Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 133

سورة الأعراف

فَاَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمُ الطُّوۡفَانَ وَ الۡجَرَادَ وَ الۡقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ ۟ فَاسۡتَکۡبَرُوۡا وَ کَانُوۡا قَوۡمًا مُّجۡرِمِیۡنَ ﴿۱۳۳﴾

So We sent upon them the flood and locusts and lice and frogs and blood as distinct signs, but they were arrogant and were a criminal people.

پھر ہم نے ان پر طوفان بھیجا اور ٹِڈیاں اورگھن کا کیڑا اور مینڈک اور خون ، کہ یہ سب کھلے کھلے معجزے تھے سو وہ تکبر کرتے رہے اور وہ لوگ کچھ تھے ہی جرائم پیشہ ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah said, فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ ايَاتٍ مُّفَصَّلَتٍ فَاسْتَكْبَرُواْ وَكَانُواْ قَوْمًا مُّجْرِمِينَ So We sent on them: the Tuwfan, the locusts, the Qummal, the frogs, and the blood (as a succession of) manifest signs, yet they remained arrogant, and they were of those people who were criminals. فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوفَانَ (So We sent on them the Tufan), Ibn Abbas commented; "It was a heavy rain that ruined the produce and fruits." He is also reported to have said that; Tuwfan refers to mass death. Mujahid said, it is water that carries the plague every where. As for the locust, it is the well-known insect, which is permissible to eat. It is recorded in the Two Sahihs, that Abu Yafur said that he asked Abdullah bin Abi Awfa about locust. He said, "We participated in seven battles with the Messenger of Allah , and we used to eat locusts." Ash-Shafi`i, Ahmad bin Hanbal and Ibn Majah recorded from `]Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam that his father narrated from Ibn `]Umar that the Prophet said, أُحِلَّتْ لَنَا مَيْتَتَانِ وَدَمَانِ الْحُوتُ وَالْجَرَادُ وَالْكَبِدُ وَالطِّحَال We were allowed two dead animals and two (kinds of) blood: fish and locust, and kidney and spleen Ibn Abi Najih narrated from Mujahid about Allah's statement, فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوفَانَ وَالْجَرَادَ (So We sent on them: the flood, the locusts ...), "Eating the nails on their doors and leaving the wood." As for the Qummal, Ibn Abbas said that it is the grain bug, or, according to another view; small locusts that do not have wings. Similar was reported from Mujahid, Ikrimah and Qatadah. Al-Hasan and Sa`id bin Jubayr said that; `Qummal' are small black insects. Abu Jafar bin Jarir recorded that Sa`id bin Jubayr said, "When Musa came to Fir`awn, he demanded, `Release the Children of Israel to me.' But, Fir`awn did not comply; and Allah sent the Tuwfan, and that is a rain which continued until they feared that it was a form of torment. They said to Musa, `Invoke your Lord to release us from this rain, and we will believe in you and send the Children of Israel with you.' Musa invoked his Lord and He removed the affliction from them. However, they did not believe, nor did they send the Children of Israel with him. In that year, Allah allowed (the earth) to grow various types of produce, fruits and grass for them as never before. They said, `This is what we hoped for.' So Allah sent the locusts, and the locusts started to feed on the grass. When they saw the effect the locusts had on the grass, they knew that no vegetation would be saved from devastation. They said, `O Musa! Invoke your Lord so that He will remove the locusts from us, and we will believe in you and release the Children of Israel to you.' Musa invoked his Lord, and He removed the locusts. Still, they did not believe and did not send the Children of Israel with him. They collected grains and kept them in their homes. They said, `We saved our crops.' However, Allah sent the Qummal, grain bugs, and one of them would take ten bags of grains to the mill, but only reap three small bags of grain. They said, `O Musa! Ask your Lord to remove the Qummal (weevil) from us and we will believe in you and send the Children of Israel with you.' Musa invoked his Lord, and Allah removed the Qummal from them. However, they did not send the Children of Israel with him. Once, when he was with Fir`awn, Musa heard the sound of a frog and said to Fir`awn, `What will you and your people suffer from this (the frogs)!' Fir`awn said, `What can frogs do!' Yet, by the time that night arrived a person would be sitting in a crowd of frogs that reached up to his chin and could not open his mouth to speak without a frog jumping in it. They said to Musa, `Invoke your Lord to remove these frogs from us, and we will believe in you and send the Children of Israel with you.' Musa invoked his Lord, but they did not believe. Allah then sent blood that filled the rivers, wells and the water containers they had. They complained to Fir`awn, saying, `We are inflicted with blood and do not have anything to drink.' He said, `Musa has bewitched you.' They said, `How could he do that when whenever we look for water in our containers we found that it has turned into blood!' They came to Musa and said, `Invoke your Lord to save us from this blood, and we will believe in you and send the Children of Israel with you.' Musa invoked his Lord and the blood stopped, but they did not believe nor send the Children of Israel with him." A similar account was attributed to Ibn Abbas, As-Suddi, Qatadah and several others among the Salaf. Muhammad bin Ishaq bin Yasar said, "The enemy of Allah, Fir`awn, went back defeated and humiliated, after the sorcerers believed (in Musa). He insisted on remaining in disbelief and persisted in wickedness. Allah sent down the signs to him, and he (and his people) were first inflicted by famine. Allah then sent the flood, the locusts, the Qummal, the frogs then blood, as consecutive signs. When Allah sent the flood, it filled the surface of the earth with water. But the water level receded, and they could not make use of it to till the land or do anything else.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

133۔ 1 طوفان سے سیلاب یا کثرت بارش، جس میں ہر چیز غرق ہوگئی، یا کثرت اموات، جس سے ہر گھر میں ماتم برپا ہوگیا، ٹڈی دل کا حملہ فصلوں کی ویرانی کے لئے مشہور ہے یہ ٹڈیاں ان کے غلوں اور پھلوں کی فصلوں کو کھا کر چٹ کر جاتیں، جو پانی جوہڑوں، چھپڑوں میں ہوتا ہے، یہ مینڈک ان کے کھانوں میں، بستروں میں۔ غلوں میں غرض ہر جگہ اور ہر طرف مینڈک ہی مینڈک ہوگئے جس سے ان کا کھانا پینا، سونا آرام کرنا حرام ہوگیا۔ دم (خون) سے مراد پانی کا خون بن جانا یوں پانی پینا ان کے لئے ناممکن ہوگیا، بعض نے خون سے مراد نکسیر کی بیماری لی ہے۔ یعنی ہر شخص کی ناک سے خون جاری ہوگیا، یہ کھلے کھلے اور جدا جدا معجزے تھے جو وقفے وقفے سے ان پر آئے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢٩] طوفان & ٹڈیوں & جوؤں & مینڈکوں اور خون کا عذاب :۔ اس خشک سالی کے بعد اللہ نے ان پر زور دار بارش برسائی جو طوفان کی صورت اختیار کرگئی، اور اس سے ان کی فصلیں پانی میں ڈوب کر تباہ ہونے لگیں تو سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) سے التجا کی کہ اپنے پروردگار سے دعا کرو اگر بارش تھم گئی اور ہماری فصلیں بچ گئیں تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی تو بارش رک گئی اور فصلیں بھی بچ گئیں لیکن پھر وہ اپنے عہد سے پھرگئے تو اس کی سزا کے طور پر اللہ نے ان کی پکی ہوئی تیار فصلوں پر ٹڈیوں کے دل کے دل بھیج دیئے جب انہوں نے دیکھا کہ یہ ٹڈیاں تو ان کی ساری فصلوں کو چٹ کر جائیں گی تو پھر موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف دوڑے اور پہلے کی طرح اللہ سے دعا کی درخواست کی، آپ کی دعا سے انہیں اس عذاب سے بھی نجات مل گئی اور انہوں نے غلہ کاٹ کر گھروں میں محفوظ کرلیا تو پھر اکڑ بیٹھے۔ اب اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر ان کے ذخیرہ کردہ غلہ میں سرسری کا عذاب بھیج دیا (قرآن میں قمل کا لفظ ہے جو چھوٹے چھوٹے جانداروں مثلاً چچڑی، مچھر، جوئیں، سُرسری اور ایسے ہی دوسرے کیڑوں کے لیے مستعمل ہے) کہ ذخیرہ کردہ غلہ پڑا پڑا ہی ناکارہ ہوجائے یہ صورت حال دیکھ کر وہ پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئے اور دعا کی درخواست اور ایمان لانے کا عہد و پیمان کیا پھر جب آپ (علیہ السلام) کی دعا سے یہ عذاب دور ہوا تو پھر عہد شکنی کی تو اللہ نے یہ عذاب نازل کیا کہ مینڈکوں کی اس قدر بہتات ہوگئی کہ کھانا کھانے بیٹھتے تو ہر طرف سے مینڈک چڑھ آتے کبھی کھانے میں جا پڑتے کبھی سالن کے برتن میں اور کبھی ان کے کھانے کے لیے کھولے ہوئے منہ میں اور پانی پینے لگتے تو وہ خون کی شکل اختیار کرجاتا غرض جب ان کا جینا دوبھر ہوگیا تو پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئے اور وہی التجا اور وعدے کیے۔ آپ (علیہ السلام) نے پھر دعا کی۔ ان سے یہ عذاب بھی ٹل گیا مگر پھر بھی وہ اکڑ بیٹھے اور ان سب تنبیہات کو جادو ہی کے کرشمے سمجھتے رہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوْفَانَ ۔۔ : جب وہ قحط سالی اور پھلوں کی کمی کی گرفت کے باوجود کفر اور سرکشی پر ڈٹ گئے اور اس مصیبت کو موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کی نحوست قرار دیا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر مزید سختیاں نازل ہونا شروع ہوئیں جو فرعون اور اس کی فوجوں کے مکمل خاتمے اور غرق ہونے کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں۔ قحط سالیوں کے بعد ” الطُّوْفَانَ “ یعنی سخت بارش اور سیلاب شروع ہوا جس سے ان کی زندگی دشوار ہوگئی تو انھوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے دعا کی درخواست کی کہ تمہارا اپنے رب سے جو عہد اور معاملہ ہے اسے پیش کرکے اس سے ہمارے لیے یہ عذاب دور کرنے کی دعا کریں، اگر تم نے ہم سے یہ عذاب دور کروا دیا تو ہم قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تم پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ بھیج دیں گے۔ (لام تاکید اور نون ثقیلہ عربی میں قسم کا مفہوم رکھتا ہے) ظالم اب بھی اپنے اور ساری کائنات کے رب کو موسیٰ (علیہ السلام) کا رب ہی کہہ رہے ہیں۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے یہ عذاب ٹلا تو مدت کی سوکھی زمین نے پانی کی فراوانی کی وجہ سے بےحساب چارا اور غلہ پیدا کیا، یہ ان کی خوش حالی کے ساتھ آزمائش تھی، جس سے وہ سب عہد و پیمان بھول کر کہنے لگے کہ یہ سیلاب تو ہمارے لیے نعمت تھا۔ اب اللہ تعالیٰ نے ان پر ” وَالْجَرَادَ “ (ٹڈیوں) کا عذاب بھیجا جو ان کے درخت، چارے اور لکڑیاں تک چٹ کر گئیں۔ انھوں نے پھر موسیٰ (علیہ السلام) سے انھی الفاظ میں عذاب ٹالنے کی دعا کی درخواست کی جو اوپر ذکر ہوئے ہیں۔ یہ عذاب دور ہوا تو پھر خوش حالی کا ایک وقفہ آیا کہ بچی فصل سے بھی بیشمار غلہ پیدا ہوا، جسے کاٹ کر انھوں نے اپنے گھروں میں محفوظ کرلیا اور اپنے خیال میں کم از کم سال بھر کے لیے بےفکر ہوگئے اور موسیٰ (علیہ السلام) سے کیا ہوا عہد و پیمان پھر بھول گئے۔ اب ان پر ” َالْقُمَّلَ “ کا عذاب نازل ہوا، یعنی جوئیں، چچڑیاں، چھوٹے چھوٹے کالے کیڑے، گھن کے کیڑے، پسو وغیرہ، ان سب پر ” َالْقُمَّلَ “ کا لفظ بولا جاتا ہے۔ انسانوں اور جانوروں کے جسموں، کپڑوں اور بستروں پر جوؤں، پسوؤں اور کھٹملوں کی یلغار ہوگئی۔ غلے کو گھن لگ گیا، پسوانے کے لیے بوریاں لے جاتے تو آٹے کا فقط ایک تھیلا نکلتا، پھر مجبور ہو کر انھوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے اسی طرح دعا کی درخواست کی۔ جب ان کی دعا سے وہ بلا ٹلی اور راحت و آرام کا وقفہ آیا تو اپنے عہد سے پہلے کی طرح پھرگئے، اب ان پر ” وَالضَّفَادِعَ “ یعنی ” مینڈکوں “ کا عذاب آیا اور وہ اس کثرت سے پھیل گئے کہ ہر چیز اور برتن میں مینڈک ہی مینڈک نظر آنے لگے، کھانا کھاتے ہوئے لقمے کی جگہ اچھل کر منہ میں مینڈک جا پڑتا، لیٹتے تو بستر اور جسم مینڈکوں سے بھر جاتا۔ مجبور ہو کر انھوں نے پھر موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ عذاب ٹالنے کے لیے دعا کی درخواست انھی وعدوں کے ساتھ کی، مگر جب عافیت ملی تو پھر ایمان لانے اور بنی اسرائیل کو آزادی دینے سے انکار کردیا۔ اب ان پر خون کا عذاب آیا، کھانے یا پینے کی جو چیز رکھتے خون میں بدل جاتی، پانی کے برتنوں اور ذخیروں نے خون کی صورت اختیار کرلی۔ بعض مفسرین نے خون کے عذاب میں نکسیر کی وبا کا ذکر بھی فرمایا ہے۔ ان کے رجوع اور درخواست پر موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے یہ عذاب ٹلا تو پھر اپنے کیے ہوئے عہد سے پھرگئے۔ اب اللہ تعالیٰ کے انتقام کا وقت آگیا اور ان سب کو اللہ کی آیات و معجزات جھٹلانے اور ان سے جان بوجھ کر غفلت اختیار کرنے کی پاداش میں سمندر میں غرق کردیا گیا۔ یہاں اس غرق کی تفصیلات بیان نہیں ہوئیں، وہ سورة یونس، شعراء اور طہ وغیرہ میں بیان ہوئی ہیں، کیونکہ یہاں اصل مقصد کفار کو سختی اور خوش حالی کی آزمائش کی پروا نہ کرتے ہوئے کفر پر اصرار کے انجام سے ڈرانا ہے۔ ” اٰيٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ “ سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب اور عافیت کے یہ وقفے یکے بعد دیگرے آئے۔ شاہ عبد القادر (رض) نے لکھا ہے کہ فرعون اور موسیٰ (علیہ السلام) کا مقابلہ اس بات پر چالیس برس رہا کہ وہ بنی اسرائیل کو اپنے وطن جانے دے اور آخر میں یہ عذاب ایک ایک ہفتے کے وقفے سے آئے۔ (موضح) تفسیر طبری میں تابعین کی بعض روایات میں عذاب کا عرصہ ایک ہفتہ اور درمیانی عافیت کا عرصہ ایک ماہ لکھا ہے، مگر ہمارے پاس ان میں سے کسی قول کی تصدیق یا تردید کا کوئی صحیح ذریعہ نہیں۔ نصیحت کے لیے جو کچھ اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے وہی کافی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The above verses relate the next part of the story of the prophet Musa (علیہ السلام) and the people of Pharaoh. According to historical reports, the prophet Musa (علیہ السلام) stayed in Egypt for 20 years. He kept preaching consistently and conveyed the message of Allah to them. He was given nine miracles during his stay in Egypt which served as warnings to the people of Pharaoh. The Holy Qur&an has referred to the nine miracles in these words وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَىٰ تِسْعَ آيَاتٍ. |"Surely, We gave him nine miracles.|" Out of the nine miracles, two were performed before Pharaoh and his people. The third miracle was of famine reported in verse 130. The above verses speak of the remaining six miracles. The verse 133 has mentioned five punishments coming to the people of Pharaoh. All these punishments have been termed as &signs distinct from each other.& According to the comments of the respected Companion &Abdullah ibn ` Abbas (رض) each of these punishments lasted for a fixed period of time followed by a period of relief followed, by the next punishment. Ibn-al-Mundhir has cited from the Companion ` Abdullah ibn ` Abbas (رض) that each punishment lasted for seven days starting from Saturday, then they were given three weeks of relief. Imam al-Baghawi, citing the Companion &Abdullah ibn ` Abbas (رض) said that the first time when they were relieved of famine by asking the prophet Musa (علیہ السلام) to pray Allah for their relief, they did not keep the promise of believing in Allah. The prophet Musa (علیہ السلام) prayed Allah that they may be inflicted with some painful punishment so that it serves as a lesson to his people and to their descendants. Allah first sent a storm upon them. According to great commentators, this was a flood. All the lands and houses of the people of Pharaoh were filled and surrounded by the water leaving for them no place for farming and living in their homes. The strange thing about it was that the lands and houses of the Israe¬lites were not affected by the water of the flood. In a state of great distress they came to the prophet Musa (علیہ السلام) and requested him to pray Allah for their relief from this calamity. They promised that if they are relieved from the flood they would embrace faith in Allah and let the Israelites go with him from Egypt. The prayer of the prophet was acceded to and the storm subsided. It is reported that their fields were more fertile and productive than before. Again they did not keep their promise and said that the storm was not a punishment from Allah. Rather it came to their benefit and the increase in the produce was the result of the flood and that Musa (علیہ السلام) had nothing to do with it. A period of respite was given to them to reflect and realize their error. After a period of one month another punishment was sent to them in the form of locusts which ate up all the crops and fruits. Some reports say that the locusts devoured even their doors and roofs made of wood and other things of their houses. Again they were surprised to notice that the locusts did not do any harm to the houses and fields of the Israelites which were quite close to them. Once again they cried for help and implored to the prophet Musa (علیہ السلام) to pray his Lord for taking away this punishment from them and that they make firm promise to believe in him and free the Israelites after their relief. The prophet Musa (علیہ السلام) prayed Allah for their relief again and they got rid of this chastisement. Seeing that they were left with enough grain to suffice them for one year, they turned against their promise and showed arrogance as before. Once again, a period of peace and relief followed. The third punishment came to them of &Qummal& rendered here as pest. Qummal in Arabic is used for &louse& as well as for an insect which eats up grain. It is possible that both kinds of insects were sent to them, that is, small pests started to eat up their grain while equally large number of lice ate up even their hair and eyelashes. Exasperated as they were, they came again to prophet Musa (علیہ السلام) and asked him to pray Allah for their riddance, promising again their acceptance of the true faith and release of the Israelites. He prayed Allah for their relief and Allah relieved them of this punishment too. The fourth punishment was of the frogs. The frogs were created in such a large number in their houses that they covered them up to their necks. The frogs covered them in their beds when they came to sleep. All of their cooking pans and utensils and their household were full of frogs. Being highly disgusted with this situation they came again to prophet Musa (علیہ السلام) with all their old promises, and asked him to pray for their deliverance. This time also they were relieved of this punishment. They were given enough time to correct themselves but those who incur Allah&s wrath are deprived of positive thinking. This time when they were in peace they said that they were sure that Musa (علیہ السلام) was a sorcerer and not a messenger of Allah. Those mishaps to them were the effect of his sorcery. After a month of relief the next punishment visiting them was that of blood. Everything of their use turned into blood. Their drinks, their food and their water became all blood before they could use them. As they took out water from the wells or tanks it turned into blood. History has reported it was strange that whenever the Egyptians and the Israelites sat together for meal the morsel of food taken by the Egyptian became all blood, while the one taken by an Israelite did not change. This punishment too lasted for seven days. They were relieved of this punishment through the prayer of the Prophet Musa (علیہ السلام) after their usual false promises. The people of Pharaoh were subjected to the above five punish¬ments one after another but they persisted in their arrogance and showed no sign of taking lesson from these warnings.

