Surat ul Qalam

Surah: 68

Verse: 42

سورة القلم

یَوۡمَ یُکۡشَفُ عَنۡ سَاقٍ وَّ یُدۡعَوۡنَ اِلَی السُّجُوۡدِ فَلَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ ﴿ۙ۴۲﴾

The Day the shin will be uncovered and they are invited to prostration but the disbelievers will not be able,

جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی اور سجدے کے لئے بلائے جائیں گے تو ( سجدہ ) نہ کر سکیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Terror of the Day of Judgement After Allah mentions that those who have Taqwa, will have Gardens of Delight with their Lord, He explains when this will be, and its actual occurrence. He says, يَوْمَ يُكْشَفُ عَن سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَ يَسْتَطِيعُونَ The Day when the Shin shall be laid bare and they shall be called to prostrate themselves,...  but they shall not be able to do so. meaning, the Day of Judgement and the horrors, earthquakes, trials, tests and great matters that will occur during it. Al-Bukhari recorded that Abu Sa`id Al-Khudri said that he heard the Prophet saying, يَكْشِفُ رَبُّنَا عَنْ سَاقِهِ فَيَسْجُدُ لَهُ كُلُّ مُوْمِنٍ وَمُوْمِنَةٍ وَيَبْقَى مَنْ كَانَ يَسْجُدُ فِي الدُّنْيَا رِيَاءً وَسُمْعَةً فَيَذْهَبُ لِيَسْجُدَ فَيَعُودُ ظَهْرُهُ طَبَقًا وَاحِدًا Our Lord will reveal His Shin, and every believing male and female will prostrate to Him. The only people who will remain standing are those who prostrated in the worldly life only to be seen and heard (showing off). This type of person will try to prostrate at that time, but his back will made to be one stiff plate (the bone will not bend or flex)." This Hadith was recorded in the Two Sahihs and other books from different routes of transmission with various wordings. It is a long Hadith that is very popular. Concerning Allah's statement,   Show more

سجدہ اس وقت منافقوں کے بس میں نہیں ہو گا اوپر چونکہ بیان ہوا تھا کہ پرہیزگار لوگوں کے لئے نعمتوں والی جنتیں ہیں اسلئے یہاں بیان ہو رہا ہے کہ یہ جنتیں انہیں کب ملیں گی؟ تو فرمایا کہ اس دن جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی ۔ یعنی قیامت کے دن جو دن بڑی ہولناکیوں والا زلزلوں والا امتحان والا اور آزمائش وا... لا اور بڑے بڑے اہم امور کے ظاہر ہونے کا دن ہو گا ۔ صحیح بخاری شریف میں اس جگہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرماتے تھے ہمارا رب اپنی پنڈلی کھول دے گا پس ہر مومن مرد اور ہر مومنہ عورت سجدے میں گر پڑے گی ہاں دنیا میں جو لوگ دکھاوے سناوے کے لئے سجدہ کرتے تھے وہ بھی سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن ان کی کمر تختہ کی طرف ہو جائے گی ، یعنی ان سے سجدے کے لئے جھکا نہ جائے گا ، یہ حدیث بخاری مسلم دونوں میں ہے اور دوسری کتابوں میں بھی ہے کئی کئی سندوں سے الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ مروی ہے اور یہ حدیث مطول ہے اور مشہور ہے ، حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہ دن تکلیف دکھ درد اور شدت کا دن ہے ( ابن جریر ) اور ابن جریر اسے دوسری سند سے شک کے ساتھ بیان کرتے ہیں وہ ابن مسعود یا ابن عباس سے آیت ( يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّيُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ 42؀ۙ ) 68- القلم:42 ) کی تفسیر میں بہت بڑا عظیم الشان امر مروی ہے جیسے شاعر کا قول ہے ( شالت الحرب عن ساق ) یہاں بھی لڑائی کی عظمت اور بڑائی بیان کی گئی ہے ، مجاہد سے بھی یہی مروی ہے ، حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں قیامت کے دن کی یہ گھڑی بہت سخت ہو گی ، آپ فرماتے ہیں یہ امر بہت سخت بڑی گھبراہٹ والا اور ہولناک ہے ، آپ فرماتے ہیں جس وقت امر کھول دیا جائے گا اعمال ظاہر ہو جائیں گے اور یہ کھلنا آخرت کا آ جاتا ہے اور اس سے کام کا کھل جانا ہے ، یہ سب روایتیں ابن جریر میں ہیں ، اس کے بعد یہ حدیث ابو یعلی میں بھی ہے اور اس کی اسناد میں ایک مبہم راوی ہے واللہ اعلم ( یاد رہے کہ صحیح تفسیر وہی ہے جو بخاری مسلم کے حوالے سے اوپر مرفوع حدیث میں گذری کہ اللہ عزوجل اپنی پنڈلی کھولے گا ، دوسری حدیث بھی مطلب کے لحاظ سے ٹھیک ہے کیونکہ اللہ خود نور اور اقوال بھی اسطرح ٹھیک ہیں کہ اللہ عالم کی پنڈلی بھی ظاہر ہو گی اور ساتھ ہی وہ ہولناکیاں اور شدتیں بھی ہوں گی واللہ اعلم ۔ مترجم ) پھر فرمایا جس دن ان لوگوں کی آنکھیں اوپر کو نہ اٹھیں گی اور ذلیل و پست ہو جائیں گے کیونکہ دنیا میں بڑے سرکش اور کبر و غرور والے تھے ، صحت اور سلامتی کی حالت میں دنیا میں جب انہیں سجدے کے لئے بلایا جاتا تھا تو رک جاتا تھے جس کی سزا یہ ملی کہ آج سجدہ کرنا چاہتے ہیں لیکن نہیں کر سکتے پہلے کر سکتے تھے لیکن نہیں کرتے تھے ، اللہ تعالیٰ کی تجلی دیکھ کر مومن سب سجدے میں گر پڑیں گے لیکن کافر و منافق سجدہ نہ کر سکیں گے کمر تختہ ہو جائے گی جھکے گی ہی نہیں بلکہ پیٹھ کے بل چت گر پڑیں گے ، یہاں بھی ان کی حالت مومنوں کے خلاف تھی وہاں بھی خلاف ہی رہے گی ۔ پھر فرمایا مجھے اور میری اس حدیث یعنی قرآن کو جھٹلانے والوں کو تو چھوڑ دے ، اس میں بڑی وعید ہے اور سخت ڈانٹ ہے کہ تو ٹھہر جا میں آپ ان سے نپٹ لوں گا دیکھ تو سہی کہ کس طرح بتدریج انہیں پکڑتا ہوں یہ اپنی سرکشی اور غرور میں پڑتے جائیں گے میری ڈھیل کے راز کو نہ سمجھیں گے اور پھر ایک دم یہ پاپ کا گھڑا پھوٹے گا اور میں اچانک انہیں پکڑ لوں گا ۔ میں انہیں بڑھاتا رہوں گا یہ بدمست ہوتے چلے جائیں گے وہ اسے کرامت سمجھیں گے حالانکہ وہ اہانت ہو گی ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( اَيَحْسَبُوْنَ اَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهٖ مِنْ مَّالٍ وَّبَنِيْنَ 55؀ۙ ) 23- المؤمنون:55 ) ، یعنی کیا ان کا گمان ہے کہ مال و اولاد کا بڑھنا ان کے لئے ہماری جانب سے کسی بھلائی کی بنا پر ہے ، نہیں بلکہ یہ بےشعور ہیں اور جگہ فرمایا آیت ( فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ ۭ حَتّٰى اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ 44؀ ) 6- الانعام:44 ) جب یہ ہمارے وعظ و پند کو بھلا چکے تو ہم نے ان پر تمام چیزوں کے دروازے کھول دیئے یہاں تک کہ انہیں جو دیا گیا تھا اس پر اترانے لگے تو ہم نے انہیں ناگہانی پکڑ لیا اور ان کی امیدیں منقطع ہو گئیں ۔ یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے میں انہیں ڈھیل دوں گا ، بڑھاؤں گا اور اونچا کروں گا یہ میرا داؤ ہے اور میری تدبیر میرے مخالفوں اور میرے نافرمانوں کے ساتھ بہت بڑی ہے ۔ بخاری مسلم میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے پھر جب پکڑتا ہے تو چھوڑتا نہیں پھر آپ نے یہ آیت پڑھی ( وَكَذٰلِكَ اَخْذُ رَبِّكَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰي وَهِىَ ظَالِمَةٌ ۭ اِنَّ اَخْذَهٗٓ اَلِيْمٌ شَدِيْدٌ ١٠٢؀ ) 11-ھود:102 ) یعنی اسی طرح ہے تیرے رب کی پکڑ جبکہ وہ کسی بستی والوں کو پکڑتا ہے جو ظالم ہوتے ہیں اس کی پکڑ بڑی درد ناک اور بہت سخت ہے ۔ پھر فرمایا تو کچھ ان سے اجرت اور بدلہ تو مانگتا ہی نہیں جو ان پر بھاری پڑتا ہو جس تاوان سے یہ جھکے جاتے ہوں ، نہ ان کے پاس کوئی علم غیب ہے جسے یہ لکھ رہے ہوں ۔ ان دونوں جملوں کی تفسیر سورہ والطور میں گذر چکی ہے خلاصہ مطلب یہ ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ انہیں اللہ عزوجل کی طرف بغیر اجرت اور بغیر مال طلبی کے اور بغیر بدلے کی چاہت کے بلا رہے ہیں آپ کی غرض سوائے ثواب حاصل کرنے کے اور کوئی نہیں اس پر بھی یہ لوگ صرف اپنی جہالت اور کفر اور سرکشی کی وجہ سے آپ کو جھٹلا رہے ہیں ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

