Surat ul Haaqqaa

Surah: 69

Verse: 12

سورة الحاقة

لِنَجۡعَلَہَا لَکُمۡ تَذۡکِرَۃً وَّ تَعِیَہَاۤ اُذُنٌ وَّاعِیَۃٌ ﴿۱۲﴾

That We might make it for you a reminder and [that] a conscious ear would be conscious of it.

تاکہ اسے تمہارے لئے نصیحت اور یادگار بنا دیں اور ( تاکہ ) یاد رکھنے والے کان اسے یاد رکھیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لِنَجْعَلَهَا لَكُمْ تَذْكِرَةً ... That We might make it an admonition for you, The pronoun "it" here refers to the species of the object (ships) due to the general meaning alluding to this. Thus, the meaning is, `We caused its type of creation (ships) to remain (in the earth) for you, so that you ride upon the currents of the water in the seas. ' This is as Allah says, وَجَعَلَ لَكُمْ مِّنَ الْفُلْكِ وَالاٌّنْعَـمِ مَا تَرْكَبُونَلِتَسْتَوُواْ عَلَى ظُهُورِهِ ثُمَّ تَذْكُرُواْ نِعْمَةَ رَبِّكُمْ إِذَا اسْتَوَيْتُمْ عَلَيْهِ and has appointed for you ships and cattle on which you ride; In order that you may mount on their backs, and then may remember the favor of your Lord when you mount thereon. (43:12,13) And Allah said, وَءَايَةٌ لَّهُمْ أَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّتَهُمْ فِى الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ وَخَلَقْنَا لَهُمْ مِّن مِّثْلِهِ مَا يَرْكَبُونَ And an Ayah for them is that We bore their offspring in the laden ship. And We have created for them of the like thereunto, on which they ride. (36:41,42) Qatadah said, "Allah caused this ship to remain until the first people of this Ummah saw it." However, the first view (that it refers to all ships in general) is the most apparent. Allah continues saying, ... وَتَعِيَهَا أُذُنٌ وَاعِيَةٌ and that it might be retained by the retaining ears. meaning, that a receptive ear may understand and reflect upon this bounty. Ibn `Abbas said, "This means an ear that is retentive and hearing." Qatadah said, أُذُنٌ وَاعِيَةٌ (by the retaining ears), means: "An ear that Allah gives intelligence, so it benefits by what it hears from Allah's Book." Ad-Dahhak said, وَتَعِيَهَا أُذُنٌ وَاعِيَةٌ (and that it might be retained by the retaining ears). means, "An ear that hears it and retains it, meaning the person who has sound hearing, and correct intellect." And this is general concerning everyone who understands and retains.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

