Surat ul Haaqqaa

Surah: 69

Verse: 4

سورة الحاقة

کَذَّبَتۡ ثَمُوۡدُ وَ عَادٌۢ بِالۡقَارِعَۃِ ﴿۴﴾

Thamud and 'Aad denied the Striking Calamity.

اس کھڑکا دینے والی کو ثمود اور عاد نے جھٹلا دیا تھا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَأَمَّا ثَمُودُ فَأُهْلِكُوا بِالطَّاغِيَةِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

4۔ 1 اس میں قیامت کو کھڑکا دینے والی کہا ہے، اس لئے کہ یہ اپنی ہولناکیوں سے لوگوں کو بیدار کر دے گی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢] قَارِعۃٌ: قَرَعَ بمعنی ایک چیز کو دوسری پر اس طرح مارنا کہ اس سے آواز پیدا ہو۔ اور قرع الباب بمعنی اس نے دروازہ کھٹکھٹایا اور قارِعَۃٌ کے معنی کھڑکھڑانے والی، اور ابن الفارس کے نزدیک قارِعَۃٌ ہر وہ چیز ہے جو انسان پر شدت کے ساتھ نازل ہو۔ نیز قارِعَۃٌ قیامت کا صفاتی نام ہے۔ یعنی اس دن کائنات کی چیزیں ایک دوسرے سے ٹکرا ٹکرا کر کئی طرح کی آوازیں پیدا کریں گی۔ [٣] یعنی قیامت یا آخرت کا معاملہ اتنا ہی نہیں کہ کوئی مانتا ہے تو مان لے نہیں مانتا تو نہ مانے۔ قیامت آئے گی تو پتہ چل جائے گا کہ آتی ہے یا نہیں آتی۔ بلکہ اس کا فوری اثر اس دنیا میں ہی ظاہر ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے اعمال کی جوابدہی کا تصور ہی ایسا موثر ذریعہ ہے کہ جو انسان کو، افراد کو اوراقوام کو اخلاقی پستیوں میں گرنے سے بچا سکتا ہے۔ جن قوموں نے بھی آخرت کا انکار کیا & ان کے اخلاق بگڑ گئے وہ ظلم و جور میں مبتلا ہوگئیں۔ بالآخر اللہ کا عذاب آیا جس نے انہیں نیست و نابود کردیا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

