Surat ul Qalam
Surah: 68
Verse: 13
سورة القلم
عُتُلٍّۭ بَعۡدَ ذٰلِکَ زَنِیۡمٍ ﴿ۙ۱۳﴾
Cruel, moreover, and an illegitimate pretender.
گردن کش پھر ساتھ ہی بے نسب ہو ۔
عُتُلٍّۭ بَعۡدَ ذٰلِکَ زَنِیۡمٍ ﴿ۙ۱۳﴾
Cruel, moreover, and an illegitimate pretender.
گردن کش پھر ساتھ ہی بے نسب ہو ۔
`Utul, and moreover Zanim. `Utul means one who is cruel, harsh, strong, greedy and stingy. Imam Ahmad recorded from Al-Harithah bin Wahb that the Messenger of Allah said, أَلاَ أُنَبِّيُكُمْ بِأَهْلِ الْجَنَّةِ كُلُّ ضَعِيفٍ مُتَضَعِّفٍ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللهِ لاََبَرَّهُ أَلاَ أُنَبِّيُكُمْ بِأَهْلِ النَّارِ كُلُّ عُتُلَ جَوَّاظٍ مُسْتَكْبِر Shall I inform you of the people of Paradise? (They will be) very weak and oppressed person. When he swears by Allah, he fulfills his oath. Shall I inform you of the people of the Fire? Every `Utul (cruel person), Jawwaz and arrogant person. Al-Waki` said, "It (`Utul) is every Jawwaz, Ja`zariand arrogant person." Both Al-Bukhari and Muslim recorded this in their Two Sahihs, as well as the rest of the Group, except for Abu Dawud. All of its routes of transmission are by way of Sufyan Ath-Thawri and Shu`bah who both reported it from Sa`id bin Khalid. The scholars of Arabic language have said that Ja`zari means rude and harsh, while Jawwaz means greedy and stingy. Concerning the word Zanim, Al-Bukhari recorded from Ibn `Abbas that he said concerning the Ayah, عُتُلٍّ بَعْدَ ذَلِكَ زَنِيمٍ (`Utul (cruel), and moreover Zanim.) "A man from the Quraysh who stands out among them like the sheep that has had a piece of its ear cut off." The meaning of this is that he is famous for his evil just as a sheep that has a piece of its ear cut off stands out among its sister sheep. In the Arabic language the Zanim is a person who is adopted among a group of people (i.e., he is not truly of them). Ibn Jarir and others among the Imams have said this. Concerning Allah's statement, أَن كَانَ ذَا مَالٍ وَبَنِينَ
13۔ 1 یہ ان کافروں کی اخلاقی پستیوں کا ذکر ہے جن کی خاطر پیغمبر کو خوش آمد کرنے سے روکا جا رہا ہے۔
[١١] زنیم کا معنی ایسا شخص ہے جس کا نسب مشکوک ہو وہ خود کو کسی دوسرے قبیلے سے ملا رہا ہو، اسی لحاظ سے اس لفظ کا معنی بدذات بھی کیا جاتا ہے۔ بدنام بھی اور ولدالزنا بھی۔ عام مفسرین کا خیال ہے کہ یہ شخص ولید بن مغیرہ تھا۔ جو ابو جہل سے پہلے قریش مکہ کا رئیس تھا اور اس کے نسب کا اٹھارہ سال بعد پتہ چلا تھا۔ واللہ اعلم بالصواب
