Surat ul Maarijj

Surah: 70

Verse: 35

سورة المعارج

اُولٰٓئِکَ فِیۡ جَنّٰتٍ مُّکۡرَمُوۡنَ ﴿ؕ٪۳۵﴾  7

They will be in gardens, honored.

یہی لوگ جنتوں میں عزت والے ہونگے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Such shall dwell in the Gardens, honored. meaning, they will be honored with various types of pleasures and delights.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اولئک فی جنت مکرمون : یہی لوگ ہیں جو تھڑدلی ، بےصبر اور شدید بخل سے محفوظ ہیں اور انھی کو جنتوں میں عزت عطا ہوگی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اُولٰۗىِٕكَ فِيْ جَنّٰتٍ مُّكْرَمُوْنَ۝ ٣٥ ۭ ۧ جَنَّةُ : كلّ بستان ذي شجر يستر بأشجاره الأرض، قال عزّ وجل : لَقَدْ كانَ لِسَبَإٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15] الجنۃ ہر وہ باغ جس کی زمین درختوں کیوجہ سے نظر نہ آئے جنت کہلاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛ لَقَدْ كانَ لِسَبَ... إٍ فِي مَسْكَنِهِمْ آيَةٌ جَنَّتانِ عَنْ يَمِينٍ وَشِمالٍ [ سبأ/ 15]( اہل ) سبا کے لئے ان کے مقام بود باش میں ایک نشانی تھی ( یعنی دو باغ ایک دائیں طرف اور ایک ) بائیں طرف ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ جنات جمع لانے کی وجہ یہ ہے کہ بہشت سات ہیں ۔ (1) جنۃ الفردوس (2) جنۃ عدن (3) جنۃ النعیم (4) دار الخلد (5) جنۃ المآوٰی (6) دار السلام (7) علیین ۔ كرم الكَرَمُ إذا وصف اللہ تعالیٰ به فهو اسم لإحسانه وإنعامه المتظاهر، نحو قوله : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وإذا وصف به الإنسان فهو اسم للأخلاق والأفعال المحمودة التي تظهر منه، ولا يقال : هو كريم حتی يظهر ذلک منه . قال بعض العلماء : الكَرَمُ کالحرّيّة إلّا أنّ الحرّيّة قد تقال في المحاسن الصّغيرة والکبيرة، والکرم لا يقال إلا في المحاسن الکبيرة، كمن ينفق مالا في تجهيز جيش في سبیل الله، وتحمّل حمالة ترقئ دماء قوم، وقوله تعالی: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] فإنما کان کذلک لأنّ الْكَرَمَ الأفعال المحمودة، وأكرمها وأشرفها ما يقصد به وجه اللہ تعالی، فمن قصد ذلک بمحاسن فعله فهو التّقيّ ، فإذا أكرم الناس أتقاهم، وكلّ شيء شرف في بابه فإنه يوصف بالکرم . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ، وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] . والإِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ : أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] منطو علی المعنيين . ( ک ر م ) الکرم ۔ جب اللہ کی صفت ہو تو اس سے احسان وانعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تو میر اپروردگار بےپرواہ اور کرم کرنے والا ہے ۔ اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیدہ اخلاق اور افعال مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور کسی شخص کو اس وقت تک کریمہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو ۔ بعض نے علماء کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جا تا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں مثلا جہاد میں فوج کے لئے سازو سامان مہیا کرنا یا کیس ایسے بھاری تا وان کو اٹھا لینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو ۔ اور آیت : ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔ میں القی یعنی سب سے زیادہ پرہیز گا ۔ کو اکرم یعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹہھر انے کی وجہ یہ ہے کہ کرم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسند یدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا ۔ نیز الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چناچہ فرمایا : ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] پھر ( اس سے ) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ الا کرام والتکریم کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیوک کار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(70:35) اولئک فی جنت مکرمون : اولیک اسم اشارہ جمع مذکر، مراد موصوفین اول تا ہشتم ، مذکورہ بالا جو الانسان الہلوع سے مستثنیٰ ہیں۔ فی جنت مکرمون ۔ ھما خبران۔ یہ دونوں اولئک کی خبریں ہیں۔ (مدارک) یہی لوگ باغہائے بہشت میں عزت و اکرام سے ہوں گے۔ مکرمون اکرام (افعال) مصدر سے اسم مفعول (بحالت رفع) جمع مذک... ر کا صیغہ ہے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 6 یعنی یہ ہیں ان لوگوں کی صفات جو بہشت میں عزت سے رہیں گے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات ٣٦ تا ٤٤۔ اسرار ومعارف۔ اور ان کفار کو کیا ہوا ہے کہ بجائے تصدیق کرنے ہر طرف سے آپ پر یلغار کرتے ہیں کہ آپ کے ارشادات کی تکذیب کرتے ہیں اور اعتراض کے ساتھ مذاق اڑائیں اس پر طرفہ یہ کہ ہر قوم آخرت میں اپنے لیے نجات کی امید رکھتی ہے لہذا مغرب ومشرق کے یہود ہنود ہوں یانصاری وغیرہ سب اپنے لیے جنت ... کا دعوی بھی رکھتے ہیں جو یکسر باطل ہے ایسا ہرگز نہ ہوسکے گا بلکہ اطاعت محمد کے علاوہ اب نجات کا کوئی راستہ نہیں اور جو لوگ سرے سے کوئی مذہب نہیں رکھتے انہیں بھی دیکھ لیناچاہیے کہ کس طرح ایک قطرہ منی سے ہم نے انہیں باکمال خوبصورت صحت مند انسان بنادیا اور یہ مشارق ومغارب کے نظام جو ہر لحظہ سے بیشمار تخلیقات کے ظہور کا سبب ہے اس بات پر گواہ ہے ہم موجودہ انسانوں سے بہتر اور زیادہ استعدادا کے لوگ بھی پیدا کرنے پر قادر ہیں۔ قرآن کی پیش گوئی۔ یہ پیش گوئی بھی پائی جاتی ہے کہ آنے والی انسانی نسلوں کو عقلی وعلمی اعتبار سے زیادہ استعداد بھی ہوگی جس کا اظہار آج ہورہا ہے لہذا کوئی شے بھی ہمارے اختیار سے باہر نہیں اور نہ انہیں حد اطاعت سے نکلناچاہیے مگر یہ باز نہیں آتے تو انہیں اپنے فضول کاموں میں مصروف رہنے دیجئے کہ اسی حال میں قیامت کو پالیں جس روز سب لوگ قبروں سے اٹھ کر دوڑتے ہوئے میدان حشر میں جمع ہوں گے جب کفار کی نظریں جھکی ہوں گی اور چہروں پر ذلت چھارہی ہوگی تو انہیں پتہ چلے گا کہ اسی روز سے اور اس کی ذات سے ہمیں آگاہ کیا جاتا تھا۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب یہاں ان کا انجام بھی دیا جاتا ہے جبکہ دوسرے فریق کا انجام اس سے قبل بتادیا گیا تھا۔ اولئک ................ مکرمون (٠٧ : ٥٣) ” یہ لوگ عزت کے ساتھ جنت کے باغوں میں رہیں گے “۔ یہ مختصر ترین آیت حسی مزے اور معنوی مزے دونوں کو ایک جگہ جمع کردیتی ہے۔ یہ باغات میں ہوں گے اور باعزت طور پر ہوں گے۔ یوں لذ... ت بھی پائیں گے اور عزت بھی پائیں گے۔ اور یہ ان کے ایمان ایقان اور نیکی کی وجہ سے ، ان کا امتیاز ہوگا۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

