Surat ul Haaqqaa
Surah: 69
Verse: 52
سورة الحاقة
فَسَبِّحۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الۡعَظِیۡمِ ﴿۵۲﴾٪ 6
So exalt the name of your Lord, the Most Great.
پس تو اپنے رب عظیم کی پاکی بیان کر ۔
فَسَبِّحۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الۡعَظِیۡمِ ﴿۵۲﴾٪ 6
So exalt the name of your Lord, the Most Great.
پس تو اپنے رب عظیم کی پاکی بیان کر ۔
So glorify the Name of your Lord, the Most Great. meaning, He Who sent down this magnificent Qur'an. This is the end of the Tafsir of Surah Al-Haqqah. And to Allah belong all praise and blessings.
فسبح باسم ربک العظیم : یعنی یہ مانیں یا نہ مانیں آپ اپنے عظمت والے رب کے نام کی، جس کا یہ کلام ہے، تسبیح بیان کرتے رہیں۔ اس کی برکت سے آپ کے لئے ہر مشکل آسان ہوجائے گی۔ اس آیت کے بعد بھی اور رکوع میں بھی ” سبحان ربی العظیم “ پڑھنا چاہیے۔ حذیفہ (رض) عنہماایک دفعہ رات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نماز میں کھڑے ہوگئے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک ہی رکعت میں سورة بقرہ ، نساء اور آل عمران پڑھیں۔ حذیفہ (رض) فرماتے ہیں کہ آپ ٹھہر ٹھہر کر قرآن پڑھتے رہتے، جب آپ کسی ایسی آیت پر سے گزرتے جس میں تسبیح کا ذکر ہوتا تو آپ تسبیح پڑھتے، جب کسی سوال والی آیت پر سے گزرتے تو سوال کرتے، جب پناہ مانگنے کی آیت پر سے گزرتے تو پناہ مانگتے۔ پھر آپ نے رکوع کیا اور آپ ” سبحان ربی العظیم “ پڑھتے رہے، آپ کا رکوع قیام کی مثل تھا۔ پھر آپ نے ” سمع اللہ لمن حمدہ “ کہا، پھر آپ رکوع کے قریب دیر تک کھڑے رہے پھر آپ نے سجدہ کیا اور سجدہ میں ” سبحان ربی الاعلی “ پڑھتے رہے۔ (مسلم صلاۃ المسافر بن، باب استحباب تطویل القراء ۃ فی صلوۃ اللیل : ٨٨٢)
فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ &So, pronounce the purity of the name of your magnificent Lord. [ 69:52] &. It was shown in the preceding verses that Allah&s Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) never speak from his own whims and fancies. He only conveys pure revelation revealed to him by Allah. The Divine Word is a reminder and an admonition for the God-conscious people. Allah knows that despite knowing the absolutely incontestable truth many people will continue to reject it. Consequently, it will be a source of eternal remorse, disappointment and punishment in the Hereafter for the disbelievers. In the end, Allah says: وَإِنَّهُ لَحَقُّ الْيَقِينِ &And it is surely an absolute truth. [ 69:51] &. In other words, the Qur&an is undeniably the Truth of Certainty. There is no room for any doubt or suspicion in it. Finally, Allah addresses the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ; to say: فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ &So, pronounce the purity of the name of your magnificent Lord.& [ 69:52]. This signifies that the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) should not pay any heed to the criticisms of the obdurate disbelievers nor should he feel distressed. He should rather pronounce the purity of Allah&s name. This will relieve his distress and grief. On another occasion, the Qur&an says: وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُولُونَ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ &And We know that your heart feels distressed for what they say. [ 15:97-98]. So, proclaim the purity, and glory of your Lord and be among those who prostrate. [ 98] & The Prophet is advised not to pay any attention to the disbelievers talking nonsense. The best remedy for his distress and grief is to glorify Allah, praise Him and prostrate before Him. Abu Dawud records a narration from Sayyidna &Uqbah bin Amir Juhani (رض) that when the verse, فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ &So, pronounce the purity of the name of your magnificent Lord. [ 521& was revealed, the Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) instructed this tasbih to be reserved for the posture of ruku` and when the verse سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى &Pronounce the purity of the name of your most Exalted Lord. [ 87:1] & was revealed, he instructed this tasbih to be reserved for the posture of sajdah. Therefore, by common consent of the Ummah these tasbihat are recited in ruku` and sajdah respectively. According to overwhelming majority, it is Sunnah to recite them and repeat them thrice. Some scholars say it is obligatory.