42۔ 1 بعض نے کشف ساق سے مراد قیامت کی ہولناکیاں [ ا۔ ی ] لی ہیں لیکن ایک صحیح حدیث اس کی تفسیر اس طرح بیان ہوئی ہے کہ قیامت والے دن اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا (جس طرح اس کی شان کے لائق ہے) تو ہر مومن مرد اور عورت اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجائیں گے البتہ وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جو دکھلاوے اور شہرت ... کے لئے سجدہ کرتے تھے وہ سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن ان کی ریڑھ کی ہڈی کے منکے، تختے کی طرح ایک ہڈی بن جائیں گے جس کی وجہ سے ان کے لئے جھکنا ناممکن ہوجائے گا (صحیح بخاری) اللہ تعالیٰ کی پنڈلی کس طرح کی ہوگی ؟ اسے وہ کس طرح کھولے گا ؟ اس کیفیت ہم نہ جان سکتے ہیں نہ بیان کرسکتے ہیں۔ اس لئے جس طرح ہم بلا کیف و بلاشبہ اس کی آنکھوں، کان، ہاتھ وغیرہ پر ایمان رکھتے ہیں، اسی طرح پنڈلی کا ذکر بھی قرآن اور حدیث میں ہے، اس پر بلاکیف ایمان رکھنا ضروری ہے۔ یہی سلف اور محدثین کا مسلک ہے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٩] اللہ کی پنڈلی کا ذکر :۔ آیت نمبر ٤٢ اور ٤٣ کی تفسیر کے لئے درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے : سیدنا ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا :&& قیامت کے دن پروردگار اپنی پنڈلی کھولے گا تو ہر مومن مرد اور مومن عورت سجدہ میں گرپڑیں گے۔ صرف وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جو لوگوں کو دکھلانے یا سنانے ... کے لئے سجدہ کیا کرتے تھے۔ وہ سجدہ تو کرنا چاہیں گے لیکن ان کی پشت اکڑ کر ایک تختہ کی طرح ہوجائے گی && (بخاری۔ کتاب التفسیر) بعض علماء نے (يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ 42؀ۙ ) 68 ۔ القلم :42) کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ : && جس دن حقائق سے پردہ اٹھا دیا جائے گا && اگر یہ اہل عرب کا محاورہ ہو تب بھی ہم ارشاد نبوی کے مقابلہ میں ایسے محاورہ کو ترجیح نہیں دے سکتے۔ رہی یہ بات کہ اللہ تعالیٰ کی پنڈلی کیسی ہے کیا یہ انسانوں کی پنڈلی کی طرح ہے یا اس کی کوئی اور صورت ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم یہ بات نہ جان سکتے ہیں اور نہ جاننے کے مکلف ہیں۔ ہمارا کام یہ ہے کہ اگر اللہ نے اپنی پنڈلی کا ذکر کیا ہے تو ہم اتنی ہی بات مانتے ہیں، اس کے آگے کچھ نہیں۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(١) یوم یکشف عن ساق …:” یوم “ یا تو پچھلی آیت ” فلیاثوا بشرکآئھم “ کے متعلق ہے، یعنی دنیا میں تو ہوسکتا ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے جھوٹ موٹ شریک گنوا دیں جو ان کی رہائی کے ذمہ دار بننے کا دعویٰ کریں، مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر سچے ہیں تو اس دن اپنے شریک سامنے لائیں جس دن پنڈلی سے پردہ ہٹایا جائ... ے گا اور لوگوں کو سجدے کے لئے بلایا جائے گا تو یہ لوگ سجدہ نہیں کرسکیں گے۔ یا یہ ” ان للمتقین عند ربھم جنت النعیم “ کے متعلق ہے، یعنی متقین کو نعمت والی جنتیں اس دن ملیں گی جب پنڈلی سے پردہ ہٹایا جائے گا۔ (٢) یوم یکشف عن ساق “ کا ایک معنی تو وہ ہے جو ان لفظوں کا سادہ ترجمہ ہے اور خود بخود ظاہر ہو رہا ہے اور ایک وہ ہے جو ان لفظوں کے سادہ ترجمہ سے ہٹ کر کیا گیا ہے اور جو لغت عرب کا ایک محاورہ ہے۔ وہ معنی جو لفظوں کا سادہ ترجمہ ہے اور خود بخود ظاہر ہو رہا ہے کہ ” جس دن پنڈلی کھولی جائے گی۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی ظاہر فرمائے گا اور لوگوں کو سجدے کے لئے بلایا جائے گا۔ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کا یہی مطلب بیان فرمایا ہے اور صحیح سند کیساتھ آپ سے یہی مروی ہے ، چناچہ صحیح بخاری میں ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(یکشف ربنا عن ساقہ فسجد لہ کل مومن و مومنۃ و یبقی من کان یسجد فی الدنیا ریاء و سمعۃ فیذھب لیسجد فیعود ظھرۃ طبقاً واحدا) (بخاری، التفسیر، باب :(یوم یکشف عن ساق): ٣٩١٩)” ہمارا رب اپنی پنڈلی کھولے گا تو ہر مومن مراد اور مومن عورت اس کو سجدہ کریں گے اور وہ شخص باقی رہ جائے گا جو دنیا میں دکھانے اور سنانے کے لئے سجدہ کرتا تھا وہ سجدہ کرنے لگے گا تو اس کی پیٹھ ایک طبق ہوجائے گی (یعنی دوہری نہیں ہو سکے ی۔ ) “ اس حدیث میں صاف ا لفاظ موجود ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا، بلکہ صحیح بخاری میں ایک اور مقام پر ہے کہ ہر قوم جس کسی کی پرستش کرتی تھی اس کے پیچھے چلی جائے گی، صلیب والے صلیب کے پیچھے، بتوں والے بتوں کے پیچھے اور دوسرے معبودوں والے اپنے اپنے معبدوں کے پیچھے چلے جائیں گے، صرف وہ لوگ رہ جائیں گے جو صرف اللہ کی عبادت کرتے تھے، خواہ نیک ہوں یا بد وہ اللہ تعالیٰ کا انتظار کر رہے ہوں گے، اللہ ان سے پوچھے گا :(ھل بینکم وبینہ ایۃ تعرفونہ ؟ فیقولون الساق فیکشف عن ساقہ فیسجدلہ) (بخاری، التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ :(وجوہ یومئذ ناظرۃ…): ٨٣٣٩)” کیا تمہارے اور تمہارے رب کے درمیا نکوئی نشانی ہے جسے تم پہچانتے ہو ؟ “ وہ کہیں گے :” پنڈلی ہے۔ “ تو اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا اور ہر مومن اسے سجدہ کرے گا۔ “ اس سے معلوم ہوا کہ پنڈلی کھولنے سے مراد یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا اور یہ اللہ تعالیٰ کے درمیان اور اہل ایمان کے درمیان طے شدہ نشاین ہوگی اور اس نشانی کو دیکھ کر اہل ایمان رب تعالیٰ کے سامنے سجدہ میں گرجائیں گے۔ یہ حدیث صحیح بخایر کے علاوہ حدیث کی دوسری بہت سی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ اتنی اعلیٰ درجے کی صحیح سند کے ساتھ خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آیت کی تفسیر آنے کے بعد کسی اور تفسیر کی نہ ضرورت رہتی ہے اور نہ گنجائش ، مگر چونکہ بہت سے مفسرین نے اس آیت کی ایک اور تفسیر کی ہے اس لئے وہ بھی ذکر کی جاتی ہے۔ ان مفسرین کا کہنا یہ ہے کہ ” کشف ساق “ لغت عرب کا ایک محاورہ ہے، جو شدت سے کنایہ ، یعنی ” یوم یکشف عن ساق “ کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کا دن بہت سخت ہوگا، کیونکہ جب کوئی سختی یا مشکل پیش آتی ہے تو آدمی پنڈلی سے کپڑا اٹھا کر کمر کس لیتا ہے۔ یہ تفسیر ابن عباس (رض) سے مقنول ہے اور بعض تابعین جیسے مجاہد، عکرمہ اور ابراہیم نخفی (رح) وغیرہ سے بھی آئی ہے۔ یہ تفسیر اگرچہ درست ہے اور لغت عرب میں یہ محاورہ استعمال بھی ہوتا ہے، مگر پہلی تفسیر (یعنی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھولے گا) میں قرآن کے صریح الفاظ کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور یہ تفسیر اس ذات گرامی نے کی ہے جس پر قرآن نازل ہوا تھا، اس لئے یہی مقدم ہے۔ البتہ دونوں تفسیروں میں کوئی تعارض نہیں، اس دن اللہ تعالیٰ کی پنڈلی بھی ظاہر ہوگی اور اس دن کی شدت میں بھی کوئی شبہ نہیں۔ خود ابن عباس (رض) عنہمانے اللہ تعالیٰ کی پنڈلی ظاہر ہونے کا کبھی انکار نہیں فرمایا اور نہ دیگر صحابہ میں سے کسی نے ان الفاظ کا انکار کیا ہے جو اللہ تعالیٰ کے متعلق اس سلسلے میں قرآن یا حدیث میں آئے ہیں۔ قرآن مجید میں چونکہ یہ صراحت نہیں کہ اللہ کی پنڈلی ظاہر ہوگی بلکہ صرف پنڈلی کا لفظ ہے، اس لئے ابن عباس (رض) عنہمانے اس کا مفہوم یہ لیا کہ کشف ساق سے اس دن کی شدت مراد ہے اور یہ مراد لینا لغت عرب کے بالکل مطابق ہے، مگر ابوسعید خدری (رض) عنہمانے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صراحت نقل فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کی پنڈلی ظاہر ہوگی۔ اس لئے مقدم وہی مفہوم ہوگا جو خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان فرمایا ، اگرچہ قیامت کے دن کی شدت بھی اپنی جگہ حقیقت ہے۔ افسوس تو ان لوگوں پر ہے جنہوں نے صاف کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ کی پنڈلی ظاہر نہیں ہوگی، نہ اس کی پنڈلی ہے۔ ان لوگوں نے اس سے بڑھ کر اس قسم کے ان تمام الفاظ کا انکار کردیا جو قرآن میں آئے ہیں، مثلاً ہاتھ ، چہرہ، آنکھ ، پاؤں وغیرہ اور کہا کہ اگر ہم یہ مانیں تو اللہ تعالیٰ کا جسم لازم آتا ہے اور اس کا ہمارے جیسا ہونا لازم آتا ہے، جب کہ اس نے خود فرمایا :(لیس کمثلہ شیء ) (الشوری : ١١)” اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔ “ یعنی یہ بھی مانو کہ اللہ کی مثل کوئی چیز نہیں اور یہ بھی مانو کہ وہ سمیع بھی ہے اور بصیر بھی۔ یہ خیال کر کے اس کے سمیع وبصیر ہونے کا انکار نہ کردینا کہ ہم بھی سمیع اور بصیر ہیں، اگر اسے سمیع وبصیر مانا تو اس کا ہمارے مشابہ ہونا لازم آئے گا۔ نہیں، اس کا سمیع وبصیر ہونا تمہارے سمیع وبصیر ہونے کے مشابہ نہیں ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کی پنڈلی، اس کا چہرہ، اس کا قدم اور جو کچھ اس نے خود اپنے متعلق بتایا سب برحق ہے، مگر اس کی پنڈلی مخلوق کی پنڈلی کے مشابہ نہیں، نہ کوئی اور صفت مخلوق کی صفت کے مشابہ ہے، وہ اسی طرح ہے جس طرح اس کی شان کے لائق ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ صفات الٰہی والی آیات و احادیث کے متعلق سلف صالحین کا طریقہ یہی ہے کہ ان کے ظاہر الفاظ پر ایمان لانا چاہیے اور ان کی کفیت اللہ کیس پرد کر دینی چاہیے۔ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا انکار کیا ہے درحقیقت وہ خود تشبیہ میں مبتلا ہیں کہ انہوں نے اللہ کی پنڈلی، اس کے چہرے اور دوسری صفات کو اپنے اعضا جیسا سمجھا اور یہ سمجھ کر ان سے انکار کردیا۔ اگر وہ ان صفات کو اپنی صفات کی مثال خیال نہ کرتے تو کبھی انکار نہ کرتے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّيُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ۝ ٤٢ ۙ كشف كَشَفْتُ الثّوب عن الوجه وغیره، ويقال : كَشَفَ غمّه . قال تعالی: وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا کاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ [ الأنعام/ 17] ( ک ش ف ) الکشف كَشَفْتُ الثّوب عن الوجه وغیره، کا مصدر ہے جس ... کے معنی چہرہ وغیرہ سے پر دہ اٹھا نا کے ہیں ۔ اور مجازا غم وانداز ہ کے دور کرنے پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا کاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ [ الأنعام/ 17] اور خدا تم کو سختی پہچائے تو اس کے سوا کوئی دور کرنے والا نہیں ہے ۔ ساق سَوْقُ الإبل : جلبها وطردها، يقال : سُقْتُهُ فَانْسَاقَ ، والسَّيِّقَةُ : ما يُسَاقُ من الدّوابّ. وسُقْتُ المهر إلى المرأة، وذلک أنّ مهورهم کانت الإبل، وقوله : إِلى رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمَساقُ [ القیامة/ 30] ، نحو قوله : وَأَنَّ إِلى رَبِّكَ الْمُنْتَهى [ النجم/ 42] ، وقوله : سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق/ 21] ، أي : ملك يَسُوقُهُ ، وآخر يشهد عليه وله، وقیل : هو کقوله : كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] ، وقوله : وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ [ القیامة/ 29] ، قيل : عني التفاف الساقین عند خروج الروح . وقیل : التفافهما عند ما يلفّان في الکفن، وقیل : هو أن يموت فلا تحملانه بعد أن کانتا تقلّانه، وقیل : أراد التفاف البليّة بالبليّة نحو قوله تعالی: يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ ساقٍ [ القلم/ 42] ، من قولهم : کشفت الحرب عن ساقها، وقال بعضهم في قوله : يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ ساقٍ [ القلم/ 42] :إنه إشارة إلى شدّة «2» ، وهو أن يموت الولد في بطن الناقة فيدخل المذمّر يده في رحمها فيأخذ بساقه فيخرجه ميّتا، قال : فهذا هو الکشف عن الساق، فجعل لكلّ أمر فظیع . وقوله : فَاسْتَوى عَلى سُوقِهِ [ الفتح/ 29] ، قيل : هو جمع ساق نحو : لابة ولوب، وقارة وقور، وعلی هذا : فَطَفِقَ مَسْحاً بِالسُّوقِ وَالْأَعْناقِ [ ص/ 33] ، ورجل أَسْوَقُ ، وامرأة سَوْقَاءُ بيّنة السّوق، أي : عظیمة السّاق، والسُّوقُ : الموضع الذي يجلب إليه المتاع للبیع، قال : وَقالُوا مالِ هذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْواقِ [ الفرقان/ 7] ، والسَّوِيقُ سمّي لِانْسِوَاقِهِ في الحلق من غير مضغ ( س و ق) سوق الابل کے معنی اونٹ کو سنکانے اور چلانے کے ہیں یہ سفقتہ ( ن) کا مصدر ہے اور انسان ( انفعال ) کے معنی ہنکانے کے بعد چل پڑنے کے ہیں ان جانوروں کو جو ہنکائے جاتے ہیں سیقۃ کہا جاتا ہے ۔ اور عورت کو مہر ادا کرنے کے لئے سقت المھر الی المرءۃ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اس لئے کہ عرب حق مہر میں وعام طور پر ) اونٹ دیا کرتے تھے ۔ اور آیت : ۔ إِلى رَبِّكَ يَوْمَئِذٍ الْمَساقُ [ القیامة/ 30] میں امساق سے معنی پروردگار کی طرف چلنا کے ہیں جیسا کہ آیت : ۔ وَأَنَّ إِلى رَبِّكَ الْمُنْتَهى [ النجم/ 42] میں ہے یعنی تمہیں اپنے پروردگار کے پاس پہچنا ہے اور آیت سائِقٌ وَشَهِيدٌ [ ق/ 21] اس کے ساتھ چلانے والا ہوگا اور ایک ( اس کے عملوں کی ) گواہی دینے والا ۔ میں سابق سے وہ فرشتہ مراد ہے جو اسے چلا کر حساب کے لئے پیش کرے گا اور دوسرا فرشتہ شہید بطور گواہ کے اس کے ساتھ ہوگا جو اسکے حق میں یا سکے خلاف گواہی گا بعض نے کہا ہے کہ یہ آیت : ۔ كَأَنَّما يُساقُونَ إِلَى الْمَوْتِ [ الأنفال/ 6] گویا موت کیطرف دھکیلے جاتے ہیں کے ہم معنی ہے اور آیت : ۔ وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ [ القیامة/ 29] اور پنڈلی لپٹ جائے گی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں قبض روح کے وقت پنڈلیوں کا لپٹنا مراد لیا ہے اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ان لپٹنے سے مراد موت ہے کہ زندگی میں وہ اس کے بوجھ کو اٹھا کر چلتی تھیں لیکن موت کے بعد وہ اس بار کی متحمل نہیں ہوسکیں گی ۔ بعض نے کہا ہے کہ ایک شدت کا دوسری شدت سے لپٹنا مراد ہے اسی طرح آیت : ۔ يَوْمَ يُكْشَفُ عَنْ ساقٍ [ القلم/ 42] جس دن پنڈلی سے کپڑا اٹھا دیا جائیگا ۔ میں پنڈلی سے کپرا ا اٹھانا صعوبت حال سے کنایہ ہے اور یہ کشفت الحرب عن ساقھا کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی لڑائی کے سخت ہوجانے ہیں ۔ بعض نے اس کی اصل یہ بیان کی ہے کہ جب اونٹنی کے پیٹ میں بچہ مرجاتا ہے تو مزمر ( جنوانے والا ) اس کے رحم کے اندر ہاتھ ڈالتا ہے : ۔ اور اسے پنڈلیوں سے پکڑ کر ذور سے باہر نکالتا ہے ۔ اور یہ کشف عن الناق کے اصل معنی ہیں پھر ہر ہولناک امر کے متعلق یہ محاورہ استعمال ہوناے لگا ہے تو یہاں بھی شدت حال سے کنایہ ہے اور آیت : ۔ فَاسْتَوى عَلى سُوقِهِ [ الفتح/ 29] اور پھر اپنی نال پر سیدھی کھڑی ہوگئی ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ سوق ساق کی جمع ہے جیسے لابۃ کی جمع لوب اور فارۃ کی جمع فور آتی ہے ۔ اور اسی طرح آیت : ۔ فَطَفِقَ مَسْحاً بِالسُّوقِ وَالْأَعْناقِ [ ص/ 33] پھر ان کی ٹانگوں اور گر دنوں پر ہاتھ پھیر نے لگے ۔ میں بھی سوق صیغہ جمع ہے اور رجل اسوق کر معنی بڑی پنڈلیوں والے آدمی کے ہیں اسکی مؤنث سوقاء آتی ہے اور سوق کے معنی بازار بھی آتے ہیں جہاں خرید فروخت ہوتی ہے اور فروخت کے لئے وہاں سامان لے جایا جاتا ہے اس کی جمع اسواق ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَقالُوا مالِ هذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْواقِ [ الفرقان/ 7] یہ کیسا پیغمبر ہے کہ کھانا کھاتا ہے ۔ اور بازروں میں چلتا پھرتا ہے ۔ السویق کے معنی ستو کے ہیں کیونکہ وہ بغیر جائے حلق سے نیچے اتر جاتے ہیں ۔ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ سجد السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات، وذلک ضربان : سجود باختیار، ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] ، أي : تذللوا له، وسجود تسخیر، وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] ( س ج د ) السجود ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ ) سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔ سجود تسخیر ی جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں ) الاستطاعۃ . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 43] ( ط و ع ) الطوع الاستطاعۃ ( استفعال ) یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

