Surat ul Qalam

Surah: 68

Verse: 9

سورة القلم

وَدُّوۡا لَوۡ تُدۡہِنُ فَیُدۡہِنُوۡنَ ﴿۹﴾

They wish that you would soften [in your position], so they would soften [toward you].

وہ چاہتے ہیں کہ تو ذرا ڈھیلا ہو تو یہ بھی ڈھیلے پڑ جائیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

So, do not obey the deniers. They wish that you should compromise with them, so they (too) would compromise with you. Ibn `Abbas said, "That you would permit them (their idolatry) and they also would permit you (to practice your religion)." Mujahid said, وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ (They wish that you should compromise with them, so they (too) would compromise with you). "This means that you should be quiet about their gods and abandon the truth that you are upon." Then Allah says, وَلاَ تُطِعْ كُلَّ حَلَّفٍ مَّهِينٍ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

9۔ 1 وہ چاہتے ہیں کہ تو ان کے معبودوں کے بارے میں نرم رویہ اختیار کرے تو وہ بھی تیرے بارے میں نرم رویہ اختیار کریں باطل پرست اپنی باطل پرستی کو چھوڑنے میں ڈھیلے ہوجائیں گے۔ اس لئے حق میں خوشامد، حکمت، تبلیغ اور کار نبوت کے لئے سخت نقصان دہ ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧] کافروں کی حق وباطل میں سمجھوتہ کی کوشش :۔ کافروں کا مطالبہ یہ تھا کہ آپ ہمارے بتوں کو برا کہنا چھوڑ دیں۔ آپ معاذ اللہ ان کے بتوں کو کوئی گالیاں تو نہیں دیتے تھے بلکہ صرف یہ کہتے تھے کہ یہ بت نہ کسی کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ سنوار سکتے ہیں۔ ان کے تصرف و اختیار میں کچھ بھی نہیں۔ پھر چونکہ مدتوں سے ان کافروں میں اعتقاد چلا آرہا تھا۔ کہ ہمارے یہ معبود ہمارا بگاڑ بھی سکتے ہیں اور سنوار بھی سکتے ہیں۔ لہذا وہ آپ کی اس تعلیم کو اپنی بھی توہین سمجھتے تھے اپنے آباؤ اجداد کی بھی اور اپنے ان بتوں کی بھی۔ ان کا مطالبہ صرف یہ تھا کہ آپ ہمارے معبودوں کو کچھ نہ کہیں۔ ان کی شان میں کوئی توہین یا گستاخی کی بات نہ کریں۔ ہم آپ کے معبود کے حق میں کوئی ایسی بات نہ کریں گے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حق و باطل میں کبھی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ پھر اگر آپ بفرض محال ان کی کوئی بات تسلیم کر بھی لیں تو بھی ایسے سمجھوتہ اور ایسی مصالحت کا کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ کیونکہ یہ جھوٹے لوگ ہیں۔ اپنی کسی بات پر قائم رہنے والے نہیں۔ ان کا اصل مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی آیات کو جھٹلانا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَدُّوْا لَوْتُدْھِنُ فَیُدْھِنُوْنَ :” تدھن “” دھن “ ( تیل) سے مشتق ہے۔ جس طرح چمڑے وغیرہ کو تیل لگا کر نرم کیا جاتا ہے اس طرح بات کو نرم کردینا ۔ یعنی ان کی خواہش ہے کہ آپ اسلام کی تبلیغ میں اپنی سرگرمیاں کم کردیں تو وہ بھی آپ کو ستانے میں کمی کردیں ، آپ اپنے دین میں کچھ ترمیم کر کے اس میں ان کے شرک اور دوسری گمراہیوں کی کچھ گنجائش نکال لیں تو وہ بھی آپ کے ساتھ صلح کرلیں گے ۔ آپ خود جو چاہیں کریں ، مگر تمام لوگوں کی زندگی کے ہر شعبہ مثلاً ان کے عقائد ، معیشت اور معاشرت و حکومت وغیرہ میں اللہ کے حکم کی تنقید پر اصرار چھوڑ دیں تو وہ بھی آپ کے نماز روزے کو برداشت کرلیں ، جیسا کہ ہمیشہ کی طرح آج بھی سیکولر لوگوں کا کہنا ہے کہ دین ذاتی مسئلہ ہے، حکومت میں اس کا کوئی دخل نہیں ہونا چاہیے۔ یاد رہے ! جس چیز سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے وہ بات کو نرم کردینا ہے ، لہجے میں نرمی نہیں ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ خلق عظیم پر ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ کفار کو نرم کرنے کے لیے آپ اپنے موقف اور عقیدے میں نرمی کردیں ۔ رہی انداز اور لہجے میں نرمی تو وہ آپ کے خلق عظیم کا بھی تقاضا ہے اور اللہ کا حکم بھی ۔ گویا آپ کو مداہنت سے منع کیا جا رہا ہے ، مدارت سے نہیں ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَدُّوْا لَوْ تُدْہِنُ فَيُدْہِنُوْنَ۝ ٩ ودد الودّ : محبّة الشیء، وتمنّي كونه، ويستعمل في كلّ واحد من المعنيين علی أن التّمنّي يتضمّن معنی الودّ ، لأنّ التّمنّي هو تشهّي حصول ما تَوَدُّهُ ، وقوله تعالی: وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم/ 21] ( و د د ) الود ۔ کے معنی کسی چیز سے محبت اور اس کے ہونے کی تمنا کرنا کے ہیں یہ لفظ ان دونوں معنوں میں الگ الگ بھی استعمال ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ کسی چیز کی تمنا اس کی محبت کے معنی کو متضمعن ہوتی ہے ۔ کیونکہ تمنا کے معنی کسی محبوب چیز کی آرزو کرنا کے ہوتے ہیں ۔ اور آیت : ۔ وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً [ الروم/ 21] اور تم میں محبت اور مہربانی پیدا کردی ۔ لو لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] . ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء/ 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ دهن قال تعالی: تَنْبُتُ بِالدُّهْنِ [ المؤمنون/ 20] ، وجمع الدّهن أدهان . وقوله تعالی: فَكانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهانِ [ الرحمن/ 37] ، قيل : هو درديّ الزّيت، والمُدْهُن : ما يجعل فيه الدّهن، وهو أحد ما جاء علی مفعل من الآلة وقیل للمکان الذي يستقرّ فيه ماء قلیل : مُدْهُن، تشبيها بذلک، ومن لفظ الدّهن استعیر الدَّهِين للناقة القلیلة اللّبن، وهي فعیل في معنی فاعل، أي : تعطي بقدر ما تدهن به . وقیل : بمعنی مفعول، كأنه مَدْهُون باللبن . أي : كأنها دُهِنَتْ باللبن لقلّته، والثاني أقرب من حيث لم يدخل فيه الهاء، ودَهَنَ المطر الأرض : بلّها بللا يسيرا، کالدّهن الذي يدهن به الرّأس، ودَهَنَهُ بالعصا : كناية عن الضّرب علی سبیل التّهكّم، کقولهم : مسحته بالسّيف، وحيّيته بالرّمح . والإِدْهَانُ في الأصل مثل التّدهين، لکن جعل عبارة عن المداراة والملاینة، وترک الجدّ ، كما جعل التّقرید وهو نزع القراد عن البعیر عبارة عن ذلك، قال : أَفَبِهذَا الْحَدِيثِ أَنْتُمْ مُدْهِنُونَ [ الواقعة/ 81] ، قال الشاعر : الحزم والقوّة خير من ال إدهان والفکّة والهاع وداهنت فلانا مداهنة، قال : وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ [ القلم/ 9] . ( د ھ ن ) الدھن ۔ تیل ۔ چکنا ہٹ ج ادھان قرآن میں ہے : ۔ تَنْبُتُ بِالدُّهْنِ [ المؤمنون/ 20] جو روغن لئے ہوئے اگتا ہے : ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَكانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهانِ [ الرحمن/ 37] پھر ۔۔۔۔ تیل کی تلچھٹ کیطرح گلابی ہوجائیگا ۔ میں بعض نے کہا ہے کہپ دھان کے معنی تلچھٹ کے ہیں المدھن ۔ ہر وہ برتن جس میں تیل ڈالا جائے ۔ یہ اسم آلہ کے منجملہ ان اوزان کے ہے جو ( بطور شواز ) مفعل کے وزن پر آتے ہیں اور بطور تشبیہ ( پہاڑ میں ) اس مقام ( چھوٹے سے گڑھے ) کو بھی مدھن کہا جاتا ہے جہاں تھوڑا سا پانی ٹھہر جاتا ہو اور دھن سے بطور استعارہ کم دودھ والی اونٹنی کو دھین کہا جاتا ہے اور یہ فعیل بمنعی فاعل کے وزن پر ہے یعنی وہ بقدر دہن کے دودھ دیتی ہے بعض نے کہا ہے کہ یہ فعیل بمعنی مفعول ہے ۔ گویا اسے دودھ کا دھن لگایا گیا ہے ۔ یہ بھی دودھ کے کم ہونے کی طرف اشارہ ہے ۔ یہ دوسرا قول الی الصحت معلوم ہوتا ہے ۔ کیونکہ اس کے آخر میں ہ تانیث نہیں آتی ۔ ( جو فعیل بمنعی مفعول ہونیکی دلیل ہی دھن المطر الارض ۔ بارش نے زمین کو ہلکا سنم کردیا جیسا کہ سر پر تیل ملا جاتا ہے ۔ دھنۃ بالعصا ر ( کنایۃ ) لاٹھی سے اس کی تواضع کی ۔ یہ بطور تہکم کے بولا جاتا ہے جیسا کہ مسحۃ ہ بالسیف وحیتہ بالروح کا محاورہ ہے ۔ الادھان ۔ یہ اصل میں تذھین کی طرح ہے ۔ لیکن یہ تصنع ، نرمی برتنے اور حقیقت کا دامن ترک کردینے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ تقدیر کا لفظ جس کے اصل معنی اونٹ سے چیچڑ دور کر نا کے ہیں پھر تصنع اور نرمی برتنا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَبِهذَا الْحَدِيثِ أَنْتُمْ مُدْهِنُونَ [ الواقعة/ 81] کیا تم اسی کتاب سے انکار کرتے ہو ؟ شاعر نے کہا ہے : ۔ کہ حزم و احتیاط اور قوت چاپلوسی اور جزع فزع سے بہتر ہیں ۔ میں نے فلاں کے سامنے چاپلوسی کی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ [ القلم/ 9] کہ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ تم مداہنت سے کام لو یہ بھی نرم ہوجائیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩{ وَدُّوْا لَوْ تُدْہِنُ فَیُدْہِنُوْنَ ۔ } ” وہ تو چاہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ذرا ڈھیلے پڑیں تو وہ بھی ڈھیلے پڑجائیں۔ “ باطل کا تو وطیرہ ہے کہ پہلے وہ حق کو جھٹلاتا ہے ‘ پھر جب اس کے مقابلے میں کھڑے ہونا مشکل نظر آتا ہے تو مداہنت (compromise) پر اتر آتا ہے ۔ لیکن حق کسی قسم کی مداہنت یا کسی درمیانی راستے کو نہیں جانتا۔ بقول اقبال ؎ باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول ! اگلی آیات میں نام لیے بغیر انتہائی سخت الفاظ میں ایک کردار کا ذکر ہوا ہے۔ کسی معتبر روایت سے تو ثابت نہیں لیکن زیادہ تر مفسرین کا خیال ہے کہ ان آیات کا مصداق ولید بن مغیرہ تھا :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

