Surat ul Qalam

Surah: 68

Verse: 34

سورة القلم

اِنَّ لِلۡمُتَّقِیۡنَ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ جَنّٰتِ النَّعِیۡمِ ﴿۳۴﴾

Indeed, for the righteous with their Lord are the Gardens of Pleasure.

پرہیزگاروں کے لئے ان کے رب کے پاس نعمتوں والی جنتیں ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah then says, إِنَّ لِلْمُتَّقِينَ عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّاتِ النَّعِيمِ Verily, for those who have Taqwa are Gardens of Delight with their Lord. أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِينَ

گنہگار اور نیکو کار دونوں کی جزاء کا مختلف ہونا لازم ہے اوپر چونکہ دنیوی جنت والوں کا حال بیان ہوا تھا اور اللہ کی نافرمانی اور اس کے حکم کے خلاف کرنے سے ان پر جو بلا اور آفت آئی اس کا ذکر ہوا تھا اس لئے اب ان متقی پرہیزگار لوگوں کا حال ذکر کیا گیا جنہیں آخرت میں جنتیں ملیں گی جن کی نعمتیں نہ فنا ہوں ، نہ گھٹیں ، نہ ختم ہوں ، نہ سڑیں ، نہ گلیں ، پھر فرماتا ہے کیا ہو سکتا ہے کہ مسلمان اور گنہگار جزا میں یکساں ہو جائیں؟ قسم ہے زمین و آسمان کے رب کی کہ یہ نہیں ہو سکتا ، کیا ہو گیا ہے تم کس طرح یہ چاہتے ہو؟ کیا تمہارے ہاتھوں میں اللہ کی طرف سے اتری ہوئی کوئی ایسی کتاب ہے جو خود تمہیں بھی محفوظ ہو اور گزشتہ لوگوں کے ہاتھوں تم پچھلوں تک پہنچتی ہو اور اس میں وہی ہو جو تمہاری چاہت ہے اور تم کہہ رہے ہو کہ ہمارا کوئی مضبوط وعدہ اور عہد تم سے ہے کہ تم جو کہہ رہے ہو وہی ہو گا اور تمہاری بےجا اور غلط خواہشیں پوری ہو کر ہی رہیں گی؟ ان سے ذرا پوچھو تو کہ اس بات کا کون ضامن ہے اور کس کے ذمے یہ کفالت ہے؟ نہ سہی تمہارے جو جھوٹے معبود ہیں انہی کو اپنی سچائی کے ثبوت میں پیش کرو ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(ان للمتقین عند ربھم جنت النعیم :) پچھلی آیات میں بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے نہ ڈرنے کی پاداش میں کس طرح باغ والوں کا باغ برباد ہوا اور آخرت کا عذاب تو اس سے بھی بڑا ہے۔ دنیا کے باغ کے بعد آخرت کے باغات کا ذکر کیا اور فرمایا کہ رب تعالیٰ سے ڈرنے والوں کے لئے ان کے رب کے پاس ایک نہیں بلکہ نعمت والے کئی باغ ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ لِلْمُتَّقِيْنَ عِنْدَ رَبِّہِمْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ۝ ٣٤ لام اللَّامُ التي هي للأداة علی أوجه : الأول : الجارّة، وذلک أضرب : ضرب لتعدية الفعل ولا يجوز حذفه . نحو : وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ [ الصافات/ 103] . وضرب للتّعدية لکن قدیحذف . کقوله : يُرِيدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ [ النساء/ 26] ، فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً [ الأنعام/ 125] فأثبت في موضع وحذف في موضع . الثاني : للملک والاستحقاق، ولیس نعني بالملک ملک العین بل قد يكون ملکا لبعض المنافع، أو لضرب من التّصرّف . فملک العین نحو : وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ المائدة/ 18] ، وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الفتح/ 7] . وملک التّصرّف کقولک لمن يأخذ معک خشبا : خذ طرفک لآخذ طرفي، وقولهم : لله كذا . نحو : لله درّك، فقد قيل : إن القصد أنّ هذا الشیء لشرفه لا يستحقّ ملكه غير الله، وقیل : القصد به أن ينسب إليه إيجاده . أي : هو الذي أوجده إبداعا، لأنّ الموجودات ضربان : ضرب أوجده بسبب طبیعيّ أو صنعة آدميّ. وضرب أوجده إبداعا کالفلک والسماء ونحو ذلك، وهذا الضرب أشرف وأعلی فيما قيل . ولَامُ الاستحقاق نحو قوله : لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] ، وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] وهذا کالأول لکن الأول لما قد حصل في الملک وثبت، وهذا لما لم يحصل بعد ولکن هو في حکم الحاصل من حيثما قد استحقّ. وقال بعض النحويين : اللَّامُ في قوله : لَهُمُ اللَّعْنَةُ [ الرعد/ 25] بمعنی «علی» «1» أي : عليهم اللّعنة، وفي قوله : لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ [ النور/ 11] ولیس ذلک بشیء، وقیل : قد تکون اللَّامُ بمعنی «إلى» في قوله : بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحى لَها [ الزلزلة/ 5] ولیس کذلک، لأنّ الوحي للنّحل جعل ذلک له بالتّسخیر والإلهام، ولیس ذلک کالوحي الموحی إلى الأنبیاء، فنبّه باللام علی جعل ذلک الشیء له بالتّسخیر . وقوله : وَلا تَكُنْ لِلْخائِنِينَ خَصِيماً [ النساء/ 105] معناه : لا تخاصم الناس لأجل الخائنين، ومعناه کمعنی قوله : وَلا تُجادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتانُونَ أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 107] ولیست اللام هاهنا کاللام في قولک : لا تکن لله خصیما، لأنّ اللام هاهنا داخل علی المفعول، ومعناه : لا تکن خصیم اللہ . الثالث : لَامُ الابتداء . نحو : لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوى [ التوبة/ 108] ، لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلى أَبِينا مِنَّا [يوسف/ 8] ، لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر/ 13] . الرابع : الداخل في باب إنّ ، إما في اسمه إذا تأخّر . نحو : إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً [ آل عمران/ 13] أو في خبره . نحو : إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ [ الفجر/ 14] ، إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود/ 75] أو فيما يتّصل بالخبر إذا تقدّم علی الخبر . نحو : لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الحجر/ 72] فإنّ تقدیره : ليعمهون في سکرتهم . الخامس : الداخل في إن المخفّفة فرقا بينه وبین إن النافية نحو : وَإِنْ كُلُّ ذلِكَ لَمَّا مَتاعُ الْحَياةِ الدُّنْيا [ الزخرف/ 35] . السادس : لَامُ القسم، وذلک يدخل علی الاسم . نحو قوله : يَدْعُوا لَمَنْ ضَرُّهُ أَقْرَبُ مِنْ نَفْعِهِ [ الحج/ 13] ويدخل علی الفعل الماضي . نحو : لَقَدْ كانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبابِ [يوسف/ 111] وفي المستقبل يلزمه إحدی النّونین نحو : لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ [ آل عمران/ 81] وقوله : وَإِنَّ كُلًّا لَمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ [هود/ 111] فَاللَّامُ في «لمّا» جواب «إن» وفي «ليوفّينّهم» للقسم . السابع : اللَّامُ في خبر لو : نحو : وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ [ البقرة/ 103] ، لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ [ الفتح/ 25] ، وَلَوْ أَنَّهُمْ قالُوا إلى قوله لَكانَ خَيْراً لَهُمْ [ النساء/ 46] «1» ، وربما حذفت هذه اللام نحو : لو جئتني أکرمتک أي : لأکرمتک . الثامن : لَامُ المدعوّ ، ويكون مفتوحا، نحو : يا لزید . ولام المدعوّ إليه يكون مکسورا، نحو يا لزید . التاسع : لَامُ الأمر، وتکون مکسورة إذا ابتدئ به نحو : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 58] ، لِيَقْضِ عَلَيْنا رَبُّكَ [ الزخرف/ 77] ، ويسكّن إذا دخله واو أو فاء نحو : وَلِيَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ [ العنکبوت/ 66] ، وفَمَنْ شاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شاءَ فَلْيَكْفُرْ [ الكهف/ 29] ، وقوله : فَلْيَفْرَحُوا [يونس/ 58] ، وقرئ : ( فلتفرحوا) وإذا دخله ثم، فقد يسكّن ويحرّك نحو : ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ [ الحج/ 29] . ( اللام ) حرف ) یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ اول حروف جارہ اور اس کی چند قسمیں ہیں ۔ (1) تعدیہ کے لئے اس وقت بعض اوقات تو اس کا حذف کرنا جائز نہیں ہوتا جیسے فرمایا : وَتَلَّهُ لِلْجَبِينِ [ الصافات/ 103] اور باپ نے بیٹے کو پٹ پڑی کے بل لٹا دیا ۔ اور کبھی حذف کرنا جائز ہوتا ہے چناچہ آیت کریمہ : يُرِيدُ اللَّهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ [ النساء/ 26] خدا چاہتا ہے کہ تم سے کھول کھول کر بیان فرمادے۔ میں لام مذکور ہے اور آیت : فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقاً [ الأنعام/ 125] تو جس شخص کو خدا چاہتا ہے کہ ہدایت بخشے اس کا سینہ اسلام کے لئے کھول دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کہ گمراہ کرے اس کا سینہ تنگ کردیتا ہے ۔ میں اسے حذف کردیا ہے ( یعنی اصل میں لا یھدیہ ولان یضلہ ہے ۔ ( یعنی اصل میں الان یھدی ولان یضلہ ہے (2) ملک اور استحقاق کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور ملک سے ہمیشہ ملک عین ہی مراد نہیں ہوتا ۔ بلکہ ملکہ منافع اور ملک تصرف سب کو عام ہے چناچہ فرمایا : وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ المائدة/ 18] اور آسمانوں اورز مینوں کی بادشاہت خدا ہی کی ہے ۔ وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الفتح/ 7] اور آسمانوں اور زمین کے لشکر خدا ہی کے ہیں ۔ اور ملک تصرف کے لئے مثلا کسی شخص کے ساتھ لکڑی تصرف کے لئے مثلا کسی شخص کے ساتھ لکڑی اٹھاتے وقت تم اس سے یہ کہو ۔ خذ طرفک لاخذنی کہ تم ا اپنی جانپ سے پکڑ لوتا کہ میں اپنی جانب پکڑوں ۔ اور للہ درک کی طرح جب للہ کذا کہا جاتا ہے تو اس میں تو اس میں بعض نے لام تملیک مانا ہی یعنی یہ چیز بلحاظ شرف و منزلت کے اتنی بلند ہے کہ اللہ تعا لیٰ کے سو اسی پر کسی کا ملک نہیں ہوناچاہیے اور بعض نے کہا ہے کہ اس میں لام ایجاد کے لے ے سے یعنی اللہ نے نے اسے بطریق ابداع پیدا کیا ہے کیونکہ اللہ نے اسے بطریق ابداع پیدا کیا ہے کیونکہ موجودات دو قسم پر ہیں ۔ ایک وہ جن کو اللہ تعالیٰ نے اسباب طبعی یا صنعت انسانی کے واسطہ سے ایجاد کیا ہے ۔ اورد وم وہ جنہیں بغیر کسی واسطہ کے پیدا کیا ہے جیسے افلاک اور آسمان وغیرہ اور یہ دوسری قسم پہلی کی نسبت اشرف اور اعلیٰ ہے ۔ اور آیت کریمہ : لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ [ الرعد/ 25] اور ان کے لئے لعنت اور برا گھر ہے ۔ اور وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ [ المطففین/ 1] ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے کئے خرابی ہے ۔ میں لا م استحقاق کے معنی دیتا ہے یعنی یہ لوگ لعنت اور ویل کے مستحق ہیں ۔ اور یہ سلام بھی لام ملک کی طرح ہے لیکن لام پال اسی چیز پر داخل ہوتا ہے جو ملک میں حاصل ہوچکی ہو اور لام استحقاق اس پر جو تا حال حاصل تو نہ ہوگی ہو نگر اس پر ستحقاق اس پر جوتا جال حاصل تو نہ ہوئی ہونگر اس پر استحقاق ثابت ہونے کے لحاظ سے حاصل شدہ چیز کی طرح ہو بعض وعلمائے نحو کہا ہے کہ آیت کریمہ : لَهُمُ اللَّعْنَةُ میں لام بمعنی علی ہے ۔ ای علیھم اللعنۃ ( یعنی ان پر لعنت ہے ) اسی طرح آیت کریمہ : لِكُلِّ امْرِئٍ مِنْهُمْ مَا اكْتَسَبَ مِنَ الْإِثْمِ [ النور/ 11] ان میں جس شخص نے گناہ کا جتنا حصہ لیا اسکے لئے اتنا ہی وبال ہے ۔ میں بھی لام بمعنی علی ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے ۔ بعض نے کہا ہے کبھی لام بمعنی الیٰ بھی آتا ہے جیسا کہ آیت بِأَنَّ رَبَّكَ أَوْحى لَها [ الزلزلة/ 5] کیونکہ تمہارے پروردگار نے اس کا حکم بھیجا ہوگا ۔ میں ہے یعنی اوحی الیھا مگر یہ بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ یہاں تو وحی تسخیری ہونے پر متنبہ کیا گیا ہے اور یہ اس وحی کی طرح نہیں ہوتی جو انبیاء (علیہ السلام) کی طرف بھیجی جاتی ہے لہذا لام بمعنی الی ٰ نہیں ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَلا تَكُنْ لِلْخائِنِينَ خَصِيماً [ النساء/ 105] اور ( دیکھو ) دغا بازوں کی حمایت میں کبھی بحث نہ کرنا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ لام اجل ہے اور سبب اور جانب کے معنی دیتا ہے یعنی تم ان کی حمایت میں مت بحث کرو جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا : وَلا تُجادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتانُونَ أَنْفُسَهُمْ [ النساء/ 107] اور جو لوگ اپنے ہم جنسوں کی خیانت کرتے ہیں ان کی طرف ہم جنسوں کی خیانت کرتے ہیں ان کی طرف سے بحث نہ کرنا ۔ اور یہ لا تکن للہ خصیما کے لام کی طرح نہیں ہے کیونکہ یہاں لام مفعول پر داخل ہوا ہے اور معنی یہ ہیں ۔ لاتکن خصیم اللہ کہ تم اللہ کے خصیم یعنی فریق مخالف مت بنو ۔ (3) لا ابتداء جیسے فرمایا : لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوى [ التوبة/ 108] البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے ۔ لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلى أَبِينا مِنَّا [يوسف/ 8] کہ یوسف اور اس کا بھائی ہمارے ابا کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں ۔ لَأَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً [ الحشر/ 13] تمہاری ہیبت ان کے دلوں میں ۔۔۔ بڑھ کر ہے ۔ (4) چہارم وہ لام جو ان کے بعد آتا ہے ۔ یہ کبھی تو ان کے اسم پر داخل ہوتا ہے اور کبھی ان کی خبر اور کبھی متعلق خبر پر چناچہ جب اسم خبر سے متاخرہو تو اسم پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : إِنَّ فِي ذلِكَ لَعِبْرَةً [ آل عمران/ 13] اس میں بڑی عبرت ہے ۔ اور خبر پر داخل ہونے کی مثال جیسے فرمایا :إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصادِ [ الفجر/ 14] بیشک تمہارا پروردگار تاک میں ہے : إِنَّ إِبْراهِيمَ لَحَلِيمٌ أَوَّاهٌ مُنِيبٌ [هود/ 75] بیشک ابراہیم (علیہ السلام) بڑے تحمل والے نرم دل اور رجوع کرنے والے تھے ۔ اور یہ لام متعلق خبر پر اس وقت آتا ہے جب متعلق خبر ان کی خبر پر مقدم ہو جیسے فرمایا : ۔ لَعَمْرُكَ إِنَّهُمْ لَفِي سَكْرَتِهِمْ يَعْمَهُونَ [ الحجر/ 72] اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہاری جان کی قسم وہ اپنی مستی میں مد ہوش ( ہو رہے ) تھے ۔ ( 5 ) وہ لام جوان مخففہ کے ساتھ آتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَإِنْ كُلُّ ذلِكَ لَمَّا مَتاعُ الْحَياةِ الدُّنْيا [ الزخرف/ 35] اور یہ سب دنیا کی زندگی کا تھوڑا سا سامان ہے ۔ ( 5 ) لام قسم ۔ یہ کبھی اسم پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لَقَدْ كانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبابِ [يوسف/ 111]( بلکہ ایسے شخص کو پکارتا ہے جس کا نقصان فائدہ سے زیادہ قریب ہے ۔ اور کبھی فعل ماضی پر آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنْصُرُنَّهُ [ آل عمران/ 81] ( 12 ) ان کے قصے میں عقلمندوں کے لئے عبرت ہے ۔ اگر یہ لام فعل مستقبل پر آئے تو اس کے ساتھ نون تاکید ثقیلہ یا خفیفہ کا آنا ضروری ہے جیسے فرمایا : ۔ تو تمہیں ضرور اس پر ایمان لانا ہوگا اور ضرور اس کی مدد کر نا ہوگی ۔ اور آیت کریمہ : وَإِنَّ كُلًّا لَمَّا لَيُوَفِّيَنَّهُمْ [هود/ 111] اور تمہارا پروردگار ان سب کو قیامت کے دن ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیگا ۔ میں لما کالام ان کے جواب میں واقع ہوا ہے ۔ اور لیوفینھم کا لام قسم کا ہے ۔ ( 7 ) وہ لام جو لو کی خبر پر داخل ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَمَثُوبَةٌ [ البقرة/ 103] اور اگر وہ ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو خدا کے ہاں سے بہت اچھا صلہ ملتا ۔ لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ [ الفتح/ 25] اگر دونوں فریق الگ الگ ہوجاتے تو جو ان میں کافر تھے ان کو ہم ۔۔۔۔۔۔ عذاب دیتے ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ قالُوا إلى قوله لَكانَ خَيْراً لَهُمْ [ النساء/ 46] اور اگر یہ لوگ کہتے کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا اور آپ کو متوجہ کرنے کے لئے ۔۔۔۔ راعنا کی جگہ انظرنا کہتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا ۔ اور کبھی لو کے جواب میں لام محزوف ہوتا ہے جیسے ہے ۔ ( 8 ) وہ لام جو مدعا یا مدعو الیہ کے لئے استعمال ہوتا ہے مدعو کے لئے یہ مفعوح ہوتا ہے ۔ جیسے یا لذید ۔ اور مدعوالیہ آئے تو مکسور ہوتا ہے جیسے یالذید ۔ ( 9 ) لام امر یہ ابتدا میں آئے تو مکسور ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمانُكُمْ [ النور/ 58] مومنوں تمہارے غلام لونڈیاں تم سے اجازت لیا کریں ۔ لِيَقْضِ عَلَيْنا رَبُّكَ [ الزخرف/ 77] تمہارا پروردگار ہمیں موت دے دے ۔ اور اگر اس پر داؤ یا فا آجائے تو ساکن ہوجاتا ہے جیسے فرمایا : وَلِيَتَمَتَّعُوا فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ [ العنکبوت/ 66] اور فائدہ اٹھائیں ( سو خیر ) عنقریب ان کو معلوم ہوجائیگا ۔ وفَمَنْ شاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شاءَ فَلْيَكْفُرْ [ الكهف/ 29] تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کافر رہے ۔ فَلْيَفْرَحُوا [يونس/ 58] اور جب اس پر ثم داخل ہو تو اسے ساکن اور متحرک دونوں طرح پڑھنا جائز ہوتا ہے جیسے فرمایا : ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ [ الحج/ 29] پھر چاہیے کہ لوگ اپنا میل کچیل دور کریں اور نذریں پوری کریں ۔ اور خانہ قدیم یعنی بیت اللہ کا طواف کریں ۔ تَّقْوَى والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، ثمّ يسمّى الخوف تارة تَقْوًى، والتَّقْوَى خوفاً حسب تسمية مقتضی الشیء بمقتضيه والمقتضي بمقتضاه، وصار التَّقْوَى في تعارف الشّرع حفظ النّفس عمّا يؤثم، وذلک بترک المحظور، ويتمّ ذلک بترک بعض المباحات لما روي : «الحلال بيّن، والحرام بيّن، ومن رتع حول الحمی فحقیق أن يقع فيه» قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ، إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا [ النحل/ 128] ، وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] ولجعل التَّقْوَى منازل قال : وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] ، واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] ، وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ [ النور/ 52] ، وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسائَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحامَ [ النساء/ 1] ، اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] . و تخصیص کلّ واحد من هذه الألفاظ له ما بعد هذا الکتاب . ويقال : اتَّقَى فلانٌ بکذا : إذا جعله وِقَايَةً لنفسه، وقوله : أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] تنبيه علی شدّة ما ينالهم، وأنّ أجدر شيء يَتَّقُونَ به من العذاب يوم القیامة هو وجوههم، فصار ذلک کقوله : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] ، يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] . التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز سے بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہ سبب بول کر مسبب اور مسبب بولکر سبب مراد لیا جاتا ہے اور اصطلاح شریعت میں نفس کو ہر اس چیز سے بچا نیکا نام تقوی ہے جو گناہوں کا موجب ہو ۔ اور یہ بات محظو رات شرعیہ کے ترک کرنے سے حاصل ہوجاتی ہے مگر اس میں درجہ کمال حاصل کرنے کے لئے بعض مباحات کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے ۔ چناچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے ۔ ( 149 ) الحلال بین واحرام بین ومن وقع حول الحمی فحقیق ان یقع فیہ کہ حلال بھی بین ہے اور حرام بھی بین ہے اور جو شخص چراگاہ کے اردگرد چرائے گا تو ہوسکتا ہے کہ وہ اس میں داخل ہوجائے ( یعنی مشتبہ چیزیں اگرچہ درجہ اباحت میں ہوتی ہیں لیکن ورع کا تقاضا یہ ہے کہ انہیں بھی چھوڑ دایا جائے ) قرآن پاک میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا[ النحل/ 128] کچھ شک نہیں کہ جو پرہیز گار ہیں اللہ ان کا مدد گار ہے ۔ وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَراً [ الزمر/ 73] اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں ان کو گروہ بناکر بہشت کی طرف لے جائیں گے ۔ پھر تقویٰ کے چونکہ بہت سے مدارج ہیں اس لئے آیات وَاتَّقُوا يَوْماً تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ [ البقرة/ 281] اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے ۔ واتَّقُوا رَبَّكُمُ [ النساء/ 1] اپنے پروردگار سے ڈرو ۔ اور اس سے ڈرے گا ۔ اور خدا سے جس کا نام کو تم اپنی حاجت برآری کا ذریعہ بناتے ہو ڈرو ۔ اور قطع مودت ارجام سے ۔ اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقاتِهِ [ آل عمران/ 102] خدا سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ۔ میں ہر جگہ تقویٰ کا ایک خاص معنی مراد ہے جس کی تفصیل اس کتاب کے اور بعد بیان ہوگی ۔ اتقٰی فلان بکذا کے معنی کسی چیز کے ذریعہ بچاؤ حاصل کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ أَفَمَنْ يَتَّقِي بِوَجْهِهِ سُوءَ الْعَذابِ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 24] بھلا جو شخص قیامت کے دن اپنے منہ سے برے عذاب کو روکتا ہوا ۔ میں اس عذاب شدید پر تنبیہ کی ہے جو قیامت کے دن ان پر نازل ہوگا اور یہ کہ سب سے بڑی چیز جس کے ذریعہ وہ و عذاب سے بچنے کی کوشش کریں گے وہ ان کے چہرے ہی ہوں گے تو یہ ایسے ہی ہے جیسے دوسری جگہ فرمایا : وَتَغْشى وُجُوهَهُمُ النَّارُ [إبراهيم/ 50] اور ان کے مونہوں کو آگ لپٹ رہی ہوگی ۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر/ 48] اس روز منہ کے بل دوزخ میں گھسٹیے جائیں گے ۔ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ نعم النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] ( ن ع م ) النعمۃ اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل/ 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

کفر و شرک اور بےحیائی کے کاموں سے بچنے والوں کے لیے آخرت میں آسائش کی جنتیں ہیں، جن کی نعمتیں ہمیشہ رہیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

19 This is. a rejoinder to the chiefs of Makkah, who argued with the Muslims, thus: "The blessings that we are enjoying in the world are a sign that we are favourites of AIlah, and the miserable lives that you are living are a proof that you are under the wrath of AIIah. Therefore, even if there was any life after death, as you say, we shall have good time there too, and the torment would be imposed on you, not on us!"

سورة الْقَلَم حاشیہ نمبر :19 مکہ کے بڑے بڑے سردار مسلمانوں سے کہتے تھے کہ ہم کو یہ نعمتیں جو دنیا میں مل رہی ہیں ، یہ خدا کے ہاں ہمارے مقبول ہونے کی علامت ہیں ، اور تم جس بد حالی میں مبتلا ہو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تم خدا کے مغضوب ہو ۔ لہذا اگر کوئی آخرت ہوئی بھی ، جیسا تم کہتے ہو ، تو ہم وہاں بھی مزے کریں گے اور عذاب تم پر ہو گا نہ کہ ہم پر ۔ اس کا جواب ان آیات میں دیا گیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٤۔ ٤١۔ اوپر دنیا کے ایک باغ کا ذکر تھا اس کے پورا کرنے کے لئے جنت کے باغوں کا ذکر فرمایا اس طرح کی آیتوں کو سن کر مشرکین مکہ یہ کہا کرتے تھے کہ اگر مرنے کے بعد پھر جینا اور میوے کھانے کے لئے باغوں کا ملنا سچ ہے تو دنیا میں جس طرح ہم لوگ بہ نسبت مسلمانوں کے خوشحالی سے گزران کرتے ہیں اسی طرح آخرت میں بھی ہم اچھی طرح رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں میں مشرکوں کی اس بات کا یہ جواب دیا کہ آخرت کا حال کسی نے آنکھ سے تو ابھی تک دیکھا نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ سے وہ حال اپنے رسول کو بتایا ہے اور اللہ کے رسول کے ذریعہ سے وہ حال مسلمان لوگوں کو معلوم ہوا ہے۔ ان مشرکوں کے پاس کیا اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نوشتہ آیا ہے یا اللہ نے ان سے عہد کیا ہے یا کوئی ضامن انہوں نے پیدا کیا ہے یا ان کے بتوں نے ان سے اقرار کیا ہے کہ آخرت میں ان کو اللہ کے فرمانبرداروں سے بڑھ کر خوشحالی ملے گی۔ اللہ تعالیٰ کے انصاف میں یہ بات ہرگز روا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نافرمان لوگوں کو اور فرمانبرداروں کو ایک سا کر دے یا اللہ تعالیٰ نے ان کے بتوں کو اپنے حکم میں کچھ شراکت کا حق دیا ہے کہ وہ اس شراکت کے حق کے سبب سے کسی کا کچھ بھلا کرسکیں اچھا اگر یہ سچے ہیں تو دین و دنیا کی آفت کے وقت اپنے بتوں کو حمایتوں کے طور پر پیش کریں دنیا کے قحط کے وقت تو ان کی بتوں کی حمایت کی قعلی خوب اچھی طرح کھل گئی۔ آخرت کا حال بھی ان کی آنکھوں کے سامنے آنے والا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(68:34) جنت النعیم مضاف مضاف الیہ۔ راحت کے باغ۔ یعنی ایسے باغ جن کے اندر آسائش کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ النعیم۔ اسم معرفہ، نعمت، راحت۔ عیش۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٣٤ تا ٥٢۔ اسرار ومعارف۔ اور جو لوگ عظمت الٰہی کا اقرار کرلیتے ہیں ان کی خاطر تو ان کے پروردگار نے جنت کی نعمتیں سجارکھی ہیں جو لوگ اطاعت گزار اور حکم بجالانے والے ہیں بھلامجرم ان کی برابری کس طرح کرسکتے ہیں کہ تم اے کفار برائی پہ اچھے نتیجے کی امید رکھتے ہو تمہاری یہ رائے قطعی غلط ہے کیا اس کے لیے تمہارے پاس کوئی نقلی دلیل ہے عقلا تو ویسے محال ہے تو کیا کسی آسمانی کتاب میں تمہیں یہ حق دیا گیا ہے کہ اپنے لیے بہتری چن لو یا اللہ نے قیامت تک کوئی قسم کھارکھی ہے کہ تم جو مانگو ملے گا بھلا تمہارے پاس ایسی باتوں کی کیا ضمانعت ہے ؟ یا کوئی اور ہستی ایسی ہے جو اللہ کی شریک ہے اس نے تمہیں وعدہ دے رکھا ہو اگر ایسی بات ہے تو اس ہستی کو سامنے لاؤ جب ایسا کچھ نہیں تو سن لو جب قیامت کی تجلی ذاتی کا ظہور ہوگاجوہر مومن کو سجدے پہ گرادے گی تو تم سے سجدہ کرنے کی توفیق سلب ہوجائے گی اور کافر ومنافق سجدہ نہ کرسکیں گے۔ یکشف عن ساق۔ ساق پنڈلی کو کہاجاتا ہے یہاں استعارہ ہے مراد تجلی ذات ہے جو خاص ہوگی کہ یہ نام دیا گیا اور اس میں ایسی لذت ہوگی کہ لوگ سجدہ ریز ہوجائیں گے مگر کفار ومنافقین اپناسامنہ لے کر کھڑے رہیں گے آنکھیں پتھراجائیں گے اور چہروں پر ذلت چھاجائے گی کہ جب یہ دنیا میں صحیح سالم تھے اور انہیں سجدے کی دعوت دی جاتی تھی تو انکار کردیتے تھے اب جو ان حقائق کا انکار کرتے ہیں انہیں اللہ پر چھوڑ دیجئے کہ اللہ انہیں ایسے ذلیل کرے گا جس طرف سے انہیں گمان بھی نہ ہوگا اگر انہیں گناہ پہ مہلت ملتی ہے تو یہ بھی ایک دھوکا ہے کہ اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں گناہ پر مہلت درحقیقت عذاب الٰہی کو بڑھاتی ہے اور اللہ کے قائدے بہت پکے ہیں۔ بھلا آپ نے ان سے کوئی دنیا کا اجر پایا یا مال دولت طلب کیا ہے انہیں بوجھ محسوس ہورہا ہے یا انہیں کوئی غیب کی بات حاصل ہے جس سے وہ رائے بناتے ہیں جب ایسا کچھ نہیں تو آپ ان کے رویے پر صبر کیجئے اور حضرت یونس (علیہ السلام) کی جلدی نہ کیجئے کہ انہیں اس وجہ سے مچھلی نے نگل لیا۔ (حضرت یونس (علیہ السلام) کا واقعہ پہلے بیان ہوچکا) اور وہ بہت پشیمان تھے جب انہوں نے اللہ سے دعا کی اور اگر مچھلی سے نجات دلانے کے بعد بھی اللہ کی رحمت شامل نہ ہوتی تو چٹیل میدان میں بےاسباب ڈال دیے جاتے لیکن اللہ نے انہیں چن لیا وہ اللہ کے نبی تھے اور اللہ نے انہیں اپنے نیک بندوں میں شمار فرمایا۔ نظر بد۔ کفارتویہ چاہتے ہیں کہ نظروں سے آپ کو پھاڑ کھائیں جبکہ نظر بد سے انسان کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور عربوں نے اسے بطور فن اختیار کررکھا تھا کہ جس جانور یا شے کو اس طرح دیکھتے تباہ کردیتے انہوں نے یہ حربہ آپ پر بھی آزمایا مگر اللہ نے آپ کو محفوظ رکھا۔ اور جب اللہ کا کلام سنتے ہیں تو کہتے ہیں یہ تو پاگلوں والی باتیں ہیں بھلا ایسا کیسے ہوسکتا ہے ان کی بات کی کوئی حیثیت نہیں جبکہ یہ قرآن تو سارے جہان والوں کے لیے نظام حیات اور نصیحت ہے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن۔ تدرسون۔ تم پڑھتے ہو۔ تخیرون۔ تم پسند کرتے ہو۔ ایمان۔ قسمیں۔ تشریح : مکہ کے کفار و مشرکین اپنی معمولی دولت اور چھوٹی چھوٹی سرداریوں کی وجہ سے اس طرح غرور وتکبر کے پیکر بنے ہوئے تھے کہ اپنے سوا ہر ایک کو حقیر اور ذلیل سمجھتے تھے۔ وہ اس غلط فہمی کا شکار تھے کہ جس طرح وہ اس دنیا مین عیش و آرام سے زندگی گزار رہے ہیں آخرت میں بھی اسی طرح راحت و آرام سے رہیں گے اور ان کے دیوی دیوتا ان کی سفارش کرکے جنت کی راحتوں سے ہم کنار کرادیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے خوش فہمی میں مبتلا ایسے لوگوں سے فرمایا ہے کہ جنت اور اس کی بھرپور نعمتوں کے مستحق وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے دنیا کی زندگی میں ایمان، عمل صالح، تقویٰ اور پرہیز گاری کو اختیار کر رکھا تھا لیکن جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو معبود بنا رکھا تھا اور وہ لوگ جو اس کی ذات اور صفات میں شرک کیا کرتے تھے ان کو جنت کی راحتوں ، عیش و آرام کے بجائے جہنم کی اس آگ میں جھلسنا ہوگا جس میں انہیں ہمیشہ رہنا ہے۔ فرمایا کہ یہ بات اللہ کے عدل و انصاف کے خلاف ہے کہ وہ فرماں برداروں اور نافرمانوں کے ساتھ ایک جیسا معاملہ کرکے ان کا انجام یکساں کردے۔ بلکہ اس کے عدل و انصاف کا تقاضا یہ یہ کہ وہ ہر ایک کو اس کے اعمال کے مطابق جزا یا سزا دے۔ فرمایا کہ جو لوگ ایسا سمجھتے یا کہتے ہیں ان کے پاس اپنی بات کو ثابت کرنے کی کیا دلیل ہے ؟ کیا ان پر کوئی ایسی کتاب اتاری گئی ہے جسے پڑھ کر یہ ایسی بہکی بہکی نادانی کی باتیں کر رہے ہیں۔ یا اللہ نے ان کے لئے قسم کھا رکھی ہے کہ وہ کیسے ہی اعمال کرتے رہیں مگر جنت کی راحتیں ہر حال میں ان کو دی جائیں گی بہتر ہے کہ ایسے لوگ اپنے خیال کی اصلاح کرلیں اور ایسی غیر ذمہ دارانہ باتوں سے اپنی دنیا اور اخرت کو برباد نہ کریں۔ آخر وہ کون سے معبود ہیں جو ان کی سفارش کرکے انکو جنت کی راحتوں سے ہمکنار کردیں گے۔ اگر وہ اپنے دعوے اور باتوں میں سچے ہیں تو وہ گواہی کیلئے پیش کریں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : مجرموں کے لیے آخرت میں بڑا عذاب ہوگا اور متقین کے لیے انعامات ہوں گے۔ فہم القرآن کا مطالعہ کرنے والے حضرات جانتے ہیں کہ قرآن مجید کا اسلوب بیان ہے کہ وہ نیکی اور برائی، متقین اور مجرمین جنت اور جہنم کا مقابلۃً ذکر کرتا ہے۔ اسی اسلوب کے پیش نظر یہاں بھی مجرموں کا انجام ذکر کرنے کے بعد متقین کے انعامات کا ذکر کیا ہے۔ ارشاد ہوا کہ کیا ہم تابعدار اور نافرمان لوگوں کو برابر کردیں ؟ ایساہرگز نہیں ہوگا یقیناً متقی لوگ اپنے رب کے ہاں انعام وکر ام والی جنت میں ہوں گے۔ جب جنتیوں کے انعام کا ذکر کیا جاتا ہے تو کفار اور مشرکین کہتے ہیں کہ ہم ایمانداروں سے دنیا میں بھی بہتر ہیں اور آخرت میں بھی بہتر ہوں گے۔ ان کے دعویٰ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ تم اپنے بارے میں کس طرح کے فیصلہ کرتے ہو۔ یعنی تمہیں فیصلے کرنے کا کہاں سے اختیار حاصل ہوا ہے۔ کیا تمہارے پاس فیصلہ کرنے کے لیے کوئی آسمانی کتاب ہے جسے پڑھ کر یہ فیصلہ دیتے ہو کہ اس کتاب میں لکھا ہے کہ جو تم پسند کرتے ہو وہی تمہیں ملے گا ؟ یا تم نے ہم سے حلف لے رکھا ہے جو قیامت کو ہم پر لاگو ہوگا کہ جو چیز تم چاہو گے وہ تمہارے سامنے پیش کردی جائے گی۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان سے سوال کریں کہ یہ جو دعویٰ کرتے ہیں ان میں اس کی ذمہ داری کون لیتا ہے۔ کیا اس دعویٰ میں ان کے بنائے ہوئے شریک شامل اور وہ اس کے ضامن ہیں ؟ اگر ان کے شریک ضامن ہیں تو اپنے دعوے کی سچائی کے لیے اپنے شریکوں کو پیش کریں۔ ان آیات میں کفار کے اس دعویٰ کی تردید کی گئی ہے جو مسلمانوں کے سامنے کیا کرتے تھے، کفار کا دعویٰ تھا کہ جس طرح ہم دنیا میں وسائل کے اعتبار سے مسلمانوں سے آگے ہیں اسی طرح ہی قیامت کے دن بھی ہم ان سے بہتر ہوں گے۔ جس کے جواب میں یہ آیات نازل ہوئیں۔ ان آیات میں ان سے مختلف الفاظ اور انداز میں ان کے دعویٰ کی دلیل طلب کی گئی ہے کیونکہ وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹے تھے اس لیے وہ اس میں لاجواب ہوگئے مگر پھر بھی یہ کہتے رہے اور کہتے رہیں گے کہ ہم آخرت میں مسلمانوں سے بہتر ہوں گے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے ہاں نہ دنیا میں مسلمانوں سے کفار اور مشرکین بہتر ہیں اور نہ آخرت میں بہتر ہوں گے۔ ایماندار قیامت کے دن اپنے رب کے ہاں احترام اور مقام پائیں گے اور مجرم ذلیل ہوں گے اور بدترین سزا سے دوچار کیے جائیں گے۔ (عَنْ سَہْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ قَالَ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَوْ کَانَتِ الدُّنْیَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللَّہِ جَنَاحَ بَعُوضَۃٍ مَا سَقٰی کَافِرًا مِنْہَا شَرْبَۃَ مَاءٍ ) (رواہ الترمذی : کتاب الزہد وہو حدیث صحیح) ” حضرت سہل بن سعد (رض) کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر دنیا کی وقعت اللہ کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی ہوتی تو وہ کافر کو ایک گھونٹ پانی کا نہ دیتا۔ “ (یعنی آخرت کے مقابلے میں دنیا کی کچھ حیثیت نہیں ہے۔ ) مسائل ١۔ متقی لوگ اپنے رب کے ہاں نعمتوں والی جنت میں ہوں گے۔ ٢۔ کفار اور مشرکین بلادلیل اپنے آپ کو بہتر سمجھتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تابعداروں اور مجرموں کو برابر نہیں کرے گا۔ تفسیر بالقرآن دنیا اور آخرت میں کفار اور مشرکین مسلمانوں کے برابر نہیں ہوسکتے : ( التوبہ : ٢٨) (السجدۃ : ١٨) (القلم : ٣٥۔ ٣٦) (المومن : ٥٨) (الحشر : ٢٠) (حٰم السجدۃ : ٣٤) (التوبہ : ١٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان للمتقین ................ النعیم ” یہ ہے دونوں کے انجام کا فرق۔ اور یہ ہے دونوں کے طرز عمل اور حقیقت کا فرق۔ دونوں کی راہ الگ ہے تو یقینا دونوں کا انجام بھی الگ الگ ہوگا۔ اب اس کے بعد قرآن کریم ان کے ساتھ ایک ایسا مکالمہ کرتا ہے جو بالکل قابل فہم ہے اور سورت کے ماقبل کے مضامین نے اسے واضح کردیا ہے۔ اور ان پر اب سوال پر سوال کیا جاتا ہے۔ ایسا سوال جس کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ اس لئے وہ جواب نہیں دے سکتے۔ کیونکہ ان سوالات کا واحد جواب ہے جو کڑوا ہے۔ اس کے سوا یہ کوئی جواب نہیں دے سکتے اور آخرت میں ان کے لئے ایک خوفناک منظر ہے۔ اور دنیا میں ان کے ساتھ رب تعالیٰ کا اعلان جنگ ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

متقیوں کے لیے نعمت والے باغ ہیں اور مسلمین و مجرمین برابر نہیں ہو سکتے ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے متقی بندوں کے انعامات بیان فرمائے ہیں اولاً ارشاد فرمایا کہ انہیں ان کے رب کے پاس نعمتوں والے باغ ملیں گے، اس کے بعد فرمایا کیا ہم فرمانبرداروں کو مجرموں کی طرح کردیں گے ؟ یعنی جو لوگ مجرم ہیں انہیں اپنے جرم کی سزا ملے گی اور فرماں بردار بندے اپنے ایمان اور اعمال صالحہ کا پھل پائیں گے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی نوازش ہوگی اور نعمتیں ملیں گی، نہ تو یہ ہوگا کہ فرمانبردار نعمتوں سے محروم ہو کر مجرمین کے برابر ہوجائیں اور نہ یہ ہوگا کہ کافرین کو نعمتیں دے دی جائیں، جب اہل ایمان اور اہل تقویٰ کی نعمتوں کا تذکرہ ہوتا تھا تو اہل کفر یوں کہتے تھے کہ دنیا میں ہمیں بھی یہ نعمتیں ملیں گی بلکہ ہم نعمتوں کے زیادہ مستحق ہیں ان کی اس بات کی تردید فرما دی کہ ﴿ اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِيْنَ كَالْمُجْرِمِيْنَؕ٠٠٣٥﴾ اور مزید فرمایا ﴿ مَا لَكُمْز كَيْفَ تَحْكُمُوْنَۚ٠٠٣٦﴾ (تمہیں کیا ہوا تم کیسا فیصلہ کرتے ہو) تمہارا یہ فیصلہ تو عقل کے اور دنیا داری کے اصول کے بھی خلاف ہے دنیا میں جو اہل انصاف ہیں کیا مجرم اور غیر مجرم کے ساتھ برابری کا برتاؤ کرتے ہیں ؟ تم نے یہ کیسے کہا کہ اللہ تعالیٰ جو احکم الحاکمین اور سب سے بڑا انصاف والا ہے وہ مجرموں اور غیر مجرموں کے ساتھ برابری کا برتاؤ کرے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

15:۔ ” ان للمتقین “ یہ مومنوں کے لیے بشارت اخرویہ ہے۔ جو لوگ کفر و شرک سے بچنے والے ہیں ان کے لیے نعمتوں کے باغ ہیں جہاں انہیں ہر قسم کی راحت و آسائش اور ہر نعمت میسر ہوگی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(34) البتہ ڈرنے والوں اور پرہیزگاروں کے لئے ان کے پروردگار کے پاس نعمتوں کے باغ ہیں۔ اوپر کی آیتوں میں باغ ضروان کے مالکوں کا ذکر تھا اور اہل مکہ کے منکروں کی آزمائش اور امتحان کی طرف اشارہ تھا اب ان لوگوں کا ذکر فرمایا جو کفر سے اور دوسرے گناہوں سے پرہیز کرتے ہیں ان کو عالم آخرت میں جو نعمتیں اور آرام و آسائش کے باغ ملنے والے ہیں ان کا ذکر کیا کیا چون کہ کفار مکہ عام طور سے یہ خیال کیا کرتے تھے کہ اول تو قیامت اور میدان حشر کا قیام یہ سب ڈھونگ ہے ان میں سے کوئی بات بھی ہونے والی نہیں اور اگر بالفرض قیامت ہوئی بھی اور وہ دوسرا عالم آیا بھی تو ہمارے وہاں بھی حسنی اور جنت ہوگی ہم مسلمانوں سے اچھی حالت میں ہوں گے جس طرح ہم دنیوی عیش و عشرت آرام میں مسلمانوں سے بڑھے ہوئے ہیں اسی طرح وہاں بھی ان سے زیادہ آرام میں رہیں گے اور اگر زیادہ نہ بھی ہوئے تو برابر رہنے میں تو کوئی شک ہی نہیں۔ اس اعتراض کا جواب قرآن نے اور بھی کئی جگہ دیا ہے سورة ص ، سورة سجدہ میں بھی مساوات کی نفی فرمائی ہے یہاں دوسرے عنوان سے کفار کے اس شبہے اور اعتراض کا جواب فرماتے ہیں۔