Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 148

سورة الأعراف

وَ اتَّخَذَ قَوۡمُ مُوۡسٰی مِنۡۢ بَعۡدِہٖ مِنۡ حُلِیِّہِمۡ عِجۡلًا جَسَدًا لَّہٗ خُوَارٌ ؕ اَلَمۡ یَرَوۡا اَنَّہٗ لَا یُکَلِّمُہُمۡ وَ لَا یَہۡدِیۡہِمۡ سَبِیۡلًا ۘ اِتَّخَذُوۡہُ وَ کَانُوۡا ظٰلِمِیۡنَ ﴿۱۴۸﴾

And the people of Moses made, after [his departure], from their ornaments a calf - an image having a lowing sound. Did they not see that it could neither speak to them nor guide them to a way? They took it [for worship], and they were wrongdoers.

اور موسیٰ ( علیہ السلام ) کی قوم نے ان کے بعد اپنے زیوروں کا ایک بچھڑا معبود ٹھہرا لیا جو کہ ایک قالب تھا جس میں ایک آواز تھی ۔ کیا انہوں نے یہ نہ دیکھا کہ وہ ان سے بات نہیں کرتا تھا اور نہ ان کو کوئی راہ بتلاتا تھا اس کو انہوں نے معبود قرار دیا اور بڑی بے انصافی کا کام کیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Story of worshipping the Calf Allah tells; وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَى مِن بَعْدِهِ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلً جَسَدًا لَّهُ خُوَارٌ ... And the people of Musa made in his absence, out of their ornaments, the image of a calf (for worship). It had a sound. Allah describes the misguidance of those who worshipped the calf that As-Samiri made for them from the ornaments they borrowed from the Copts. He made the shape of a calf with these ornaments and threw in it a handful of dust from the trace of the horse that the Angel Jibril was riding, and the calf seemed to moo. This occurred after Musa went for the appointed term with his Lord, where Allah told him about what happened when he was on Mount Tur. Allah said about His Honorable Self, قَالَ فَإِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِن بَعْدِكَ وَأَضَلَّهُمُ السَّامِرِىُّ (Allah) said: "Verily, We have tried your people in your absence, and As-Samiri has led them astray." (20:85) The scholars of Tafsir have different views over the calf, whether it actually became alive and mooing, or if it remained made of gold, but the air entering it made it appear to be mooing. These are two opinions. Allah knows best. It was reported that when the statue mooed, the Jews started dancing around it and fell into misguidance because they adored it. They said that this, the calf, is your god and the god of Musa, but Musa forgot it! Allah answered them, أَفَلَ يَرَوْنَ أَلاَّ يَرْجِعُ إِلَيْهِمْ قَوْلاً وَلاَ يَمْلِكُ لَهُمْ ضَرّاً وَلاَ نَفْعاً Did they not see that it could not return them a word (for answer), and that it had neither power to harm them nor to do them good. (20:89) Allah said here, ... أَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّهُ لاَ يُكَلِّمُهُمْ وَلاَ يَهْدِيهِمْ سَبِيلً ... Did they not see that it could neither speak to them nor guide them to the way, Allah condemned the Jews for falling into misguidance, worshipping the calf and ignoring the Creator of the heavens and earth, the Lord and King of all things. They worshipped besides Him a statue made in the shape of a calf, that seemed to moo, but it neither spoke to them nor brought them any benefit. Rather, their very sense of reason was blinded because of ignorance and misguidance. ... اتَّخَذُوهُ وَكَانُواْ ظَالِمِينَ They took it (for worship) and they were wrongdoers. Allah's statement,

بنی اسرائیل کا بچھڑے کو پوجنا حضرت موسیٰ علیہ السلام تو اللہ کے وعدے کے مطابق تورات لینے گئے ادھر فرعونیوں کے جو زیور بنی اسرائیل کے پاس رہ گئے تھے سامری نے انہیں جمع کیا اور اپنے پاس سے اس میں خاک کی مٹھی ڈال دی جو حضرت جبرائیل علیہ السلام کے گھوڑے کی ٹاپ تلے سے اس نے اٹھالی تھی اللہ کی قدرت سے وہ سونا گل کر مثل ایک گائے کے جسم کے ہو گیا اور چونکہ کھو کھلا تھا اس میں سے آواز بھی آنے لگی اور وہ بالکل ہو بہو گائے کی سی آواز تھی ۔ اس نے بنی اسرائیل کو بہکا کر اس کی عبادت کرانی شروع کر دی بہت سے لوگ اسے پوجنے لگے ۔ اللہ تعالیٰ نے طور پر حضرت موسیٰ کو اس فتنے کی خبر دی ۔ یہ بچھڑا یا تو سچ مچ خون گوشت کا بن گیا تھا یا سونے کا ہی تھا مگر شکل گائے کی تھی یہ اللہ ہی جانے ۔ بنی اسرائیل تو آواز سنتے ہی ناچنے لگے اور اس پر ریجھ گئے ۔ سامری نے کہہ دیا کہ اللہ تو یہی ہے موسیٰ بھول گئے ہیں ۔ انہیں اتنی بھی تمیز نہ آئی کہ وہ اللہ تو کسی بات کا جواب بھی نہیں دے سکتا اور کسی نفع نقصان کا اختیار بھی نہیں رکھتا ۔ اس بچھڑے کو اس اللہ کو چھوڑ کر پوجو جو سب کا مالک اور سب کا خالق ہے ۔ اس کی وجہ سوائے اندھے پن اور بےعقلی کے اور کیا ہو سکتی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا کسی چیز کی محبت انسان کو اندھا بہرا کر دیتی ہے پھر جب اس محبت میں کمی آئی آنکھیں کھلیں تو اپنے اس فعل پر نادم ہونے لگے اور یقین کر لیا کہ واقعی ہم گمراہ ہوگئے تو اللہ سے بخشش مانگنے لگے ۔ ایک قرأت میں تغفر تے سے بھی ہے ۔ جان گئے کہ اگر معافی نہ ملی تو بڑے نقصان سے دو جار ہو جائیں گے ۔ غرض اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ سے جھکے اور التجا کرنے لگے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

148۔ 1 موسیٰ (علیہ السلام) جب چالیس راتوں کے لئے کوہ طور پر گئے تو پیچھے سے سامری نامی شخص نے سونے کے زیورات اکھٹے کرکے ایک بچھڑا تیار کیا جس میں اس نے جبرائیل (علیہ السلام) کے گھوڑے کے سموں کے نیچے کی مٹی بھی، جو اس نے سنبھال کر رکھی تھی شامل کردی، جس میں اللہ نے زندگی کی تاثیر رکھی تھی جس کی وجہ سے بچھڑا کچھ کچھ بیل کی آواز نکالتا تھا (گو واضح کلام کرنے اور راہنمائی کرنے سے عاجز تھا جیسا کہ قرآن کے الفاظ واضح کر رہے ہیں، اسمیں اختلاف ہے کہ فی الواقع گوشت پوست کا بچھڑا بن گیا تھا، یا تھا وہ سونے کا ہی، لیکن کسی طریقے سے اس میں ہوا داخل ہوتی تو گائے، بیل کی سی آواز اس میں سے نکلتی۔ (ابن کثیر) اس آواز سے سامری نے بنی اسرائیل کو گمراہ کیا کہ تمہارا معبود تو یہ ہے، موسیٰ (علیہ السلام) بھول گئے ہیں اور وہ معبود کی تلاش میں کوہ طور پر گئے ہیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوْسٰي۔۔ : یہی قصہ سورة طٰہٰ میں بھی بیان ہوا ہے۔ ” مِنْ حُلِيِّهِمْ “ (اپنے زیوروں سے) یہ الفاظ صراحت کر رہے ہیں کہ وہ زیورات بنی اسرائیل کے اپنے تھے، اس لیے بائبل اور ہماری تفسیروں کی اسرائیلی روایات میں جو کہا گیا ہے کہ وہ زیور قبطیوں کے تھے اور بنی اسرائیل نے ان سے ادھار لیے تھے وہ درست نہیں، مزید تفصیل سورة طٰہٰ (٨٧) میں دیکھیں۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) طور پر تشریف لے گئے تو ان میں سے ایک شخص سامری نے ان سے یہ زیورات لے لیے اور انھیں آگ میں پگھلا کر بچھڑے کی شکل کا ایک مجسمہ بنا ڈالا، جس سے گائے کی آواز نکلتی تھی، اس آیت میں اس مجسمے کے بنانے کو بنی اسرائیل کی طرف منسوب کیا گیا ہے، کیونکہ سامری نے اسے ان کی اجازت اور رضا مندی سے بنایا تھا اور وہ اپنے لیے اس قسم کے ایک معبود کی خواہش رکھتے تھے۔ (ابن کثیر) تفسیر ثنائی میں ہے کہ موجودہ تورات کی دوسری کتاب کے بتیسویں باب میں جو لکھا ہے کہ ہارون (علیہ السلام) نے خود ہی ان کو بچھڑا بنادیا تھا، یہ صریح غلط ہے، شان نبوت اور شرک اجتماع ضدین ہے۔ عیسائیو ! قرآن کے ” مُھَیْمِنٌ عَلَی التَّوْرَاۃِ “ ہونے میں اب بھی شک کرو گے ؟ ( مُھَیْمِنٌ کا معنی سمجھنے کے لیے ملاحظہ کیجیے سورة مائدہ : ٤٨ کے حواشی) مفسرین کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ آیا وہ بچھڑا واقعی گوشت پوست اور خون کا بن گیا تھا اور اس میں جان پڑگئی تھی، یا وہ محض ایک مجسمہ رہا، جس میں ہوا داخل ہوتی یا داخل کی جاتی تو اس سے بچھڑے کی سی آواز نکلتی تھی ؟ جو مفسرین اس کے واقعی جاندار بچھڑا ہونے کے قائل ہیں وہ اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ جبریل (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس گھوڑی پر سوار آئے، سامری نے انھیں دیکھ لیا اور ان کی گھوڑی کے پاؤں تلے کی کچھ مٹی لے لی اور انھوں نے سورة طٰہٰ کی آیت (٩٦) ( ٖ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ اَثَرِ الرَّسُوْلِ ) کے یہی معنی کیے ہیں، چناچہ اس مٹی کو جب انھوں نے بچھڑے کے اس مجسمے پر ڈالا تو وہ سچ مچ کا بچھڑا بن گیا، لیکن یہ کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں ہے۔ نیز دیکھیے سورة طٰہٰ (٨٨ تا ٩٦) ۔ اَلَمْ يَرَوْا اَنَّهٗ لَا يُكَلِّمُهُمْ وَلَا يَهْدِيْهِمْ سَبِيْلًا ۘ: اللہ تعالیٰ نے تو نظر نہ آنے کے باوجود موسیٰ (علیہ السلام) سے کلام کیا اور ہدایت کا راستہ بھی بتایا، یہ عجیب معبود ہے کہ سامنے ہونے کے باوجود نہ بات کرسکتا ہے نہ ہدایت دے سکتا ہے، پھر وہ معبود کیسے ہوسکتا ہے ؟ اگر بالفرض اس میں جان بھی پڑگئی ہے تو وہ ایک عاجز حیوان ہے، اس جیسی بلکہ اس سے بہتر بیشمار گائیں ڈنڈے کھاتی پھرتی ہیں اور زنجیروں میں بندھی ہوئی بےبس ہو کر دودھ دے رہی ہیں۔ معلوم ہوا معبود کے لیے کلام کرنے والا اور ہدایت دینے والا ہونا ضروری ہے۔ ” کلام کرنے والا “ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ حکم دے سکے، منع کرسکے اور ” ہدایت دینے والا “ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسے ہدایت دینے پر قدرت ہو۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The next verses continue to narrate the remaining part of the story. When the prophet Musa (علیہ السلام) did not turn up after thirty days from the mount of Sinai where he was to be ordained by Allah after passing ten more nights on the mount, the Israelites who were a hasty and impatient people began to make fuss about it. Among them there was a person named Samiri who was a promi¬nent man, but at the same time, had beliefs in superstitions. He said to the people that the jewels and ornaments of the Egyptians possessed by them were not permissible for them. It may be noted that the plunder or booty taken from the enemy after their defeat was also not permissible for the Israelites. The Israelites gathered all their jewels and handed these over to him. He melted the ornaments and forged a golden calf from it. A peculiar thing reported about him is that he had collected some dust from under the hoofs of the horse of the Archangel Jibra&il (علیہ السلام) (Gabriel) at some occasion. Allah had made this dust to have the effect of some kind of life. Samiri mixed this dust with the molten metal while preparing the calf. This made the calf to emit a sound like the mooing of a cow. Having designed this satanic invention he invited the people to worship the calf and said that it was god. He said that the Prophet Musa (علیہ السلام) had gone to speak with God to the mount of Sinai while god had come to them in the form of this calf. Samiri already enjoyed a place of respect among them, this unusual demonstration increased their trust in him and they started worshipping the calf, and took it as their god. The verse 148 has given a short description of this event while another verse of the Holy Qur&an has described it in detail.

