Surat ul Haaqqaa

Surah: 69

Verse: 23

سورة الحاقة

قُطُوۡفُہَا دَانِیَۃٌ ﴿۲۳﴾

Its [fruit] to be picked hanging near.

جس کے میوے جھکے پڑے ہوں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The fruits in bunches whereof will be low and near at hand. Al-Bara' bin `Azib said, "This means close enough for one of them (the people of Paradise) to reach them while he is lying on his bed." More than one person has said this. Then Allah says, كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِييًا بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِي الاَْيَّامِ الْخَالِيَةِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

23۔ 1 یعنی بالکل قریب ہونگے کوئی لیٹے لیٹے بھی توڑنا چاہے گا تو ممکن ہوگا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قطوفھا دانیۃ :” قطف یقطف “ (ض) پھل توڑنا۔ ” قطوف “” قطف “ (قاف کے کسرہ کے ساتھ) کی جمع ہے، وہ پھل جو توڑے جائیں۔ ”’ انیۃ “ قریب ۔ یعنی وہ خوشے اور پھل جھکے ہوئے ہوں گے کہ آدمی کھڑے ، بیٹھے اور لیٹے ہر حال میں انہیں لے سکے گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُـطُوْفُہَا دَانِيَۃٌ۝ ٢٣ قطف يقال : قَطَفْتُ الثّمرة قَطْفاً ، والْقِطَفُ : الْمَقْطُوفُ منه، وجمعه قُطُوفٌ. قال تعالی: قُطُوفُها دانِيَةٌ [ الحاقة/ 23] وقَطَفَتِ الدّابّةُ قَطْفاً فهي قَطُوفٌ ، واستعمال ذلک فيه استعارة، وتشبيه بِقَاطِفِ شيء كما يوصف بالنّقض علی ما تقدّم ذكره، وأَقْطَفَ الكَرْم :...  دنا قِطَافُهُ ، والْقِطَافَةُ : ما يسقط منه کالنّفاية . ( ق ط ف ) قطفت ( ض ) التمرۃ قطفا کے معنی پھل چننا کے اور درخت سے توڑے ہوئے پھل کو قطف کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع قطوف آتی ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ قُطُوفُها دانِيَةٌ [ الحاقة/ 23] جن کے میوے جھکے ہوئے ہوں گے ۔ جانور کا آہستہ چلنا اور ایسے جانور کو قطوف کہا جاتا ہے اور جانور کے متعلق اس کا استعمال صرف تشبیہ اور استعارہ کے طور پر ہوتا ہے ۔ یعنی دابۃ کو قاطف ( پھل چننے والا ) کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے جیسا کہ نقض کے ساتھ کوئی چیز متصف ہوتی ہے وقد تقدم ذکرہ اقطف الکرم : انگور چننے کا موسم قریب آگیا ۔ اور جو انگور پک کر زمین پر گر پڑیں انہیں قطا فۃ کہا جاتا ہے اور یہ قفا یۃ کی طرح ہے ۔ دنا الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ وعن الأوّل فيقابل بالآخر، نحو : خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج/ 11] ، وقوله : وَآتَيْناهُ فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ النحل/ 122] ، وتارة عن الأقرب، فيقابل بالأقصی نحو : إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى[ الأنفال/ 42] ، وجمع الدّنيا الدّني، نحو الکبری والکبر، والصّغری والصّغر . وقوله تعالی: ذلِكَ أَدْنى أَنْ يَأْتُوا بِالشَّهادَةِ [ المائدة/ 108] ، أي : أقرب لنفوسهم أن تتحرّى العدالة في إقامة الشهادة، وعلی ذلک قوله تعالی: ذلِكَ أَدْنى أَنْ تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ [ الأحزاب/ 51] ، وقوله تعالی: لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ [ البقرة/ 220] ، متناول للأحوال التي في النشأة الأولی، وما يكون في النشأة الآخرة، ويقال : دَانَيْتُ بين الأمرین، وأَدْنَيْتُ أحدهما من الآخر . قال تعالی: يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَ [ الأحزاب/ 59] ، وأَدْنَتِ الفرسُ : دنا نتاجها . وخصّ الدّنيء بالحقیر القدر، ويقابل به السّيّئ، يقال : دنیء بيّن الدّناءة . وما روي «إذا أکلتم فدنّوا» من الدّون، أي : کلوا ممّا يليكم . دنا ( دن و ) الدنو ( ن) کے معنی قریب ہونے کے ہیں اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا هے۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ اور کبھی بمعنی اول ( نشاۃ اولٰی ) استعمال ہوتا ہے اور الآخر ( نشاۃ ثانیہ) کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ کہ اگر اس کے پاس ایک دینا بھی امانت رکھو ۔ خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج/ 11] اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی ۔ اور آیت کریمہ ؛وَآتَيْناهُ فِي الدُّنْيا حَسَنَةً وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ [ النحل/ 122] اور ہم نے ان کو دینا بھی خوبی دی تھی اور آخرت میں بھی نیک لوگوں میں ہوں گے ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی اقرب آنا ہے اوراقصی کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى[ الأنفال/ 42] جس وقت تم ( مدینے کے ) قریب کے ناکے پر تھے اور کافر بعید کے ناکے پر ۔ الدنیا کی جمع الدنیٰ آتی ہے جیسے الکبریٰ کی جمع الکبر والصغریٰ کی جمع الصغر۔ اور آیت کریمہ ؛ذلِكَ أَدْنى أَنْ يَأْتُوا بِالشَّهادَةِ [ المائدة/ 108] اس طریق سے بہت قریب ہے کہ یہ لوگ صحیح صحیح شہادت ادا کریں ۔ میں ادنیٰ بمعنی اقرب ہے یعنی یہ اقرب ہے ۔ کہ شہادت ادا کرنے میں عدل و انصاف کو ملحوظ رکھیں ۔ اور آیت کریمہ : ذلِكَ أَدْنى أَنْ تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ [ الأحزاب/ 51] یہ ( اجازت ) اس لئے ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہیں ۔ بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ [ البقرة/ 220] تا کہ تم سوچو ( یعنی ) دنای اور آخرت کی باتوں ) میں غور کرو ) دنیا اور آخرت کے تمام احوال کی شامل ہے کہا جاتا ہے ادنیت بین الامرین وادنیت احدھما من الاخر ۔ یعنی دوچیزوں کو باہم قریب کرنا ۔ یا ایک چیز کو دوسری کے قریب کرتا ۔ قرآن میں ہے : يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَ [ الأحزاب/ 59] کہ باہر نکلاکریں تو اپنی چادریں اپنے اوپر ڈٖال لیا کریں َ ادنت الفرس ۔ گھوڑی کے وضع حمل کا وقت قریب آپہنچا ۔ الدنی خاص ک حقیر اور ذیل آدمی کو کہا جاتا ہے اور یہ سیئ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے کہا کاتا ہے :۔ ھودنی یعنی نہایت رزیل ہے ۔ اور حومروی ہے تو یہ دون سے ہیے یعنی جب کھانا کھاؤ تو اپنے سامنے سے کھاؤ ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(69:23) قطوفھا دانیۃ : قطوف جمع ہے قطف کی۔ قطوف مضاف ھا ضمیر واحد مؤنث مضاف الیہ ، قطب مصدر۔ (باب ضرب) بمعنی پھل توڑنا درخت سے، قطف (ق کی کسرہ سے) وہ پھل جو درخت سے توڑے جائیں یعنی خود گرے ہوئے نہ ہوں۔ (خواہ توڑ لئے گئے ہوں یا توڑے نہ گئے ہوں مگر توڑے جانے کے قابل ہوں) ۔ آیت میں وہ پھل مراد ہیں ج... و اہل جنت بیٹھے کھڑے توڑ سکیں گے ؟ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب جنۃ کے لئے ہے قطوفھا سے مراد قطوف اثمارھا ہے یعنی ان باغوں کے پھل ہیں۔ دانیۃ : دلو (باب نصر) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مؤنث ہے نزدیک ، جھکی ہوئی، جھکنے والی۔ لٹکی ہوئی، لٹکنے والی۔ ان باغوں کے پھل جھکے ہوں گے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 یعنی اتنے نیچے ہوں گے کہ آدمی انہیں ہاتھ سے توڑے گا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(23) اس بہشت کے میوے جھکے ہوئے ہوں گے۔