Surat ul Haaqqaa

Surah: 69

Verse: 18

سورة الحاقة

یَوۡمَئِذٍ تُعۡرَضُوۡنَ لَا تَخۡفٰی مِنۡکُمۡ خَافِیَۃٌ ﴿۱۸﴾

That Day, you will be exhibited [for judgement]; not hidden among you is anything concealed.

اس دن تم سب سامنے پیش کئے جاؤ گے تمہارا کوئی بھید پوشیدہ نہ رہے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

That Day shall you be brought to Judgement, not a secret of you will be hidden. meaning, `you will all be presented to the Knower of the secrets and private counsels. He is the One from Whom none of your affairs are hidden. He is the Knower of all things apparent, secret and hidden.' This is the reason that Allah says, لاَا تَخْفَى مِنكُمْ خَافِيَةٌ (not a secret of you will be hidden). Imam Ahmad recorded from Abu Musa that the Messenger of Allah said, يُعْرَضُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثَلَثَ عَرْضَاتٍ فَأَمَّا عَرْضَتَانِ فَجِدَالٌ وَمَعَاذِيرُ وَأَمَّا الثَّالِثَةُ فَعِنْدَ ذَلِكَ تَطِيرُ الصُّحُفُ فِي الاَْيْدِي فَأخِذٌ بِيَمِينِهِ وَاخِذٌ بِشِمالِه The people will be exhibited three times on the Day of Judgement. The first two presentations will be (their) arguing and offering excuses. During the third presentation the pages (records) will fly into their hands. Some of them will receive the records in their right hands and some will receive them in their left hands. Ibn Majah and At-Tirmidhi both recorded this Hadith.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

18۔ 1 یہ پیشی اس لیے نہیں ہوگی کہ جن کو اللہ نہیں جانتا ان کو جان لے گا وہ تو سب کو ہی جانتا ہے یہ پیشی خود انسانوں پر حجت قائم کرنے کے لیے ہوگی ورنہ اللہ سے تو کسی کی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤] یہی وہ دن ہوگا جب تم اللہ کے سامنے پیش کئے جاؤ گے اس پیشی میں تمہارے ارادہ کو کچھ دخل نہ ہوگا بلکہ اضطراراً تمہیں پیش کیا جائے گا اور تمہیں پیش ہونا پڑے گا۔ کوئی شخص اس دن پیشی سے چھپا نہیں رہ سکتا۔ نہ ہی اللہ کے سامنے کوئی بات چھپانا ممکن ہوگی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

يَوْمَئِذٍ تُعْرَ‌ضُونَ لَا تَخْفَىٰ مِنكُمْ خَافِيَةٌ (On that day, you will be brought forward in a way that no secret of yours will remain secret...69:18). In other words, on the Day of Judgment people will be exposed - no concealed act they did will stay concealed. Nothing is concealed from Divine knowledge and sight even today. The Plain of Gathering has been particularly mentioned in this connection probably because the entire ground will be levelled out as a plain surface. There will be no caves nor mountains, no buildings nor houses nor barriers of any trees. These are the things behind which people normally hide in the mortal world. On the Day of Judgment, none of these things will be available and there will be no possibility of hiding.