جب موسیٰ (علیہ السلام) تورات حاصل کرنے کے لئے کوہ طور پر معتکف ہوئے اور شروع میں تیس دن رات کے اعتکاف کا حکم تھا اور اس کے مطابق اپنی قوم سے کہہ گئے تھے کہ تیس دن بعد لوٹیں گے، وہاں حق تعالیٰ نے اس پر دس روز کی میعاد اور بڑھا دی تو اسرائیلی قوم جسکی جلد بازی اور کجروی پہلے سے معروف تھی، اس وقت بھی طرح طرح کی باتیں کرنے لگے، ان کی قوم میں ایک شخص سامری نام کا تھا، جو اپنی قوم میں بڑا اور چودھری مانا جاتا تھا، مگر کچے عقیدہ کا آدمی تھا اس نے موقع پا کر یہ حرکت کی کہ بنی اسرائیل کے پاس کچھ زیورات قوم فرعون کے لوگوں کے رہ گئے تھے ان سے کہا کہ یہ زیورات تم نے قبطی لوگوں سے مستعار طور پر لیے تھے اب وہ سب غرق ہوگئے اور زیورات تمہارے پاس رہ گئے، یہ تمہارے لئے حلال نہیں کیونکہ کفار سے جنگ کے وقت حاصل شدہ مال غنیمت بھی اس زمانہ میں مسلمانوں کے لئے حلال نہیں تھا، بنی اسرائیل نے اس کے کہنے کے مطابق سب زیورات لا کر اس کے پاس جمع کردیئے، اس نے اس سونے چاندی سے ایک بچھڑے یا گائے کا مجسمہ بنایا، اور جیریل امین کے گھوڑے کے سم کے نیچے کی مٹی جو اس نے کہیں پہلے سے جمع کر رکھی تھی اس مٹی میں اللہ تعالیٰ نے حیات وزندگی کا خاصہ رکھا تھا، اس نے سونا چاندی آگ پر پگھلانے کے وقت یہ مٹی اس میں شامل کردی اس کا یہ اثر ہوا کہ اس گائے کے مجسمہ میں زندگی کے آثار پیدا ہوگئے اور اس کے اندر سے گائے کی سی آواز نکلنے لگی، اس جگہ آیت میں عِجْلًا کی تفسیر جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ فرماکر اس طرف اشارہ کردیا ہے۔ سامری کی یہ حیرت انگیز شیطانی ایجاد سامنے آئی تو اس نے بنی اسرائیل کو اس کفر کی دعوت دینا شروع کردی کہ یہی خدا ہے، موسیٰ (علیہ السلام) تو اللہ تعالیٰ سے باتیں کرنے کے لئے کوہ طور پر گئے ہیں اور اللہ میاں ( معاذاللہ) خود یہاں آگئے موسیٰ (علیہ السلام) سے بھول ہوگئی بنی اسرائیل میں اس کی بات پہلے سے مانی جاتی تھی اور اس وقت تو یہ شعبدہ بھی اس نے دکھلا دیا تو اور بھی معتقد ہوگئے اور اسی گائے کو خدا سمجھ کر اس کی عبادت میں لگ گئے۔ مذکورہ تیسری آیت میں اس مضمون کا بیان اختصار کے ساتھ آیا ہے، اور قرآن کریم میں دوسری جگہ اس سے زیادہ تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوْسٰي مِنْۢ بَعْدِہٖ مِنْ حُلِـيِّہِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّہٗ خُوَارٌ۝ ٠ ۭ اَلَمْ يَرَوْا اَنَّہٗ لَا يُكَلِّمُہُمْ وَلَا يَہْدِيْہِمْ سَبِيْلًا۝ ٠ ۘ اِتَّخَذُوْہُ وَكَانُوْا ظٰلِـمِيْنَ۝ ١٤٨ موسی مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته . حلی الحُلِيّ جمع الحَلْي، نحو : ثدي وثديّ ، قال تعالی: مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَداً لَهُ خُوارٌ [ الأعراف/ 148] ، يقال : حَلِيَ يَحْلَى قال اللہ تعالی: يُحَلَّوْنَ فِيها مِنْ أَساوِرَ مِنْ ذَهَبٍ [ الكهف/ 31] ، ( ح ل ی ) الحلی ( زیورات ) یہ حلی کی جمع ہے جیسے ثدی کی جمع ثدی آجاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَداً لَهُ خُوارٌ [ الأعراف/ 148] اپنے زیور کا ایک بچھڑا ( بنالیا ) وہ ایک جسم ( تھا ) جس میں سے بیل کی آواز نکلتی تھی حلی یحلٰی آراستہ ہونا اور حلی آراستہ کرنا ) قرآن میں ہے ۔ يُحَلَّوْنَ فِيها مِنْ أَساوِرَ مِنْ ذَهَبٍ [ الكهف/ 31] ان کو وہاں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے ۔ وَحُلُّوا أَساوِرَ مِنْ فِضَّةٍ [ الإنسان/ 21] اور انہیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے ۔ اور حلیتہ کے معنی زیور کے ہیں ۔ عِجْلُ ( بچهڑا) : ولد البقرة لتصوّر عَجَلَتِهَا التي تعدم منه إذا صار ثورا . قال : عِجْلًا جَسَداً [ الأعراف/ 148] ، وبقرةٌ مُعْجِلٌ: لها عِجْلٌ. العجلۃ بچھڑے کو کہتے ہیں کیونکہ اس میں پھرتی پائی جاتی ہے جو بیل کی عمر تک پہنچنے پر ختم ہوجاتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ عِجْلًا جَسَداً [ الأعراف/ 148] ایک بچھڑا ( بنالیا وہ ایک جسم تھا : ۔ اور وہ گائے جس کے ساتھ اس کا بچھڑ ہوا سے معجل کہا جاتا ہے ۔ جسد الجَسَد کالجسم لكنه أخصّ ، قال الخلیل رحمه اللہ : لا يقال الجسد لغیر الإنسان من خلق الأرض «3» ونحوه، وأيضا فإنّ الجسد ما له لون، والجسم يقال لما لا يبين له لون، کالماء والهواء . وقوله عزّ وجلّ : وَما جَعَلْناهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعامَ [ الأنبیاء/ 8] ، يشهد لما قال الخلیل، وقال : عِجْلًا جَسَداً لَهُ خُوارٌ [ طه/ 88] ، وقال تعالی: وَأَلْقَيْنا عَلى كُرْسِيِّهِ جَسَداً ثُمَّ أَنابَ [ ص/ 34] . وباعتبار اللون قيل للزعفران : جِسَاد، وثوب مِجْسَد : مصبوغ بالجساد «4» ، والمِجْسَد : الثوب الذي يلي الجسد، والجَسَد والجَاسِد والجَسِد من الدم ما قد يبس . ( ج س د ) الجسد ( اسم ) جسم ہی کو کہتے ہیں مگر یہ جسم سے اخص ہے خلیل فرماتے ہیں کہ جسد کا لفظ انسان کے علاوہ دوسری مخلوق پر نہیں بولا جاتا ہے نیز جسد رنگدار جسم کو کہتے ہیں مگر جسم کا لفظ بےلون اشیاء مثلا پانی ہوا وغیرہ پر بھی بولا جاتا ہے اور آیت کریمہ ؛۔ وَما جَعَلْناهُمْ جَسَداً لا يَأْكُلُونَ الطَّعامَ [ الأنبیاء/ 8] کہ ہم ان کے ایسے جسم نہیں بنائے تھے کہ کھانا نہ کھاتے ہوں ۔ سے خلیل کے قول کی تائید ہوتی ہے ۔ نیز قرآن میں ہے ۔ عِجْلًا جَسَداً لَهُ خُوارٌ [ طه/ 88] ایک بچھڑا یعنی قالب جس کی آواز گائے کی سی تھی ۔ وَأَلْقَيْنا عَلى كُرْسِيِّهِ جَسَداً ثُمَّ أَنابَ [ ص/ 34] اور ان ک تخت پر ہم نے ایک دھڑ ڈال دیا چناچہ انہوں نے خد ا کی طرف رجوع کیا اور لون کے اعتبار سے زعفران کو جساد کہا جاتا ہے اور زعفران سے رنگے ہوئے کپڑے ثوب مجسد کہتے ہیں ۔ المجسد ۔ کپڑا جو بدن سے متصل ہو الجسد والجاسد والجسد ۔ خشک خون ۔ خوار قوله تعالی: عِجْلًا جَسَداً لَهُ خُوارٌ [ الأعراف/ 148] . الخُوَار مختصّ بالبقر، وقد يستعار للبعیر، ويقال : أرض خَوَّارَة، ورمح خَوَّار، أي : فيه خَوَرٌ. والخَوْرَان : يقال لمجری الرّوث «1» ، وصوت البهائم . ( خ و ر ) الخوار ۔ دراصل یہ لفظ گائے بیل کی آواز کے ساتھ مختص ہے ۔ پھر استعارہ اونٹ کی آواز پر بھی بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :َ عِجْلًا جَسَداً لَهُ خُوارٌ [ الأعراف/ 148] ایک پچھڑا ( یعنی اس کا ) قالب جس کی آواز گائے کی سی تھی ۔ ارض خوارۃ دو بلندیوں کے درمیان پست زمین ۔ رمخ خوار ۔ کمزور نیزہ ۔ الخواران ۔ بہائم کی آواز ۔ جانوروں کے گوبر کرنے کا راستہ ۔ الف ( ا) الألفات التي تدخل لمعنی علی ثلاثة أنواع : - نوع في صدر الکلام . - ونوع في وسطه . - ونوع في آخره . فالذي في صدر الکلام أضرب : - الأوّل : ألف الاستخبار، وتفسیره بالاستخبار أولی من تفسیر ه بالاستفهام، إذ کان ذلک يعمّه وغیره نحو : الإنكار والتبکيت والنفي والتسوية . فالاستفهام نحو قوله تعالی: أَتَجْعَلُ فِيها مَنْ يُفْسِدُ فِيها [ البقرة/ 30] ، والتبکيت إمّا للمخاطب أو لغیره نحو : أَذْهَبْتُمْ طَيِّباتِكُمْ [ الأحقاف/ 20] ، أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْداً [ البقرة/ 80] ، آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ، أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ، أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخالِدُونَ [ الأنبیاء/ 34] ، أَكانَ لِلنَّاسِ عَجَباً [يونس/ 2] ، آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ [ الأنعام/ 144] . والتسوية نحو : سَواءٌ عَلَيْنا أَجَزِعْنا أَمْ صَبَرْنا [إبراهيم/ 21] ، سَواءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا يُؤْمِنُونَ [ البقرة/ 6] «1» ، وهذه الألف متی دخلت علی الإثبات تجعله نفیا، نحو : أخرج ؟ هذا اللفظ ينفي الخروج، فلهذا سأل عن إثباته نحو ما تقدّم . وإذا دخلت علی نفي تجعله إثباتا، لأنه يصير معها نفیا يحصل منهما إثبات، نحو : أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ [ الأعراف/ 172] «2» ، أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ [ الرعد/ 41] ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَةُ [ طه/ 133] أَوَلا يَرَوْنَ [ التوبة : 126] ، أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُمْ [ فاطر/ 37] . - الثاني : ألف المخبر عن نفسه نحو : أسمع وأبصر . - الثالث : ألف الأمر، قطعا کان أو وصلا، نحو : أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ [ المائدة/ 114] ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ [ التحریم/ 11] ونحوهما . - الرابع : الألف مع لام التعریف «4» ، نحو : العالمین . - الخامس : ألف النداء، نحو : أزيد، أي : يا زيد . والنوع الذي في الوسط : الألف التي للتثنية، والألف في بعض الجموع في نحو : مسلمات ونحو مساکين . والنوع الذي في آخره : ألف التأنيث في حبلی وبیضاء «5» ، وألف الضمیر في التثنية، نحو : اذهبا . والذي في أواخر الآیات الجارية مجری أواخر الأبيات، نحو : وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا [ الأحزاب/ 10] ، فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا [ الأحزاب/ 67] ، لکن هذه الألف لا تثبت معنی، وإنما ذلک لإصلاح اللفظ . ا : الف با معنی کی تین قسمیں ہیں ۔ ایک وہ جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ دوسرا وہ جو وسط کلام میں واقع ہو ۔ تیسرا وہ جو آخر کلام میں آئے ۔ ( ا) وہ الف جو شروع کلام میں آتا ہے ۔ اس کی چند قسمیں ہیں : ۔ (1) الف الاستخبار اسے ہمزہ استفہام کہنے کے بجائے الف استخبار کہنا زیادہ صحیح ہوگا ۔ کیونکہ اس میں عمومیت ہے جو استفہام و انکار نفی تبکیت پر زجرو تو بیخ ) تسویہ سب پر حاوی ہے۔ چناچہ معنی استفہام میں فرمایا ۔ { أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ } [ البقرة : 30]( انہوں نے کہا ) کیا تو اس میں ایسے شخص کو نائب بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے اور کشت و خون کرتا پھرے اور تبکیت یعنی سرزنش کبھی مخاطب کو ہوتی ہے اور کبھی غیر کو چناچہ ( قسم اول کے متعلق ) فرمایا :۔ (1){ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُم } [ الأحقاف : 20] تم اپنی لذتیں حاصل کرچکے ۔ (2) { أَتَّخَذْتُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدًا } [ البقرة : 80] کیا تم نے خدا سے اقرار لے رکھا ہے ؟ (3) { آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ } [يونس : 91] کیا اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ؟ اور غیر مخاظب کے متعلق فرمایا :۔ (4) { أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا } [يونس : 2] کیا لوگوں کے لئے تعجب خیز ہے ؟ (5) { أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِل } [ آل عمران : 144] تو کیا اگر یہ مرجائیں یا مارے جائیں ؟ (6) { أَفَإِنْ مِتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ } [ الأنبیاء : 34] بھلا اگر تم مرگئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ رہیں گے ؟ (7) { آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنْثَيَيْنِ } [ الأنعام : 143] بتاؤ تو ( خدا نے ) دونوں نروں کو حرام کیا ہے ۔ یا دونوں ماديؤں کو ۔ اور معنی تسویہ میں فرمایا ، { سَوَاءٌ عَلَيْنَا أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا } [إبراهيم : 21] اب ہم گهبرائیں یا صبر کریں ہمارے حق میں برابر ہے ۔ { سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ } ( سورة البقرة 6) تم خواہ انہیں نصیحت کردیا نہ کرو ان کے لئے برابر ہے ، وہ ایمان نہیں لانے کے ۔ اور یہ الف ( استخبار ) کلام مثبت پر داخل ہو تو اسے نفی میں تبدیل کردیتا ہے ۔ جیسے اخرج ( وہ باہر نہیں نکلا ) کہ اس میں نفی خروج کے معنی پائے جائے ہیں ۔ اس لئے کہ اگر نفی کے معنی نہ ہوتے تو اس کے اثبات کے متعلق سوال نہ ہوتا ۔ اور جب کلام منفی پر داخل ہو تو اسے مثبت بنا دیتا ہے ۔ کیونکہ کلام منفی پر داخل ہونے سے نفی کی نفی ہوئی ۔ اور اس طرح اثبات پیدا ہوجاتا ہے چناچہ فرمایا :۔ { أَلَسْتُ بِرَبِّكُم } [ الأعراف : 172] کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ( یعنی ضرور ہوں ) { أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ } [ التین : 8] کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے یعنی ضرور ہے ۔ { أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ } [ الرعد : 41] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم زمین کا بندوبست کرتے ہیں ۔ { أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بَيِّنَة } [ طه : 133] کیا ان کے پاس کھلی نشانی نہیں آئی ۔ { أَوَلَا يَرَوْنَ } [ التوبة : 126] اور کیا یہ نہیں دیکھتے { أَوَلَمْ نُعَمِّرْكُم } [ فاطر : 37] اور کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہیں دی ۔ (2) الف جو مضارع کے صیغہ واحد متکلم کے شروع میں آتا ہے اور میں |" کے معنی رکھتا ہے جیسے اسمع و ابصر یعنی میں سنتاہوں اور میں دیکھتا ہوں (3) ہمزہ فعل امر خواہ قطعی ہو یا وصلي جیسے فرمایا :۔ { أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ } [ المائدة : 114] ہم پر آسمان سے خوان نازل فرما ۔ { رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ } [ التحریم : 11] اے میرے پروردگار میرے لئے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا ۔ (4) الف جو لام کے ساتھ معرفہ بنانے کے لئے آیا ہے جیسے فرمایا { الْعَالَمِينَ } [ الفاتحة : 2] تمام جہانوں (5) الف نداء جیسے ازید ( اے زید ) ( ب) وہ الف جو وسط کلمہ میں آتا ہے اس کی پہلی قسم الف تثنیہ ہے ( مثلا رجلان ) اور دوسری وہ جو بعض اوزان جمع میں پائی جاتی ہے مثلا مسلمات و مساکین ۔ ( ج) اب رہا وہ الف جو کلمہ کے آخر میں آتا ہے ۔ وہ یا تو تانیث کے لئے ہوتا ہے جیسے حبلیٰ اور بَيْضَاءُمیں آخری الف یا پھر تثنیہ میں ضمیر کے لئے جیسا کہ { اذْهَبَا } [ الفرقان : 36] میں آخر کا الف ہے ۔ وہ الف جو آیات قرآنی کے آخر میں کہیں بڑھا دیا جاتا ہے جیسے { وَتَظُنُّونَ بِاللَّهِ الظُّنُونَا } [ الأحزاب : 10] { فَأَضَلُّونَا السَّبِيلَا } [ الأحزاب : 67] تو یہ کوئی معنوی اضافہ نہیں کرتا بلکہ محض لفظی اصلاح ( اور صوتی ہم آہنگی ) کے لئے آخر میں بڑھا دیا جاتا ہے ( جیسا کہ ابیات کے اواخر میں الف |" اشباع پڑھاد یتے ہیں ) «لَمْ» وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی/ 6] ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء/ 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔ کلام الكلْمُ : التأثير المدرک بإحدی الحاسّتين، فَالْكَلَامُ : مدرک بحاسّة السّمع، فَالْكَلَامُ يقع علی الألفاظ المنظومة، وعلی المعاني التي تحتها مجموعة، وعند النحويين يقع علی الجزء منه، اسما کان، أو فعلا، أو أداة . وعند کثير من المتکلّمين لا يقع إلّا علی الجملة المرکّبة المفیدة، وهو أخصّ من القول، فإن القول يقع عندهم علی المفردات، والکَلمةُ تقع عندهم علی كلّ واحد من الأنواع الثّلاثة، وقد قيل بخلاف ذلک «4» . قال تعالی: كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف/ 5] ( ک ل م ) الکلم ۔ یہ اصل میں اس تاثیر کو کہتے ہیں جس کا ادراک دو حاسوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوسکے چناچہ کلام کا ادراک قوت سامعہ کیساتھ ہوتا ہے ۔ اور کلم ( زخم ) کا ادراک قوت بصر کے ساتھ ۔ محاورہ ہے ۔ کلام کا اطلاق منظم ومرتب الفاظ اور ان کے معانی دونوں کے مجموعہ پر ہوتا ہے ۔ اور اہل نحو کے نزدیک کلام کے ہر جز پر اس کا اطلاق ہوسکتا ہے ۔ خواہ وہ اسم ہو یا فعل ہو یا حرف مگر اکثر متکلمین کے نزدیک صرف جملہ مرکبہ ومفیدہ کو کلام کہاجاتا ہے ۔ اور یہ قول سے اخص ہے کیونکہ قول لفظ ان کے نزدیک صرف مفرد الفاظ پر بولاجاتا ہے اور کلمۃ کا اطلاق انواع ثلاثہ یعنی اسم فعل اور حرف تینوں میں سے ہر ایک پر ہوتا ہے ۔ اور بعض نے اس کے برعکس کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْواهِهِمْ [ الكهف/ 5] یہ بڑی سخت بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤٨) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے کوہ طور پر جانے کے بعد ان کی قوم نے سونے کا ایک چھوٹا جسم دار بچھڑا بنوایا جس کی آواز تھی۔ سامری نے انکو یہ بنا کردیا تھا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے اتنا بھی نہ سمجھا کہ وہ ان سے کوئی بات تک نہیں کرسکتا تھا پھر جہالت کی وجہ سے اس کی پوجا شروع کردی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤٨ (وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوْسٰی مِنْم بَعْدِہٖ مِنْ حُلِیِّہِمْ عِجْلاً جَسَدًا لَّہٗ خُوَارٌ ط) ۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور پر چلے گئے تو آپ ( علیہ السلام) کی قوم کے ایک فرد نے یہ فتنہ اٹھایا ‘ جس کا نام سامری تھا۔ اس نے سونے کا ایک مجسمہ بنانے کا منصوبہ بنایا اور اس غرض سے اس نے سب لوگوں سے زیورات اکٹھے کرلیے۔ روایات کے مطابق یہ زیورات زیادہ تر مصر کے مقامی لوگوں (قبطیوں) کے تھے جو انہوں نے بنی اسرائیل کے لوگوں کے پاس امانتاً رکھوائے ہوئے تھے۔ فرعونیوں کے ہاتھوں اپنی تمام تر ذلت و خواری کے باوجود معاشرے میں بنی اسرائیل کی اخلاقی ساکھ ابھی تک کسی نہ کسی سطح پر اس وجہ سے موجود تھی کہ یہ لوگ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ بہت سے مقامی لوگ اپنی قیمتی چیزیں ان کے ہاں بطور امانت رکھ دیا کرتے تھے۔ جب یہ لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ مصر سے نکلے تو اس وقت بھی ان کے بہت سے لوگوں کے پاس قبطیوں کے بہت سے زیورات امانتوں کے طور پر موجود تھے۔ چناچہ وہ زیورات ان کے مالکوں کو واپس کرنے کی بجائے اپنے ساتھ لے آئے تھے۔ سامری نے ایک منصوبے کے تحت سارے قافلے سے وہ زیورات اکٹھے کیے۔ باقاعدہ ایک بھٹی بناکر ان زیورات کو گلایا اور بچھڑے کی شکل اور جسامت کا ایک مجسمہ تیار کردیا۔ اس نے ایک ماہر کاریگر کی طرح اس مجسمے کو بنایا ‘ سنوارا اور اس میں کچھ سوراخ اس طرح سے رکھے کہ جب ان میں سے ہوا گزرتی تھی تو گائے کے ڈکارنے جیسی آواز سنائی دیتی۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد سامری نے اعلان کردیا کہ یہ بچھڑا تم لوگوں کا خدا ہے اور موسیٰ ( علیہ السلام) کو دراصل مغالطہ ہوگیا ہے جو خدا سے ملنے کوہ طور پر چلے گئے ہیں۔ اس میں ایک اور نکتہ قابل توجہ ہے ‘ وہ یہ کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) محبت اور جذبہ اشتیاق میں وقت مقررہ سے پہلے ہی کوہ طور پر چلے گئے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب طلبی بھی ہوئی تھی ‘ جس کے بارے میں ہمیں کچھ اشارہ سورة طٰہٰ میں ملتا ہے : (وَمَآ اَعْجَلَکَ عَنْ قَوْمِکَ یٰمُوْسٰی۔ ) اے موسیٰ ! تم اپنی قوم کو چھوڑ کر قبل از وقت کیوں آگئے ہو ؟ اس پر آپ ( علیہ السلام) نے جواب دیا : (وَعَجِلْتُ اِلَیْکَ رَبِّ لِتَرْضٰی۔ ) کہ پروردگار ! میں تو تیری محبت اور تجھ سے گفتگو کرنے کے شوق میں اس لیے جلدی آیا تھا کہ تو اس سے خوش ہوگا۔ گویا آپ ( علیہ السلام) تو فرط اشتیاق میں شاباش کی توقع رکھتے تھے۔ لیکن یہاں ڈانٹ پڑگئی : (قَالَ فَاِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَکَ مِنْم بَعْدِکَ وَاَضَلَّہُمُ السَّامِرِیُّ ) (اللہ تعالیٰ نے) فرمایا : تو (آپ ( علیہ السلام) کی اس عجلت کی وجہ سے) آپ ( علیہ السلام) کے بعد ہم نے آپ ( علیہ السلام) کی قوم کو فتنے میں ڈال دیا ہے اور سامری نے انہیں گمراہ کردیا ہے۔ گویا خیر اور بھلائی کے معاملے میں بھی جلد بازی نہیں کرنی چاہیے اور ہر کام قاعدے ‘ کلیے کے مطابق ہی کرنا چاہیے۔ اسی لیے مثل مشہور ہے : سہج پکے سو میٹھا ہو ! (اَلَمْ یَرَوْا اَنَّہٗ لاَ یُکَلِّمُہُمْ وَلاَ یَہْدِیْہِمْ سَبِیْلاً ٧) اگرچہ اس مجسمے سے گائے کی سی آواز نکلتی تھی لیکن انہوں نے یہ نہ سوچا کہ وہ کوئی بامعنی بات کرنے کے قابل نہیں ہے اور نہ ہی کسی انداز میں وہ ان کی راہنمائی کرسکتا ہے۔ مگر اس کے باوجود : (اِتَّخَذُوْہُ وَکَانُوْا ظٰلِمِیْنَ ) بنی اسرائیل نے اسی بچھڑے کو اپنا معبود مان کر اس کی پرستش شروع کردی اور اس طرح شرک جیسے ظلم عظیم کے مرتکب ہوئے۔ ظالم سے یہ بھی مراد ہے کہ وہ اپنے اوپر بڑے ظلم ڈھانے والے تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

