Surat ul Qalam

Surah: 68

Verse: 10

سورة القلم

وَ لَا تُطِعۡ کُلَّ حَلَّافٍ مَّہِیۡنٍ ﴿ۙ۱۰﴾

And do not obey every worthless habitual swearer

اور تو کسی ایسے شخص کا بھی کہا نہ ماننا جو زیادہ قسمیں کھانے والا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And do not obey every Hallaf (one who swears much) Mahin (liar or worthless person). This is because the liar, due to his weakness and his disgracefulness, only seeks protection in his false oaths which he boldly swears to while using Allah's Names, and he uses them (false oaths) all the time and out of place (i.e., unnecessarily). Ibn `Abbas said, "Al-Mahin means the liar." Then Allah says,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨] زیادہ قسمیں کھانے والا انسان ذلیل ہوتا ہے :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک مسلمہ اصول بیان فرمایا کہ جو شخص بات بات پر قسمیں کھاتا ہے۔ یا اسے قسمیں اٹھانے کی ضرورت پیش آتی ہے تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اسے اپنی کسی بات پر نہ خود اعتماد ہوتا ہے اور نہ دوسروں کو اعتماد ہوتا ہے۔ وہ اپنی نظروں میں بھی ذلیل اور دوسروں کی نظروں میں بھی ذلیل ہوتا ہے۔ لہذا ایسے شخص کی بات ماننے کا کچھ فائدہ نہ ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَا تُطِعْ کُلَّ حَلَّافٍ مَّہِیْنٍ :” حلاف “” حلف یحلف “ (ض) سے مبالغہ ہے ، بہت قسمیں کھانے والا ۔” مھین “” مھن یمھن مھانۃ “ (ک) (حقیر ، ذلیل ہونا) سے ” فعیل “ کے وزن پر ہے ، حقیر ، ذلیل ۔ دونوں صفتیں ایک دوسرے کو لازم ہیں ، زیادہ قسمیں کھانے سے آدمی لوگوں کی نظر میں ذلیل ہوجاتا ہے اور لوگوں کی نگاہوں میں ذلیل اور بےاعتبار ہونے ہی کی وجہ سے وہ زیادہ قسمیں کھاتا ہے ، تا کہ اپنی بات کا یقین دلائے ، کیونکہ وہ خود سمجھتا ہے کہ لوگوں کے دل میں نہ اس کی عزت ہے نہ اعتبار۔ ٢۔ ان چھ آیات ( ١٠ تا ١٥) میں مذکور بری خصلتوں والے شخص سے بعض مفسرین نے ایک خاص شخص مراد لیا ہے ، مگر آیت کے الفاظ عام ہیں :( ولا تطع کل حلاف مھین) کہ ’ ’ ایسی خصلتوں والے کسی شخص کا کہنا مت مان “ اس لینے ان خصلتوں والا ہر شخص آیت کا مصداق ہے ۔ اس سے پہلے آیات میں مکذبین کی اطاعت سے منع فرمایا تھا ، اب انہی جھٹلانے والوں کا ذکر ان خصلتوں کے ساتھ ذکر کیا ہے جو دین کو جھٹلانے کی وجہ سے عام طور پر آدمی میں پیداہو جاتی ہیں ۔ یہ سب کفر کی صفات ہیں ، آدمی کی کوشش کرنی چاہیے کہ ان میں کوئی بھی خصلت اس کے اندر پیدا نہ ہونے پائے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

لَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِينٍ ﴿١٠﴾ هَمَّازٍ مَّشَّاءٍ بِنَمِيمٍ ﴿١١﴾ مَّنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ‌ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ ﴿١٢﴾ عُتُلٍّ بَعْدَ ذَٰلِكَ زَنِيمٍ ﴿١٣﴾ (And do not obey any contemptible one who swears much, a slanderer who goes about with calumnies, one who prevents good, [ and who is ] transgressor, sinful, harsh, [ and ] after all that, notorious,.. _68:10-13) The word zanim refers to &a person whose legitimate birth from a father is not proved&. The person referred to in this verse was of doubtful birth or his lineage was uncertain. The preceding verse prohibited any compromise with the unbelievers in general in matters of religion. The current verse prohibits specifically yielding to such mean leader of falsehood as Walid Ibn Mughirah, who possessed the base characteristics as listed in verses [ 10] to [ 13], the worst mischief-maker. [ As transmitted by Ibn Jarir on the authority of Ibn ` Abbas (رض) . Having described this person&s bad manners and his arrogance in several verses that follow, verse [ 16] says: سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْ‌طُومِ (We will soon brand him on the snout...68:16). That is, as, disbelievers, out of pride and false sense of power rejected the Divine Message in this world, Allah will disgrace and humiliate them on the Day of Resurrection so that the earlier and later generations will be able to see it. His nose has been described by way of reproach as khurtum (snout). This refers specifically to the long nose of a pig or a trunk of an elephant. لَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِينٍ ﴿١٠﴾ هَمَّازٍ مَّشَّاءٍ بِنَمِيمٍ ﴿١١﴾ مَّنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ‌ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ ﴿١٢﴾ عُتُلٍّ بَعْدَ ذَٰلِكَ زَنِيمٍ ﴿١٣﴾ (And do not obey any contemptible one who swears much, a slanderer who goes about with calumnies, one who prevents good, [ and who is ] transgressor, sinful, harsh, [ and ] after all that, notorious,.. _68:10-13) The word zanim refers to &a person whose legitimate birth from a father is not proved&. The person referred to in this verse was of doubtful birth or his lineage was uncertain. The preceding verse prohibited any compromise with the unbelievers in general in matters of religion. The current verse prohibits specifically yielding to such mean leader of falsehood as Walid Ibn Mughirah, who possessed the base characteristics as listed in verses [ 10] to [ 13], the worst mischief-maker. [ As transmitted by Ibn Jarir on the authority of Ibn ` Abbas (رض) . Having described this person&s bad manners and his arrogance in several verses that follow, verse [ 16] says:

وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّهِيْنٍ 10 ۝ ۙهَمَّازٍ مَّشَّاۗءٍۢ بِنَمِيْمٍ 11 ۝ ۙمَّنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ اَثِيْمٍ 12 ۝ ۙعُتُلٍّۢ بَعْدَ ذٰلِكَ زَنِيْم (آپ بات نہ مانیں ہر ایسے شخص کی جو بہت قسمیں کھانے والا ہو ذلیل ہو اور لوگوں پر عیب لگانے والا ہو غیبت کرنے والا ہو چغلخوری کرنے والا ہو، نیک کاموں سے لوگوں کو روکنے والا ظلم وجور میں حد سے بڑھنے والا ہو بکثرت گناہ کرنے والا اور بہت قسمیں کھانے والا کج خلق بخیل ہو اور ان سب صفات رذیلہ کے ساتھ وہ زنیم بھی ہو۔ زنیم کے معنے وہ شخص جس کا نسب کسی باپ سے ثابت نہ ہو۔ جس شخص کے یہ اوصاف بیان کئے گئے ہیں وہ ایسا ہی غیر ثابت النسب تھا۔ پہلی آیت میں عام کفار کی بات نہ ماننے اور دین کے معاملے میں ان کی وجہ سے کوئی مداہنت نہ کرنے کا حکم تھا اس آیت میں ایک خاص شریر کافر ولید بن مغیرہ کی صفات رذیلہ بیان کر کے اس سے اعراض کرنے اور اس کی بات نہ ماننے کا خصوصی حکم دیا گیا ہے (کما رواہ ابن جریر عن ابن عباس) آگے بھی کئی آیتوں میں اس شخص کی بد اخلاقی اور سرکشی کا ذکر فرمانے کے بعد فرمایا سَنَسِمُهٗ عَلَي الْخُرْطُوْم یعنی ہم قیامت کے روز اس کی ناک پر داغ لگا دیں گے جس سے اولین و آخرین میں اس کی رسوائی ظاہر ہو جائیگی اس کی ناک کو بغرض تقبیح خرطوم سے تعبیر کیا گیا ہے جو ہاتھی یا خنزیر کی ناک کے لئے مخصوص ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّہِيْنٍ۝ ١٠ ۙ حلف الحِلْف : العهد بين القوم، والمُحَالَفَة : المعاهدة، وجعلت للملازمة التي تکون بمعاهدة، وفلان حَلِفُ کرم، وحَلِيف کرم، والأحلاف جمع حلیف، قال الشاعر وهو زهير : تدارکتما الأحلاف قد ثلّ عرشها أي : كاد يزول استقامة أمورها، وعرش الرجل : قوام أمره . والحَلِفُ أصله الیمین الذي يأخذ بعضهم من بعض بها العهد، ثمّ عبّر به عن کلّ يمين، قال اللہ تعالی: وَلا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَهِينٍ [ القلم/ 10] ، أي : مکثار للحلف، وقال تعالی: يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ ما قالوا[ التوبة/ 74] ، يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ وَما هُمْ مِنْكُمْ [ التوبة/ 56] ، يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ [ التوبة/ 62] ، وشیء مُحْلِف : يحمل الإنسان علی الحلف، وكميت محلف :إذا کان يشكّ في كميتته وشقرته، فيحلف واحد أنه كميت، وآخر أنه أشقر . والمُحَالَفَة : أن يحلف کلّ للآخر، ثم جعلت عبارة عن الملازمة مجرّدا، فقیل : حِلْفُ فلان وحَلِيفُه، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «لا حِلْفَ في الإسلام» . وفلان حَلِيف اللسان، أي : حدیده، كأنه يحالف الکلام فلا يتباطأ عنه، وحلیف الفصاحة . ( ح ل ف ) الحلف عہدو پیمانہ جو لوگوں کے درمیان ہو المحالفۃ ( مفاعلہ ) معاہدہ یعنی باہم عہدو پیمان کرنے کو کہتے ہیں پھر محالفت سے لزوم کے معنی لے کر کہا جاتا ہے یعنی وہ کرم سے جدا نہین ہوتا ۔ حلیف جس کے ساتھ عہد و پیمان کیا گیا ہو اس کی جمع احلاف ( حلفاء آتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( طویل ) تم نے ان حلیفوں کردیا جن کے پائے ثبات مترلزل ہوچکے تھے ۔ الحلف اصل میں اس قسم کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ ایک دوسرے سے عہد و پیمان کای جائے اس کے بعد عام قسم کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے قرآن میں ہے ۔ وَلا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَهِينٍ [ القلم/ 10] اور کسی ایسے شخس کے کہے میں نہ آجانا جو بہت قسمیں کھانے والا ذلیل اوقات ہے ۔ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ ما قالوا[ التوبة/ 74] خدا کی قسمیں کھاتے ہیں کہ انہوں نے ( تو کچھ ) انہیں کہا يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ إِنَّهُمْ لَمِنْكُمْ وَما هُمْ مِنْكُمْ [ التوبة/ 56] اور خدا کی قسمیں کھاتے میں کہ وہ تم میں سے ہیں حالانکہ وہ تم میں سے نہیں ہیں ۔ يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ [ التوبة/ 62] یہ لوگ تمہارے سامنے خدا کی قسمیں کھاتے ہیں تاکہ تم کو خوش کردیں ۔ ( مشکوک چیز ) جس کے ثابت کرنے کے لئے قسم کی ضرورت ہو ۔ کمیت محلف گھوڑا جس کے کمیت اور اشقر ہونے میں شک ہو ایک قسم کھائے کہ یہ کمیت ہے اور دوسرا حلف اٹھائے کہ یہ اشقر یعنی سرخ ہے المحالفۃ کے اصل معنی تو ایک دوسرے سامنے قسم کھانا کے ہیں اس سے یہ لفظ محض لزوم کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے اور جو کسی سے الگ نہ ہوتا ہو اسے اس کا حلف یا حلیف کہا جاتا ہے حدیث میں ہے اسلام میں زمانہ جاہلیت ایسے معاہدے نہیں ہیں ۔ فلان حلیف اللسان فلاں چرب زبان ہے کو یا اس نے بولنے سے عہد کر رکھا ہے اور اس سے ایک لمحہ نہیں رکتا حلیف الفصا حۃ وہ صحیح ہے ۔ هان الْهَوَانُ علی وجهين : أحدهما : تذلّل الإنسان في نفسه لما لا يلحق به غضاضة، فيمدح به نحو قوله : وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] ونحو ما روي عن النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم :«المؤمن هَيِّنٌ ليّن» الثاني : أن يكون من جهة متسلّط مستخفّ به فيذمّ به . وعلی الثاني قوله تعالی: الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام/ 93] ، فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت/ 17] ، وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة/ 90] ، وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران/ 178] ، فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج/ 57] ، وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج/ 18] ويقال : هانَ الأمْرُ علی فلان : سهل . قال اللہ تعالی: هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم/ 21] ، وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم/ 27] ، وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور/ 15] والْهَاوُونَ : فاعول من الهون، ولا يقال هارون، لأنه ليس في کلامهم فاعل . ( ھ و ن ) الھوان اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے انسان کا کسی ایسے موقعہ پر نر می کا اظہار کرتا جس میں اس کی سبکی نہ ہو قابل ستائش ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان/ 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر متواضع ہوکر چلتے ہیں ۔ اور آنحضرت سے مروی ہے کہ مومن متواضع اور نرم مزاج ہوتا ہے دوم ھان بمعنی ذلت اور رسوائی کے آتا ہے یعنی دوسرا انسان اس پر متسلط ہو کت اسے سبکسار کرے تو یہ قابل مذمت ہے چناچہ اس معنی میں فرمایا : ۔ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذابَ الْهُونِ [ الأنعام/ 93] سو آج تم کو ذلت کا عذاب ہے ۔ فَأَخَذَتْهُمْ صاعِقَةُ الْعَذابِ الْهُونِ [ فصلت/ 17] تو کڑک نے ان کو آپکڑا اور وہ ذلت کا عذاب تھا وَلِلْكافِرِينَ عَذابٌ مُهِينٌ [ البقرة/ 90] اور کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے ۔ وَلَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ آل عمران/ 178] اور آخر کار ان کو ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ فَأُولئِكَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ [ الحج/ 57] انکے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا ۔ وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَما لَهُ مِنْ مُكْرِمٍ [ الحج/ 18] اور جس کو خدا ذلیل کرے اس کو کوئی عزت دینے والا نہیں ۔ علی کے ساتھ کے معنی کسی معاملہ کے آسان ہو نیکے ہیں چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ [ مریم/ 21] کہ بی مجھے آسان ہے ۔ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِ [ الروم/ 27] اور یہ اس پر بہت آسان ہے ۔ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّناً [ النور/ 15] اور تم اسے ایک ہل کہ بات سمجھتے ہو ۔ ھاودن کمزور یہ ھون سے ہے اور چونکہ فاعل کا وزن کلام عرب میں نہیں پایا اسلئے ھاون کی بجائے ہارون بروزن فا عول کہا جاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

زیادہ قسمیں کھانے والے سے دبنے کی ضرورت نہیں قول باری ہے (ولا تطع کل حلاف مھین، ہرگز نہ دبو کسی ایسے شخص سے جو بہت قسمیں کھانے والا بےوقعت آدمی ہے) ایک قول کے مطابق حلاف وہ شخص ہے جو اللہ کا نام لے کر جھوٹی قسمیں کھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے مہین کا نام دیا کیونکہ جھوٹ کو جائز سمجھتا اور جھوٹی قسموں کو روا رکھتا تھا۔ حلاف اس شخص کو کہتے ہیں جو کثرت سے جھوٹی سچی قسمیں کھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرمایا ہے چناچہ ارشاد باری ہے (ولا تجعلوا اللہ عرضۃ لا یمانکم، اور تم اللہ کی ذات کو اپنی قسموں کا نشانہ نہ بنائو)

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٠{ وَلَا تُطِعْ کُلَّ حَلَّافٍ مَّہِیْنٍ ۔ } ” اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مت مانیے کسی ایسے شخص کی بات جو بہت قسمیں کھانے والا انتہائی گھٹیا ہے۔ “ ان دونوں خصوصیات کا آپس میں فطری تعلق ہے۔ اپنی شخصیت کے ہلکے پن کی تلافی کرنے کے لیے بات بات پر قسمیں کھانا ہر گھٹیا آدمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ لفظ ” مَہِیْن “ ذلیل و حقیر اور گھٹیا آدمی کے لیے بولا جاتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

6 The word mahin is used for a contemptible, degraded and mean person. This is indeed a necessary quality of a person who swears many oaths. He swears an oath for every minor thing because he himself has the feeling that the people take him for a liar and would not believe him until he swore an oath. For this reason he is not only degraded in his own eyes but commands no respect in society either.