جس دن اس کام کے اظہار کے لیے جس سے یہ لوگ دنیا میں اندھے تھے یا یہ کہ ان کے اور ان کے پروردگار کے درمیان نشانی اور علامت کے لیے ساق کی تجلی فرمائی جائے گی اور مشرکین اور منافقین جبکہ اپنی برات میں اللہ کی قسمیں کھا لیں گے تو لوگوں کو سجدہ کی طرف بلایا جائے گا تو یہ کافر سجدہ نہ کرسکیں گے اور ان کی پ... شتیں لوہے کی طرح سخت ہوجائیں گی۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٢{ یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ } ” جس دن پنڈلی کھولی جائے گی “ پنڈلی کھولے جانے کا مفہوم ہمارے تصور سے ماوراء ہے۔ ممکن ہے یہ اللہ تعالیٰ کی کسی خاص تجلی کا ذکر ہو جس کا ظہور میدانِ محشر کے کسی مرحلے پر لوگوں کی چھانٹی کرنے کے لیے ہونا ہو۔ واللہ اعلم ! اس اعتبار سے یہ آیت آیات متشابہات میں سے ہ... ے۔ (١) { وَّیُدْعَوْنَ اِلَی السُّجُوْدِ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ۔ } ” اور انہیں پکارا جائے گا (اللہ کے حضور) سجدے کے لیے تو وہ کر نہیں سکیں گے۔ “ جیسا کہ قبل ازیں سورة الحدید کی آیت ١١ کے تحت بھی ذکر ہوچکا ہے ‘ میدانِ حشر میں اچھے اور برے لوگوں کو الگ الگ کرنے کے لیے بنی نوع انسان کو مختلف مراحل میں سے گزارا جائے گا۔ ” پنڈلی کا ظہور “ بھی ایسا ہی کوئی مرحلہ ہوگا ۔ وہ صاحب ایمان لوگ جو اپنی دنیوی زندگی میں نماز کی پابندی کرتے رہے تھے اس تجلی کو دیکھتے ہی سجدے میں گرجائیں گے ‘ لیکن وہ لوگ جن کی گردنیں اکڑی رہتی تھیں اور جو نماز کی پابندی کا اہتمام نہیں کرتے تھے وہ اپنی تمام تر کوشش کے باوجود اس وقت سجدہ نہیں کرسکیں گے۔ گویا اس مرحلے پر ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنے والے لوگوں سے الگ کرلیا جائے گا۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