فَسَبِّحْ باسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ ، اس سے پہلی آیتوں میں یہ بتلایا گیا تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی طرف سے کچھ نہیں فرماتے جو کچھ ہے وہ اللہ کا کلام ہے اور وہ تقویٰ اختیار کرنے الوں کے لئے تذکرہ اور نصیحت ہے مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ان سبق طعی اور یقینی امور کو جانتے ہوئے تم میں بہت سے آدمی اس کی تکذیب بھی کرتے رہیں گے جس کا نتیجہ آخرت میں ان کی حسرت ویاس اور عذاب دائمی ہوگا اور آخر میں فرمایا وانہ لحق الیقین یعنی یہ بات بالکل حق اور یقینی ہے اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ سب کے آخر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کر کے فرمایا فسبح باسم ربک العظیم جس میں اشارہ ہے کہ آپ ان معاذ کفار کی باتوں پر دھیان نہ دیں اور ان سے مغموم نہ ہوں بلکہ اپنے رب عظیم کی تسبیح و تقدیس کو اپنا مشغلہ بنالیں کہ یہی ان سب غموں سے نجات کا ذریعہ ہے اور یہ ایسا ہے جیسا دوسری جگہ قرآن کریم میں فرمایا ہے (آیت) ولقد نعلم انک یضیق صدرک بما یقولون فسبح بحمد ربک وکن من السجدین۔ یعنی ہم جانتے ہیں کہ آپ ان کفار کی بیہودہ گفتگو سے دل تنگ ہوتے ہیں اس کا علاج یہ ہے کہ آپ اپنے رب کی حمد میں مشغول ہوجائیں اور سجدہ گزاروں میں شامل ہوجائیں ان کی باتوں کی طرف التفاق نہ کریں۔ ابو داؤد میں حضرت عقبہ ابن عامر جہنی کی روایت ہے کہ جب یہ آیت فَسَبِّحْ باسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس کو اپنے رکوع میں رکھو اور جب آیت سبح اسم ربک الاعلی نازل ہوئی تو فرمایا کہ اس کو اپنے سجدہ میں رکھو۔ اسی لئے باجماع امت رکوع اور سجدے میں یہ دونوں تسبیحات پڑھی جاتی ہیں۔ جمہور کے نزدیک ان کا پڑھنا اور تین مرتبہ تکرار کرنا سنت ہے۔ بعض حضرات نے واجب بھی کہا ہے۔ تمت سورة الحاقہ بحمد اللہ تعالیٰ
فَسَبِّــحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ ٥٢ ۧ سبح السَّبْحُ : المرّ السّريع في الماء، وفي الهواء، يقال : سَبَحَ سَبْحاً وسِبَاحَةً ، واستعیر لمرّ النجوم في الفلک نحو : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء/ 33] ، ولجري الفرس نحو : وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات/ 3] ، ولسرعة الذّهاب في العمل نحو : إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] ، والتَّسْبِيحُ : تنزيه اللہ تعالی. وأصله : المرّ السّريع في عبادة اللہ تعالی، وجعل ذلک في فعل الخیر کما جعل الإبعاد في الشّرّ ، فقیل : أبعده الله، وجعل التَّسْبِيحُ عامّا في العبادات قولا کان، أو فعلا، أو نيّة، قال : فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات/ 143] ، ( س ب ح ) السبح اس کے اصل منعی پانی یا ہوا میں تیز رفتار ری سے گزر جانے کے ہیں سبح ( ف ) سبحا وسباحۃ وہ تیز رفتاری سے چلا پھر استعارہ یہ لفظ فلک میں نجوم کی گردش اور تیز رفتاری کے لئے استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [ الأنبیاء/ 33] سب ( اپنے اپنے ) فلک یعنی دوائر میں تیز ی کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اور گھوڑے کی تیز رفتار پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالسَّابِحاتِ سَبْحاً [ النازعات/ 3] اور فرشتوں کی قسم جو آسمان و زمین کے درمیان ) تیر تے پھرتے ہیں ۔ اور کسی کام کو سرعت کے ساتھ کر گزرنے پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ لَكَ فِي النَّهارِ سَبْحاً طَوِيلًا[ المزمل/ 7] اور دن کے وقت کو تم بہت مشغول کا رہے ہو ۔ التسبیح کے معنی تنزیہ الہیٰ بیان کرنے کے ہیں اصل میں اس کے معنی عبادت الہی میں تیزی کرنا کے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا استعمال ہر فعل خیر پر ہونے لگا ہے جیسا کہ ابعاد کا لفظ شر پر بولا جاتا ہے کہا جاتا ہے ابعد اللہ خدا سے ہلاک کرے پس تسبیح کا لفظ قولی ۔ فعلی اور قلبی ہر قسم کی عبادت پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلَوْلا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ [ الصافات/ 143] قو اگر یونس (علیہ السلام) اس وقت ( خدا کی تسبیح ( و تقدیس کرنے والوں میں نہ ہوتے ۔ یہاں بعض نے مستحین کے معنی مصلین کئے ہیں لیکن انسب یہ ہے کہ اسے تینوں قسم کی عبادت پر محمول کیا جائے اسْمُ والِاسْمُ : ما يعرف به ذات الشیء، وأصله سِمْوٌ ، بدلالة قولهم : أسماء وسُمَيٌّ ، وأصله من السُّمُوِّ وهو الذي به رفع ذکر الْمُسَمَّى فيعرف به، قال اللہ : بِسْمِ اللَّهِ [ الفاتحة/ 1] ، وقال : ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود/ 41] ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل/ 30] ، وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة/ 31] ، أي : لألفاظ والمعاني مفرداتها ومرکّباتها . وبیان ذلک أنّ الاسم يستعمل علی ضربین : أحدهما : بحسب الوضع الاصطلاحيّ ، وذلک هو في المخبر عنه نحو : رجل وفرس . والثاني : بحسب الوضع الأوّليّ. ويقال ذلک للأنواع الثلاثة المخبر عنه، والخبر عنه، والرّابط بينهما المسمّى بالحرف، وهذا هو المراد بالآية، لأنّ آدم عليه السلام کما علم الاسم علم الفعل، والحرف، ولا يعرف الإنسان الاسم فيكون عارفا لمسمّاه إذا عرض عليه المسمّى، إلا إذا عرف ذاته . ألا تری أنّا لو علمنا أَسَامِيَ أشياء بالهنديّة، أو بالرّوميّة، ولم نعرف صورة ما له تلک الأسماء لم نعرف الْمُسَمَّيَاتِ إذا شاهدناها بمعرفتنا الأسماء المجرّدة، بل کنّا عارفین بأصوات مجرّدة، فثبت أنّ معرفة الأسماء لا تحصل إلا بمعرفة المسمّى، و حصول صورته في الضّمير، فإذا المراد بقوله : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة/ 31] ، الأنواع الثلاثة من الکلام وصور المسمّيات في ذواتها، وقوله : ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف/ 40] ، فمعناه أنّ الأسماء التي تذکرونها ليس لها مسمّيات، وإنما هي أسماء علی غير مسمّى إذ کان حقیقة ما يعتقدون في الأصنام بحسب تلک الأسماء غير موجود فيها، وقوله : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد/ 33] ، فلیس المراد أن يذکروا أساميها نحو اللّات والعزّى، وإنما المعنی إظهار تحقیق ما تدعونه إلها، وأنه هل يوجد معاني تلک الأسماء فيها، ولهذا قال بعده : أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد/ 33] ، وقوله : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن/ 78] ، أي : البرکة والنّعمة الفائضة في صفاته إذا اعتبرت، وذلک نحو : الكريم والعلیم والباري، والرّحمن الرّحيم، وقال : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی/ 1] ، وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف/ 180] ، وقوله : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا [ مریم/ 7] ، لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى [ النجم/ 27] ، أي : يقولون للملائكة بنات الله، وقوله : هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] أي : نظیرا له يستحقّ اسمه، وموصوفا يستحقّ صفته علی التّحقیق، ولیس المعنی هل تجد من يتسمّى باسمه إذ کان کثير من أسمائه قد يطلق علی غيره، لکن ليس معناه إذا استعمل فيه كما کان معناه إذا استعمل في غيره . الاسم کسی چیز کی علامت جس سے اسے پہچانا جائے ۔ یہ اصل میں سمو ہے کیونکہ اس کی جمع اسماء اور تصغیر سمی آتی ہے ۔ اور اسم کو اسم اس لئے کہتے ہیں کہ اس سے مسمیٰ کا ذکر بلند ہوتا ہے اور اس کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها [هود/ 41] اور ( نوح (علیہ السلام) نے ) کہا کہ خدا کا نام لے کر ( کہ اس کے ہاتھ میں ) اس کا چلنا ( ہے ) سوار ہوجاؤ۔ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ [ النمل/ 30] وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور مضمون یہ ہے ) کہ شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے ۔ اور آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ [ البقرة/ 31] اور اس آدم کو سب ( چیزوں کے ) نام سکھائے ۔ میں اسماء سے یہاں الفاظ و معانی دونوں مراد ہیں ۔ خواہ مفردہوں خواہ مرکب اس اجمال کی تفصیل یہ ہے ۔ کہ لفظ اسم دو طرح استعمال ہوتا ہے ۔ ایک اصطلاحی معنی میں اور اس صورت میں ہمیشہ مخبر عنہ بنتا ہے ۔ جیسے رجل وفرس دوم وضع اول کے لحاظ سے اس اعتبار سے ( کلمہ کی ) انواع ثلاثہ یعنی مخبر عنہ ( اسم ) خبر اور رابطہ ( حرف ) تینوں پر اس معنی مراد ہیں ۔ کیونکہ آدم (علیہ السلام) نے جس طرح اسماء کی تعلیم حاصل کی تھی ۔ اسی طرح افعال وحروف کا علم بھی نہیں حاصل ہوگیا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ جب تک کسی چیز کی ذات کا علم حاصل نہ ہو محض نام کے جاننے سے انسان اسے دیکھ کر پہچان نہیں سکتا ہے مثلا اگر ہم ہندی یا رومی زبان میں چند چیزوں کے نام حفظ کرلیں تو ان چیزوں کے اسماء کے جاننے سے ہم ان کے مسمیات کو نہیں پہچان سکیں گے ۔ بلکہ ہمار علم انہیں چند اصوات تک محدود رہے گا اس سے ثابت ہوا کہ اسماء کی معرفت مسمیات کی معرفت کو مستلزم نہیں ہے اور نہ ہی محض اسم سے مسمی ٰ کی صورت ذہن میں حاصل ہوسکتی ہے ۔ لہذا آیت : وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْماءَ كُلَّها [ البقرة/ 31] میں اسماء سے کلام کی انواع ثلاثہ اور صورۃ مسمیات بمع ان کی ذوات کے مراد ہیں اور آیت ما تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِهِ إِلَّا أَسْماءً سَمَّيْتُمُوها [يوسف/ 40] جن چیزوں کی تم خدا کے سوا پرستش کرتے ہو وہ صرف نام ہی نام ہیں جو تم نے رکھ لئے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں ک جن اسماء کی تم پرستش کرتے ہو ان کے مسمیات نہیں ہیں ۔ کیونکہ و اصنام ان اوصاف سے عاری تھے ۔ جن کا کہ وہ ان اسماء کے اعتبار سے ان کے متعلق اعتقاد رکھتے تھے ۔ اور آیت : وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ [ الرعد/ 33] اور ان لوگوں نے خدا کے شریک مقرر کر رکھے ہیں ۔ ان سے کہو کہ ( ذرا ) انکے نام تولو ۔ میں سموھم سے یہ مراد نہیں ہے کہ لات ، عزی وغیرہ ان کے نام بیان کرو بلکہ آیت کے معنی پر ہیں کہ جن کو تم الاۃ ( معبود ) کہتے ہو ان کے متعلق تحقیق کرکے یہ تو بتاؤ کہ آیا ان میں ان اسماء کے معانی بھی پائے جاتے ہیں ۔ جن کے ساتھ تم انہیں موسوم کرتے ہو ( یعنی نہیں ) اسی لئے اس کے بعد فرمایا أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِما لا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَمْ بِظاهِرٍ مِنَ الْقَوْلِ [ الرعد/ 33] ( کہ ) کیا تم اسے ایسی چیزیں بتاتے ہو جس کو وہ زمین میں ( کہیں بھی ) معلوم نہیں کرتا یا ( محض ) ظاہری ( باطل اور جھوٹی ) بات کی ( تقلید کرتے ہو ۔ ) اور آیت : تَبارَكَ اسْمُ رَبِّكَ [ الرحمن/ 78] تمہارے پروردگار ۔۔ کا نام برا بابر کت ہے ۔ میں اسم رب کے بابرکت ہونے کے معنی یہ ہیں ک اس کی صفات ۔ الکریم ۔ العلیم ۔ الباری ۔ الرحمن الرحیم کے ذکر میں برکت اور نعمت پائی جاتی ہے جیسا ک دوسری جگہ فرمایا : سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى [ الأعلی/ 1] ( اے پیغمبر ) اپنے پروردگار جلیل الشان کے نام کی تسبیح کرو ۔ وَلِلَّهِ الْأَسْماءُ الْحُسْنى [ الأعراف/ 180] اور خدا کے نام سب اچھے ہی اچھے ہیں ۔ اور آیت : اسْمُهُ يَحْيى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا[ مریم/ 7] اسمہ یحیٰ لم نجعل لہ من قبل سمیا َ (719) جس کا نام یحیٰ ہے ۔ اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی شخص پیدا نہیں کیا ۔ میں سمیا کے معنی ہم نام ، ، کے ہیں اور آیت :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم/ 65] بھلا تم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ میں سمیا کے معنی نظیر کے ہیں یعنی کیا اس کی کوئی نظیر ہے جو اس نام کی مستحق ہوا اور حقیقتا اللہ کی صفات کے ساتھ متصف ہو اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ کیا تم کسی بھی پاتے ہو جو اس کے نام سے موسوم ہوکیون کہ ایسے تو اللہ تعالیٰ کے بہت سے اسماء ہیں جن کا غیر اللہ پر بھی اطلاق ہوسکتا ہے یا ہوتا ہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا ہے کہ ان سے معافی بھی وہی مراد ہوں جو اللہ تعالیٰ پر اطلاق کے وقت ہوتے ہیں ۔ اور آیت : لَيُسَمُّونَ الْمَلائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنْثى[ النجم/ 27] اور وہ فرشتوں کو ( خدا کی ) لڑکیوں کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔ میں لڑکیوں کے نام سے موسوم کرنے کے معنی یہ ہیں ۔ کہ وہ فرشتوں کو بنات اللہ کہتے ہیں ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ عظیم وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] ، ( ع ظ م ) العظم عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا معنو ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔
آیت ٥٢{ فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ ۔ } ” پس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تسبیح کیجیے اپنے رب کے نام کی جو کہ بہت عظمت والا ہے۔ “ نوٹ کیجیے ‘ سورة الواقعہ کا اختتام بھی اسی آیت پر ہوتا ہے۔
(69:52) فسبح باسم ربک العظیم : ف ترتیب کا ہے پس۔ فسبح امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر، پس تو تسبیح بیان کر اپنے رب کی جو بڑے شان والا ہے۔ فائدہ : حق الیقین۔ حقیقت اگرچہ بذات خود ایک یقینی امر ہے لیکن انسانی قویٰ و ادراک کے لحاظ سے اس کے مختلف مدارج ہیں۔ جہاں تک انسان کسی امر کو اپنی عقل و فہم اور متعلقہ شہادت کی بناء پر یقینی قرار دیتا ہے اسے علم الیقین کہتے ہیں ۔ کہ اس کو حقیقت کی موجودگی کا علم کی بنای پر یقین ہوگیا ہے پھر جب اس حقیقت کو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتا ہے تو اسے عین الیقین کہیں گے۔ لیکن ہمارا علم جو شہادت اور فہم و ادراک پر مبنی ہو وہ کسی حد تک غلطی سے مبرا و بالاتر نہیں ہے۔ اور نہ ہی ہماری چشم دیدنی۔ کہ اکثر آنکھ بھی دھوکہ کھا سکتی ہے اس لئے عین الیقین بھی نقائص سے مبرا نہیں ہے ان ہر دو سے بالا حق الیقین ہے۔ اس کی دنیاوی مثال یوں ہوسکتی ہے کہ ایک شخص نے دریا کی ہیئت و کیفیت کو کتابوں میں پڑھا اور لوگوں سے سنا تو اس کو دریا کے متعلق علم الیقین ہوگیا۔ پھر جب وہ دریا پر پہنچا اس کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اس کی روانی کو ساحل دریا پر اس کے پانی کے عمل و دخل کو اس کی وسعت کو دیکھا اس کا علم الیقین عین الیقین میں بدل گیا لیکن اس کے باوجود اس کے ذہن سے بعض باتوں کے متعلق ابہام و تردد نہ گیا وہ دریا میں اتر گیا تو اس کے جملہ شکوک رفع ہوگئے اس نے حق الیقین کو پالیا۔
اب آخر میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آخری ہدایات دی جاتی ہیں۔ گزشتہ مباحث کے بعد اس قسم کی تلقین کا بہترین اور مناسب وقت ہے۔ لہٰذا یہ نہایت ہی بروقت ہدایت ہے۔ فسبح .................... العظیم ” ۔ ایسی تسبیح جس میں اللہ کی پاکی بھی ہو اور اللہ کی بڑائی بھی۔ جس میں اعتراف حق بھی ہو اور تحقیق حق بھی ہو۔ جس میں عبودیت بھی ہوا اور خضوع وخشوع بھی ہو۔ اس طویل بحث و مباحثہ کے بعد جس میں اللہ کی عظیم قدرتوں کا بیان ہوا ، اور رب کریم کی عظمت کا بیان کیا گیا ہے۔ دلوں کے اندر یہ شعور پیدا کیا جاتا ہے کہ اللہ رب عظیم ہے۔
