Surat ul Haaqqaa

Surah: 69

Verse: 34

سورة الحاقة

وَ لَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الۡمِسۡکِیۡنِ ﴿ؕ۳۴﴾

Nor did he encourage the feeding of the poor.

اور مسکین کے کھلانے پر رغبت نہ دلاتا تھا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Verily, he used not to believe in Allah, the Most Great, and urged not on the feeding of the poor. meaning, he did not establish the right of Allah upon him, of obedience to Him and performing His worship. He also did not benefit Allah's creation nor did he give them their rights. For verily, Allah has a right upon the servants that they worship Him alone and not associate anything wi... th Him. The servants of Allah also have a right upon each other to good treatment and assistance in righteousness and piety. For this reason, Allah commanded performance of the prayer and the payment of Zakah. When the Prophet was (in his last moments) near death he said, الصَّلَةَ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم The prayer (As-Salah) and your right hand possessions (i.e., slaves). Allah says, فَلَيْسَ لَهُ الْيَوْمَ هَاهُنَا حَمِيمٌ   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

34۔ 1 یعنی عبادت و اطاعت کے ذریعے سے اللہ کا حق ادا کرتا تھا اور نہ وہ حقوق ادا کرتا تھا جو بندوں کے بندوں پر ہیں۔ گویا اہل ایمان میں یہ جامعیت ہوتی ہے کہ وہ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی ادائیگی کا اہتمام کرتے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٠] دو بنیادی گناہ ہیں جن سے باقی گناہ پھوٹتے ہیں :۔ اس کے اعمال نامہ یا فرد جرم میں دونوں بڑی قسموں کے جرائم پائے جاتے تھے۔ نہ وہ اللہ پر ایمان لایا اور نہ اس کے اوامرونواہی کی پروا کی۔ واضح رہے کہ اگر کوئی شخص زبانی طور پر اللہ کی ہستی کا قائل تو ہو مگر آخرت پر اور اس کے سامنے باز پرس پر ایمان ن... ہ رکھتا ہو۔ تو اس کا زبانی اللہ کی ہستی کا اقرار کچھ فائدہ نہیں دے سکتا۔ کفار مکہ اللہ کی ہستی کے قائل تھے مگر آخرت کے قائل نہ تھے تو اللہ نے انہیں کافر ہی قرار دیا ہے اور یہ جرم عذاب جہنم کے مستحق ہونے کے لئے کافی ہے۔ دوسری نوعیت کے جرائم وہ ہیں جن کا بظاہر حقوق العباد سے تعلق ہوتا ہے۔ اگرچہ ان میں بھی اللہ کے حقوق موجود ہوتے ہیں۔ ان کی عام قسم یہ ہے کہ انسان ایک دوسرے سے ہمدردی کرے۔ تنگی ترشی میں ایک دوسرے کے کام آئے اور مالی مدد کرے اور یہ شخص اتنا بخیل واقع ہوا تھا کہ کسی کی مدد تو کیا کرتا دوسروں کو محتاجوں کی مدد کی تلقین یا انہیں کھانا کھلانے کی ترغیب بھی نہیں دیتا تھا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فلیس لہ الیوم ھھنا حمیم :” حمیم “ دوست یا رشتہ دار، جسے اس کی خاطر گریم آئے۔” حمۃ “ چشمے سے نکلنے والا گرم پانی۔” حمیم “ گرم پانی کو بھی کہتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَا يَحُضُّ عَلٰي طَعَامِ الْمِسْكِيْنِ۝ ٣٤ ۭ حضَ الحضّ : التحریض کالحثّ ، إلا أنّ الحثّ يكون بسوق وسیر، والحضّ لا يكون بذلک وأصله من الحثّ علی الحضیض، وهو قرار الأرض، قال اللہ تعالی: وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الحاقة/ 34] . ( ح ض ض ) الحض ( ن ) کے معنی حث کی طرح کسی کام پرا بھانے او... ر برا نگیختہ کرنے کے ہیں ۔ مگر حث کا لفظ سواری وغیرہ کو تیز چلانے کے لئے آتا ہے ۔ اور حض کا لفظ سواری ہانکنے کے علاوہ دوسرے کاموں پر برانگیختہ کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اصل میں حض کے معنی جانور کو الحضیض یعنی نشیب زمین کی طرف ہانکنے ہیں ( پھر ابھاز کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے قرآن میں ہے : وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الحاقة/ 34] . طعم الطَّعْمُ : تناول الغذاء، ويسمّى ما يتناول منه طَعْمٌ وطَعَامٌ. قال تعالی: وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة/ 96] ، قال : وقد اختصّ بالبرّ فيما روی أبو سعید «أنّ النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أمر بصدقة الفطر صاعا من طَعَامٍ أو صاعا من شعیر» «2» . قال تعالی: وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة/ 36] ، طَعاماً ذا غُصَّةٍ [ المزمل/ 13] ، طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان/ 44] ، وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الماعون/ 3] ، أي : إِطْعَامِهِ الطَّعَامَ ، فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا [ الأحزاب/ 53] ، وقال تعالی: لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ جُناحٌ فِيما طَعِمُوا [ المائدة/ 93] ، قيل : وقد يستعمل طَعِمْتُ في الشّراب کقوله : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي[ البقرة/ 249] ، وقال بعضهم : إنّما قال : وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ تنبيها أنه محظور أن يتناول إلّا غرفة مع طَعَامٍ ، كما أنه محظور عليه أن يشربه إلّا غرفة، فإنّ الماء قد يُطْعَمُ إذا کان مع شيء يمضغ، ولو قال : ومن لم يشربه لکان يقتضي أن يجوز تناوله إذا کان في طَعَامٍ ، فلما قال : وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ بَيَّنَ أنه لا يجوز تناوله علی كلّ حال إلّا قدر المستثنی، وهو الغرفة بالید، وقول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم في زمزم : «إنّه طَعَامُ طُعْمٍ وشِفَاءُ سُقْمٍ» «3» فتنبيه منه أنه يغذّي بخلاف سائر المیاه، واسْتَطْعَمَهُ فَأْطْعَمَهُ. قال تعالی: اسْتَطْعَما أَهْلَها[ الكهف/ 77] ، وَأَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ [ الحج/ 36] ، وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ [ الإنسان/ 8] ، أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ [يس/ 47] ، الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ [ قریش/ 4] ، وَهُوَ يُطْعِمُ وَلا يُطْعَمُ [ الأنعام/ 14] ، وَما أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ [ الذاریات/ 57] ، وقال عليه الصلاة والسلام : «إذا اسْتَطْعَمَكُمُ الإمامُ فَأَطْعِمُوهُ» «1» أي : إذا استفتحکم عند الارتیاج فلقّنوه، ورجلٌ طَاعِمٌ: حَسَنُ الحالِ ، ومُطْعَمٌ: مرزوقٌ ، ومِطْعَامٌ: كثيرُ الإِطْعَامِ ، ومِطْعَمٌ: كثيرُ الطَّعْمِ ، والطُّعْمَةُ : ما يُطْعَمُ. ( ط ع م ) الطعم ( س) کے معنی غذا کھانے کے ہیں ۔ اور ہر وہ چیز جو بطورغذا کھائی جائے اسے طعم یا طعام کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَطَعامُهُ مَتاعاً لَكُمْ [ المائدة/ 96] اور اس کا طعام جو تمہارے فائدہ کے لئے ۔ اور کبھی طعام کا لفظ خاص کر گیہوں پر بولا جاتا ہے جیسا کہ ابوسیعد خدری سے ۔ روایت ہے ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امر بصدقۃ الفطر صاعا من طعام اوصاعا من شعیر ۔ کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صدقہ فطر میں ایک صحابی طعام یا ایک صاع جو د ینے کے حکم دیا ۔ قرآن میں ہے : وَلا طَعامٌ إِلَّا مِنْ غِسْلِينٍ [ الحاقة/ 36] اور نہ پیپ کے سوا ( اس کے ) لئے کھانا ہے ۔ طَعاماً ذا غُصَّةٍ [ المزمل/ 13] اور گلوگیرکھانا ہے ۔ طَعامُ الْأَثِيمِ [ الدخان/ 44] گنہگار کا کھانا ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛ وَلا يَحُضُّ عَلى طَعامِ الْمِسْكِينِ [ الماعون/ 3] اور فقیر کو کھانا کھلانے کے لئے لوگوں کو ترغیب نہیں دیتا ۔ میں طعام بمعنی اوطعام یعنی کھانا کھلانا کے ہے فَإِذا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوا[ الأحزاب/ 53] اور جب کھانا کھا چکو تو چل دو لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ جُناحٌ فِيما طَعِمُوا[ المائدة/ 93] جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے اور انپر ان چیزوں کا کچھ گناہ نہیں جو وہ کھاچکے ۔ بعض نے کہا ہے کہ کبھی طعمت بمعنی شربت آجاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي[ البقرة/ 249] جو شخص اس میں سے پانی پی لے گا توہ وہ مجھ دے نہیں ہے اور جو شخص اس سے پانی نہ پیے گا ( اس کی نسبت تصور کیا جائے گا کہ ) میرا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں من لم یشربہ بجائے ومن لم یطعمہ کہہ کر اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جس طرح چلو بھر سے زیادہ محض پانی کا استعمال ممنوع ہے اسی طرح طعام کے ساتھ بھی اس مقدار سے زائد پانی پینا ممنوع ہے کیونکہ جو پانی کھانے کے ساتھ پیاجاتا ہے اس پر بھی طعمت کا لفظ بولا جاسکتا ہے ۔ لہذا اگر من لمیشربہ لایا جاتا تو اس سے کھانے کے ساتھ پانی پینے کی ممانعت ثابت نہ ہوتی اس کے برعکس یطعمہ کے لفظ سے یہ ممانعت بھی ثابت ہوجاتی اور معین مقدار سے زائد پانی کا پینا بہر حالت ممنوع ہوجاتا ہے ۔ اور ایک حدیث (20) میں آنحضرت نے زم زم کے پانی کے متعلق انہ طعام طعم و شفاء سقم ( کہ یہ کھانے کا کھانا اور بیماری سے شفا ہے ) فرماکر تنبیہ کی ہے کہ بیر زمزم کے پانی میں غذائیت بھی پائی جاتی ہے جو دوسرے پانی میں نہیں ہے ۔ استطعمتہ فاطعمنی میں نے اس سے کھانا مانگا چناچہ اس نے مجھے کھانا کھلایا ۔ قرآن میں ہے : اسْتَطْعَما أَهْلَها[ الكهف/ 77] اور ان سے کھانا طلب کیا ۔ وَأَطْعِمُوا الْقانِعَ وَالْمُعْتَرَّ [ الحج/ 36] اور قناعت سے بیٹھے رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ [ الإنسان/ 8] اور وہ کھانا کھلاتے ہیں أَنُطْعِمُ مَنْ لَوْ يَشاءُ اللَّهُ أَطْعَمَهُ [يس/ 47] بھلا ہم ان لوگوں کو کھانا کھلائیں جن کو اگر خدا چاہتا تو خود کھلا دیتا ۔ الَّذِي أَطْعَمَهُمْ مِنْ جُوعٍ [ قریش/ 4] جس نے ان کو بھوک میں کھانا کھلایا ۔ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلا يُطْعَمُ [ الأنعام/ 14] دہی سب کو کھانا کھلاتا ہے اور خود کسی سے کھانا نہیں لیتا ۔ وَما أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ [ الذاریات/ 57] اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ مجھے کھانا کھلائیں ۔ اور (علیہ السلام) نے فرمایا (21) اذا استطعمکم الامام فاطعموہ یعنی جب امام ( نماز میں ) تم سے لقمہ طلب کرے یعنی بھول جائے تو اسے بتادو ۔ رجل طاعم خوش حال آدمی رجل مطعم جس کو وافروزق ملا ہو مطعم نیک خورندہ ۔ مطعام بہت کھلانے والا ، مہمان نواز طعمۃ کھانے کی چیز ۔ رزق ۔ مِسْكِينُ قيل : هو الذي لا شيء له، وهو أبلغ من الفقیر، وقوله تعالی: أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف/ 79] ، فإنه جعلهم مساکين بعد ذهاب السّفينة، أو لأنّ سفینتهم غير معتدّ بها في جنب ما کان لهم من المسکنة، وقوله : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة/ 61] ، فالمیم في ذلک زائدة في أصحّ القولین . المسکین المسکین بعض نے اس کی تفسیر ( یعنی جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو ) کے ساتھ کی ہے اور یہ فقر سے ابلغ ہے ( یعنی بنسبت فقر کے زیادہ تا دار ہوتا ہے ) لیکن آیت : أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف/ 79] اور کشتی غریب لوگوں کی تھی ۔ میں باوجود کشتی کا مالک ہونے کے انہیں مسکن قرار دینا مایؤؤل کے لحاظ سے ہے یعنی کشتی کے چلے جانے کے بعد کی حالت کے لحاظ سے انہیں مسکن کہا گیا ہے ۔ یا اس لئے کہ ان کی احتیاط اور مسکنت کے مقابلہ میں کشتی کی کچھ بھی حیثیت نہ تھی ۔ اور آیت : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة/ 61] اور اخر کا ر ذلت روسوائی اور محتاجی ( اور بےنوائی ) ان سے چمٹا دی گئی ۔ میں اصح قول کے لحاظ سے مسکنتہ کی میم زائد ہے ( اور یہ سکون سے ہے ۔ )  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٤{ وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ ۔ } ” اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا۔ “ اسے خود تو کسی مسکین کو کھانا کھلانے کی کبھی توفیق نہیں ہوئی ‘ کسی دوسرے شخص کو بھی اس نے بھلائی کے اس کام کی کبھی ترغیب نہیں دی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