کذبت ثمودہ و عاد بالقارعۃ :” القارعۃ “” قرع “ (ف) کھٹکھٹانا، کسی سخت چیز پر دوسری چیز سے ضرب لگانا۔ یہ قیامت کے ناموں میں سے ایک نام ہے، کیونکہ وہ بھی اسی طرح یک لخت آکھٹکھٹائے گی جیسے کوئی آنے والا زور سے دروازہ آکھٹکھٹاتا ہے اور آدمی ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھتا ہے۔ کفار کو یاد دلایا جا رہا ہے کہ قیامت کا انکار کرنے والے پہلے لوگ تم ہی نہیں، بلکہ تم سے پہلے عاد وثمود نے، جو قوت و شوکت میں تم سے کہیں بڑھ کر تھے، اس کھٹکھٹانے والی (قیامت) کو جھٹلایا، پھر ان کا انجام کیا ہوا ؟ ثمود جو عرب کے شمال مغرب اور عاد جو عرب کے جنوب مشرق کی متمدن ترین قومیں تھیں، توحید کے انکار کے بعد ان کا سب سے بڑا جرم قیامت اور آخرت کا انکار تھا، جس نے انہیں سرکش بنادیا تھا اور جس کی پاداش میں آخر کار انہیں تباہ و برباد کردیا گیا۔ موجودہ زمانے کی مادہ پرست بزعم خویش مہذب قوموں کی سرکشی کا اصل باعث بھی قیامت اور جزا و سزا کا انکار ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ وَعَادٌۢ بِالْقَارِعَۃِ۝ ٤ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے ثمد ثَمُود قيل : هو أعجمي، وقیل : هو عربيّ ، وترک صرفه لکونه اسم قبیلة، أو أرض، ومن صرفه جعله اسم حيّ أو أب، لأنه يذكر فعول من الثَّمَد، وهو الماء القلیل الذي لا مادّة له، ومنه قيل : فلان مَثْمُود، ثَمَدَتْهُ النساء أي : قطعن مادّة مائه لکثرة غشیانه لهنّ ، ومَثْمُود : إذا کثر عليه السّؤال حتی فقد مادة ماله . ( ث م د ) ثمود ( حضرت صالح کی قوم کا نام ) بعض اسے معرب بتاتے ہیں اور قوم کا علم ہونے کی ہوجہ سے غیر منصرف ہے اور بعض کے نزدیک عربی ہے اور ثمد سے مشتق سے ( بروزن فعول ) اور ثمد ( بارش) کے تھوڑے سے پانی کو کہتے ہیں جو جاری نہ ہو ۔ اسی سے رجل مثمود کا محاورہ ہے یعنی وہ آدمی جس میں عورتوں سے کثرت جماع کے سبب مادہ منویہ باقی نہ رہے ۔ نیز مثمود اس شخص کو بھی کہا جاتا ہے جسے سوال کرنے والوں نے مفلس کردیا ہو ۔ قرع القَرْعُ : ضرب شيء علی شيء، ومنه : قَرَعْتُهُ بِالْمِقْرَعَةِ. قال تعالی: كَذَّبَتْ ثَمُودُ وَعادٌ بِالْقارِعَةِ [ الحاقة/ 4] ، الْقارِعَةُ مَا الْقارِعَةُ [ القارعة/ 1-2 ] ( ق ر ع ) القرع ( ف ) کے اصل معنی ایک چیز کو دوسری چیز ہر مارنے کے ہیں اسی سے قرعیتہ بالمقر عۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی کورے سے سر زنش کرنے کے ہیں اور قیامت کے حادثہ کو قارعۃ کہا گیا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَذَّبَتْ ثَمُودُ وَعادٌ بِالْقارِعَةِ [ الحاقة/ 4]( وہی ) کھڑ کھڑا نے والی ( جس کو ثمود اور عاد ( دونوں نے جھٹلا یا ۔ الْقارِعَةُ مَا الْقارِعَةُ [ القارعة/ 1- 2] کھڑ کھڑانے والی کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

ثمود اور عاد نے قیام قیامت کو جھٹلایا قیامت کو قارعہ اس لیے کہا گیا کہ یہ ان کے دلوں کو ہلا دے گی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤ { کَذَّبَتْ ثَمُوْدُ وَعَادٌم بِالْقَارِعَۃِ ۔ } ” جھٹلایا تھا ثمود نے بھی اور عاد نے بھی اس کھڑکھڑا دینے والی کو۔ “ القارعۃ سے مراد بھی قیامت ہے۔ قَـرَعَ کا معنی ہے ایک سخت چیز کو دوسری چیز سے ٹکرانا ‘ کو ٹنا ‘ ریزہ ریزہ کردینا ‘ کھڑکھڑا دینا ‘ یا بہت زور سے کھٹکھٹانا۔ الحاقّۃ اور القارعۃ ان دونوں الفاظ کے مابین ایک نسبت یہ بھی ہے کہ یہ دوسورتوں کے نام ہیں اور ان دونوں سورتوں کے آغاز کا انداز بھی ایک جیسا ہے ۔ چناچہ سورة القارعۃ کا آغاز بھی بالکل اسی طرح ہو رہا ہے : { اَلْقَارِعَۃُ - مَا الْقَارِعَۃُ - وَمَـآ اَدْرٰٹکَ مَا الْقَارِعَۃُ ۔ }

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

3 As the disbelievers of Makkah denied Resurrection and took the news of its coming lightly, they have been warned at the outset, as if to say: "Resurrection is inevitable: whether you believe in it; or not, it will in any case take place. Then, they are told: "It is not a simple and ordinary thing that a person accepts the news of the coming of an event, or not, but it has a deep relationship with the morals of the nations and with their future. The history of the nations, which lived before you, testifies that the nation which refused to believe in the Hereafter and thought this worldly life only to be the real life and denied that man would have ultimately to render an account of his deeds before God, corrupted itself morally until the punishment of God overtook it and eliminated it from the world. " 4 The word al-qari ah is derived from qar', which means to hammer, to beat, to knock and to strike one thing upon the other. This other word for Resurrection has been used to give an idea of its terror and dread.