(آیت) يَوْمَىِٕذٍ تُعْرَضُوْنَ لَا تَخْفٰى مِنْكُمْ خَافِيَةٌ۔ یعنی اس روز اپنے رب کے سامنے پیش ہوں گے، کوئی چھپنے والا چھپ نہ سکے گا۔ اللہ تعالیٰ کے علم و بصر سے تو آج بھی کوئی نہیں چھپ سکتا اس روز کی خصوصیت شاید یہ کہ میدان حشر میں تمام زمین ایک سطح مستوی ہوجائے گی نہ کوئی غار رہے گا نہ پہاڑ نہ کوئی تعمیر و مکان نہ کسی درخت وغیرہ کی آڑ، یہی چیزیں ہیں جن کے پیچھے دنیا میں چھپنے والے چھپا کرتے ہیں وہاں ان میں سے کوئی چیز نہ ہوگی، کسی کے چھپنے کا امکان ہی نہ رہے گا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

يَوْمَىِٕذٍ تُعْرَضُوْنَ لَا تَخْفٰى مِنْكُمْ خَافِيَۃٌ۝ ١٨ يَوْمَئِذٍ ويركّب يَوْمٌ مع «إذ» ، فيقال : يَوْمَئِذٍ نحو قوله عزّ وجلّ : فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر/ 9] وربّما يعرب ويبنی، وإذا بني فللإضافة إلى إذ . اور کبھی یوم کے بعد اذ بڑھا دیاجاتا ہے اور ( اضافت کے ساتھ ) یومئذ پڑھا جاتا ہے اور یہ کسی معین زمانہ کی طرف اشارہ کے لئے آتا ہے اس صورت میں یہ معرب بھی ہوسکتا ہے اور اذ کی طرف مضاف ہونے کی وجہ سے مبنی بھی ۔ جیسے فرمایا : وَأَلْقَوْا إِلَى اللَّهِ يَوْمَئِذٍ السَّلَمَ [ النحل/ 87] اور اس روز خدا کے سامنے سرنگوں ہوجائیں گے ۔ فَذلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ [ المدثر/ 9] وہ دن بڑی مشکل کا دن ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : وَذَكِّرْهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ [إبراهيم/ 5] اور ان کو خدا کے دن یا ددلاؤ۔ میں ایام کی لفظ جلالت کی طرف اضافت تشریفی ہے اور ا یام سے وہ زمانہ مراد ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنے فضلو انعام کے سمندر بہا دیئے تھے ۔ عرض أَعْرَضَ الشیءُ : بدا عُرْضُهُ ، وعَرَضْتُ العودَ علی الإناء، واعْتَرَضَ الشیءُ في حلقه : وقف فيه بِالْعَرْضِ ، واعْتَرَضَ الفرسُ في مشيه، وفيه عُرْضِيَّةٌ. أي : اعْتِرَاضٌ في مشيه من الصّعوبة، وعَرَضْتُ الشیءَ علی البیع، وعلی فلان، ولفلان نحو : ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلائِكَةِ [ البقرة/ 31] ، ( ع ر ض ) العرض اعرض الشئی اس کی ایک جانب ظاہر ہوگئی عرضت العود علی الاناء برتن پر لکڑی کو چوڑی جانب سے رکھا ۔ عرضت الشئی علی فلان اولفلان میں نے فلاں کے سامنے وہ چیزیں پیش کی ۔ چناچہ فرمایا : ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلائِكَةِ [ البقرة/ 31] پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا ۔ لا «لَا» يستعمل للعدم المحض . نحو : زيد لا عالم، وذلک يدلّ علی كونه جاهلا، وذلک يكون للنّفي، ويستعمل في الأزمنة الثّلاثة، ومع الاسم والفعل غير أنه إذا نفي به الماضي، فإمّا أن لا يؤتی بعده بالفعل، نحو أن يقال لك : هل خرجت ؟ فتقول : لَا، وتقدیره : لا خرجت . ويكون قلّما يذكر بعده الفعل الماضي إلا إذا فصل بينهما بشیء . نحو : لا رجلا ضربت ولا امرأة، أو يكون عطفا . نحو : لا خرجت ولَا رکبت، أو عند تكريره . نحو : فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] أو عند الدّعاء . نحو قولهم : لا کان، ولا أفلح، ونحو ذلك . فممّا نفي به المستقبل قوله : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] وفي أخری: وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] وقد يجيء «لَا» داخلا علی کلام مثبت، ويكون هو نافیا لکلام محذوف وقد حمل علی ذلک قوله : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] ، فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ، فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] لا وأبيك ابنة العامريّ «1» وقد حمل علی ذلک قول عمر رضي اللہ عنه۔ وقد أفطر يوما في رمضان فظنّ أنّ الشمس قد غربت ثم طلعت۔: لا، نقضيه ما تجانفنا لإثم فيه، وذلک أنّ قائلا قال له قد أثمنا فقال لا، نقضيه . فقوله : «لَا» ردّ لکلامه قد أثمنا، ثم استأنف فقال : نقضيه «2» . وقد يكون لَا للنّهي نحو : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] ، وَلا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] ، وعلی هذا النّحو : يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، وعلی ذلك : لا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ، وقوله : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] فنفي قيل تقدیره : إنهم لا يعبدون، وعلی هذا : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] وقوله : ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] يصحّ أن يكون «لا تقاتلون» في موضع الحال «3» : ما لکم غير مقاتلین . ويجعل «لَا» مبنيّا مع النّكرة بعده فيقصد به النّفي . نحو : فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] ، [ وقد يكرّر الکلام في المتضادّين ويراد إثبات الأمر فيهما جمیعا . نحو أن يقال : ليس زيد بمقیم ولا ظاعن . أي : يكون تارة كذا وتارة كذا، وقد يقال ذلک ويراد إثبات حالة بينهما . نحو أن يقال : ليس بأبيض ولا أسود ] «4» ، وإنما يراد إثبات حالة أخری له، وقوله : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] . فقد قيل معناه : إنها شرقيّة وغربيّة «5» . وقیل معناه : مصونة عن الإفراط والتّفریط . وقد يذكر «لَا» ويراد به سلب المعنی دون إثبات شيء، ويقال له الاسم غير المحصّل . نحو : لا إنسان، إذا قصدت سلب الإنسانيّة، وعلی هذا قول العامّة : لا حدّ. أي : لا أحد . ( لا ) حرف ) لا ۔ یہ کبھی عدم محض کے لئے آتا ہے ۔ جیسے : زید عالم یعنی جاہل ہے اور کبھی نفی کے لئے ہوتا ہے ۔ اور اسم و فعل دونوں کے ساتھ ازمنہ ثلاثہ میں نفی کے معنی دیتا ہے لیکن جب زمانہ ماضی میں نفی کے لئے ہو تو یا تو اس کے بعد فعل کو ذکر ہی نہیں کیا جاتا مثلا اگر کوئی ھل خرجت کہے تو اس کے جواب میں صرف ، ، لا ، ، کہ دنیا کافی ہے یعنی لاخرجت اور اگر نفی فعل مذکور بھی ہوتا ہے تو شاذو نا در اور وہ بھی اس وقت (11) جب لا اور فعل کے درمیان کوئی فاعل آجائے ۔ جیسے لارجل ضربت ولا امرءۃ (2) جب اس پر دوسرے فعل کا عطف ہو جیسے ۔ لا خرجت ولاضربت اور یا (3) لا مکرر ہو جیسے ؛فَلا صَدَّقَ وَلا صَلَّى [ القیامة/ 31] اس ناعاقبت اندیش نے نہ تو کلام خدا کی نعمتوں کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی ۔ اور یا (4) جملہ دعائیہ میں جیسے لا کان ( خدا کرے ایسا نہ ہو ) لا افلح ( وہ کامیاب نہ ہوا وغیرہ ۔ اور زمانہ مستقبل میں نفی کے متعلق فرمایا : لا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقالُ ذَرَّةٍ [ سبأ/ 3] ذرہ پھر چیز بھی اس سے پوشیدہ نہیں ۔ اور کبھی ، ، لا ، ، کلام مثبت پر داخل ہوتا ہے اور کلام محذوف کی نفی کے لئے آتا ہے ۔ جسیے فرمایا : وَما يَعْزُبُ عَنْ رَبِّكَ مِنْ مِثْقالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا فِي السَّماءِ [يونس/ 61] اور تمہارے پروردگار سے ذرہ برابر بھی کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے نہ زمین میں اور نہ آسمان میں ۔۔۔ اور مندرجہ ذیل آیات میں بھی بعض نے لا کو اسی معنی پر حمل کیا ہے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ [ القیامة/ 1] ہم کو روز قیامت کی قسم ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ [ المعارج/ 40] میں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم کھاتا ہوں ۔ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ [ النساء/ 65] تمہارے پروردگار کی قسم یہ مومن نہیں ہوں گے ۔ فَلا أُقْسِمُ بِمَواقِعِ النُّجُومِ [ الواقعة/ 75] ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم ۔ اور اسی معنی میں شاعر نے کہا ہے ( المتقارب ) (388) لاوابیک ابتہ العامری نہیں تیرے باپ کی قسم اسے عامری کی بیٹی ۔ اور مروی ہے (105) کہ ا یک مرتبہ حضرت عمر نے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے روزہ افطار کردیا اس کے بعد سورج نکل آیا تو آپ نے فرمایا : لانقضیہ ماتجالفنا الاثم فیہ اس میں بھی لا کلام محذوف کی نفی کے لئے ہے یعنی اس غلطی پر جب لوگوں نے کہا کہ آپ نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اس کی نفی کے لئے انہوں نے لا فرمایا ۔ یعنی ہم گنہگار نہیں ہیں ۔ اس کے بعد تفضیہ سے از سر نو جملہ شروع کیا ہے ۔ اور کبھی یہ لا نہی کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ [ الحجرات/ 11] کوئی قوم کسی قوم سے تمسخرنہ کرے ولا تَنابَزُوا بِالْأَلْقابِ [ الحجرات/ 11] اور نہ ایک دوسرے کا برنام رکھو ۔ اور آیت ؛ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے بنی آدم دیکھنا کہیں شیطان تمہیں بہکادے ۔ اور نیزلا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمانُ وَجُنُودُهُ [ النمل/ 18] ایسانہ ہو ک سلمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں ۔۔۔ میں بھی لا نہی کے لئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَ بَنِي إِسْرائِيلَ لا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ [ البقرة/ 83] اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا کہ خدا کے سو اکسی کی عبادت نہ کرنا ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ لانا فیہ یعنی خبر ہے یعنی وہ اللہ کے سو ا کسی کی عبادت نہیں کریں گے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : وَإِذْ أَخَذْنا مِيثاقَكُمْ لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] اور جب ہم نے تم سے عہد لیا ک تم آپس میں کشت وخون نہیں کروگے ۔ میں بھی لانفی پر محمول ہے اور فرمان باری تعالیٰ ما لَكُمْ لا تقاتلُونَ [ النساء/ 75] تمہیں کیا ہوا کہ خدا کی راہ میں نہیں لڑتے ۔ میں ہوسکتا ہے کہ لاتقاتلو ن موضع حال میں ہو ۔ اور معنی ی ہو مالکم غیر مقاتلین یعنی تمہیں کیا ہوا اور آنحالیکہ لڑنے والے نہیں ہو ۔ اور لا کے بعد اسم نکرہ آجائے تو وہ مبنی بر فتحہ ہوتا ہے اور لا لفی کے مبنی دیتا ہے جیسے فرمایا : نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی برا کام کرے ۔ فَلا رَفَثَ وَلا فُسُوقَ [ البقرة/ 197] اور کبھی دو متضادمعنوں کے درمیان لا مکرر آجاتا ہے ۔ اور دونوں کا اثبات مقصود ہوتا ہے جیسے : لا زید بمقیم ولا ظاعن نہ زید مقیم ہے اور نہ ہی مسافر یعن کبھی مقیم ہے اور کبھی سفر پر اور کبھی متضاد مقصود ہوتا ہے جیسے ۔ لیس ابیض ولااسود سے مراد ہے کہ وہ ان دونوں رنگوں کے درمیان ہے یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے ہے کہ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا رنگ ہو چناچہ آیت کریمہ : لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ [ النور/ 35] یعنی زیتون کی نہ مشرق کی طرف منسوب اور نہ مغرب کیطر کے بعض نے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ بیک وقت مشرقی بھی ہے اور غربی بھی ۔ اور بعض نے اس کا افراط اور تفریط سے محفوظ ہونا مراد لیا ہے ۔ کبھی لا محض سلب کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس سے ایک شے کی نفی کرکے دوسری کا اثبات مقصود نہیں ہوتا مثلا لا انسان کہہ کہ صرف انسانیت کی نفی کا قصد کیا جائے اور عامی محاورہ لاحد بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ خفی خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف/ 55] ، ( خ ف ی ) خفی ( س ) خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف/ 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔ خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٨۔ ٢٠) یا یہ کہ تمہارے اعمال میں سے کوئی چیز اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہ ہوگی سو پھر جس شخص کا نامہ اعمال اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ مثلا حضرت ام سلمہ کے خاوند ابو سلمہ بن عبدالاسد تو وہ خوشی میں اپنے ساتھیوں سے کہے گا آؤ میرا نامہ اعمال دیکھ لو اس میں جو ثواب و جزا ہے میرا یقین تھا کہ مجھ کو میرا حساب پیش آنے والا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(69:18) یومئذ : یوم اسم ظرف منصوب۔ مضاف اذ مضاف الیہ۔ اسی دن، اسی روز، ایسے واقعات کے دن۔ یعرضون۔ مضارع مجہول جمع مذکر حاضر۔ عرض (باب ضرب) مصدر سے ۔ جس کے معنی ہیں، سامنے ہونا۔ ظاہر و آشکار کرنا۔ تم پیش کئے جاؤ گے۔ تم رو برلائے جاؤ گے۔ تم سامنے کئے جاؤ گے۔ (یہ پیشی نفخہ بعث کے بعد ہوگی۔ خطاب تمام آدمیوں سے ہے یعنی اسے انسانو ! اس روز حساب کے لئے اللہ تعالیٰ کے سامنے تمہیں جانا ہوگا) ۔ لا یخفی منکم خافیۃ۔ مضارع منفی واحد مؤنث غائب۔ خفاء (باب سمع) مصدر سے نہیں چھپی رہے گی تم سے۔ خافیۃ خفاء سے اسم فاعل کا سیغہ واحد مؤنث۔ چھپنے والی پوشیدہ ہونے والی۔ بھید۔ مترجمین نے حسب ذیل اس کے ترجمے کئے ہیں :۔ (1) تم میں سے کسی کا راز نہ چھپ سکے گا۔ (ترجمہ) تم سے کوئی شخص مخفی نہ رہ سکے گا نہ کوئی بات مخفی رہے گی۔ (تفسیر) ۔ تفسیر حقانی۔ (2) تمہاری کوئی پوشیدہ حرکت بھی چھپی نہ رہ سکے گی۔ (تفسیر مظہری) (3) تمہارا کوئی راز بھی چھپا نہ رہ جائے گا۔ (تفہیم القرآن، ضیاء القرآن) (4) ای لا تخفی منکم سویرۃ من السوائر التی تخفونھا۔ (کوئی بھید جسے تم چھپائے رکھتے تھے وہ بھی پوشیدہ نہیں رہے گا) الیسر التفاسیر۔ (5) وقیل معناہ لا یخفی منکم یوم القیامۃ ماکان مخفیا فی الدنیا۔ (الخازن) اس کا معنی یہ ہے کہ جو بات دنیا میں تم پر مخفی تھی قیامت کے روز وہ بھی مخفی نہ رہے گی۔ فائدہ : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ :۔ قیامت کے دن لوگوں کی تین نشانیاں ہوں گی۔ دو پیشیاں تو جھگڑا کرنے اور معذرتوں کے لئے ہوں گی اور تیسری پیشی کے وقت اعمالنامے ہاتھوں میں نمودار ہوجائیں گے۔ کوئی دائیں ہاتھ لینے والا ہوگا اور کوئی بائیں ہاتھ میں۔ (تفسیر مظہری)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

