Surat ul Haaqqaa

Surah: 69

Verse: 47

سورة الحاقة

فَمَا مِنۡکُمۡ مِّنۡ اَحَدٍ عَنۡہُ حٰجِزِیۡنَ ﴿۴۷﴾

And there is no one of you who could prevent [Us] from him.

پھر تم سے کوئی بھی مجھے اس سے روکنے والا نہ ہوتا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And none of you could have prevented it from him. means, `none of you would be able to come between Us and him if We wanted to do any of this to him.' The meaning behind all of this is to say that he (Muhammad) is truthful, righteous and guided because Allah determined what he is to convey from Him, and Allah helps him with fantastic miracles and definite proofs. Then Allah says, وَإِنَّهُ لَتَذْكِرَةٌ لِّلْمُتَّقِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

47۔ 1 اس سے معلوم ہوا کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچے رسول تھے، جن کو اللہ نے سزا نہیں دی، بلکہ دلائل و معجزات اور اپنی خاص تائید و نصرت سے انہیں نوازا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٥] قادیانیوں کا مرزا قادیانی کی نبوت پر استدلال اور اس کا جواب :۔ ذرا سوچو اگر کسی بادشاہ کا کوئی سفیر یا نائب بادشاہ کا پیغام پہنچانے کی بجائے اپنی طرف سے ہی پیغام دینا شروع کردے اور یہ کہے کہ یہ بادشاہ کی طرف سے پیغام ہے تو بادشاہ اپنے ایسے غدار سفیر یا نائب سے کیا سلوک کرے گا۔ اسے جلاد کے حوالے کرنے کی بجائے یہ چاہے گا کہ خود اپنے ہاتھ سے اس کی گردن اڑا دے۔ پھر کیا اگر اللہ کا یہ رسول اپنی طرف سے باتیں بناکر انہیں اللہ کی طرف منسوب کردے تو کیا اللہ اسے معاف کر دے گا ؟ وہ تو اللہ کی نظروں میں سب سے بڑا مجرم ہوگا۔ جس نے اللہ کے کلام میں اپنا کلام شامل کرکے اس سارے کلام کو ہی مشکوک اور بےاعتبار بنادیا۔ واضح رہے ان آیات سے نبوت کے جھوٹے مدعیوں نے دلیل پکڑی ہے کہ ہم سچے نبی ہیں اگر ہم جھوٹے ہوتے تو ہمیں فوراً ہلاک کردیا جاتا۔ یہ استدلال انتہائی غلط ہے۔ اس لیے کہ یہ وعید تو اس نبی کے لیے ہے جس کا نبی ہونا پہلے دلائل وبراہین سے ثابت ہوچکا ہے۔ یہ وعید اس کے لیے نہیں جس کا نبی ہونا ہی ثابت نہ ہو۔ مثلاً حکومت کا ایک اعلیٰ افسر حکومت کے احکام کی بجائے اپنے احکام چلانے لگے تو حکومت اسے سخت سزا دے گی۔ لیکن اگر کوئی موچی یا سڑک کوٹنے والا یا بھنگی لوگوں سے یہ کہنا شروع کردے کہ میرے واسطہ سے تم کو گورنمنٹ کے یہ احکام دیئے جاتے ہیں۔ ایسے شخص کی باتوں پر کوئی بھی اعتبار نہیں کرے گا۔ نہ ہی حکومت ایسے لوگوں کی بکواس کو درخور اعتنا سمجھتی ہے کہ ایسے لوگوں کو تلاش کرکے انہیں سزا دیا کرے۔ لوگوں نے تو نبوت کے بجائے خدائی کے بھی دعوے کئے۔ کئی لوگوں نے ان کی خدائی کو تسلیم بھی کیا۔ پھر بھی اللہ نے ایسے خداؤں کو فوراً کوئی سزا نہیں دی۔ اس لئے کہ یہ سراسر باطل ہے اور لوگوں کی آزمائش کا ذریعہ بھی۔ کئی بہروپئے اپنے آپ کو اعلیٰ افسر ظاہر کرتے ہیں اور بعض لوگ ان سے دھوکا بھی کھا جاتے ہیں۔ مگر حکومت ایسے جعلی بہروپیوں کو کوئی سزا نہیں دیتی۔ علاوہ ازیں ان آیات میں آپ کی نبوت پر استدلال ہے ہی نہیں بلکہ استدلال اس بات پر ہے کہ یہ قرآن کریم خالص اللہ کا کلام ہے۔ جس میں نبی کے کلام کی آمیزش بھی قطعاً ناقابل برداشت ہے۔ خواہ وہ کلام اللہ کی تفسیر ہی کیوں نہ ہو۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَمَا مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ عَنْہُ حٰجِـزِيْنَ۝ ٤٧ حجز الحَجْزُ : المنع بين الشيئين بفاصل بينهما، يقال : حَجَزَ بينهما . قال عزّ وجل : وَجَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ حاجِزاً [ النمل/ 61] ، والحِجَاز سمّي بذلک لکونه حاجزا بين الشام والبادية، قال تعالی: فَما مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حاجِزِينَ [ الحاقة/ 47] ، فقوله : حاجِزِينَ صفة لأحد في موضع الجمع، والحِجَاز حبل يشدّ من حقو البعیر إلى رسغه، وتصوّر منه معنی الجمع، فقیل : احتجز فلان عن کذا واحتجز بإزاره، ومنه : حُجْزَة السراویل، وقیل : إن أردتم المحاجزة فقبل المناجزة «1» ، أي : الممانعة قبل المحاربة، وقیل : حَجَازيك، أي : احجز بينهم . ( ح ج ز ) الحجز ( ن ض ) کے معنی دو چیزوں کے درمیان روک اور حد فاصل بنانے کے ہیں کہا جاتا ہے حجز بینھما دان کے درمیان حد ۔ فاصل قائم کردی جیسے فرمایا : وَجَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ حاجِزاً [ النمل/ 61] اور ( کس نے ) دو دریاؤں کے بیچ اوٹ بنادی ۔ اور ھجاز کو بھی اسی لئے کہا جاتا ہے کہ شام اور بادیہ کے درمیان حائل ہے ۔ اور آیت کریمہ : فَما مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حاجِزِينَ [ الحاقة/ 47] پھر تم میں سے کوئی ( ہمیں ) اس سے روکنے والا نہیں ہے ۔ میں حاجزین احد کی صفت ہے کیونکہ احد کا لفظ معنی جمع ہے ۔ نیز حجانہ اس رسی کو کہتے ہیں جو اونٹ کی کلائی میں ڈال کر اسے اس کی کمر کے ساتھ باند دیتے ہیں ( تاکہ ہل نہ سکے ) پھر حجز میں معنی منع کے پیش نظر احتجز فلان عن کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز کے رک جانیکے ہیں اھتجز بازارہٰ تہبند باندھنا ۔ اسی سے حجزۃ السرا ویل ہے جس کے معنی انار بند کے نیضہ کے ہیں مشہور محاورہ ہے ۔ ان ارد تم المحاجزۃ فقبل المناجزۃ یعنی ایک دوسرے کو روکنے اور صلح کا موقعہ لڑائی سے قبل ہوتا ہے ۔ حجازیک یعنی ان کے درمیان حائل ہوجائے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

25 The object is to impress the point that the Prophet has no authority whatever to make any change in the Revelation. If he did so, he would be severely punished. The style depicts the prompt and quick action of a king who strikes off the head of an official, holding him by the hand, if he commits a forgery in his name. Some people have misconstrued this verse to mean that if the heart-vein or neck-vein of an impostor is not immediately severed by Allah, it would be a proof that he was a true prophet, whereas in this verse what has been said is about a true prophet and not about the impostors. Same impostors have even claimed to be God and have thrived and lived long lives in the world, so it could not be a proof of the truth of their claim. For a full discussion of this question, see E.N 23 of Surah Yunus.

