Surat ul Aeyraaf

Surah: 7

Verse: 46

سورة الأعراف

وَ بَیۡنَہُمَا حِجَابٌ ۚ وَ عَلَی الۡاَعۡرَافِ رِجَالٌ یَّعۡرِفُوۡنَ کُلًّۢا بِسِیۡمٰہُمۡ ۚ وَ نَادَوۡا اَصۡحٰبَ الۡجَنَّۃِ اَنۡ سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ ۟ لَمۡ یَدۡخُلُوۡہَا وَ ہُمۡ یَطۡمَعُوۡنَ ﴿۴۶﴾

And between them will be a partition, and on [its] elevations are men who recognize all by their mark. And they call out to the companions of Paradise, "Peace be upon you." They have not [yet] entered it, but they long intensely.

اور ان دونوں کے درمیان ایک آڑ ہوگی اور اعراف کے اوپر بہت سے آدمی ہونگے وہ لوگ ہر ایک کو ان کے قیافہ سے پہچانیں گے اور اہل جنت کو پکار کر کہیں گے السلامُ علیکم! ابھی یہ اہل اعراف جنت میں داخل نہیں ہوئے ہونگے اور اس کے امیدوار ہونگے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The People of Al-A`raf Allah says; وَبَيْنَهُمَا حِجَابٌ ... And between them will be a (barrier) screen, After Allah mentioned that the people of Paradise will address the people of the Fire, He stated that there is a barrier between Paradise and the Fire, which prevents the people of the Fire from reaching Paradise. Ibn Jarir said, "It is the wall that Allah described, فَضُرِبَ بَيْنَهُم بِسُورٍ لَّهُ بَابٌ بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّحْمَةُ وَظَـهِرُهُ مِن قِبَلِهِ الْعَذَابُ So a wall will be put up between them, with a gate therein. Inside it will be mercy, and outside it will be torment. (57:13) It is also about Al-A`raf that Allah said, ... وَعَلَى الاَعْرَافِ رِجَالٌ ... and on Al-A`rafwill be men." Ibn Jarir recorded that As-Suddi said about Allah's statement, وَبَيْنَهُمَا حِجَابٌ (And between them will be a screen), "It is the wall, it is Al-A`raf." Mujahid said, "Al-A`raf is a barrier between Paradise and the Fire, a wall that has a gate." Ibn Jarir said, "Al-A`raf is plural for Urf, where every elevated piece of land is known as Urf to the Arabs." As-Suddi said, "Al-A`raf is so named because its residents recognize (Ya`rifun) the people. Al-A`raf's residents are those whose good and bad deeds are equal, as Hudhayfah, Ibn Abbas, Ibn Mas`ud and several of the Salaf and later generations said." Ibn Jarir recorded that Hudhayfah was asked about the people of Al-A`rafand he said, "A people whose good and bad deeds are equal. Their evil deeds prevented them from qualifying to enter Paradise, and their good deeds qualified them to avoid the Fire. Therefore, they are stopped there on the wall until Allah judges them." ... يَعْرِفُونَ كُلًّ بِسِيمَاهُمْ ... who would recognize all, by their marks. ... وَنَادَوْاْ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَن سَلَمٌ عَلَيْكُمْ لَمْ يَدْخُلُوهَا وَهُمْ يَطْمَعُونَ And they will call out to the dwellers of Paradise, "Peace be on you!" and at that time they will not yet have entered it (Paradise), but they will hope to enter (it). Ma`mar said that Al-Hasan recited this Ayah, لَمْ يَدْخُلُوهَا وَهُمْ يَطْمَعُونَ (and at that time they will not yet have entered it (Paradise), but they will hope to enter (it), Then he said, "By Allah! Allah did not put this hope in their hearts, except for an honor that He intends to bestow on them." Qatadah said; "Those who hope are those among you whom Allah informed of their places." Allah said next, وَإِذَا صُرِفَتْ أَبْصَارُهُمْ تِلْقَاء أَصْحَابِ النَّارِ قَالُواْ رَبَّنَا لاَ تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ

جنت اور جہنم میں دیوار و حجاب جنتیوں اور دوزخیوں کی بات بیان فرما کر ارشاد ہوتا ہے کہ جنت دوزخ کے درمیان ایک اور حجاب حد فاصل اور دیوار ہے کہ دوزخیوں کو جنت سے فاصلے پر رکھے اسی دیوار کا ذکر آیت ( فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُوْرٍ لَّهٗ بَابٌ ۭ بَاطِنُهٗ فِيْهِ الرَّحْمَةُ وَظَاهِرُهٗ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذَاب13 ) 57- الحديد ) ، میں ہے یعنی ان کے درمیان ایک دیوار ہائل کر دی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہے ۔ اس کے اندر رحمت ہے اور باہر عذاب ہے ۔ اسی کا نام ( اعراف ) ہے ۔ ( اعراف ) ( عرف ) کی جمع ہے ہر اونچی زمین کو عرب میں عرفہ کہتے ہیں اسی لئے مرغ کے سر کی کلنگ کو بھی عرب میں ( عرف الدیک ) کہا جاتا ہے کیونکہ اونچی جگہ ہوتا ہے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں یہ ایک اونچی جگہ ہے جنت دوزخ کے درمیان جہاں کچھ لوگ روک دیئے جائیں گے ۔ سدی فرماتے ہیں اس کا نام اعراف اس لئے رکھا گیا ہے کہ یہاں کے لوگ اور لوگوں کو جانتے پہچانتے ہیں ۔ یہاں کون لوگ ہوں گے؟ اس میں بہت سے اقوال ہیں سب کا حاصل یہ ہے کہ وہ یہ لوگ ہوں گے جن کے گناہ اور نیکیاں برباد ہوں گی بعض سلف سے بھی یہی منقول ہے ۔ حضرت حذیفہ حضرت ابن عباس حضرت ابن مسعود وغیرہ نے یہی فرمایا ہے ۔ یہی بعد والے مفسرین کا قول ہے ۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے لیکن سنداً وہ حدیث غریب ہے اور سند سے مروی ہے کہ حضور سے جب ان لوگوں کی بابت جن کی نیکیاں بدیاں برابر ہوں اور جو اعراف والے ہیں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا یہ وہ نافرمان لوگ ہیں جو اپنے باپ کی اجازت بغیر پھر اللہ کی راہ میں قتل کر دیئے گئے اور روایت میں ہے کہ یہ لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے اور اپنے والدین کے نافرمان تھے تو جنت میں جانے سے باپ کی نافرمانی نے روک دیا اور جہنم میں جانے سے شہادت نے روک دیا ۔ ابن ماجہ وغیرہ میں بھی یہ روایتیں ہیں ۔ اب اللہ ہی کو ان کی صحت کا علم ہے بہت ممکن ہے کہ یہ موقوف روایتیں ہوں ۔ بہر صورت ان سے اصحاب اعراف کا حال معلوم ہو رہا ہے ۔ حضرت حذیفہ سے جب ان کی بابت سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جن کی نیکیاں بدیاں برابر برابر تھیں ۔ برائیوں کی وجہ سے جنت میں نہ جا سکے اور نیکیوں کی وجہ سے جہنم سے بچ گئے پس یہاں آڑ میں روک دیئے جائیں گے یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ ان کے بارے میں سرزد ہو اور آیت میں آپ سے مروی ہے کہ یہ دوزخیوں کو دیکھ دیکھ کر ڈر رہے ہوں گے اور اللہ سے نجات طلب کر رہے ہوں گے کہ ناگاہ انکا رب ان کی طرف دیکھے گا اور فرمائے گا جاؤ جنت میں داخل ہو جاؤ میں نے تمہیں بخشا ۔ حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں قیامت کے دن لوگوں کا حساب ہو گا ایک نیکی بھی اگر برائیوں سے بڑھ گئی تو داخل جنت ہو گا اور ایک برائی بھی اگر نیکیوں سے زیادہ ہو گئی تو دوزخ میں جائے گا پھر آپ نے آیت ( فمن ثقلت موازینہ ) سے دو آیتوں تک تلاوت کیں اور فرمایا ایک رائی کے دانے کے برابر کی کمی زیادتی ہے میزان کا پلڑا ہلکا بھاری ہو جاتا ہے اور جن کی نیکیاں بدیاں برابر برابر ہوئیں یہ اعراف والے ہیں یہ ٹھہرا لئے جائیں گے اور جنتی دوزخی مشہور ہو جائیں گے یہ جب جنت کو دیکھیں گے تو اہل جنت پر سلام کریں گے اور جب جہنم کو دیکھیں گے تو اللہ سے پناہ طلب کریں گے ۔ نیک لوگوں کو نور ملے گا جو ان کے آگے اور ان کے داہنے موجود رہے گا ہر انسان کو وہ مرد ہوں خواہ عورتیں ہوں ایک نور ملے گا لیکن پل صراط پر منافقوں کا نور چھین لیا جائے گا اس وقت سچے مومن اللہ سے اپنے نور کے باقی رہنے کی دعائیں کریں گے ۔ اعراف والوں کا نور چھینا نہیں جائے گا وہ ان کے آگے آگے موجود ہو گا انہیں جنت میں جانے کی طمع ہو گی ، لوگوں ایک نیکی دس گنی کر کے لکھی جاتی ہے اور برائی اتنی ہی لکھی جاتی ہے جتنی ہو ، افسوس ان پر جن کی اکائیاں دہائیوں پر غالب آ جائیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ اعراف ایک دیوار ہے جو جنت دوزخ کے درمیان ہے اصحاب اعراف وہیں ہوں گے ۔ جب انہیں عافیت دینے کا اللہ کا ارادہ ہو گا تو حکم ملے گا انہیں ہر حیات کی طرف لے جاؤ اس کے دونوں کناروں پر سونے کے خیمے ہوں گے جو موتیوں سے مرصع ہوں گے اس کی مٹی مشک خالص ہو گی اس میں غوطہ لگاتے ہی ان کی رنگتیں نکھر جائیں گی اور ان کی گردنوں پر ایک سفید چمکیلا نشان ہو جائے گا جس سے وہ پہچان لئے جائیں یہ اللہ کے سامنے لائے جائیں گے اللہ تعالیٰ فرمائے گا جو چاہو مانگو یہ مانگیں گے یہاں تک کہ ان کی تمام تمنائیں اللہ تعالیٰ پوری کر دے گا پھر فرمائے گا ان جیسی ستر گنا اور نعمتیں بھی میں نے تمہیں دیں ۔ پھر یہ جنت میں جائیں گے ، وہ علامت ان پر موجود ہو گی جنت میں ان کا نام مساکین اہل جنت ہو گا ، یہی روایت حضرت مجاہد کے اپنے قول سے بھی مروی ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے ۔ واللہ اعلم ۔ ایک حسن سند کی مرسل حدیث میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اعراف والوں کی نسبت دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ ان کا فیصلہ سب سے آخر میں ہو گا ، رب العالمیں جب اپنے بندوں کے فیصلے کر چکے گا تو ان سے فرمائے گا کہ تم لوگوں کو تمہاری نیکیوں نے دوزخ سے تو محفوظ کر لیا لیکن تم جنت میں جانے کے حقدار ثابت نہیں ہوئے اب تم کو میں اپنی طرف سے آزاد کرتا ہوں جاؤ جنت میں رہو سہو اور جہاں چاہو کھاؤ پیو ، یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ زنا کی اولاد ہیں ۔ ابن عساکر میں فرمان نبی ہے کہ مومن جنوں کو ثواب ہے اور ان میں سے جو برے ہیں انہیں عذاب بھی ہو گا ، ہم نے ان کے ثواب اور ان کے ایمانداروں کے بابت حضور سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا وہ اعراف میں ہوں گے جنت میں میری امت کے ساتھ نہ ہوں گے ہم نے پوچھا یا رسول اللہ اعراف کیا ہے؟ فرمایا جنت کا ایک باغ جہاں نہریں جاری ہیں اور پھل پک رہے ہیں ( بیہقی ) حضرت مجاہد فرماتے ہیں یہ صالح دینار فقہاء علما لوگ ہوں گے ابو مجاز فرماتے ہیں یہ فرشتے ہیں جنت دوزخ والوں کو جانتے ہیں پھر آپ نے ان آیتوں کے تلاوت کی اور فرمایا سب جنتی جنت میں جانے لگیں گے تو کہا جائے گا کہ تم امن و امان کے ساتھ بےخوف و خطر ہو کر جنت میں جاؤ ۔ اس کی سند گو ٹھیک ہے لیکن یہ قول بہت غریب ہے کیونکہ روانی عبارت بھی اس کے خلاف ہے اور جمہور کا قول ہی مقدم ہے کیونکہ آیت کے ظاہری الفاظ کے مطابق ہے ۔ حضرت مجاہد کا قول بھی جو اوپر بیان ہوا غرابت سے خالی نہیں واللہ اعلم ۔ قرطبی رحمتہ اللہ علیہ نے اس میں بارہ قول نقل کئے ہیں ۔ صلحاء ، انبیاء ، ملائیکہ وغیرہ ۔ یہ جنتیوں کو ان کے چہرے کی رونق اور سفیدی سے اور دوزخیوں کو ان کے چہرے کی سیاہی سے پہچان لیں گے یہ یہاں اسی لئے ہیں کہ ہر ایک کا امتیاز کرلیں اور سب کو پہچان لیں یہ جنتیوں سے سلام کریں گے جنتیوں کو دیکھ دیکھ کر اللہ کی پناہ چائیں گے اور طمع رکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں بھی بہشت بریں میں پہنچا دے یہ طمع ان کے دل میں اللہ نے اسی لئے ڈالا ہے کہ اس کا ارادہ انہیں جنت میں لے جانے کا ہو چکا ہے ۔ جب وہ اہل دوزخ کو دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پروردگار ہمیں ظالموں میں سے نہ کر ۔ جب کوئی جماعت جہنم میں پہنچائی جاتی ہے تو یہ اپنے بچاؤ کی دعائیں کرنے لگتے ہیں جہنم سے ان کے چہرے کوئلے جیسے ہو جائیں گے لیکن جب جنت والوں کو دیکھیں گے تو یہ چیز چہروں سے دور ہو جائے گی جنتیوں کے چہروں کی پہچان نورانیت ہو گی اور دوزخیوں کے چہروں پر سیاہی اور آنکھوں میں بھینگا پن ہو گا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