24 Literally: "The Day the shin shall be uncovered". A section of the Companions and their successors says that these words have been used idiomatically, for according to Arabic idiom, kashf-i saq implies befalling of an affliction. Hadrat `Abdullah bin 'Abbas also has given this same meaning of this and has supported it by evidence from Arabic poetry. According to another saying that has been cit... ed from Ibn 'Abbas and Rabi' bin Anas, kashf-i saq implies uncovering the facts and truths. In view of this interpretation, the meaning would be: "The Day when all truths shall be bared and the people's deeds shall become open and manifest. "  Show more

سورة الْقَلَم حاشیہ نمبر :24 اصل الفاظ ہیں یوم یکشف عن ساق ، جس روز پنڈلی کھولی جائے گی ۔ صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت کہتی ہے کہ یہ الفاظ محاورے کے طور پر استعمال ہوئے ہیں ۔ عربی محاورے کے مطابق سخت وقت آ پڑنے کو کشف ساق سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عباس نے بھی اس کے یہی معن... ی بیان کیے ہیں اور ثبوت میں کلام عرب سے استشہاد کیا ہے ۔ ایک اور قول جو ابن عباس اور ربیع بن انس سے منقول ہے اس میں کشف ساق سے مراد حقائق پر سے پردہ اٹھانا لیا گیا ہے ۔ اس تاویل کی رو سے معنی یہ ہوں گے کہ جس روز تمام حقیقتیں بے نقاب ہو جائیں گی اور لوگوں کے اعمال کھل کر سامنے آ جائیں گے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

