Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 107

سورة الأعراف

فَاَلۡقٰی عَصَاہُ فَاِذَا ہِیَ ثُعۡبَانٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۱۰۷﴾ۚۖ

So Moses threw his staff, and suddenly it was a serpent, manifest.

پس آپ نے اپنا عصا ڈال دیا سو دفعتاً وہ صاف ایک اژدھا بن گیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah tells; فَأَلْقَى عَصَاهُ فَإِذَا هِيَ ثُعْبَانٌ مُّبِينٌ Then (Musa) threw his staff and behold! it was a (Thu`ban) serpent, manifest! Ali bin Abi Talhah reported that Ibn Abbas commented on Allah's statement, ثُعْبَانٌ مُّبِينٌ (a (Thu`ban) serpent, manifest), refers to "The male snake." As-Suddi and Ad-Dahhak said similarly. A report from Ibn Abbas said, "( فَأَلْقَى عَصَاهُ Then (Musa) threw his staff), and it turned into a huge snake that opened its mouth and rushed towards Fir`awn. When Fir`awn saw the snake rushing towards him, he jumped from his throne and cried to Musa for help, so that Musa would remove the snake from his way. Musa did that." As-Suddi commented, فَإِذَا هِيَ ثُعْبَانٌ مُّبِينٌ (and behold! It was a (Thu`ban) serpent, manifest!), "This (Thu`ban) refers to male snakes. The snake opened its mouth and headed towards Fir`awn to swallow him, placing its lower jaw on the ground and its upper jaw reaching the (top of the) wall of the palace. When Fir`awn saw the snake, he was frightened, so he jumped and wet himself and he never wet himself before this incident. He cried, `O Musa! Take it away and I will believe in you and release the Children of Israel to you.' So Musa, peace be on him, took it, and it became a staff again." وَنَزَعَ يَدَهُ فَإِذَا هِيَ بَيْضَاء لِلنَّاظِرِينَ

عصائے موسیٰ اور فرعون آپ نے فرعون کی اس طلب پر اپنے ہاتھ کی لکڑی زمین پر ڈال دی جو بہت بڑا سانپ بن گئی اور منہ پھاڑے فرعون کی طرف لپکی ، وہ مارے خوف کے تخت پر سے کود گیا اور فریاد کرنے لگا کہ موسیٰ اللہ کے لئے اسے روک ، اس نے اس قدر اپنا منہ کھولا تھا کہ نیچے کا جبڑا تو زمین پر تھا اور اوپر کا جبڑا محل کی بلندی پر ۔ خوف کے مارے فرعون کی ہوا نکل گئی اور چیخنے لگا کہ موسیٰ اسے روک لے ، میں ایمان لاتا ہوں اور اقرار کرتا ہوں کہ بنی اسرائیل کو تیرے ساتھ کر دونگا ۔ حضرت موسیٰ نے اسی وقت اس پر ہاتھ رکھا اور اسی وقت لکڑی جیسی لکڑی بن گیا ۔ حضرت وہب فرماتے ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیھکتے ہی فرعون کہنے لگا میں تجھے پہچانتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا یقینا اس نے کہا تو نے بچپن ہمارے گھر کے ٹکڑوں پر ہی تو گذارا ہے ۔ اس کا جواب حضرت موسیٰ دے ہی رہے تھے کہ اس نے کہا اسے گرفتار کر لو ۔ آپ نے جھٹ سے اپنی لکڑی زمین پر ڈال دی جس نے سانپ بن کر ان پر حملہ کر دیا اس بد حواسی میں ایک دوسرے کو کچلتے اور قتل کرتے ہوئے وہ سب کے سب بھاگے چنانچہ پچیس ہزار آدمی اسی ہنگامے میں ایک دوسرے کے ہاتھوں مارے گئے اور فرعون سیدھا اپنے گھر میں گھس گیا لیکن اس واقعہ کے بیان کی سند میں غرابت ہے واللہ اعلم ۔ اسی طرح دوسرا معجزہ آپ نے یہ ظاہر کیا کہ اپنا ہاتھ اپنی چادر میں ڈال کر نکالا تو بغیر اس کے کہ کوئی روگ یا برص یا داغ ہو وہ سفید چمکتا ہوا بن کر نکل آیا جسے ہر ایک نے دیکھا پھر ہاتھ اندر کیا تو جیسا تھا ویسا ہی ہو گیا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاَلْقٰى عَصَاهُ ۔۔ : موسیٰ (علیہ السلام) نے فوراً ہی اپنا عصا پھینکا تو وہ خوف ناک اژدہا بن گیا۔ بعض مفسرین نے اس کی عجیب و غریب صفات لکھی ہیں، مثلاً اس نے منہ کھولا تو اس کا نچلا جبڑا زمین پر اور اوپر کا جبڑا اسی (٨٠) ہاتھ اوپر کی طرف اٹھ کر محل کی دیوار کی بلندی تک پہنچ گیا اور وہ فرعون کی طرف بڑھا تو وہ بھاگ اٹھا اور اس کا پاخانہ خطا ہوگیا، لوگ بھی بھاگ گئے، فرعون چیخا کہ موسیٰ ! اسے پکڑو، میں ایمان لے آؤں گا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے پکڑا تو وہ پھر لاٹھی بن گیا۔ (ابن کثیر، بقاعی) اگرچہ اس کی کوئی صحیح سند نہیں اور نہ اس کی تصدیق یا تردید کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ ہے، تاہم ” ثعبان “ کی صفت ” مبین “ سے اور اتنی لاٹھیوں اور رسیوں کو نگل جانے سے جن سے میدان بھرا ہوا تھا، اس کا غیر معمولی ہونا ضرور معلوم ہوتا ہے اور اس سے فرعون اور اس کے سرداروں کا خوف زدہ ہونا تو صاف ظاہر ہے، کیونکہ وہ قتل کی دھمکیوں کے باوجود موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ اللہ کی نصرت اور ان معجزوں کی دہشت کی وجہ سے انھیں کوئی نقصان پہنچانے کی جرأت نہیں کرسکے۔ دیکھیے سورة مومن (٢٦) ۔ اس معجزے سے فرعون اور اس کی قوم کے سامنے اللہ تعالیٰ کی بےپایاں قدرت کا بھی اظہار ہوگیا کہ وہ چاہے تو ایک بےجان اور بےضرر سی لاٹھی کو زندگی عطا فرما کر اتنا بڑا خوف ناک اژدہا بنا دے اور چاہے تو ایک مہیب اژدہا کو بےجان لاٹھی بنا دے۔ حقیقت یہ ہے کہ فرعون کے لیے یہ معجزہ ہی کافی تھا، مگر وہ دل سے مان جانے کے باوجود (دیکھیے بنی اسرائیل : ١٠٢) بار بار معجزے دیکھ کر ایمان لانے کا وعدہ کرنے کے بعد مکرتا رہا، حتیٰ کہ سمندر میں غرق کردیا گیا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The prophet Musa (علیہ السلام) in response to his demand, threw down his staff on the earth, instantly it turned into a serpent: فَإِذَا هِيَ ثُعْبَانٌ مُّبِينٌ. The word &thu` ban& in Arabic signifies a huge serpent. The use of the word &mubin& as an adjective which means &clear or prominent& is quite descriptive of the fact that this miraculous event took place manifestly before the eyes of the people of the Pharaoh, and it was not performed secretly in a hidden or secluded place as is usually done by magicians. In some historical traditions it has been cited on the authority of the Companion Ibn ` Abbas (رض) that as the serpent moved towards Pharaoh, he jumped from his throne and sought shelter near the prophet Musa (علیہ السلام) and many of his courtiers died of extreme fear. (Tafsir Kabir) Transformation of the staff into a real serpent is not, in fact, totally impossible as it apparently seems. It is, however, surprising due to being unusual. The miracle has to be an unusual act, beyond the power of a common individual. Allah shows the miracles through His prophets to make people understand that they possess some divine powers and are true prophets of Allah.