46۔ 1 ' ان دونوں کے درمیان ' سے مراد جنت دوزخ کے درمیان یا کافروں اور مومنوں کے درمیان ہے۔ حِجَاب، ُ (آڑ) سے وہ فصیل (دیوار) مراد ہے جس کا ذکر سورة حدید میں ہے : (فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُوْرٍ لَّهٗ بَابٌ) 57 ۔ الحدید :13) پس ان کے درمیان ایک دیوار کھڑی کردی جائے گی، جس میں ایک دروازہ ہوگا یہی اعراف کی دیوار ہے۔ 46۔ 2 یہ کون ہونگے ؟ ان کی تعین میں مفسرین کے درمیان خاصا اختلاف ہے۔ اکثر مفسرین کے نزدیک یہ وہ لوگ ہونگے جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں گی۔ ان کی نیکیاں جہنم میں جانے سے اور برائیاں جنت میں جانے سے مانع ہونگی اور یوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے قطعی فیصلہ ہونے تک وہ درمیان میں معلق رہیں گے۔ 46۔ 3 سیماء کے معنی علامت کے ہیں جنتیوں کے چہرے روشن اور جہنمیوں کے چہرے سیاہ اور آنکھیں نیلی ہونگی۔ اس طرح وہ دونوں قسم کے لوگوں کو پہچان لیں گے۔ 46۔ 4 یہاں یَطْمَعُوْنَ کے معنی بعض لوگوں نے یَعْلَمُوْن کے کئے ہیں یعنی ان کو علم ہوگا کہ وہ عنقریب جنت میں داخل کر دئے جائیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٥] اعراف کیا ہے ؟ اعراف جنت اور دوزخ کے درمیان ایک اوٹ ہے سورة حدید میں اس اوٹ کی یہ تفصیل ملتی ہے کہ وہ ایک دیوار ہوگی جس میں ایک دروازہ ہوگا اس کے بیرونی طرف تو عذاب ہوگا اور اندرونی طرف رحمت (٥٧ : ١٣) یعنی یہ دیوار جنت کے لذائذ اور خوشیوں کو جہنم کی طرف جانے سے اور جہنم کی کلفتوں کو اور آگ کی لپیٹ اور گرمی اور دھوئیں کو جنت کی طرف جانے سے روک دے گی۔ [٤٦] اعراف اور اہل اعراف :۔ اصحاب اعراف کون لوگ ہیں ؟ اس کے متعلق بہت سے اقوال ہیں جن میں سے راجح تر یہی قول ہے کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر برابر ہوں گی وہ اس مقام پر مقیم ہوں گے ان کے ایک طرف اہل جنت ہوں گے جنہیں وہ ان کے نورانی چہروں کی بدولت پہچانتے ہوں گے اور دوسری طرف اہل دوزخ ہوں گے جن کی رو سیاہی اور کالی کلوٹی رنگت کی بنا پر انہیں بھی پہچانتے ہوں گے۔ [٤٧] اس آیت کے دو مطلب بیان کیے گئے ہیں ایک یہ کہ جو لوگ جنت میں داخل ہوچکے ہوں گے انہیں دیکھ کر اصحاب اعراف انہیں سلام علیکم کہیں گے اور ان اصحاب اعراف کی اپنی کیفیت یہ ہوگی کہ وہ بھی جنت میں داخل ہونے کی توقع رکھتے ہوں گے دوسرے یہ کہ کئی اہل جنت ابھی حساب و کتاب سے فارغ نہ ہوئے ہوں گے مگر اصحاب اعراف ان کے نورانی چہرے دیکھ کر پہچان لیں گے کہ وہ جنتی ہیں تو انہیں سلام علیکم کے بعد جنت کی خوشخبری دیں گے اور ان حساب کتاب میں مشغول لوگوں کی اپنی کیفیت یہ ہوگی کہ گو وہ ابھی تک جنت میں داخل نہ ہوئے ہوں گے تاہم وہ اس کی امید ضرور رکھتے ہوں گے۔ جنت میں دیدار الٰہی :۔ اہل جنت اور اہل دوزخ کے درمیان مکالمہ، اصحاب اعراف کا ان سے مکالمہ اور ان کو بعید مقامات سے دیکھ کر پہچان لینے اور ایک دوسرے کی آوازیں سن کر ان کا جواب دینے کو اور روز محشر کے احوال کو موجودہ قوتوں اور عقل سے جانچنا درست نہیں اور اس کی تائید رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے جس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سے فرمایا کہ && اس دن تم اپنے پروردگار کو اس طرح بلاتکلف دیکھ سکو گے جس طرح چاند کو دیکھ رہے ہو اور تمہیں کوئی رکاوٹ محسوس نہ ہوگی && (بخاری۔ کتاب التوحید باب ( وُجُوْهٌ يَّوْمَىِٕذٍ نَّاضِرَةٌ 22؀ۙ ) 75 ۔ القیامة :22) حالانکہ اس دنیا میں موجودہ آنکھوں سے دیدار الٰہی ناممکن ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَبَيْنَهُمَا حِجَابٌ ۚ: جو جنت اور جہنم کے درمیان ایک دیوار ہوگی، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : ( فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُوْرٍ ) [ الحدید : ١٣ ] یعنی جنتیوں اور جہنمیوں کے درمیان ایک دیوار بنادی جائے گی، جس کے اندر کی طرف اللہ کی رحمت ہوگی اور باہر کی طرف عذاب۔ شاہ ولی اللہ (رض) فرماتے ہیں : ” وآں مسمی ب اعراف است۔ “ یعنی اس دیوار کو ” اعراف “ کہا جاتا ہے۔ (فتح الرحمن) وَعَلَي الْاَعْرَافِ رِجَالٌ: ” الْاَعْرَافِ “ یہ ” عُرْفٌ“ کی جمع ہے اور لغت میں ” عَرَفَ یَعْرِفُ مَعْرِفَۃً “ پہچاننے کو اللہ ” عُرْفٌ“ بلند جگہ کو کہتے ہیں، کیونکہ بلند چیز ممتاز ہونے کی وجہ سے آسانی سے پہچانی جاتی ہے اسی سے مرغ کی کلغی اور گھوڑے کی گردن کے بلند حصے کے بالوں کو ” عُرْفٌ“ کہتے ہیں، کیونکہ بلندی کی وجہ سے وہ پہچان میں ممتاز ہوتے ہیں، لہٰذا ” الاعراف “ سے مراد جنتیوں اور جہنمیوں کے درمیان دیوار کی بلندیاں ہیں، جہاں ٹھہرنے والوں کو ایک طرف جنتی اور دوسری طرف جہنمی لوگ نظر آئیں گے، اکثر مفسرین یہی فرماتے ہیں۔ يَّعْرِفُوْنَ كُلًّاۢ بِسِيْمٰىهُمْ ۚ: ” سِیْمَا “ کا معنی نشانی ہے، مثلاً جنتیوں کے چہرے سفید اور نورانی ہوں گے اور جہنمیوں کے کالے سیاہ، یا امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وضو کے اعضاء چمک رہے ہوں گے۔ ” الاعراف “ میں کون لوگ ہوں گے، اس بارے میں مفسرین کے متعدد اقوال ہیں۔ قرطبی نے دس قول ذکر کیے ہیں، ان میں سب سے مشہور قول جسے جمہور مفسرین نے کثرت روایات کی بنا پر ترجیح دی ہے، یہ ہے کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں گی، اس لیے وہ بیچ میں دیوار پر ہوں گے۔ اس کا ایک قرینہ یہ جملہ بھی ہے : ( ۣ لَمْ يَدْخُلُوْهَا وَهُمْ يَطْمَعُوْنَ ) ” وہ ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے اور اس کی طمع رکھتے ہوں گے۔ “ وَهُمْ يَطْمَعُوْنَ : یعنی جنت میں جانے کی امید رکھتے ہوں گے، اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ اعراف والے ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے، مگر امید رکھتے ہوں گے کہ انھیں آئندہ جنت نصیب ہوگی۔ دوسرے یہ کہ اعراف والے ان لوگوں کو پکاریں گے جن کا جنتی ہونا ان کی علامات دیکھ کر معلوم ہوجائے گا، حالانکہ وہ ابھی حساب کتاب میں مشغول ہونے کی وجہ سے جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے۔ (ابن کثیر) ابن کثیر میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اصحاب الاعراف کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” یہ وہ لوگ ہیں جو نافرمانی کرتے ہوئے ماں باپ کی اجازت کے بغیر چلے گئے اور اللہ کی راہ میں قتل ہوگئے، اب انھیں جنت میں داخلے سے ماں باپ کی نافرمانی نے روک دیا اور آگ میں داخل ہونے سے انھیں اللہ کی راہ میں قتل ہونے نے روک دیا۔ “ حافظ ابن کثیر (رض) نے ان روایات کے غیر معتبر ہونے کی طرف یہ کہہ کر اشارہ فرمایا کہ مرفوع روایات کی صحت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے اور ابن کثیر کی تخریج ” ہدایۃ المستنیر “ میں ان تمام روایات کا غیر معتبر ہونا تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary When the people of Paradise will reach Paradise, where they belong, and the people of Hell, will reach Hell, where they belong, it is evident that the two places will be far apart from each other in all re¬spects. But, despite this being so, many verses of the Holy Qur&an con-firm that in between the two places, there will be points from where one could see the other, and engage in an exchange of conversation. In Surah Al-Saffat, mentioned there are two persons who had known each other in their mortal life. But, one of them was a believer while the other, a disbeliever. In the Hereafter, when the believer will go to Paradise and the disbeliever, to Hell - they will notice each other and talk. Says the verse: فَاطَّلَعَ فَرَ‌آهُ فِي سَوَاءِ الْجَحِيمِ ﴿٥٥﴾ (37:55): In brief, it means when the friend in Paradise will look for the friend in Hell, he will find him lying in the middle of it. He will curse him commenting that he wanted him to be ruined like him and had it not been for the grace of Allah, he too would have been found lying in Hell like him. Then he would remind him of his saying to him in the mortal world that there was to be no life, no accounting, no reward, and no punishment after death. He could now see for himself what was happening in reality. Such dialogues, questions and answers exchanged between the people of Paradise and the people of Hell appear not only in the verses cited above, but continue after that as well, through almost one sec¬tion. As for these access points in between Paradise and Hell from where inmates could be seen and addressed, these would really be a different kind of punishment for the people of Hell who would find themselves being reproached from all sides. Then, as they see the blessings being enjoyed by the people of Paradise, they will find them-selves burning in rage for having missed those - and burning in Hell they already will be. As for the people of Paradise, they will have another kind of comfort when, after seeing the plight of those in Hell, they will be more grateful for the blessings they had the good fortune of having. Then, they would remember people who mocked at them for believing and they could nothing against them, and when they see them disgraced and punished ultimately, they would have the last laugh at their undoing. The same thing has been said in Surah Al-Mutaffifin: فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ‌ يَضْحَكُونَ ﴿٣٤﴾ عَلَى الْأَرَ‌ائِكِ يَنظُرُ‌ونَ ﴿٣٥﴾ هَلْ ثُوِّبَ الْكُفَّارُ‌ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ ﴿٣٦﴾ But, on this Day, those who believed will be laughing at the disbelievers. They will be on raised couches watching (the de¬nouement). Would have the disbelievers not been repaid for what they used to do? - 83:34-36. Against the erring record of the people of Hell, admonition will also come from the angels. Addressing them, they will say: هَـٰذِهِ النَّارُ‌ الَّتِي كُنتُم بِهَا تُكَذِّبُونَ ﴿١٤﴾ أَفَسِحْرٌ‌ هَـٰذَا أَمْ أَنتُمْ لَا تُبْصِرُ‌ونَ ﴿١٥﴾ This is the Fire that you used to belie. Then (look), is this a magic, or is it that you do not see? - 52:14-15 Similarly, it is in the first of the cited verses that the people of Par¬adise will tell the people of Hell that they found the promise of bless¬ings and comforts made by their Lord absolutely true and then they will ask them if the punishment against which they were warned actu¬ally came to them, or not. They will admit that they did see it. In support of this question and answer between them, some angel shall, with the will of Allah, proclaim that cursed be the unjust who used to prevent people from the path of Allah and wished that their way too became crooked like their own and denied the Hereafter. Who are the People of A` raf اَعرَاف ? As a corollary of the dialogue between those in Paradise and Hell, there is something else pointed to in this verse - that there will be some people who had their deliverance from Hell but had not yet found entry into Paradise, though they did hope that they would. These peo-ple are called the people of A` raf. What is A` raf? This is explained by the verses of Surah Al-Hadid (58). They tell us that there will be three groups of people on the day of Resurrection. (1) Declared disbelievers and polytheists who will never make it to the Bridge of Sirat, to begin with, because they will be thrown into the Hell through its doors before that stage comes; (2) be¬lievers who will have the light of Faith with them; and (3) hypocrites - since they have been tailing Muslims in the physical world, they will start behind them on the same trail. When they begin walking on the Bridge of Sirat, a dense darkness will overtake all of them. The believ¬ers will still keep moving ahead with the help of their light of Faith while the hypocrites will call and ask them to stop and wait for them so that they could make use of the light they have. Thereupon, a caller for the sake of Allah will call: Turn back. Find your light there. The message given would be that the light they were seeking was the light of Faith and Righteous Deeds which could only be acquired at a place which they have left behind. Those who failed to acquire this light there through Faith and Deed shall not enjoy the benefit of that light here. In this state, a wall would be made to stand in between the hypo¬crites and the believers. The wall would have a gate. Beyond this gate, there will be nothing but punishment all over. Inside the gate there will be believers and the atmosphere will be filled with the mercy of Allah and the view of Paradise. This is the subject of the following يَوْمَ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالْمُنَافِقَاتُ لِلَّذِينَ آمَنُوا انظُرُ‌ونَا نَقْتَبِسْ مِن نُّورِ‌كُمْ قِيلَ ارْ‌جِعُوا وَرَ‌اءَكُمْ فَالْتَمِسُوا نُورً‌ا فَضُرِ‌بَ بَيْنَهُم بِسُورٍ‌ لَّهُ بَابٌ بَاطِنُهُ فِيهِ الرَّ‌حْمَةُ وَظَاهِرُ‌هُ مِن قِبَلِهِ الْعَذَابُ ﴿١٣﴾ The Day the hypocrites, the men and the women, will say to those who had believed: |"Wait for us. Let us have a share from your light,|" it will be said, |"Return behind you, then seek light.|" So, put between them will be a wall with a gate in it. Inside it, there will be mercy all over; and outside it, the Pun¬ishment face to face - 57:13. In the verse quoted above, the wall which will be placed to separ¬ate the people of Paradise from the people of Hell has been called: سُور (sur). This word is primarily used for a security wall built around a ma¬jor city, usually made wide and fortified and posted where are army guards who stay in bunkers and remain vigilant against any enemies. Verse 46 of Surah Al-A` raf says: وَبَيْنَهُمَا حِجَابٌ ۚ وَعَلَى الْأَعْرَ‌افِ رِ‌جَالٌ يَعْرِ‌فُونَ كُلًّا بِسِيمَاهُمْ (And between the two groups there will be a partition). According to Ibn Jarir and other Tafsir authorities, in this verse, the word: حِجَاب (hijab) means the same wall which has been called: سُور (sur) in Salah Al-Hadid. The top portion of the wall is known as Al-A` raf because it is the plural form of ` Urf and ` Urf refers to the top portion of everything as it is distinct and recognizable from a distance. From this explana¬tion we know that the top portion of the partition wall between Para¬dise and Hell is the A` raf. Then, the verse of the Surah tells us that on the day of Resurrection there will be some people at this place who would be seeing the happenings in Paradise and Hell both and will be talking to people on both sides. As for who these people shall be and why would they be made to stop here, it is something in which commentators differ and the narra¬tions of Hadith vary. But, what is sound, weighty and acceptable with the majority of commentators is that these people will be the ones whose good and bad deeds will come out equal in weight on the Scale of Deeds. So, because of their good deeds, they will have their deliver¬ance from Hell, but - because of their sins - they would have not been admitted into the Paradise yet. Finally, they too will find entry into Paradise because of the grace and mercy of Allah Ta` ala. This is what Sayyidna Hudhayfah Ibn Masud and Ibn ` Abbas (رض) ، from among the Sahabah, as well as other Sahabah and Tabi&in say. Then, in it converge narrations of Hadith reported variously. Ibn Jarir reports from Sayyidna Hudhayfah (رض) that the Holy Proph¬et (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was asked about the people of A` raf. He said: These are people whose good and bad deeds will be equal. Therefore, from Jahan¬nam they stand delivered. But, in Jannah they have not entered yet. They were stopped at this place of the A&raf until the process of accounting of deeds and the judgment is over. Their fate would be de¬cided after that and ultimately they will be forgiven and admitted into Jannah. (Ibn Kathir) There is a narration from Sayyidna Jabir ibn Abdullah (رض) reported by Ibn Marduwayh in which it is said that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was asked as to who were the people of A` raf? He said: They are people who took part in Jihad without the pleasure and permission of their parents and laid down their lives in the way of Allah. So, the disobedi¬ence to parents stopped them from entering into the Paradise and their shahadah in the way of Allah stopped them from entering into the Hell. The two Ahadith quoted above have no element of contradiction. Instead of that, this Hadith is an example of those whose virtues and vices are equal in the same degree as here - martyrdom in the way of Allah on one side and disobedience to parents on the other. The scale is equal. (Ibn Kathir) Salam Greetings : Blessed Legacy of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) After having gone through the description and definition of the people of A` raf, we can now take up the subject of the verse itself which says that the people of A` raf will call out the people of Paradise and say: |" سَلَامُ علیکم && (Salamun Alaiykum). This word of greeting is also used in our present world when we meet each other. This is offered as a gift, a mark of respect and grace felt for the person so greeted. This is Mas¬nun, a way of Sunnah as practiced and recommended to his community by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . This is also said to the dead while visiting their graves. Then, it will also be the form of greeting on the plain of Resurrection, and in Paradise as well. But, a closer look at the verses of the Qur&an and the narrations of Hadith tells us that saying: اَلسلامُ عَلَیکُم (As-Salamu ` Alaiykum) is Masnun as long as we live in this world. Then, after having passed away from this mortal world, what is Masnun is saying: |" سَلَامٌ عَلَيْكُمْ |" (Salamun ` Alaiykum) - without the letters Alif and Lam at the beginning of Sal-am. The words to be said at the time of visiting graves as mentioned in the Qur&an also appear in this form, that is: سَلَامٌ عَلَيْكُم بِمَا صَبَرْ‌تُمْ ۚ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ‌ ﴿٢٤﴾: Peace on you [ Salamun Alaiykum ] for that you observed patience. Then, fair is the ultimate abode - 13:24). And when the angels will receive the people of Paradise, this word appears in the same form there too: سَلَامٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ (Salamun Alaiykum [ Peace on you ], you have done well. So, enter in it to live forever - 39:73). And here too, the people of A` raf will greet the people of Paradise with the same words: سَلَامٌ عَلَيْكُم (Salamun Alaiykum).