106. Here reference is made to the forty days which Moses spent on Mount Sinai in compliance with God's command when his people remained in the plain at the foot of the mountain called Maydan al-Rahah. 107. Their cow-worship was another manifestation of the Israelites' slavish attachment to the Egyptian traditions at the time of the Exodus. It is well-known that cow-worship was widespread in Egypt and it was during their stay there that the Israelites developed this strange infatuation. The Qur'an also refers to their inclination to cow-worship: 'Their hearts were overflowing with love for the calf because of their unbelief' (al-Baqarah 2: 93). What is more surprising about their turn to idolatry is that it took place just three months after their escape from Egypt. During that time they had witnessed the parting of the sea, the drowning of Pharaoh, and their own deliverance from what otherwise seemed inescapable slavery, to the Egyptians. They knew well that all those events had taken place owing to the unmistakable and direct interference of the all-powerful God. Yet they had the audacity to demand that their Prophet should make for them a false god that they might worship. Not only that, soon after Moses left them for Mount Sinai, they themselves contrived a false god. Disgusted with such conduct on the part of the Israelites, some Prophets have likened their people to a nymphomaniac who loves all save her husband and who is unfaithful to him even on their nuptial night.

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :106 یعنی ان چالیس دِنوں کے دوران میں جب کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی طلبی پر کوہ سینا گئے ہوئے تھے اور یہ قوم پہاڑ کے نیچے میدانُ الرَّاحَہ میں ٹھیری ہوئی تھی ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :107 یہ اس مصریّت زدگی کا دوسرا ظہور تھا جسے لیے ہوئے بنی اسرائیل مصر سے نکلے تھے ۔ مصر میں گائے کی پرستش اور تقدیس کا جو رواج تھا اس سے یہ قوم اتنی شدّت کے ساتھ متاثر ہو چکی تھی کہ قرآن کہتا ہے وَاُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِھِمُ العِجْلَ ۔ یعنی ان کے دلوں میں بچھڑا بس کر رہ گیا تھا ۔ سب سے زیادہ حیرت کا مقام یہ ہے کہ ابھی مصر سے نکلے ہوئے ان کو صرف تین مہینے ہی گزرے تھے ۔ سمندر کا پھٹنا ، فرعون کا غرق ہونا ، ان لوگوں کا بخیریت اس بند غلامی سے نکل آنا جس کے ٹوٹنے کی کوئی امید نہ تھی ، اور اس سلسلے کے دوسرے واقعات ابھی بالکل تازہ تھے ، اور انہیں خوب معلوم تھا کہ یہ جو کچھ ہوا محض اللہ کی قدرت سے ہوا ہے ، کسی دوسرے کی طاقت و تصرف کا اس میں کچھ دخل نہ تھا ۔ مگر اس پر بھی انہوں نے پہلے تو پیغمبر سے ایک مصنوعی خدا طلب کیا ، اور پھر پیغمبر کے پیٹھ موڑتے ہی خود ایک مصنوعی خدا بنا ڈالا ۔ یہی وہ حرکت ہے جس پر بعض انبیاء بنی اسرا ئیل نے اپنی قوم کو اس بدکار عورت سے تشبیہ دی ہے جو اپنے شوہر کے سوا ہر دوسرے مرد سے دل لگاتی ہو اور جو شب اوّل میں بھی بے وفائی سے نہ چُوکی ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