12۔ 1 یعنی یہ فعل کہ کافروں کو پانی میں غرق کردیا اور مومنوں کو کشتی میں سوار کرا کے بچا لیا تمہارے لیے اس کو عبرت و نصیحت بنادیں تاکہ تم اس سے نصیحت حاصل کرو اور اللہ کی نافرمانی سے بچو۔ یعنی سننے والے اسے سن کر یاد رکھیں اور وہ بھی اس سے عبرت پکڑیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩] طوفان نوح اور کشتی :۔ یعنی طوفان کا یہ حال تھا کہ پانی کی اتنی کثیر مقدار جمع ہوگئی تھی کہ پہاڑ تک اس طوفان میں ڈوب گئے تھے۔ اتنے مہیب طوفان کے مقابلہ میں ایک کشتی کی بھلا حقیقت ہی کیا تھی جو اس طوفان کے تھپیڑوں کا مقابلہ کرسکتی۔ خصوصاً جب کہ اس میں سوار لوگوں کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ ان کی منزل مقصود کس سمت کو ہے ؟ ظاہری اسباب پر انحصار کیا جائے تو ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ نہ اس کشتی کے بچنے کی کوئی صورت تھی اور نہ اس میں سوار انسانوں کی۔ یہ ہماری قدرت اور ہمارا احسان ہی تھا کہ اس کشتی کے ذریعہ ہم نے اپنے فرمانبرداروں کو بچا لیا اور لوگوں کو اپنی قدرت و حکمت کا ایسا کرشمہ دکھا دیا کہ رہتی دنیا تک لوگ اس واقعہ کو یاد رکھیں۔ [١٠] یعنی وہ لوگ جو کوئی بات سن کر سنی ان سنی نہیں کردیتے۔ بلکہ اس میں غور کرتے، اس سے عبرت حاصل کرتے، پھر اسے یاد بھی رکھتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لنجعلھا لکم تذکرۃ :” لنجعلھا “ میں ” ھا “ ضمیر اس واقعہ کی طرف جا رہی ہے، یعنی ” تاکہ ہم اس واقعہ کو تمہارے لئے ایک نصیحت اور یادگار بنادیں۔ “ نوح (علیہ السلام) کی قوم کا یہ واقعہ پشت در پشت نقل ہو کر آرہا تھا اور عرب کے لوگ اچھی طرح اس سے واقف تھے۔ بعض مفسرین نے اس ضمیر ” ھا “ سے مراد ” الجاریۃ “ (کشتی) بھی لیا ہے، مگر اس کے بعد آنے والے الفاظ ” وتعیھا اذن واعیۃ “ (اور اسے یاد رکھنے والا کان یاد رکھے) سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ضمیر سے مراد ” واقعہ “ ہے، کیونکہ ” وعی یعی “ کا معنی سوچ سمجھ کر سننا اور یاد رکھنا ہوتا ہے۔ ” اذن “ (کان) سے مراد کانوں والے انسان ہیں جو واقعہ کو سنیں تو اس سے عبرت پکڑیں کہ آخرت کے انکار اور اللہ کے رسولوں کو جھٹلانے کا انجام کتنا ہولناک ہوتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لِنَجْعَلَہَا لَكُمْ تَذْكِرَۃً وَّتَعِيَہَآ اُذُنٌ وَّاعِيَۃٌ۝ ١٢ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ تَّذْكِرَةُ : ما يتذكّر به الشیء، وهو أعمّ من الدّلالة والأمارة، قال تعالی: فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر/ 49] ، كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس/ 11] ، أي : القرآن . وذَكَّرْتُهُ التذکرۃ جس کے ذریعہ کسی چیز کو یاد لایا جائے اور یہ دلالت اور امارت سے اعم ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ فَما لَهُمْ عَنِ التَّذْكِرَةِ مُعْرِضِينَ [ المدثر/ 49] ان کو کیا ہوا کہ نصیحت سے روگرداں ہورہے ہیں ۔ كَلَّا إِنَّها تَذْكِرَةٌ [ عبس/ 11] دیکھو یہ ( قرآن ) نصیحت ہے ۔ مراد قرآن پاک ہے ۔ ذَكَّرْتُهُ كذا وعی الوَعْيُ : حفظ الحدیث ونحوه . يقال : وَعَيْتُهُ في نفسه . قال تعالی: لِنَجْعَلَها لَكُمْ تَذْكِرَةً وَتَعِيَها أُذُنٌ واعِيَةٌ [ الحاقة/ 12] . والإِيعَاءُ : حفظ الأمتعة في الوِعَاءِ. قال تعالی: وَجَمَعَ فَأَوْعى[ المعارج/ 18] قال الشاعر : وقال تعالی: فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعاءِ أَخِيهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَها مِنْ وِعاءِ أَخِيهِ [يوسف/ 76] ( و ع ی ) الوعی ( ض ) کے معنی ( عموما ) بات وغیر کو یاد کرلینا کے ہوتے ہیں جیسے وعیتہ فی نفسی میں نے اسے یاد کرلیا قرآن میں ہے : ۔ لِنَجْعَلَها لَكُمْ تَذْكِرَةً وَتَعِيَها أُذُنٌ واعِيَةٌ [ الحاقة/ 12] تاکہ اس کو تمہارے لئے یاد گار بنائیں اور یاد رکھنے والے کان اسے یاد رکھیں ۔ الایعاء ( افعال ) کے معنی سازو و سامان کو وعاء ظرف میں محفوظ کرنا کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَمَعَ فَأَوْعى[ المعارج/ 18] مال جمع کیا اور بند رکھا الوعاء کے معنی بوری یا تھیلا کے ہیں جس میں دوسری چیزیں اکٹھی کرکے رکھی جائیں جمع اوعیۃ آتی ہے قرآن میں ہے : فَبَدَأَ بِأَوْعِيَتِهِمْ قَبْلَ وِعاءِ أَخِيهِ ثُمَّ اسْتَخْرَجَها مِنْ وِعاءِ أَخِيهِ [يوسف/ 76] پھر یوسف نے ا پنے بھائی کے شلیتے سے پہلے ان کے شلیتوں کو دیکھنا شرو ع کیا پھر اپنے بھائی کے شلیتے میں سے اس کو نکال لیا ۔ أذن (کان) الأذن : الجارحة، وشبّه به من حيث الحلقة أذن القدر وغیرها، ويستعار لمن کثر استماعه وقوله لما يسمع، قال تعالی: وَيَقُولُونَ : هُوَ أُذُنٌ قُلْ : أُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ [ التوبة/ 61] أي : استماعه لما يعود بخیرٍ لكم، وقوله تعالی: وَفِي آذانِهِمْ وَقْراً [ الأنعام/ 25] إشارة إلى جهلهم لا إلى عدم سمعهم . ( اذ ن) الاذن کے معنی کان کے ہیں اور تشبیہ کے طور پر ہنڈیا کی کو روں کو اذن القدر کہا جاتا ہے اور استعارہ کے طور پر ہر اس شخص پر اذن کا لفظ بولاجاتا ہے ۔ جو ہر ایک کی بات سن کر اسے مان لیتا ہو ۔ چناچہ فرمایا :۔ { وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ } ( سورة التوبة 61) اور کہتے ہیں یہ شخص زا کان ہے ان سے ) کہدو کہ وہ کان ہے تو تمہاری بھلائی کے لئے ۔ اور آیت کریمہ :۔ { وَفِي آذَانِهِمْ وَقْرًا } ( سورة الأَنعام 25) اور انکے کانوں میں گرانی پیدا کردی ہے ۔ کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ بہرے ہوگئے ہیں بلکہ اس سے انکی جہالت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٢ { لِنَجْعَلَہَا لَکُمْ تَذْکِرَۃً وَّتَعِیَہَآ اُذُنٌ وَّاعِیَۃٌ ۔ } ” تاکہ ہم اس کو تمہارے لیے ایک یاددہانی بنا دیں اور وہ کان جو حفاظت کرنے والے ہیں اس کو پوری حفاظت سے یاد رکھیں۔ “ ان آیات میں ” التَّذْکِیر بایَّامِ اللّٰہ “ کا بیان تھا۔ اس کے بعد اب آخرت کا ذکر آ رہا ہے۔ ایک لحاظ سے تو یہ بھی اَیَّام اللّٰہ ہی کے تذکرے کا حصہ ہے ‘ کیونکہ وقت کی ڈور میں ایک طرف اگر گزشتہ اقوام کے عبرت ناک واقعات پروئے ہوئے ہیں تو اسی ڈور کا دوسرا سرا آخرت ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