سورة الْقَلَم حاشیہ نمبر :6 اصل میں لفظ مھین استعمال ہوا ہے جو حقیر و ذلیل اور گھٹیا آدمی کے لیے بولا جاتا ہے ۔ درحقیقت یہ بہت قسمیں کھانے والے آدمی کی لازمی صفت ہے ۔ وہ بات بات پر اس لیے قسم کھاتا ہے اسے خود یہ احساس ہوتا ہے کہ لوگ اسے جھوٹا سمجھتے ہیں اور اس کی بات پر اس وقت تک یقین نہیں کریں گے جب تک وہ قسم نہ کھائے ۔ اس بنا پر وہ اپنی نگاہ میں خود بھی ذلیل ہوتا ہے اور معاشرے میں بھی اس کی کوئی وقعت نہیں ہوتی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

4: جو کافر لوگ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی مخالفت میں پیش پیش تھے، اور آپ کو اپنے دِین کی تبلیغ سے ہٹانا چاہتے تھے، اُن میں سے کئی لوگ ایسے تھے جن میں وہ اخلاقی خرابیاں پائی جاتی تھیں جن کا تذکرہ آیات 10 تا 12 میں فرمایا گیا ہے۔ بعض مفسرین نے ایسے اَفراد کا نام بھی لیا ہے کہ وہ اخنس بن شریق، اسود بن عبد یغوث یا ولید بن مغیرہ تھے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(68:10) ولا تطع : واؤ عاطفہ لاتطع فعل نہی واحد مذکر حاضر، اطعۃ (افعال) مصدر۔ تو اطاعت نہ کر۔ تو کہنے میں نہ آ۔ کل : ہر ۔ تمام۔ سب۔ مضاف۔ حلاف ۔ ھماز ۔ مشاء ۔ مناع، معتد ، اثیم ، عتل ، زنیم۔ مضاف الیہ، یعنی ان صفات کے مالک سب لوگ۔ یہ تمام لاتطع کے مفعول ہیں۔ یعنی ان تمام لوگوں کی اطاعت نہ کر۔ ان کے کہنے میں نہ آ۔ حلاف مھین : حلاف بڑا قسمیں کھانے والا۔ حلف سے بروزن فعال مبالغہ کا صیغہ ہے۔ مھین ذلیل و خوار۔ حقیر۔ مھانۃ سے صفت مشبہ کا صیغہ واحد مذکر ، حلاف مھین بہت قسمیں کھانے والا حقیر و ذلیل شخص۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اہل مکہ قرآن مجید کے دلائل کا جواب نہ پا کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مجنون کہتے تھے اس موقع پر ان کے اس الزام کا صرف یہ جواب دیا گیا کہ عنقریب وقت آئے گا کہ جب یہ دیکھ لیں گے کہ مجنون کون ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حقیقت بتلانے اور تسلی دینے کے لیے ارشاد ہوا کہ آپ کا رب خوب جانتا ہے کہ کون اس کے راستے سے بھٹک گیا اور کون ہدایت یافتہ ہے۔ لہٰذا آپ کو جھوٹے لوگوں کے پیچھے لگنے کی بجائے اپنا کام پوری مستعدی کے ساتھ جاری رکھنا چاہیے اور اس میں کسی قسم کی مداہنت اختیار نہیں کرنی چاہیے۔ مفسرین کا خیال ہے کہ یہ آیات ولید بن مغیرہ، اسود بن یغوث اور اخنس بن شریک میں سے کسی ایک کے بارے میں نازل ہوئیں کیونکہ قرآن مجید نے کسی شخص کا نام نہیں لیا گیا اس لیے کسی کا نام متعین کرنا مشکل ہے، البتہ یہ بات مسلّمہ ہے کہ مکہ کے جو سردار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت میں پیش پیش تھے ان میں اکثر کا کردار یہی تھا جس کی ان آیات میں نشاندہی کی گئی ہے، جس شخص میں یہ عاداتیں اور خصائل پائے جائیں اس سے خیر کی توقع رکھنا عبث ہے۔ جو لوگ بھی ایسے شخص کے پیچھے لگیں گے وہ ذلیل ہوں گے۔ مسلمانوں کو اس ذلّت سے بچانے کے لیے واحد مخاطب کا صیغہ استعمال کرتے ہوئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب کیا گیا ہے کہ آپ کو ایسے شخص کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے جس کا کردار یہ ہے کہ وہ جھوٹی قسمیں اٹھانے والا اور ذلیل آدمی ہے، غیبت کرنے کا عادی ہے اور لوگوں کو بھلائی کے کاموں سے روکتا ہے ان نقائص کے ساتھ بد اصل بھی ہے یہ شخص ان خرابیوں کا اس لیے عادی ہوچکا ہے کہ یہ مال دار، صاحب اولاد اور افرادی قوت رکھنے والا ہے، اس کے سامنے قرآن مجید کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو کہتا ہے کہ یہ تو پہلے دور کی کہانیاں ہیں، عنقریب ہم اس کی ناک ذلیل کریں گے اور یہ ذلیل ہو کررہے گا۔ جس شخص میں یہ عادتیں ہوں اور مال اور افرادی قوت رکھنے والا ہو تو اس کی اصلاح کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔ ایک تو اسے سمجھانا مشکل ہوتا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ سمجھتا ہے کہ کہ اگر میں برا ہوتا تو مجھے وسائل اور افرادی قوت کیونکر نصیب ہوتی، اب ان عادتوں کا ایک ایک کر کے جائزہ لیا جاتا ہے تاکہ ان کی کراہت اور قباحت سے بچا جائے۔ ١۔ جھوٹی قسمیں اٹھانا فی نفسہٖ بہت بڑا گناہ ہے بڑا گناہ کرنے کے ساتھ جھوٹی قسمیں اٹھانے والے کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بات پر لوگ اعتماد نہیں کرتے جس وجہ سے اسے بار بار قسمیں اٹھانی پڑتی ہیں یہ شخص اس لیے بھی ذلیل ہوتا ہے کہ یہ اپنی ذات اور مفاد کی خاطر رب عظیم کا نام غلط استعمال کرتا ہے۔ ٢۔ لوگوں کی غلطیاں تلاش کرنا اور چغل خوری کرنا بھی ذلیل آدمی کا کام ہوتا ہے۔ دوسروں کی عیب جوئی کرنے والے میں سب سے بڑا عیب یہ ہوتا ہے کہ وہ شعوری یا غیرشعوری طور پر اپنے آپ کو دوسروں سے نیک اور بہتر سمجھتا ہے۔ عیب جو انسان میں عام طور پر یہ غلطی ضرور پائی جاتی ہے کہ وہ چغل خور بھی ہوتا ہے کیونکہ عیب جوئی کی عادت اسے دوسروں کی چغل خوری پر مجبور کرتی ہے اس وجہ سے وہ لوگوں کی نظروں میں حقیر بن جاتا ہے۔ ٣۔ آدمی کا سخت خو اور ترش رو ہونا بھی ایک بہت بڑا نقص ہے جس شخص میں بےجا سختی اور ترش روئی پائی جائے، عام لوگ تو درکنار اس کے عزیز و اقرباء بھی اس سے نفرت کرتے ہیں اس سے ہر صورت بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ٤۔ ” زَنِیْمٌ“ کے مفسرین نے دو معانی بیان کیے ہیں۔ ” وَلْدُ الزَّنَا “ یعنی حرامی اور بدذات۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام میں ذات پات کوئی حیثیت نہیں رکھتی لیکن بسا اوقات کسی ذات اور برادری میں مجموعی طور پر ایسی کمزوریاں پائی جاتی ہیں جس سے اس برادری کا ہر شخص اس سے متأثر ہوجاتا ہے۔ ٥۔ گھٹیا شخص کے پاس مال کے ساتھ ساتھ افرادی قوت بھی موجود ہو تو اس سے کسی اچھے کام کی توقع رکھنا عبث ہوتا ہے۔ ایسے شخص کے سامنے اچھے سے اچھے انداز میں بہترین بات کی جائے تب بھی اسے درخور اعتناء نہیں سمجھتا۔ کیونکہ اچھی بات کو قبول کرنا وہ اپنی انا کے خلاف سمجھتا ہے۔ یہی وہ بری عادات تھیں جس کا ان آیات میں ذکر فرما کر ہر مسلمان کو منع کیا گیا ہے کہ ایسے شخص کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو دنیا میں رسوا کرتا ہے اور وہ آخرت میں بھی ذلیل ہوگا۔ مسائل ١۔ جھوٹی قسمیں اٹھانے والے کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے۔ ٢۔ عیب جوئی اور چغل خوری کرنا بدترین عمل ہیں۔ ٣۔ برائی اور بخل انسان کو ذلیل کردیتا ہے۔ ٤۔ سخت خو اور کمینہ پن ذلت کا باعث بنتا ہے۔ ٥۔ کمینے آدمی کے پاس وسائل اور افرادی قوت ہو تو وہ مزید کمینہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے وہ قرآن مجید کی نصیحت کو قصے کہانیاں سمجھتا ہے۔ ٦۔ مذکورہ بالا عادات رکھنے والا شخص دنیا میں رسوا ہوتا ہے اور آخرت میں بھی ذلیل ہوگا۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ ان میں سے ایک متعین شخص بڑاچرب زبان ہے ، اس کی کسی بات کو تسلیم نہ کریں۔ یہاں قرآن کریم نے اپنے مخصوص انداز میں اس کا نام نہیں لیا ، لیکن اس کی تمام گھٹیا صفات کو گنوادیا گیا ، جو اس شخص کے اندر پائی جاتی تھیں۔ اس شخص کو نہایت ذلت اور حقارت کے ساتھ دھمکی دی جاتی ہے : ولا تطع .................... الخرطوم (٦١) (٨٦ : ٠١ تا ٦١) ” ہرگز نہ دبو کسی ایسے شخص سے جو بہت قسمیں کھانے والا بےوقعت آدمی ہے ، طعنے دیتا ہے ، چغلیاں کھاتا پھرتا ہے ، بھلائی سے روکتا ہے ، ظلم و زیادتی میں حد سے گزر جانے والا ہے ، سخت بداعمال ہے ، جفاکار ہے اور ان سب عیوب کے ساتھ بداصل ہے ، اس بنا پر کہ وہ بہت مال اور اولاد رکھتا ہے۔ جب ہماری آیات اس کو سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے یہ تو اگلے وقتوں کے افسانے ہیں۔ عنقریب ہم اس کی سونڈ پر داغ لگائیں گے “۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ یہ ولید ابن مغیرہ ہے ، اور اسی کے بارے میں سورة مدثر کی یہ آیات بھی نازل ہوئیں : ذرنی ................................ ساصلیہ سقر (٦٢) (٤٧ : ١١ تا ٦٢) ” چھوڑ دو مجھے اور اس شخص کو جسے میں نے اکیلا پیدا کیا ، بہت سا مال اس کو دیا ، اس کے ساتھ حاضر رہنے والے بیٹے اس کو دیئے ، اور اس کے لئے ریاست کی راہ ہموار کی ، پھر وہ طمع رکھتا ہے کہ میں اسے اور زیادہ دوں۔ ہرگز نہیں ، وہ ہماری آیات سے عناد رکھتا ہے۔ میں تو اسے عنقریب ایک کٹھن چڑھائی چڑھواﺅں گا۔ اس نے سوچا اور کچھ بات بنانے کی کوشش کی تو خدا کی مار اس پر ، کیسی بات بنانے کی کوشش کی ۔ ہاں ، خدا کی مار اس پر ، کیسی بات بتانے کی کوشش کی۔ پھر لوگوں کی طرف دیکھا۔ پھر پیشانی سکیڑی اور منہ بنایا۔ پھر پلٹا اور تکبر میں پڑگیا۔ آخر کار بولا یہ کچھ نہیں ، مگر ایک جادو ، جو پہلے سے چلا آرہا ہے۔ یہ تو ایک انسانی کالم ہے۔ عنقریب میں اسے دوزخ میں جھونک دوں گا “۔ اس شخص کے بارے میں بہت سی روایات میں آتا ہے کہ یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف ہر وقت سازشوں میں لگا رہتا تھا۔ آپ کے ساتھیوں کو ڈراتا تھا۔ دعوت اسلامی کی راہ روکتا تھا۔ اور رات دن لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتا تھا۔ نیز بعض روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ سورة القلم کی آیات انفنس ابن شریق اور ولید بن مغیرہ کے بارے میں ہیں۔ یہ دونوں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سخت مخالف تھے۔ یہ ہر وقت آپ سے برسرپیکار رہتے تھے۔ اور لوگوں کو آپ کے خلاف اکساتے تھے۔ یہ سخت تہدیدی جملہ اس سورت میں اور دوسری سورتوں میں جو اس دور میں نازل ہوئیں ، اس بات کا ثبوت ہے کہ اس دور میں حالات بہت شدید تھے اور یہ شخص جو مسلمانوں اور تحریک اسلامی کے خلاف سرگرم تھا ، خواہ ولید تھا یا انس تھا (پہلا قول راجح ہے) تحریک اسلامی کی راہ روکنے میں اس کا بہت بڑا دخل تھا۔ نیز ان تنقیدی آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص بہت بدفطرت شخص تھا اور اس کے نفس میں بھلائی کی کوئی رمق نہ تھی۔ یہ کس قسم کا آدمی تھا ، قرآن نے اس کی ٩ صفات بیان کی ہیں اور سب کی سب مذموم صفات ہیں : ١۔ حلاف (٨٦ : ٠١) (بہت قسمیں کھانے والا) زیادہ قسمیں وہی اٹھاتا ہے جو سچا نہیں ہوتا ، اس کے شعور میں یہ بات ہوتی ہے کہ لوگ اس پر اعتماد نہیں کرتے اور اسے جھوٹا سمجھتے ہیں۔ یہ شخص قسمیں اٹھاتا ہے اور بہت زیادہ قسمیں اٹھا کر اپنے جھوٹ کو چھپاتا ہے اور اس طرح لوگوں کا اعتماد حاصل کرتا ہے۔ ٢۔ مھین (٨٦ : ٠١) (بےوقعت) اپنی نظروں میں خود ہلکا ، لوگوں کی نظروں میں ناقابل اعتبار۔ زیادہ قسمیں اٹھانے کی ضرورت ہی اسے اس لئے پیش آتی ہے کہ وہ ہلکا ہے۔ خود اسے اپنے اوپر اعتماد نہیں۔ نہ لوگوں کو ہے۔ اگرچہ بظاہر وہ دولتمند ہے ، جتھے دار ہے۔ لہٰذا ایک بادشاہ ، ایک مالدار اور ایک قوی اور جبار شخص بھی ہلکا ہوسکتا ہے۔ اس لئے کہ اہانت اور عزت دونوں نفسیاتی صفات ہیں۔ یہ کبھی انسانی شخصیت سے دور نہیں ہوتیں۔ ایک شریف انسان باوزن ہوتا ہے۔ اگرچہ دنیا کے دوسرے پہلوﺅں سے وہ کوئی بڑا آدمی نہ ہو۔ ٣۔ ھماز (٨٦ : ١١) (طعنے دینے والا) یہ شخص اقوال واشارات سے لوگوں کے عیب بیان کرتا ہے ، ان کے سامنے بھی اور ان کے پس پشت بھی۔ ایسے شخص کو اسلام بہت برا خیال کرتا ہے جو لوگوں کے عیب نکالتا ہے۔ یہ بات مروت کے خلاف ہے۔ اعلیٰ آداب کے بھی خلاف ہے ، نیز لوگوں کے ساتھ برتاﺅ لوگوں کے اکرام کے خلاف ہے ، خواہ بڑے ہوں یا چھوٹے ہوں۔ اس صفت کو قرآن کریم نے متعدد مقامات میں لیا ہے۔ اور اس کی سخت ممانعت کی ہے۔ ایک جگہ کہا گیا۔ ویل ................ لمزة (٤٠١ : ١) ” تباہی ہے ہر اس شخص کے لئے جو لوگوں پر طعن کرے اور برائیاں کرنے کا خوگر ہو “۔ اور دوسری جگہ ہے۔ یایھا الذین ............................ الایمان (٩٤ : ١١) ” اے لوگو جو ایمان لائے ہو نہ مرددوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں ، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو ، ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے “۔ یہ سب بدخونی اور چغل خوری کی اقسام ہیں۔ ٤۔ مشاء بنمیم (٨٦ : ١١) (چغلیاں کھاتا پھرتا ہے) وہ لوگوں کے درمیان ایسی باتیں پھیلاتا ہے جن سے ان کے دل میلے ہوں ، تعلقات ختم ہوں ، محبت ختم ہو ، یہ ایک ذلیل حرکت ہے اور ہلکے لوگ ایسا کام کیا کرتے ہیں۔ کوئی خوددار شخص اس قسم کی حرکت کا ارتکاب نہیں کیا کرتا جو یہ توقع کرتا ہو کہ لوگ اسے اچھی نظروں سے دیکھیں۔ یہاں تک کہ جو لوگ اس قسم کے شخص کی باتیں سنتے ہیں وہ بھی اسے اچھا نہیں سمجھتے۔ دل سے یہ لوگ بھی اسے برا سمجھتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ کاش یہ شخص یہ بری بات انہیں نہ بتاتا۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس بات کو پسند نہ فرماتے تھے کہ آپ کو ایسی بات بتائی جائے جس سے آپ کا دل اپنے کسی صحابی سے خفا ہو۔ آپ فرماتے : ” کوئی شخص مجھے میرے ساتھی کی ایسی بات نہ بتائے کیونکہ میں پسند کرتا ہوں کہ میں تمہارے پاس نکلوں اور میرا دل تمہارے بارے میں صاف ہو “۔ (ابوداﺅ وغیرہ) صحیحین میں ہے : ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دو قبروں کے پاس سے گزرے اور فرمایا یہ دونوں عذاب میں مبتلا ہیں اور یہ کسی بڑے جرم میں سزاوار نہیں ہیں۔ ایک تو اس لئے کہ یہ پیشاب سے اپنے آپ کو بچاتا نہ تھا اور دوسرا چغل خور تھا “۔ امام احمد نے حضرت حذیفہ کی یہ حدیث نقل کی ہے ” جنت میں چغلی کھانے والا داخل نہ ہوگا “۔ (ابن ماجہ) امام احمد نے بریدہ ابن الحکم کی روایت نقل کی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بتاﺅں میں کہ تم میں سے اچھا کون ہے ؟ صحابہ (رض) نے عرض کیا جی ہاں یارسول اللہ ! ” وہ لوگ جب ان کو دیکھا جائے تو خدا یاد آجائے “۔ پھر فرمایا کہ بتاﺅں کہ برے لوگ کون ہیں ؟ “۔ وہ جو چغلی کھاتے ہیں ، جو دوستوں کے درمیان دشمنی پیدا کرتے ہیں جو پاک دامن لوگوں میں ، عیب تلاش کرتے ہیں “۔ اسلام کے لئے اس قسم کی بری خصلت کی مذمت بہت ضروری تھی ، کیونکہ یہ خصلت مذموم ، گری ہوئی اور سوسائٹی میں فساد ڈالنے والی ہے ، جس طرح دوستوں میں فساد پیدا کرتی ہے اور اس قسم کے شخص کو ننگا کرنا ضروری تھا ، قبل اس کے کہ وہ اسلامی سوسائٹی کے اندر فساد پیدا کردے ، لوگوں کے دلوں کو ایک دوسرے سے بھر دے ، اور قبل اس سے کہ وہ سوسائٹی کی سلامتی کو نقصان پہنچائے۔ ایسے لوگ اکثر اوقات بےگناہ لوگوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ٥۔ مناع للخیر (٨٦ : ٢١) (بھلائی سے روکنے والا) یعنی وہ بھلائی سے اپنے آپ کو بھی محروم کرتا ہے اور دوسروں کو بھی۔ یہ شخص لوگوں کو ایمان روکتا تھا ، حالانکہ ایمان بھلائی کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ اس شخص کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ شخص اپنی اولاد اور اہل خاندان سے کہا کرتا تھا : ” اگر تم میں سے کسی نے دین محمد کو قبول کیا تو میں اسے کبھی بھی نفع نہ پہنچاﺅں گا “۔ جس کے بارے میں اسے شک ہوتا کہ وہ دین اسلام کی طرف مائل ہے۔ یوں ان کو وہ اس طرح دھمکی دے کر ڈراتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اس کی اس حرکت کو بھی ریکارڈ کردیا کہ وہ بھلائی سے روکنے والا ہے۔ ٦۔ معتد (٨٦ : ٢١) (ظلم و زیادتی میں حد سے گزرنے والا ہے) حق اور عدل سے آگے بڑھ جاتا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ شخص تعدی کرتا ، مسلمانوں پر ظلم کرتا ، اپنے خاندان والوں پر ظلم کرتا ، اور ان کو ہدایت اور دین حق سے روکتا۔ کسی پر ظلم کرنا بہت ہی بری حرکت ہے اور قرآن وسنت میں اس کی شخت ممانعت کی گئی ہے۔ اسلام ظلم کی ہر صورت کی بیخ کنی چاہتا ہے۔ یہاں تک کہ کھانے اور پینے میں بھی۔ کلوا ................ تطغوا ” جو رزق ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے پاکیزہ چیزیں کھاﺅ اور حد سے نہ گزرو “۔ عدل اور اعتدال اسلام کا بنیادی اصول اور اسلام کی نشانی ہے۔ ٧۔ اثیم (٨٦ : ٢١) (بداعمال ہے) وہ برے اعمال کا ارتکاب کرتا ہے گویا اثم کی صفت اس کے ساتھ لازم ہوگئی ہے۔ پس یہ گنہگار ہے ، اور ہر قسم کے معاصی کا ارتکاب کرتا ہے۔ یہ صفت اس کے ساتھ لازم ہے۔ گویا اس کا مزاج ہی ایسا ہے کہ ہر برائی کا ارتکاب کرے۔ ٨۔ عتل (٨٦ : ٣١) (جفاکار) یہ ایک لفظ ہے جو اپنے تلفظ اور مفہوم کی رنگارنگی کی وجہ سے کئی معانی دیتا ہے ، یہ ایک ایسا جامع مفہوم دیتا ہے کہ کئی الفاظ اس کو ادا نہیں کرسکتے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ عتل کے معنی شخت اور خشک کے ہیں ، یعنی ظالم۔ اس کے یہ معنی بھی ہیں کہ بہت کھانے اور پینے والا ہے۔ اور سخت وحشی اور روکنے والا ہے ، اپنی مذموم طبیعت میں بیگانہ ہے۔ معاملات میں برا ہے۔ حضرت ابوالدرداء سے روایت ہے : ” عتل ، بڑے پیٹ والا ، کج خلق ، بہت کھانے والا ، بہت پینے والا ، دولت جمع کرنے والا ، اور بخیل وکنجوس ہوتا ہے “۔ لیکن لفظ عتل میں یہ سب مفہوم اس کی کرخت آواز ہی سے ظاہر ہوتے ہیں۔ یعنی وہ شخص جو مکارم اخلاق کے ہر پہلو سے کریمہ المنظر ہو۔ ٩۔ زنیم (٨٦ : ٣١) ” بےاصل “ یہ اخلاق ذمیمہ کا خاتمہ ہے۔ یہ اسلام کے دشمنوں میں سے ایک دشمن کی صفات ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے دشمن ایسے ہی مکروہ لوگ ہوسکتے ہیں۔ زنیم اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی قوم کے ساتھ لاحق ہوگیا ہو اور وہ دراصل ان میں سے نہ ہو ، یا یہ کہ ان میں اس کی نسب مشکوک ہو اور اس کے مفاہم میں یہ بھی ہے کہ جو شخص لوگوں میں خباثت ، ذلت اور شرارتوں میں بہت ہی مشہور ہو ، اسے بھی زنیم کہا جاتا ہے۔ دوسرا مفہوم زیادہ قریب ہے اور ولید ابن مغیرہ زیادہ فٹ آتا ہے۔ اگرچہ اس لفظ کا اطلاق اس پر ایسی صفت چسپاں کرتا ہے کہ قوم میں وہ ہلکا ہو جبکہ وہ زیادہ فخر کرنے والا اور اپنے آپ کو بڑا سمجھنے والا ہو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

7:۔ ” ولا تطع کل حلاف “ اعادہ صیغہ نہی بعد عہد کی وجہ سے ہے۔ ” حلاف “ بات بات پر جھوٹی قسمیں کھانے والا دنیوی کاموں میں بھی اور دینی امور میں بھی مثلاً غیر اللہ کو پکارتا ہے اور پھر قسمیں کھاتا ہے کہ میں اپنے فلاں معبود کو پکارا تھا اس لیے میرا کام ہوگیا۔ ” مھین “ گھٹیاں اور پست ذہنیت رکھنے والا۔ ” ھماز “ اہل توحید کی عیب چینی کرنے والا۔ ” مشاء بنمیم “ اہل توحید کی چغلی کھانے والا۔ ” مناع للخیر “ بھلائی سے روکنے والا۔ ” معتد “ حد سے گذرنے والا۔ ” اثیم “ بہت بڑا مجرم۔ ” عتل “ بد زبان، کج خلق۔ ” یعد ذلک “ یعنی اس کے علاوہ ” زنیم “ شرو فساد میں معروف۔ من الروح والبیضاوی۔ یہ مکذبین کی صفات ہیں جن کی بات ماننے سے آپ کو منع کیا گیا ہے۔ ” ان کان ذا مال وبنین “ لام تعلیلیہ مقدر ہے۔ ای لان کان، اور یہ ” لا تطع “ کی علت ہے۔ حاصل یہ ہے کہ ایسی برائیوں کے حامل کی اس لیے بھی اطاعت نہ کر کہ وہ بڑا مال دار اور کثیر آل اولاد والا ہے۔ ان کی باتوں کی پروا مت کر اور اپنا کام، تبلیغ کیے جا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(10) اور اے پیغمبر آپ خاص طور پر کسی ایسے شخص کا کہا نہ مانیے اور اس کی اطاعت نہ کیجئے جو بہت قسمیں کھانے والاہو بےقدر اور ذلیل ہو۔