14: ’’ساق‘‘ پنڈلی کو کہتے ہیں۔ اس آیت کی تفسیر میں بعض حضرات نے تو یہ فرمایا ہے کہ پنڈلی کا کھل جانا عربی میں ایک محاورہ ہے جو بہت سخت مصیبت پیش آجانے کے لئے بولا جاتا ہے، لہٰذا مطلب یہ ہے کہ جب قیامت کی سخت مصیبت پیش آجائے گی تو ان کافروں کا یہ حال ہوگا۔ اور بہت سے مفسرین نے اس کا مطلب یہ بتایا ... ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھول دیں گے۔ اﷲ تعالیٰ کی پنڈلی اِنسانوں کی پنڈلی کی طرح نہیں ہے، بلکہ وہ اﷲ تعالیٰ کی ایک خاص صفت ہے جس حقیقت اﷲ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے۔ بہر حال ! مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنی وہ صفت ظاہر فرمائیں گے، اور لوگوں کو سجدے کے لئے بلایا جائے گا، مگر یہ کافر لوگ اس وقت سجدے پر قادر نہیں ہوں گے، کیونکہ جب ان کو قدرت تھی، اُس وقت انہوں نے سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا۔ اس تفسیر کی تائید ایک صحیح حدیث سے بھی ہوتی ہے۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٤٢۔ ٤٦۔ مشرکین مکہ کی اس بات کا اوپر ذکر تھا جو وہ مسلمانوں سے کہا کرتے تھے کہ اگر مرنے کے بعد پھر جینا اور میوے کھانے کے لئے باغوں کا ملنا سچ ہے تو دنیا میں جس طرح ہم لوگ بہ نسبت ان غریب مسلمانوں کے خوشحالی سے گزران کرتے ہیں اسی طرح آخرت میں بھی ہم اچھی طرح رہیں گے ان مشرکوں کی اس بات کا جواب اللہ ... تعالیٰ نے اوپر کی آیتوں میں دیا تھا دوسرا جواب ان آیتوں میں یہ دیا ہے کہ اصلی کافروں کو تو آخرت میں خوشحالی کا ملنا درکنار جو لوگ ظاہر میں اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور ان کے دل میں اللہ تعالیٰ کے دین کا پورا یقین نہیں ہے اور اس ادھورے یقین کے سبب سے وہ جو کچھ کرتے ہیں وہ محض دنیا کے دکھاوے کے لئے کرتے ہیں جب قیامت کو یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرنا چاہیں گے تو ان کی کمر تختہ ہوجائے گی اور ان کو سجدہ کرنا نصیب نہ ہوگا اور جو حال سجدہ کے منکر لوگوں کا ہوگا وہی ان لوگوں کا ہوگا منکرین سجدہ کا حال یہ ہے کہ ان کا جنت میں جانا اور وہاں کے میوے کھانا تو کجا دوزخ کی بھوک پاس سے گھبرا کر جب وہ اہل جنت سے جنت کے کھانے کی چیزوں میں سے کوئی چزا اور تھوڑا سا ٹھنڈا پانی بھیگ کی طرح مانگیں گے تو یہی جواب ملے گا کہ جنت کا کھانا پانی اللہ تعالیٰ نے کافروں پر حرام کردیا ہے چناچہ سورة اعراف میں اس کا ذکر گزر چکا ہے۔ پنڈلی کے کھولے جانے کی تفسیر صحیح بخاری ١ ؎ و مسلم میں ابو سعید خدری کی روایت سے جو آئی ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہمارا رب اپنی پنڈلی کھولے گا اور ہر ایماندار مرد و عورت سجدہ میں گر پڑیں گے ان کو دیکھ کر وہ لوگ ہی سجدہ کرنا چاہیں گے جو دنیا میں منافق ریا کار تھے لیکن ان کی کمر تختہ ہوجائے گی اس لئے وہ سجدہ نہ کرسکیں گے۔ اس تفسیر پر بعض متاخرین مفسروں نے یہ اعتراض کیا ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کا صاحب جسم ہونا لازم آتا ہے لیکن سلف نے پہلے ہی اپنے کلام میں اس اعتراض کو یوں رفع کیا ہے کہ جب آیت لیس کمثلہ شیء سے ہم پنڈلی کو مشابہ کسی پنڈلی کا نہیں کہہ سکتے تو جسمیت کیونکر لازم آئے گی حاصل کلام یہ ہے کہ صفات الٰہی کی آیتیں اور حدیثیں متشابہات معنوی کہلاتی ہیں سلف کا مذہب اس باب میں یہی ہے کہ انکے ظاہر لفظوں پر ایمان لانا چاہئے اور ان کے معنی کی تفصیل اللہ تعالیٰ کے علم پر سوپنا چاہئے چناچہ زیادہ تفصیل اس کی سورة آل عمران پر گزر چکی ہے پھر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسکین کے لئے فرمایا کہ جو لوگ قرآن کو جھٹلاتے ہیں اے رسول اللہ کے ان کی حالت پر تم کو زیادہ تشویش کی ضرورت نہیں چند دن اللہ تعالیٰ نے ان کو ڈھیل دے رکھی ہے اس میں اگر وہ راہ راست پر نہ آئے تو پھر الہ کی تدبیر بہت زبردست اور مستحکم ہے اس کے آگے ان کی شرارت کچھ چل نہیں سکتی۔ استدراج کے معنی تبدیل حالت کے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنے احسان اور در گزر کا نام کید و استدراج اس لئے رکھا کہ اس کا انجام ایک داؤ کی مانند ہے اور یہ بھی فرمایا کہ قرآن کی آیتیں سنانے پر اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے تم ان لوگوں سے اجرت تو مانگتے نہیں پھر قرآن کی نصیحت سننے سے یہ لوگ ایسا کیوں بدکتے ہیں جیسا کوئی کسی تاوان سے بدکتا ہے پھر فرمایا کہ بھلا مسلمانوں کو تو اللہ کے رسول کے ذریعہ سے اور اللہ کے رسول کو وحی آسمان کے ذریعے سے کچھ غیب کی خبریں معلوم ہوجاتی ہیں۔ یہ لوگ جو بےدیکھی خبروں میں اپنی عقل لڑاتے ہیں تو ان سے پوچھا جائے کہ ان کے پاس ان خبروں کے معلوم ہوجانے کا کیا ذریعہ ہے۔ (١ ؎ صحیح بخاری کتاب الرد علی الجھمیۃ ص ١١٠٧ ج ٢ و صحیح و مسلم باب اثبات رویۃ المومنین فی الاخرۃ ربہم ص ١٠٢ ج ١۔ )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(68:42) یوم یکشف عن ساق : یوم منصوب بوجہ مفعول اذکر محذوف ہے ۔ اذکر یوم : یاد کرو وہ دن جب ۔۔ یکشف مضارع مجہول واحد مذکر غائب ، کشف (باب ضرب) مصدر سے۔ پردہ ہٹا دیا جائے گا۔ کھول دیا جائے گا۔ سخت شدت ہوگی۔ ساق بمعنی پنڈلی۔ یکشف عن ساق سے کیا مراد ہے ؟ اس میں مختلف اقوال ہیں :۔ (1) ای یکشف عن اقبل ال... امر (بیضاوی، روح البیان) جب حقیقہ الامر سے پردہ ہٹا دیا جائے گا۔ (2) کنایۃ عن شدۃ ھول القیامۃ۔ کلمات القرآن ، تفسیر و بیان، حسنین محمد مخلوف۔ (3) پنڈلی کے کشف سے مراد ہے میدان حشر میں نور الٰہی کی ایک خاص جھلک ایک مخصوص پر تو اندازی۔ وغیرہ اکثر مفسرین نے اس سے مراد روز حشر کی ہولناک اور کرب عظیم کی صورت حالات ہی لیا ہے۔ جب گھمسان کی لڑائی شروع ہوجاتی ہے تو عرب کہتے ہیں شمرت الحرب عن ساقھا۔ جنگ نے اپنی پنڈلی سے تہ بند اوپر اٹھا لیا۔ راجز کا شعر ہے :۔ قد کشفت عن ساقھا فشدو وجدت الحرب بکم فجدوا (اے بہادرو ! ) لڑائی نے اپنی پنڈلی ننگی کردی ہے ۔ تو سب زور سے حملہ کرو۔ جنگ زوروں پر ہے اب تم بھی سنجیدگی سے داد شجاعت دو جس سال قحط انتہا کو پہنچ جائے تو اس کا ذکر یوں کرتے ہیں۔ فی سنۃ قد کشفت عن ساقھا۔ یہ اس سال کی بات ہے کہ جس نے اپنی پنڈلی ننگی کردی۔ صاحب ضیاء القرآن لکھتے ہیں : ۔ اس محاورہ کے مطابق آیت کا مطلب ہوگا۔ روز قیامت جب حالات بڑے تکلیف دہ اور ہولناک ہوجائیں گے اور ہر شخص جلال خداوندی سے لرزہ براندام ہوگا چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی ہوں گی۔ دل خوف سے دھڑک رہے ہوں گے اس وقت لوگوں کے ایمان یا کفر، خلوص یا نفاق کو آشکارا کرنے کے لئے انہیں حکم دیا جائے گا کہ آؤ سب اپنے رب کو سجدہ کرو۔ جن کے دلوں میں بیان اور اخلاص ہوگا وہ فورا سر بسجود ہوجائیں گے۔ لیکن کافر اور منافق بہت زور لگائیں گے کہ سجدہ کریں اور خون لگا کر شہیدوں میں شامل ہوجائیں مگر ان کی کمر اکڑ جائے گی بڑی کوشش کے باوجود سجدہ نہ کرسکیں گے۔ اس رسوائی پر ان کی آنکھیں جھک جائیں گی۔ سب کے سامنے ان کے کفر اور نفاق کو ظاہر کردیا گیا۔ ان کے کھوکھلے دعووں کا بھانڈا چورا ہے میں پھوٹ گیا ذلت و رسوائی کی گرد ان کے چہروں پر پڑ رہی ہوگی۔ ویدعون الی السجود۔ جملہ عاطفہ ہے اس کا عطف یکشف پر ہے۔ یدعون مضارع مجہول صیغہ جمع مذکر غائب دعوۃ (باب نصر) مصدر سے ۔ وہ بلائے جائیں گے۔ السجود : سجد یسجد (باب نصر) کا مصدر ہے بمعنی سجدہ کرنا۔ سرزمین پر رکھنا۔ فروتنی کرنا۔ السجدہ بمعنی نماز بھی آیا ہے۔ جیسے : ومن الیل فسبحہ وادبار السجود (50:40) اور رات کے بعض اوقات میں بھی اور نماز کے بعد بھی اس (کے نام) کی تنزیہہ کیا کرو۔ فلا یستطیعون : یوم کے جواب میں ہے۔ لایستطیعون مضارع منفی جمع مذکرغائب استطاعۃ (استفعال) مصدر، ان میں (ایسا کرنے کی) طاقت نہ ہوگی۔ یعنی وہ اس روز سجدہ نہ کرسکیں گے۔ کیونکہ دنیا میں انہوں نے کبھی خدائے بزرگ و برتر کے سامنے سجدہ کیا ہی نہ تھا اگرچہ ان کو متواتر سجدہ کے لئے بلایا جاتا رہا تھا۔ لایستطیعون کی ضمیر فاعل کل اہل دعوت کی طرف راجع نہیں ہے۔ بلکہ بعض کی طرف لوٹتی ہے یعنی وہ بعض اہل ایمان جو نماز بالکل نہیں پڑھتے تھے یا پڑھتے تو تھے مگر خلوص کے ساتھ نہیں۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