سورة اعراف کی آیت مذکورہ میں ہے (آیت) وَبَيْنَهُمَا حِجَابٌ ۚ وَعَلَي الْاَعْرَافِ رِجَالٌ يَّعْرِفُوْنَ كُلًّاۢ بِسِيْمٰىهُمْ ، ابن جریر اور دوسرے ائمہ تفسیر کی تحریر کے مطابق اس آیت میں لفظ حجاب سے وہی حصار مراد ہے جس کو سورة حدید کی آیت میں لفظ سور سے تعبیر کیا گیا ہے، اس حصار کے بالائی حصہ کا نام اعراف ہے، کیونکہ اعراف عرف کی جمع ہے، اور عرف ہر چیز کے اوپر والے حصہ کو کہا جاتا ہے، کیونکہ وہ دور سے معروف و ممتاز ہوتا ہے، اس تشریح سے معلوم ہوا کہ جنت و دوزخ کے درمیان حائل ہونے والے حصار کے بالائی حصہ کا نام اعراف ہے، اور آیت اعراف میں یہ بتلایا گیا ہے کہ محشر میں اس مقام پر کچھ لوگ ہوں گے جو جنت و دوزخ دونوں طرف کے حالات کو دیکھ رہے ہوں گے، اور دونوں طرف رہنے والوں سے مکالمات اور سوال و جواب کریں گے۔ اب یہ کہ یہ کون لوگ ہوں گے اور اس درمیانی مقام میں ان کو کیوں روکا جائے گا اس میں مفسرین کے اقوال مختلف اور روایات حدیث متعدد ہیں، لیکن صحیح اور راجح جمہور مفسرین کے نزدیک یہ ہے کہ یہ وہ لوگ جن کے حسنات اور سیئات کے دونوں پلے میزان عمل میں برابر ہوجائیں گے، اپنے حسنات کے سبب جہنم سے تو نجات پالیں گے، لیکن سیئات اور گناہوں کے سبب ابھی جنت میں ان کا داخلہ نہ ہوا ہوگا، اور بالآخر رحمت خداوندی سے یہ لوگ بھی جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ صحابہ کرام میں سے حضرت حذیفہ، ابن مسعود، ابن عباد (رض) کا اور دوسرے صحابہ وتابعین کا یہی قول ہے، اور اس میں تمام روایات حدیث بھی جمع ہوجاتی ہیں، جو مختلف عنوانات سے منقول ہیں، امام ابن جریر رحمة اللہ علیہ نے بروایت حذیفہ (رض) نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اہل اعراف کے متعلق پوچھا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ لوگ ہیں جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں گی، اس لئے جہنم سے تو نجات ہوگئی، مگر جنت میں ابھی داخل نہیں ہوئے، ان کو اس مقام اعراف پر روک لیا گیا، یہاں تک کہ تمام اہل جنت اور اہل دوزخ کا حساب اور فیصلہ ہوجانے کے بعد ان کا فیصلہ کیا جائے گا، اور بالآخر ان کی مغفرت ہوجائے گی، اور جنت میں داخل کئے جائیں گے (ابن کثیر) اور ابن مردویہ نے بروایت حضرت جابر بن عبداللہ (رض) نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا گیا کہ اھل اعراف کون لوگ ہیں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے والدین کی مرضی اور اجازت کے خلاف جہاد میں شریک ہوگئے، اور اللہ کی راہ میں شہید ہوگئے، تو ان کو جنت کے داخلہ سے ماں باپ کی نافرمانی نے روک دیا اور جہنم کے داخلہ سے شہادت فی سبیل اللہ نے روک دیا۔ اس حدیث اور پہلی حدیث میں کوئی تضاد نہیں، بلکہ یہ حدیث ایک مثال ہے ان لوگوں کی جن کی نیکیاں اور گناہ برابر درجہ کے ہوں، کہ ایک طرف شہادت فی سبیل اللہ اور دوسری طرف ماں باپ کی نافرمانی، دونوں پلّے برابر ہوگئے۔ (کذا قالہ ابن کثیر) سلام کا مسنون لفظ اہل اعراف کی تشریح اور تعریف معلوم ہونے کے بعد اب اصل آیت کا مضمون دیکھئے، جس میں ارشاد ہے : اہل اعراف اہل جنت کو آواز دے کر کہیں گے سَلٰمُ عَلَیکُم یہ لفظ دنیا میں بھی باہمی ملاقات کے وقت بطور تحفہ و اکرام کے بولا جاتا ہے اور مسنون ہے اور بعد موت کے قبروں کی زیارت کے وقت بھی، اور پھر محشر اور جنت میں بھی، لیکن آیات اور روایات حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں تو السلام علیکم کہنا مسنون ہے اور اس دنیا سے گذرنے کے بعد بغیر الف لام کے سلام علیکم کا لفظ مسنون ہے زیارت قبور کے لیے جو کلمہ قرآن مجید میں مذکور ہے وہ بھی (آیت) سلم علیکم بماصبرتم فنعم عقبی الدار۔ آیا ہے اور فرشتے جب اہل جنت کا اسقبال کریں گے اس وقت بھی یہ لفظ اسی عنوان سے آیا ہے (آیت) سلم علیکم طبتم فادخلوھا خالدین، اور یہاں بھی اہل اعراف اہل جنت کو اسی لفظ کے ساتھ کلام کریں گے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذَا صُرِفَتْ اَبْصَارُہُمْ تِلْقَاۗءَ اَصْحٰبِ النَّارِ۝ ٠ ۙ قَالُوْا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِـمِيْنَ۝ ٤٧ ۧ إذا إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له ( اذ ا ) اذ ا ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔ اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔ (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی) (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ) (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔ مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔ (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن) (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی) صرف الصَّرْفُ : ردّ الشیء من حالة إلى حالة، أو إبداله بغیره، يقال : صَرَفْتُهُ فَانْصَرَفَ. قال تعالی: ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 152] ( ص ر ف ) الصرف کے معنی ہیں کسی چیز کو ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پھیر دینا یا کسی اور چیز سے بدل دینا ۔ محاور ہ ہے ۔ صرفتہ فانصرف میں نے اسے پھیر دیا چناچہ وہ پھر گیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ صَرَفَكُمْ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 152] پھر خدا نے تم کو ان کے مقابلے سے پھیر کر بھگادیا ۔ بصر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل/ 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔ وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ لقی اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] ( ل ق ی ) لقیہ ( س) یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔ جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٦) اور جنت اور دوزخ کے درمیان ایک آڑ ہوگی اور اس آڑ اور دیوار (اعراف) پر بہت لوگ ہوں گے جن کی حسنات اور سیئات میزان میں برابر ہوں گی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسے عالم فقہا ہوں گے جو رزق کے معاملے میں شک کرتے تھے۔ یہ لوگ دونوں جماعتوں کو یعنی اہل جنت میں اور اہل دوزخ کو ان کے قیافہ سے پہچان لیں گے کیوں کہ دوزخیوں کی صورتیں سیاہ اور ان کی آنکھیں نیلی ہوں گی، اور جنت میں داخل ہونے والوں کے چہرے سفید، چمک دار، اور نورانی ہوں گے۔ اور اصحاب اعراف اہل جنت کو کہیں گے السلام علیکم ! مگر یہ ابھی تک جنت میں داخل نہیں ہوں گے اور اس کے امیدوار ہوں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٦ (وَبَیْنَہُمَا حِجَابٌ ج) ۔ اہل جنت اور اہل جہنم کے درمیان ہونے والی اس نوعیت کی گفتگو کا نقشہ زیادہ واضح طور پر سورة الحدید میں کھینچا گیا ہے۔ وہاں (آیت نمبر ١٣ میں) فرمایا گیا ہے : (فَضُرِبَ بَیْنَہُمْ بِسُوْرٍ لَّہٗ بَابٌ ط) یعنی ایک طرف جنت اور دوسری طرف دوزخ ہوگی اور درمیان میں فصیل ہوگی جس میں ایک دروازہ بھی ہوگا۔ (وَعَلَی الْاَعْرَافِ رِجَالٌ یَّعْرِفُوْنَ کُلاًّمبِسِیْمٰٹہُمْ ج ) ۔ یہ اصحاب اعراف اہل جنت کو بھی پہچانتے ہوں گے اور اہل جہنم کو بھی۔ قلعوں کی فصیلوں کے اوپر جو برجیاں اور جھروکے بنے ہوتے ہیں جہاں سے تمام اطراف و جوانب کا مشاہدہ ہو سکے ‘ انہیں عرف (جمع اعراف) کہا جاتا ہے۔ دوزخ اور جنت کی درمیانی فصیل پر بھی کچھ برجیاں اور جھروکے ہوں گے جہاں سے جنت و دوزخ کے مناظر کا مشاہدہ ہو سکے گا۔ ان پر وہ لوگ ہوں گے جو دنیا میں بین بین کے لوگ تھے ‘ یعنی کسی طرف بھی یکسو ہو کر نہیں رہے تھے۔ ان کے اعمال ناموں میں نیکیاں اور بد اعمالیاں برابر ہوجائیں گی ‘ جس کی وجہ سے ابھی انہیں جنت میں بھیجنے یا جہنم میں جھونکنے کا فیصلہ نہیں ہوا ہوگا اور انہیں اعراف پر ہی روکا گیا ہوگا۔ (وَنَادَوْا اَصْحٰبَ الْجَنَّۃِ اَنْ سَلٰمٌ عَلَیْکُمْقف لَمْ یَدْخُلُوْہَا وَہُمْ یَطْمَعُوْنَ ) ۔ وہ اہل جنت کو دیکھ کر انہیں بطور مبارک باد سلام کہیں گے اور ان کی اپنی شدید خواہش اور آرزو ہوگی کہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی جلد از جلد جنت میں داخل کر دے ‘ جو آخر کار پوری کردی جائے گی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