9 "The retaining ears,..": the ears which may hear it consciously and take it in. Although the word ear has been used, it unplies the hearers who may hear the event and always remember it, take heed from it, and may never forget what dreadful fate the deniers of the Hereafter and the disbelievers of the Messenger of God would ultimately suffer.

سورة الْحَآقَّة حاشیہ نمبر :9 یعنی وہ کان نہیں جو سنی ان سنی کر دیں اور جن کے پردے پر سے آواز چٹ کر گزر جائے ، بلکہ وہ لوگ جو اس واقعہ کو سن کر اسے یاد رکھیں ، اس سے عبرت حاصل کریں اور اس بات کو کبھی نہ بھولیں کہ آخرت کے انکار اور خدا کے رسول کی تکذیب کا انجام کیسا ہولناک ہوتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(69:12) لنجعلہا تذکرۃ : لنجعلہا لام تعلیل کا ہے۔ نجعل فعل مضارع جمع متکلم ۔ جعل (باب فتح) مصدر سے۔ ہم بنادیں۔ ہم کردیں۔ ھا ضمیر مفعول واحد مؤنث غائب۔ مراد اس سے وہ فعل ہے جس سے مؤمنوں کو بجات نصیب ہوئی اور کافر ہلاک ہوگئے۔ الضمیر للفعلہ وہی نجاۃ المؤمنین واغرق الکفرۃ : الکشاف : ضمیر نجات المؤمنین واغراق الکفرین کے فعل کی طرف راجع ہے۔ فراء نے لکھا ہے کہ ضمیر الجاریۃ (السفینۃ) کے لئے ہے۔ صاحب السیر التفاسیر کا بھی یہی قول ہے۔ لکھتے ہیں :۔ وقولہ لنجعلہا لکم تذکرۃ : ای لنجعل السفینۃ تذکرۃ لکم و موعظۃ وعبرۃ تفعلۃ باب تفعیل کا مصدر ہے۔ اور فعل نجعل کا مفعول ثانی ہے۔ ترجمہ ہوگا :۔ تاکہ ہم اس کو (یعنی اس واقعہ کو) تمہارے لئے یادگار بنادیں۔ وتعیہا : واؤ عاطفہ، تعی مضارع کا صیغہ واحد مؤنث غائب۔ وعی (باب ضرب) مصدر سے ھا ضمیر مفعول واحد مؤنث غائب کا مرجع وہی ہے جو نجعلہا میں ھا کا ہے جس کی اوپر بحث ہوئی ہے (اور تاکہ اس کو) وہ یاد رکھے۔ اذن داعیۃ : موصوف و صفت، اذن کان مجازا اس شخص کو بھی کہتے ہیں جو کان لگا کر سنے۔ اور سن کر مانے۔ داعیۃ اسم فاعل، واحد مؤنث۔ وعی باب ضرب مصدر یاد رکھنے والے۔ اذن واعیۃ یاد رکھنے والے کان ۔ وعاء برتن کو کہتے ہیں جس میں کوئی چیز بھری جاتی ہے یا رکھی جاتی ہے۔ ترجمہ ہوگا :۔ اور تاکہ یاد رکھنے والے اس کو یاد رکھیں۔ (سمجھیں اور غور کریں) علامہ پانی پتی (رح) تعالیٰ لکھتے ہیں :۔ کان سننے اور یاد رکھنے کا ذریعہ ہے اس لئے یاداشت کا فاعل کان کو قرار دیا۔ ورنہ حقیقت میں یاد رکھنے والا دل یا نفس ہے۔ یا کان سے مراد کانوں والے (یعنی اصحاب اذن) مضاف (اصحاب) کو حذف کرکے مضاف الیہ (کان) کو اس کے قائم مقام کردیا۔ (اول مجاز فی اسناد ہے اور دوسرا مجاز لغوی یا مجاز فی الحدف)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 ” ھا “ کی ضمیر کشتی کے لئے بھی ہوسکتی ہے اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کشتی کو تمہارے لئے یادگار بنائیں۔ اس صورت میں کشتی سے مرا خاص حضرت نوح کی کشتی بھی ہوسکتی ہے اور ہر کشتی بھی کیونکہ وہ اس کی جنس سے ہونے کی وجہ سے اس کی یادگار ہے۔ قتادہ کہتے ہیں کہ حضرت نوح کی کشتی کو اس امت کے ابتدائی لوگوں نے دیکھا ہے۔ (ابن کثیر)7 مراد ہر وہ شخص ہے جو واقعات کو سن کر انہیں سمجھنے اور یاد رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یہ قصے تو مکذبین قیامت کے ہوئے، آگے قیامت کے اہوال کا بیان ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ پانی کی پہاڑوں کی طرح موجیں اور ان پرچلنے والی کشتی کا منظر ، دونوں اس سورت کی خوفناک فضا کی خوفناک یوں میں اضافہ کرنے والے ہیں۔ اور سورت کے مناظر کے ساتھ بھی ہم آہنگ ہیں اور جاریہ اور داعیہ کے الفاظ قافیہ کو یکساں کرتے ہیں۔ اور پھر یہ نصیحت آموز تبصرہ۔ لنجعلھا ................ واعیة (٠٦ : ٢١) ” تاکہ اس واقعہ کو تمہارے لئے ایک سبق آموز یادگار بنادیں اور یاد رکھنے والے کان اس کی یاد محفوظ رکھیں “۔ یہ نصیحت جامد اور پتھردل پر بھی اثر کرتی ہے۔ اور یہ آواز ایسے کانوں سے بھی پار ہوجاتی ہے ، جن پر کوئی آواز اثر نہیں کرتی۔ جو ہر چیز کو سننے سے انکار کرتے ہیں اور تکذیب کرتے ہیں۔ رسولوں کا انکار اور امم سابقہ کی ہلاکتوں سے چشم پوشی سے تمام نشانات ، معجزات اور تذکروں کا انکار۔ اللہ کی نعمتوں اور ان کے آباﺅاجداد پر ہونے والی نعمتوں کا انکار۔ اب ایک عظیم ہولناک منظر آتا ہے اور اس کے سامنے یہ سب چھوٹے چھوٹے مناظر نہایت ہی چھوٹے نظر آتے ہیں۔ یہ ہے ہولناک منظر الحاقہ کا۔ القارعہ کا جس کی یہ لوگ اس کے باوجود تکذیب کرتے ہیں کہ انہوں نے ان امم سابقہ کا انجام ابھی دیکھ لیا جنہوں نے تکذیب کی تھی۔ اقوام سابقہ کی ہلاکتوں کا خوف محدود ہے۔ باوجود اس کے کہ وہ بھی بہت بڑا خوف ہے ، کیونکہ قیامت سے قبل ہونے والی تباہی کے مقابلے میں یہ سب تباہیاں بہرحال محدود اور معمولی ہیں۔ اس مختصر تمہید کے بعد اب پردہ اٹھایا جاتا ہے۔ اس عظیم ، ہمہ گیر تباہی اور ہولناکی کے مناظر سے۔ یہ بڑا منظر سابقہ چھوٹے مناظر کی تکملہ ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿ لِنَجْعَلَهَا لَكُمْ تَذْكِرَةً وَّ تَعِيَهَاۤ اُذُنٌ وَّاعِيَةٌ٠٠١٢﴾ (تاکہ اس کو یادگار بنا دیں اور یاد رکھنے والے کان اس کو یاد رکھیں) کیونکہ اس میں اہل فکر اور اہل نظر کے لیے عبرت اور نصیحت ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(12) تاکہ ہم اس واقعہ کو تمہارے لئے ایک یادگار بنادیں اور محفوظ رکھنے والے کان اس کو محفوظ رکھیں کانوں کو محفوظ رکھنے والا یا یادرکھنے والا مجازاً فرمایا ہے مطلب یہ ہے کہ اس کو یاد رکھیں اور سبب عذاب اور موجبات عقاب سے بچیں۔ یہاں تک مکذبین کے واقعات اور حاقہ کی تمثیلات مذکور ہیں اب آگے اصل حاقہ یعنی قیامت کی ہولناکی اور اس دن کی تخریب کا ذکر فرماتے ہیں، چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