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے مطالبہ کو مانتے ہوئے اپنی لاٹھی زمین پر ڈال دی وہ اژدھا بن گئی فَاِذَا ھِىَ ثُعْبَانٌ مُّبِيْنٌ، ثعبان بڑے اژدھا کو کہا جاتا ہے اور اس کی صفت مبین ذکر کرکے بتلاد یا کہ اس لاٹھی کا سانپ بن جانا کوئی ایسا واقعہ نہ تھا کہ کسی اندھیرے یا گوشہ پردہ میں واقع ہوا ہو جس کو کوئی دیکھے کوئی نہ دیکھے، جیسے عموما شعبدہ بازوں یا جادوگروں کا طرز ہوتا ہے، بلکہ یہ واقعہ بھرے دربار میں سب کے سامنے پیش آیا۔ بعض تاریخی روایات میں حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ اس اژدھا نے فرعون کی طرف منہ پھیلایا تو گھبرا کر تخت شاہی سے کود کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پناہ لی اور دربار کے ہزاروں آدمی اس کی دہشت سے مرگئے (تفسیر کبیر) لاٹھی کا سچ مچ سانپ بن جانا کوئی ناممکن یا محال چیز نہیں، ہاں عادت عامہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے حیرت انگیز اور قابل تعجب ضرور ہے، اور معجزہ و کرامت کا منشاء ہی یہ ہوتا ہے کہ جو کام عام آدمی نہ کرسکیں وہ انبیاء (علیہم السلام) کے ہاتھوں پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جاری کردیا جاتا ہے تاکہ عوام سمجھ لیں کہ ان کے ساتھ کوئی خدائی طاقت کام کر رہی ہے اس لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی لاٹھی کا سانپ بن جانا کوئی قابل تعجب و انکار نہیں ہو سکتا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاَلْقٰى عَصَاہُ فَاِذَا ھِىَ ثُعْبَانٌ مُّبِيْنٌ۝ ١٠٧ لقی( افعال) والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] ، ( ل ق ی ) لقیہ ( س) الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه/ 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف/ 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ عصا العَصَا أصله من الواو، لقولهم في تثنیته : عَصَوَانِ ، ويقال في جمعه : عِصِيٌّ. وعَصَوْتُهُ : ضربته بالعَصَا، وعَصَيْتُ بالسّيف . قال تعالی: وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل/ 10] ، فَأَلْقى عَصاهُ [ الأعراف/ 107] ، قالَ هِيَ عَصايَ [ طه/ 18] ، فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء/ 44] . ويقال : ألقی فلانٌ عَصَاهُ : إذا نزل، تصوّرا بحال من عاد من سفره، قال الشاعر : فألقت عَصَاهَا واستقرّت بها النّوى وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. قال تعالی: وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه/ 121] ، وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء/ 14] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُيونس/ 91] . ويقال فيمن فارق الجماعة : فلان شقّ العَصَا ( ع ص ی ) العصا : ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے کیونکہ اس کا تثنیہ عصوان جمع عصی آتی عصوتہ میں نے اسے لاٹھی سے مارا عصیت بالسیف تلوار کو لاٹھی کی طرح دونوں ہاتھ سے پکڑ کت مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَلْقِ عَصاكَ [ النمل/ 10] اپنی لاٹھی دال دو ۔ فَأَلْقى عَصاهُ [ الأعراف/ 107] موسٰی نے اپنی لاٹھی ( زمین پر ) ڈال دی ۔ قالَ هِيَ عَصايَ [ طه/ 18] انہوں نے کہا یہ میری لاٹھی ہے ۔ فَأَلْقَوْا حِبالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ [ الشعراء/ 44] تو انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں ۔ القی فلان عصاہ کسی جگہ پڑاؤ ڈالنا کیونکہ جو شخص سفر سے واپس آتا ہے وہ اپنی لاٹھی ڈال دیتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 313 ) والقت عصاھا واستقربھا النوی ( فراق نے اپنی لاٹھی ڈال دی اور جم کر بیٹھ گیا ) عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : وَعَصى آدَمُ رَبَّهُ [ طه/ 121] اور آدم نے اپنے پروردگار کے حکم کے خلاف کیا تو ( وہ اپنے مطلوب سے ) بےراہ ہوگئے ۔ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ النساء/ 14] اور جو خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا ۔ آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ اور اس شخص کے متعلق جو جماعت سے علیدہ گی اختیار کر سے کہا جاتا ہے فلان شق لعصا ۔ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) ثعب قال عزّ وجل : فَإِذا هِيَ ثُعْبانٌ مُبِينٌ [ الأعراف/ 107] ، يجوز أن يكون سمّي بذلک من قوله : ثَعَبْتُ الماء فَانْثَعَبَ ، أي : فجّرته وأسلته فسال، ومنه : ثَعَبَ المطر، والثُّعْبَة : ضرب من الوزغ وجمعها : ثُعَبٌ ، كأنّه شبّه بالثعبان في هيئته، فاختصر لفظه من لفظه لکونه مختصرا منه في الهيئة . ث ع ب ) ثعب ( ف) ثعبا ۔ الماء کے معنی ہیں اس نے پانی پہا یا فانثعب اس کا مطاوع ہے جس کے معنی ہیں چناچہ وہ بہ نکلا۔ اسی سے ثعب المطر ہے ( جس کے معنی بارش کا بہتا ہوا پانی یا برساتی نالہ کے ہیں ) اور ہوسکتا ہے کہ آیت کریمہ :۔ فَإِذا هِيَ ثُعْبانٌ مُبِينٌ [ الأعراف/ 107] تو وہ امی وقت صریح اژدہا بن گئی ۔ میں ثعبان ( اژدھا ) بھی ثعبت الماء کے محاورہ سے ماخوذ ہو سانپ بھی چونکہ زمین پر اس طرح چلتا ہے ۔ جیسے پانی بہ رہا ہے ہوتا ہے اسلئے اسے ثعبان کہا گیا ہو ۔ نعبۃ خبیث قسم کا گرکٹ ثعب یہ بھی چونکہ شکل و صورت میں سانپ کے مشابہ ہوتا ہے اس لئے اسے ثعبۃ کہا جاتا ہے اور جسم میں چھوٹا ہونے کی وجہ سے اس کے لفظ میں اختصار کرلیا گیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:107) القی۔ القی یلقی القاء (افعال) ماضی واحد مذکر غائب اس نے زمین پر پھینکا ۔ فاذا۔ اذا یہاں دفعۃ۔ ناگہاں۔ فوراً ۔ کے معنوں میں آیا ہے۔ ویسے اس کا معنی جب اس وقت۔ بھی ہے۔ ثعبان۔ بہت بڑا سانپ۔ ازدھا۔ اسم ہے۔ مذکر مؤنث دونوں کے لئے آتا ہے۔ مبین۔ صاف۔ ظاہراً ۔ کھلا ۔ سچ مچ کا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر (107 تا 112 ) ۔ القی (اس نے ڈالا) ۔ عصا (لاٹھی) ۔ ثعبان ( اژدھا۔ بڑا سا سانپ) ۔ نزع (کھینچا۔ نکالا) ۔ بیضاء (سفید۔ چکمدار ) ۔ ناظرین (دیکھنے والے) ۔ سحر علیم (اچھی طرح جادو جاننے والا۔ ماہر جادو گر) ۔ ان یخرجکم (یہ کہ وہ تمہیں نکال دے) ۔ من ارضکم (تمہاری زمین سے) ۔ فما ذاتامرون (پھر تم کیا مشورہ دیتے ہو ؟ ) ۔ ارجہ (ڈھیل دے اس کو) ۔ اخاہ (اس کے بھائی کو ) ۔ المدائن (شہر۔ بستیاں ) ۔ حشرین (جمع کرنے والے ) ۔ یا توک (آجائیں گے تیرے پاس ) ۔ تشریح : آیات نمبر (107 تا 112 ) ۔ ” اسزمانہ میں ملک مصر میں جادو کا بڑا زور تھا یعنی عام فطرت سے ہٹ کر کوئی نئی حیرت انگیز چیز پیش کردینا، ان چیزوں کو پیش کر کے لوگوں کو رعب میں رکھنا اور اپنے آپ کو حصوصی طاقت و قوت کا مالک دکھانا۔ چونکہ وہاں جادو کا کاروبار بہت پھیلاہوا تھا اور اسی شعبدہ بازی پر حکومت کا رعب اور دبدبہ قائم تھا اس لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ایسے معجزات عطا ہوئے جن سے وہ جادو کا توڑکرکے دکھائیں۔ چنانچہ جب فرعون نے مصر اور آس پاس کے شہروں سے تمام بڑے بڑے جادوگروں کو دربار میں طلب کرلیا تو ہر ایک نے بادشاہ وقت کے قریب ہونے اور دنیاوی انعامات حاصل کرنے کے لئے پنے تمام تر کمالات پیش کرنے شروع کردیئے۔ انہوں نے ڈنڈے رسیاں اور مختلف چیزیں سامنے ڈال کر ان کو جادو کے زور سے سانپوں کی شکل میں ڈھال دیا حالانکہ وہ سب چیزیں لوگوں کو سانپ دکھائی دے رہی تھیں حقیقت میں محض نظر بندی تھی۔ جب تمام جادوگر اپنے کمالات دکھا چکے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی کی اور فرمایا کہ تم محض اپنا ” عصا، زمین پر پھینک دو پھر ہماری قدرت کا تماشا دیکھنا چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جیسے ہی اپنے ” عصا “ (لاٹھی) کو زمین پر پھینکا وہ سچ مچ کا زژدھا بن گیا اور اس نے جادوگروں کے نقلی سانپوں کو نگلنا شروع کردیا۔ جادوگروں نے جب یہ دیکھا تو یقین ہوگیا کہ یہ جادو نہیں ہے یا محض نظر بندی کا شعبدہ نہیں ہے بلکہ واقعی معجزہ ہے اور وہ سب جادوگر ایمان لے آئے۔ تفسیر کبیر میں حضرت عبداللہ ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اژدھے نے فرعون کی طرف منہ پھیلا یا تو وہ ڈر کے مارے تخت شاہی سے کود کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی پناہ میں آگیا۔ بہت سے درباری دہشت سے مر گئے اور تمام جادوگر لرز اٹھے۔ یہ معجزہ تھا۔ اگر یہ محض نظر بندی ہوتی تو اس طرف کون توجہ کرتا اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دوسرا معجزہ ” ید بیضا “ کا عطا کیا تھا یعنی جب وہ اپنا ہاتھ اپنی بغل میں ڈال کر نکالتے تو ہو چاند کی طرح چمکنے لگتا تھا۔۔۔۔ آپ کے ہاتھ کا چمک دار بلکہ روشن ہوجانا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نبوت صرف طاقت اور بڑی طاقت کا مظہر ہی نہیں ہے بلکہ روشنی کا مینارہ بھی ہے اور یہ ہدایت کا نور بھی ہے۔ اس ” ید بیضا “ سے ایک اور بات ظاہر ہوتی ہے وہ یہ کہ نبی میں اور جادو گر میں یعنی معجزہ اور جادو میں کیا فرق ہے ؟ جادوگر کا مقصد محض کمالات دکھا کر شخصی فائدہ اور اقتدار حاصل کرنا ہی ہوتا ہے وہ کوئی پیغام نہیں پہنچاتا۔ وہ کچھ ثابت نہیں کرتا۔ وہ کوئی اصلاح نہیں کرتا وہ تحریک نہیں چلاتا وہ خطرات مول نہیں لیتا وہ وقتی واہ واہ حاصل کرتا ہے اور اس کے بل پر کچھ دولت کچھ طاقت اور کچھ رعب جما دیتا ہے اور بس۔ لیکن اللہ کے نبی کا مقصد نور علم اور نور بصیرت پھیلانا ہے وہ کفروشرک ظلم و ستم۔ انسانوں کے دعوائے ربوبیت اور دعوائے حاکمیت کے بتوں کو توڑتا ہے وہ اس اندھیرے کے خلاف جہاد کرتا ہے روشنیوں کے چراغ جلاتا ہے اس کا کام بندہ اور مالک کے خاص رشتہ کو قائم کرنا ہوتا ہے وہ اپنی امت کے لئے راتوں کو روتا ہے وہ ہر آن ان کی آخرت کی فکر میں لگا رہتا ہے اس کے بر خلاف جادو گر کا جادو بھی عارضی ہوتا ہے اور اس کی ذات سے باہر نہیں آتا۔ ایک اور بات یہ ہے کہ نبی انسان کی انسانوں پر مطلق العنانی اور حکمرانی کو توڑتا ہے وہ ظلم و ستم اور مصنوعی تفریق کو مٹاتا ہے اس کی دعوت محض علمی اور فکری نہیں ہوتی بلکہ اس کا پیغام انقلابی جہادی اور عملی ہوتا ہے۔ اسی لئے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون کو للکارا تو وہ اور اس کے سردار گھبرا اٹھے وجہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ کا یہ کہنا کہ ” رب العالمین “ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں اور بنی اسرائیل کو میر ساتھ جانے دہ ” ان دو جملوں نے ان کی راتوں کی نیندیں حرام کردیں اس لئے ان کی زبانوں پر یہ آگیا کہ ” یہ شخص ہمیں ہماری زمین سے نکالنا چاہتا ہے۔ اس گھبراہٹ اور بد حواسی کا نتیجہ تھا کہ وہ سب سر جوڑ کر بیٹھ گئے اور مشورہ کرنے لگے کہ اب کیا کیا جائے اس کو توڑ کیا ہے اور قول نبوت کے پیچھے جو للکار پوشیدہ تھی اس نے انہیں لرزا دیا ورنہ محض عصا کا اژدھا بن جانا یا ہاتھ کا روشن ہونا اور کچھ جادوگروں کا ایمان لے آنا حیرت انگیز تو ہو سکتا تھا لیکن انقلاب انگیز نہیں عصا کا اژدھا بن جانا ظاہر کرتا تھا کہ وہ باطل کے تمام جادو کو کھا جائے گا اور باطل کو اسی بات کی فرک کھائے جارہی تھی۔ یہاں یہ بات بھی ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون اور فرعونیوں کے لئے نئے نہ تھے انہوں نے محل میں وہ کر شاہی علوم و فنون سیکھ لئے ہوں گے انہوں نے صداقت امانت استقلال، ایمان، شجاعت، اور قیادت وغیرہ کالوہا منوالیا ہوگا ۔ شخصیت کا لوہا پیغمبر اور مبلغ و مصلح کے ہاتھ میں سب سے بڑا ہتھیار ہوا کرتا ہے ورنہ ایک آمر مطلق کا محض ایک جملہ نبوت سے دہل جانا آسان نہیں جس کی سلطنت شام سے لیبیا تک بحرروم کے ساحلوں سے حبش تک پھیلی ہوئی تھی۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

