطا فرمایا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ تو یہاں ما رزق بمعنی رزق مصدر کے ہے اور اس ما کے بمعنی ان مصدر یہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی طرف کہیں بھی لفظا ما تقدیر اضمیر نہیں لوٹتی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بِما کانُوا يَكْذِبُونَ [ البقرة/ 10] اور ان کے جھوٹ بولتے کے سبب ۔ میں بھی ما مصدر ری معنی پر محمول ہے ۔ اسی طرح اتانیالقوم ماعدا زیدا میں بھی ما مصدر یہ ہے اور تقدیر ظرف کی صورت میں بھی ما مصدر یہ ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كُلَّما أَضاءَ لَهُمْ مَشَوْا فِيهِ [ البقرة/ 20] جب بجلی ( چمکتی اور ) ان پر روشنی ڈالتی ہے تو اس میں چل پڑتے ہیں ۔ كُلَّما أَوْقَدُوا ناراً لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ [ المائدة/ 64] یہ جب لڑائی کے لئے آگ جلاتے ہیں ۔ خدا اس کو بجھا دیتا ہے ۔ كُلَّما خَبَتْ زِدْناهُمْ سَعِيراً [ الإسراء/ 97] جب ( اس کی آگ ) بجھنے کو ہوگی تو ہم ان کو ( عذاب دینے ) کے لئے اور بھڑ کا دیں گے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاصْدَعْ بِما تُؤْمَرُ [ الحجر/ 94] پس جو حکم تم کو ( خدا کی طرف سے ملا ہے وہ ( لوگوں ) کو سنا دو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ما مصدر یہ ہوا اور یہ بھی کہ ما موصولہ بمعنی الذی ہو ۔ یاد رکھو کہ ما اپنے مابعد کے ساتھ مل کر مصدری معنی میں ہونے کی صورت میں ہمیشہ حرفی ہوتا ہے کیونکہ اگر وہ اسی ہو تو اس کی طرف ضمیر کا لوٹنا ضروری ہے پس یہ ارید ان اخرک میں ان کی طرح ہوتا ہے جس طرح ان کے بعد ضمیر نہیں ہوتی جو اس کی طرف لوٹ سکے اسی طرح ما کے بعد بھی عائد ( ضمیر نہیں آتی ۔ دوم ما نافیہ ہے ۔ اہل حجاز اسے مشروط عمل دیتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ ما هذا بَشَراً [يوسف/ 31] یہ آدمی نہیں ہے تیسرا ما کا فہ ہے جو ان واخواتھا اور ( رب کے ساتھ مل کر فعل پر داخل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً [ آل عمران/ 178] نہیں بلکہ ہم ان کو اس لئے مہلت دیتے ہیں کہ اور گناہ کرلیں ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کی طرف دھکیلے جارہے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رُبَما يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الحجر/ 2] کسی وقت کافر لوگ آرزو کریں گے ۔ میں بھی ما کافہ ہی ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قلما اور لما میں بھی ما کافہ ہوتا ہے ۔ چہارم ما مسلمۃ یعنی وہ ما جو کسی غیر عامل کلمہ کو عامل بنا کر مابعد پر مسلط کردیتا ہے جیسا کہ اذا ما وحیتما کا ما ہے کہ ما کے ساتھ مرکب ہونے سے قبل یہ کلمات غیر عاملہ تھے لیکن ترکیب کے بعد اسمائے شرط کا سا عمل کرتے ہیں اور فعل مضارع کو جز م دیتے ہیں جیسے حیثما نقعد اقعد وغیرہ پانچواں مازائدہ ہے جو محض پہلے لفظ کی توکید کے لئے آتا ہے جیسے اذا مافعلت کذا ( جب تم ایسا کرو ماتخرج اخرج اگر تم باہر نکلو گے تو میں بھی نکلو نگا قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِمَّا تَرَيِنَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَداً [ مریم/ 26] اگر تم کسی آدمی کو دیکھوں ۔ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُما أَوْ كِلاهُما [ الإسراء/ 23] اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھا پے کو پہنچ جائیں ۔ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) فوت الْفَوْتُ : بُعْدُ الشیء عن الإنسان بحیث يتعذّر إدراکه، قال : وَإِنْ فاتَكُمْ شَيْءٌ مِنْ أَزْواجِكُمْ إِلَى الْكُفَّارِ [ الممتحنة/ 11] ، وقال : لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ [ الحدید/ 23] ، وَلَوْ تَرى إِذْ فَزِعُوا فَلا فَوْتَ [ سبأ/ 51] ، أي : لا يَفُوتُونَ ما فزعوا منه، ويقال : هو منّي فَوْتَ الرّمح «2» ، أي : حيث لا يدركه الرّمح، وجعل اللہ رزقه فَوْتَ فمه . أي : حيث يراه ولا يصل إليه فمه، والِافْتِيَاتُ : افتعال منه، وهو أن يفعل الإنسان الشیء من دون ائتمار من حقّه أن يؤتمر فيه، والتَّفَاوُتُ : الاختلاف في الأوصاف، كأنه يُفَوِّتُ وصف أحدهما الآخر، أو وصف کلّ واحد منهما الآخر . قال تعالی: ما تَرى فِي خَلْقِ الرَّحْمنِ مِنْ تَفاوُتٍ [ الملک/ 3] ، أي : ليس فيها ما يخرج عن مقتضی الحکمة . ( ف و ت ) الفوت ( ن ) ہاتھ سے نکل جانا کسی چیز کا انسان سے اتنا دور ہوجانا کہ اس کا حاصل کرلیناز اس کے لئے دشوارہو ۔ چناچہ فرمایا ؛ وَإِنْ فاتَكُمْ شَيْءٌ مِنْ أَزْواجِكُمْ إِلَى الْكُفَّارِ [ الممتحنة/ 11] اور اگر تمہاری عورتوں میں سے کوئی عورت تمہارے ہاتھ سے نکل کر کافروں کے پاس چلی جائے ۔ لِكَيْلا تَأْسَوْا عَلى ما فاتَكُمْ [ الحدید/ 23] ناکہ جو مطلب تم سے فوت ہوگیا ہے ۔ اس کا غم نہ کھایا کرو ۔ وَلَوْ تَرى إِذْ فَزِعُوا فَلا فَوْتَ [ سبأ/ 51] اور کاش تم دیکھو جب یہ گبھرا جائیں گے تو عذاب سے ) بچ نہیں سکیں گے ۔ یعنی جس عذاب سے وہ گھبرائیں گے اس سے بچ نہیں سکیں گے ۔ محاورہ ہے : ۔ ھومنی فوت الرمح وہ میرے نیزے کی دسترس سے باہر ہے ۔ جعل اللہ رزقہ فوت فمہ ( اللہ اس کا رزق اس کی سترس سے باہر کردے یعنی رزق سامنے نظر آئے لیکن منہ تک نہ پہنچ سکے ( بددعا ) اسی سے افتیات ( افتعال ) ہے اور اس کے معنی کسی ایسے شخص سے مشورہ کے بغیر کوئی کام کرنے کے ہیں جس سے مشورہ ضروری ہو ۔ التفاوت ( تفاعل ) کے معنی دو چیزوں کے اوصاف مختلف ہونے کے ہیں گویا ایک کا وصف دوسری کا یا ہر ایک کا وصف دوسری کو فوت کررہا ہے قرآن میں : ۔ ما تَرى فِي خَلْقِ الرَّحْمنِ مِنْ تَفاوُتٍ [ الملک/ 3] کیا تو ( خدا ) رحمٰن کی آفرینش میں کچھ نقص دکھتا ہے یعنی اس میں کوئی بات بھی حکمت کے خلاف نہیں ہے ۔ رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے بصر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل/ 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔ وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ فطر أصل الفَطْرِ : الشّقُّ طولا، يقال : فَطَرَ فلان کذا فَطْراً ، وأَفْطَرَ هو فُطُوراً ، وانْفَطَرَ انْفِطَاراً. قال تعالی: هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک/ 3] ، أي : اختلال ووهي فيه، وذلک قد يكون علی سبیل الفساد، وقد يكون علی سبیل الصّلاح قال : السَّماءُ مُنْفَطِرٌ بِهِ كانَ وَعْدُهُ مَفْعُولًا[ المزمل/ 18] . وفَطَرْتُ الشاة : حلبتها بإصبعین، وفَطَرْتُ العجین : إذا عجنته فخبزته من وقته، ومنه : الفِطْرَةُ. وفَطَرَ اللہ الخلق، وهو إيجاده الشیء وإبداعه علی هيئة مترشّحة لفعل من الأفعال، فقوله : فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْها[ الروم/ 30] ، فإشارة منه تعالیٰ إلى ما فَطَرَ. أي : أبدع ورکز في النّاس من معرفته تعالی، وفِطْرَةُ اللہ : هي ما رکز فيه من قوّته علی معرفة الإيمان، وهو المشار إليه بقوله : وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ [ الزخرف/ 87] ، وقال : الْحَمْدُ لِلَّهِ فاطِرِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ فاطر/ 1] ، وقال : الَّذِي فَطَرَهُنَّ [ الأنبیاء/ 56] ، وَالَّذِي فَطَرَنا [ طه/ 72] ، أي : أبدعنا وأوجدنا . يصحّ أن يكون الِانْفِطَارُ في قوله : السَّماءُ مُنْفَطِرٌ بِهِ [ المزمل/ 18] ، إشارة إلى قبول ما أبدعها وأفاضه علینا منه . والفِطْرُ : ترک الصّوم . يقال : فَطَرْتُهُ ، وأَفْطَرْتُهُ ، وأَفْطَرَ هو وقیل للکمأة : فُطُرٌ ، من حيث إنّها تَفْطِرُ الأرض فتخرج منها . ( ف ط ر ) الفطر ( ن ض ) اس کے اصل معنی کسی چیز کو ( پہلی مرتبہ ) طول میں پھاڑنے کے ہیں چناچہ محاورہ ہے ۔ فطر فلانا کذا فطرا کسی چیز کو پھاڑ ڈالنا ۔ افطر ھو فطورا روزہ افطار کرنا انفطر انفطار پھٹ جانا اور آیت کریمہ : ۔ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک/ 3] بھلا تجھ کو کوئی شگاف نظر آتا ہے ۔ میں فطور کے معنی خلل اور شگاف کے ہیں اور یہ پھاڑ نا کبھی کیس چیز کو بگاڑنے اور کبھی مبنی بر مصلحت ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ السَّماءُ مُنْفَطِرٌ بِهِ كانَ وَعْدُهُ مَفْعُولًا[ المزمل/ 18]( اور ) جس سے آسمان پھٹ جائیگا یہ اس کا وعدہ ( پورا ) ہو کر رہے گا ۔ فطر ت الشاۃ : میں نے بکری کو دو انگلیوں سے دو ہا فطرت العجین : آٹا گوندھ کر فورا روتی پکانا ۔ ( اسی سے فطرت ہے جس کے معنی تخلیق کے ہیں اور فطر اللہ الخلق کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی تخلیق اسطرح کی ہے کہ اس میں کچھ کرنے کی استعداد موجود ہے پس آیت کریمہ : ۔ فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْها[ الروم/ 30] اور خدا کی فطرت کو، جس پر لوگوں کو پیدا کیا ( اختیار کئے رہو۔ میں اس معرفت الہی کی طرف اشارہ ہے جو تخلیق طور پر انسان کے اندر ودیعت کی گئی ہے لہذا فطرۃ اللہ سے معرفت الہیٰ کی استعداد مراد ہے جو انسان کی جبلت میں پائی جاتی ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ [ الزخرف/ 87] اور اگر تم ان سے پوچھو کہ ان کو کس نے پیدا کیا تو بول اٹھیں گے خدا نے ۔ میں اسی قوت معرفت کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ فاطِرِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ فاطر/ 1] سب تعریف خدا ہی کو سزا وار ہے جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے ۔ الَّذِي فَطَرَهُنَّ [ الأنبیاء/ 56] جس نے ان کو پیدا کیا ہے ۔ وَالَّذِي فَطَرَنا [ طه/ 72] اور جن نے ہم کو پیدا کیا ہے ۔ اور آیت کریمہ : السَّماءُ مُنْفَطِرٌ بِهِ [ المزمل/ 18] اور جس سے آسمان پھٹ جائے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ انفطار سے اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر فیضان ہوگا ۔ وہ اسے قبول کرلے گا الفطر روزہ افطار کرنا ۔ کہا جاتا ہے ۔ فطر تہ وافطرتہ افطرھو یعنی لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے اور گما ۃ کھمبی ) کو فطر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ زمین کو پھاڑ کر باہر نکلتی ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣۔ ٤) اس نے سات آسمان اوپر نیچے پیدا کیے کہ ان میں ایک دوسرے کے ساتھ لٹکا ہوا ہے، محمد آپ آسمانوں کے اس پیدا کرنے میں کوئی نقص نہ دیکھیں گے، اے دیکھنے والے تو آسمان کی طرف ایک مرتبہ نگال ڈال کر دیکھ لے کہیں آپ کو کوئی نقص نظر آتا ہے۔ پھر بار بار نگاہ ڈال کر دیکھ آخر کار نگاہ ذلیل درماندہ ہو کر تیری طرف لوٹ آئے گی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣{ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًاط } ” (وہ اللہ کہ) جس نے بنائے سات آسمان ایک دوسرے کے اوپر۔ “ یہ آیت آیات متشابہات میں سے ہے ۔ ابھی تک انسان سات آسمانوں کی حقیقت کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ { مَا تَرٰی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰـوُتٍ } ” تم نہیں دیکھ پائو گے رحمن کی تخلیق میں کہیں کوئی فرق۔ “ اس کائنات کا نظام اور اس میں موجود ایک ایک چیز کی تخلیق اس قدر خوبصورت ‘ محکم ‘ مربوط اور کامل ہے کہ اس میں کسی خلل ‘ نقص ‘ رخنے ‘ بدنظمی یا عدم تناسب کا کہیں شائبہ تک نظر نہیں آتا ۔ اس حقیقت کی گواہی نسل انسانی نے اپنے اجتماعی علم کی بنیاد پر ہر زمانے میں دی ہے ۔ ہر زمانے کے سائنس دانوں نے فلکیات ‘ ارضیات ‘ طبیعیات ‘ حیوانیات ‘ نباتات غرض سائنس کے تمام شعبوں میں حیران کن تحقیقات کی ہیں ‘ لیکن آج تک کوئی ایک محقق یا سائنسدان یہ نہیں کہہ سکا کہ قدرت کی بنائی ہوئی فلاں چیز میں فلاں نقص ہے یا یہ کہ فلاں چیز اگر ایسے کی بجائے ویسے ہوتی تو زیادہ بہتر ہوتی۔ { فَارْجِعِ الْبَصَرَلا ہَلْ تَرٰی مِنْ فُطُوْرٍ ۔ } ” پھر لوٹائو نگاہ کو ‘ کیا تمہیں کہیں کوئی رخنہ نظر آتا ہے ؟ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

6 For explanation, see E.N. 34 of AI-Baqarah, E.N 2 of Ar-Ra`d, E.N. 8 of Al-Hijr, E.N. 113 of Al-Hajj, E.N. 15 of Al-Mu'minun, E.N. 5 of As-Saaffat, E.N. 90 of Al-Mu'min. 7 Literally, tafawut is disproportion: two things being out of accord and agreement with each other. So, the Divine words mean: "You will not see any indiscipline, any disorder and discordance anywhere in the universe, there is nothing disjointed and out of proportion in this world created by Allah: all its parts are well connected and in perfect harmony and coordination. 8 The word futur means a crack, rift, fissure, or a thing's being split and broken. The verse means to say that the whole universe is so closely well-knit and everything in it, from a particle on the earth to the huge galaxies, so well connected and coherent that the continuity of the system of the universe seems to break nowhere, however hard one may try to probe and investigate. (For further explanation, see E.N. 8 of Surah Qaf) .

سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :6 تشریح کے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، البقرہ ، حاشیہ 34 ۔ جلد دوم ، الرعد ، حاشیہ 2 ۔ الحجر ، حاشیہ 8 ۔ جلد سوم ، الحج ، حاشیہ 113 ۔ المومنون ، حاشیہ 15 ۔ جلد چہارم ، الصافات ، حاشیہ 5 ، المومن ، حاشیہ 90 ۔ سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :7 اصل میں تفاوت کا لفظ استعمال ہوا ہے ، جس کے معنی ہیں ، عدم تناسب ۔ ایک چیز کا دوسری چیز سے میل نہ کھانا ۔ انمل بے جوڑ ہونا ۔ پس اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ پوری کائنات میں تم کہیں بد نظمی ، بے ترتیبی اور بے ربطی نہ پاؤ گے ۔ اللہ کی پیدا کردہ اس دنیا میں کوئی چیز انمل بے جوڑ نہیں ہے ۔ اس کے تمام اجزاء باہم مربوط ہیں اور ان میں کمال درجے کا تناسب پایا جاتا ہے ۔ سورة الْمُلْک حاشیہ نمبر :8 اصل میں لفظ فطور استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں دراڑ ، شگاف ، رخنہ ، پھٹا ہوا ہونا ، ٹوٹا پھوٹا ہونا ۔ مطلب یہ ہے کہ پوری کائنات کی بندش ایسی چست ہے ، اور زمین کے ایک ذرے سے لے کر عظیم الشان کہکشانوں تک ہر چیز ایسی مربوط ہے کہ کہیں نظم کائنات کا تسلسل نہیں ٹوٹتا ۔ تم خواہ کتنی ہی جستجو کر لو ، تمہیں اس میں کسی جگہ کوئی رخنہ نہیں مل سکتا ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد پنجم ، تفسیر سورہ ق ، حاشیہ 8 ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

