Surat ul Qalam

Surah: 68

Verse: 46

سورة القلم

اَمۡ تَسۡئَلُہُمۡ اَجۡرًا فَہُمۡ مِّنۡ مَّغۡرَمٍ مُّثۡقَلُوۡنَ ﴿ۚ۴۶﴾

Or do you ask of them a payment, so they are by debt burdened down?

کیا تو ان سے کوئی اجرت چاہتا ہے جس کے تاوان سے یہ دبے جاتے ہوں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

أَمْ عِندَهُمُ الْغَيْبُ فَهُمْ يَكْتُبُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

46۔ 1 یہ خطاب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے لیکن سرزنش ان کو کی جا رہی ہے جو آپ پر ایمان نہیں لا رہے تھے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٢] آپ تو سب لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دیتے اور اس کا پیغام پہنچاتے ہیں اور جو کچھ کر رہے ہیں بےلوث اور بےغرض ہو کر کر رہے ہیں۔ اب اگر یہ قریشی سردار اس دعوت کو قبول کرتے ہیں تو کریں، نہیں کرتے تو نہ کریں، پھر اگر دوسرے لوگ اس دعوت کو قبول کرتے ہیں تو یہ کیوں سیخ پا ہوجاتے ہیں ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

(ام تسلھم اجراً …:) ان کے اسلام قبول نہ کرنے کا ایک عذر یہ ہوسکتا ہے کہ آپ ان سے کوئی اجرت مانگتے ہوں جو ان کے لئے خواہ مخواہ کی چٹی اور بوجھ ہو، ظاہر ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَمْ تَسْــَٔــلُہُمْ اَجْرًا فَہُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُوْنَ۝ ٤٦ ۚ أَمْ»حرف إذا قوبل به ألف الاستفهام فمعناه : أي نحو : أزيد أم عمرو، أي : أيّهما، وإذا جرّد عن ذلک يقتضي معنی ألف الاستفهام مع بل، نحو : أَمْ زاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصارُ [ ص/ 63] أي : بل زاغت . ( ا م حرف ) ام ۔ جب یہ ہمزہ استفہام کے بالمقابل استعمال ہو تو بمعنی اور ہوتا ہے جیسے ازید فی الدار ام عمرو ۔ یعنی ان دونوں میں سے کون ہے ؟ اور اگر ہمزہ استفہام کے بعد نہ آئے تو بمعنیٰ بل ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ { أَمْ زَاغَتْ عَنْهُمُ الْأَبْصَارُ } ( سورة ص 63) ( یا) ہماری آنکھیں ان ( کی طرف ) سے پھر گئی ہیں ۔ سأل السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. ( س ء ل ) السؤال ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔ أجر الأجر والأجرة : ما يعود من ثواب العمل دنیویاً کان أو أخرویاً ، نحو قوله تعالی: إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ [يونس/ 72] ، وَآتَيْناهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ العنکبوت/ 27] ، وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا [يوسف/ 57] . والأُجرة في الثواب الدنیوي، وجمع الأجر أجور، وقوله تعالی: وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ [ النساء/ 25] كناية عن المهور، والأجر والأجرة يقال فيما کان عن عقد وما يجري مجری العقد، ولا يقال إلا في النفع دون الضر، نحو قوله تعالی: لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 199] ، وقوله تعالی: فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ [ الشوری/ 40] . والجزاء يقال فيما کان عن عقدٍ وغیر عقد، ويقال في النافع والضار، نحو قوله تعالی: وَجَزاهُمْ بِما صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيراً [ الإنسان/ 12] ، وقوله تعالی: فَجَزاؤُهُ جَهَنَّمُ [ النساء/ 93] . يقال : أَجَر زيد عمراً يأجره أجراً : أعطاه الشیء بأجرة، وآجَرَ عمرو زيداً : أعطاه الأجرة، قال تعالی: عَلى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمانِيَ حِجَجٍ [ القصص/ 27] ، وآجر کذلک، والفرق بينهما أنّ أجرته يقال إذا اعتبر فعل أحدهما، وآجرته يقال إذا اعتبر فعلاهما «1» ، وکلاهما يرجعان إلى معنی واحدٍ ، ويقال : آجره اللہ وأجره اللہ . والأجير : فعیل بمعنی فاعل أو مفاعل، والاستئجارُ : طلب الشیء بالأجرة، ثم يعبّر به عن تناوله بالأجرة، نحو : الاستیجاب في استعارته الإيجاب، وعلی هذا قوله تعالی: اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ [ القصص/ 26] . ( ا ج ر ) الاجر والاجرۃ کے معنی جزائے عمل کے ہیں خواہ وہ بدلہ دنیوی ہو یا اخروی ۔ چناچہ فرمایا : ۔ {إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ } [هود : 29] میرا اجر تو خدا کے ذمے ہے ۔ { وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ } [ العنکبوت : 27] اور ان کو دنیا میں بھی ان کا صلہ عنایت کیا اور وہ آخرت میں بھی نیک لوگوں میں سے ہوں گے ۔ { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا } [يوسف : 57] اور جو لوگ ایمان لائے ۔ ۔۔۔ ان کے لئے آخرت کا اجر بہت بہتر ہے ۔ الاجرۃ ( مزدوری ) یہ لفظ خاص کر دنیوی بدلہ پر بولا جاتا ہے اجر کی جمع اجور ہے اور آیت کریمہ : { وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ } [ النساء : 25] اور ان کے مہر بھی انہیں ادا کردو میں کنایہ عورتوں کے مہر کو اجور کہا گیا ہے پھر اجر اور اجرۃ کا لفظ ہر اس بدلہ پر بولاجاتا ہے جو کسی عہد و پیمان یا تقریبا اسی قسم کے عقد کی وجہ سے دیا جائے ۔ اور یہ ہمیشہ نفع مند بدلہ پر بولا جاتا ہے ۔ ضرر رساں اور نقصان دہ بدلہ کو اجر نہیں کہتے جیسے فرمایا { لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ } [ البقرة : 277] ان کو ان کے کاموں کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا ۔ { فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ } ( سورة الشوری 40) تو اس کا بدلہ خدا کے ذمے ہے الجزاء ہر بدلہ کو کہتے ہیں خواہ وہ کسی عہد کی وجہ سے ہو یا بغیر عہد کے اچھا ہو یا برا دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ { وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا } [ الإنسان : 12] اور ان کے صبر کے بدلے ان کو بہشت کے باغات اور ریشم ( کے ملبوسات) عطا کریں گے ۔ { فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ } ( سورة النساء 93) اس کی سزا دوزخ ہے ۔ محاورہ میں ہے اجر ( ن ) زید عمرا یا جرہ اجرا کے معنی میں زید نے عمر کو اجرت پر کوئی چیز دی اور اجر عمر زیدا کے معنی ہوں گے عمرو نے زید کو اجرت دی قرآن میں ہے :۔ { عَلَى أَنْ تَأْجُرَنِي ثَمَانِيَ حِجَجٍ } [ القصص : 27] کہ تم اس کے عوض آٹھ برس میری خدمت کرو ۔ اور یہی معنی اجر ( مفاعلہ ) کے ہیں لیکن اس میں معنی مشارکت کا اعتبار ہوتا ہے اور مجرد ( اجرتہ ) میں مشارکت کے معنی ملحوظ نہیں ہوتے ہاں مال کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ محاورہ ہی ۔ اجرہ اللہ واجرہ دونوں طرح بولا جاتا ہے یعنی خدا اسے بدلہ دے ۔ الاجیرہ بروزن فعیل بمعنی فاعل یا مفاعل ہے یعنی معاوضہ یا اجرت کا پر کام کرنے والا ۔ الاستیجار کے اصل معنی کسی چیز کو اجرت پر طلب کرنا پھر یہ اجرت پر رکھ لینے کے معنی میں بولا جاتا ہے جس طرح کہ استیجاب ( استفعال ) بمعنی اجاب آجاتا ہے چناچہ آیت کریمہ : { اسْتَأْجِرْهُ إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الْأَمِينُ } [ القصص : 26] اسے اجرت پر ملازم رکھ لیجئے کیونکہ بہتر ملازم جو آپ رکھیں وہ ہے جو توانا اور امانت دار ہو میں ( استئجار کا لفظ ) ملازم رکھنے کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ غرم الغُرْمُ : ما ينوب الإنسان في ماله من ضرر لغیر جناية منه، أو خيانة، يقال : غَرِمَ كذا غُرْماً ومَغْرَماً ، وأُغْرِمَ فلان غَرَامَةً. قال تعالی: إِنَّا لَمُغْرَمُونَ [ الواقعة/ 66] ، فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ القلم/ 46] ، يَتَّخِذُ ما يُنْفِقُ مَغْرَماً [ التوبة/ 98] . والغَرِيمُ يقال لمن له الدّين، ولمن عليه الدّين . قال تعالی: وَالْغارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 60] ، والغَرَامُ : ما ينوب الإنسان من شدّة ومصیبة، قال : إِنَّ عَذابَها كانَ غَراماً [ الفرقان/ 65] ، من قولهم : هو مُغْرَمٌ بالنّساء، أي : يلازمهنّ ملازمة الْغَرِيمِ. قال الحسن : كلّ غَرِيمٍ مفارق غَرِيمَهُ إلا النّار «1» ، وقیل : معناه : مشغوفا بإهلاكه . ( غ ر م ) الغرم ( مفت کا تاوان یا جرمانہ ) وہ مالی نقصان جو کسی قسم کی خیانت یا جنایت ( جرم) کا ارتکاب کئے بغیر انسان کو اٹھانا پڑے غرم کذا غرما ومبغرما فلاں نے نقصان اٹھایا اغرم فلان غرامۃ اس پر تاوان پڑگیا ۔ قرآن میں ہے :إِنَّا لَمُغْرَمُونَ [ الواقعة/ 66]( کہ ہائے ) ہم مفت تاوان میں پھنس گئے ۔ فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ القلم/ 46] کہ ان پر تاوان کا بوجھ پڑ رہا ہے ۔ يَتَّخِذُ ما يُنْفِقُ مَغْرَماً [ التوبة/ 98] . کہ جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے تاوان سمجھتے ہیں ۔ اور غریم کا لفظ مقروض اور قرض خواہ دونوں کے لئے آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالْغارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ [ التوبة/ 60] اور قرضداروں ( کے قرض ادا کرنے ) کے لئے اور خدا کی راہ میں ۔ اور جو تکلیف یا مصیبت انسان کی پہنچتی ہے اسے غرام کہاجاتا ہے ۔ قرآں میں ہے : إِنَّ عَذابَها كانَ غَراماً [ الفرقان/ 65] کہ اس کا عذاب بڑی تکلیف کی چیز ہے ۔ یہ ھو مغرم باالنساء ( وہ عورتوں کا دلدا وہ ہے ) کے محاورہ سے ماخوذ ہے یعنی وہ شخص جو غریم ( قرض خواہ ) کی طرح عورتوں کے پیچھے پیچھے پھرتا ہو ۔ حسن فرماتے ہیں کل غریم مفارق غریمۃ الاالنار یعنی ہر قرض خواہ اپنے مقروض کو چھوڑ سکتا ہے ۔ لیکن آگ اپنے غرماء کو نہیں چھوڑے گی ۔ بعض نے عذاب جہنم کو غرام کہنے کی یہ وجہ بیان کی ہے کہ وہ عذاب ان کا اسی طرح پیچھا کرے گا ۔ گویا وہ انہیں ہلاک کرنے پر شیفتہ ہے ۔ ثقل الثِّقْل والخفّة متقابلان، فکل ما يترجح علی ما يوزن به أو يقدّر به يقال : هو ثَقِيل، وأصله في الأجسام ثم يقال في المعاني، نحو : أَثْقَلَه الغرم والوزر . قال اللہ تعالی: أَمْ تَسْئَلُهُمْ أَجْراً فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ الطور/ 40] ، والثقیل في الإنسان يستعمل تارة في الذم، وهو أكثر في التعارف، وتارة في المدح ( ث ق ل ) الثقل یہ خفۃ کی ضد ہے اور اس کے معنی بھاری اور انبار ہونا کے ہیں اور ہر وہ چیز جو وزن یا اندازہ میں دوسری پر بھاری ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے اصل ( وضع ) کے اعتبار سے تو یہ اجسام کے بھاری ہونے پر بولا جاتا ہے لیکن ( مجاز ) معانی کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ کہا جاتا ہے : ۔ اسے تادان یا گناہ کے بوجھ نے دبالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ تَسْئَلُهُمْ أَجْراً فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ الطور/ 40] اے پیغمبر ) کیا تم ان سے صلہ مانگتے ہو کہ ان پر تادان کا بوجھ پڑرہا ہے ، اور عرف میں انسان کے متعلق ثقیل کا لفظ عام طور تو بطور مذمت کے استعمال ہوتا ہے اور کبھی بطور مدح بھی آجاتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٦۔ ٤٧) کیا آپ مکہ والوں سے اس دعوت ایمانی پر کچھ بدلہ مانگتے ہیں کہ وہ اس کے قبول کرنے پر اس کے تاوان سے دبے جاتے ہیں یا جس پر یہ آپ سے جھگڑتے ہیں کیا انہوں نے اس کے بارے میں لوح محفوظ میں سے کچھ لکھ لیا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٦{ اَمْ تَسْئَلُہُمْ اَجْرًا فَہُمْ مِّنْ مَّغْرَمٍ مُّثْقَلُوْنَ ۔ } ” (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) کیا آپ ان سے کوئی اجرت مانگتے ہیں جس کے تاوان کے بوجھ تلے یہ دبے جا رہے ہیں ؟ “ ان لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچانے کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سالہا سال سے دن رات محنت کر رہے ہیں۔ اپنی اس محنت کے عوض جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کسی معاوضے یا اجرت کے طلب گار بھی نہیں ہیں تو یہ لوگ آخر کس لیے پریشان ہیں ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