34. The people of A'raf (Heights) will be the people who are neither righteous enough to enter Paradise nor wicked enough to he cast into Hell. They will, therefore, dwell at a place situated between the two.

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :34 یعنی یہ اصحاب الاعراف وہ لوگ ہوں گے جن کی زندگی کا نہ تو مثبت پہلو ہی اتنا قوی ہوگا کہ جنت میں داخل ہو سکیں اور نہ منفی پہلو ہی اتنا خراب ہوگا کہ دوزخ میں جھونک دیے جائیں ۔ اس لیے وہ جنت اور دوزخ کے درمیان ایک سرحد پر رہیں گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

25: یوں تواعراف والے جنت اور جہنم دونوں کا خود نظارہ کررہے ہوں گے، اس لئے انہیں جنتیوں اور دوزخیوں کو پہچاننے کے لئے کسی علامت کی ضرورت نہیں ہوگی ؛ لیکن یہاں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ یہ لوگ جنت اور دوزخ والوں کو دنیا میں بھی ان کی علامتوں سے پہچانتے تھے اور چونکہ یہ لوگ صاحب ایمان تھے، اس لئے انہیں دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ نے اتنی حس عطا فرمادی تھی کہ یہ متقی پرہیزگار لوگوں کے چہروں سے پہچان لیتے تھے کہ یہ نیک لوگ ہیں اور کافروں کے چہروں سے پہچان لیتے تھے کہ یہ کافر ہیں۔ تفسیر کبیر امام رازی.

