Surat ul Haaqqaa

Surah: 69

Verse: 9

سورة الحاقة

وَ جَآءَ فِرۡعَوۡنُ وَ مَنۡ قَبۡلَہٗ وَ الۡمُؤۡتَفِکٰتُ بِالۡخَاطِئَۃِ ۚ﴿۹﴾

And there came Pharaoh and those before him and the overturned cities with sin.

فرعون اور اس سے پہلے کے لوگ اور جن کی بستیاں الٹ دی گئی انہوں نے بھی خطائیں کیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَجَاء فِرْعَوْنُ وَمَن قَبْلَهُ ... And Fir`awn and those before him committed (sin). This has been recited with a Kasrah under the letter Qaf (in the word Qabalahu, as Qiblahu, which changes the meaning to those who were with him in his time, and they were his followers who were disbelieving Coptic people. Others recited it with a Fathah over the letter Qaf (as the word Qablahu), which means those nations before him who were similar to him. Concerning Allah's statement, ... وَالْمُوْتَفِكَاتُ ... the overthrown cities, those nations that rejected their Messengers. ... بِالْخَاطِيَةِ committed Al-Khati'ah. Al-Khati'ah means their rejection of what Allah revealed. Ar-Rabi` said, بِالْخَاطِيَةِ (committed Al-Khati'ah). "This means disobedience." Mujahid said, "They committed errors." Thus, Allah says,

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

9۔ 1 اس سے قوم لوط مراد ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧] قوم عاد نے تو یہ نعرہ لگایا تھا کہ (مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً 15؀) 41 ۔ فصلت :15) اور فرعون وہ تھا جس نے ( فَقَالَ اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى 24؀ڮ) 79 ۔ النازعات :24) کا نعرہ لگایا تھا۔ فرعون اور آل فرعون کو اللہ نے سمندر میں ڈبو دیا تو اس وقت اسے معلوم ہوگیا تھا کہ وہ اپنے خدائی کے دعوے میں کس حد تک سچا تھا اور آج کس قدر مجبور ہے۔ فرعون کی قوم کے علاوہ بھی کئی قوموں نے آخرت کے عقیدہ سے انکار کیا۔ پھر سرکشی کی راہ اختیار کی تو نتیجتاً انہیں بھی تباہ و برباد کردیا گیا۔ ان سب قوموں میں سے کوئی ایک شخص بھی زندہ نہ بچا۔ سب کے سب ہلاک کردیئے گئے۔ اور ان سب کا سب سے بڑا گناہ جو ان میں قدر مشترک کے طور پر پایا جاتا تھا، یہ تھا کہ انہوں نے سرے سے رسولوں کو اور اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا تھا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وجآء فرعون ومن قبلہ…:” الموتفکت ‘” ائکف “ (افتعال) سے اسم فاعل ہے اور محذوف لفظ ” القری “ (بستیوں) کی صفت ہے، یعنی الٹ جانے والی بستیاں۔ مراد لوط (علیہ السلام) کی قوم کی بستیاں ہیں جن کا اوپر کا حصہ نیچے اور نیچے کا اوپر کردیا گیا اور پھر ان پر کھنگر کے پتھروں کی بارش برسا دی گئی۔ تفصیل کے لئے دیکھیے سورة ہود (٧٧ تا ٨٣) اور سورة حجر (٦١ تا ٧٤) ۔ الخاطئۃ “ (عافیہ “ کے وزن پر مصدر ہے ، گناہ خطا۔ ” رابیۃ “ ” ربا یربو “ (ن) (زیادہ ہونا، بڑھنا) سے اسم فاعل ہے، یعنی وہ گرفت اپنی شدت میں دوسری گرفتوں سے بہت بڑھی ہوئی تھی، یعنی فرعون نے اور اس ہلے کے لوگوں نے اور قوم لوط نے گناہ کا ارتکاب کیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی سخت گرفت میں پکڑ لیا۔ گناہ کیا تھا ؟ یہ کہ ” فعصوا رسول ربھم “ انہوں نے اپنے رب کے رسول کی نافرمانی کی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَجَاۗءَ فِرْعَوْنُ وَمَنْ قَبْلَہٗ وَالْمُؤْتَفِكٰتُ بِالْخَاطِئَۃِ۝ ٩ ۚ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ فِرْعَوْنُ : اسم أعجميّ ، وقد اعتبر عرامته، فقیل : تَفَرْعَنَ فلان : إذا تعاطی فعل فرعون، كما يقال : أبلس وتبلّس، ومنه قيل للطّغاة : الفَرَاعِنَةُ والأبالسة . فرعون یہ علم عجمی ہے اور اس سے سرکش کے معنی لے کر کہا جاتا ہے تفرعن فلان کہ فلاں فرعون بنا ہوا ہے جس طرح کہ ابلیس سے ابلس وتبلس وغیرہ مشتقات استعمال ہوتے ہیں اور ایس سے سرکشوں کو فراعنۃ ( جمع فرعون کی اور ابا لسۃ ( جمع ابلیس کی ) کہا جاتا ہے ۔ أفك الإفك : كل مصروف عن وجهه الذي يحق أن يكون عليه، ومنه قيل للریاح العادلة عن المهابّ : مُؤْتَفِكَة . قال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكاتُ بِالْخاطِئَةِ [ الحاقة/ 9] ، وقال تعالی: وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم/ 53] ، وقوله تعالی: قاتَلَهُمُ اللَّهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ [ التوبة/ 30] أي : يصرفون عن الحق في الاعتقاد إلى الباطل، ومن الصدق في المقال إلى الکذب، ومن الجمیل في الفعل إلى القبیح، ومنه قوله تعالی: يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ [ الذاریات/ 9] ، فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ [ الأنعام/ 95] ، وقوله تعالی: أَجِئْتَنا لِتَأْفِكَنا عَنْ آلِهَتِنا [ الأحقاف/ 22] ، فاستعملوا الإفک في ذلک لمّا اعتقدوا أنّ ذلک صرف من الحق إلى الباطل، فاستعمل ذلک في الکذب لما قلنا، وقال تعالی: إِنَّ الَّذِينَ جاؤُ بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ [ النور/ 11] ، وقال : لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الجاثية/ 7] ، وقوله : أَإِفْكاً آلِهَةً دُونَ اللَّهِ تُرِيدُونَ [ الصافات/ 86] فيصح أن يجعل تقدیره : أتریدون آلهة من الإفك «2» ، ويصح أن يجعل «إفكا» مفعول «تریدون» ، ويجعل آلهة بدل منه، ويكون قد سمّاهم إفكا . ورجل مَأْفُوك : مصروف عن الحق إلى الباطل، قال الشاعر : 20- فإن تک عن أحسن المروءة مأفو ... کا ففي آخرین قد أفكوا «1» وأُفِكَ يُؤْفَكُ : صرف عقله، ورجل مَأْفُوكُ العقل . ( ا ف ک ) الافک ۔ ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنے صحیح رخ سے پھیردی گئی ہو ۔ اسی بناء پر ان ہواؤں کو جو اپنا اصلی رخ چھوڑ دیں مؤلفکۃ کہا جاتا ہے اور آیات کریمہ : ۔ { وَالْمُؤْتَفِكَاتُ بِالْخَاطِئَةِ } ( سورة الحاقة 9) اور وہ الٹنے والی بستیوں نے گناہ کے کام کئے تھے ۔ { وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوَى } ( سورة النجم 53) اور الٹی ہوئی بستیوں کو دے پٹکا ۔ ( میں موتفکات سے مراد وہ بستیاں جن کو اللہ تعالیٰ نے مع ان کے بسنے والوں کے الٹ دیا تھا ) { قَاتَلَهُمُ اللهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ } ( سورة التوبة 30) خدا ان کو ہلاک کرے ۔ یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں ۔ یعنی اعتقاد و حق باطل کی طرف اور سچائی سے جھوٹ کی طرف اور اچھے کاموں سے برے افعال کی طرف پھر رہے ہیں ۔ اسی معنی میں فرمایا ؛ ۔ { يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ } ( سورة الذاریات 9) اس سے وہی پھرتا ہے جو ( خدا کی طرف سے ) پھیرا جائے ۔ { فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ } ( سورة الأَنعام 95) پھر تم کہاں بہکے پھرتے ہو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ { أَجِئْتَنَا لِتَأْفِكَنَا عَنْ آلِهَتِنَا } ( سورة الأَحقاف 22) کیا تم ہمارے پاس اسلئے آئے ہو کہ ہمارے معبودوں سے پھیردو ۔ میں افک کا استعمال ان کے اعتقاد کے مطابق ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنے اعتقاد میں الہتہ کی عبادت ترک کرنے کو حق سے برعمشتگی سمجھتے تھے ۔ جھوٹ بھی چونکہ اصلیت اور حقیقت سے پھرا ہوتا ہے اس لئے اس پر بھی افک کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : { إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ } ( سورة النور 11) جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے تمہیں لوگوں میں سے ایک جماعت ہے ۔ { وَيْلٌ لِكُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ } ( سورة الجاثية 7) ہر جھوٹے گنہگار کے لئے تباہی ہے ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ { أَئِفْكًا آلِهَةً دُونَ اللهِ تُرِيدُونَ } ( سورة الصافات 86) کیوں جھوٹ ( بناکر ) خدا کے سوا اور معبودوں کے طالب ہو ۔ میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افکا مفعول لہ ہو ای الھۃ من الافک اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ افکا تریدون کا مفعول ہو اور الھۃ اس سے بدل ۔۔ ،۔ اور باطل معبودوں کو ( مبالغہ کے طور پر ) افکا کہدیا ہو ۔ اور جو شخص حق سے برگشتہ ہو اسے مافوک کہا جاتا ہے شاعر نے کہا ہے ع ( منسرح) (20) فان تک عن احسن المووءۃ مافوکا ففی اخرین قد افکوا اگر تو حسن مروت کے راستہ سے پھر گیا ہے تو تم ان لوگوں میں ہو جو برگشتہ آچکے ہیں ۔ افک الرجل یوفک کے معنی دیوانہ اور باؤلا ہونے کے ہیں اور باؤلے آدمی کو مافوک العقل کہا جاتا ہے ۔ خطأ الخَطَأ : العدول عن الجهة، وذلک أضرب : أحدها : أن ترید غير ما تحسن إرادته فتفعله، وهذا هو الخطأ التامّ المأخوذ به الإنسان، يقال : خَطِئَ يَخْطَأُ ، خِطْأً ، وخِطْأَةً ، قال تعالی: إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء/ 31] ، وقال : وَإِنْ كُنَّا لَخاطِئِينَ [يوسف/ 91] . والثاني : أن يريد ما يحسن فعله، ولکن يقع منه خلاف ما يريد فيقال : أَخْطَأَ إِخْطَاءً فهو مُخْطِئٌ ، وهذا قد أصاب في الإرادة وأخطأ في الفعل، وهذا المعنيّ بقوله عليه السلام : «رفع عن أمّتي الخَطَأ والنسیان» «3» وبقوله : «من اجتهد فأخطأ فله أجر» «4» ، وقوله عزّ وجلّ : وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ [ النساء/ 92] . والثّالث : أن يريد ما لا يحسن فعله ويتّفق منه خلافه، فهذا مخطئ في الإرادة ومصیب في الفعل، فهو مذموم بقصده وغیر محمود علی فعله، والخَطِيئَةُ والسّيّئة يتقاربان، لکن الخطيئة أكثر ما تقال فيما لا يكون مقصودا إليه في نفسه، بل يكون القصد سببا لتولّد ذلک الفعل منه ( خ ط ء ) الخطاء والخطاء ۃ کے معنی صحیح جہت سے عدول کرنے کے ہیں اس کی مختلف صورتیں ہیں ۔ ( 1 ) کوئی ایسا کام بالا رادہ کرے جس کا ارادہ بھی مناسب نہ ہو ۔ یہ خطا تام ہے جس پر مواخزہ ہوگا ا س معنی میں فعل خطئی یخطاء خطاء وخطاء بولا جا تا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ قَتْلَهُمْ كانَ خِطْأً كَبِيراً [ الإسراء/ 31] کچھ شک نہیں کہ ان کا مار ڈالنا بڑا سخت جرم ہے ۔ وَإِنْ كُنَّا لَخاطِئِينَ [يوسف/ 91] اور بلا شبہ ہم خطا کار تھے ۔ ( 2 ) ارادہ تو اچھا کام کرنے کا ہو لیکن غلطی سے برا کام سرزد ہوجائے ۔ کہا جاتا ہے : ۔ اس میں اس کا ارادہ وہ تو درست ہوتا ہے مگر اس کا فعل غلط ہوتا ہے اسی قسم کی خطا کے متعلق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ : «رفع عن أمّتي الخَطَأ والنسیان» میری امت سے خطا سے خطا اور نسیان اٹھائے گئے ہیں ۔ نیز فرمایا : وبقوله : «من اجتهد فأخطأ فله أجر» جس نے اجتہاد کیا ۔ لیکن اس سے غلطی ہوگئی اسے پھر بھی اجر ملے گا قرآن میں ہے : ۔ اور جو غلطی سے مومن کو مار ڈالے تو ایک تو غلام کو ازاد کردے ۔ ( 3 ) غیر مستحن فعل کا ارادہ کرے لیکن اتفاق سے مستحن فعل سرزد ہوجائے ۔ اس صورت میں اس کا فعل تو درست ہے مگر ارادہ غلط ہے لہذا اس کا قصد مذموم ہوگا مگر فعل ہے لہذا اس کا قصد مذموم ہوگا مگر فعل بھی قابل ستائس نہیں ہوگا ۔ الخطیتۃ یہ قریب قریب سیئۃ کے ہم معنی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَحاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ [ البقرة/ 81] اور اسکے گناہ ہر طرف سے اس کو گھیر لیں گے ۔ لیکن زیادہ تر خطئۃ کا استعمال اس فعل کے متعلق ہوتا ہے جو بزات خود مقصود نہ ہو بلکہ کسی دوسری چیز کا ارادہ اس کے صدر کا سبب بن جائے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩۔ ١٠) اور اسی طرح فرعون اور اس کا لشکر سمندر کی طرف آیا اور سب غرق کردیے گئے یا یہ کہ فرعون نے اور اس سے پہلے جو قومیں گزری ہیں سب نے شرک کیا اس زمرہ میں ہلاک کردیے گئے اور قوم لوط کی الٹی ہوئی بستیوں نے بھی شرک کیا سو ان لوگوں نے موسیٰ کو جھٹلایا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت سخت سزا دی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩ { وَجَآئَ فِرْعَوْنُ وَمَنْ قَبْلَہٗ وَالْمُؤْتَفِکٰتُ بِالْخَاطِئَۃِ ۔ } ” اور (اسی طرح) فرعون اور اس سے پہلے والوں نے ‘ اور الٹ دی جانے والی بستیوں ( کے باسیوں) نے بھی خطاکاری کی روش اختیار کی تھی۔ “ الٹائی جانے والی بستیوں سے مراد قوم لوط کی بستیاں ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

6 The reference is to the towns and settlements of the people of the Prophet Lot, about which it has been said in Surah Hud: 82 and AI-Hijr: 74: "We turned them upside down. "

سورة الْحَآقَّة حاشیہ نمبر :6 مراد ہیں قوم لوط کی بستیاں جن کے متعلق سورہ ہود ( آیت 82 ) اور سورہ حجر ( آیت 74 ) میں فرمایا گیا ہے کہ ہم نے ان کو تلپٹ کر کے رکھ دیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(69:9) وجاء فرعون والمؤتفکت بالخاطئۃ۔ واؤ عاطفہ ہے بالخاطئہ ب تعدیہ کا ہے۔ اس نے گناہ کا ارتکاب کیا۔ (1) فرعون۔ (2) من قبلہ۔ (3) والمؤتفکت فاعل ہیں فعل جاء ب کے۔ جاء (باب ضرب) فعل لازم ہے۔ ب کے صلہ کے ساتھ فعل متعدی ہوجاتا ہے جاء بمعنی وہ آیا۔ اور جاء ب وہ لایا۔ خاطئۃ گناہ۔ گنہگار۔ خطیء یخطا کا مصدر بھی ہے اور اسم فاعل کا صیغہ واحد مؤنث بھی۔ جاء بالخاطئۃ اس نے گناہ کیا۔ من موصولہ ہے۔ اور قبلہ مضاف مضاف الیہ مل کر من کا صلہ۔ اور جو اس سے پہلے گزر چکے ۔ یعنی فرعون سے پہلے۔ والمؤتفکت : اسم فاعل جمع مؤنث الموتفکۃ واحد۔ ائتفاک (افتعال) مصدر (ا ف ک مادہ) الٹی ہوئی منقلب، مراد حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کی بستیاں جو بحیرہ مردار کے ساحل پر آباد تھیں۔ اور جن کی تخت گاہ یا سب سے بڑا شہر سدوم تھا۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کا حکم نہ ماننے اور ظلم و لواطت سے باز نہ آنے کی وجہ سے اللہ نے ان کی زمین کا تختہ الٹ دیا اور اوپر سے کنکریلے پتھروں کی بارش کی۔ آیت کا ترجمہ ہوگا :۔ اور فرعون اور جو لوگ اس سے پہلے تھے اور وہ جو الٹی ہوئی بستیوں میں رہتے تھے (سب نے) گناہ کا ارتکاب کیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 جیسے قوم نوح اور قوم شعیب۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن۔ الموتفکت۔ الٹی ہوئی بستیاں (قوم لوط کی بستیاں) رابیۃ۔ سخت۔ طغا المائ۔ پانی نے جوش مارا۔ پانی کھولنے لگا۔ الجاریۃ۔ چلنے والی (کشتی) تعی۔ محفوظ رکھا۔ واعیۃ۔ حفاظت سے رکھنا۔ دکتا۔ کوٹ دیا جائے گا۔ واھیۃ۔ کمزور۔ بےجان۔ ارجاء (رجائ) ۔ کنارے۔ ھائوم۔ آئو (دیکھو) لو۔ ظننت۔ میں نے خیال رکھا تھا۔ انی ملق۔ بیشک میں ملنے والا ہوں۔ عیشۃ راضیۃ۔ من پسند زندگی کا عیش۔ عالیۃ۔ اونچی۔ بلند۔ قطوف۔ پھل ۔ میوے۔ دانیۃ۔ قریب۔ لم اوت۔ نہ دیا گیا ہوتا۔ القاضیۃ۔ فیصلہ کرنے والی۔ غلوا۔ طوق ڈالو۔ صلوہ۔ اس کو ڈال دو ۔ سلسلۃ۔ زنجیریں۔ ذرع۔ لمبائی۔ سبعون۔ ستر۔ اسلکوا۔ جکڑ لو۔ لا یحض۔ آمادہ نہ کرتا تھا۔ حمیم۔ جگری دوست۔ حمایتی۔ غسلین۔ زخموں کا دھو ون۔ الخاطئون۔ خطا کرنے والے تشریح : اس سے پہلی آیات میں قوم عاد اور قوم ثمود جیسی عظیم ترقی یافتہ قوموں کو ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے جو عذاب دیا گیا اس کا ذکر کرنے کے بعد طوفان نوح اور ان بستیوں کا ذکر فرمایا جن کو الٹ کر تہس نہس کیا گیا تھا۔ ان قوموں کی بربادیوں کا ذکر کرکے یہ بتایا گیا ہے کہ اس کائنات میں ساری طاقت و قوت اللہ رب العالمین کی ہے وہی قادر مطلق اور مالک و مختار ہے۔ اگر وہ زبردست ترقی یافتہ قوموں کو تباہ و برباد کرسکتا ہے تو وہ اس پوری کائنات کو بھی ختم کرنے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ جب اللہ چاہیے گا تو پورے نظام کائنات کو الٹ رکھ دے گا۔ چناچہ جب اللہ کے حکم سے پہلی مرتبہ صور میں پھونک ماری جائے گی تو زمین وآسمان اور اس کے درمیان بسنے والی ساری مخلوق، دریا، پہاڑ، سمندر، چاند اور سورج ستارے اور ہر چیز ریزہ ریزہ ہوجائے گی اور اس وقت اللہ کی ہیبت و جلال سے اس کے عرش کو چار کے بجائے آٹھ فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ چونکہ اللہ جسم اور جسمانیت سے پاک ہے اس لئے عرش الٰہی کے اٹھائے جانے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ اور عرش الٰہی کے سوا کوئی چیز بھی باقی نہ بچے گی۔ پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا تو ساری مخلوق دوبارہ پیدا کردی جائے گی یہی ” حاقہ “ کا دن ہے جب سب کو اپنے اعمال کے ساتھ اللہ کے سامنے حاضر ہو کر زندگی کے ایک ایک لمحے کا حساب دینا ہوگا اور اس دن کوئی بات چھپی نہ رہ سکے گی بلکہ سارے اعمال ظاہر ہوجائیں گے فرمایا کہ ہر شکس کا نامہ اعمال اس کے ہاتھ مین دیدیا جائے گا۔ جس کا نامہ اعمال داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا تو اس کی کوشی کا ٹھکانا نہ ہوگا وہ ہر ایک سے کہے گا کہ آئو میرے اعمال نامے کو دیکھو۔ وہ خوشی سے کہے گا کہ مجھے یقین تھا کہ میں نوازا جاؤں گا۔ چناچہ وہ اپنی من پسند زندگی گزارے گا۔ بلند وبالا جنتیں ہوں گی، درختوں پر لگے ہوئے پھلوں کے گچھے جنتیوں کی طرف اس طرح جھکے ہوئیہوں گے کہ ان کے پھلوں کو توڑ کر کھانے میں کوئی محنت اور مشقت نہ اٹھانا پڑے گی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان کیا جائے گا کہ آج کے دن خوب کھائو پیو، عیش و آرام کی زندگی گزارو۔ یہ سب کچھ تمہارے ان نیک اعمال کا نتیجہ ہے جو تم اسے پہلے دنیا میں کیا کرتے تھے۔ اور جن بدنصیوں کا نامہ اعمال ان کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ اس کو پرھ کر شرمندگی اور افسوس کے ساتھ کہیں گے کہ کاش یہ نامہ اعمال ہمیں دیا ہی نہ گیا ہوتا مجھے تو اس کا احساس تک نہ تھا کہ میرا حساب بھی لیا جائے گا۔ کاش میں پہلی موت کے ساتھ ہی مٹ گیا ہوتا۔ ہائے افسوس میرا مال بھی میرے کام نہ آسکا۔ میری عزت بھی گئی اور میرا وقار بھی رخصت ہوگیا۔ اس گناہ گار کے اس اعتراف کے بعد اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دیں گے کہ اس کو پکڑو۔ اس کے گلے میں طوق ڈالو اور گھسٹتے ہوئے جہنم میں لے جا کر اس میں جھونک دو ۔ اور اس کو ایسی زنجیر میں جکڑ دو جو ستر ہاتھ لمبی ہو۔ فرمایا جائے گا کہ یہ وہ شخص ہے جو اللہ پر جو سب سے بر تر و اعلیٰ ہے ایمان نہ رکھتا تھا اسے اتنی بھی توفیق نہیں تھی کہ وہ کسی غریب کو کھانا کھلانے کی ترغیب ہی دے دیتا۔ ا اج کے دن کوئی ایک شخص بھی تو ایسا نہیں ہے جو اس کے ستھ ہمدردی کرسکے۔ اب اس کا انجام یہ ہے کہ اس کو زخموں کے دھو ون کے سوا اور کوئی چیز بھی کھانے کے لئے دستیاب اور میسر نہ ہوگی۔ ان گناہ گاروں کو اس کے علاوہ کچھ بھی نصیب نہ ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : قوم عاد اور قوم ثمود کے انجام کے بعد فرعون اور اس کے ساتھیوں کا بدترین انجام۔ قوم عاد اور قوم ثمود کے بعد کئی اقوام ایسی گزریں ہیں جنہوں نے اپنے رسولوں کی تکذیب کی اور قیامت کے دن کو جھٹلا یا اس جرم کی پاداش میں انہیں تہہ وبالا کردیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس طرح ان کی پکڑ کی کہ کوئی بھی انہیں بچانے اور چھڑانے والا نہ تھا۔ ان کے بعد فرعون نے سرکشی اور بغاوت کی انتہا کی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو دریا میں ڈبکیاں دے دے کر ہلاک کیا فرعون بھی اپنے سے پہلے ہلاک ہونے والوں کی طرح دہائی دیتا رہا مگر اسے آنے والی نسلوں کے لیے عبرت کا نشان بنادیا گیا۔ فرعون نے دعویٰ کیا کہ مجھ سے بڑھ کر کوئی رب نہیں ہے میں ہی سب دیوتاؤں سے بڑا دیوتا اور سب سے بڑا رب ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی جھوٹی خدائی کے پرخچے اڑانے اور اس کی کذب بیانی کا پول کھولنے کے لیے اس کے گھر میں پرورش پانے والے موسیٰ (علیہ السلام) کو رسول منتخب فرمایا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا پہلا خطاب : موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا مجھے رب العالمین کی طرف سے رسول بنایا گیا ہے اور میں وہی بات کہوں گا جس کے کہنے کا اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے۔ میں تمہارے پاس اپنے رب کی ربوبیت اور وحدت کے ٹھوس اور واضح دلائل لایا ہوں۔ اس لیے تجھے اپنی خدائی چھوڑ کر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو اپنا رب ماننا چاہیے اس کے ساتھ میرا یہ مطالبہ ہے کہ بنی اسرائیل کو آزاد کردیا جائے۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کا جواب دیتے ہوئے کہا اگر تو اپنے دعویٰ میں سچا ہے تو کوئی معجزہ پیش کرو۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے فی الفور اپنا عصا زمین پر پھینکا جو بہت بڑا اژدھا بن کر لہرانے لگا۔ جس کے بارے میں مفسرین نے لکھا ہے کہ وہ اتنا بڑا اژدہا بن کر سامنے آیا کہ یوں لگتا تھا جیسے وہ اپنے جبڑوں میں سب کو نگل لے گا۔ یہ دیکھتے ہی فرعون اور اس کے درباری اپنی جان بچانے کے لیے دوڑتے ہوئے موسیٰ (علیہ السلام) سے فریادیں کرنے لگے کہ ہمیں اس اژدھا سے بچائیں، تب موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو پکڑ لیا جو پہلے کی طرح عصا بن گیا۔ اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی بغل میں ہاتھ دبا کر باہر نکالا تو ان کے ہاتھ کے سامنے تمام روشنیاں ماند پڑگئیں۔ ہاتھ دیکھنے والے حیران اور ششد ررہ گئے کہ یہ تو سورج اور چاند سے زیادہ روشن ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) فرمایا کرتے تھے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ کے سامنے سورج کی روشنی ماند پڑتی دکھائی دیتی تھی۔ (روح المعانی و جامع البیان) فرعون اور اس کے ساتھیوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کو جادو گر قرار دیا اور ان کے مقابلے میں ملک بھر کے جادوگر لا کھڑے کیے جادوگر نہ صرف موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں شکست کھا گئے بلکہ وہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کے رب پر ایمان لے آئے جو زمین و آسمانوں اور پوری کائنات کا رب ہے۔ اس کے باوجود فرعون اور اس کے ساتھی ایمان نہ لائے۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے لشکروں کو سمندر میں ڈبکیاں دے دے کر مارا جس کا خلاصہ یوں بیان کیا گیا ہے کہ اے اہل مکہ ہم نے تم سے پہلے قوم فرعون کو آزمایا اور ان کے پاس معزز رسول پیغام لے کر آیا اور اس نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ذمہ دار اور امانت دار رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ لہٰذا اللہ کے بندوں کو میرے حوالے کردے یعنی انہیں آزاد کردیا جائے اللہ تعالیٰ کے ساتھ سرکشی نہ کرو میں تمہارے سامنے واضح دلائل پیش کر رہا ہوں۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو سنگسار کرنے کی دہمکی دی تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بچانے کی ضمانت دی ہے اگر تم میری بات نہیں مانتے تو میرا راستہ چھوڑ دو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کے درمیان ایک مدت تک کشمکش جاری رہی بالآخر موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے لیے بددعا کی جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے موسیٰ میرے بندوں کو لے کر راتوں رات نکل جاؤ۔ ہاں یہ بات یاد رکھنا کہ فرعون اور اس کا لشکر تمہارا پیچھا کریں گے۔ لیکن سمندر کے پانی کو کھڑا چھوڑ کر پار ہوجانا کیونکہ ہم انہیں غرق کردیں گے۔ (الدخان : ١٧۔ ٢٤) اس کے بعد فرعون اور اس کے ساتھی غرق کر دئیے گئے۔ مسائل ١۔ فرعون اور کئی اقوام نے اپنے رسولوں اور قیامت کی تکذیب کی جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ان کی شدید گرفت کی اور انہیں ہلاک کردیا۔ تفسیر بالقرآن فرعون کے انجام کا ایک منظر : ١۔ فرعون اور اس کے لاؤلشکر کو اللہ تعالیٰ نے قحط سالی میں مبتلا کیا۔ (الاعراف : ١٣٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کے لاؤلشکر کو غر ق کردیا۔ ( البقرۃ : ٥٠) ( الانفال : ٥٤) (الدخان : ٢٩) (القصص : ٧٩) (المومن : ٤٥) (المومن : ٤٦) (آل عمران : ١١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فرعون مصر میں تھا۔ یہ حضرت موسیٰ کے دور کا فرعون تھا۔ اس سے قبل اس کی تفصیلات نہیں آئیں۔ الموتفکت سے وہ بستیاں مراد ہیں جو ہلاک ہوئیں ، تباہ ہوئیں ، تلپٹ ہوئیں۔ یہ حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کی بستیاں تھیں ، جن کو ہلاک کیا گیا اور یوں کہ انہیں الٹ دیا گیا ۔ لفظ موتفکت کے مفہوم میں یہ دونوں باتیں آتی ہیں۔ ان سب لوگوں کے کام اور بدعملی کو الخاطئہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یعنی انہوں نے غلط فعل کا ارتکاب کیا۔ یہ الخطیئة سے ماخوذ ہے یعنی عظیم غلطی۔ یہاں فعصوارسول ربھم (٩٦ : ٠١) ” ان سب نے اپنے رب کے رسول کی بات نہ مانی “۔ حالانکہ انہوں نے کئی رسولوں کی بات نہ مانی تھی۔ ایک رسول نہ تھا لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے رسول اور رسالت ایک ہی چیز ہے۔ گویا تمام رسول ایک ہی رسول ہیں۔ قرآن کریم کے یہ انوکھے اشارات میں سے ایک اشارہ ہے۔ اور اس سورت کی فضا کے مطابق ان سب کا ایک ہی ہولناک انجام ذکر کردیا جاتا ہے۔ جو فیصلہ کن انجام ہے۔ فاخذھم ................ رابیة (٩٦ : ٠١) ” تو اس نے ان کو بڑی سختی کے ساتھ پکڑا “۔ رابیہ کے معنی ہیں : اعلیٰ ، ڈھانپنے والی ، دفن کرنے والی۔ یہ لفظ یہاں اس لئے لایا گیا ہے کہ لفظ طاغیہ کے ساتھ مناسبت پیدا ہوجائے جو ثمود پر آئی ہے۔ اور عاتیہ کے ساتھ یکساں ہوجائے جو عاد پر پڑی۔ اور اس سورت کی فضا اور ماحول سے مناسب لفظ بھی فراہم ہوجائے لیکن تفصیل اور طوالت بھی نہ ہو ، کیونکہ اس سورت میں اختصار بھی ملحوظ ہے۔ اب اس کے بعد سفینہ جاریہ کا منظر۔ اس میں حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کی ہلاکت کے منظر کی طرف اشارہ ہے۔ انہوں نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی تکذیب کی۔ حضرت نوح کا یہ امتیاز ہے کہ ان کے ساتھیوں کی نسل ہی سے موجود آبادی چلی ہے۔ لیکن انسانوں نے اس عظیم معجزے سے نہ عبرت پکڑی اور نہ خدا کا شکر ادا کیا ، کہ اس واقعہ میں اللہ نے ہمارے اجداد کو بچایا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

فرعون کی بغاوت اور ہلاکت : اس کے بعد فرعون اور اس سے پہلے باغیوں اور ان بستیوں کا ذکر فرمایا جو برے افعال کرنے کی وجہ سے لپٹ دی گئی تھیں۔ ارشاد فرمایا ﴿ وَ جَآءَ فِرْعَوْنُ وَ مَنْ قَبْلَهٗ وَ الْمُؤْتَفِكٰتُ بالْخَاطِئَةِۚ٠٠٩﴾ (اور فرعون اور اس سے پہلے لوگ اور الٹی ہوئی بستیوں کے رہنے والوں نے گناہ کیے) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

5:۔ ” وجاء فرعون و من قبلہ “ تخویف دنیوی کا تیسرا نمونہ۔ ” والمؤتفکات “ تخویف دنیوی کا چوتھا نمونہ۔ وہ بستیاں جو الٹ دی گئیں مراد اھل المؤتفکات ہیں یعنی ان بستیوں کے باشندے، مراد قوم لوط ہے کیونکہ ان کی بستیوں کو تہ وبالا کردیا گیا تھا (قرطبی، بیضاوی، روح) الخاطئۃ مصدر ہے بمعنی الخطا اور اس سے تکذیب رسل مراد ہے جیسا کہ فعصوا رسول ربھم سے اس کی تفصیل کی گئی ہے۔ رابیۃ فائق اور بڑھ کر یعنی قوم فرعون اور اس سے پہلے مکذبین اور قوم لوط (علیہ السلام) نے اپنے وقت کے پیغمبروں کو جھٹلایا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر ایسی سخت گرفت کی جو بہت سی سرکش قوموں کی گرفت سے زیادہ شدید اور ہولناک تھی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(9) اور فرعون اور اس سے پہلی قومیں اور الٹی ہوئی بستیاں بڑے بڑے قصوروں کا ارتکاب کرتے ہوئے آئے۔ یعنی فرعون آیا اور گناہوں کا ارتکاب کیا اور کچھ لوگ اس سے پہلے تھے وہ بھی خطا کار تھے شاید ان سے حضرت شعیب (علیہ السلام) کی قوم مراد ہے اور الٹی ہوئی بستیاں اس سے حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم مراد ہے۔