حضرت موسیٰ کا جواب یہ تھا = فَاَلْقٰى عَصَاهُ فَاِذَا ھِىَ ثُعْبَانٌ مُّبِيْنٌ۔ وَّنَزَعَ يَدَهٗ فَاِذَا ھِىَ بَيْضَاۗءُ لِلنّٰظِرِيْنَ ۔ موسیٰ نے اپنا عصا پھینکا اور یکایک وہ ایک جیتا جاگتا اژدھا تھا۔ اور اس نے اپنی جیب سے ہاتھ نکالا اور سب دیکھنے والوں کے سامنے وہ چمک رہا تھا۔ حضرت موسیٰ کے ہاتھوں اچانک عظیم معجزات کے صدور سے وہ لوگ ششدر رہ گئے۔ عصا ایک سانپ بن گیا تھا اور اس کی حقیقت یوں بدل گئئی تھی کہ اب اس کے سانپ ہونے میں شک ہی نہ رہا تھا۔ (مُّبِيْنٌ) کے معنی واضح طور پر ، جیتا جاگتا۔ دوسری صورت میں کہا گیا (فاذا ھی حیۃ تسعی) " تو وہ اچانک چلنے پھرنے والا سانپ بن گیا "۔ حضرت موسیٰ سرخ رنگ والے تھے۔ انہوں نے اپنا گندم گوں ہاتھ نکالا تو وہ بلب کی طرح چمکتا ہوا باہر آیا۔ لیکن یہ سفیدی بوجہ بیماری نہ تھی بلکہ معجزانہ سفیدی تھی۔ جب آپ نے ہاتھ دوبارہ اپنے کپڑوں میں چھپایا تو دوبارہ اپنی اصلی حالت میں چلا گیا یعنی گندم گوں رنگ کا ہوگیا۔ یہ تھی حضرت موسیٰ کے دعوائے نبوت پر دلیل۔ آپ کا دعویٰ یہ تھا کہ آپ رب العالمین کے نمائندے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ درعون اور اس کے ٹولے نے ان معجزانہ دلائل کو تسلیم کیا ؟ کیا انہوں نے رب العالمین کی ربوبیت اور اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کرلیا ؟ اگر وہ ایسا کرتے تو پھر فرعون کی ربوبیت ، اقتدار اور تاج و تخت کا جواز کیا رہ جاتا اور اس کے ٹولے کے لئے مراکز و مناصب پر مقتدر رہنے کا کیا جواز رہ جاتا جو ان کو فرعون نے عطا کئے تھے اور وہ فرعون کی حکومت کے کل پرزے تھے۔ اگر وہ اللہ کو رب العالمین تسلیم کرتا تو عملاً اس کا اقتدار ختم ہوجاتا۔ اگر اللہ کو رب العالمین تسلیم کیا جائے تو اس کا منطقی تقاضا یہ وہتا ہے کہ پھر ملک کے اندر اللہ کی شریعت اور قانون نافذ ہو ، کیونکہ اسلامی نظریہ حیات کے مطابق اللہ کے سوا کسی اور کے احکام کی اطاعت جائز نہیں ہے۔ اس لئے اس نظریہ کے مطابق فرعون کا قانون اور اس کے احکام بےاثر ہوجاتے ہیں۔ وہ احکام جو شریعت کے خلاف ہوں اور نہ شریعت پر مبنی ہوں۔ اگر لوگوں کے رب اللہ رب العالمین قرار پائیں تو پھر ان کا کوئی اور رب نہیں رہتا جس کے احکام اور قوانین کے وہ مطیع ہوں اور لوگ فرعون کے احکام اور شریعت کی جو اطاعت کرتے ہیں تو اس لئے کرتے ہیں کہ انہوں نے اسے اپنا رب تسلیم کرلیا ہے۔ لوگوں کا رب وہ شخص ہوتا ہے جس کے قوانین کی وہ اطاعت کرتے ہیں اور یہ لوگ اس رب کے دین میں ہوتے ہیں۔ لیکن یہ بات تو اس قدر جلدی سے نہیں مانی جاسکتی۔ کیا یہ ممکن ہے کہ طاغوت ٹھنڈے پیٹوں اپنے اقتدار اعلیٰ سے دست بردار ہوجائے اور اس کا نظام باطل اور کالعدم قرار پاجائے ؟

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

107 چنانچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا ڈال دیا اور اپنی لاٹھی پھینکی اور عصا ڈالتے ہی وہ ایک صاف وصریح اژدہا بن گیا۔