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(46 ۔ 47) ۔ مجاہد کا قول ہے کہ جنت اور دوزخ کے درمیان میں اعراف ایک دیوار ہے جس میں دروازہ ہے حضرت ابن عباس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قول ہے کہ اعراف اونچی چیز کو کہتے ہیں دوزخ و جنت کے بیچ میں ایک دیوار ہے اس جگہ گنہگار لوگ روکے جاوینگے ضحاک کا بھی یہی قول ہے اور اکثر مفسرین اسی طرف گئے ہیں یہ تو گذر چکا کہ جنت اور دوزخ کے بیچ میں ایک بلند دیوار پہاڑ کی طرح کی ہے اس کا نام اعراف ہے جن لوگوں کی بدیاں اور نیکیاں برابر ہوں گی ان کا فیصلہ سب سے پیچھے قیامت کے دن ہوگا کیونکہ ان کی نیکیوں کا پلہ ایسا بھاری ہوگا کہ فورا ان کو جنت کا حکم ہوجاوے نہ بدیاں ایسی ہوں گی کہ دوزخی ٹھہر جاویں اس لئے زیادہ نیکیوں والے جنت میں اور زیادہ بدیوں والے دوزخ میں جب تک حساب کتاب کے بعد جاویں گے اس وقت تک ان لوگوں کو اعراف دیوار پر کھڑا کردیا جاویگا یہ وہاں سے جنتی اور دوزخی دونوں گروہ کے لوگوں کی جنت اور دوزخ میں جاتے ہوئے دیکھیں گے اور وہ باتیں کریں گے جن کا ذکر آیت میں ہے مفسرین نے اہل اعراف کی تفسیر میں کئی قول لکھے ہیں مگر صحیح قول یہی ہے جو بیان کیا گیا ہے کیونکہ امام المفسرین عبداللہ بن عباس (رض) عبداللہ بن مسعود (رض) ۔ حذیفہ بن الیمان (رض) ان تین جلیل القدر صحابیوں نے بالا تفاق آیت کی یہی تفسیر کی ہے۔ یعر فون کلابسیماھم۔ سیما کے معنے علامت کے ہیں۔ اہل جنت کے چہروں پر رونق اور اہل دوزخ کے چہروں پر آزردگی اور سیاہی جو ہوگی حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے قول کے موافق اسی کو علامت فرمایا ہے۔ معتبر سند سے ترمذی اور صحیح ابن حبان میں ابوہریرہ (رض) کی حدیث ہے جس میں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جن کے نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دئے جاویں گے ان کے چہروں پر ایک طرح کی رونق آجاوے گی اور جن کے نامئہ اعمال بائیں ہاتھ میں دئے جاویں گے ان کے چہروں پر ایک طرح کی سیاہی چھاجاویگی اس حدیث سے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے قول کی پوری تائید ہوتی ہے کہ وہ علامت چہروں کی رونق اور سیاہی ہوگی جس سے اہل اعراف جنتیوں اور دوزخیوں کی پہچان کرلیں گے کیونکہ دائیں ہاتھ کے نامہ اعمال والے جنتی ہوں گے اور بائیں ہاتھ کے نامہ اعمال والے دوزخی چناچہ اس کا ذکر تفصیل سے آوے گا :۔ اعراف والے جنت والوں کو پہچان کر سلام علیکم پکار کر کہیں گے اور ان کو جنت میں جانے کی خوش خبری دیں گے مگر ابھی خود جنت میں داخل نہ ہوں گے ہاں جنت میں داخل ہونے کے امیدوار ہوں گے اور جب اعراف والوں کی نگاہ دوزخیوں کی طرف پھرے گی تو ان کو پہچان کر یہ دعا مانگیں گے کہ اے پروردگار ہم کو اس قوم ظالم کے ساتھ نہ کیجیو اوپر گذر چکا ہے کہ اعراف والے بہشتیوں کو ان کہ چہروں کی سفیدی سے اور درزخیوں کو ان کے چہرہ کی سیاہی سے پہچان لیں گے ضحاک نے بھی یہ ہی کہا ہے۔ غرض اہل اعراف دوزخیوں کو چہرہ کی سیاہی سے پہچان کر پروردگار سے پناہ مانگیں گے کہ ہم کو ان ظالموں کے ساتھ نہ کرنا اوپر گذر چکا ہے کہ اعراف والے بہشتیوں کو ان کے چہروں کی سفیدی سے اور دوزخیوں کو ان کے چہرہ کی سیاہی سے پہچان لیں گے ضحاک نے بھی یہ ہی کہا ہے۔ غرض اہل اعراف دوزخیوں کو چہرہ کی سیاہی سے پہچان کر پروردگار سے پناہ مانگیں گے کہ ہم کو ان ظالموں کے ساتھ نہ کرنا اور جنت والوں کو سلام کریں گے مجاہد وضحاک وسدی وحسن وابن زید یہ بھی کہتے ہیں کہ آخر کو اہل اعراف بھی جنت میں جاویں گے

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(7:46) الاعراف۔ سے مراد وہ دیوار ہے جو جنت اور دوزخ کے درمیان حائل ہے۔ اعراف عرف کی جمع ہے جس کے معنی ہیں مکان مرتفع۔ بلند جگہ۔ عرف الفردوس۔ گھوڑے کی گردن کے بال ۔ عرف الدیک۔ مرغے کی کلغی۔ سیمہم۔ ان کا چہرہ۔ ان کی نشانی۔ سیما کے معنی نشانی اور علامت کے ہیں۔ یہ اصل میں وسمی تھا۔ واؤ کو فاء کلمہ کی بجائے عین کلمہ پر رکھا گیا ۔ تو سومی ہوا پھر واؤ کے ساکن اور ماقبل کے مکسور ہونے کی وجہ سے واؤ کو باء کرلیا گیا تو سیمی ہوگیا۔ سیمی مضاف ہم ضمیر جمع مذکر غائب مضاف الیہ۔ نادوا ماضی جمع مذکر غائب نداء مصدر باب مفاعلہ۔ انہوں نے پکارا (یا ماضی بمعنی مضارع) وہ پکاریں گے۔ اس کا فاعل رجال لم یدخلوھا۔ (ابھی) وہ اس میں (جنت میں) داخل نہیں ہوئے ہوں گے۔ وہم یطمعون۔ اور وہ (جنت میں داخل ہونے کے) خواہش مند ہوں گے۔ لم یدخلوھا وھم یطمعون (ای اصحاب الاعراف) ۔ اصھاب اعراف کے بارے میں کہ یہ کون ہوں گے ؟ مفسرین میں اختلاف ہے لیکن راجح قول یہ ہے کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جن کی نیکیاں اور گناہ برابر ہونے کی وجہ سے ابھی خداوند کریم نے ان کو بہشت میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی ہوگی۔ لیکن وہ داخل ہونے کی خواہش رکھتے ہوں گے۔ جیسا کہ آگے چل کر بیان ہوتا ہے کہ وہ اہل جہنم کو دیکھیں گے تو پکار اٹھیں گے :۔ اے ہمارے رب ہمیں ان ظالم لوگوں کے ساتھ شامل نہ کیجئے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 جو جنت اور جہنم کے درمیان ایک دیوار ہوگی جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا فضرب بینھم بسور تو ان کے یعنی جنتیوں اور جہنمیوں کے درمیان ایک دیوار بناد ی جائے گی ( حدید 13) اور فتح الر حمن میں ہے وآم مسی باعرف مست یعنی اس حجاب کو اعراف کہا جاتا ہے۔4 اعراف عرف کی جمع ہے اور لغت میں عرف بلند جگہ کو کہتے ہیں۔ لہذا اعراف سے مراد دیوار کی بلندیاں ہیں، جہاں ٹھہرنے والوں کو ایک طرف جنتی اور دوسری طرف جہنمی لوگ نظر آئیں گے۔ امام رازی (رح) لکھتے ہیں کہ یہ قول ابن عباس (رض) کا ہے وعلیہ الا کثرون (کبیر)5 مثلا جنتیوں کے چہرے سفید اور نورانی ہوں گے۔ اور جہنمیوں کے کالے سیاہ جنتویں کے مو ضع وضو چمک رہے ہوں، اعراف میں کون لوگ ہوں گے، اس بارے میں مفسرین کے متعدد اقوال ہیں۔ علامہ قرطبی نے دس اقوال نقل کئے ہیں۔ ان میں سب سے مشہور قول جسے ئ جمہور مفسرین نے کثرت روایات کی بنا پر ترجیح دی ہے کہ وہ لوگ ہوں گے جن کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں گی اس لے نہ وہ جنت میں داخل ہوں گے اور نہ دوزخ میں ( ابن کثیر وغیرہ)6 یعنی جنت میں جانے کی امید رکھتے ہو نگے اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ اعراف والے ابھی جنت میں داخل نہ ہوئے ہوں گے مگر امید رکھتے ہوں گے کہ انہیں آئندہ جنت نصیب ہوگی، دوسرے یہ کہ اعراف والے ان لوگوں کو پیاریں گے جن کا جنتی ہونا انہیں ان کی علامات دیکھ کر معلوم ہوجائے گا حالانکہ وہ ابھی حساب کتاب میں مشغول ہوں گے۔ ( ابن کثیر۔ )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ اس کا خاصہ یہ ہوگا کہ جنت کا اثر دوزخ تک اور دوزخ کا اثر جنت تک نہ جانے دے گی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