20 That is, not to speak of feeding a poor man himself, he did not even like to say others that they should feed the hungry."

سورة الْحَآقَّة حاشیہ نمبر :20 یعنی خود کسی غریب کو کھانا کھلانا تو درکنار ، کسی سے یہ کہنا بھی پسند نہ کرتا تھا کہ خدا کے بھوکے بندوں کو روٹی دے دو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(69:34) ولا یحض علی طعام المسکین اس کا عطف آیت سابقہ پر ہے۔ لا یحض مضارع منفی واحد مذکر غائب ۔ حض (باب نصر) مصدر سے جس کا معنی ہے کسی کو کسی کام کے لئے آمادہ کرنا ہے۔ ترغیب دینا یا ابھارنا ہے۔ علی حروف جر میں سے ہے۔ کثیر المعانی ہے۔ یہاں اس کے معنی ” کیلئے “ ہیں۔ طعام المسکین مضاف مضاف الیہ (مجرور ...  ترجمہ ہوگا :۔ اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی (کسی دوسرے کو) ترغیب دیتا تھا۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 5 یعنی اتنا کنجوس تھا کہ نہ اپنے آپ کو اور نہ اپنے علاوہ دسروں کو غرباء اور محتاجوں کو کھانا کھلانے پر ترغیب دیتا تھا گویا نہ اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرتا تھا اور نہ اس کے بندوں کے۔ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یہاں اطعام اور حض سے مراد مرتبہ واجبہ ہے اور اس کے ترک سے مراد وہ ترک ہے جس کا سبب عدم ایمان ہو، حاصل یہ کہ خدا کی عظمت اور مخلوق کی شفقت جو اصل عبادات متعلقہ حقوق اللہ و حقوق العباد ہیں یہ دونوں کا تارک اور منکر تھا اس لئے مستحق عذاب ہوا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(34) اور یہ غریب و مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب و تاکید نہ کرتا تھا۔