5 That is, "If you slackened a little in your propagation of Islam, they also would slacken in their opposition to you. Or, if you became inclined to effect some changes in your Faith to suit these people, they too would effect a compromise with you."

سورة الْقَلَم حاشیہ نمبر :5 یعنی تم اسلام کی تبلیغ میں کچھ ڈھیلے پڑ جاؤ تو یہ بھی تمہاری مخالفت میں کچھ نرمی اختیار کر لیں ، یا تم ان کی گمراہیوں کی رعایت کر کے اپنے دین میں کچھ ترمیم کرنے پر آمادہ ہو جاؤ تو یہ تمہارے ساتھ مصالحت کرلیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

3: کافروں کی طرف سے کئی بار اس قسم کی تجویزیں پیش کی گئی تھیں کہ اگر آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے فرائض تبلیغ کی ادائیگی میں کچھ نرمی کا مظاہرہ فرمائیں، اور ہمارے بتوں کو باطل نہ کہیں تو ہم بھی آپ کو ستانا چھوڑ دیں گے۔ یہ ان کی اس تجویز کی طرف اشارہ ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(68:9) ودوا۔ ماضی جمع مذکر غائب ود ومودۃ (باب سمع) مصدر۔ انہوں نے دل سے چاپا۔ انہوں نے تمنا کی۔ اسی سے الودود مبالغہ کا صیغہ ہے۔ بہت محبت کرنے والا۔ ثواب دینے والا۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں سے ہے۔ ودوا کا فاعل آیت سابقہ میں المکذبین ہے۔ لو تدھن فیہ ھنون : لو حرف شرط۔ لوتدھن جملہ شرط ہے۔ ف جواب شرط کے لئے ہے۔ فیدھنون جملہ جواب شرط۔ شرط و جواب شرط مل کر ودوا کا مفعول ہے ۔ تدھن مضارع کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ ادھان (افعال) مصدر بمعنی تدھین یعنی چکنا کرنے اور تیل ڈالنے کے ہیں۔ دھن بمعنی تیل۔ مگر مراد اس سے مدارات، ملائمت اور سستی لی جاتی ہے۔ یدھنون مضارع جمع مذکر غائب۔ ادھان (افعال) مصدر ۔ تیل ڈالنا۔ مکھن لگانا۔ نرمی کرنا ۔ ڈھیل دینا۔ ترجمہ : یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اگر تم نرمی کرو تو یہ بھی نرم ہوجائیں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی آپ ان کے معبودوں کو برا کہنا چھوڑ دیں تو وہ آپ کو اتنی مذہبی آزادی دیں کہ آپ کسی محدود جگہ میں اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں۔ اسی مذہبی آزادی کا نام مداہنت ہے جس سے قرآن منع فرما رہا ہے۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں ” یعنی ان کے بتوں کو بھلا کر تو وہ تیری باتوں کو پسند کریں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ آپ کا ڈھیلا ہونا یہ کہ بت پرستی کی مذمت نہ کریں اور ان کا ڈھیلا ہونا یہ کہ آپ کی مخالفت نہ کریں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(9) یہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اگر آپ بتوں کے بارے میں نرم ہوجائیں تو وہ بھی آپ کی مخالفت میں ڈھیلے پڑجائیں۔ یعنی راہ پر آنے والے اور نہ آنے والے سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں۔ لہٰذا دعوت و تبلیغ میں کسی کی رو و رعایت نہ ہونی چاہیے جس کو اسلام قبول کرنا اور ہدایت پانا ہے وہ پائے گا اور جس کو محروم رہنا ہے وہ محروم رہے گا ان کی خواہش یہ ہے کہ آپ کفر کے معاملہ میں مداہنت اختیار کریں اور سست اور ڈھیلے ہوجائیں اور کاہلی برتیں بتوں کی مخالفت میں نرم ہوجائیں تو یہ آپ کی مخالفت کم کردیں اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں کچھ ڈھیلے پڑجائیں اور توحید الٰہی کی مخالفت میں مداہنت برتیں۔ اس آیت میں ان کی خواہشات کا اظہار فرمایا اور مقصد یہ ہے کہ آپ ان سے اس قسم کا معاملہ نہ کریں اور مکذبین کا کہا نہ مانیں اور ان کی پروانہ کریں کچھ ہم سورة واقعہ کی تیسیر میں عرض کرچکے ہیں اور کچھ سورة کافرون میں انشاء اللہ آجائے گا۔ لہٰذا دین کے معاملے میں مساہلت اور مداہنت نہیں کی جاسکتی البتہ مدارات جس کو ہندوستان میں خاطر تواضع اور خاطر مدارت کہتے ہیں اصول انسانیت کی بناپر ہر مسلم اور غیر مسلم کے ساتھ انفرادی یا اجتماعی طور پر جائز ہے غرض حسن سلوک اور خاطر مدارت اور چیز ہے اور مداہنت فی الدین اور چیز ہے اس لئے فرمایا کہ منکرین اور مکذبین کا کہنا نہ مان اور دین میں مداہنت نہ کر۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی تو ان کے بتوں کو بھلا کہہ تو دے تیری باتوں کو پسند کریں۔ امام غزالی (رح) نے اپنی بعض تصانیف میں فرمایا ہے کہ مداہنت اور مدارات میں بہت باریک فرق ہے اب آگے بعض خاص کافروں کے اوصاف بیان فرما کر ان کی اطاعت سے خاص طور پر اپنے پیغمبر کو منع فرمایا۔