Surat ul Qalam

Surah: 68

Verse: 41

سورة القلم

اَمۡ لَہُمۡ شُرَکَآءُ ۚ ۛ فَلۡیَاۡتُوۡا بِشُرَکَآئِہِمۡ اِنۡ کَانُوۡا صٰدِقِیۡنَ ﴿۴۱﴾

Or do they have partners? Then let them bring their partners, if they should be truthful.

کیا ان کے کوئی شریک ہیں؟ تو چاہیے کہ اپنے اپنے شریکوں کو لے آئیں اگر یہ سچے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Or have they "partners?" Then let them bring their "partners" if they are truthful!

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

41۔ 1 یا جن کو انہوں نے شریک ٹھہرا رکھا ہے وہ ان کی مدد کر کے ان کو اچھا مقام دلوا دیں گے ؟ اگر ان کے شریک ایسے ہیں تو ان کو سامنے لائیں تاکہ ان کی صداقت واضح ہو۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ام لھم شرکآء …: یا اگر یہ خود ضمانت نہیں دے سکتے تو کیا ان کے پاس ایسی ہستیاں ہیں جو اللہ کے شریک ہوں اور انہیں آخرت میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے زبردستی چھڑوا کر جنت دلوانے کا ذمہ دے سکیں ؟ اگر سچے ہیں تو وہ شریک سامنے لائیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَمْ لَہُمْ شُرَكَاۗءُ۝ ٠ ۚۛ فَلْيَاْتُوْا بِشُرَكَاۗىِٕہِمْ اِنْ كَانُوْا صٰدِقِيْنَ۝ ٤١ أَمْ»حرف إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه : أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص/ 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔...  جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ { أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ } ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام/ 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل/ 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل/ 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر/ 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعرأتيت المروءة من بابها فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة/ 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء/ 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم/ 27] . يقال : أتيته وأتوته ويقال للسقاء إذا مخض وجاء زبده : قد جاء أتوه، وتحقیقه : جاء ما من شأنه أن يأتي منه، فهو مصدر في معنی الفاعل . وهذه أرض کثيرة الإتاء أي : الرّيع، وقوله تعالی: مَأْتِيًّا[ مریم/ 61] مفعول من أتيته . قال بعضهم معناه : آتیا، فجعل المفعول فاعلًا، ولیس کذلک بل يقال : أتيت الأمر وأتاني الأمر، ويقال : أتيته بکذا وآتیته كذا . قال تعالی: وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة/ 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل/ 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء/ 54] .[ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف/ 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . والإِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة/ 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء/ 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة/ 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة/ 247] . ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی |" آنا |" ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : {إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ } [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو { أَتَى أَمْرُ اللَّهِ } [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ { فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ } [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت { وَجَاءَ رَبُّكَ } [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) |" اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ { وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى } [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ { يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ } [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ { لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا } [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ ارض کثیرۃ الاباء ۔ زرخیز زمین جس میں بکثرت پیداوار ہو اور آیت کریمہ : {إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيًّا } [ مریم : 61] بیشک اس کا وعدہ آیا ہوا ہے ) میں ماتیا ( فعل ) اتیتہ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے بعض علماء کا خیال ہے کہ یہاں ماتیا بمعنی آتیا ہے ( یعنی مفعول بمعنی فاعل ) ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ محاورہ میں اتیت الامر واتانی الامر دونوں طرح بولا جاتا ہے اتیتہ بکذا واتیتہ کذا ۔ کے معنی کوئی چیز لانا یا دینا کے ہیں قرآن میں ہے ۔ { وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا } [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ { فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا } [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ { مُلْكًا عَظِيمًا } [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ { آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ } [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ { وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ } [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں { وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ } [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا { وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ } ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو { وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ } [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی صدق الصِّدْقُ والکذب أصلهما في القول، ماضیا کان أو مستقبلا، وعدا کان أو غيره، ولا يکونان بالقصد الأوّل إلّا في القول، ولا يکونان في القول إلّا في الخبر دون غيره من أصناف الکلام، ولذلک قال : وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ص دق) الصدق ۔ یہ ایک الکذب کی ضد ہے اصل میں یہ دونوں قول کے متعلق استعمال ہوتے ہیں خواہ اس کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہو یا مستقبل کے ۔ وعدہ کے قبیل سے ہو یا وعدہ کے قبیل سے نہ ہو ۔ الغرض بالذات یہ قول ہی کے متعلق استعمال ہوتے ہیں پھر قول میں بھی صرف خبر کے لئے آتے ہیں اور اس کے ماسوا دیگر اصناف کلام میں استعمال نہیں ہوتے اسی لئے ارشاد ہے ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ وہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