سورت کے ختم پر فرمایا ﴿ فَسَبِّحْ باسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيْمِ (رح) ٠٠٥٢﴾ (اپنے رب عظیم کے نام کی پاکی بیان کیجئے) اللہ سب سے بڑا ہے اس کا نام بھی سب ناموں سے بڑا ہے اس کی پاکی بیان کریں اور اس کی تسبیح میں لگے رہیں اس کی کمال ذات اور کمال صفات کو بیان کرتے رہیں۔ تنبیہ : خاتم النّبیین سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد (جن پر نبوت ختم کرنے کا سورة ٴ احزاب رکوع نمبر ٦ میں اعلان فرما دیا ہے) بہت سے آدمیوں نے نبوت کے دعوے کیے یہ ظاہر ہے کہ دعوے جھوٹے تھے ایسے لوگ آتے گئے مقتول بھی ہوئے اور کیفر کردار تک پہنچے، ان میں سے ایک شخص مسلیمہ پنجاب بھی تھا جو قادیان ضلع گورداسپور کا رہنے والا تھا اس نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا اور جھوٹی پیشین گوئیوں کا سہارا لیا اور اس کی ہر پیشین گوئی جھوٹی ثابت ہوئی اور خاص کر جس جس پیشین گوئی پر سچا ہونے کا مدار رکھا تھا خاص کر وہ تو دنیا کے سامنے کھل کر واضح طور پر جھوٹی ثابت ہوگئی۔ اس جھوٹے مدعی نبوت نے اپنے نبی ہونے پر سورة الحاقہ کی مذکورہ بالا آیت سے استدلال کرتے ہوئے یوں کہا کہ اگر میں جھوٹا ہوتا تو اب تک مجھے سزا مل گئی ہوتی، میں مرچکا ہوتا اور میری رگ جان کٹ چکی ہوتی۔ آیت کریمہ میں صرف محمد رسول اللہ خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور رسالت کا ذکر ہے اور یہ فرمایا ہے کہ اگر ان کا دعویٰ صحیح نہ ہوتا تو ہم ان کو سزا دے دیتے اس میں یہ کہیں بھی نہیں ہے کہ آپ کے بعد جو بھی کوئی شخص نبوت کا دعویٰ کرے گا ہم اسے موت دے دیا کریں گے اور اس کی رگ جان کاٹ دیا کریں گے۔ آیت کا یہ مفہوم اس جھوٹے شخص نے اور اس کے مشورہ دینے والوں نے خود سے نکالا ہے اللہ تعالیٰ کسی کا پابند نہیں اور یہ ضروری نہیں کہ ہر ایک کے ساتھ یکساں معاملہ ہو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد بہت سے نبوت کے دعویدار گزرے ہیں ان کے ساتھ یہ معاملہ نہیں ہوا جس کا آیت کریمہ میں ذکر ہے تو کیا العیاذ باللہ وہ سب سچے ہوگئے ؟ پھر ایک سمجھدار آدمی کے لیے یہ کافی ہے کہ اگر یہ پنجاب کا مدعی نبوت جلد ہی مرجاتا تو اس سے اس کی ذلت زیادہ ظاہر نہ ہوتی، ہوا یہ کہ جیسے جیسے اس کے دعوے بڑھتے گئے پیشین گوئیاں جھوٹی ثابت ہوتی چلی گئیں وہ برابر ذلیل ہوتا گیا اور اسہال میں مرگیا۔ اس جھوٹے مدعی نبوت کو سورة النساء کی آیت کریمہ ﴿نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَ نُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ﴾ نظر نہ آئی جس میں واضح طور پر یہ بتادیا گیا ہے کہ جو شخص رسول کی مخالفت کرے اس کے بعد کہ اس کے لیے ہدایت ظاہر ہوچکی ہو اور وہ مسلمانوں کے راستہ کے خلاف کسی دوسرے راستہ کا اتباع کرے تو ہم اس طرف پھیرے رکھیں گے جس طرف وہ پھرا اور اس کو جہنم میں داخل کردیں گے۔ بات یہ ہے کہ جو شخص گمراہی کو اختیار کرتا ہے اور تنبیہ کرنے والوں کی تنبیہ پر واپس نہیں آتا اللہ جل شانہٗ اس کے دل میں مزید زیغ اور گمراہی ڈال دیتا ہے جیسا کہ سورة ٴ صف میں فرمایا : ﴿فَلَمَّا زَاغُوْۤا اَزَاغ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ ﴾ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کوئی بھی مدعی نبوت اور کوئی بھی ملحد اور زندیق اور گمراہی کا داعی اور ضلال اور عقائد باطلہ کا پیشوا اس دھوکہ میں نہ رہے کہ چونکہ میں جی رہا ہوں اور کھا رہا ہوں اور پی رہا ہوں اور میرے ماننے والے بڑھ رہے ہیں اور مجھے کوئی سزا نہیں مل رہی ہے اس لیے میں صحیح راہ پر ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا قانون ﴿ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى ﴾ بھی سامنے رکھنا لازم ہے اللہ تعالیٰ نے بتادیا کہ مومنین کے راستے سے ہٹ کر جو بھی کوئی شخص گمراہی کا راستہ اختیار کرے گا ہم اسے اس پر رہنے دیں گے اور ساتھ ہی ﴿وَ نُصْلِهٖ جَهَنَّمَ ﴾ کا استحضار رہنا بھی لازم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ ہم ایسے شخص کو دوزخ میں داخل کریں گے۔ سورة ٴ نساء کی آیت سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ مومنین کے راستہ کے علاوہ دوسرا راستہ اختیا رکرنا دوزخ میں جانے کا سبب ہے۔ الحمد للّٰہ علی تمام تفسیر ھذہ سورة الحاقة اولا وآخرًا و باطنًا وظاھرًا
(52) پس اے پیغمبر آپ اپنے عظیم الشان پروردگار کی پاکی بیان کیجئے۔ پرہیزگاروں کے لئے تذکرہ یعنی جو خدا اسے ڈرنے والے اور پرہیزگار ہیں وہی اس کی پند اور نصائح سے مستفید ہوتے ہیں ورنہ نفسہ قرآن کا حق ہونا اس کا ذاتی کمال ہے اور موجب نصیحت ہونا اس کا اضافی وصف ہے۔ اس لئے فرمایا متقیوں کے لئے نصیحت ہی نصیحت ہے اور جو تم میں سے اس قرآن کی تکذیب کرنے والے ہیں ان کو بھی ہم خوب جانتے ہیں یعنی ہم کو یہ معلوم ہے کہ تم میں سے بعض اس قرآن کی تکذیب کرنے والے بھی ہیں پھر منکرین اور مکذبین کے لئے اس قرآن کا موجب حسرت اور پشیمان ہونا فرمایا دنیا میں قرآن پر ایمان لانے والوں کی جس قدر ترقی اور زیادتی ہوتی ہے اسی قدر قرآن کے منکروں کی حسرت وپشیمانی میں اضافہ ہوتا ہے اور آخرت میں تو حسرت وپشیمانی کی انتہا نہ ہوگی اس وقت افسوس کریں گے کہ ہائے ہم نے اس قرآن کو کیوں نہیں مانا ۔ کذلک یریھم اللہ اعمالھم حسرات علیھم۔ اور یہ قرآن تحقیقی اور یقینی چیز ہے اور صرف یقین ہے یعنی یہ قرآن کرنے کے لائق ہے اس میں کوئی باطل بات نہیں ہے اور نہ اس میں کوئی شک وشبہ کی گنجائش ہے اور اس کے نہ ماننے والوں کا ہر عذر ناقابل سماعت ہے، سوائے پیغمبر آپ پروردگار کے نام کی جو بڑی عظمت والا ہے پاکی بیان کیجئے اور تسبیح کیجئے۔ یعنی سبحان رب العظیم کہا کیجئے پہلے گزر چکا ہے کہ جب آیت سبح باسم ربک العظیم نازل ہوئی تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو اپنے رکوع کی تسبیح کرلو یعنی رکوع میں پڑھا کرو۔ تم تفسیر سورة الحآقۃ