69: اس بچھڑے کا مختصر ذکر سورۃ بقرہ (51:2) میں بھی گذرا ہے اور اس کا مفصل واقعہ سورۃ طہ (88:20) میں آنے والا ہے کہ کس طرھ سامری جادوگر نے یہ بچھڑا بنایا، اور بنی اسرائیل کو یقین دلایا۔ کہ (نعوذ باللہ) تمہارا خدا یہی ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(148 ۔ 149) ۔ موسیٰ (علیہ السلام) طور پر ہی تھے جب یہ واقع ہوا جس کو اللہ پاک نے بیان فرمایا کہ موسیٰ کی قوم بنی اسرائیل نے ایک گائے کا بچھڑا بنایا اور وہ اس کو پوج کر گمراہ ہوگئے قوم بنی اسرائیل نے شادی کے بہانہ سے جب یہ لوگ مصر میں ہی تھے تو قوم قبطی سے کچھ زیور عاریۃ کے طور پر لیا تھا جو انہی لوگوں کے پاس رہ گیا کیونکہ فرعون مع اپنی قوم کے غرق ہو کر ہلاک ہوگیا اسی زیور کا سامری نے ایک گائے کا بچھڑا بنایا اور جبرائیل (علیہ السلام) کو آتے جاتے دیکھ کر ان کے گھوڑے کے قدم کے نیچے کی مٹی ایک مٹھی اٹھا کر اس گائے کے بچھڑے کے منہ میں ڈال دی وہ بولنے لگا۔ خوار گائے کی آواز کو کہتے ہیں اس گائے کے بچھڑے کے بدن کے متعلق مفسروں کے دو قول ہیں ایک تو یہ ہے کہ اسی مٹی کے اثر سے اس کا دھڑ گوشت کا اور جاندار ہوگیا جیسے اصلی گائے ہوتی ہے اس لئے وہ بچھڑا بولنے بھی لگا قتادہ کا بھی یہی قول ہے اور بعضے یہ کہتے ہیں کہ اس کا جسم سونے کا جوں کا توں رہا اور اس میں روح وغیرہ کچھ نہ تھی اس کے منہ کے اندر ہوا کی آمد رفت سے گائے کی سی آواز نکلتی تھی اور بعضوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اس میں حرکت وغیرہ کچھ نہ تھی پھر اللہ پاک نے فرمایا کہ ان لوگوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ وہ لوگ ایسی شے کو معبود ٹھہراتے ہیں جس میں بات کرنے کی طاقت نہیں ہے اور نہ کوئی نفع ضرور اس سے پہنچ سکتا ہے اور نہ یہ کوئی راستہ نجات کا بتلا سکتی ہے پھر فرمایا کہ وہ لوگ اس کام میں بڑے ظالم اور ناانصاف تھے پھر جب موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور سے واپس آئے تو یہ لوگ پیشمان ہوئے اور پچھتائے اور سمجھے کہ ہم گمراہ ہوگئے پھر اپنے قصور کا اقرار کرنے لگے اور کہنے لگے کہ اے رب ہمارے اگر تو رحم نہ کریگا اور نہ بخشے گا تو ہم بہت ہی گھاٹے میں رہیں گے صحیح بخاری ومسلم میں انس (رض) بن مالک کی حدیث ہے جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس طرح انسان کے سارے جسم میں خون پھرتا ہے اسی طرح بہکانے کا موقعہ ڈھونڈنے کے لئے انسان کے تمام جسم میں شیطان چکر مارتا رہتا ہے غرض آیت اور حدیث کو ملا کر مطلب یہ ہوا کہ نبی اللہ موسیٰ (علیہ السلام) کے دور ہوجانے سے شیطان کو بنی اسرائیل پر غلبہ کا موقعہ مل گیا جس سے وہ ان کے تمام جسم میں خون کی طرح سرایت کر گیا اور آخر کو وہ بچھڑے کے پوجنے کے شرک میں پھنس گئے :۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:148) اتخذ۔ بنا لیا۔ اختیار کرلیا۔ پسند کرلیا۔ ٹھہرا لیا۔ حلیم۔ ان کے زیورات۔ ان کے گہنے۔ حلی حلی کی جمع ۔ مضاف مضاف الیہ ۔ حلی حلی (سمع) آراستہ ہونا۔ حلی آراستہ کرنا۔ یحلون فیہا اساور من ذھب (18:31) ان کو وہاں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے۔ عجلا۔ گائے کا بچھڑا۔ گوسالہ۔ جسدا۔ خون و گوشت رکھنے والا۔ یا ڈھانچہ بغیر روح کے۔ لہ خوار۔ گائے کی آواز (اس سے گائے کی سی آواز نکلتی تھی) ۔ (جب حضرت موسیٰ میقات رب کی خاطر طور پر گئے ہوئے تھے تو سامری نے بنی اسرائیل سے زیورات لے کر بچھڑے کا سا مجسمہ بنایا۔ جو گائے کی سی آواز نکالتا تھا) اتخذوہ۔ ای اتخذوہ الہا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 8 یہی قصہ سورة طحہٰ میں بھی بیان ہوا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرئیل کے پاس قبیطوں کے زیورات تھے جنہیں وہ مصرے سے نکلتے وقت اپنے ساتھ لے آئے تھے، جب حضرت موسیٰ ٰ طور پر تشریف لے گئے تو ان میں سے ایک شخص سامریے ان سے یہ زیورات لے لیے اور انہیں آگ میں گلا کر بچھڑے کی شکل کا ایک مجسمہ بنا ڈالا اس آیت میں اس مجسمہ بنانے کو خود بنی اسرائیل کی طرف منسوب کیا گیا ہے کہ سامری نے ان کی اجازت اور رضامندی سے بنایا تھا اور وہ اپنے لیے اس قسم ایک معبود کی خواہش رکھتے تھے ( ابن کثیر، کبیر) مفسرین (رح) کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ آیا بچھڑا واقعی گوشت پوست اور خون کا بن گیا تھا۔ او اس میں جان پڑگئی تھی یا وہ محض ایک مجسمہ رہا جس میں ہوا داخل ہوتی یا داخل کی جاتی تو اس سے بچھڑے کی سی کی آواز نکلتی تھی ؟ جو مفسرین اس کے واقعی جاندار بچھڑ اہونے کے قائل ہیں وہ اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت جبریل ( علیہ السلام) حضرت مو سیٰ ( علیہ السلام) کے پاس گھوڑے پر سوا ہو کر آئے سامری نے انھیں دیکھ لیا او ان کے گھوڑے کے پاؤں تلے کی کچھ مٹی لے لی اور انہوں نے آیت سورة طحہٰ فقبضت قبضتہ من اثر الر سول۔ کے معنی کے ہیں چناچہ اس مٹی کو جب انہوں نے بچھڑے کے اس مجسمہ پر ڈالا تو وہ سچ مچ کا بچھڑا بن گیا لیکن یہ کسی صحیح روایت سے ثابت نہیں ہے اس لیے علمانے کوئی قطعی بات کہنے سے احتراز کیا۔ ( ابن کثیر) نیز دیکھئے سورة طحہٰ آیت 88 ۔ 96)9 پھر و خدا کیسے ہوسکتا ہے ؟ اگر بالفرض اس میں جان بھی پڑگئی ہے تو وہ ایک حیوان عاجز ہے معلوم ہوا کہ کے لیے متکلم اور ہادی ہونا ضروری ہے متکلم ہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ صاحب امرونہی ہو اور ہادی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اسے ہدایت پر قدرت ہو۔ رازی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