“9 یعنی ان کی پیٹھ کی پسلیاں جڑ کر یخ بستہ ہوجائیں گی اور وہ سجدہ کے لئے جھلک نہ سکیں گے۔ اس آیت کی یہ تفسیر حدیث سے ثابت ہے حضرت ابوسعید خدری سے روایت ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : ” ہمارا پروردگار اپنی پنڈلی کھولے گا۔ تمام ممن مرد اور عورتیں اس کو سجدہ کریں گے، لیکن جو لوگ دنیا میں محضدکھلاوے اور شہرت ... کے لئے سجدہ کرتے تھے وہ رہ جائیں گے، وہ سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن ان کی پیٹھ تخ ہیک طرح اکڑ جائے گی…یہ حدیث صحیحین اور دوسری کتابوں میں متعدد اسانید سے آئی ہے۔ (شوکانی) بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہاں کشف ساق “ کنایہ ہے شدت سے کہ قیامت کا دن بڑا سخت ہوگا، چناچہ جاہد ابراہیم نخعی اور عکرمہ وغیرہ نے یہی تفسیر بیان کی ہے اور حضرت ابن عباس سے بھی متعدد طرق کے ساتھ مروی ہے اور بعض علماء سے ایک دوسری تاویل بھی منقول ہے یعنی ” ساق الشی “ کسی چیز کے اصل کو کہا جاتا ہے پس اس کے معنی یہ ہیں کہ ’ دجس روز حقیقت حال ظاہر کردی جائے گی۔ “ چناچہ بیع بن انس نے اس کی تفسیر ” یوم یکشف الغطاء “ سے کی ہے۔ مگر پہلی تفسیر حدیث سے ثابت ہے کہ یہاں ساق سے مراد سابق باری تعالیٰ ہے اور یہ آیت متشا بہات سے ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات کی کوئی تاویل کرنا بدعت پرست متکلمین کا طریقہ ہے۔ سلف صالحین ان کی کوئی تاویل نہیں کرتے بلکہ انہیں ان کے ظاہری معنی مجمول کرتے ہیں۔ چناچہ وہ کہتے ہیں کہ سمع، بصر، میں اور وجہ کی طرح اللہ تعالیٰ کی پنڈلی ہونا بھی قرآن و حدیث سے ثابت ہے اس لئے ہم اس پر بلا کیف ایمان رکھتے ہیں۔ متاولین نے الہ حدیث اور سلف کو عدم تاویل کی وجہ سے تجبیم و تشبیہ کا طعنہ دیا ہے حالانکہ دوسری طرف ان کی یہ تاویلات لطفی الی التعطیل ہیں۔ شاہ ولی اللہ صاحب فرماتے ہیں، جو لوگ اہل حدیث کو تجسیم و تشبیہ کا قائل قرار دیتے ہیں وہ خود خطاء پر ہیں (وحید)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن۔ یکشف۔ کھول دیا جائے گا۔ ساق۔ پنڈلی۔ یدعون۔ وہ بلائے جائیں گے۔ خاشعۃ۔ جھکنے والی۔ ترھق۔ وہ ڈھانپ لیتی ہے۔ سالمون۔ صحیح سالم۔ ہٹے کٹے۔ ذرنی۔ مجھے چھوڑو۔ نستدرج۔ ہم آہستہ آہستہ لئے جاتے ہیں۔ املی۔ میں نے مہلت دی۔ کیدی۔ میری تدبیر۔ مغرم۔ تاوان۔ مثقلون۔ بوجھ کے نیچے دبے ہوئے۔ صاحب الحوت۔ مچ... ھلی والا (حضرت یونس (علیہ السلام) ) ۔ مکظوم۔ غم میں گھونٹ دیا گیا۔ العرائ۔ چٹیل میدان۔ یزلقون۔ وہ جگہ سے ہٹے ہیں۔ پھسل جاتے ہیں۔ تشریح : جب کفار و مشرکین اور منافقین کے سامنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کلام اللہ کو پیش کرتے تو وہی مکہ کے لوگ جو ان کو صادق و امین کہتے اور ان کی فہم و فراست کے گن گایا کرتے تھے آپ پر طرح طرح کے اعتراض اور طعنے دیتے۔ گستاخی اور جہالت کی انتہا یہ تھی کہ وہ آپ کو دیوانہ تک کہہ دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی سچائیوں کو ان کے سامنے رکھ کر یہ فرمایا تھا کہ جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ” خلق عظیم “ کے مالک ہیں وہ دیوانے کیسے ہوسکتے ہیں ؟ قسم کھا کر فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ دیوانے نہیں ہیں بلکہ وہ بہت جلد دیکھ لیں گے کہ اللہ کے نبی کو دیوانہ کہنے والے خود ہی دیوانگی کا شکار تھے۔ فرمایا کہ ” یوم یکشف عن ساق “ اس دن پنڈلی کھول دی جائے گی۔ یعنی جن حقیقتوں پر اب تک غیب کے پردے پرے ہوئے تھے وہ ساری حقیقتیں بےنقاب ہوجائیں گی۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ایسی صورت میں تجلی فرمائیں گے جو اب تک ظاہر نہ ہوئی تھی۔ اس تجلی الٰہی کو دیکھ کر وہ تمام مومن مرد اور مومن عورتیں جو دنیا میں اللہ کے سامنے سجدے کیا کرتے تھے اللہ کے سامنے سجدے میں گر پڑیں گے لیکن وہ منافقین جو جھوٹے اور دکھاوے کے سجدے کرتے تھے وہ اس سجدے سے محروم رہیں گے۔ وہ کھڑے کے کھڑے رہ جائیں گے۔ اہل ایمان کے سجدوں کی قبولیت تو یہ ہوگی کہ اللہ ان کے سجدوں کو قبول و منظور فرمائیں گے اور جو سجدہ نہ کرسکیں گے دہشت اور شرمندگی سے ان کی نظریں جھکی ہوئی ہوں گی اور ان پر ہر طرف سے ذلت و رسوائی اور عذاب کا خوف مسلط ہوگا۔ یہ اس بات کی سزا ہوگی کہ دنیا میں جب ان کو اللہ کے سامنے سجدہ کرنے کی طرف بلا یا جاتا تھا تو صحت و تندرستی کے باوجود وہسجدہ کرنے سے گریز کیا کرتے تھے اور دنیا دکھاوے کے لئے سجدہ کرلیا کرتے تھے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ پوری طرح سے اللہ پر بھروسہ کیجئے اور جو لوگ میرے کلام کو جھٹلا رہے ہیں ان سے میں خود ہی نبٹ لوں گا اور ان کو میں اس طرح ان کو تباہی و بربادی کی طرف لے جاؤں گا کہ ان کو خبر تک نہ ہوگی۔ میں ان کی رستی دراز کرکے ڈھیل دیتا چلا جاؤں گا اور ایک دن ان کو پکڑ کر سخت سزا دوں گا اور میری اس تدبیر کی ان کو ہوا تک نہ لگے گی کیونکہ میری تدبیر زبردست تدبیر ہوا کرتی ہے۔ فرمایا کہ جب آپ ان کفار و مشرکین اور منافقین کو اللہ کا پیغام پہنچاتے ہیں تو وہ آپ کا احسان ماننے کے بجائے یہ سمجھتے ہیں کہ جیسے آپ ان سے کسی ایسی اجرت کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ جس کے بوجھ تلے یہ دبے جا رہے ہیں۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان سے بالکل واضح طریقے پر کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ دین پر کوئی اجرت اور معاوضہ تو نہیں مانگ رہا ہوں کہ جس کے نیچے تم دبے جا رہے ہو۔ اور ان سے پوچھئے کہ کہا تمہارے پاس کوئی غیب کا علم ہے جس کی تمہیں خبر ہے کہ تمہارے ساتھ بہترین معاملہ کا جائے گا ؟ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا جا رہا ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ صبر و تحمل سے کام لیجئے اور اپنے پروردگار کے حکم کا انتظار کیجئے اور مچھلی والے پیغمبر یعنی حضرت یونس (علیہ السلام) کی طرح فیصلے میں جلدی نہ کیجئے کہ جسطرح انہوں نے اپنی قوم کو نافرمانیوں سے تنگ آخر اپنے پروردگار سے عرض کیا الٰہی ! یہ قوم توبہ کے لئے تیار نہیں ہے آپ اپنا فیصلہ فرما دیجئے (یعنی عذاب بھیج دیجئے) وہ اس وقت شدید کرب اور غم و غصہ سے بھرے ہوئے تھے چناچہ اللہ نے اس قوم پر عذاب بھیجنے کا وعدہ کرلیا۔ جب حضرت یونس (علیہ السلام) کو اس بات کا یقین ہوگیا کہ اب اس قوم پر اللہ کا عذاب آنے والا ہے تو آپ اللہ کی اجازت کے بغیر وہاں چے چل دئیے حالانکہ انہیں اشارہ الٰہی کا انتظار کرنا چاہیے تھا۔ وہاں چل کر وہ ایک کشتی میں سوار ہوئے۔ کشتی والوں نے کسی وجہ سے ان کو پانی میں پھینک دیا۔ ادھر اللہ کے حکم سے ایک بہت بڑی مچھلی نے ان کو نگل لیا۔ جب وہ مچھلی کے پیٹ میں اللہ سے فریاد کرنے لگے تو اس مچھلی نے انکو ایک کنارے پر اگل دیا۔ اس کنارے اور چٹیل میدان میں اللہ نے ان کی حفاظت فرمائی۔ شدید تکلیفیں اٹھائیں ان کی قوم نے توبہ کرلی اور حضرت یونس (علیہ السلام) پھر اپن قوم میں پہنچ گئے اور اس طرح اللہ نے ان کی دستگیری فرمائی۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا گیا کہ آپ اپنی قوم کی نافرمانیوں سے مایوس نہ ہوں بلکہ اللہ تعالیٰ خودہی آپ کی دستگیری فرمائیں گے۔ اس سورت کی ابتداء میں اللہ تعالیٰ نے کفار و مشرکین کے اس طعنے کا ذکر کیا تھا جو آپ کو دیوانہ کہتے تھے۔ اس سورت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے ایک مرتبہ پھر آپکو ان کے طعنوں پر تسلی دی ہے۔ فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جب یہ کفار قرآن کریم کو سنتے ہیں تو وہ آپ کو ایسی تیز اور غضب ناک آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ جیسے وہ اپنی تیز نظروں سے آپ کو راہ مستقیم سے ڈگمگا دیں گے اور لوگوں سے کہتے ہیں کہ ان کی باتیں نہ سنو یہ دیوانے کی باتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ سنو ! یہ اللہ کا کلام ہے جو سارے جہاں والوں کے لئے ایک نصیحت ہے لیکن بدقسمت لوگ اس سے فائدہ اتھانے کے بجائے اس پیغام حق کے لئے رکاوٹیں پید اکر رہے ہیں لیکن ان کو اس میں کامیابی نہ ہوگی بلکہ یہ پیغام حق ساری دنیا تک پہنچ کر رہے گا۔ ان آیات پر سورة القلم کو ختم کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں نبی مکرم حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت نصیب فرمائے اور ہمیں اس پیغام حق کو ساری دنیا تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ ساق کہتے ہیں پنڈلی کو اور یہ کوئی خاص صفت ہے جس کو کسی مناسبت سے ساق فرمایا جیسا قرآن میں ہاتھ ایا ہے اور ایسے مفہومات متشابہات میں سے کہلاتے ہیں۔ 3۔ بلائے جانے سے مراد امر بالسجود نہیں ہے بلکہ اس تجلی میں یہ اثر ہوگا کہ سب بالاضطرار سجدہ کرنا چاہیں گے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : جو لوگ بدعقیدہ اور برا کردار رکھنے کے باوجود اپنے آپ کو جنت کا مالک اور مسلمانوں سے بہتر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں انہیں قیامت کے دن معلوم ہوجائے گا کہ حقیقت کیا ہے۔ محشر کے میدان میں ایک مرحلہ ایسا بھی آئے گا جب لوگوں کے سامنے کافر اور مومن، مشرک اور موحِّد، بد اور نیک کے درمیا... ن فرق ظاہر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی سے نور کے پردے ہٹائیں گے۔ اللہ تعالیٰ جونہی اپنی پنڈلی کو جلوہ گر کریں گے تو موحّد نمازی اللہ کے حضور سربسجود ہوجائیں گے۔ موحّد نماز یوں کو سربسجود ہوتے دیکھ کر کافر، مشرک، منافق اور بےنماز بھی سجدہ کرنے کی کوشش کریں گے لیکن ان کی کمریں پتھر کی طرح سخت ہوجائیں گی اور وہ رب ذوالجلال کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوسکیں گے۔ گویا کہ تابعداروں اور نافرمانوں کے درمیان یہ پہلا اقدام ہوگا جس سے واضح کیا جائے گا کہ تابع دار اور مجرم برابر نہیں ہوسکتے، اس دن مجرموں کی آنکھیں شرم کے مارے جھکی ہوئی ہوں گی اور ان کے چہروں پر ذلّت چھاجائے گی یہ اس لیے ہوگا کہ جب دنیا میں انہیں سجدے کے لیے بلایا جاتا تھا تو وہ استطاعت رکھنے کے باوجود اپنے رب کو سجدہ کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ سجدہ کرنے سے مراد نماز پڑھنا اور اللہ تعالیٰ کی تابعداری کرنا ہے۔ جو لوگ حقیقت واضح ہوجانے کے باوجود اسے قولاً یا عملاً جھٹلاتے ہیں ہم انہیں تدریجاً ایسے انداز میں پکڑیں گے کہ انہیں خبر تک نہ ہوگی۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں مہلت دیئے جاتا ہے لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میری گرفت بڑی مضبوط ہوتی ہے۔ حقیقت جھٹلانے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ” فَذَرْنِیْ “ کا لفظ استعمال فرمایا ہے جس کا معنٰی ہے کہ مجھے چھوڑ دیجیے ! یہ انتہا درجے کی دھمکی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ دھمکی دینے والی شخصیت کسی کی پابند یا کسی وجہ سے مجبور ہے اس لیے وہ کہتا ہے کہ مجھے چھوڑ دیجیے ایسا ہرگز نہیں بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ میں اس مجرم کو مہلت دے رہا ہوں اگر یہ اپنی حرکات سے باز نہ آیا تو عنقریب اسے اس طرح پکڑا جائے گا کہ اسے چھڑانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ اس دھمکی کی وضاحت ان الفاظ میں کی گئی ہے کہ میری تدبیر یعنی گرفت بڑی مضبوط ہوتی ہے۔ ان آیات میں ” یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ “ (جس دن اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی کھول دیں گے۔ ) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ان الفاظ کا مفہوم بیان کرتے ہوئے بعض مفسرین نے تاویل کی ہے۔ یہ تاویل کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ کے نبی نے اس کی یوں وضاحت فرمائی ہے۔ (عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِنِ الْخُدْرِیِّ (رض) اِذَا کَانَ فَیَکْشِفُ عَنْ سَاقٍ فَلاَ یَبْقٰی مَنْ کَانَ یَسْجُدُ لِلّٰہِ تَعَالٰی مِنْ تِلْقَاءِ نَفْسِہٖ اِلَّا اَذِنَ اللّٰہٗ لَہُ بالسُّجُوْدِ وَلَا یَبْقٰی مَنْ کَانَ یَسْجُدُ اتِّقَاءً وَرِیَاءً اِلَّا جَعَلَ اللّٰہُ ظَھْرَہٗ طَبْقَۃً وَّاحِدَۃً کُلَّمَا اَرَادَاَنْ یَّسْجُدَ خَرَّ عَلٰی قَفَاہٗ ) (رواہ مسلم : باب مَعْرِفَۃِ طَرِیق الرُّؤْیَۃِ ) ” حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پنڈلی کھولیں گے تو اس موقع پر ہر اس شخص کو سجدہ کرنے کی توفیق مل جائے گی جو اخلاص کے ساتھ سجدہ کرتا تھا جو کسی کے ڈر سے یا دکھاوے کی خاطر سجدہ کرتا تھا اللہ تعالیٰ اس کی کمر کو تختہ بنا دیں گے، جب وہ سجدہ کرنے کا ارادہ کرے گا تو اپنی گدی کے بل گرپڑے گا۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنی پنڈلی جلوہ نما کریں گے تو مواحد نمازی سجدہ ریز ہوجائیں گے۔ ٢۔ کافر، مشرک، منافق اور بےنماز سجدہ نہیں کرسکیں گے۔ کیونکہ وہ دنیا میں طاقت رکھنے کے باوجود ” اللہ “ کے سامنے نہیں جھکتے تھے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ مجرموں کو تدریجاً بھی پکڑا کرتا ہے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کی تدبیر اور گرفت بڑی مضبوط ہوتی ہے۔ تفسیر بالقرآن نماز پڑھنے اور سجدہ کرنے کا حکم : ١۔ نماز قائم کرانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ (الحج : ٤١) ٢۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور نماز۔ (ابراہیم : ٣٧) (العنکبوت : ٤٥) ٣۔ حضرت موسیٰ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز کا حکم۔ (یونس : ٨٧) ٤۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور نماز۔ (مریم : ٣١) (البقرۃ : ٨٣) (البینۃ : ٥)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یوم یکشف ................................ وھم سلمون (٣٤) (٨٦ : ٢٤۔ ٣٤) ” جس روز سخت وقت آپڑے گا اور لوگوں کو سجدہ کرنے کے لئے بلایا جائے گا تو یہ لوگ سجدہ نہ کرسکیں گے ، ان کی نگاہیں نیچی ہوں گی ، ذلت ان پر چھارہی ہوگی۔ یہ جب صحیح وسالم تھے ، اس وقت انہیں سجدے کے لئے بلایا جاتا تھا (اور یہ انکار کرت... ے تھے) “۔ یوں یہ لوگ قیامت کے اس منظر کے سامنے ہیں۔ گویا قیامت برپا ہے اور ان کو بلایا جارہا ہے ، کہ لاﺅ شریکوں کو جن کا تم دعویٰ کرتے تھے۔ اور اللہ کے علم میں تو یہ دن حقیقتاً حاضر ہے۔ کیونکہ اللہ کے علم میں ماضی ، حال اور مستقبل نہیں ہے۔ یوں اللہ کے علم کو پیش کرنا ، نہایت گہرا اثر ڈالتا ہے اور قرآن مجید کا مخصوص انداز بیان ہے۔ یکشف عن ساق ” جب پنڈلی کھل جائے گی “۔ یہ عربی محاورے میں سختی اور کرب کے لئے آتا ہے۔ یعنی مشکل وقت میں انسان آستین چڑھاتا ہے اور پائنچے اٹھاتا ہے اور پنڈلی کھل جاتی ہے۔ بالعموم مشکل وقت میں انسان ایسا کرتا ہے ، اور اس وقت ان کو دعوت دی جائے گی کہ اللہ کے سامنے سجدہ کرو ، یہ نہ کرسکیں گی ، کیونکہ وقت چلا گیا ہوگا اور یا اس لئے کہ اس وقت جس طرح دوسری جگہ کہا گیا : مھطعین ............ روسھم ” سر اٹھائے بھاگے چلے جارہے ہوں گے “ حالت یہ ہوگی کہ ان کے اعصاب اور اجسام خوف کے مارے اکڑے ہوئے ہوں اور وہ غیر ارادی طور پر سجدہ نہ کرسکیں گے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بہت ہی خوفزدہ پریشان ہوں گے۔ مزید ہیئت کذائی یہ ہوگی۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