عُتُلٍّم بَعْدَ ذٰلِکَ زَنِیْمٍ :” عتل “ ” عتل یعتل “ (ن، ض) سختی سے گھسیٹنا، جیسے فرمایا :( خُذُوْہُ فَاعْتِلُوْہُ اِلٰی سَوَآئِ الْجَحِیْمِ ) (الدخان : ٤٧)” اسے پکڑو ، پھر سختی سے کھینچتے ہوئے اسے بھڑکتی آگ کے درمیان تک لے جاؤ “۔ ” عتل “ موٹے جسم ، موٹے دماغ اور سخت مزاج والا ۔ ” زنیم “ کے دو معنی ہیں ، ایک یہ کہ جو کسی قوم سے نہ ہو مگر اس میں سے ہونے کا دعویٰ کرے اور دوسرا معنی لئیم ، جو کمینگی اور شرارت میں مشہور ۔ ” بد نام “ کے لفظ میں دونوں مفہوم ادا ہورہے ہیں۔
عُتُلٍؚّبَعْدَ ذٰلِكَ زَنِيْمٍ ١٣ ۙ عتل العَتْلُ : الأخذ بمجامع الشیء وجرّه بقهر، كَعَتْلِ البعیرِ. قال تعالی: فَاعْتِلُوهُ إِلى سَواءِ الْجَحِيمِ [ الدخان/ 47] ، والعُتُلُّ : الأَكُولُ المنوع الذي يَعْتِلُ الشیءَ عَتْلًا . قال : عُتُلٍّ بَعْدَ ذلِكَ زَنِيمٍ [ القلم/ 13] . ( ع ت ل ) العتل کسی چیز کو اس جگہ سے پکڑنا جہاں اس کے سارے سرے جمع ہوتے ہوں اور اسے بزور گھسیٹا جس طرح کہ اونٹ کی مہار پکڑ کر اسے نہایت بیدروی کے ساتھ کھینچا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَاعْتِلُوهُ إِلى سَواءِ الْجَحِيمِ [ الدخان/ 47] اور اسے کھینچ کر دوزخ کے اندر لے جاؤ ۔ العتل بسیار خود وہ مال کو روک کر رکھنے والا جو کسی چیز جو نہایت بےدردی گھسیٹا ہو ( سخت گیر ) قرآن میں ہے : ۔ عُتُلٍّ بَعْدَ ذلِكَ زَنِيمٍ [ القلم/ 13] سخت گیر اور اس کے علاوہ بد ذات بھی ۔ زنم الزَّنِيمُ والْمَزَنَّمُ : الزّائد في القوم ولیس منهم، تشبيها بِالزَّنمَتَيْنِ من الشّاة، وهما المتدلّيتان من أذنها، ومن الحلق، قال تعالی: عُتُلٍّ بَعْدَ ذلِكَ زَنِيمٍ [ القلم/ 13] ، وهو العبد زلمة وزَنْمَةً ، أي : المنتسب إلى قوم معلّق بهم لا منهم، وقال الشاعرفأنت زَنِيمٌ نيط في آل هاشم ... كما نيط خلف الرّاكب القدح الفرد ( ز ن م ) الزنیم یا مزنم اسے کہتے ہیں جو کسی قوم سے نسبتی تعلق تو نہ رکھتا ہو لیکن اس کے ساتھ یونہی ملحق ہو جیسے زنمتا الشاۃ یعنی گوشت کے دو زائد ٹکڑے جو بکری کے گلے یا کان سے نیچے لٹک رہے ہوتے ہیں قرآن میں ہے : ۔ عُتُلٍّ بَعْدَ ذلِكَ زَنِيمٍ [ القلم/ 13] سخت جھگڑالو اس کے علاوہ بد ذات بھی ۔ اور زنیم اس غلام کو بھی کہتے ہیں جو کسی قوم کی طرف منسوب ہو یعنی زلمۃ یا زنمۃ کی طرح لٹک رہا ہوں در حقیقت ان سے نہ ہو شاعر نے کہا ہے ( الطول ) فأنت زَنِيمٌ نيط في آل هاشم ... كما نيط خلف الرّاكب القدح الفرد اور تو حرام زداہ ہے جو آل ہاشم کے ساتھ اس طرح معلق ہے جیسے لکڑی کا خالی پیالہ سوار کے پیچھے لٹک رہا ہوتا ہے ۔