رکوع نمبر 18: آیات 148 ۔ تا۔ 151: اسرارو معارف : موسی (علیہ السلام) کی قوم کا حال سنیں کہ جب انہوں نے اتباع نبوت کے مقابلے میں اپنی عقل پر بھروسہ کیا تو عجیب گمراہی میں مبتلا ہوگئے۔ سامری نام کا ایک مشہور آدمی تھا اس نے سب سے سونا چاندی جمع کرکے اسے پگھلایا اور اس میں وہ مٹی ڈال جو وہ جبرائیل امین کی سواری کے قدموں سے اٹھالایا تھا چناچہ ایک بچھڑے کو بنا دیا جس میں کسی حد تک زندگی کا اثر تھا دوسرے معجزات کے ساتھ یہ دو عظیم معجزات آپ کی نبوت کی دلیل ہیں آپ فرعون اور اس کے امراء سے بات کیجیے انہیں راہ راست کی طرف بلائیے کہ وہ بہت سخت نافرمان ہیں۔ آپ نے عرض کیا بارالہا مجھ سے تو ان کا ایک قبطی مارا گیا تھا خطرہ یہ ہے کہ بات سننے سے پہلے ہی وہ میرے قتل کا حکم صادر کردے پھر اگر بات ہو اور سوال جواب کرنے پڑیں تو میری زبان میں لکنت ہے جن کہ میرے بھائی ہارون بڑے فصیح ہیں اور خوب کلام کرسکتے ہیں انہیں آپ میرے سات کردیجیے کہ وہ میری قوت بھی ہوں گے اور میری تصدیق بھی کریں گے فرعونیوں سے تو مجھے ڈر ہے کہ وہ میری تکذیب کریں گے تو کوئی ایسا بھی ہو جو ان کے روبرو تصدیق بھی کرے۔ ارشاد ہوا تمہارے بھائی کو تمہاری قوت بازو بنا دیں گے یعنی انہیں بھی نبوت سے سرفراز کر کے ساتھ کردیا اور تمہیں وہ رعب عطا کریں گے کہ فرعونی ہاتھ ڈالنے کی جرات ہی نہ کرسکیں گے نیز آپ معجزات لے کر جائیں یعنی تم نے نبی کی تعلیمات کا اتنظار کرنے کی بجائے اپنی عقل اور رائے سے فیصلہ کیا : تعلیمات انبیاء کے مقابلہ میں عقل کی کوئی حیثیت نہیں : حالانکہ نبی اللہ سے بات حاصل کرکے آگے بتاتا ہے اور عقل امور دنیا کے لیے ہے آخرت کے لیے نہیں۔ یہاں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ وہ روشنی جلوہ ذات باری تھا بلکہ وہ نور تو تجلی صفاتی کا کا تھا کہ کلام باری خود صفت باری ہے ارشاد یہ ہورہا تھا کہ یہ کلام جو آپ سن رہے ہیں اور جس کے انوارات سے وادی بقعہ نور بنی ہوئی ہے کرنے والا میں اللہ ہوں۔ اور حکم ہوا کہ اپنے عصا کو ڈال دیجیے آپ نے پھینکا تو وہ اژدہا بن کر پھنکارنے لگا تو موسیٰ (علیہ السلام) جو فزدہ ہو کر پیچھے کو بھاگے کہ بہت بڑا اژدھا تھا آپ نے جان بچانا چاہی اور پیچھے دیکھا تک نہیں کہ دوبارہ آواز آئی کہ موسیٰ ڈریں نہیں واپس آئیں اور آگے بڑھیں۔ آپ تو اللہ کی طرف سے امن دیے گئے ہیں یہ آپ کا معجزہ ہے آپ کی مدد اور نبوت کا ثبوت ہے اسے ہاتھ میں لیجیے عصا بن جائے گا۔ اب اپنا ہاتھ گریبان میں ڈالیے جب نکالیں گے تو بہت روشن ہوگا اور گھبرنے کی کوئی بات نہیں ۔ اللہ بہت بڑا رحم کرنے والا ہے۔ دعا کا ادب یہ ہے کہ کسی کے لیے بھی دعا کرتے تو خود کو بھی شامل رکھے اور اپنے عجز اور اللہ کی عظمت کا تذکرہ کرے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

