Surat ul Haaqqaa

Surah: 69

Verse: 41

سورة الحاقة

وَّ مَا ہُوَ بِقَوۡلِ شَاعِرٍ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تُؤۡمِنُوۡنَ ﴿ۙ۴۱﴾

And it is not the word of a poet; little do you believe.

یہ کسی شاعر کا قول نہیں ( افسوس ) تمہیں بہت کم یقین ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلاَ بِقَوْلِ كَاهِنٍ قَلِيلً مَا تَذَكَّرُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

41۔ 1 جیسا کہ تم سمجھتے ہو اور کہتے ہو اس لیے کہ یہ اصناف شعر سے نہ اس کے مشابہ ہے پھر یہی کسی شاعر کا کلام کس طرح ہوسکتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّمَا ہُوَبِقَوْلِ شَاعِرٍ۝ ٠ ۭ قَلِيْلًا مَّا تُؤْمِنُوْنَ۝ ٤١ ۙ شعر ( شاعر) الشَّعْرُ معروف، وجمعه أَشْعَارٌ قال اللہ تعالی: وَمِنْ أَصْوافِها وَأَوْبارِها وَأَشْعارِها [ النحل/ 80] ، وشَعَرْتُ : أصبت الشَّعْرَ ، ومنه استعیر : شَعَرْتُ كذا، أي علمت علما في الدّقّة كإصابة الشَّعر، وسمّي الشَّاعِرُ شاعرا لفطنته ودقّة معرفته، فَالشِّعْرُ في الأصل اسم للعلم الدّقيق في قولهم : ليت شعري، وصار في التّعارف اسما للموزون المقفّى من الکلام، والشَّاعِرُ للمختصّ بصناعته، وقوله تعالیٰ حكاية عن الکفّار : بَلِ افْتَراهُ بَلْ هُوَ شاعِرٌ [ الأنبیاء/ 5] ، وقوله : لِشاعِرٍ مَجْنُونٍ [ الصافات/ 36] ، شاعِرٌ نَتَرَبَّصُ بِهِ [ الطور/ 30] ، وكثير من المفسّرين حملوه علی أنهم رموه بکونه آتیا بشعر منظوم مقفّى، حتی تأوّلوا ما جاء في القرآن من کلّ لفظ يشبه الموزون من نحو : وَجِفانٍ كَالْجَوابِ وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ/ 13] ، وقوله : تَبَّتْ يَدا أَبِي لَهَبٍ [ المسد/ 1] . وقال بعض المحصّلين : لم يقصدوا هذا المقصد فيما رموه به، وذلک أنه ظاهر من الکلام أنّه ليس علی أسالیب الشّعر، ولا يخفی ذلک علی الأغتام من العجم فضلا عن بلغاء العرب، وإنما رموه بالکذب، فإنّ الشعر يعبّر به عن الکذب، والشَّاعِرُ : الکاذب حتی سمّى قوم الأدلة الکاذبة الشّعريّة، ولهذا قال تعالیٰ في وصف عامّة الشّعراء : وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء/ 224] ، إلى آخر السّورة، ولکون الشِّعْرِ مقرّ الکذب قيل : أحسن الشّعر أكذبه . وقال بعض الحکماء : لم ير متديّن صادق اللهجة مفلقا في شعره . ( ش ع ر ) الشعر بال اس کی جمع اشعار آتی ہے قرآن میں ہے ۔ وَمِنْ أَصْوافِها وَأَوْبارِها وَأَشْعارِها [ النحل/ 80] اون اور ریشم اور بالوں سے شعرت کے معنی بالوں پر مارنے کے ہیں ۔ اور اسی سے شعرت کذا مستعار ہے جس کے معنی بال کی طرح باریک علم حاصل کرلینے کے ہیں اور شاعر کو بھی اس کی فطانت اور لطافت نظر کی وجہ سے ہی شاعر کہا جاتا ہے تو لیت شعری کذا کے محاورہ میں شعر اصل میں علم لطیف کا نام ہے پھر عرف میں موزوں اور مقفیٰ کلام کو شعر کہا جانے لگا ہے اور شعر کہنے والے کو شاعر کہا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ بَلِ افْتَراهُ بَلْ هُوَ شاعِرٌ [ الأنبیاء/ 5] بلکہ اس نے اس کو اپنی طرف سے بنا لیا ہے ۔ نہیں بلکہ ( یہ شعر ہے جو اس ) شاعر کا نتیجہ طبع ہے ۔ نیز آیت کریمہ : ۔ لِشاعِرٍ مَجْنُونٍ [ الصافات/ 36] ایک دیوانے شاعر کے کہنے سے ۔ اور آیت شاعِرٌ نَتَرَبَّصُ بِهِ [ الطور/ 30] شاعر ہے اور ہم اس کے حق میں ۔۔۔ انتظار کر رہے ہیں ۔ بہت سے مفسرین نے یہ سمجھا ہے کہ انہوں نے آنحضرت پر شعر بمعنی منظوم اور مقفیٰ کلام بنانے کی تہمت لگائی تھی ۔ حتی کہ وہ قران میں ہر اس آیت کی تاویل کرنے لگے جس میں وزن پایا جاتا ہے جیسے وَجِفانٍ كَالْجَوابِ وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ/ 13] لیکن بعض حقیقت شناس لوگوں نے کہا ہے کہ اس سے ان کا مقصد منظوم اور مقفیٰ کلام بنانے تہمت لگانا نہیں تھا ۔ کیونکہ یہ ظاہر ہے کہ قرآن اسلوب شعری سے مبرا ہے اور اس حقیقت کو عوام عجمی بھی سمجھ سکتے ہیں پھر فصحاء عرب کا کیا ذکر ہے ۔ بلکہ وہ آپ پر ( نعوذ باللہ ) جھوٹ کی تہمت لگاتے تھے کیونکہ عربی زبان میں شعر بمعنی کذب اور شاعر بمعنی کاذب استعمال ہوتا ہے ۔ حتی کہ جھوٹے دلائل کو ادلۃ شعریۃ کہا جاتا ہے اسی لئے قرآن نے شعراء کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے :۔ وَالشُّعَراءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغاوُونَ [ الشعراء/ 224] اور شاعروں کی پیروی گمراہ لوگ کیا کرتے ہیں ۔ اور شعر چونکہ جھوٹ کا پلندہ ہوتا ہے ۔ اس لیے مقولہ مشہور ہے کہ احسن الشعر اکذبہ سب سے بہتر شعروہ ہے جو سب سے زیادہ جھوٹ پر مشتمل ہوا اور کسی حکیم نے کہا ہے کہ میں نے کوئی متدین اور راست گو انسان ایسا نہیں دیکھا جو شعر گوئی میں ماہر ہو ۔ المشاعر حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات/ 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے قل القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] ( ق ل ل ) القلۃ والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب/ 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔ أیمان يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ( ا م ن ) الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤١۔ ٤٤) اور یہ قرآن کریم کسی شاعر کا کلام نہیں ہے تم نہ اس کے کم حصہ پر ایمان لاتے ہو اور نہ زیادہ پر اور نہ یہ کسی کاہن کا کلام ہے تم نہ اس کے کم حصہ سے نصیحت حاصل کرتے ہو اور نہ زائد سے یہ قرآن کریم رسول اکرم پر رب العالمین کی طرف سے بھیجا ہوا کلام ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

23 One meaning of "little it is that you believe", according to Arabic idiom, can be: "You do not believe it at all." Another meaning also can be: "Hearing the Qur'an your heart sometimes itself cries out: 'This cannot be mortal word'. Yet you behave stubbornly and refuse to believe in it.

