Surat ul Qalam
Surah: 68
Verse: 35
سورة القلم
اَفَنَجۡعَلُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ کَالۡمُجۡرِمِیۡنَ ﴿ؕ۳۵﴾
Then will We treat the Muslims like the criminals?
کیا ہم مسلمانوں کو مثل گناہ گاروں کے کر دیں گے ۔
اَفَنَجۡعَلُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ کَالۡمُجۡرِمِیۡنَ ﴿ؕ۳۵﴾
Then will We treat the Muslims like the criminals?
کیا ہم مسلمانوں کو مثل گناہ گاروں کے کر دیں گے ۔
Shall We then treat the Muslims like the criminals? مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ
35۔ 1 مشرکین مکہ کہتے تھے کہ اگر قیامت ہوئی تو وہاں بھی ہم مسلمانوں سے بہتر ہی ہونگے، جیسے دنیا میں ہم مسلمانوں سے زیادہ آسودہ حال ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے جواب میں فرمایا، یہ کس طرح ممکن ہے ہم مسلمانوں کو یعنی اپنے فرماں برداروں کو مجرموں یعنی نافرمانوں کی طرح کردیں گے مطلب یہ ہے کہ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ عدل وانصاف کے خلاف دونوں کو یکساں کردے۔
[١٧] خوشحال لوگوں کی ایک عام غلط فہمی :۔ قریشی سردار یہ سمجھتے تھے کہ انہیں جو آسودگی اور خوشحالی حاصل ہے تو یہ ان کے مشرکانہ مذہب کی سچائی پر دلیل ہے۔ پھر یہ معاملہ اتنا ہی نہ تھا بلکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر موت کے بعد ہمیں اٹھایا بھی گیا اور دوسری زندگی حاصل ہوئی تو اللہ وہاں بھی ہم پر مہربانیاں کرے گا۔ جو پروردگار ہم پر آج مہربان ہے کیا وجہ ہے کہ وہ اس اخروی زندگی میں ہم پر مہربان نہ ہو۔ اس آیت میں ان کے اسی قول کا جواب دیا جارہا ہے کہ یہ کیسی خلاف عقل بات ہے کہ اللہ قیامت کے دن اپنے فرمانبرداروں اور اپنے باغیوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرے ؟
(افنجعل المسلمین…: مشرکین کہا کرتے تھے کہ اول تو مرنے کے بعد زندگی کی بات ہی غلط ہے، اگر یہ سچ ہے اور مرنے کے بعد عذاب یا ثواب ہونا ہے تو ہم یہاں مسلمانوں کی بہ نسبت خوش حال ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کے ہم پر راضی ہونے کی دلیل ہے، آخرت میں بھی وہ نعمتیں اور باغات ہمیں کو ملیں گے، تو اللہ تعالیٰ نے ان کی اس بات کی تردید کی اور فرمایا کہ اللہ کے ہاں اندھیر نہیں کہ حکم ماننے والوں سے اور مجرموں سے ایک جیسا سلوک کیا جائے۔
This verse: أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِينَ (Otherwise, shall We make the obedient like the sinners?... 68:35). Clarifies that it is rationally necessary that there should come a time when people will have to give account of their deeds, a place where the guilty ones will find no escape routes, an ideal world where there will be absolute justice and fair play, where good and evil will be clearly distinguished. If this is not the state of affairs in the Hereafter, then no evil should be evil, and no sin should be sin in this mortal world. Divine justice would thus be rendered meaningless. Since it is established that Resurrection is a reality and inevitable, the reward of good deeds is a reality and the punishment of evil deeds is a reality, the verses that follow describe the horrors of the Day of Judgment and the punishment of the evil ones, including the description of the exposure of the Shin [ kashf-us-saq ] in Verse 42 (the explanation of which may be seen in the foot-note given in the translation of that verse.)
