Surat ul Maarijj

Surah: 70

Verse: 42

سورة المعارج

فَذَرۡہُمۡ یَخُوۡضُوۡا وَ یَلۡعَبُوۡا حَتّٰی یُلٰقُوۡا یَوۡمَہُمُ الَّذِیۡ یُوۡعَدُوۡنَ ﴿ۙ۴۲﴾

So leave them to converse vainly and amuse themselves until they meet their Day which they are promised -

پس تو انہیں جھگڑتا کھیلتا چھوڑ دے یہاں تک کہ یہ اپنے اس دن سے جا ملیں جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَذَرْهُمْ ... So leave them, meaning, `O Muhammad!' ... يَخُوضُوا وَيَلْعَبُوا ... to plunge in vain talk and play about, meaning, leave them in their denial, disbelief and obstinance. ... حَتَّى يُلَقُوا يَوْمَهُمُ الَّذِي يُوعَدُونَ until they meet their Day which they are promised. meaning, they are going to know the outcome of that and taste its evil consequences. يَوْمَ يَخْرُجُونَ مِنَ الاَْجْدَاثِ سِرَاعًا كَأَنَّهُمْ إِلَى نُصُبٍ يُوفِضُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

42۔ 1 یعنی فضول اور لایعنی بحثوں میں پھنسے اور اپنی دنیا میں مگن رہیں تاہم آپ اپنی تبلیغ کا کام جاری رکھیں ان کا رویہ آپ کو اپنے منصب سے غافل یا بددل نہ کر دے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فذرھم یخوضوا ویلعبوا…: مراد قیامت کا دن ہے، کیونکہ اس کے بعد ” یوم یخرجون “ اس سے بدل ہے۔ دنیا کے کھیل کود کی مہلت موت تک ہے اور موت قیامت کا دروازہ ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَذَرْہُمْ يَخُوْضُوْا وَيَلْعَبُوْا حَتّٰى يُلٰقُوْا يَوْمَہُمُ الَّذِيْ يُوْعَدُوْنَ۝ ٤٢ ۙ وذر [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی: قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة/ 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] «1» . ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف/ 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام/ 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة/ 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة/ 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ خوض الخَوْضُ : هو الشّروع في الماء والمرور فيه، ويستعار في الأمور، وأكثر ما ورد في القرآن ورد فيما يذمّ الشروع فيه، نحو قوله تعالی: وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ : إِنَّما كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ [ التوبة/ 65] ، وقوله : وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خاضُوا[ التوبة/ 69] ، ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ [ الأنعام/ 91] ، وَإِذا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آياتِنا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ [ الأنعام/ 68] ، وتقول : أَخَضْتُ دابّتي في الماء، وتخاوضوا في الحدیث : تفاوضوا . ( خ و ض ) الخوض ( ن ) کے معنی پانی میں اترنے اور اس کے اندر چلے جانے کے ہیں بطور استعارہ کسی کام میں مشغول رہنے پر بولا جاتا ہے قرآن میں اس کا زیادہ تر استعمال فضول کاموں میں لگے رہنا ہر ہوا ہے چناچہ فرمایا : وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ : إِنَّما كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ [ التوبة/ 65] اور اگر تم ان سے ( اس بارے میں ) دریافت کرو تو کہیں گے کہ ہم عورتوں ہی بات چیت اور دل لگی کرتے تھے ۔ وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خاضُوا[ التوبة/ 69] اور جس طرح وہ باطل میں ٖڈوبے رہے اسی طرح تم باطل میں ڈوبے رہے ۔ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ [ الأنعام/ 91] پھر ان کو چھوڑ دو کہ اپنی بیہودہ بکواس میں کھیلتے رہیں ۔ وَإِذا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آياتِنا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ [ الأنعام/ 68] اور جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیتوں کے بارے میں بیہودہ بکواس کر رہے ہیں تو ان سے الگ ہوجاؤ ۔ یہاں تک کہ اور باتوں میں مشغول ہوجائیں ۔ کہا جاتا ہے : ۔ میں نے اپنی سواری کو پانی میں ڈال دیا ۔ باہم باتوں میں مشغول ہوگئے ۔ لعب أصل الکلمة اللُّعَابُ ، وهو البزاق السائل، وقد لَعَبَ يَلْعَبُ لَعْباً «1» : سال لُعَابُهُ ، ولَعِبَ فلان : إذا کان فعله غير قاصد به مقصدا صحیحا، يَلْعَبُ لَعِباً. قال : وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت/ 64] ، ( ل ع ب ) اللعب ۔ اس مادہ کی اصل لعاب ہے جس کے معنی منہ سے بہنے والی رال کے ہیں اور ننعب ( ف) یلعب لعبا کے معنی لعاب بہنے کے ہیں لیکن لعب ( س ) فلان یلعب لعبا کے معنی بغیر صحیح مقصد کے کوئی کام کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَما هذِهِ الْحَياةُ الدُّنْيا إِلَّا لَهْوٌ وَلَعِبٌ [ العنکبوت/ 64] حَتَّى حَتَّى حرف يجرّ به تارة كإلى، لکن يدخل الحدّ المذکور بعده في حکم ما قبله، ويعطف به تارة، ويستأنف به تارة، نحو : أكلت السمکة حتی رأسها، ورأسها، ورأسها، قال تعالی: لَيَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] ، وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] . ويدخل علی الفعل المضارع فينصب ويرفع، وفي كلّ واحد وجهان : فأحد وجهي النصب : إلى أن . والثاني : كي . وأحد وجهي الرفع أن يكون الفعل قبله ماضیا، نحو : مشیت حتی أدخل البصرة، أي : مشیت فدخلت البصرة . والثاني : يكون ما بعده حالا، نحو : مرض حتی لا يرجونه، وقد قرئ : حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] ، بالنصب والرفع «1» ، وحمل في كلّ واحدة من القراء تین علی الوجهين . وقیل : إنّ ما بعد «حتی» يقتضي أن يكون بخلاف ما قبله، نحو قوله تعالی: وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ، وقد يجيء ولا يكون کذلک نحو ما روي : «إنّ اللہ تعالیٰ لا يملّ حتی تملّوا» «2» لم يقصد أن يثبت ملالا لله تعالیٰ بعد ملالهم حتی ٰ ( حرف ) کبھی تو الیٰ کی طرح یہ حرف جر کے طور پر استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے مابعد غایت ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے اور کبھی عاطفہ ہوتا ہے اور کبھی استیناف کا فائدہ دیتا ہے ۔ جیسے اکلت السملۃ حتی ٰ راسھا ( عاطفہ ) راسھا ( جارہ ) راسھا ( مستانفہ قرآن میں ہے ليَسْجُنُنَّهُ حَتَّى حِينٍ [يوسف/ 35] کچھ عرصہ کے لئے نہیں قید ہی کردیں ۔ وحَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ [ القدر/ 5] طلوع صبح تک ۔۔۔۔ جب یہ فعل مضارع پر داخل ہو تو اس پر رفع اور نصب دونوں جائز ہوتے ہیں اور ان میں ہر ایک کی دو وجہ ہوسکتی ہیں نصب کی صورت میں حتی بمعنی (1) الی آن یا (2) گی ہوتا ہے اور مضارع کے مرفوع ہونے ایک صورت تو یہ ہے کہ حتی سے پہلے فعل ماضی آجائے جیسے ؛۔ مشیت حتی ادخل ۔ البصرۃ ( یعنی میں چلا حتی کہ بصرہ میں داخل ہوا ) دوسری صورت یہ ہے کہ حتیٰ کا مابعد حال واقع ہو جیسے مرض حتی لایرجون و دو بیمار ہوا اس حال میں کہ سب اس سے ناامید ہوگئے ) اور آیت کریمۃ ؛۔ حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ [ البقرة/ 214] یہاں تک کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پکار اٹھے ۔ میں یقول پر رفع اور نصب دونوں منقول ہیں اور ان ہر دو قرآت میں دونوں معنی بیان کئے گئے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ حتیٰ کا مابعد اس کے ماقبل کے خلاف ہوتا ہے ۔ جیسا ک قرآن میں ہے : وَلا جُنُباً إِلَّا عابِرِي سَبِيلٍ حَتَّى تَغْتَسِلُوا [ النساء/ 43] ۔ اور جنابت کی حالت میں بھی نماز کے پاس نہ جاؤ ) جب تک کہ غسل ( نہ ) کرو ۔ ہاں اگر بحالت سفر رستے چلے جارہے ہو اور غسل نہ کرسکو تو تیمم سے نماز پڑھ لو ۔ مگر کبھی اس طرح نہیں بھی ہوتا جیسے مروی ہے ۔ اللہ تعالیٰ لاتمل حتی تملو ا ۔ پس اس حدیث کے یہ معنی نہیں ہیں کہ تمہارے تھک جانے کے بعد ذات باری تعالیٰ بھی تھک جاتی ہے ۔ بلکہ معنی یہ ہیں کہ ذات باری تعالیٰ کو کبھی ملال لاحق نہیں ہوتا ۔ لقی اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] ( ل ق ی ) لقیہ ( س) یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔ وعد الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] ، ( وع د ) الوعد ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خيٰر و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم/ 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص/ 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