23 That is, "The judgement you are passing concerning yourselves has no basis whatever. It is against reason and you cannot show any such thing written in any Divine Book either. No one can make the claim that he has made Allah promise some such thing, and you cannot make any of your deities vouch that it would take the responsibility of securing Paradise for you from God. How then have you been i... nvolved in such a misunderstanding?  Show more

سورة الْقَلَم حاشیہ نمبر :23 یعنی تم اپنے حق میں جو حکم لگا رہے ہو اس کے لیے سرے سے کوئی بنیاد نہیں ہے ۔ یہ عقل کے بھی خلاف ہے ۔ خدا کی کسی کتاب میں بھی تم یہ لکھا ہوا نہیں دکھا سکتے ۔ تم میں سے کوئی یہ دعویٰ بھی نہیں کر سکتا کہ اس نے خدا سے ایسا کوئی عہد لے لیا ہے ۔ اور جن کو تم نے معبود بنا ر... کھا ہے ان میں سے بھی کسی سے تم یہ شہادت نہیں دلوا سکتے کہ خدا کے ہاں تمہیں جنت دلوا دینے کا وہ ذمہ لیتا ہے پھر یہ غلط فہمی آخر تمہیں کہاں سے لاحق ہو گئی؟   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(68:41) ام لہم شرکائ : ام بمعنی کیا۔ شرکاء شریک ، ساجھی۔ شریک کی جمع وہ معبودان باطل جن کو مشرکین الوہیت میں خدا کا شریک سمجھتے تھے، یعنی کیا کافروں کو قیامت کے دن مومنوں کے ہم رتبہ بنا دینے والے شرکاء الوہیت ہیں ؟ فلیاتوا بشرکائہم : جملہ جواب شرط میں ہے شرط محذوف ہے یعنی اگر ہیں تو لے آئیں اپنے ا... ن شرکاء کو۔ لیاتوا فعل امر جمع مذکر غائب ۔ اثیان (افعال) مصدر سے ۔ پس لے آویں۔ تو لے آویں۔ ان کانوا صدقین : اگر وہ (اپنے دعوے میں) سچے ہیں۔ یہ جملہ شرط ہے اس کا جملہ جزائیہ فلیاتوا بشرکائہم ہوسکتا ہے یا گذشتہ کلام جو جزاء پر دلالت کر رہا ہے اس کے لئے کافی سمجھا گیا ہے اس جگہ جملہ شرطیہ کی جزاء کی ضرورت نہیں ہے۔ فائدہ : مندرجہ بالا آیات نمبر 33 تا 41 میں منکرین اسلام اور متقین کی جزاء و سزا کا حال بیان کیا گیا ہے۔ آیت 33 میں اصحاب الجنۃ باغ والوں کا حال بیان کرکے فرمایا۔ کذلک العذاب ولعذاب الاخرۃ اکبر لوکانوا یعلمون : اور آیت نمبر 34 میں متقین کو عطاء ہونے والی نعمتوں کا ذکر فرمایا۔ ان للمتقین عند ربھم جنت النعیم : اس کو سن کر کفار مکہ نے کہا کہ جب خدا نے دنیا میں مسلمانوں سے بڑھ کر ہم کو مال و دولت دیا ہے تو آخرت میں بھی ان سے بڑھ کر نہیں تو کم از کم برابر تو ضرور دے گا۔ اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار کے اس دعوے کا مفصل طور پر رد فرمایا ہے :۔ (1) فرمایا کہ تمہارے پاس اس بات کا کہ تم کو متقین سے بڑھ کر یا ان کے برابر انعامات دئیے جائیں گے ۔ کوئی عقلی ثبوت نہیں۔ افنجعل المسلمین کالمجرمین مالکم کیف تحکمون ۔ آیات 3536 (2) کسی عقلی ثبوت کے علاوہ تمہارے پاس کوئی نقلی ثبوت بھی تو نہیں۔ ام لکم کتب فیہ تدرسون : ان لکم فیہ لما تخیرون (37:38) (3) پھر نقلی و عقلی ثبوت تو کجا رہے تمہارے پاس تو کسی کا کوئی وعدہ یا وعید بھی تو نہیں ہے کہ تم کو تمہارے کہنے کے مطابق دیا جائے گا۔ اگر ایسا ہے تو اس کا ضامن پیش کرو۔ ام لکم ایمان علینا بالغۃ الی یوم القیامۃ ان لکم لما تحکمون ۔ سلہم ایہم بذلک زعیم (آیات 39:40) (4) اگر یہ بھی نہیں تو تمہارا سہاوہ وہ معبودان باطل ہی ہوسکتے ہیں جن کو تم خدا کی خدائی میں شریک سمجھتے ہو اور خیال کرتے ہو کہ قیامت کے دن وہ تمہارے معاون و مددگار ہوں گے، تو جاؤ ان کو لے آؤ۔ ام لہم شرکاء فلیاتوا بشرکائہم ان کانوا صدقین (آیت نمبر 41) ظاہر ہے کہ اس میں بھی وہ ناکام و نامراد رہیں گے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 ” جو اس چیز کا ذمہ لیتے ہیں اور انسے اس باطل خیال میں موافقت کرتے ہیں ؟