سورة الْحَآقَّة حاشیہ نمبر :3 کفار مکہ چونکہ قیامت کو جھٹلا رہے تھے اور اس کے آنے کی خبر کو مذاق سمجھتے تھے اس لیے پہلے ان کو خبردار کیا گیا کہ وہ تو ہونی شدنی ہے ، تم چاہے مانو یا نہ مانو ، وہ بہرحال آکر رہے گی ۔ اس کے بعد اب ان کو بتایا جا رہا ہے کہ یہ معاملہ صرف اتنا سادہ سا معاملہ نہیں ہے کہ کوئی شخص ایک پیش آنے والے واقعہ کی خبر کو تسلیم کرتا ہے یا نہیں ، بلکہ اس کا نہایت گہرا تعلق قوموں کے اخلاق اور پھر ان کے مستقبل سے ہے ۔ تم سے پہلے گزری ہوئی قوموں کی تاریخ شاہد ہے کہ جس قوم نے بھی آخرت کا انکار کر کے اسی دنیا کی زندگی کو اصل زندگی سمجھا اور اس بات کو جھٹلا دیا کہ انسان کو آخر کار خدا کی عدالت میں اپنا حساب دینا ہو گا ، وہ سخت اخلاقی بگاڑ میں مبتلا ہوئی ، یہاں تک کہ خدا کے عذاب نے آ کر دنیا کو اس کے وجود سے پاک کر دیا ۔ سورة الْحَآقَّة حاشیہ نمبر :4 اصل لفظ القارعہ ہے ۔ قرع عربی زبان میں ٹھوکنے ، کوٹنے کھڑکھڑا دینے ، اور ایک چیز کو دوسری چیز پر مار دینے کے لیے بولا جاتا ہے ۔ قیامت کے لیے یہ دوسرا لفظ اس کی ہولناکی کا تصور دلانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(69:4) ثمود : ثمود یعنی حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم۔ عاد حضرت ہود (علیہ السلام) کی قوم ۔ بالقارعۃ : اقوام صالح اور ہود نے، قیامت کی تکذیب کی۔ القارعۃ : کھٹکھٹا دینے والی ساعت۔ یعنی قیامت جو ہر چیز کی پھوڑ توڑ، شکست دریخت اور انتشار وپراگندگی کی وجہ سے لوگوں کے کانوں پر چوٹ لگائے گی۔ اس جگہ بھی ضمیر کی بجائے اسم ظاہر کو استعمال کیا گیا ہے۔ مگر ایسا مرادف لفظ لایا گیا ہے جو کہ شدت ہول میں زیادتی کو ظاہر کر رہا ہے۔ یہ جملہ سابقہ جملوں کے ساتھ مل کر بتارہا ہے کہ قیامت کو نہ ماننا اور اس کی تکذیب کرنا ہلاکت و تباہی کا موجب ہے۔ القارعۃ قرع (باب فتح) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ ہے واحد مؤنث کھٹکھٹانے والی۔ قارع الباب۔ دروازہ کھٹکھٹانے والا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 قیامت کے بہت سے نام ہیں۔ ان میں سے ایک قارعہ (کھڑاکھڑانیوالی) ہے اس لئے کہ وہ اپنی شدت سے دلوں کو ہلادیگی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قیامت کو جھٹلانے والی اقوام میں سر فہرست قوم ثمود اور قوم عاد تھیں دونوں قوموں کا دنیا میں بدترین انجام ہوا۔ قرآن مجید نے قیامت کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کے مختلف مراحل کے حوالے سے اس کا ذکر کیا ہے۔ قیامت کے مراحل میں ایک مرحلہ اتنا شدید ہوگا کہ ہر چیز آپس میں ٹکرا جائے گی یہاں تک کہ پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے۔ یہی بات صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اور حضرت ھود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو بار بار بتلائی اور سمجھائی۔ مگر دونوں اقوام نے اپنے اپنے انبیاء (علیہ السلام) کی تکذیب کی اور قیامت کے برپا ہونے کو جھٹلایا جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے قوم ثمود اور قوم عاد کو نیست و نابود کردیا۔ قوم عاد کی خصوصیات اور جرائم : ١۔ اللہ تعالیٰ نے عاد کو قوم نوح کے بعد زمین پر اقتدار اور اختیار بخشا۔ (الاعراف : ٦٩) ٢۔ قوم عاد اس قدر کڑیل اور قوی ہیکل جوان تھے کہ ان جیسا دنیا میں کوئی اور پیدا نہیں کیا گیا۔ (الفجر ٦ تا ٨ ) حضرت ھود (علیہ السلام) پر قوم کے الزامات : ١۔ قوم نے حضرت ھود (علیہ السلام) کو بیوقوف قرار دیا۔ (الاعراف : ٦٦) ٢۔ ھود (علیہ السلام) ہماری طرح ہی طرح کھانے، پینے والا انسان ہے۔ (المؤمنون : ٣٣) ٣۔ انھوں نے کہا اے ھود تو اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے۔ (المؤمنون : ٣٨) ٤۔ تیرے کہنے پر ہم اپنے معبودوں کو نہیں چھوڑ سکتے یہ محض پہلے لوگوں کی کہانیاں ہیں۔ (الشعراء : ١٣٧) ٥۔ تم ہمیں سمجھاؤ یا نہ سمجھاؤ ہم نہیں مانیں گے۔ (شعراء : ١٣٦) ٦۔ ہمارے معبودوں کی تجھے مار پڑے گئی ہے۔ (ھود : ٥٤) ٧۔ ہم پر کوئی عذاب آنے والا نہیں تو جھوٹ بولتا ہے۔ (الشعراء : ١٣٨ تا ١٣٩) ٨۔ اگر تو اپنے دعوے میں سچا ہے تو ہم پر عذاب لے آ۔ (الاحقاف : ٢٢) حضرت ھود (علیہ السلام) کی بددعا اور اللہ تعالیٰ کا عذاب : ١۔ میرے رب میری مدد فرما مجھے انھوں نے کلی طور پر جھٹلا دیا ہے۔ (المؤمنوں : ٣٩) ٢۔ سات راتیں اور آٹھ دن زبردست آندھی اور ہوا کے بگولے چلے۔ (الحاقہ : ٧) قوم صالح کے جرائم : ١۔ قوم صالح اللہ کے ساتھ شرک کیا کرتی تھی۔ (ھود : ٦٢۔ ٦١) ٢۔ ثمود انبیاء کو جھوٹا قرار دیتے تھے۔ (الشعراء : ١٤١) ٣۔ وہ لوگ بہت زیادہ اسراف، تکبر اور زمین میں فساد کرنے والے تھے۔ (الشعراء : ١٥٢، ١٥١) ٤۔ قوم ثمود ہدایت کی بجائے گمراہی کو پسند کرتی تھی۔ (حٰم السجدۃ : ١٧) ٥۔ انہوں نے اللہ کی نشانی کو جھٹلایا۔ (ھود : ٦٦) قوم کی ہٹ دھرمی اور عذاب کا مطالبہ : ١۔ انھوں نے قسمیں اٹھائیں کہ حضرت صالح کو اہل و عیال سمیت ختم کردیں گے۔ (النمل : ٤٩) ٢۔ اے صالح ! ہم تمہارے عقیدے کا انکار کرتے رہیں گے۔ (الاعراف : ٧٦) ٣۔ قوم نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں۔ (القمر : ٢٩) ٤۔ اے صالح ! تو جس چیز سے ہمیں ڈراتا ہے وہ لے آ۔ (الاعراف : ٧٧) عذاب کا وقت اور اس کی تباہ کاری : ١۔ قوم ثمود کو تین دن کی مہلت دی گئی۔ (ھود : ٤٥) ٢۔ قوم ثمود کو صبح کے وقت ہولناک دھماکے نے آلیا اور ان کی کمائی ان کے کچھ کام نہ آئی۔ (الحجر ٨٣۔ ٨٤) ٣۔ ہم نے ان پر ہولناک چیخ نازل کی وہ ایسے ہوگئے جیسے بوسیدہ اور سوکھی ہوئی باڑ ہوتی ہے۔ (القمر : ٣١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