تشریح آیت نمبر 148 تا 149 بنی اسرائیل سیکڑوں سال کئی نسلوں تک مصر میں بت پرست قوموں کے ساتھ رہے۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) آتے رہے ان کی اصلاح فرماتے رہے مگر جب بھی ان کی تعلیمات سے غفلت برتتے تو پھر سے بت پرستی کر طرف مائل ہوجاتے چناچہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تبلیغ اور ان کے معجزات ، جن میں سمندری میں راستے بن جانا فرعون اور اس کی قوم کا غرق ہونا بنی اسرائیل کا صاف بچ کر نکل آنا وغیرہ کچھ عرصہ کا اثر رہا اس کے بعد پھر ان کی طبیعت لہرائی خصوصاً جب کہ انہوں نے جزیرہ نمائے سینا میں سامیوں کے عظیم الشان بت خانے دیکھے ھالان کہ فرعونیوں کے ظلم و ستم سے رہائی پائے ہوئے انہیں بس دو تین مہینے ہی ہوئے تھے انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کوہ طور پر جانے کے بعد سامری جادوگر کے کہنے پر اپنا تمام سونا چاندی اس کے حوالے کردیا ۔ اس نے اس سونے چاندی کو گلا کر ایک یسا بچھڑا بنادیا جس میں سے ایک آواز بھی نکلتی تھی اور اس نے یقین دلایا کہ در حقیقت یہی وہ تمہارا معبود ہے جس سے تم اپنی مرادیں مانگ سکتے ہو۔ اصل میں بتوں کو پوجنے کے لئے صرف یہی کافی ہے کہ اس کے پیچھے کچھ جھوٹی کہانیاں گھڑدی جائیں اور اس کے کمالات کو لوگوں میں مشہور کردیاجائے وہ چیز خواہ سانپ ہو درخت ہو، گائے کا گوبر ہو یا پیشاب ہو یا کوئی بت کی شکل میں انسانی تصویر۔ گمراہ انسان ان سب چیزوں کے آگے جھک جاتا ہے اور نا کو اپنا معبود تصور کرلیتا ہے۔ اس میں جاہل اور پڑھے لکھے سب برابر ہوتے ہیں آپ نے دیکھا بھی ہوگا کہ بعض لوگ انتہائی قابل لائق، سیاستدانوں پڑھے لکھے لوگے ہوتے ہیں جن کے عقلی فیصلوں پر لوگوں کو اعتماد ہوتا ہے لیکن وہ مذہب کے معاملے میں پتھروں اور گڑیوں کے سامنے جھک جاتے ہیں اور ان کو اپنا معبود سمجھتے ہیں اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ ان کا یہ فعل بھی کوئی عقل اور علم سے تعلق رکھتا ہے بلکہ ان کی عقل ان چیزوں میں خوب فیصلے کرتی ہے جو سامنے ہوتی ہے لیکن جو چیز اور بات عقل میں اور تجربہ میں آہی نہیں سکتی اس پر وہ آنکھ بند کرکے یقین کرلیتے ہیں انکا ان چیزوں کو پوجنا اور ان کو اپنا حاجت روا ماننے کا ان کے علم اور عقل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ اس کا قصہ سورة طہ میں ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے کوہ طور پر جانے کے بعد بنی اسرائیل کا مشرکانہ کردار۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے بڑے بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) کو اپنا خلیفہ بنا کر اللہ تعالیٰ کے حکم سے چالیس دنوں کے لیے کوہ طور پر معتکف ہوئے ان کی غیر حاضری میں بنی اسرائیل میں سے ایک شخص جس کا نام سامری تھا۔ اس نے بنی اسرائیل سے سونے کے زیورات اکٹھے کیے اور ان کو ڈھال کر ایک بچھڑا بنایا۔ پھر اس میں مٹی ڈالی جس مٹی کے بارے میں سورة طٰہٰ آیت ٩٦ میں بیان ہوا ہے کہ یہ مٹی اس نے اس وقت اٹھائی تھی جب بحر قلزم میں فرعون نے ڈبکیاں لیتے ہوئے کہا کہ میں موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لاتا ہوں۔ تو جبرائیل (علیہ السلام) نے مٹی اٹھا کر اس کے منہ پر ماری تھی۔ سامری نے دیکھا کہ جس گھوڑے پر جبریل امین (علیہ السلام) انسانی شکل میں سوار ہیں اس کے سم جہاں پڑتے ہیں۔ گھاس ہری ہوجاتی ہے۔ اس نے اس مٹی کو اٹھا لیا۔ کچھ حضرات نے لکھا ہے کہ اثر رسول سے مراد موسیٰ (علیہ السلام) ہیں۔ قرآن مجید نے سامری کی اس بات کی تردید یا تائید نہیں کی جو اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کہی میں نے یہ مٹی فلاں موقع پر اٹھائی تھی۔ اس نے لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے اس مٹی کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ قرار دیا تاکہ وہ سزا سے بچ جائے۔ بہر کیف الرسول سے مراد موسیٰ (علیہ السلام) ہوں یا جبرائیل امین (علیہ السلام) سامری نے شیطانی تکنیک سے ایک ایسا بچھڑا بنایا کہ جس کے منہ سے مختلف قسم کی آوازیں نکلتی تھیں۔ بچھڑے کو سمجھنے کے لیے آج کے دور کے کھلونے اور ربوٹ دیکھنے چاہییں کہ جو ایسی حرکات کرتے ہیں کہ ان کے ذی روح ہونے کا گمان ہوتا ہے۔ بنی اسرائیل کی ظاہر پرستی اور مشرکانہ جبلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سامری انھیں یہ باور کرانے میں کامیاب ہوا کہ موسیٰ (علیہ السلام) جس رب کے حکم سے کوہ طور پر گئے ہیں وہ ہمارے پاس خود آن پہنچا ہے۔ بنی اسرائیل میں سے بہت سے لوگوں نے بچھڑے کو معبود سمجھ کر اس کی تکریم اور عبادت شروع کردی جس طرح کہ مشرک لوگ بتوں اور قبروں کی عبادت کرتے ہیں۔ ایک احترام کے طور پر اس کے سامنے کھڑا ہے اور دوسرا اس بچھڑے کے سامنے رکوع کر رہا ہے۔ کوئی اس کے سامنے ہاتھ جوڑے ہوئے اپنی حاجات پیش کرتا اور کوئی اس کے حضور سجدہ اور نیاز پیش کر رہا ہے انھوں نے یہ دیکھنے اور سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی کہ یہ تو ہمارے ہی زیورات سے بنایا ہوا ایک مجسمہ ہے جو نہ خودبات کرسکتا ہے اور نہ ہی ہماری فریاد کا جواب دیتا ہے۔ اسے اپنے قدموں پہ چلنے کی طاقت نہیں اور نہ ہی اسے شعور اور اس کے وجود میں کوئی حرکت پائی جاتی ہے۔ لہٰذا یہ مشکل کشا حاجت روا کس طرح ہوسکتا ہے اور ہماری رہنمائی کیونکر کرسکتا ہے مشرکانہ عقیدہ کا یہی اندھاپن ہے کہ لوگ اس عقیدہ کو سوچے سمجھے بغیر محض بھیڑ چال کے طور پر قبول کرتے چلے جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے مشرکانہ عقیدہ اور کردار ایسا ظلم ہے جس کے مقابلے میں تاریخ انسانی میں کوئی مثال نہیں پائی جاتی۔ ظلم نام ہے کسی چیز کو اس کی اصل جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ رکھنے کا یہی کچھ مشرک کرتا اور سوچتا ہے کہ جو تکریم اور عبادت کے آداب صرف اور صرف ایک اللہ کے لیے ہونے چاہییں مشرک قبروں، بتوں اور دیگر چیزوں میں تصور کرتا ہے۔ یہاں الوہیت کی صرف دو صفات کا اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ جناب موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم کو یہ فرما کر گئے تھے کہ میں اللہ تعالیٰ سے ہم کلامی کرنے اور مستقبل کے لیے ہدایات لینے کے لیے جا رہا ہوں۔ اس لیے اس قوم کو اچھی طرح معلوم تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) اپنے رب سے ہم کلام ہونے کے ساتھ ہمارے لیے مزید ہدایات لائیں گے۔ جس بچھڑے کو انھوں نے اپنا معبود بنا لیا تھا۔ اس میں باقی صفات تو چھوڑ یے یہ دو بھی نہیں پائی جاتی تھیں۔ پھر اس کو معبود بنانے کا ان کے پاس کیا جواز تھا۔ (قَالَ فَاذْہَبْ فَإِنَّ لَکَ فِی الْحَیَاۃِ أَنْ تَقُولَ لَا مِسَاسَ وَإِنَّ لَکَ مَوْعِدًا لَنْ تُخْلَفَہٗ وَانْظُرْ إِلٰی إِلٰہِکَ الَّذِی ظَلْتَ عَلَیْہِ عَاکِفًا لَنُحَرِّقَنَّہٗ ثُمَّ لَنَنْسِفَنَّہٗ فِی الْیَمِّ نَسْفًا۔إِنَّمَآ إِلٰہُکُمُ اللّٰہُ الَّذِی لَآ إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ وَسِعَ کُلَّ شَیْءٍ عِلْمًا کَذٰلِکَ نَقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ أَ نْبَاءِ مَا قَدْ سَبَقَ وَقَدْ آَتَیْنَاکَ مِنْ لَّدُنَّا ذِکْرًا)[ طٰہٰ : ٩٧ تا ٩٩] ” موسیٰ نے کہا : جاؤ تمہارے لیے زندگی بھر یہ (سزا) ہے کہ (دوسروں سے) کہتے رہو کہ مجھے نہ چھونا اور تیرے لیے عذاب کا ایک وقت ہے جو تجھ سے کبھی نہیں ٹل سکتا اور اپنے الٰہ کی طرف دیکھ، جس کے آگے تو معتکف رہتا تھا کہ ہم کیسے اسے جلا ڈالتے ہیں پھر اس کی راکھ کو کیسے دریا میں بکھیر دیتے ہیں۔ تمہارا الٰہ تو صرف وہی ہے جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اس کا علم ہر چیز کو محیط ہے۔ اے نبی ! اسی طرح ہم گزرے ہوئے لوگوں کی خبریں تجھ سے بیان کرتے ہیں نیز ہم نے اپنے ہاں سے تجھے قرآن عطا کیا ہے۔ “ قرآن مجید کے الفاظ سے ثابت ہوتا ہے۔ جو لوگ اپنی ضعیف الاعتقادی کی وجہ سے بچھڑے پر ٹوٹ پڑے تھے انھیں موسیٰ (علیہ السلام) کے آنے سے پہلے احساس ہوگیا کہ ہم سے گناہ ہوا ہے۔ لہٰذا وہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے لگے۔ لیکن قرآن مجید بیان کرتا ہے کہ انھیں دنیا میں ذلیل کردینے والی سزا دی گئی۔ جو یہ تھی کہ تم اپنے ہاتھوں ایک دوسرے کو قتل کرو۔” اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا : اے میری قوم ! تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر اپنے آپ پر ظلم کیا ہے لہٰذا اپنے خالق کے حضور توبہ کرو اور اپنی جانوں کو ہلاک کرو۔ تمہارے رب کے ہاں یہی بات تمہارے حق میں بہتر ہے۔ پھر اللہ نے تمہاری توبہ قبول کرلی وہ توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔ “ (البقرۃ : ٥٤) مسائل ١۔ مشرک جن کی عبادت کرتے ہیں وہ نہ ان سے کلام کرسکتے ہیں اور نہ ہی ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ٢۔ شرک کرنا اپنے آپ پر ظلم کرنے کے مترادف ہے۔ ٣۔ کفر و شرک کی حالت میں مرنے والا شخص قیامت کے دن بڑا نقصان پائے گا۔ تفسیر بالقرآن خسارہ پانے والے لوگ : ١۔ ( حضرت آدم اور حضرت حوانے کہا) اے اللہ اگر تو نے معاف نہ کیا اور رحم نہ کیا تو ہم خسارہ پانے والے ہوں گے۔ (الاعراف : ٢٣) ٢۔ دنیا اور آخرت کا خسارہ بہت بڑا خسارہ ہے۔ (الحج : ١١) ٣۔ جس کا نیکی والا پلڑا ہلکا ہوا خسارہ پائے گا۔ (الاعراف : ٩) ٤۔ جنھوں نے اللہ کی آیات کا انکار کیا وہ خسارہ پائیں گے۔ (الزمر : ٦٣) ٥۔ اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم خسارہ پانے والے ہوجا تے۔ (البقرۃ : ٦٤) ٦۔ جن کے اعمال برباد ہوگئے وہ خسارہ پائیں گے۔ (المائدۃ : ٥) ٧۔ ارکان اسلام کو چھوڑنے والے آخرت میں خسارہ پائیں گے۔ (النمل : ٥) ٨۔ اسلام سے رو گردانی کرنے والے دنیاء و آخرت میں خسارہ پائیں گے۔ (آل عمران : ٨٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