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ غرض جب یہ مضمون کسی آسمانی کتاب میں نہیں ویسے بلا کتاب دوسرے طرق وحی سے ہمارا وعدہ نہیں جو مثل قسم کے ہوتا ہے، پھر ایسی حالت میں کون شخص ان میں سے یا ان کے شرکاء میں سے اس کی ذمہ داری کرسکتا ہے ؟ ہرگز نہیں پھر دعوی کس بنا پر ہے ؟

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ام لھم ................ صدقین (٨٦ : ١٤) ” یا پھر ان کے ٹھہرائے ہوئے کچھ شریک ہیں (جنہوں نے اس کا ذمہ لیا ہو) ؟ یہ بات ہے تو لائیں اپنے ان شریکوں کو اگر یہ سچے ہیں “۔ یہ لوگ اللہ کے ساتھ کئی الہوں کو شریک ٹھہراتے تھے ، لیکن قرآن مجید ان کو اپنا شریک نہیں کہتا ، ان کا شریک کہتا ہے۔ قرآن یہ بتاتا ہے کہ...  اللہ کا شریک تو اللہ کو معلوم نہیں ہے۔ اور چیلنج دیتا ہے کہ یہ جو سمجھتے ہیں کہ ہیں تولے آئیں تاکہ ان کو دیکھا جائے ، لیکن کہاں سے لائیں ؟  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا ﴿ اَمْ لَهُمْ شُرَكَآءُ ١ۛۚ﴾ (الآیہ) کیا ان کے ٹھہرائے ہوئے کچھ شریک ہیں سو وہ اپنے شریکوں کو لے آئیں اگر سچے ہیں) یعنی کیا انہوں نے شریک ٹھہرائے ہوئے ہیں جنہوں نے انہیں ثواب دینے کا اور فرمانبرداروں کے برابر کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے اگر ایسا ہے تو اپنے شریکوں کو پیش کریں اگر اپنے خیال میں...  سچے ہیں۔ یعنی یہ جو انہوں نے کہا ہے کہ فرماں بردار اور مجرم برابر ہوں گے نہ ان کے پاس اس مضمون کی کوئی آسمانی کتاب ہے نہ کسی دوسرے طریق وحی سے اللہ تعالیٰ نے ان سے ایسا وعدہ فرمایا ہے نہ اللہ کی مخلوق میں اس کے شریک کچھ ہیں جنہوں نے اس بات کی ذمہ داری لی ہو کہ ہم تمہاری بات سچ کردیں گے یا کروا دیں گے جب ان میں سے کوئی بات بھی نہیں ہے تو یہ جاہلانہ بات کیسے کہتے ہیں ؟  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

19:۔ ” ام لہم شرکاء “ اچھا اگر مذکورہ بالا باتوں میں سے کوئی بات نہیں تو کیا ان کے شرکاء ہیں جو ان کے اس دعوے کو صحیح کردکھائیں گے تو وہ اپنے ان شرکاء کو لے آئیں اور ان کا کوئی کمال تو دکھائیں جس سے ثابت ہو کہ وہ واقعی برکات دہندہ ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(41) کیا ان مشرکوں کے تجویز کردہ کچھ شرکاء ہیں جن کو انہوں نے اللہ تعالیٰ کا شریک مقرر کررکھا ہے پھر اگر یہ سچے ہیں تو ان اپنے تجویز کردہ شرکاء کو پیش کریں۔ یعنی اگر یہ یوں کہیں کہ وہ جن کو ہم شریک خدائی سمجھتے ہیں اور جن کی ہم پرستش کیا کرتے ہیں وہ سب اپنی سفارش سے عالم آخرت میں یہ نعمتیں ہم کو دلو... ائیں گے تو ان سے کہو کہ ان کو ہمارے سامنے لائو تاکہ ہم دیککھیں کہ ان کو کیا طاقت ہے کہ وہ خدائے تعالیٰ سے اس کی مرضی اور اس کی منشا کے خلاف دین حق کے منکروں کو جنت اور حسنیٰ دلوادیں گے۔ غرض جب یہ مضمون نہ کسی آسمانی کتاب میں ہے نہ کوئی ہمارا عہد و پیمان ہے پھر ایسی حالت میں کوئی شخص ان میں سے یان کے فرضی شرکاء میں سے ذمہ دار بھی نہیں تو پھر ان کا یہ دعویٰ کہ ماتحکمون اور ما تخیرون آخرت میں ہمارے لئے ہے غیر مسموع اور ناقابل توجہ دعویٰ ہے۔ آگے قیامت میں ان کی ذلت اور رسوائی کا ذکر فرمایا۔  Show more