سورة الْحَآقَّة حاشیہ نمبر :23 کم ہی ایمان لاتے ہو کا ایک مطلب عربی محاورے کے مطابق یہ ہو سکتا ہے کہ تم ایمان نہیں لاتے ۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ قرآن کو سن کر کسی وقت تمہارا دل خود پکار اٹھتا ہے کہ یہ انسانی کلام نہیں ہو سکتا ، مگر پھر تم اپنی ضد پر اڑ جاتے ہو اور اس پر ایمان لانے سے انکار کر دیتے ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(69:41) وما ھو بقول شاعر : یہ جملہ، جملہ سابقہ انہ لقول رسول کریم کی تاکید کے لئے آیا ہے۔ اور یہ کسی شاعر کا کلام نہیں ہے قلیلا ما تؤمنون ۔ قیلا میں نصب مصدریت (مفعول مطلق) کی بناء پر ہے یا ظرفیت (مفعول فیہ) کی بناء پر اور ما رائدہ تاکید قلت کے لئے ہے یعنی بہت ہی کم نہ ہونے کے برابر۔ تفسیر ماجدی میں ہے :۔ قلیلا۔ یہ قلت دونوں جگہ عدم کے معنی میں ہے وقلیل یعبربہ عن النفی (اور قلیل نفی سے تعبیر کی گئی ہے) (راغب) القلۃ فی معنی العدم قلت عدم کے معنی میں آیا ہے (الکشاف) والعرب یقولون قلما یاتینا یریدون لایاتینا۔ عرب قلما یاتینا (وہ بہت ہی کم ہمارے پاس آتا ہے) کہہ کر مراد یہ لیتے ہیں کہ وہ ہمارے پاس نہیں آتا۔ (تفسیر کبیر) ۔ تفسیر مظہری میں ہے :۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ قلیل ایمان سے مراد نفی ایمان ہے یعنی بالکل ایمان نہیں رکھتے ہو۔ جیسے اس شخص سے تم کہو جو تمہاری ملاقات کو نہیں آتا کہ آپ تو بالکل کم ہی ہم سے ملاقات کرتے ہیں یعنی نہیں کرتے۔ مندرجہ بالا تفاسیر کی روشنی میں ترجمہ ہوگا :۔ (لیکن) تم ایمان ہی نہیں رکھتے۔ تؤمنون۔ مضارع کا صیغہ جمع مذکر حاضر ایمان (افعال) مصدر۔ تم ایمان رکھتے ہو۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

8۔ یہاں قلت سے مراد عدم ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(41) اور یہ قرآن کسی شاعر کا کلام نہیں مگر تم بہت ہی کم یقین کرتے ہو۔ یعنی ایک بزرگ فرشتہ اس قرآن کی قراءت کرتا ہے وہ فرشتہ بھی بزرگ ہے اور جن کے پاس یہ کلام لے کر آتا ہے وہ بھی کریم اور بزرگ ۔ خلاصہ، یہ کہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو جبرئیل امین (علیہ السلام) کی معرفت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھیجاجاتا ہے یہ کلام کسی شاعر کا نہیں ہے۔ ہم سورة یٰسین میں عرض کرچکے ہیں کہ شعر اور زان اور سجور وغیرہ کی قیود کا پابند ہوتا ہے اور شاعر اس کی رعایت رکھتا ہے اور وہ محض وہمی خیالات ہوتے ہیں یہ بلند خیالات اور اونچے مضامین اس کلام کو شاعری سے کیا نسبت یہ ابوجہل جو اس کلام کو شاعر کا کلام بتاتا ہے اور پیغمبر (علیہ السلام) کے کلام کو شاعری سے منسوب کرتا ہے اس کی بات بالکل غلط اور واقعہ کے بالکل خلاف ہے تم بہت کم یقین کرتے ہو یعنی بالکل یقین نہیں کرتے اور جو کچھ یقین کرتے ہو وہ بھی نہ کرنے کے برابر ہے۔