سورة الْحَآقَّة حاشیہ نمبر :25 اصل مقصود یہ بتانا ہے کہ نبی کو اپنی طرف سے وحی میں کوئی کمی بیشی کرنے کا اختیار نہیں ہے ، اور اگر وہ ایسا کرے تو ہم اس کو سخت سزا دیں ۔ مگر اس بات کو ایسے انداز سے بیان کیا گیا ہے جس سے آنکھوں کے سامنے یہ تصویر کھنچ جاتی ہے کہ ایک بادشاہ کا مقرر کردہ افسر اس کے نام سے کوئی جعلسازی کرے تو بادشاہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کا سر قلم کر دے ۔ بعض لوگوں نے اس آیت سے یہ غلط استدلال کیا ہے کہ جو شخص بھی نبوت کا دعویٰ کرے ، اس کی رگ دل یا رگ گردن اگر اللہ تعالی کی طرف سے فوراً نہ کاٹ ڈالی جائے تو یہ اس کے نبی ہونے کا ثبوت ہے ۔ حالانکہ اس آیت میں جو بات فرمائی گئی ہے وہ سچے نبی کے بارے میں ہے ، نبوت کے جھوٹے مدعیوں کے بارے میں نہیں ہے ۔ جھوٹے مدعی تو نبوت ہی نہیں خدائی تک کے دعوے کرتے ہیں اور زمین پر مدتوں دندناتے پھرتے ہیں ۔ یہ ان کی صداقت کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔ اس مسئلے پر مفصل بحث ہم تفہیم القرآن ، جلد دوم ، تفسیر سورہ یونس حاشیہ 23 میں کر چکے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

10: فرمایا جارہا ہے کہ اگر کوئی شخص نبوّت کا جھوٹا دعوی کرکے اﷲ تعالیٰ کی طرف کوئی غلط بات منسوب کرے تو اﷲ تعالیٰ اُسی دُنیا میں اُسے رسوا بھی فرماتے ہیں، اور اُس کو عذاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے اگر (خدانخواستہ) حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کا نبوّت کا دعویٰ دُرست نہ ہوتا اور آپ (معاذاللہ) جھوٹی باتیں بناکر اﷲ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے تو اﷲ تعالیٰ اِسی دُنیا میں آپ کے ساتھ وہ معاملہ فرماتے جس کا ذِکر ان آیتوں میں کیا گیا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(69:47) فما منکم من احد عنہ حاجزین : ما نافیہ ہے منکم خطاب عام ہے ای ایھا الناس اے لوگو ! من احد میں من زائدہ ہے احد مبتداء حاجزین اس کی خبر۔ (احد لفظا واحد لیکن معنی جمع آیا ہے اس لئے حاجزین کو جمع لایا گیا ہے۔ عنہ ای عن ھذا الفعل وھو القتل۔ اس سے مراد یہ فعل یعنی وتین کا کاٹ دینا اور صاحب رگ کو مار ڈالنا) ۔ ترجمہ ہوگا :۔ پھر تم میں سے کوئی ان کو اس سزا سے بچانے والا بھی نہ ہوتا۔ (ترجمہ مولانا اشرف علی (رح) تعالی) ۔ حاجزین : حجز (باب نصر، ضرب) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ جمع مذکر بمعنی روکنے والے ۔ الحجز کے معنی دو چیزوں کے درمیان روک اور حد فاصل بنانے کے ہیں۔ اور جگہ قرآن مجید میں آیا ہے :۔ وجعل بین البحرین حاجزا (27:61) اور (کس نے) دو دریاؤں کے درمیان اوٹ بنادی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 12 یعنی اسے ہمارے عذاب سے نہ بچا سکتا۔ یہ بات آنحضرت کی نبوت کی صداقت پر بطور دلیل کے نہیں فرمائی بلکہ یہاں اس سے مقصد یہ ہے کہ آنحضرت جو اللہ کے سچے پیغمبر ہیں اس قرآن میں اپن طرف سے ایک حرف ایک شوشہ کا بھی اضافہ نہیں کرسکتے۔ اگر آپ ایسا کرتے تو ایک لمحہ کے لئے بھی آپ کو مہلت نہ دی جاتی۔ اس آیت کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ جھوٹا نبی فوراً ہلاک کردیا جاتا ہے … اس زمانہ میں ایک جھوٹے مدعی نبوت نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ اگر میں جھوٹا ہوتا تو میری نبوت کا زمانہ 3 ہ سال سے زائد نہ ہوتا جو آنحضرت کی نبوت کا زمانہ ہے بلکہ میں اس سے پہلے ہی ہلاک کردیا جاتا۔ ایک استدلال غلط اور دوسرے نبوت کا زمانہ 23 سال سے زائد کا افتراء جھوٹا نبی ہی باندھ سکتا ہے کیونکہ جو لوگ ان کی تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ اس نے نومبر 191 میں نبوت کا دعویٰ کیا اور 26 مئی 1908 ء کو بمقام لاہور بمرض ہیضہ انتقال کر گیا۔ (تفسیر ثنائی میں یہ بحث مفصل مذکور ہے)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