3:۔ ” کذبت ثمود “ یہ تخویف دنیوی کا پہلا اور دوسرا نمونہ ہے، قوم ثمود اور قوم عاد نے دیگر ضروریات ایمان اور توحید و رسالت وغیرہ کے علاوہ قیامت کا بھی انکار کیا۔ ” القارعۃ “ قیامت، کیونکہ وہ اپنے اہوال و شدائد کی وجہ سے لوگوں کو ہلا دے گی۔ والقارعۃ القیامۃ لانھا تقرع الناس باھوالھا (قرطبی ج 18 ص 257) ۔ اس کے بعد دونوں قوموں کی ہلاکت کی تفصیل بیان فرمائی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(4) ثمود اور عاد نے اس کھڑکھڑا دینے والی چیز یعنی قیامت کی تکذیب کی اور قیامت کو جھوٹا جانا۔ حاقہ یہاں یہاں قیامت کو فرمایا ہے۔ حاقہ کے معنی ثابت ہونے والی واجب ہونے والی یعنی جس کا وقوع ضروری اور حق ہے یا حاقہ بمعنی عارفہ ہے کہ جب وہ گھڑی واقع ہوگی تو لوگ تمام امور کی حقیقت اور اصلیت کو پہچان لیں گے یا ثابتہ یعنی یہ دن جب ہوگا تو اس دن حساب اور جزاوسزا کا ثبوت اکمل طور پر ہوجائیگا اور وہاں وعدہ وعید کا پورا تحقق ہوگا یا حق فرمایا قیامت کو کہ اس دن ہر شخص اس لائق ہوگا کہ اپنے اعمال کی سزا یا جزا پائے۔ اسی کی اہمیت کے لئے فرمایا کیا ہے وہ حاقہ اور آپ کو کس نے بتایا اور آپ کو کچھ خبر ہے کہ وہ حاقہ کیسی کچھ ہے اور اس کی ہولناکی کا کیا حال ہے۔ قارعۃ، بھی قیامت کو کہتے ہیں کیونکہ قرع کے معنی کھٹکھٹانے کے ہیں، کھٹکھٹانے سے آدمی ہوشیار ہوجاتا ہے سوتا ہوا آدمی جاگ جاتا ہے، قیامت کے دن کھٹکھٹاہٹ ایسی ہولناکی ہوگی کہ ہر غافل کی آنکھیں کھل جائیں گی اور اس کی گھبراہٹ سے ہر شخص کی غفلت اور بےپروائی دور ہوجائے گی مقصود ان سوالات سے قیامت کی تہویل اور اس کی فضاعت کی شان ظاہر کرنی ہے آگے چند واقعات بیان فرمائے کہ قیامت کی ہولناکی کو سمجھنا ہر شخص کا کام ہے اس لئے چند واقعات بطور تمثیل اور بطور نظیر بیان کئے جاتے ہیں کہ اس کی ہیبت اور اس کی ہولناکی کچھ سمجھ میں آسکے۔ چنانچہ عاد وثمود کی تکذیب کا اظہار فرمایا اور ایک پیغمبر کی تکذیب اس کے تمام اصول اور اس کے دعادی کی تکذیب کو مستلزم ہے اس لئے ان کی تکذیب کو قارعہ یعنی قیامت کی تکذیب فرمایا آگے ان کی تباہی اور ہلاکت کا ذکر ہے۔