1: فرق کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز ایک خاص توازن اور ربط کے ساتھ پیدا فرمائی ہے، اس میں کہیں غیر موزونیت نہیں ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(67:3) الذی خلق سبع سموت طباقا : یہ جملہ یا تو ھو مبتداء محذوف کی خبر ہے یا الغفور (آیت سابقہ) کی خبر ہے۔ طباقا کے منصوب ہونے کی وجہ سے یہ ہے کہ یہ سبع سموت کی صفت ہے کیونکہ یہ مصدر ہے اس لئے جمع کی صفت واقع ہوسکتی ہے۔ طباقا۔ طبق برطبق، تہ بر تہ۔ یعنی بےہنگم اور بکھری ہوئی صورت میں نہیں بلکہ ایسی عمدگی سے ترتیب دئیے گئے کہ ایک دوسرے کے اوپر منطبق نظر آتے ہیں۔ ما تری فی خلق الرحمن من تفوت : تفوت بروزن (تفاعل) مصدر ہے بمعنی بےضابطگی، فرق، فوت سے مشتق ہے اختلاف اوصاف کے معنی دیتا ہے گویا ایک کا وصف دوسرے سے فوت ہوگیا یا دونوں میں سے ہر ایک سے دوسرے کا وصف جاتا رہا۔ اگر ما نافیہ ہے تو ترجمہ ہوگا :۔ تو رحمان کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں کوئی فرق نہیں پائے گا۔ اور اگر ما استفہام انکاری ہے تو ترجمہ ہوگا :۔ کیا تو نے رحمن کی پیدا کی کوئی چیزوں میں کوئی فرق دیکھا ؟ پورا جملہ :۔ ماتری فی خلق الرحمن من تفوت حال ہے سبع سموت کا۔ من تفوت ما نافیہ کی صورت میں من زائدہ ہے یا تبعیضیہ ہے۔ من حرف جار ہے مختلف معانی کے لئے مستعمل ہے :۔ (1) ابتدائیہ بمعنی سے۔ اس معنی کے لئے من کا استعمال بکثرت ہے مثلاً انہ من سلیمن (127:30) یا من المسجد الحرام (17:1) وغیرہ۔ (2) تبعیضیہ : جیسے منھم من کلم اللہ (2:353) وغیرہ۔ (3) بیان جنس کے لئے۔ یہ اکثر ما یا مھما کے بعد آتا ہے۔ جیسے مایفتح اللہ للناس من رحمۃ (35:2) اور مھما تاتنا بہ من ایۃ (7:132) اور کبھی ما ومھما کے بغیر بھی آتا ہے جیسے یحلون فیہا من اساور من ذھب (18:31) ۔ (4) تعلیلیہ : یعنی حکم کی علت اور سبب بیان کرنے کے لئے جیسے مما خطیئتھم اغرقوا (71:25) (5) بدلیہ۔ بمعنی بجائے۔ ب مقابل۔ جیسے ارضیتم بالحیوۃ الدنیا من الاخرۃ ای بدل الاخرۃ۔ (6) تجاوز کے لئے۔ عن کا مرادف، جیسے فویل للقسیۃ قلوبھم من ذکر اللہ (39:22) یعنی اللہ کی یاد کو چھوڑ کر جن کے دل سخت پڑگئے ہیں۔ (7) باء کا مرداف۔ جیسے ینظرون من طرف خفی (42:45) (8) فی کا مرادف جیسے اذا نودی للصلوٰۃ من یوم الجمعۃ (66:9) جب جمعہ کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے۔ (9) عند کا مرادف۔ جیسے لن تغنی عنھم اموالہم ولا اولادھم من اللہ شیئا (58:17) یہ قول ابو عبیدہ کا ہے عام علماء کے نزدیک اس جگہ من اللہ شیئا (58:17) یہ قول ابو عبیدہ کا ہے عام علماء کے نزدیک اس جگہ من بدلیہ ہے۔ (10) علی کا مرادف : جیسے ونصرنھم من القوم (21:77) یعنی علی القوم۔ (11) من فارقہ۔ یعنی ایک چیز کو دوسری چیز سے جدا کرنے کے لئے۔ یہ من دو متضاد چیزوں میں سے اول پر نہیں دوسری پر آتا ہے۔ جیسے واللہ یعلم المفسد من المصلح (2:220) یہ قول ابن مالک کا ہے۔ (12) زائدہ : عموم کا معنی پیدا کرنے کے لئے جیسے ما تری فی خلق الرحمن من تفوت (67:3) ۔ (13) ربما کا مترادف : یہ قول صرف سیرافی اور ابن خروف،۔ اور ابن طاہر کا ہے قرآن مجید میں اس کی کوئی مثال نہیں۔ (14) غایت کے لئے : جیسے رایتہ من ذلک الموضع : میں نے اس کو اس جگہ تک دیکھا۔ اس مثال میں من بمعنی الی ہے۔ فارجع البصر : یہ شرط محذوف کی جزاء ہے یعنی اگر تمہارا خیال ہو کہ بار بار دیکھنے سے آسمانوں کی تخلیق میں کچھ عدم تناسب دکھائی دے گا تو پھر دیکھ لو۔ (تفسیر مظہری) ف جواب شرط کے لئے ہے ارجع فعل امر واحد مذکر حاضر۔ رجوع (باب نصر) مصدر تو لوٹا۔ پھر (نگاہ) لوٹا کر دیکھ لو۔ ہل تری من فطور : ہل استفہام تقریری ہے۔ من زائدہ ہے یا تبعیضیہ ہے۔ فطور۔ اسم فعل، رخنہ ، عیب، شگاف، الفطر (باب نصر، ضرب) مصدر۔ کے اصل معنی کسی چیز کو (پہلی مرتبہ) طول میں پھاڑنے کے ہیں۔ افطر ھو فطورا۔ روزہ افطار کرنا۔ انفطار پھٹ جانا۔ آیت ہذا میں فطور بمعنی شگاف یا خلل ہے۔ بھلا تجھ کو کوئی شگاف نظر آتا ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 یعنی انہیں ایک دوسرے کے اوپر بنایا۔ معراج کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر دو آسمانوں یک درمیان پانچ سو برس کی مسافت ہے۔ (ابن کثیر)5 یعنی تمام خلوق حکمت اور کاریگری سے بنائی ہے جس پر بھی غور کرو گے وہ یکساں طور پر اپنے بنانے والے پر گواہی دے گی۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں ” تفاوت “ (فرق) یہ کہ جیسا چاہیے ویسا نہ ہو۔ “6 ” مراد اس سے بار بار نظر کرنا ہے۔ “ یعنی ایک دفعہ دیکھنے سے معلوم نہ ہو تو دوبارہ دیکھو۔ یہ ہر اس شخص سے خطاب ہے جو دیکھنے اور غور و فکر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جس بابرکت ذات کے ہاتھ میں کائنات کی بادشاہی ہے اور جس نے موت وحیات کو پیدا کیا ہے اسی نے اوپر تلے سات آسمان بنائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں زمین و آسمانوں کی تخلیق کا کئی مرتبہ ذکر فرمایا ہے۔ ان کے لیے کبھی ” جَعَلَ “ کا لفظ استعمال کیا اور کبھی ” خَلَقَ “ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ مفہوم کے اعتبار سے دونوں الفاظ کا ایک ہی معنٰی بنتا ہے۔ لیکن موقع محل کے مطابق ان کے استعمال میں بڑی لطافت پائی جاتی ہے۔ کبھی زمین و آسمانوں کی تخلیق اور بناوٹ کا بیک وقت ذکر کیا اور کبھی دونوں کا الگ الگ بیان کیا ہے۔ یہاں صرف آسمانوں کی تخلیق کا ذکر فرمایا اور ان کے بارے میں ” طَبَقًا “ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کا معنٰی تہہ بہ تہہ اور اوپر نیچے کیا گیا ہے۔ ارشاد ہوا کہ اے دیکھنے والے ! تو الرّحمن کی تخلیق میں کسی قسم کا نقص نہیں دیکھے گا، پھر آنکھ اٹھا کر دیکھ ! کیا آسمان میں کسی قسم کا شگاف، جھکاؤ اور خلل نظر آتا ہے ؟ اگر تجھے یقین نہیں آتا تو بار بار دیکھ ! تو آسمان میں کوئی نقص نہیں دیکھ پائے گا البتہ تیری نظر تھک کر ضرور پلٹ آئے گی۔ (عَنِ الْحَسَنِ قَالَ قَالَتِ الْیَہُودُ خَلَقَ اللّٰہ تبارک وتعالی السماوات والأَرْضَ فِی سِتَّۃِ أَیَّامٍ وَاسْتَرَاحَ فِی الْیَوْمِ السَّابِعِ فَأَنْزَلَ اللّٰہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی عَلَی نَبِیِّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَمَا بَیْنَہُمَا فِی سِتَّۃِ أَیَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِنْ لُّغُوْبٍ ) ( المجالسۃ وجواھر العلم، ج : ٦) ” حضرت حسن (رح) بیان کرتے ہیں کہ یہودیوں نے کہا : اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو چھ دن میں پیدا کیا اور ساتویں دن آرام فرمایا تو اللہ تعالیٰ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ آیت نازل فرمائی۔ (وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَلْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا فِی سِتَّۃِ أَیَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِنْ لُّغُوْبٍ ) ” ہم نے زمین اور آسمانوں کو اور جو ان کے درمیان چیزیں ہیں انہیں چھ دنوں میں پیدا کیا اور ہمیں کوئی تھکان نہیں ہوئی۔ “ (قٓ: ٣٨) ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ (رض) بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک موسم ابرآلود ہوگیا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ سے پوچھا کیا تم اس کے بارے میں جانتے ہو ؟ صحابہ نے جواب دیا اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا یہ بادل زمین کو سیراب کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ ان بادلوں کو ان لوگوں سے لے جاتا ہے جو اس کا شکر ادا نہیں کرتے اور نہ ہی اس سے دعا کرتے ہیں۔ پھر آپ نے پوچھا تمہارے اوپر کیا چیز ہے ؟ صحابہ نے عرض کی اللہ اور اس کا رسول زیادہ علم رکھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ہے یہ محفوظ اور مضبوط چھت اور بند موج ہے۔ پھر آپ نے پوچھا تمہارے اور آسمان کے درمیان کتنا فاصلہ ہے۔ صحابہ نے کہا اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا تمہارے اور آسمان کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے۔ پھر آپ نے ارشاد فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ اس کے اوپر کیا ہے ؟ صحابہ نے پھر کہا کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا اس کے اوپر ایک اور آسمان ہے اور ہر دو آسمانوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے۔ یہاں تک کہ آپ نے سات آسمان شمار کیے اور ہر دو آسمانوں کے درمیان اتنی ہی مسافت بیان کی۔ “ (رواہ الترمذی : بَابٌ وَمِنْ سُورَۃِ الحَدِیدِ ، قال الترمذی ہذا حدیث غریب من ہذا وجہ) مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے اوپر نیچے سات آسمان پیدا کیے ہیں۔ ٢۔ باربار دیکھنے کے باوجود آسمان میں کوئی شگاف نظر نہیں آتا۔ تفسیر بالقرآن زمین و آسمانوں کی تخلیق : ١۔ اللہ تعالیٰ نے بغیر نمونے کے زمین و آسمان بنائے۔ (البقرۃ : ١١٧) ٣۔ اس نے آسمان و زمین کو برابر کیا۔ (البقرۃ : ٢٩) ٤۔ آسمان کو چھت اور زمین کو فرش بنایا۔ (البقرۃ : ٢٢) ٥۔ زمین اور آسمانوں کو چھ دنوں میں بنایا۔ (الاعراف : ٥٤) ٦۔ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں و زمین کو برحق پیدا کیا ہے اللہ شرک سے بالا تر ہے۔ (النحل : ٣) ٧۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے سے موجود بغیر نمونے اور میٹریل کے زمین و آسمانوں کو پیدا کیا۔ (البقرۃ : ١١٧) ٨۔ زمین و آسمان پہلے آپس میں جڑے ہوئے تھے۔ پھر اللہ نے انہیں ایک دوسرے سے الگ کیا۔ (الانبیاء : ٣٠) ٩۔ اللہ تعالیٰ نے دو دن میں آسمانوں کو پیدا کیا۔ (حٰم السجدۃ : ١٢) (الاعراف : ٥٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

” ان شیطان کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ ہم نے مہیا کررکھی ہے۔ جن لوگوں نے اپنے رب سے کفر کیا ہے ان کے لئے جہنم کا عذاب اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔ جب وہ اس میں پھینکے جائیں گے تو اس کے دہاڑنے کی ہولناک آواز سنیں گے اور وہ جوش کھارہی ہوگی ، شدت غضب سے پھٹی جاتی ہوگی۔ ہر بار جب کوئی انبوہ اس میں ڈالا جائے گا ، اس کے کارندے ان لوگوں سے پوچھیں گے ” کیا تمہارے پاس کوئی خبردار کرنے والا نہیں آیا تھا ؟ “ وہ جواب دیں گے ” ہاں ! خبردار کرنے والا ہمارے پاس آیات تھا مگر ہم نے اسے جھٹلادیا اور کہا اللہ نے کچھ بھی نازل نہیں کیا ہے ، تم بڑی گمراہی میں پڑے ہوئے ہو “۔ اور کہیں گے ” کاش ہم سنتے یا سمجھتے تو آج اس بھڑکتی ہوئی آگ کے سزاواروں میں نہ شامل ہوتے “۔ اس طرح وہ اپنے قصور کا خود اعتراف کرلیں گے ، لعنت ہے ان دوزخیوں پر “۔ ان آیات میں جو باتیں بتائی گئی ہیں وہ پہلی آیت کا مفہوم ہیں اور اس کی مثالیں ہیں۔ اللہ اپنی بادشاہت کو جس طرح چلاتا ہے اس کے مظاہر ہیں اور اللہ کی بےقید قدرت کے آثار ہیں۔ اور پھر تفصیلات میں انسان کی آزمائش اور جزاوسزا کی۔ تہہ بہ تہہ سات آسمانوں کا مطلب ہم موجودہ فلکی نظریات سے اخذ نہیں کرسکتے کیونکہ فلکی نظریات ، جوں جوں ہمارے آلات مشاہدہ آگے بڑھتے ہیں ، بدلتے رہتے ہیں۔ آیت سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ فقط اس قدر ہے کہ اوپر کی کائنات کے سات ایسے طبقے ہیں جو ایک دوسرے سے ایک فاصلے پر ہیں ، اس لئے انہیں طبقات کہا گیا ہے۔ قرآن مجید ہماری نظر کو زمین و آسمان کی تخلیق کی طرف مبذول کرتا ہے اور انسانوں کو یہ چیلنج کرتا ہے کہ ذرا زمین و آسمان کے اس نظام کو دیکھو ، اس میں کوئی نقص بھی ہے۔ تمہارا مشاہدہ تھک تھکا کر عاجز رہ جائے گا اور اسے کوئی نقص نظر نہ آئے گا۔ ماتری .................... تفوت (٧٦ : ٣) ” تم رحمن کی تخلیق میں کسی قسم کی بےربطی نہ پاﺅ گے “۔ اللہ کی مخلوقات میں نہ کہیں خلل ہے ، نہ نقص ہے اور نہ اضطراب ہے۔ فارجع البصر (٧٦ : ٣) فارجع ” پھر پلٹ کر دیکھو “۔ دوبارہ کوشش کرو ، اچھی طرح معلوم کرنے کی کوشش کرو۔ ھل تری من فطور (٧٦ : ٣) ” کہیں تمہیں کوئی خلل نظر آتا ہے “۔ کیا تمہاری نظروں نے کوئی شگاف دیکھا ، کوئی نقص اور کوئی خلل دیکھا ؟

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

5:۔ ” الذی خلق “ یہ پہلی دلیل عقلی خاص ہے۔ ” طباقا “ تہ بہ تہ، یہ قید مدار کلام ہے جیسا کہ علم معانی میں مذکور ہے کہ مدار کلام قید زائد پر ہوتا ہے۔ ” تفاوت “ اختلاف اور عدم تناسب (روح) ۔ ” فطور “ شگاف۔ ” خاسئ “ ناکام، عاجز۔ ” حسیر “ تھکی ہوئی۔ حاصل یہ کہ اوپر آسمانوں کو دیکھو ہم ہی نے ان کو تہ بہ تہ پیدا کیا۔ جو خوبی صنعت میں برابر ہیں، ان کی طرف بار بار غور سے دیکھو کیا کہیں کوئی شگاف نظر آتا ہے ؟ جتنی بار پھر دیکھو گے تمہاری نگاہیں تھک ہار کر واپس آجائیں گی مگر ہماری صنعت میں انہیں کوئی عیب نظر نہیں آئیگا اس سے معلوم ہوا کہ برکات دہندہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے یہ سب کچھ ہمارے لیے پیدا فرمایا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(3) جس نے اوپر تلے سات آسمان پیدا کئے دیکھنے والے کیا تو رحمان کی صنعت اور اس کی بناوٹ میں کوئی بےضابطگی اور فرق دیکھتا ہے اے مخاطب پھر نگاہ ڈال کر دیکھ کیا تو کوئی شگاف اور دراڑ دیکھتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اپنی قدرت اور اپنی سلطنت کی وسعت پر توجہ دلانے کے لئے فرمایا طباق کے معنی ہیں تو پر تو یعنی اوپر تلے سات آسمان۔ روایات میں آتا ہے ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک پانچ سو برس کی راہ ہے اور اسی قدر ہر آسمان کا دل ہے بہرحال ایک آسمان سے دوسرے آسمان کی مسافت کیا ہے اور یہ ساتوں آسمان کس چیز کے بنے ہوئے ہیں یہ بحث الگ ہے یا پیاز کے چھلکوں کی طرح ایک دوسرے سے چمٹا ہوا ہے قرآن کریم نے جس قدر فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اے مخاطب یا اے پیغمبر حضرت حق کی اس صنع میں جہاں تک انسانی نگاہ کا دخل ہے ذرا بتائو کوئی تفاوت کوئی فرق یا کوئی بےقاعدگی اور بےضابطگی پائی جاتی ہے یا آسمان میں کوئی دراڑ یا شگاف دیکھنے میں آتا ہے آگے پھر تنقیدی نظر ڈالنے کی تاکید ہے چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