سب کے سب کھلے اور ننگے ہوں گے۔ جسم بھی ، ضمیر بھی ، عمل بھی اور انجام بھی۔ وہ تمام راز جو پردوں کے نیچے تھے ، کھل کر سامنے آجائیں گے۔ انسانی نفس ننگا ہوگا ، انسانی جسم ننگا ہوگا ، انسانی عیوب سامنے آجائیں گے۔ گواہ سامنے آجائیں گے۔ انسان کی مکاریاں اور فن کاریاں کافور ہوجائیں گی۔ سب حیلے تدبیریں بےاثر ہوں گی۔ اور وہ باتیں بھی کھل جائیں گی جن کو وہ اپنے آپ سے چھپاتا تھا۔ یہ کس قدر شرمندگی ہوگی کہ وہ راز طشت ازبام ہوں گے۔ لوگوں کی نظروں میں انسان کس قدر شرمندہ ہوں گے۔ رہے اللہ تو اس کے سامنے تو پہلے بھی سب کچھ کھلا تھا۔ اب بھی کھلا ہے لیکن انسان کے ذہن میں یہ بات شعور طور پر بیٹھی نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس کے شعور میں زمین کے اندر ایک انسان اور انسان کے درمیان پردہ داری کا شعور ہے جبکہ قیامت کے دن فرق صرف یہ ہوگا کہ اس بےچارے انسان کے شعور میں پردے کا جو شعور تھا وہ اٹھ جائے گا۔ اور وہ سمجھے گا کہ سب پردے گر گئے ہیں۔ اس کائنات میں سب چیز کھلی ہے۔ اب جبکہ زمین اٹھا کر پٹخ دی گئی ہے تو تمام اوٹ ختم ہوگئے ہیں۔ یہ ہموار ہے ، میدان ہے۔ آسمان کی بندشیں بھی کھل گئی ہیں اور آسمانوں کے پیچھے بھی کوئی شے چھپی نہیں ہے۔ اجسام بھی ننگے ہیں ، انسان نفسیات بھی کھلی ہیں ، نہ راز ہے اور نہ نیاز ہے۔ مگر یہ ایک نہایت پریشان کن کام ہے اور یہ اس پوری زمین اور تمام پہاڑوں سے بھی بڑا کام ہے۔ اور اس سے بھی شدید ہے کہ آسمان پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہوکر نیچے گر جائیں کہ انسان بالکل ننگا کھڑا ہو ، اس کی نفسیاتی کیفیات لوگوں پر کھل جائیں ، اس کا شعور بھی عیاں ہوجائے ، اس کی پوری ہسٹری سامنے آجائے ، اس کے تمام کرتوت فلم میں بند ہوجائیں اور اس کی تمام چھپی ہوئی باتیں کھل جائیں اور یہ سب امور پوری انسانیت کے بھی سامنے آجائیں۔ فرشتوں کے سامنے ، جنوں کے سامنے ، انسانوں کے سامنے اور وہ اللہ کے عرش و جلال بادشاہی کے نیچے ہوں گے اور سخت خوفزدہ ہوں گے۔ انسانی مزاج اور نفسیات نہایت پیچیدہ ہوتی ہیں۔ انسانی نفسیات کے اندر بیشمار نشیب و فراز ہوتے ہیں جس کے اندر اس کا نفس ، جس کے اندر اس کے مشاھر ، اور جس کے اندر اس کے جذبات اور میلانات ہوتے ہیں ، اچھے یا برے۔ اس کی صلاحیتیں اور اس کے پوشیدہ راز ہوتے ہیں۔ (توقعہ بامیہ ص ١٨) سیپی کے سمندری جانور کی طرح کہ جب سے ایک سوئی یا کانٹا بھی چبھ جائے تو وہ بڑی جلدی سے سکڑ کر اپنی سیپی کے خول میں چھپ جاتا ہے۔ اور مکمل طور پر اندر داخل ہوجاتا ہے۔ اور اپنے آپ کو پوری طرح بند کردیتا ہے۔ انسان بھی ایسا ہی کرتا ہے۔ جب اسے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ کوئی آنکھ اسے دیکھ رہی ہے اور اس کی تمام حرکات نوٹ ہورہی ہیں اور وہ جن چیزوں کو چھپا رہا ہے وہ تو ظاہر ہوگئی ہیں۔ تو انسان نہایت شدید تکلیف محسوس کرتا ہے کہ اس کے نہایت ہی خفیہ معاملات بھی کھل گئے ہیں۔ اب دیکھئے کہ اس قسم کا انسان اس دن ننگا ہوگا اور ہر طرح سے ننگا ہوگا ، جسم اور قلب کے لحاظ سے ننگا ہوگا۔ شعور ، نیت اور ضمیر کے لحاظ سے ننگا ہوگا۔ ہر پردے سے محروم ہوگا۔ اور وہ اللہ جبار وقہار کے تحت الحکم ہوگا اور تمام روئے زمین کے انسانوں اولین وآخرین کے سامنے ہوگا۔ یہ بہرحال ایک کڑوی صورت حال ہوگی ہر چیز سے زیادہ کڑوی اور تلخ۔ اس کے بعد نجات پانے والوں اور جہنم میں بھیجے جانے والوں کا منظر پیش کیا جاتا ہے۔ یوں جیسا کہ یہ منظر آنکھوں کے سامنے ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(18) اس دن تم لوگ حضرت حق تعالیٰ کے روبروپیش کئے جائو گے اور تمہاری کوئی خفیفہ سے خفیفہ بات پوشیدہ نہ رہے گی۔ اوپر کی آیتوں میں حضرت حق جل مجدہ نے بعض قوموں کی تباہی اور بعض زمین کے حصوں کی بربادی کا ذکر فرمایا تھا تاکہ یہ بات سمجھ میں آجائے کہ جو قادر مطلب اور مالک و مختار زمین اور زمین کی بسنے والی بعض قوموں کے ہلاک و برباد کرنے پر قادر ہے وہ تمام چیزوں کو بھی اگر چاہے تو فنا کرسکتا ہے اور ایک عالم سفلی پر کیا موقوف ہے وہ عالم علوی کو بھی چاہے تو ختم کرسکتا ہے اور اسی ختم کرنے کا نام حاقہ ہے ، لہٰذا ان تمام تمثیلات اور نظائر کا ذکر کرنے کے بعد اب حاقہ یعنی قیامت کے بعض مقدمات کا ذکر فرمایا کہ جب پہلی مرتبہ صور پھونکا جائیگا اور صور میں ایک پھونک ماری جائے گی تو اس کا یہ اثر ہوگا کہ زمین اور پہاڑ سب درہم برہم ہوجائیں گے اور اٹھا لئے جائیں گے اور جب یہ اپنی جگہ سے اکھڑ جائیں گے اور یہ نظام باقی نہ رہے گا تو آپس میں ٹکرا کر ریزہ ریزہ ہوجائیں گے۔ دک، کے معنی ہیں کسی چیز کو توڑنا اور ریزہ ریزہ کردینا، یعنی ایک ہی ٹکر اور ایک ہی چوٹ میں ریزہ ریزہ ہوکر ہوا میں اڑتے پھریں گے بس اس روز وہ حاقہ واقع ہوجائے گی۔ عالم سفلی ہی صرف صور کی آواز سے متاثر نہ ہوگا بلکہ عالم علوی بھی متاثر ہوگا آسمان بھی پھٹ جائے گا اور بالکل بودا اور کمزور ہوجائے گا جیسے کوئی کاغذ یاکپڑا بکس جاتا ہے اور گل جاتا ہے۔ یہ حالت آسمان کی ہوجائے گی اور آسمانوں پر جو فرشتے آباد ہیں وہ ا س کے اطراف و جوانب اور اس کے کناروں پر سمٹ آئیں گے یعنی جو حصہ آسمان کا نہ پھٹا ہوگا فرشتے اس پر آجائیں گے اور جب نیچے اترنے کا حکم ہوگا تو نیچے آجائیں گے ارجا ، رجا کی جمع ہے جس کے معنی طرف اور جانب کے ہیں اگرچہ عالم سفلی اور عالم علوی سب میں سستی اور ضعف ہوگا مگر عرش الٰہی میں گرانی اور ثقل زیادہ ہوگا اور ہیبت الٰہی اور اس کے جلال کا یہ اثر ہوگا کہ اس وقت عرش الٰہی کو چار فرشتے اٹھائے ہوئے ہیں اس دن آٹھ فرشتے اٹھائیں گے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اب چار کے کندھے پر اس دن چار اور لگیں گے۔ غرض یہ کہ آٹھ فرشتے اٹھائیں گے اور پھر مخلوق پیش کی جائے گی جس کو فرمایا کہ اس دن جس دن یہ تمام کام ہوں گے اس دن تم اللہ تعالیٰ کے روبرو پیش کئے جائو گے یہ شاید نفخہ قیام کے بعد ہوگا یعنی دوسرے نفخہ کے بعد بہرحال جب پیش کئے جائو گے تو تمہاری کوئی خفیہ سے خفیہ بات اور بھید پوشیدہ نہ رہے گا کیونکہ جب نامہ اعمال سامنے آئیں گے تو سب باتیں ظاہر ہوجائیں گی، یوم تبلی السرائر چونکہ قیامت کا دن بہت طویل ہوگا اس لئے نفخہ ولیٰ اور نفخہ ثانیہ سب کا ذکر فرمادیا۔