روایات میں آتا ہے کہ اعراف جو لوگ کھڑے ہوں گے ۔ یہ انسانوں ہی کا ایک گروہ ہوگا ‘ یاد رہے کہ اعراف جنت میں اور دوزخ کے درمیان حائل جگہ ہوگی ‘ یہ وہ لوگ ہوں گے جن کی نیکیاں اور برائیاں وزن میں برابر ہوں گی ۔ نہ نیکی انہیں جنت میں اہل جنت کے ساتھ لے جاسکے گی اور نہ برائی انہیں اہل جہنم کے ساتھ جہنم میں لے جاسکے گی ۔ یہ لوگ بین بین ہوں گے اور اللہ کے فضل اور رحمت کے انتظار میں ہوں گے ۔ یہ لوگ اہل جنت کو ان کی علامات کی وجہ سے پہچان سکیں گے ‘ کیونکہ اہل جنت کے چہرے ہشاش بشاش اور سفید ہوں گے ‘ انکے آگے ایک نور جاری وساری ہوگا اور ان کا ایمان محسوس ہوگا ۔ یہ لوگ اہل جہنم کو بھی ان کی علامات سے پہچان سکیں گے کیونکہ ان کے چہرے سیاہ ہوں گے اور ہوائیاں اڑ رہی ہوگی یا وہ ان لوگوں کو اس داغ کی وجہ سے پہچان لیں گے جو ان کی ناک پر لگایا جائے گا ۔ جس طرح سورة قلم میں ہے ۔ آیت ” سنسمہ علی الخرطوم “۔ (٦٨ : ١٦) ” ہم عنقریب ان کی ناک پر داغ لگائیں گے ۔ “ تو یہ اہل اعراف اہل جنتکو سلام کریں گے “۔ اور سلام اس انداز کا ہوگا کہ وہ امید کریں گے کہ جلد ہی وہ بھی داخلہ جنت کے مستحق قرار پائیں گے اور جب وہ اہل جہنم کو دیکھیں گے تو انکی یہ نظر اچٹتی ہوگی ‘ بالاارادہ وہ ان پر نگاہ ڈالنا پسند نہ کریں گے ۔ وہ انہیں دیکھتے ہی اللہ کی پناہ مانگنے لگیں کہ بار الہا ! ہمیں ان کا ساتھی نہ بنا ۔ آیت ” وَبَیْْنَہُمَا حِجَابٌ وَعَلَی الأَعْرَافِ رِجَالٌ یَعْرِفُونَ کُلاًّ بِسِیْمَاہُمْ وَنَادَوْاْ أَصْحَابَ الْجَنَّۃِ أَن سَلاَمٌ عَلَیْْکُمْ لَمْ یَدْخُلُوہَا وَہُمْ یَطْمَعُونَ (46) وَإِذَا صُرِفَتْ أَبْصَارُہُمْ تِلْقَاء أَصْحَابِ النَّارِ قَالُواْ رَبَّنَا لاَ تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ (47) ” ان دونوں گروہوں کے درمیان ایک اوٹ حائل ہوگی جس بلندیوں (اعراف) پر کچھ اور لوگ ہوں گے ۔ یہ ہر ایک کو اس کے قیافہ سے پہچانیں گے اور جنت والوں سے پکار کر کہیں گے کہ ” سلامتی ہو تم پر “ یہ لوگ جنت میں داخل تو نہیں ہوئے مگر اس کے امیدوار ہوں گے۔ اور جب انکی نگائیں دوزخ والوں کی طرف پھریں گی تو کہیں گے ” اے رب ہمیں ان ظالم لوگوں میں شامل نہ کیجیو۔ “ اس کے بعد اصحاب اعراف بڑے بڑے مجرموں کی طرف متوجہ ہوتی ہیں۔ یہ لوگ معروف قسم کے لوگ تھے اور ان پر بھی علامات جہنم عیاں تھیں ۔ ان پر وہ یہ تبصرہ کرتے ہیں کہ دنیا میں تمہاری جو جمعیت اور شوکت تھی اب وہ کہاں گئی ؟ ان کو یوں شرمندہ کرتے ہیں ۔ آیت ” وَنَادَی أَصْحَابُ الأَعْرَافِ رِجَالاً یَعْرِفُونَہُمْ بِسِیْمَاہُمْ قَالُواْ مَا أَغْنَی عَنکُمْ جَمْعُکُمْ وَمَا کُنتُمْ تَسْتَکْبِرُونَ (48) ” پھر یہ اعراف کے لوگ دوزخ کی چند بڑی بڑی شخصیتوں کو ان کی علامتوں سے پہچان کر پکاریں گے کہ ” دیکھ لیا تم نے آج نہ تمہارے جتھے تمہارے کسی کام آئے اور نہ وہ سازوسامان جن کو تم بڑی چیز سمجھتے تھے ۔ “ اب ذرا اپنی حالت کو دیکھو کہ کہاں پڑے ہو ‘ تمہاری جمعیت نے تمہیں کیا فائدہ دیا اور تمہاری استکبار نے تمہیں کیا تحفظ دیا ؟ اب یہ لوگ ان اکابر مجرمین کو یاد دلاتے ہیں کہ تم تو اہل ایمان کے بارے میں یہ کہتے تھے کہ یہ گمراہ ہوگئے ہیں اور یہ کہ یہ لوگ اللہ کی رحمت سے محروم ہیں۔ آیت ” أَہَـؤُلاء الَّذِیْنَ أَقْسَمْتُمْ لاَ یَنَالُہُمُ اللّہُ بِرَحْمَۃٍ “۔ (٧ : ٤٩) ” اور کیا یہ اہل جنت وہی لوگ نہیں ہیں جن کے متعلق تم قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ ان کو تو خدا اپنی رحمت میں سے کچھ نہ دے گا ؟ “۔ اب دیکھو کہ تم کہاں کھڑے ہو اور یہ بھی دیکھو کہ ان کے بارے میں اللہ کے احکام کیا ہیں ؟ یہ ہیں : آیت ” ادْخُلُواْ الْجَنَّۃَ لاَ خَوْفٌ عَلَیْْکُمْ وَلاَ أَنتُمْ تَحْزَنُونَ (49) ” آج انہی سے کہا گیا کہ داخل ہوجاؤ جنت میں ‘ تمہارے لئے نہ خوف ہے نہ رنج۔ “ ہاں ایک آواز اہل جن ہم کی طرف سے بھی سنائی دیتی ہے ۔ یہ پرامید بھی ہے اور رحم طلب بھی ۔ دوسری جانب سے اس کا جو جواب دیا جاتا ہے وہ نہایت ہی تلخ درد ناک اور عبرت آموز ہے ۔ ذرا غور کیجئے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اصحاب اعراف کا اہل جنت کو سلام پیش کرنا اور اہل دوزخ کی سر زنش کرنا اہل جنت اور اہل دوزخ دو جماعتیں ہوں گی اور ہر جماعت اپنے اپنے مقام اور مستقر پر ہوگی۔ ان دونوں کے درمیان پردہ حائل ہوگا۔ یہ پردہ ایک دیوار کی صورت میں ہوگا۔ جس کو (وَ بَیْنَھُمَا حِجَابٌ) سے تعبیر فرمایا۔ اس پردہ کے باوجود آپس میں ایک دوسرے کو خطاب کرنے کا موقع دیا جائے گا جس کا ذکر اوپر (وَ نَادآی اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ اَصْحٰبِ النَّار) میں ہوا۔ اور عنقریب ہی دوسری آیت میں دوزخیوں کا جنتیوں سے خطاب کرنے کا اور ان سے پانی طلب کرنے کا ذکر آ رہا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا ہے کہ اہل جنت اور اہل دوزخ کے درمیان کچھ جھرو کے ہوں گے جس سے ایک دوسرے کو دیکھ سکیں گے اور بات کرسکیں گے۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ یہ پردہ ایسا ہوگا جو جنت کا اثر اہل دوزخ کی طرف اور دوزخ کا اثر اہل جنت کی طرف نہیں پہنچنے دے گا۔ البتہ آپس میں ایک دوسرے کی آواز پہنچے گی۔ پھر اس بات کا جواب دیتے ہوئے کہ دیوار درمیان میں حائل ہوتے ہوئے آواز کیسے پہنچے گی تحریر فرماتے ہیں کہ ” امور الاٰخرَۃ لا تُقَاس بامور الدنیا۔ (یعنی آخرت کی چیزیں دنیاوی چیزوں پر قیاس نہیں کی جاتیں) یہ تو صاحب روح المعانی نے درست فرمایا لیکن اب تو دنیا میں بھی لاسلکی نظام نے یہ ثابت کردیا کہ آواز پہنچنے اور باتیں کرنے کے لیے درمیان میں کسی چیز کا حائل ہونا اور ایک دوسرے سے بعید ہونا مانع نہیں۔ ایک شخص ایشیا میں بیٹھے ہوئے بےتکلف امریکہ کے کسی بھی فرد سے بات کرسکتا ہے۔ پھر فرمایا کہ اعراف پر بہت سے لوگ ہوں گے جو ہر ایک کو یعنی اہل جنت و اہل نار کو ان کی نشانیوں سے پہچانتے ہوں گے۔ لفظ اَعْرَاف عرف کی جمع ہے ہر چیز کے بلند حصے کو عرف کہا جاتا ہے۔ آیت بالا میں جس اعراف کا ذکر ہے اس سے کیا مراد ہے ؟ اس کے بارے میں مفسرین نے لکھا ہے کہ جنت اور دوزخ کے درمیان جو دیوار ہوگی جسے حجاب سے تعبیر فرمایا ہے وہ اعراف ہوگی۔ آیت بالا میں اس کی تصریح ہے کہ اعراف میں بہت سے لوگ ہوں گے جو اہل جنت کو پہچانتے ہوں گے اور اہل دوزخ کو بھی۔ اور یہ پہچاننا ہر ایک کی علامتوں سے ہوگا۔ میدان حشر میں بھی اہل جنت اہل دوزخ سے ممتاز ہوں گے۔ اہل جنت کے چہرے سفید روشن ہوں گے اور اہل دوزخ کے چہرے سیاہ ہونگے اور ان کی آنکھیں نیلی ہوں گی اور جنت دوزخ کے داخلہ کے بعد ہر فریق کی صورتوں کا ممتاز ہونا تو ظاہر ہی ہے اعراف والے اہل جنت کو اور اہل دوزخ کو ان کی نشانیوں سے پہچان لیں گے خود تو ابھی جنت میں داخل نہ ہوئے ہوں گے البتہ اس کے امید وار ہو رہے ہوں گے کہ انہیں بھی جنت میں داخلہ نصیب ہوجائے۔ اسی طمع اور آرزو کے حال میں وہ جنت والوں سے خطاب کریں گے کہ (سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ ) (تم پر سلام ہو) ان کا یہ کہنا بطور تحیہ یا بطور اخبار کے ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں تکلیفوں سے بچا دیا اور آئندہ بھی تکلیفوں سے محفوظ رہو گے۔ یہ اصحاب اعراف کون ہوں گے ؟ اس کے بارے میں حضرات مفسرین نے حضرات سلف سے متعدد اقوال نقل کیے ہیں۔ مشہور ترین قول یہ ہے کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جو نیکیوں کی وجہ سے پل صراط سے گزر کر دوزخ سے تو بچ گئے لیکن ان کی نیکیاں اس قدر نہ تھیں کہ جنت میں داخلہ کا ذریعہ بن جائیں ان کو اعراف پر لوگوں کے درمیان فیصلہ ہونے تک چھوڑ دیا جائے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ شانہٗ اپنی رحمت و فضل سے ان کو جنت میں داخل فرما دیں گے۔ اعراف والے حضرات اہل جنت سے بھی خطاب کریں گے (جس کا ذکر ابھی ہوا) اور اہل دوزخ سے بھی خطاب کریں گے، جب اہل دوزخ پر نظریں پڑیں گی تو ان کی بد حالی دیکھ کر اللہ پاک سے عرض کریں گے کہ اے اللہ ! ہمیں ظالموں سے شمار نہ فرمانا یعنی دوزخ میں داخل نہ فرما۔ نیز یہ حضرات دوزخیوں میں ان لوگوں کو بھی دیکھیں گے جنہیں ان کی نشانیوں سے پہچانتے ہوں گے یہ وہ لوگ ہوں گے جو اہل کفر کے سردار تھے جنہیں اپنی جماعت پر گھمنڈ تھا اور تکبر کرتے تھے نہ دین حق قبول کرتے تھے اور نہ اپنے ماننے والوں کو قبول کرنے دیتے تھے۔ اور اہل ایمان کو حقارت کی نظروں سے دیکھتے تھے اور نہ صرف یہ کہ ان کو اپنے طور پر حقیر جانتے تھے بلکہ یوں کہتے تھے کہ ان لوگوں کو تو اللہ تعالیٰ کی رحمت شامل ہو ہی نہیں سکتی۔ اصحاب اعراف ان متکبروں سے کہیں گے کہ تمہاری جماعت نے تمہیں کچھ فائدہ نہ دیا جن کے تم چودھری بنے ہوئے تھے، اور جو کچھ تم تکبر کرتے تھے اس نے بھی تمہیں کچھ فائدہ نہ پہنچایا یہ لوگ (یعنی اہل ایمان) کیا وہی نہیں ہیں ؟ جن کے بارے میں تم قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ اللہ ان کو اپنی رحمت میں شامل نہ فرمائے گا۔ دیکھو ! وہ کیسے کامیاب ہوئے ان کو جنت میں داخلہ دیدیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر رحمت فرمائی اور فرمایا۔ (اُدْخُلُوا الْجَنَّۃَ ) (جنت میں داخل ہوجاؤ) (لَا خَوْفٌ عَلَیْکُمْ وَ لَآ اَنْتُمْ تَحْزَنُوْنَ ) (نہ تم پر اب کچھ خوف ہے نہ آئندہ تم کبھی رنجیدہ رہو گے) وہ تو اپنے ایمان کی وجہ سے کامیاب ہوگئے اور تمہارا تکبر تمہیں کھا گیا تم کفر پر اڑے رہے لہٰذا تمہیں دوزخ میں داخل ہونا پڑا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