خلاصہ تفسیر (جب ایسی سرکشی اختیار کی تو) پھر ہم نے ( ان دو بلاؤں کے علاوہ یہ بلائیں مسلط کیں کہ (٣) ان پر ( کثرت بارش کا) طوفان بھیجا ( جس سے مال وجان تلف ہونے کا اندیشہ ہوگیا) اور ( اس سے گھبرائے تو موسیٰ (علیہ السلام) سے عہد و پیمان کیا کہ ہم سے یہ بلا دور کر ایئے تو ہم ایمان لائیں اور جو آپ کہیں اطاعت کریں پھر جب وہ بلا دور ہوئی اور دل خواہ غلہ وغیرہ نکلا پھر بےفکر ہوگئے کہ اب تو جان بھی بچ گئی مال بھی خوب ہوگا ور بدستور اپنے کفر و طغیان پر اڑے رہے تو ہم نے ان کے کھیتوں پر (٤) ٹڈیاں ( مسلط کیں) اور ( جب پھر کھیتوں کو تباہ ہوتے دیکھا تو گھبرا کر پھر ویسے ہی عہد و پیمان کئے اور پھر جب آپ کی دعا سے وہ بلا دور ہوئی اور غلہ وغیرہ تیار کرکے اپنے گھر لے آئے پھر بےفکر ہوگئے کہ اب تو غلہ قابو میں آگیا اور بدستور اپنے کفر و مخالفت پر جمے رہے تو ہم نے اس غلہ میں (٥) گھن کا کیڑا (پیدا کردیا) اور (جب گھبرا کر پھر اسی طرح عہد و پیمان کرکے دعا کرائی اور وہ بلا بھی دور ہوئی اور اس سے مطمئن ہوگئے کہ اب پیس کوٹ کر کھائیں پئیں گے، پھر وہی کفر اور وہی مخالفت، تو اس وقت ہم نے ان کے کھانے کو یوں بےلطف کردیا کہ ان پر (٦) مینڈک ( ہجوم کرکے ان کے کھانے کے برتنوں میں ہنڈیوں میں گرنا شروع ہوئے جس سے سب کھانا غارت ہو اور ویسے بھی گھر میں بیٹھنا مشکل کردیا) اور (پینا یوں بےلطف کردیا کہ (٧) ان کا پانی) خون (ہوجاتا، منہ میں لیا اور خون بنا، غرض ان پر یہ بلائیں مسلط ہوئیں) کہ یہ سب ( موسیٰ (علیہ السلام) کے) کھلے کھلے معجزے تھے ( کہ ان کی تکذیب و مخالفت پر ان کا ظہور ہوا اور یہ ساتوں عصا اور ید بیضاء ملا کر آیات تسعہ کہلاتے ہیں) سو ( چاہئے تھا کہ ان معجزات وآیات قہر کو دیکھ کر ڈھیلے پڑجاتے مگر) وہ (پھر بھی) تکبر ( ہی) کرتے رہے اور وہ لوگ کچھ تھے ہی جرائم پیشہ ( کہ اتنی سختی پر بھی باز نہ آتے تھے) اور جب ان پر کوئی عذاب ( مذکورہ بلاؤں میں سے) واقع ہوتا تو یوں کہتے، اے موسیٰ ! ہمارے لئے اپنے رب سے اس بات کی دعا کر دیجئے جس کا اس نے آپ سے عہد کر رکھا ہے ( وہ بات قہر کا دور کردینا ہے ہمارے باز آجانے پر، ہم ضرور ضرور آپ کے کہنے سے ایمان لے آئیں گے اور ہم بنی اسرائیل کو بھی رہا کرکے آپ کے ہمراہ کردیں گے پھر جب ( ببرکت دعائے موسیٰ (علیہ السلام) ان سے اس عذاب کو ایک خاص وقت تک کہ ان کو پہنچنا تھا ہٹا دیتے تو وہ فورا ہی عہد شکنی کرنے لگتے ( جیسا اوپر بیان ہوا) پھر ( جب ہر ہر طرح دیکھ لیا کہ وہ اپنی شرارت سے باز ہی نہیں آتے تب اس وقت) ہم نے ان سے ( پورا) بدلہ لیا یعنی ان کو دریا میں غرق کردیا ( جیسا دوسری جگہ ہے) اس سبب سے کہ وہ ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے اور ان سے بالکل ہی بےتوجہی کرتے تھے ( اور تکذیب و غفلت بھی ایسی ویسی نہیں بلکہ اصرار وعناد کے ساتھ کہ اطاعت کا وعدہ کرلیں اور توڑدیں) ۔ معارف و مسائل : آیات متذکرہ میں قوم فرعون اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا باقی قصہ مذکور ہے کہ فرعون کے جادوگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ میں ہار گئے اور ایمان لائے، مگر قوم فرعون اسی طرح اپنی سرکشی اور کفر پر جمی رہی۔ اس واقعہ کے بعد تاریخی روایات کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بیس (20) سال مصر میں مقیم رہ کر ان لوگوں کو اللہ کا پیغام سناتے اور حق کی طرف دعوت دیتے تھے، اور اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو نو ٩ معجزات عطا فرمائے، جن کے ذریعہ قوم فرعون کو متنبہ کر کے راستہ پر لانا مقصود تھا، قرآن کریم میں وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰي تِسْعَ اٰيٰتٍ میں انہی نو معجزات کا بیان ہے۔ ان نو معجزات میں سے سب سے پہلے دو معجزے، عصا اور ید بیضاء کا ظہور فرعون کے دربار میں ہوا اور انہی دو معجزوں کے ذریعہ جادوگروں کے مقابلہ میں موسیٰ (علیہ السلام) نے فتح حاصل کی، اس کے بعد ایک معجزہ وہ تھا جس کا ذکر اس سے پہلی آیات میں آچکا ہے کہ قوم فرعون پر ان کی ضد اور کجروی کے سبب قحط مسلط کردیا گیا، ان کی زمینوں اور باغوں میں پیداوار بہت گھٹ گئی جس سے یہ سخت پریشان ہوئے اور بالآخر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے قحط رفع ہونے کے لئے دعا کرائی، مگر جب قحط رفع ہوگیا تو پھر اپنی سرکشی میں مبتلا ہوگئے اور لگے یہ کنے کہ یہ قحط تو موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کی نحوست کے سبب ہوا تھا، اب جو قحط رفع ہوا یہ ہمارے حال کا تقاضا ہے) باقی چھ آیات و معجزات کا بیان مذکورہ آیتوں میں ہے : فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوْفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ اٰيٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ ، یعنی پھر ہم نے ان پر طوفان بھیجا اور ٹڈیاں اور گھن کا کیڑا اور مینڈک اور خون۔ اس میں قوم فرعون پر مسلط ہونے والے پانچ قسم کے عذابوں کا ذکر ہے اور ان کو اس آیت میں اٰيٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ فرمایا ہے جس کے معنی حضرت عبداللہ بن عباس کی تفسیر کے مطابق یہ ہیں کہ ان میں سے ہر عذاب ایک معین وقت تک رہا پھر موقوف ہوگیا، اور کچھ مہلت دی گئی اس کے بعد دوسرا اور تیسرا عذاب، اسی طرح الگ الگ ہو کر ان پر آیا۔ اسی کو ترجمہ شیخ الہند میں اختیار کیا گیا ہے۔ ابن منذر نے حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت سے نقل کیا ہے کہ ان میں سے ہر عذاب قوم فرعون پر سات روز تک مسلط رہتا تھا، ہفتہ کے دن شروع ہو کر دوسرے ہفتہ کے دن رفع ہوجاتا اور پھر تین ہفتے کی مہلت ان کو دی جاتی تھی۔ امام بغوی نے بروایت ابن عباس نقل کیا ہے کہ جب پہلی مرتبہ قوم فرعون پر قحط کا عذاب مسلط ہوا، اور موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے رفع ہوگیا مگر یہ لوگ اپنی سرکشی سے باز نہ آئے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار ! یہ ایسے سرکش لوگ ہیں کہ عذاب قحط سے بھی متاثر نہ ہوئے اور معاہدہ کر کے پھرگئے، اب ان پر کوئی ایسا عذاب مسلط فرمادیجئے جو ان کے لئے دردناک ہو، اور ہماری قوم کے لئے ایک وعظ کا کام دے اور بعد میں آنے والوں کے لئے درس عبرت بنے، تو اللہ تعالیٰ نے پہلے ان پر طوفان کا عذاب بھیج دیا۔ مشہور مفسرین کے نزدیک طوفان سے مراد پانی کا طوفان ہے، قوم فرعون کے سب گھروں اور زمینوں کو پانی کے طوفان نے گھیر لیا نہ کہیں بیٹھنے لیٹنے کی جگہ رہی نہ زمین میں کچھ کاشت وغیرہ کرنے کی، اور عجیب بات یہ تھی کہ قوم فرعون کے مکانات اور زمینوں کے ساتھ ہی بنی اسرئیل کے مکانات اور زمینیں تھیں، بنی اسرائیل کے مکانات اور زمینیں سب بدستور خشک تھیں کہیں طوفان کا پانی نہ تھا اور قوم فرعون کے سارے گھر اور زمین اس طوفان سے لبریز تھے۔ اس طوفان سے گھبرا کر قوم فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) سے التجا کی کہ اپنے پروردگار سے دعا کیجئے کہ یہ عذاب ہم سے دور فرمادیں تو ہم ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو آزاد کردیں گے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے یہ طوفان دور ہوا۔ اور اس کے بعد ان کی کھیتیاں پہلے سے زیادہ ہری بھری ہوگئیں، تو اب یہ کہنے لگے کہ درحقیقت یہ طوفان کوئی عذاب نہیں تھا بلکہ ہمارے فائدے کے لئے آیا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری زمینوں کی پیداوار بڑھ گئی، اس لئے موسیٰ (علیہ السلام) کا اس میں کچھ دخل نہیں اور یہ کہہ کر سب عہد و پیمان نظر انداز کردیئے۔ اس طرح یہ لوگ ایک مہینہ امن و عافیت سے رہتے رہے، اللہ نے ان کو غور وفکر کی مہلت دی مگر یہ ہوش میں نہ آئے تو اب دوسرا عذاب ٹڈیوں کا ان پر مسلط کردیا گیا، ٹڈی دل نے ان کی ساری کھیتیوں اور باغوں کو کھالیا، بعض روایات میں ہے کہ لکڑی کے دروازوں اور چھتوں کو اور گھریلو سب سامان کو ٹڈیاں کھا گئیں، اور اس عذاب کے وقت بھی موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ معجزہ سامنے تھا کہ یہ سارا ٹڈی دل صرف قبطی یعنی قوم فرعون کے باغوں، کھیتیوں، گھروں پر چھایا ہوا تھا، پاس ملے ہوئے اسرائیلیوں کے مکانات، زمینیں، باغ سب اس سے محفوظ تھے۔ اس وقت پھر قوم فرعون چلا اٹھی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے درخواست کی کہ اس مرتبہ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کردیں یہ عذاب، ہٹ جائے تو ہم پختہ وعدہ کرتے ہیں کہ ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو آزاد کردیں گے، موسیٰ (علیہ السلام) نے پھر دعا کی اور یہ عذاب ہٹ گیا، مگر عذاب کے ہٹنے کے بعد انہوں نے دیکھا کہ ہمارے پاس اب بھی اتنا ذخیرہ غلہ کا موجود ہے کہ ہم سال بھر کھا سکتے ہیں تو پھر سرکشی اور عہد شکنی پر آمادہ ہوگئے، نہ ایمان لائے نہ بنی اسرائیل کو آزاد کیا۔ ایک مہینہ پھر اللہ تعالیٰ نے مہلت دی، اس مہلت کے بعد تیسرا عذاب قمل کا مسلط ہوا، لفظ قمل اس جوں کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو انسان کے بالوں اور کپڑوں میں پیدا ہوجاتی ہے، اور اس کیڑے کو بھی کہتے ہیں جو غلہ میں لگ جاتا ہے جس کو گھن بھی کہا جاتا ہے۔ قمل کا یہ عذاب ممکن ہے کہ دونوں قسم کے کیڑوں پر مشتمل ہو کہ غلوں میں گھن لگ گیا اور انسانوں کے بدن اور کپڑوں میں جوؤں کا طوفان امڈ آیا۔ غلوں کا حال اس گھن نے ایسا کردیا کہ دس سیر گیہوں پیسنے کے لئے نکالیں تو اس میں تین سیر آٹا بھی نہ نکلے۔ اور جوؤں نے ان کے بال اور پلکیں اور بھویں تک کھالیں۔ آخر پھر قوم فرعون بلبلا اٹھی اور موسیٰ (علیہ السلام) سے فریاد کی کہ اب کی مرتبہ ہرگز وعدہ سے نہ پھریں گے آپ دعا کردیں، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے یہ عذاب بھی ٹل گیا، مگر جن بدنصیبوں کو ہلاک ہی ہونا تھا وہ کہاں عہد کو پورا کرتے، پھر عافیت ملتے ہی سب کچھ بھول گئے اور منکر ہوگئے۔ پھر ایک ماہ کی مہلت ایسی آرام و راحت کے ساتھ ان کو دی گئی مگر اس مہلت سے بھی کوئی فائدہ نہ اٹھایا تو چوتھا عذاب مینڈکوں کا ان پر مسلط کردیا گیا، اور اس کثرت سے مینڈک ان کے گھروں میں پیدا ہوگئے کہ جہاں بیٹھتے تو ان کے گلے تک مینڈکوں کا ڈھیر لگ جاتا، سونے کے لئے لیٹتے تو سارا بدن ان سے دب جاتا کروٹ لینا ناممکن ہوجاتا، پکتی ہوئی ہنڈیا میں، رکھے ہوئے کھانے میں، آٹے میں اور ہر چیز میں مینڈک بھر جاتے، اس عذاب سے عاجز آکر سب رونے لگے اور پہلے سے پختہ وعدوں کے ساتھ معاہدہ کیا تو پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے یہ عذاب بھی رفع ہوگیا۔ مگر جس قوم پر قہر الہی مسلط ہو اس کی عقل اور ہوش و حواس کام نہیں دیتے، اس واقعہ کے بعد بھی عذاب سے نجات پا کر یہ پھر اپنی ہٹ دھرمی پر جم گئے اور کہنے لگے کہ اب تو ہمیں اور بھی یقین ہوگیا۔ موسیٰ (علیہ السلام) بڑے جادوگر ہیں یہ سب ان کے جادو کے کرشمے ہیں رسول نبی کچھ نہیں۔ پھر ایک ماہ کی مہلت اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی مگر اس مہلت سے بھی کوئی کام نہ لیا تو پانچواں عذاب خون کا مسلط کردیا گیا کہ ان کے ہر کھانے اور پینے کی چیز خون بن گئی، کنویں سے، حوض سے، جہاں کہیں سے پانی نکالیں خون بن جائے، کھانا پکانے کے لئے رکھیں خون بن جائے اور ان سب عذابوں میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ معجزہ مسلسل تھا کہ ہر عذاب سے اسرئیلی حضرات بالکل مامون و محفوظ تھے، خون کے عذاب کے وقت قوم فرعون کے لوگوں نے بنی اسرائیل کے گھروں سے پانی مانگا جب وہ ان کے ہاتھ میں گیا تو خون ہوگیا، ایک ہی دسترخوان پر بیٹھ کر قبطی اور اسرائیلی کھانا کھاتے تو جو لقمہ اسرائیلی اٹھاتا وہ اپنی حالت پر کھانا ہوتا اور جو لقمہ یا پانی کا گھونٹ قبطی کے منہ میں جاتا خون بن جاتا، یہ عذاب بھی بدستور سابق سات روز رہا۔ بالآخر پھر یہ بدکار بدعہد قوم چلا اٹھی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے فریاد کی اور پہلے سے زیادہ موثق وعدے کئے، دعا کی گئی عذاب ہٹ گیا مگر یہ لوگ اپنی اسی ہٹ دھرمی پر جمے رہے، اس طرح یہ پانچ عذاب مسلسل ان پر آتے رہے مگر یہ لوگ اپنی گمراہی پر قائم رہے اسی کو قرآن کریم نے فرمایا : فَاسْتَكْبَرُوْا وَكَانُوْاقَوْمًا مُّجْرِمِيْنَ یعنی ان لوگوں نے تکبر سے کام لیا اور یہ لوگ بڑے عادی مجرم تھے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاَرْسَلْنَا عَلَيْہِمُ الطُّوْفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ اٰيٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ۝ ٠ ۣ فَاسْـتَكْبَرُوْا وَكَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِيْنَ۝ ١٣٣ رسل ( ارسال) والْإِرْسَالُ يقال في الإنسان، وفي الأشياء المحبوبة، والمکروهة، وقد يكون ذلک بالتّسخیر، كإرسال الریح، والمطر، نحو : وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام/ 6] ، وقد يكون ببعث من له اختیار، نحو إِرْسَالِ الرّسل، قال تعالی: وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام/ 61] ، فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 53] ، وقد يكون ذلک بالتّخلية، وترک المنع، نحو قوله : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم/ 83] ، والْإِرْسَالُ يقابل الإمساک . قال تعالی: ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر/ 2] ( ر س ل ) الرسل الارسال ( افعال ) کے معنی بھیجنے کے ہیں اور اس کا اطلاق انسان پر بھی ہوتا ہے اور دوسری محبوب یا مکروہ چیزوں کے لئے بھی آتا ہے ۔ کبھی ( 1) یہ تسخیر کے طور پر استعمال ہوتا ہے جیسے ہوا بارش وغیرہ کا بھیجنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَرْسَلْنَا السَّماءَ عَلَيْهِمْ مِدْراراً [ الأنعام/ 6] اور ( اوپر سے ) ان پر موسلادھار مینہ برسایا ۔ اور کبھی ( 2) کسی بااختیار وار وہ شخص کے بھیجنے پر بولا جاتا ہے جیسے پیغمبر بھیجنا چناچہ قرآن میں ہے : وَيُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً [ الأنعام/ 61] اور تم لوگوں پر نگہبان ( فرشتے ) تعنیات رکھتا ہے ۔ فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 53] اس پر فرعون نے ( لوگوں کی بھیڑ ) جمع کرنے کے لئے شہروں میں ہر کارے دوڑائے ۔ اور کبھی ( 3) یہ لفظ کسی کو اس کی اپنی حالت پر چھوڑے دینے اور اس سے کسی قسم کا تعرض نہ کرنے پر بولاجاتا ہے ہے جیسے فرمایا : أَلَمْ تَرَ أَنَّا أَرْسَلْنَا الشَّياطِينَ عَلَى الْكافِرِينَ تَؤُزُّهُمْ أَزًّا [ مریم/ 83]( اے پیغمبر ) کیا تم نے ( اس باٹ پر ) غور نہیں کیا کہ ہم نے شیطانوں کو کافروں پر چھوڑ رکھا ہے کہ وہ انہیں انگینت کر کے اکساتے رہتے ہیں ۔ اور کبھی ( 4) یہ لفظ امساک ( روکنا ) کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : ما يَفْتَحِ اللَّهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلا مُمْسِكَ لَها وَما يُمْسِكْ فَلا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ [ فاطر/ 2] تو اللہ جو اپنی رحمت دے لنگر لوگوں کے لئے ) کھول دے تو کوئی اس کا بند کرنے والا نہیں اور بندے کرے تو اس کے ( بند کئے ) پیچھے کوئی اس کا جاری کرنے والا نہیں ۔ طُّوفَانُ والطُّوفَانُ : كلُّ حادثة تحیط بالإنسان، وعلی ذلک قوله : فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الطُّوفانَ [ الأعراف/ 133] ، وصار متعارفا في الماء المتناهي في الکثرة لأجل أنّ الحادثة التي نالت قوم نوح کانت ماء . قال تعالی: فَأَخَذَهُمُ الطُّوفانُ [ العنکبوت/ 14] ، وطَائِفُ القوسِ : ما يلي أبهرها «2» ، والطَّوْفُ كُنِيَ به عن العَذْرَةِ. الطوفان وہ مصیبت یا حادثہ جو انسان کو چاروں طرف سے گھیرے اس بنا پر آیت کریمہ ؛فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الطُّوفانَ [ الأعراف/ 133] تو ہم ان پر طوفان ( وغیرہ کتنی کھلی ہوئی نشانیاں بھیجیں ۔ میں طوفان بمعنی سیلاب بھی ہوسکتا ہے ۔ کیونکہ نوح (علیہ السلام) کی قوم پر جو عذاب آیا تھا ۔ وہ پانی کی صورت میں ہی تھا اور دوسری جگہ فرمایا : فَأَخَذَهُمُ الطُّوفانُ [ العنکبوت/ 14] پھر ان کو طوفان کے عذاب ) نے آپکڑا ۔ طائف القوس خانہ کمان جو گوشہ اور ابہر کے درمیان ہوتا ہے ۔ الطوف ( کنایہ ) پلیدی ۔ جرد الجَرَاد معروف، قال تعالی: فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الطُّوفانَ وَالْجَرادَ وَالْقُمَّلَ [ الأعراف/ 133] ، وقال : كَأَنَّهُمْ جَرادٌ مُنْتَشِرٌ [ القمر/ 7] ، فيجوز أن يجعل أصلا فيشتق من فعله : جَرَدَ الأرض، ويصح أن يقال : إنما سمّي ذلک لجرده الأرض من النبات، يقال : أرض مَجْرُودَة، أي : أكل ما عليها حتی تجرّدت . وفرس أَجْرَد : منحسر الشعر، وثوب جَرْدٌ: خلق، وذلک لزوال وبره وقوّته، وتَجَرَّدَ عن الثوب، وجَرَّدْتُهُ عنه، وامرأة حسنة المتجرد . وروي : «جرّدوا القرآن» «2» أي : لا تلبسوه شيئا آخر ينافيه، وانْجَرَدَ بنا السیر «3» ، وجَرِدَ الإنسان «4» : شري جلده من أكل الجراد . ( ج ر د ) الجراد ۔ ٹڈی اس کا واحد جرادۃ ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمُ الطُّوفانَ وَالْجَرادَ وَالْقُمَّلَ [ الأعراف/ 133] ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈیاں اور جوئیں ۔۔۔ بھیجیں ۔ كَأَنَّهُمْ جَرادٌ مُنْتَشِرٌ [ القمر/ 7] الغرض جراد کے معنی ٹڈی کے ہیں ۔ اس میں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ اصل ہو اور اس سے جرد الارض مشتق ہو ۔ جس کے معنی میں ٹڈی زمین پر سے گھاس چٹ کرگئی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جراد خود جردے مشتق ہو جس کے معنی ننگا کرنے کے میں اور چونکہ ٹڈی زمین کی روئیدگی کو کھا کر اسے ننگا اور صاف کردیتی ہے اس لئے ٹڈی کو جراد کہا گیا ہے اور ارض مجرودۃ اس زمین کو کہا جاتا ہے جس کی نباتات کو ٹڈیوں نے کھا کر صاف کردیا ہو۔ فرس اجرد بےبال یا چھوٹے بالوں والا گھوڑا ثوب جرد پرانا کپڑا ۔ کیونکہ اس کی روئیں جھڑجاتی ہے اور کمزور ہوجاتا ہے ۔ تجرد عن الثوب ننگا ہونا ۔ کپڑے اتار دینا جردہ ( عن الثیاب ) ننگا کرنا ۔ امرءۃ حسنہ المتجود یعنی خوب صورت بدن است وقت برمنگی ایک روایت میں ہے (61) جرد والقرآن قرآن کو علیحدہ رکھو یعنی اس کے ساتھ کوئی چیز خلط ملط نہ کرو ۔ انجرد بنا السیر ۔ دراز گروید سفر ۔ جرد الانسان خراج بر آروپوست انسان از خوردن ملخ یعنی ملخ کے کاٹنے سے جسم پر پتی اچھلنا ۔ ( ج ر ز) جرز ۔ وہ زمین جس میں کچھ پیدا نہ ہوتا ہو فرمایا ؛ صَعِيداً جُرُزاً [ الكهف/ 8] بنجر میدان ۔۔ یعنی جس پر گھاس درخت وغیرہ کوئی چیز نہ ہو ۔ ارض مجروزۃ زمین جس سے گھاس چر کر ختم کردیا گیا ہو ۔ الجروز جو دسترخوان کو صاف کرڈٖالے ۔ مثل مشہور ہے ۔ لا ترضی شانیہ الا بجرزہ یعنی اس کے دشمن اس کا استیصال کئے بغیر خوش نہیں ہوں گے ۔ الجارز سخت کھانسی ( اس میں معنی جرز کا تصور پایا جاتا ہے ۔ الجراز تلوار سے کاٹنا ۔ سیف جراز شمشیر بزان قمل القُمَّلُ : صغار الذّباب . قال تعالی: وَالْقُمَّلَ وَالضَّفادِعَ وَالدَّمَ [ الأعراف/ 133] . والْقَمْلُ معروف، ورجل قَمِلٌ: وقع فيه القَمْلُ ، ومنه قيل : رجل قَمِلٌ ، وامرأة قَمِلَةٌ: صغیرة قبیحة كأنّها قَمْلَةٌ أو قُمَّلَةٌ. ( ق م ل ) القمل چھوٹی مکھیاں ۔ قرآن پاک میں اور چھوٹی مکھیاں اور مینڈک اور خون ۔ القمل کے معنی ہیں جوں اور رجل قمل اس آدمی کو کہتے ہیں کے جس کے جوئیں پڑجائیں اور اسی سے چھوٹے سے بدصورت مرد یا عورت قمل یا قملتہ کہا جاتا ہے گویا وہ جوں یا چھوٹی مکھی کی طرح ہے ۔ ( الضفادع) ، جمع ضفدع بوزن درهم، ويجوز کسر الدال، والضفدع مؤنّث، ويفرّق بين ذكره وأنثاه بالوصف فيقال ضفدع ذکر وضفدع أنثی. وفي القاموس الضفدع کزبرج بکسر الدال وجعفر وجندب بضمّ الضاد والدال ودرهم۔ وهذا أقلّ أو مردود۔ الواحدة بهاء، والجمع ضفادع وضفادي . دم أصل الدّم دمي، وهو معروف، قال اللہ تعالی: حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ [ المائدة/ 3] ، وجمعه دِمَاء، وقال : لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] ، وقد دَمِيَتِ الجراحةُ ، وفرس مَدْمِيٌّ: شدید الشّقرة، کالدّم في اللّون، والدُّمْيَة صورة حسنة، وشجّة دامية . ( د م ی ) الدم ۔ خون ۔ یہ اصل میں دمامی تھا ( یاء کو برائے تخفیف حذف کردیا ہے ) قرآن میں ہے :۔ :۔ حرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ [ المائدة/ 3] تم مردا جانور اور ( بہتا ) لہو یہ سب حرام ہیں ۔ دم کی جمع دمآء ہے ۔ قرآن میں ہے لا تَسْفِكُونَ دِماءَكُمْ [ البقرة/ 84] کہ آپس میں کشت و خون نہ کرنا ۔ دمیت ( د) الجراحۃ ۔ زخم سے خون بہنا ۔ فرس مدعی ۔ خون کی طرح نہایت سرخ رنگ کا گھوڑا ۔ الدمیۃ ۔ گڑیا ( جو خون کی مانند سرخ اور منقوش ہو ) شکجۃ دامیہ ۔ سر کا زخم جس سے خون بہہ رہا ہو ۔ ( مفصّلات) جمیع مفصّلة مؤنّث مفصّل اسم مفعول به ( فصّل) الرباعيّ ، وزنه مفعّل بضمّ المیم وفتح العین . الاسْتِكْبارُ والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة . والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين : أحدهما : أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود . والثاني : أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] . ( ک ب ر ) کبیر اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔ الاستکبار ( اسعاے ل ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مذموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة/ 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ جرم أصل الجَرْم : قطع الثّمرة عن الشجر، ورجل جَارِم، وقوم جِرَام، وثمر جَرِيم . والجُرَامَة : ردیء التمر المَجْرُوم، وجعل بناؤه بناء النّفاية، وأَجْرَمَ : صار ذا جرم، نحو : أثمر وألبن، واستعیر ذلک لکل اکتساب مکروه، ولا يكاد يقال في عامّة کلامهم للكيس المحمود، ومصدره : جَرْم، قوله عزّ وجل : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] ومن جَرَم، قال تعالی: لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ [هود/ 89] ، فمن قرأ بالفتح فنحو : بغیته مالا، ومن ضمّ فنحو : أبغیته مالا، أي أغثته . وقوله عزّ وجلّ : وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا [ المائدة/ 8] ، وقوله عزّ وجل : فَعَلَيَّ إِجْرامِي[هود/ 35] ، فمن کسر فمصدر، ومن فتح فجمع جرم . واستعیر من الجرم۔ أي : القطع۔ جَرَمْتُ صوف الشاة، وتَجَرَّمَ اللیل ( ج ر م ) الجرم ( ض) اس کے اصل معنی درخت سے پھل کاٹنے کے ہیں یہ صیغہ صفت جارم ج جرام ۔ تمر جریم خشک کھجور ۔ جرامۃ روی کھجوریں جو کاٹتے وقت نیچے گر جائیں یہ نفایۃ کے وزن پر ہے ـ( جو کہ ہر چیز کے روی حصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ) اجرم ( افعال ) جرم دلا ہونا جیسے اثمر واتمر والبن اور استعارہ کے طور پر اس کا استعمال اکتساب مکروہ پر ہوتا ہے ۔ اور پسندیدہ کسب پر بہت کم بولا جاتا ہے ۔ اس کا مصدر جرم ہے چناچہ اجرام کے متعلق فرمایا : إِنَّ الَّذِينَ أَجْرَمُوا کانُوا مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 29] جو گنہگار ( یعنی کفاب میں وہ دنیا میں) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے ۔ اور جرم ( ض) کے متعلق فرمایا :۔ لا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقاقِي أَنْ يُصِيبَكُمْ [هود/ 89] میری مخالفت تم سے کوئی ایسا کا م نہ کر اور کہ ۔۔ تم پر واقع ہو ۔ یہاں اگر یجرمنکم فتہ یا کے ساتھ پڑھا جائے تو بغیتہ مالا کی طرح ہوگا اور اگر ضمہ یا کے ساتھ پر ھا جائے تو ابغیتہ مالا یعنی میں نے مال سے اس کی مدد کی ) کے مطابق ہوگا ۔ وَلا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلى أَلَّا تَعْدِلُوا [ المائدة/ 8] اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے ۔ کہ انصاف چھوڑ دو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ فَعَلَيَّ إِجْرامِي[هود/ 35] تو میرے گناہ کا وبال مجھ پر ۔ میں ہوسکتا ہے کہ اجرام ( بکسرالہمزہ ) باب افعال سے مصدر ہو اور اگر اجرام ( بفتح الہمزہ ) پڑھا جائے تو جرم کی جمع ہوگی ۔ اور جرم بمعنی قطع سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے ۔ حرمت صوف الشاۃ میں نے بھیڑ کی اون کاٹی تجرم اللیل رات ختم ہوگئی ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٣٣) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے لیے بددعا کی، اللہ تعالیٰ نے آسمان سے مسلسل بارش برسائی جو ہفتہ سے لے کر ہفتہ تک برستی تھی، اور رات دن میں کسی وقت بھی بند نہ ہوتی تھی اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان پر ٹڈیاں مسلط کیں کہ پھل اور سبزیوں میں سے جو پیدا ہوتا تھا، سب کھاجاتیں تھی اس کے بعد ان پر گھن کا کیڑا مسلط کردیا گیا کہ ٹڈیوں سے جو کچھ رہ گیا تھا وہ انہوں نے صاف کردیا اور اس کے بعد ان پر اس قدر مینڈک مسلط کیے کہ رہنا ہی دشوار ہوگیا۔ اور پھر ان پر اس قدر خون کی آفت مسلط کی کہ تمام نہروں اور کنوؤں میں خون ہی خون نظرآنے لگا یہ واضح معجزے ان پر ظاہر ہوئے ہر ایک معجزہ کے درمیان دو دو مہینوں کا وقفہ تھا مگر پھر بھی انہوں نے ایمان سے روگردانی کی اور ایمان نہیں لائے وہ درحقیقت مشرک تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٣٣ (فَاَرْسَلْنَا عَلَیْہِمُ الطُّوْفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ ) ان پر طوفان باد و باراں بھی آیا۔ ٹڈی دل ان کی فصلوں کو چٹ کر جاتی تھیں۔ چچڑیاں ‘ جویں ‘ کھٹمل اور پسو ان کو کاٹتے تھے اور ان کا خون چوستے تھے اور ان کے اناج میں کثرت سے سرسریاں پڑجاتیں۔ مینڈک ان کے گھروں ‘ بستروں اور برتنوں وغیرہ میں ہر جگہ پیدا ہوجاتے تھے۔ اسی طرح ان پر خون کی بارش بھی ہوتی تھی اور کھانے پینے کی چیزوں میں بھی خون شامل ہوجاتا تھا۔ (اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍقف) یہ ساری مصیبتیں اور آزمائشیں یکبارگی ان پر مسلط نہیں ہوگئی تھیں ‘ بلکہ وقفے وقفے سے یکے بعد دیگرے آتی رہیں ‘ کہ شاید کسی ایک مصیبت کو دیکھ کر وہ راہ راست پر آجائیں اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کو قبول کرلیں۔ (فَاسْتَکْبَرُوْا وَکَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ ) ۔ اگلی آیت سے پتا چل رہا ہے کہ بعد میں ان کی یہ اکڑ ختم ہوگئی تھی اور عذاب کو ختم کرانے کے لیے وہ لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی منت سماجت کرنے پر بھی تیار ہوگئے تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

95. This probably refers to the torrential rain accompanied by hailstorm. While we do not totally exclude the possibility of other kinds of storms, we are inclined to the view, that it probably signifies hailstorm since the Bible specifically mentions that. (See Exodus 9: 23-4 - Ed.) 96. The word used in the text - qummal - denotes lice, fleas, small locusts, mosquitoes, and weevil. This rather general term has been used in the Qur'an probably to suggest that while men were afflicted with lice and fleas, weevil destroyed the barns. (Cf. Exodus 7-12. See also Tafhim al-ur'an, (al-Zukhruf 43, n. 43.)