29 The question apparently is being asked of the Holy Prophet (upon whom be peace) , but its real audience are the people, who were crossing all limits in their opposition to him. They are being asked: "is Our Messenger asking you for a reward which makes you feel so upset? You yourself know that he is absolutely selfless in his invitation and is exerting himself only for your own benefit and well-being. If you do not want to believe in what he says, you may not, but why are you feeling so enraged at his this invitation to you? (For further explanation, see E.N. 31 of Surah At-Tur) .

سورة الْقَلَم حاشیہ نمبر :29 سوال بظاہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا جا رہا ہے ، مگر اصل مخاطب وہ لوگ ہیں جو آپ کی مخالفت میں حد سے گزرے جا رہے تھے ۔ ان سے پوچھا جا رہا ہے کہ کیا ہمارا رسول تم سے کچھ مانگ رہا ہے کہ تم اس پر اتنا بگڑ رہے ہو؟ تم خود جانتے ہو کہ وہ ایک بے غرض آدمی ہے اور جو کچھ تمہارے سامنے پیش کر رہا ہے صرف اس لیے کر رہا ہے کہ اس کے نزدیک اسی میں تمہاری بھلائی ہے ۔ تم نہیں ماننا چاہتے تو نہ مانو ، مگر اس تبلیغ پر آخر اتنے چراغ پا کیوں ہوئے جا رہے ہو؟ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد پنجم ، تفسیر سورۃ طور ، حاشیہ 31 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(68:46) ام تسئلہم اجرا : ام حرف عطف ، کیا۔ یا ام منقطعۃ بمعنی بل : ای بل تسئلہم : تسئل مضارع واحد مذکر ، سئوال (باب فتح) مصدر۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ تو ان سے سوال کرتا ہے۔ تو ان سے مانگتا ہے۔ اجرا : اجرت، معاوضہ (تبلیغ احکام الٰہی کے لئے) ۔ فھم من مغرم مثقلون : ف عاطفہ سببیہ۔ مغرم اسم مصدر مجرور ، تاوان۔ الغرم مفت کا تاوان یا جرمانہ، وہ مالی نقصان جو کسی قسم کی خیانت یا جرم کا ارتکاب کئے بغیر انسان کو اٹھانا پڑے۔ مثقلون : اثقال (افعال) مصدر سے اسم مفعول جمع مذکر۔ کہ بدیں سبب وہ تاوان کے بوجھ کے نیچے دبے جا رہے ہیں۔ نیز ملاحظہ ہو 52:40 ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی ایسا ہرگز نہیں ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفار اور مشرکین کو انتباہ کرنے کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی رکھنے کی تلقین کی گئی ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شب وروز اس فکر اور کوشش میں تھے کہ کفار اور مشرکین اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آئیں اور اپنے آپ کو سیدھے راستے پر گامزن کرلیں لیکن وہ لوگ دن بدن مخالفت اور گمراہی میں آگے ہی بڑھتے جارہے تھے۔ انہیں سمجھانے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینے کے لیے ارشاد ہوا کہ کیا آپ ان سے کوئی صلہ مانگتے ہیں جس وجہ سے وہ آپ کی ذات اور دعوت کو اپنے لیے بوجھ سمجھتے ہیں یا پھر ان کے پاس غیب کا علم ہے جس سے یہ اپنے مستقبل کے بارے میں آگاہ ہیں ؟ ان سے الجھنے کی بجائے آپ اپنے رب کے حکم کا انتظار کریں اور مچھلی والے کی طرح نہ ہوجائیں۔ جب اس نے اپنے رب کو آواز دی تو وہ بہت غمگین تھا اگر اس کے رب کی مہربانی اس کے شامل حال نہ ہوتی تو وہ مذموم ہو کر چٹیل میدان میں پڑا رہتا۔ اس کے رب نے اسے پسند فرمایا اور اسے صالح بندوں میں شامل کرلیا۔ تفصیل کے لیے سورة الانبیاء آیت ٨٧ تا ٨٨ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں ! خلاصہ یہ ہے کہ حضرت یونس (علیہ السلام) عرصہ دراز تک اپنی قوم کو سمجھاتے رہے لیکن ناہنجارقوم نے ان کی دعوت تسلیم کرنے کی بجائے ان کی مخالفت میں ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیا۔ جس پر یونس (علیہ السلام) نے انہیں انتباہ کیا کہ اگر تم اپنے رب کی نافرمانی سے باز نہ آئے تو فلاں دن تم پر عذاب نازل ہوگا۔ جب اس دن عذاب نازل نہ ہوا تو قوم نے یونس (علیہ السلام) کو استہزاء کا نشانہ بنایا جس سے پریشان ہو کر یونس (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کا اِ ذن آنے سے پہلے ہی قوم کو چھوڑ کر ہجرت کے لیے نکل کھڑے ہوئے دریا عبور کرنے کے لیے بیڑے پر سوار ہوئے اس دوران بیڑا ڈگمگانے لگا۔ ملّاح کے کہنے پر یونس (علیہ السلام) دریا میں اتر گئے جونہی دریا میں اترے تو مچھلی نے انہیں نگل لیا۔ اس المناک صورتحال میں یونس (علیہ السلام) نے اپنے رب سے ان الفاظ میں معافی مانگی اور اس کی مدد طلب کی۔ ” اور مچھلی والے کو ہم نے نوازا۔ یاد کرو جب وہ ناراض ہو کر چلا گیا تھا اور سمجھا کہ ہم اس پر گرفت نہیں کریں گے آخرکار اس نے تاریکیوں میں پکارا کہ تو پاک ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں بیشک میں نے ظلم کیا ہے۔ ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اس کو غم سے نجات دی اور ہم مومنوں کو اسی طرح نجات دیا کرتے ہیں۔ “ (الانبیاء : ٧٨، ٨٨) اللہ تعالیٰ نے یونس (علیہ السلام) کو مچھلی کے پیٹ سے باہر نکالا اور ان کی فریاد قبول کرتے ہوئے انہیں برگزیدہ فرمایا اور اپنے بندوں میں شامل رکھا۔ بندوں سے مراد انبیائے کرام (علیہ السلام) کی جماعت ہے۔ یونس (علیہ السلام) کا واقعہ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! حالات جس قدر بھی غمناک اور خطرناک ہوجائیں۔ آپ اور آپ کے ساتھیوں کو عقیدہ توحید اور دعوت حق پر قائم رہنا چاہیے۔ یادرکھیں ! کہ اللہ تعالیٰ بالآخر اپنے بندوں کی دعاؤں کو مستجاب کرتا ہے۔ ” مَکْظُوْمٌ“ کا معنٰی ہے غم سے بھرا ہوا، مصیبت زدہ اور غصے سے بھرپور۔ مذموم کا معنٰی ہے ملامت کیا ہوا۔ مسائل ١۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے بیگانوں پر کسی قسم کی بوجھ نہ تھے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے یونس (علیہ السلام) کی فریاد کو قبول فرمایا اور انہیں انبیائے کرام (علیہ السلام) کی جماعت شامل رکھا۔ ٣۔ مومن کو ہر حال میں صبر اور حوصلے سے کام لینا چاہیے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعائیں قبول کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن صبر کی فضیلت اور اس کا صلہ : ا۔ صبر اہم کاموں میں اہم ترین کام ہے۔ (الاحقاف : ٣٥) ٢۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر کا حکم دیا گیا۔ (المعارج : ٥) ٣۔ اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ : ١٥٣) ٤۔ صبر کا انجام بہتر ہوتا ہے۔ (الحجرات : ٥) ٥۔ صبر کرنے والے کامیاب ہوں گے۔ (المومنون : ١١١) ٦۔ مسلمان صابر کی آخرت اچھی ہوگی۔ (الرعد : ٢٤) ٧۔ صبر کرنے والوں کو جنت میں سلامتی کی دعائیں دی جائیں گی۔ (الفرقان : ٧٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس خوفناک منظر اور اس خوفناک تہدید کی فضا میں یہ مکالمہ یوں اختتام پذیر ہوتا ہے ، ان کے موقف پر تعجب کیا جاتا ہے اور چیلنج دیا جاتا ہے۔ ام تسئلھم ................ مثقلون (٨٦ : ٦٤) ” کیا تم ان سے کوئی اجر طلب کررہے ہو کہ یہ اس چٹی کے بوجھ تلے دبے جارہے ہوں ؟ “ کیا اسلام میں داخل کرنے کی کوئی بڑی فیس ہے جس سے یہ لوگ ڈر رہے ہیں اور بوجھ کو برداشت نہیں کرسکتے۔ اور منہ موڑ رہے ہیں۔ اور اس لئے مجبور ہیں کہ یہ برا انجام ہی اختیار کریں۔ محض اس لئے کہ ادائیگی مشکل ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا کیا آپ ان سے کچھ معاوضہ طلب کرتے ہیں جس کے تاوان سے وہ دبے جاتے ہیں ؟ یہ بطور استفہام انکاری کے ہے مطلب یہ ہے کہ آپ کا تبلیغ فرمانا اور ایمان کی دعوت دینا یہ سب اللہ کی رضا کے لیے ہے آپ اللہ تعالیٰ ہی سے ثواب کی امید رکھتے ہیں ان سے تو آپ کسی طرح کی اجرت یا معاوضہ کا مطالبہ نہیں کرتے اگر ان سے کچھ طلب فرماتے ہوتے تو ان کو اس کی ادائیگی مشکل پڑجاتی جب آپ ان سے کوئی چیز طلب کرتے ہی نہیں تو انہیں خود سمجھ لینا چاہیے کہ دعوت کے کام میں اتنی محنت کوشش کیوں کر رہے ہیں (لیکن وہ تو دنیا داری کے نشہ میں سمجھداری کو پاس آنے ہی نہیں دیتے اور برابر اعراض کیے جا رہے ہیں) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