آخر میں فرمایا ﴿ اُولٰٓىِٕكَ فِيْ جَنّٰتٍ مُّكْرَمُوْنَ ٢ؕ ٠٠٣٥﴾ مومنین کے اوصاف بیان فرمانے کے بعد ان کی جزا بیان فرما دی کہ وہ موت کے بعد بہشتوں میں باعزت رہیں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(35) یہ سب وہ لوگ ہیں جو عزت و احترام کے ساتھ بہشتوں کے باغوں میں داخل ہوں گے۔ یعنی انسانی جبلت میں یہ بات رکھی گئی ہے کہ اگر کوئی اصلاح نہ ہو اور کوئی صحیح رہنمائی نہ ہو تو انسان حریص بھی ہوگا اور بخیل و کم ہمت بھی۔ ھلوع کی جو تفسیر بقول ابن عباس (رض) قرآن نے بیان کی ہے وہ ہی ہلوع کے معنی ہیں یعنی ... تکلیف کے وقت حد شرعی سے زیادہ گھبرانا اور جب بھلائی اور فارغ البالی ہو تو حقوق اللہ اور حقوق العباد کو تلف کرنا اور ادا کرنا ۔ محروم ہدایت جو لوگ ہیں وہ ہمیشہ اسی پر رہتے ہیں مگر وہ انسان جو انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام سے ہدایت قبول کرتے اور فیض پاتے ہیں وہ ایسے ہلوع اور جزوع نہیں ہوتے وہ لوگ جو ہمیشہ نماز کی پابندی کرتے ہیں۔ دوام سے مراد نماز کا خشوع اور سکون ہے یعنی دائیں بائیں جانب التفات نہیں کرتے بلکہ پوری توجہ کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں اور وہ لوگ جن کے اموال میں سوالی اور غیر سوالی دونوں کا حصہ ہے سوال کرنیوالا تو ظاہر ہے نہ سوال کرنے والا جو حیا سے نہ سوال کرتا ہو یا توکل سے یا تعفف سے مگر ہے وہ حاجتمند تو ایسے غیر سوالی کو بھی تلاش کرکے دیتے ہیں، جیسا کہ سورة ذاریات میں ہم عرض کرچکے ہیں اور وہ لوگ قیامت پر اعتقاد رکھتے ہیں اور اپنے پروردگار کے عذاب کا خوف رکھتے ہیں اور ڈرتے ہیں آگے بطور جملہ معترضہ فرمایا ان کے پروردگار کا عذاب نڈر اور بےخوف ہونے کی چیز ہے بھی نہیں۔ شرم گاہ کی حفاظت کا مطلب یہ ہے کہ حرام سے شہوت رانی نہیں کرتے بلکہ نکا حی بیویاں یا باندیاں جو مملوک ہوں تو ان سے شہوت رانی کرنے پر کوئی ملامت نہیں ان کے علاوہ اگر کوئی اور راستہ شہوت رانی کا تلاش کریں گے تو وہ شرعی حد سے تجاوز کرنے والے ہوں گے یعنی خواہ لواطت ہو، خرچی والی عورت ہو یا خانگی ہو یعنی زنا اجرت پر یا بغیر اجرت کے یا زن مکرہہ ہو یعنی زبردستی اس سے بدفعلی کی جائے یا متعہ کے ذریعہ کسی عورت کو استعمال کیا جائے ، یا مانگی ہوئی لونڈی یا عورتوں کا آپس میں مساحقت کرنا غرض جو بھی غیرشرعی صورتیں ہوں گی وہ سب وراہ ذلک میں داخل ہوں گی حتیٰ کہ استمنا یعنی ہاتھ سے شہوت کو پورا کرنا یہ بھی حنفیہ کے نزدیک اسی حرام میں داخل ہے امانت اور عہد کی رعایت کرنا خواہ وہ امانت حقوق اللہ سے متعلق ہوں یا حقوق العباد سے کسی نے کوئی امانت رکھی ہو۔ کوئی بھید ہو، حقوق اللہ وضو، غسل جنابت، نماز روزہ، زکوٰۃ وغیر بعض امور امانت ہیں اور بعض عہد میں داخل ہوتے ہیں خواہ انسانی امانت اور عہد ہو یا اللہ تعالیٰ کی کوئی امانت اور اسکاعہد ہونگا ہ داشت کا مطلب یہ ہے کہ اس کو پورا کیا جائے۔ قائم بالشہادت کا مطلب یہ ہے کہ عدل کے ساتھ شہادت دی جائے نہ انکار کیا جائے نہ بےسود بہانے کئے جائیں اور نہ شہادت میں کمی بیشی کی جائے۔ نماز کی محافظت یہ کہ آداب ومستحبات اور واجبات کا خیال رکھ کر نماز ادا کی جائے نماز کی اہمیت کے پیش نظر ان آیات میں نمازکا دوسرا مرتبہ ذکر فرمایا۔ یہ لوگ ہیں جو بہشت کے باغوں میں علی حسب مراتب معزز ومکرم ہوں گے یعنی جنت میں اکرام و احترام کا ان کے ساتھ سلوک کیا جائے گا۔  Show more