ساق کی تجلی اور منافقوں کی بری حالت ان آیات میں قیامت کے دن کے بعض مظاہر بیان فرمائے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ جب ساق کی تجلی ہوگی اور لوگوں سے کہا جائے گا کہ سجدہ کرو تو مومنین سجدہ کرلیں گے اور منافقین اور ریاکار سجدہ نہ کرسکیں گے اور ان کی کمریں تختہ ہوجائیں گی، سجدہ کرنا چاہیں گے تو گُدّی کے بل گرپ... ڑیں گے۔ صحیح بخاری صفحہ ٧٣١ اور صفحہ ١١٠٧ اور صحیح مسلم صفحہ ١٠٠ اور صفحہ ١٠٤ پر اس کی تفسیر وارد ہوئی ہے اور ساق کی تجلی ہونا متشابہات میں سے ہے اور اس پر ایمان لانا ضروری ہے کیفیت کے سمجھنے کی فکر نہ کریں یہی اصل طریقہ ہے، صاحب بیان القرآن لکھتے ہیں سجدہ کی طرف بلائے جانے سے یہ شبہ نہ کیا جائے کہ وہ دار التکلیف نہیں ہے کیونکہ بلایا جانے سے مراد امر بالسجود نہیں ہے بلکہ اس تجلی میں یہ اثر ہوگا کہ سب بالاضطرار سجدہ کرنا چاہیں گے، جس میں مومن اس پر قادر ہوں گے اور اہل ریا و نفاق قادر نہ ہوں گے اور کفار کا قادر نہ ہونا اس سے بدرجہ اولیٰ مفہوم ہوتا ہے جس کا آگے ذکر ہے۔ قال البغوی فی معالم التنزیل قولہ عزوجل ﴿يُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ﴾ یعنی الکفار والمنافقون تصیر اصلابہم کصیاصی البقر فلا یستطیعون السجود۔ کافروں اور منافقوں کی مزید بدحالی بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی اور ان پر ذلت چھائی ہوئی ہوگی، وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ لوگ دنیا میں سجدہ کی طرف بلائے جاتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کو اخلاص کے ساتھ سجدہ کریں اس وقت یہ لوگ صحیح سالم تھے۔ سجدہ پر قادر تھے لیکن سجدہ نہیں کرتے تھے اگر کرتے تھے تو اخلاص سے نہ تھا دنیا میں حکم نہ ماننے کی وجہ سے آج ان کی رسوائی اور ذلت ہوئی۔ معالم التنزیل میں صفحہ ٣٨٣: ج ٤ حضرت سعید بن جبیر (رض) سے ﴿ وَ قَدْ كَانُوْا يُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ ﴾ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کانوا یسمعون حی علی الفلاح فلا یجیبون یعنی دنیا میں وہ اذان کی آواز سنتے تھے اور کانوں میں حی علی الصلوٰة اور حی علی الفلاح کی آواز آتی تھی لیکن نماز کے لیے نہیں آتے تھے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