9۔ رگ دل کاٹنے سے آدمی مرجاتا ہے، مراد اس سے قتل ہے، اور یہ کنایہ ہے اماتت سے نفسا یا حجة یعنی جھوٹا مدعی نبوت موید بالحجة نہیں ہوتا، بلکہ یا ہلاک ہوتا ہے یا ظہور کذب سے رسوا و ذلیل ہوتا ہے، پس مطلق اماتت کو اخذ یمین و قطع وتین سے تشبیہا تعبیر فرمادیا گیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(47) پھرتم میں سے کوئی بھی اس کو اس قتل کی سزا سے روکنے والا نہ ہوتا۔ یعنی یہ پیغمبر جس کا پیغمبر ہونا معجزات اور پیشگوئیوں سے ثابت ہے اگر یہ ہم پر افترا کرے اور بعض باتیں گھڑ کر ہماری طرف منسوب کردے تو ہم اس کو دنیا ہی میں سزا دیں کہ اس کا سیدھا ہاتھ پکڑ کر اس کی گردن ماردیں۔ جیسا کہ عام طور سے جس کو قتل کی سزا دیتے ہیں تو اسی طرح دیتے ہیں کہ ملزم کا داہنا ہاتھ مارنے والا اپنے بائیں ہاتھ سے پکڑتا ہے۔ اور شیدھے ہاتھ سے گردن پر تلوار مارتا ہے اور گردن کٹ جانے سے آدمی ہلاک ہوجاتا ہے یہ سزا ہم اس کو دیں اور تم میں سے کوئی اس سزا سے اس کو بچانے والا اور دفع کرنے والا بھی نہ ہو یعنی ہمارے مقابلہ میں ہماری سزا سے کوئی اس کو بچا بھی نہ سکے۔ وتین دل کی رگ یا ووہ رگ جو پیٹھ سے چل کر دل میں آملے اگر اس رگ کو کاٹ دیا جائے تو انسان کی موت واقع ہوجائے کیونکہ یہ رگ مناط قلب ہے بعض لوگوں نے کاذب مدعیان نبوت کے لئے اس آیت کو معیار قرار دیا ہے ہوسکتا ہے کہ اس آیت کو عام معیار قرار دیا جاسکے۔ بہرحال نبوت کے جھوٹے مدعی یا ہلاک کردیئے گئے یا ان کا کذب ظاہر ہونے سے وہ رسوا اور ذلیل کئے گئے اور اخلاقی موت مرے، یمین داہنا ہاتھ تقول جی سے بات بنانا افترا پردازی کرنا اقادیل قول کی جمع۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اگر جھوٹ بنالاتا اللہ پر تو اول اس کا دشمن اللہ ہوتا ہاتھ پکڑتا یہ دستور ہے مارنے کا کہ جلاد اس کا داہناہاتھ پکڑ رکھتا ہے اور اپنے بانویں ہاتھ میں تاسرک نہ جاوے۔