22:۔” ام تسئلہم “ یہ معاندین کیوں نہیں مانتے، کیا آپ تبلیغ و ارشاد پر ان سے کوئی معاوضہ طلب کرتے اور وہ اس تاوان کو بوجھ سمجھ کر آپ سے اعراض کرتے ہیں ؟ استفہام انکاری ہے یعنی ایسا نہیں ہے۔ آپ ان سے کسی معاوضہ یا مالی تعاون کا مطالبہ نہیں کرتے، تو پھر ان کے انکار وجحود کی کیا وجہ ہے ؟ ” ام عندھم الغیب “ یا ان کے پاس غیب سے علم آتا ہے جس میں یہ لکھا ہے کہ ان کے معبود برکات دہندہ ہیں جسے وہ لکھ لیتے ہیں اور پھر اس کے مطابق من مانی باتیں کرتے رہتے ہیں اور اس کی وجہ سے آپ کے علم سے بےنیاز ہیں اور اسی لیے آپ کو نہیں مانتے ؟ استفہام انکاری ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے۔ (ام عندھم الغیب فھم یکتبون) مایحکمون بہ ویستغنون بذلک من علمک (روح ج 29 ص 37) ۔ حاصل یہ ہے کہ آپ ان کو بلا معاوضہ توحید کی دعوت دیتے ہیں اور وہ محض جہالت اور ضد وعناد کی وجہ سے آپ کی تکذیب کر رہے ہیں۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(46) کیا آپ ان قرآن کی تبلیغ پر کچھ مزدور اور اجرت طلب کرتے ہیں جس کے تاوان سے یہ دبے جاتے ہیں۔ یعنی آپ کوئی ان سے ایسا مطالبہ کرتے ہیں جس سے یہ بوجھل اور گراں بار ہوتے ہیں اور اس کی وجہ سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر استفادہ نہیں کرتے اور آپ اور آق سے مستغنی اور بےپروا رہتے ہیں مغرم اس غرامہ مالی کو کہتے ہیں جو بغیر کسی خیانت اور خطا کے وصول کیا جائے جس کو ہمارے ہاں تاوان اور چٹی جاتا ہے۔