20:۔ ” یو یکشف “ یہ تخویف اخروی ہے۔ الکشف عن ساق، پنڈلی کھولنا شدت امر اور صعوبت کار سے کنایہ ہے۔ کیونکہ جب انسان کوئی کٹھن کام کرتا ہے تو پنڈلی سے تہبند سمیٹ لیتا ہے۔ قیامت کے دن جب شدت ہول اور افراتفری کا دور دورہ ہوگا اس وقت ان مشرکین سے سجدہ کرنے کو کہا جائے گا تو وہ فورا سجدہ کرنے کے لیے جھکنے ... کی کوشش کریں گے مگر ان کی پیٹھوں کو تختوں کی مانند سخت کردیا جائے گا اور وہ سجدہ نہیں کرسکیں گے ان کی آنکھیں جھکی ہوں گی اور ان کے چہروں پر ذلت ورسوائی کے آثار نمایاں ہوں گے۔ مومنوں کے چہرے روشن اور درخشاں ہوں گے لیکن کفار و مشرکین کے چہرے نہایت سنیاہ ہوں گے۔ دنیا میں ان کو خدائے واحد کی بارگاہ میں سجدہ کرنے کی دعوت دی جاتی تھی تو وہ اکڑ جاتے تھے حالانکہ اس وقت وہ صحیح سالم تھے اور سجدہ کرسکتے تھے۔ دنیا میں وہ سجدہ سے استکبار کرتے تھے تو قیامت میں بھی ان کو سجدہ کرنے کی استطاعت سے محروم کردیا جائے گا  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(42) وہ دن قابل ذکر ہے جس دن پنڈلی کو نمایا کیا جائے اور کھولا جائے گا اور لوگوں کو سجدے کے لئے بلایا جائے گا پھر کافر لوگ سجدہ نہ کرسکیں گے۔