قرآن کریم کے اس لفظ نے اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِيْنَ كَالْمُجْرِمِيْنَ ، اس حقیقت کو واضح کردیا کہ عقلاً یہ ہونا ضروری ہے کہ کوئی ایسا وقت آئے جہاں سب کا حساب ہو اور جہاں مجرموں کے لئے کوئی چور دروازہ نہ ہو اور جہاں انصاف ہی انصاف ہو اور نیک و بد کا کھل کر امتیاز واضح ہو اور اگر یہ نہیں ہے تو دنیا میں کوئی برا کام برا نہیں اور کوئی جرم جرم نہیں اور پھر خدائی عدل و انصاف کے کوئی معنے نہیں رہتے۔ اور جب قیامت آنا اور اعمال کی جزاء و سزا ہونا یقینی ہوگیا تو آگے کچھ اہواں قیامت اور مجرمین کی سزا کا ذکر کیا گیا ہے جس میں قیامت کے دن کشف ساق کا اعجاز بیان ہوا ہے اس کی حقیقت خلاصہ تفسیر میں آ چکی ہے۔
اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِيْنَ كَالْمُجْرِمِيْنَ ٣٥ ۭ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ سلم والْإِسْلَامُ : الدّخول في السّلم، وهو أن يسلم کلّ واحد منهما أن يناله من ألم صاحبه، ومصدر أسلمت الشیء إلى فلان : إذا أخرجته إليه، ومنه : السَّلَمُ في البیع . والْإِسْلَامُ في الشّرع علی ضربین : أحدهما : دون الإيمان، وهو الاعتراف باللسان، وبه يحقن الدّم، حصل معه الاعتقاد أو لم يحصل، وإيّاه قصد بقوله : قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات/ 14] . والثاني : فوق الإيمان، وهو أن يكون مع الاعتراف اعتقاد بالقلب، ووفاء بالفعل، واستسلام لله في جمیع ما قضی وقدّر، كما ذکر عن إبراهيم عليه السلام في قوله : إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة/ 131] ، ( س ل م ) السلم والسلامۃ الاسلام اس کے اصل معنی سلم ) صلح) میں داخل ہونے کے ہیں اور صلح کے معنی یہ ہیں کہ فریقین باہم ایک دوسرے کی طرف سے تکلیف پہنچنے سے بےخوف ہوجائیں ۔ اور یہ اسلمت الشئی الی ٰفلان ( باب افعال) کا مصدر ہے اور اسی سے بیع سلم ہے ۔ شرعا اسلام کی دوقسمیں ہیں کوئی انسان محض زبان سے اسلام کا اقرار کرے دل سے معتقد ہو یا نہ ہو اس سے انسان کا جان ومال اور عزت محفوظ ہوجاتی ہے مگر اس کا درجہ ایمان سے کم ہے اور آیت : ۔ قالَتِ الْأَعْرابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنا[ الحجرات/ 14] دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے کہدو کہ تم ایمان نہیں لائے ( بلکہ یوں ) کہو اسلام لائے ہیں ۔ میں اسلمنا سے یہی معنی مراد ہیں ۔ دوسرا درجہ اسلام کا وہ ہے جو ایمان سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان کے اعتراف کے ساتھ ساتھ ولی اعتقاد بھی ہو اور عملا اس کے تقاضوں کو پورا کرے ۔ مزید پر آں کو ہر طرح سے قضا وقدر الہیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کردے ۔ جیسا کہ آیت : ۔ إِذْ قالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ البقرة/ 131] جب ان سے ان کے پروردگار نے فرمایا ۔ کہ اسلام لے آؤ تو انہوں نے عرض کی کہ میں رب العالمین کے آگے سرا طاعت خم کرتا ہوں ۔ جرم أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة : ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] ، ( ج ر م ) الجرم ( ض) اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔
اور کہا گیا ہے کہ عتبہ بن ربیعہ نے کہا کہ محمد اپنے ساتھیوں سے جنت اور اس کی نعمتوں کا جو بیان کرتے ہیں اگر یہ بات صحیح ہے تو ہم ان لوگوں سے آخرت میں بھی اچھے ہوں گے جیسا کہ دنیا میں اچھے ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی کیا ہم جنت میں مسلمانوں کے ثواب کو مشرکین کے بدلہ کے برابر کردیں گے یا یہ کہ کیا آخرت میں ہم مشرکین کے بدلہ کو مسلمانوں کے ثواب کے برابر کردیں گے۔