جس دوران حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دربار میں تھے ، یہ ایک منفرد ملاقات تھی اور ہماری محدود آنکھوں کے لیے ظاہر ہے کہ اس منظر کا احاطہ کرنا ممکن ہی نہیں نہ ہماری روح اس منظر کو دیکھ سکتی ہے اور ہماری فکر اور قوت مدرکہ اس کے بارے میں حیران ہے۔ حضرت موسیٰ کی عدم موجودگی میں ان کی قوم نے گمراہی اختیار کرلی۔ وہ دوبارہ مصری بیماریوں میں مبتلا ہوگئے اور بت پرستی کے گڑھے میں گر گئے۔ انہوں نے ایک بولتے ہوئے بچھڑے کے بت کو اپنا الہ بنا لیا اور اس کی عبادت شروع کردی۔ ان حالات میں اب اس قصے کے نویں منظر سے ہم آگے بڑھتے ہیں اور ہمارے سامنے اس کا دسواں منظر آتا ہے۔ نواں منظر بلند عالم بالا میں ہے ، جس کے مناظر میں خوشی اور روشنی کا ماحول ہے ، محبتوں اور بہار کے مکالمات ہمارے سامنے تھے ، لیکن اچانک ایسا منظر نظر آتا ہے کہ لوگ سربلندیوں سے پستیوں میں گرتے ہیں ، وہ صحت مندی کے بعد وہ دوبارہ بیمار بیمار نظر آتے ہیں۔ واضح سوچ کے بجائے خرافات کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ ۔۔۔۔ وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوْسٰي مِنْۢ بَعْدِهٖ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ۔ موسیٰ کے پیچھے اس کی قوم کے لوگوں نے اپنے زیوروں سے ایک بچھڑے کا پتلا بنایا جس میں بیل کی سی آواز نکلتی تھی یہ ہے بنی اسرائیل کا مزاج ، وہ قدم قدم پر بےراوہ روی اختیار کرتے ہیں۔ وہ ظاہری اور معنوی کسی بھی اعتبار سے بلندی کی طرف نہیں جاتے بلکہ ان کی فطرت میں پستی کی طرف گرنا ہی لکھا ہے۔ جونہی ہدایت و راہنمائی کا سلسلہ منقطع ہوتا ہے وہ غلط راہوں پر چل پڑتے ہیں۔ انہوں نے بحر قلزم کو معجزانہ طور پر پار کرتے ہی دیکھا کہ ایک قوم بت پرستی میں مشغول ہے تو انہوں نے پیغمبر سے مطالبہ کردیا کہ ہمارے لیے بھی ایسا ہی الہ بنا دیا جائے۔ اس پر حضرت موسیٰ نے انہیں روکا اور ان کے اس خیال کو سختی سے رد کردیا۔ جب حضرت موسیٰ طور پر گئے اور انہوں نے دیکھا کہ ایک سنہری بچھڑا آواز نکال رہا ہے اور اس میں زندگی کے آثار بھی نہیں محض ایک جسد ہے ، یہ سامری کی مصنوعات میں سے ایک عجیب صنعت تھی۔ یہ شخص سامرہ کا رہنے والا تھا ، اس کے بارے میں سورت طلہ میں تفصیلات درج ہیں۔ اس نے اس بچھڑے کو اس طرح ڈیزائن کیا کہ اس سے بیلوں جیسی آواز نکل رہی تھی۔ جب انہوں نے اسے دیکھا تو ہر طرف سے امنڈ آئے اور جب سامری نے ازروئے شیطنت یہ کہا کہ یہ تمہارے موسیٰ اور تمہارا الہ ہے تو یہ اس پر ٹوٹ پڑے۔ اس نے کہا کہ موسیٰ جس الہ کی ملاقات کے لیے گئے ہیں وہ تو یہ رہا۔ موسیٰ نے مقام اور وقت کے تعین میں غلطی کی ہے۔ انہوں نے خصوصاً اس لیے بھی یقین کرلیا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک ماہ سے زیادہ عرصہ گزار لیا۔ جب حضرت موسیٰ تیس دنوں کے بعد بھی نہ لوٹے تو سامری نے کہا کہ موسیٰ (علیہ السلام) غلطی کر گئے ہیں الہ تو یہ رہا۔ حالانکہ حضرت موسیٰ نے ان کو ایک ایسے رب کی عبادت کی تعلیم دی تھی جو نظر نہیں آتا تھا ، جو رب العالمین تھا۔ انہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ یہ جسد تو ان میں سے ایک شخص سامری کی صنعت ہے۔ بنی اسرائیل اپنے کردار کا جو نقشہ پیش کر رہے تھے وہ انسانیت کی ایک نہایت ہی بھونڈی تصویر تھی ، قرآن کریم اس تصویر پر تعجب کا اظہار کرکے مشرکین مکہ کو یہ تصور دیتا ہے کہ تم دیکھتے نہیں ہو کہ جن بتوں کی تم پوجا کرتے ہو ان کی حالت کیا ہے ؟ اَلَمْ يَرَوْا اَنَّهٗ لَا يُكَلِّمُهُمْ وَلَا يَهْدِيْهِمْ سَبِيْلًا ۘ اِتَّخَذُوْهُ وَكَانُوْا ظٰلِمِيْنَ ۔ کیا انہیں نظر نہ آتا تھا کہ وہ نہ ان سے بولتا ہے نہ کسی معاملہ میں ان کی رہنمائی کرتا ہے ؟ مگر پھر بھی انہوں نے اسے معبود بنا لیا اور وہ سخت ظالم تھے۔ اس سے بڑا ظالم کون ہے جو ایک ایسے جسد کی عبادت کرتا ہے جسے خود اس نے بنایا ہو ، حالانکہ خود انسانوں کو اور ان کی مصنوعات کو اللہ بناتا ہے ، حقیقی خالق اللہ ہے۔ ان میں حضرت ہارون موجود تھے ، وہ اس بھونڈی گمراہی سے ان کو نہ روک سکے۔ ان میں بعض عقلاء اور مومنین بھی موجود تھے ، لیکن وہ بھی بتے عقل عوام کے اس ریلے کے ٓگے بند نہ باندھ سکے۔ خصوصاً جبکہ وہ سونے کا بنا ہوا تھا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

بنی اسرائیل کا زیوروں سے بچھڑا بنا کر اس کی عبادت کرنا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا غضبناک ہونا بنی اسرائیل مصر میں بت پرستی اور گاؤ پرستی دیکھتے آئے تھے اسی لیے جب سمندر پار کر کے مصر کے علاوہ دوسرے علاقہ میں آئے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہنے لگے کہ ہمارے لیے بھی اسی طرح کا معبود بنا دیجیے جو مجسم ہو صورت و شکل ہمارے سامنے ہو۔ پھر جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) چالیس دن کے لیے طور پر تشریف لے گئے تو ان کے پیچھے گؤ سالہ پرستی شروع کردی جس کا واقعہ یہ ہوا کہ جب بنی اسرائیل مصر سے نکلنے والے تھے اس وقت انہوں نے قبطی قوم سے (جو مصر کے اصلی باشندے تھے) زیور مانگ لیے تھے۔ یہ زیورات ان لوگوں کے پاس تھے۔ ان میں سے ایک آدمی سامری تھا جو سنار کا کام کرتا تھا۔ اس نے ان زیوروں کو جمع کر کے بچھڑے کی شکل بنا لی اور اس کے منہ میں مٹی ڈال دی (یہ مٹی وہ مٹی تھی جو اس نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے گھوڑے کے پاؤں کے نیچے سے نکالی تھی) اللہ تعالیٰ نے اس مٹی میں ایسا اثر ڈالا کہ اس مجسمہ سے گائے کے بچے کی آواز آنے لگی۔ یہ لوگ شرک سے مانوس تو تھے ہی۔ کہنے لگے (ھٰذَا اِلٰہُ مُوْسٰی فَنَسِیَ ) (کہ یہ تمہارا معبود ہے اور موسیٰ کا بھی معبود ہے سو وہ بھول گئے جو طور پر معبود سے ہم کلام ہونے کے لیے گئے ہیں) حضرت ہارون (علیہ السلام) جن کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) خلیفہ بنا کر تشریف لے گئے تھے۔ انہوں نے ان کو سمجھایا کہ تم فتنے میں پڑگئے ہو، تمہارا رب رحمن ہے تم میرا اتباع کرو اور میرا حکم مانو۔ اس پر بنی اسرائیل نے کہا کہ ہم برابر اس بچھڑے کے آگے پیچھے لگے رہیں گے یہاں تک کہ موسیٰ (علیہ السلام) تشریف لائیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا بنی اسرائیل سے اور سامری سے سوال و جواب فرمانا سورة طہٰ رکوع ٤، ٥ میں مذکور ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ جل شانہٗ سے پہلے ہی مطلع فرما دیا تھا کہ تمہاری قوم تمہارے بعد گمراہی میں پڑگئی ہے اور ان کو سامری نے گمراہ کردیا تھا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) توریت شریف کی تختیاں لے کر تشریف لائے اور گاؤ سالہ پرستی کا منظر دیکھا تو بہت سخت غضبناک اور رنجیدہ ہوئے اور فرمایا (بِءْسَمَا خَلَفْتُمُوْنِیْ مِنْ بَعْدِیْ ) (کہ میرے بعد تم نے میری بری نیابت کی) (اَعَجِلْتُمْ اَمْرَ رَبِّکُمْ ) کیا تم نے اپنے رب کا حکم آنے سے پہلے جلد بازی کی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

140: جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور پر تورات لینے کے لیے گئے تو ان کی عدم موجودگی میں سامری نے قوم کو گمراہ کردیا۔ اسرائیلی پہلے ایک قوم کو گائے کی پوجا کرتے دیکھ چکے تھے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اس کی مورتی کا مطالبہ بھی کرچکے تھے۔ اب سامری نے موقعہ سے فائدہ اٹھا کر بنی اسرائیل سے زیورات حاصل کیے اور ان کو ڈھال کر ایک گوسالے کا بت تیار کیا جو گوسالے کی طرح آواز کرتا تھا۔ اس کی مزید تحقیق سورة بقرہ کی تفسیر میں گذر چکی ہے۔ (دیکھو ص 36 حاشیہ 112) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

148 اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے طور پر تشریف لے جانے کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے اپنے ان زیورات کو جو وہ قبطیوں کے مصر سے لیکر نکلے تھے گلاکر ایک گائے کا بچھڑا بنالیا جو محض ایک مجسمہ تھا اور اس میں سے صرف بچھڑے کی آواز نکلتی تھی انہوں نے اتنا بھی نہ سمجھا کہ یہ بچھڑا نہ تو ان سے کوئی کلام کرسکتا ہے نہ ان سے کوئی بات کرسکتا ہے۔ نہ ان کو کوئی راہ بتاسکتا ہے۔ نہ ان کو راستہ دکھا سکتا ہے باوجود اس کے انہوں نے اس مجسمہ کو معبود ٹھہرالیا اور اس کو خدا بناکر پرستش شروع کردی اور وہ موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم کے لوگ تھے ہی بےانصاف۔ یعنی اس سے بڑھ کر کیا ناانصافی اور ظلم ہوگا کہ اپنے ہاتھوں سے بنائی ہوئی چیز کو اپنا معبود اور خدا بناکر اس کی پوجا شروع کردی۔