قول باری ہے (عتل بعد ذلک زنیم، جفا کار اور ان سب عیوب کے ساتھ بداصل ہے) پہلے لفظ کے بارے میں ایک قول ہے کہ ہٹے کٹے اور بدخلق نیز سفاک انسان کو عتل کہا جاتا ہے۔ زنیم اس ولدالزنا کو کہا جاتا ہے جو دراصل ایک خاندان کا فرد نہ ہو مگر اس میں شامل ہوگیا ہو۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی، انہیں حسین بن اسحاق التستری نے، انہیں الولیدبن عتبہ نے، انہیں الولید بن مسلم نے، انہیں ابو شیبہ ابراہیم بن عثمان نے عثمان بن عمیر البجلی سے، انہوں شہرین حوشب سے، انہوں نے حضرت شداد بن اوس سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (لا یدخل الجنۃ جو اظ ولا جعظری ولا عتل زنیم) میں نے دریافت کیا کہ جو اظ کسے کہتے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا ” بہت زیادہ کھانے والا۔ “ میں نے کہا جعظری کون ہوتا ہے، انہوں نے جواب دیا ” ہٹاکٹا اور بدخلق “ پھر میں نے پوچھا ” عتل زنیم “ کسے کہتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا ” بڑے پیٹ والا۔
(١٣۔ ١٤) باطل پر سخٹ جھگڑنے والا ہو، یا یہ کہ بہت کھانے پینے والا، صحیح تندرست اور لالچی ہو، اور اس کے علاوہ حرام زادہ ہو، یا یہ کفر و شرک فسق و فجور اور شرارتوں میں مست ہو۔ وہ یہ کہتا ہے کہ آپ کی اطاعت نہ کرو اس وجہ سے کہ وہ مال والا اور اولاد والا ہے اور اس کے پاس نو ہزار مثقال چاندی تھی اور اس کے دس بیٹے تھے۔
آیت ١٣{ عُتُلٍّم بَعْدَ ذٰلِکَ زَنِیْمٍ ۔ } ” بالکل گنوار ہے ‘ اس کے بعد یہ کہ بداصل بھی ہے۔ “ یعنی مذکورہ بالا خصلتیں تو اس کی شخصیت میں ہیں ہی ‘ سب سے بڑی بات یہ کہ وہ بےنسب بھی ہے۔
9 The word zanim is used to describe a person of illegitimate birth, who does not, in fact, belong to a family but has joined it. Sa`id bin Jubair and Sha`bi say that this word is used for a person who is notorious among the people for his evildoing. The views of the commentators with regard to the person who has been described in these verses are different. Some one says it was Walid bin Mughirah; another one says it was Aswad bin `Abd-i Yaghuth, and still another has applied this description to Akhnas bin Shurayq, and some other people have pointed to some other persons. But the Qur'an has only described his attributes without naming him. This shows that in Makkah the man concerned was so notorious for his such qualities that there was no need to name him definitely. Hearing his description every person could understand who was being referred to.
سورة الْقَلَم حاشیہ نمبر :8 اصل میں لفظ عتل استعمال ہوا ہے جو عربی زبان میں ایسے شخص کے لیے بولا جاتا ہے جو خوب ہٹا کٹا اور بہت کھانے پینے والا ہو ، اور اس کے ساتھ نہایت بد خلق ، جھگڑالو اور سفاک ہو ۔ سورة الْقَلَم حاشیہ نمبر :9 اصل میں لفظ زنیم استعمال ہوا ہے ۔ کلام عرب میں یہ لفظ اس ولدالزنا کے لیے بولا جاتا ہے جو دراصل ایک خاندان کا فرد نہ ہو مگر اس میں شامل ہو گیا ہو ۔ سعید بن جبیر اور شعبی کہتے ہیں کہ یہ لفظ اس شخص کے لیے بھی بولا جاتا ہے جو لوگوں میں اپنے شر کی وجہ سے معروف و مشہور ہو ۔ ان آیات میں جس شخص کے یہ اوصاف بیان کیے گئے ہیں اس کے بارے میں مفسرین کے اقوال مختلف ہیں ۔ کسی نے کہا ہے کہ یہ شخص ولید بن مغیرہ تھا ۔ کسی نے اسود بن عبد یغوث کا نام لیا ہے ۔ کسی نے اخنس بن شریق کو اس کا مصداق ٹھیرایا ہے ۔ اور بعض لوگوں نے کچھ دوسرے اشخاص کی نشاندہی کی ہے ۔ لیکن قرآن مجید میں نام لیے بغیر صرف اس کے اوصاف بیان کردیے گئے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مکہ میں وہ اپنے ان اوصاف کے لیے اتنا مشہور تھا کہ اس کا نام لینے کی ضرورت نہ تھی ۔ اس کی یہ صفات سنتے ہی ہر شخص سمجھ سکتا تھا کہ اشارہ کس کی طرف ہے ۔
(68:13) عتل : یہ عتل مصدر سے صفت کا صیغہ ہے بمعنی سخت مزاج ۔ گردن کش اجڈ۔ شوکانی کے نزدیک عتل وہ ہے جو جسم کا مضبوط اور اخلاق کا خراب ہو۔ عبد الرحمن بن غنم (رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ :۔ عتل : جو جسم کا مضبوط ہو، صحت مند ہو بڑا کھانے پینے والا ہو، جیسے کھانے پینے کو ملتا رہے۔ لوگوں پر بہت ظلم کرتا ہو اور توند اس کی بڑی ہو۔ بعد ذلک یعنی متذکرہ بالا صفات کے علاوہ (وہ زنیم بھی ہے) زنیم : الزنیم یا مزنم : اسے کہتے ہیں جو کسی قسم سے نسبتی تعلق تو نہ رکھتا ہو لیکن اس کے ساتھ یونہی ملحق ہو۔ جیسے کہ زنمتا الشاۃ یعنی گوشت کے دو زائد ٹکڑے جو بکری کے گلے یا کان سے نیچے لٹک رہے ہوں۔ زنیم دعی (جمع ادعیائ) بمعنی لے پالک، غیر باپ کی طرف منسوب کو بھی کہتے ہیں۔ اور دعی وہ شخص ہے جو کہ تم اس کو بیٹا بنالو۔ یا وہ جو حرامی ہونے میں متہم ہو۔ اس سلسہ میں تین کافروں کا نام لیا جاتا ہے جن میں مندرجہ ذیل بالا صفات کے علاوہ زنیم کی بھی صفت پائی جاتی تھی۔ مثلا :۔ (1) ولیدین مغیرہ کہ وہ 18 سال کا تھا جب اس کے باپ نے اس کے بیٹے ہونے کا اقرار کیا اس کے گلے میں ایک لٹکاؤ بھی تھا جس سے اس کی شناخت ہوجاتی تھی۔ (2) اخنس بن شریق کہ اصل میں ثقفی تھا لیکن اس کا شمار بنی زہرہ میں سے کیا جاتا تھا۔ (3) اسود بن عبد یغوث۔ اکثر کے نزدیک شخص مذکور سے مراد ولید بن مغیرہ ہے۔ علامہ پانی پتی فرماتے ہیں :۔ میں کہتا ہوں کہ شاید زنیم ہونے کی صفت مذکورہ بالا قبائح سے زیادہ بری تھی اسی لئے تو چند قبائح کا ذکر کرنے کے بعد زنیم کو ذکر کیا۔ یعنی مذکورہ بالا قبائح کے علاوہ وہ زنیم بھی ہے۔
“6 ” یہ سب کافر کے وصف ہیں۔ آدمی اپنے اندر دیکھیے اور یہ خصلتیں چھوڑے۔ “ نیم “ (بد ذات) شاہ صاحب لکھتے ہیں ” بدنام یعنی بدی کرمشور “ یا جو غلط طور پر کسی خاندان کی طرف منسوب ہو اس لئے علمائے تفسیر نے اس کی تفسیر ” حرا مزادہ “ سے بھی کی ہے۔ روایات میں کئی لوگوں کے نام ہیں جنج کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئیں (ابن کثیر)
2۔ زنیم لغت عرب میں اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے آپ کو کسی دوسری قوم یا خاندان کی طرف منسوب کرے یہ آیت ولید بن مغیرہ مخزومی کے بارے میں نازل ہوئی تھی جس میں دوسرے ذمائم کے علاوہ یہ برائی بھی تھی کہ اپنے آپ کو ایک اور خاندان کی طرف منسوب کرتا تھا۔