آیت ٣٥{ اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ کَالْمُجْرِمِیْنَ ۔ } ” کیا ہم اپنے فرمانبرداروں کو مجرموں کے برابر کردیں گے ؟ “ اگر بعث بعد الموت کے منکرین کی منطق درست تسلیم کرلی جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نیکوکار اور مجرمین میں سرے سے کوئی فرق ہی نہیں ہے۔ طبعی طور پر تو موت بلاشبہ سب کو برابر کردیتی ہے ‘ جیسا کہ مشہور انگریزی نظم Death the Leveller میں بتایا گیا ہے ۔ یعنی کوئی بادشاہ ہو ‘ کوئی فقیرہو ‘ کوئی شریف ہو ‘ کوئی مجرم ہو ‘ مرنا سبھی کو ہے۔ اس اعتبار سے تو یقینا موت کے سامنے سب انسان برابر ہیں ‘ لیکن یہ سمجھنا کہ موت آنے پر اخلاقی لحاظ سے بھی سب انسان برابر ہوجائیں گے انتہائی غیر منطقی اور احمقانہ سوچ ہے۔
(68:35) افنجعل المسلمین کالمجرمین : کیا ہم فرمانبرداروں کا حال مجرموں جیسا کردیں گے ؟ استفہام انکاری ہے۔ مسلمانوں کے برابر مجرموں کو قرار دینے کا انکار ہے جس سے مسلمانوں پر مجرموں کی فضیلت کا انکار بطریق اولی مستفاد ہوتا ہے۔ اس جملہ کا عطف جملہ محذوف پر ہے۔ اصل کلام یوں تھا :۔ کیا ہم مسلمانوں کو مجروموں پر فضیلت نہیں دیں گے اور کیا مسلمانوں کو مجرموں کی طرح کردیں گے ؟
“6 ” ھمزہ “ برائے انکار اور فاء عاطفہ ہے اور اس کا عطف مقدر پر ہے : ای فیعیف فی الحکم فیجعل المسلمین کا لکافرین یعنی ہرگز برابر نہ کریں گے کیونکہ اگر ایسا ہو تو جزا سزا کا سارا قانون ہی بےمعنی ہو کر رہ جائے۔ یہ آیت ” ان المتقین “ کی تاکید ہے اور اس سے مقصود کفار مکہ کے اس خیال کی تردید ہے کہ اگر واقعی قیامت آئی جیسا کہ محمد (ﷺ) کا دعویٰ ہے تو اس میں ہمارا اور مسلمانوں کا حال وہی ہوگا جو اس دنیا میں ہے۔ ہم چونکہ یہاں مالدارو خوشحال ہیں اس لئے آخرت میں بھی مسلمانوں سے زیادہ عنایات و انعامات سے نوازے جائیں گے یا کم از کم ان کے برابر تو ہوں گے ہی۔
افنجعل ............................ فھم یکتبون اس مکالمے اور تحدیات کے درمیان یہ دھمکی بھی آتی ہے کہ آخرت میں تو ان کے لئے عذاب ہے ہی لیکن دنیا میں بھی ان کے خلاف جنگ ہوگی۔ یوں مکالمے میں گرمی پیدا ہوجاتی ہے اور چیلنج زور دار ہوجاتا ہے۔ چناچہ اہل مکہ کو چیلنج کے انداز میں کہا جاتا ہے۔ فنجعل ............ کالمجرمین (٨٦ : ٥٣) ”” فرمانبرداروں کا حال مجرموں کا سا کردیں ؟ “ یہ سوال آیات سابقہ میں پائے جانے والے لوگوں کے حوالے سے ہے جو مجرم تھے اور اس کا جواب صرف ایک ہے کہ مسلمین مجرمین کی طرح نہیں ہوسکتے۔ مسلمین رب کے سامنے جھکنے والے ہیں۔ یہ کبھی بھی ان لوگوں کی طرح نہیں ہوا کرتے جو جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں ، جن کی اوصاف آیات سابقہ میں بیان کردی گئی ہیں اور جو اہل مکہ پر چسپاں ہوتی ہیں۔ عقل کا تقاضا بھی یہی ہے۔ انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے کہ مجرموں اور مسلموں کا انجام ایک طرح کا نہ ہو۔ چناچہ دوسرا سوال کیا جاتا ہے۔ یہ بھی سرزنش کا سوال ہے۔
16:۔ ” افنجعل المسلمین “ یہ مشرکین پر زجر ہے۔ مشرکین جب آخرت اور جنت و دوزخ کا ذکر سنتے تو کہتے اگر بالفرض قیامت آ بھی گئی تو ہمارا اور مسلمانوں کا حال بعینہ وہی ہوگا جو آج دنیا میں ہے یعنی ان سے زیادہ دولت و ثروت کے مالک ہوں گے اور ان کو ہم پر کوئی فوقیت اور بڑائی حاصل نہیں ہوگی بلکہ زیادہ سے زیادہ وہ ہمارے برابر ہی ہوں گے اس پر ارشاد فرمایا : کیا ہم مسلمانوں کو ان سرکش اور باغی و طاغی مجرموں کے برابر کردیں گے ؟ ہرگز نہیں، ایسا نہیں ہوگا۔ تمہیں کیا ہوگیا ہے تم کیسی بےتکی اور بےعقلی کی باتیں کرتے ہو۔ استفہام انکاری ہے۔