51 اہل جنت اور اہل نار کے درمیان ایک بہت بڑا پردہ حائل ہوگا جو جنت اور دوزخ کا اثر ایک دوسری طرف پہنچنے سے مانع ہوگا۔ “ وَ عَلَی الْاَ عْرَافِ ” اعراف جنت اور دوزخ کے درمیان حجاب حاجز کے اوپر کا بلند حصہ ہے۔ الذی علیہ الالکثر ان المراد من الاعراف اعالی ذلک السور المضروب بین الجنۃ والنار وھذا قول ابن عباس (کبیر ج 4 ص 311) اس میں وہ لوگ ہوں گے جن کی نیکیاں اور برائیں برابر ہوں گی جیسا کہ مرفوع حدیث میں ہے۔ قیل یارسول اللہ فمن استوت حسناتہ و سیئاتہ قال اولیائک اصحب الاعراف لم یدخلوھا وھم یطمعون وقالہ ابن مسعود و ابن عباس و حذیفۃ و ابوہریرہ (بحر ج 4 ص 301) اصحاب اعراف کے بارے میں محقق قول یہی ہے کہ وہ آخر کار جنت میں داخل ہوں گے۔ اگلی گفتگو ان کے جنت میں داخل ہونے سے پہلے ہوگی۔ 52 یہ جملہ معترضہ ہے جس میں اصحاب اعراف کا حال بیان کیا گیا ہے۔ اصحاب اعراف اپنی جگہ ہی سے اہل جنت اور اہل نار کو ان کی مخصوص علامتوں سے پہچان لیں گے۔ مثلاً اہل جنت کے چہرے روشن اور سفید ہوں گے اور اہل نار کے چہرے سیاہ ہوں گے۔ اصحاب اعراف جنت والوں کو آواز دے کر سلام کہیں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

46 اور اہل جنت اور اہل جہنم کے مابین ایک آڑ اور دیوار ہوگی اس دیوار کے بالائی حصہ کا نام اعراف ہے اور اس اعراف پر کچھ لوگ ہوں گے جو اہل جنت اور اہل جہنم میں سے ہر ایک کو اس کی نشانی اور علامت سے پہچانتے ہوں گے چونکہ یہ اعراف کے لوگ بلندی پر ہوں گے اس لئے دونوں فرقوں کو آسانی سے دیکھ لیں گے اور اہل جہنم اور اہل جنت کے چہرے صاف صاف پہچانے جاتے ہوں گے کیونکہ ایک فریق کے چہرے پر پھٹکار برستی ہوگی اور دوسرے فریق کے چہرے پر آثار مسرت نمایاں ہوں گے اور یہ اعراف کے لوگ اہل جنت کو پکار کر سلام علیک کریں گے اور اعرانی ابھی خود جنت میں داخل نہ ہوئے ہوں گے ہاں جنت میں داخل ہونے کے امیدوار ضرور ہوں گے یعنی اعراف کے لوگ وہ ہوں گے جن کی حسنات و سیئآت دونوں برابر ہوں گے اگر نیکیاں زیادہ ہوں تو جتنی ہوجائیں اور اگر برائیاں زیادہ ہوں تو جہنم میں چلے جائیں چونکہ دونوں برابر ہوگئے اس لئے ایک جانب کو ترجیح نہ ہوگی اور یہ لوگ اس دیوار پر جس کا ذکر سورة حدید میں انشاء اللہ آئیگا۔ جمع ہوجائیں گے مشہور یہ ہے کہ آخر میں ان کو بھی جنت میں داخل کردیا جائے گا۔