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :95 غالباً بارش کا طوفان مراد ہے جس میں اولے بھی برسے تھے ۔ اگرچہ طوفان دوسری چیزوں کا بھی ہو سکتا ہے ، لیکن بائیبل میں ژالہ باری کے طوفان کا ہی ذکر ہے اس لیے ہم اسی معنی کو ترحیح دیتے ہیں ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :96 اصل میں لفظ قُمَّل استعمال ہوا ہے جس کے کئی معنی ہیں ۔ جُوں مکھی ، چھوٹی ٹڈی ، مچھر ، سُرسُری وغیرہ غالباً یہ جامع لفظ اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ بیک وقت جُوؤں اور مچھروں نے آدمیوں پر اور سُرسُریوں ( گُھن کے کیڑوں ) نے غلہ کے ذخیروں پر حملہ کیا ہوگا ۔ ( تقابل کے لیے ملاحظہ ہو بائیبل کی کتاب خروج ، باب ۷تا ١۲ ، نیز الزُخرُف ، حاشیہ ٤۳ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

58: یہ مختلف قسم کے عذاب تھے جو یکے بعد دیگرے فرعون کی قوم پر مسلط ہوتے رہے، پہلے طوفان آیا جس میں ان کی کھیتیاں بہہ گئیں اس کے بعد جب انہوں نے ایمان لانے کا وعدہ کرکے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے دعا کروائی اور کھیت بحال ہوئے اور پھر بھی وہ ایمان نہ لائے تو ٹڈی دل نے کھیتوں کو برباد کرڈالا، پھر وہی وعدے کئے، اور یہ بلا دور ہوئی اور خوش حالی آنے لگی تو یہ پھر مطمئن ہو کر بیٹھ گئے اور ایمان نہ لائے توان کی پیداوار کو گھن لگادیا گیا، پھر وہی ساری داستان دہرائی گئی اور یہ پھر بھی نہ مانے تو مینڈکوں کی اتنی کثرت ہوگئی کہ وہ کھانے کے برتنوں میں نمودار ہوتے اور سارے کھانے کو خراب کردیتے، دوسری طرف پینے کے پانی میں ہر جگہ خون نکلنے لگا اور پانی پینا دوبھر ہوگیا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:133) الجراد۔ اسم جنس۔ ٹڈی۔ ملخ۔ جرارۃ واحد۔ القمل۔ اسم جنس۔ غلہ کو کھا جانے والا کیڑا۔ چچڑی کی جنس سے۔ جوئیں۔ الضفادع۔ مینڈک۔ جمع ۔ اس کی واحد ضفدع ہے۔ مفصلت۔ اسم مفعول۔ جمع مؤنث۔ تفصیل مصدر۔ جدا جدا ۔ کھلی ہوئی ۔ واضح

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 یعنی جب وہ اپنیی سرکشی پر جم گئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر کچھ سختیاں نازل ہونا شروع ہوئیں جو آخر کار ہلاکت اور غرقابی کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں، الطوفان یعنی اسمان سے موسلا دھا بارش اور دریاوں میں سخت طغیانی الجراد ٹڈی جو ان کی فصلوں کو جٹ کرگئی القمل جوئیں چچڑیاں، چھوٹے کالے کیڑے پسو وغیرہ سب پر قمل کا لفظ پولا جاسکتا ہے الضفادع مینڈک اس کثرت سے کہ ہر چیز اور ہر برتن میں مینڈک ہی مینڈک نظر آتے الدم خون الغرض ان آیات کو مفصلات فرمایا یعنی ایک کے بعد دوسری کچھ قفہ سے آتی، یا جن کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے میں کوئی شبہ نہ تھا (وحیدی) شاہ صاحب فرماتے ہیں سب بلائیں ان پر ایک ہفتہ کے فرق سے آئیں ( مو ضح)3 حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کا مقابلہ فرعون سے چالیس برس اس بات پر کہ بنی اسرائیل کو اپنے وطن جانے دے، اس نے نہ مانا ان کی بد عا سے بلائیں ادریائے نیل چڑھ گیا، کھیت اور باغ اور گھر اس سے تلف ہوئے ٹڈی سبز ی کھاگئی اسی طرح ہر چیز میں مینڈک پھل گئے اور ہر پانی لہو بن گیا آکر کار ہرگز نہ مانا ( مو ضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ کثرت بارش۔ 7۔ یہ ساتوں عصا اور ید ملا کر آیات تسعہ کہلاتے ہیں۔ 8۔ کیونکہ اتنی سختی پر بھی باز نہ آتے تھے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ تھا ڈرامہ " ابتلاء "۔ آیات متصلات کا مفہوم یہ ہے کہ وہ نشانیاں واضح واضح طور پر بتا رہی تھیں۔ ایک کے بعد ایک ابتلا آرہی تھی ، اور پچھلی آنے والی اگلی کا منطقی نتیجہ تھی۔ قرآن کریم نے ان تمام آیات کو ایک جگہ جمع کردیا ہے حالانکہ یہ مصائب ان پر یکے بعد دیگرے آئے تھے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قوم فرعون پر طرح طرح کے عذاب آنا اور ایمان کے وعدے کر کے پھرجانا فرعون اور قوم فرعون جب برابر بغاوت اور سر کشی پر جمے رہے بلکہ عناد اور طغیانی میں ترقی کرتے چلے گئے اور ان پر قحط بھیج کر جو تنبیہ کے لیے اور سر کشی کی سزا کے طور پر ایسی چیزیں بھیج دیں جو ان کے لیے و بال بن گئیں۔ اَلطُّوْفَان اور اَلْجَرَاد اور اَلْقُمَّلَ اور الضَّفَادِعَ اور الدَّمَ فرما کر ان چیزوں کا تذکرہ فرمایا، لفظ الطُّوْفَانَ فُعلان کے وزن پر ہے اور یہ عام طور سے پانی کے سیلاب کے لیے مستعمل ہوتا ہے اگر یہی معنی لیے جائیں تو یہ مطلب ہوگا کہ قوم فرعون کی کھیتیوں اور رہنے کی جگہوں میں سیلاب بھیجے جس کی وجہ سے وہ لوگ سخت عذاب میں مبتلا ہوگئے۔ طوفان سے کیا مراد ہے ؟ صاحب روح المعانی (ص ٣٣ ج ٨) لکھتے ہیں کہ لفظ طوفان پانی کے طوفان کے لیے مشہور ہے اور جس طوفان کا یہاں ذکر ہے اس کی تفسیر متعدد روایات میں جو حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہیں پانی کے طوفان ہی سے کی گئی ہے اور حضرت عطا اور مجاہد نے فرمایا کہ اس سے موت مراد ہے، مفسر ابن جریر نے حضرت عائشہ (رض) سے مرفوعاً اس کی روایت کی ہے۔ اگر یہی روایت لی جائے تو معنی یہ ہوگا کہ ان لوگوں میں وباء کے طور پر موت کی کثرت ہوگئی۔ وھب بن منبہ سے منقول ہے کہ اہل یمن کی لغت میں طوفان بمعنی طاعون آتا ہے۔ اور حضرت ابو قلابہ نے فرمایا کہ اس سے چیچک مراد ہے۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ چیچک کا عذاب سب سے پہلے انہی لوگوں پر آیا تھا، یہ دونوں قول بھی کثرت موت ہی کی طرف راجع ہیں جسے حضرت عطا اور مجاہد نے اختیار فرمایا۔ ٹڈی اللہ کا لشکر ہے : و الجراد یہ جرادۃ کی جمع ہے جو عربی زبان میں ٹڈی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ ٹڈی کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا : اکثر جنود اللہ تعالیٰ لا اکلہ و لا احرمہ یعنی یہ اللہ کے لشکروں میں تعداد کے اعتبار سے سب سے زیادہ ہے میں نہ اسے کھاتا ہوں نہ حرام قرار دیتا ہوں، اخرجہ ابو داود فی کتاب الاطعمۃ (باب فی اکل الجراد) و ابن ماجہ فی کتاب الصید (باب صید الحیتان و الجراد) مطلب یہ ہے کہ (اللہ کے لشکروں) میں تعداد کے اعتبار سے زیادہ ٹڈی والا لشکر ہے میں اسے نہ کھاتا ہوں نہ حرام قرار دیتا ہوں۔ اس کے کھانے سے چونکہ لشکر میں کمی آتی ہے اس لیے خود کھانا پسند نہیں کرتا دوسروں کو منع نہیں کرتا۔ واقعی ٹڈی بہت بڑا لشکر ہے۔ بظاہر زمین پر نظر نہیں آتا اور جب اللہ تعالیٰ اپنے اس لشکر کو بھیج دیتا ہے تو میلوں تک یہ لشکر کھیتوں کو صاف کردیتا ہے اور کسی فوج اور لشکر کے قابو میں نہیں آتا۔ بھگانے سے بھاگتا نہیں اور ختم کرنے سے ختم ہوتا نہیں، سڑکوں اور گھروں میں پہنچ جائے تو سب کے لیے آفت جان بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس لشکر کے ذریعہ فرعونیوں کی سرکوبی فرمائی اور ان کو بہت بڑی مصیبت میں مبتلا فرمایا۔ قمل کی تفسیر : وَالْقُمَّلَ ، یہ لفظ عام طور سے جوؤں کے معنی میں معروف ہے (کما ذکر المنجد فی القاموس) لیکن صاحب روح المعانی نے مفسرین سے اس کے مصداق میں چند قول لکھے ہیں۔ اول یہ کہ اس سے چھوٹی چھوٹی ٹڈی مراد ہے جس کے ابھی پر نہ آئے ہوں۔ یہ حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس سے وہ چھوٹے چھوٹے کیڑے مراد ہیں جو اونٹ اور دیگر جانوروں کے جسم میں ہوجاتے ہیں۔ یہ کیڑے فرعونیوں کے جسموں میں ہوگئے تھے اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے چھوٹی چھوٹی چونٹیاں مراد ہیں، اور حضرت سعید بن جبیر نے فرمایا کہ اس سے وہ چھوٹے چھوٹے کیڑے مراد ہیں جو گیہوں کے دانوں میں پڑجاتے ہیں۔ (اوپر ترجمہ میں جو گھن کا کیڑا مذکور ہے یہ ترجمہ اس قول کے موافق ہے) ۔ مینڈکوں کا عذاب : (وَ الضَّفَادِعَ ) یہ ضفدع کی جمع ہے۔ عربی میں ضفدع مینڈک کو کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قوم فرعون کی سزا کے لیے کثیر تعداد میں مینڈک بھیج دیئے تھے۔ ان کے برتنوں میں اور گھروں کے سامان میں اور گھر کے باہر میدانوں میں مینڈک بھر گئے۔ جو بھی برتن کھولتے اس میں مینڈک پاتے۔ ان کی ہانڈیوں میں بھی مینڈک بھر گئے تھے۔ جب بھی کھانا کھانے لگتے تو مینڈک موجود ہوجاتے۔ آٹا گوندھنے بیٹھتے تو اس میں مینڈک بھر جاتے۔ خون کا عذاب : (وَالدَّمَ ) دم عربی زبان میں خون کو کہا جاتا ہے قوم فرعون پر خون کا عذاب بھی آیا تھا۔ نیل خون سے بھرا ہوا دریا ہوگیا اور ان کے پینے کھانے پکانے کے جو پانی تھے وہ بھی سب خون ہی خون ہوگئے۔ جب کسی برتن سے فرعونی قوم کا آدمی پانی لیتا تو خون نکلتا اور اسی برتن سے اسی وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کا کوئی فرد پانی لیتا تو پانی ہی نکلتا۔ (اٰیَاتٍ مُّفَصَّلَاتٍ ) (یہ کھلی کھلی نشانیاں تھیں) جن سے صاف ظاہر تھا کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب ہے جادو نہیں ہے۔ حضرت زید بن اسلم نے فرمایا کہ یہ نو نشانیاں تھیں جو نو سال میں ظاہر ہوئیں ہر سال میں ایک نشانی ظاہر ہوتی تھی (آیت مذکورہ بالا میں پانچ عذاب مذکور ہیں) بعض روایات میں ہے کہ جادو گروں کے واقعہ کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) قوم فرعون کے پاس ٢٠ سال رہے اور برابر اس قسم کی چیزیں پیش آتی رہتی تھیں جو قوم فرعون کے لیے عذاب اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے معجزہ ہوتی تھیں۔ (فَاسْتَکْبَرُوْا وَ کَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ ) (یوں ان لوگوں نے تکبر کی راہ اختیار کی اور ایمان قبول نہ کیا) ایمان قبول کرنے میں اپنی خفت محسوس کی اور کفر پر جمے رہے۔ یہ لوگ مجرمین تھے۔ ان کو ایمان قبول کرنا ہی نہ تھا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

126: جب معجزات عصا، ید بیضا، قحط سالی وغیرہ سے ان کے دلوں میں عاجزی اور انابت کے کوئی آثار ظاہر نہ ہوئے اور وہ انکار و جحود اور ضد وعناد پر قائم رہے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ فرعون اور اس کی قوم سرکشی اور عناد کی انتہاء کو پہنچ چکی ہے اس لیے ان پر ایسا عذاب نازل فرما جس سے بعد والوں کو بھی عبرت حاصل ہو۔ تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بالکلیہ تباہ و برباد کرنے سے پہلے کئی صورتوں میں ان پر عذاب نازل فرمایا تاکہ وہ راہ راست پر آجائیں۔ “ اَلطُّوْفَانَ ” آٹھ دن تک متواتر دن رات ان پر اندھیرا چھایا رہا اور مسلسل بارش ہوتی رہی یہاں تک کہ ان کے گھروں میں اس قدر پانی جمع ہوگیا کہ ان کے کندھوں سے اوپر چڑھ گیا، پورے سات دن وہ اسی حالت میں مبتلا رہے، نہ بیٹھ سکتے تھے، نہ کھانے کے لیے کوئی چیز مہیا ہوسکتی تھی۔ مگر اسرائیلیوں کے گھروں میں پانی داخل نہ ہوا اور اس کی وجہ سے انہیں کوئی تکلیف نہ ہوئی آخر لاچار ہو کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے التجا کی کہ وہ اللہ سے دعاء کر کے انہیں اس مصیبت سے نجات دلا دیں تو وہ ایمان لے آئیں گے۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے پانی ہٹا لیا اور زمین ظاہر ہوگئی تو اس میں پہلے سے زیادہ گھاس وغیرہ پیدا ہوئی تو فرعونیوں نے اپنا عہد تور دیا اور کہنے لگے یہ کوئی عذاب تھوڑا ہی تھا یہ تو ہمارے لیے ایک نعمت تھی۔ “ وَالْجَرَادَ ” اس کے بعد اللہ نے ٹڈی دل بھیج دیا جس نے ان کے تمام باغوں اور کھیتوں کا صفایا کردیا ان کا کوئی درخت نہ چھوڑا، یہاں تک کہ ان کے مکانوں کے دروازہ، چھتوں کے شہتیروں اور کڑیوں کو، ان کے کپڑوں اور گھر کے ساز و سامان تک کو نیست و نابود کردیا۔ بنی اسرائیل کی ہر چیز اس عذاب سے بھی محفوظ رہی۔ آخر فرعونیوں کی التجاء پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعاء سے اللہ نے ہوا بھیجی جس نے تمام ٹڈی دل کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا، مگر وہ پھر اپنے قول سے منحرف ہوگئے اور ایمان نہ لائے۔ “ وَالقُمَّل ”: اس کے بعد اللہ نے جوؤں کو مسلط کردیا اور انہوں نے ان کے بدن کے چمڑے اور گوشت کو کھانا شروع کردیا جب قوم فرعون کا کوئی آدمی روٹی کھانے لگتا تو اس کا منہ جوؤں سے بھر جاتا۔ جب اس مصیبت سے نجات ملی تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہنے لگے کہ اب تو ہمیں پورا یقین ہوگیا ہے کہ تو بہت بڑا جادوگر ہے۔ بعض نے “ قُمَّلَ ” سے چچڑیاں یا گیہوں کا کیڑا مراد لیا ہے۔ “ قُمَّلَ ” سے مراد چچریاں ہیں جیسا کہ مترجم (رح) نے اختیار کیا یا جوئیں یا گیہوں وغیرہ غلہ میں جو کیڑا لگ جاتا ہے جس سے غلہ خراب ہوجاتا ہے۔ یعنی بدن اور کپڑوں میں چچریاں اور جوئیں پڑگئیں۔ غلہ میں گھن لگ گیا۔ (تفسیر عثمانی) ۔ “ وَالضَّفَادِعَ ” پھر اللہ نے ان پر مینڈکوں کو مسلط کردیا۔ ان کے گھروں کے صحن، ان کے کمرے، اور تمام برتن مینڈکوں سے بھر گئے۔ اگر وہ بات کے لیے منہ کھولتے تو پھدک کر مینڈک ان کے مونہوں میں پہنچ جاتے، ان کے کھانوں میں داخل ہو کر ان کو خراب کردیتے، اس سے تنگ آ کر انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے زاری کی اور ایمان لانے کا عہد کیا مگر اس دفعہ بھی عہد توڑ دیا۔ “ وَالدَّمَ ” آخر اللہ تعالیٰ نے ان پر خون کا عذاب نازل فرمایا، دریائے نیل خون کا بہنے لگا، قبطیوں کے برتنوں کا پانی تمام خون ہوگیا مگر اسرائیلیوں کے پانی میں کوئی فرق نہ آیا۔ قبطی اسرائیلیوں کے برتنوں سے اپنے برتنوں میں پانی ڈالتے تو وہ خون ہوجاتا یہاں تک کہ اگر کوئی اسرائیلی اپنے منہ پانی لے کر کسی فرعونی کے منہ میں ڈالتا تو وہ اس کے منہ میں پہنچ کر فوراً خون ہوجاتا۔ “ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلَاتٍ ” یہ واضح نشانیاں تھیں مگر انہوں نے ہر بار عناد و استکبار سے کام لیا۔ “ کل ذلک من الروح والقرطبی والخازن وغیرھا ”۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

133 پھر ہم نے ان پر پانی کا طوفان بھیجا یعنی سیلاب اور ہم نے ان پر ٹڈیاں مسلط کیں اور جوئیں یا چیچڑیاں یا غلہ کو خراب کرنے والا کیڑا پیدا کردیا اور مینڈک یعنی بکثرت مینڈکیاں ان پر بھیجیں اور ان پر خون کا عذاب بھیجا کہ یہ سب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے کھلے کھلے اور الگ الگ معجزے تھے جو ان پر یکے بعد دیگرے بھیجے گئے مگر وہ پھر بھی تکبر اور سرکشی ہی کرتے رہے اور وہ لوگ تھے ہی مجرم اور گنہ گار۔ یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا فرعون سے چالیس برس مقابلہ رہا اور اس پر کہ بنی اسرائیل کو اپنے وطن جانے دے اس نے نہ مانا ان کی بددعا سے یہ بلائیں آئیں۔ دریائے نیل چڑھ گیا کھیت اور باغ اور گھر بہت تلف ہوئے اور ٹڈی سبزی کھاگئی اور آدمیوں کے بدن میں اور کپڑوں میں چیچڑیاں پڑگئیں اسی طرح ہر چیز میں مینڈک پھیل گئے اور ہر پانی لہو بن گیا آخر ہرگز نہ مانا۔ مطلب یہ ہے کہ بطور تنبیہہ ابتدا میں قاعدے کے مطابق یہ عذاب آتے رہے۔ سیلاب آئے، ٹڈیاں آئیں، کھیت اور سبزیاں تباہ ہوگئیں اور پھر جوئیں پیدا ہوگئیں، چیچڑیاں لپٹیں یا پھلوں اور غلوں کو خراب کرنے والے کیڑے پیدا ہوگئے مینڈکیاں ہی مینڈکیاں ہوگئیں نہ پانی محفوظ نہ کھانا محفوظ نہ خواب گاہ محفوظ اور آخر میں پانی کو خون بنادیا گیا جب کبھی کوئی نشانی آتی تو موسیٰ (علیہ السلام) سے وعدہ کرتے کہ یہ عذاب ٹل جائے تو ہم مسلمان ہوجائیں گے اور بنی اسرائیل کو تیرے ساتھ بھیج دیں گے لیکن جب وہ عذاب ہٹ جاتا تو پھر انکار کردیتے۔