سو محمد آپ ان کو اسی باطل غوطہ زن اور ان کے کفر میں استہزاء کرتا ہوا رہنے دیجیے، یہاں تک کہ ان کو اس دن سے واسطہ پڑے جس میں ان سے عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے یعنی قیامت کا دن۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٢{ فَذَرْہُمْ یَخُوْضُوْا وَیَلْعَبُوْا } ” تو (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ چھوڑ دیجیے انہیں ‘ یہ لگے رہیں بےہودہ باتوں اور کھیل کود میں “ { حَتّٰی یُلٰقُوْا یَوْمَہُمُ الَّذِیْ یُوْعَدُوْنَ ۔ } ” یہاں تک کہ یہ ملاقات کریں اپنے اس دن سے جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے ۔ “ قبل ازیں سورة الطور ‘ آیت ٤٥ میں بھی ہم یہی الفاظ { فَذَرْہُمْ حَتّٰی یُلٰقُوْا } پڑھ آئے ہیں۔ یہ اسلوب ابتدائی دور کی سورتوں میں عام ملتا ہے۔ اس میں ایک طرف حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دلجوئی اور تسلی کا پہلو ہے تو دوسری طرف مشرکین سے نفرت اور غصے کا اظہار بھی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(70:42) فذرھم یخرضوا ویلعبوا : ف عاطفہ ہے بمعنی پس۔ سو۔ تو۔ ذر فعل امر حاضر۔ واحد مذکر۔ وذر (باب سمع فتح) مصدر سے تو چھوڑ دے (اس کی ماضی نہیں آتی) ۔ مضارع کے صیغہ میں قرآن مجید میں ہے :۔ والذین یتوفون منکم ویذرون ازواجا وصیۃ لازواجھم متاعا الی الحول (2:240) اور جو لوگ تم میں سے مرجائیں اور عورتیں چھوڑ جائیں۔ وہ اپنی عورتوں کے حق میں وصیت کر جائیں کہ ان کو ایک سال تک خرچ دیا جائے) ۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب : تو ان کو چھوڑ دے۔ یخوضوا۔ مضارع مجزوم جمع مذکر غائب۔ خوض (باب نصر) مصدر سے وہ مشغول ہوں ۔ وہ مشغول رہیں۔ مضارع مجزوم بوجہ جواب امر ہے۔ یلعبوا : مضارع جمع مذکر غائب۔ لعب (باب سمع) مصدر۔ وہ کھلتے رہیں۔ وہ کھیل میں پڑے رہیں۔ آپ ان کو رہنے دیں کہ خرافات میں لگے رہیں۔ اور کھیل کود میں مشغول رہیں۔ حتی حرف جر ہے۔ یہاں انتہاء غایت کے لئے ہے اور بمعنی الیٰ آیا ہے۔ یہاں تک کہ۔ یلقوا یومہم۔ یلاقوا مضارع جمع مذکر غائب منصوب۔ ملاقاۃ (مفاعلۃ) مصدر۔ (یہاں تک کہ) وہ پالیں (یا مل جائیں) اپنے (اس) دن کو (یعنی حشر کے دن کو) یومہم مضاف مضاف الیہ مل کر یلاقوا کا مفعول۔ الذی یوعدون ۔ موصول وصلہ مل کر یوم کی صفت یوعدون مضارع مجہول جمع مذکر غائب : وعد (باب ضرب) مصدر۔ (جس کا) ان کو وعدہ دیا جاتا ہے یا ۔ ان کو وعید دی جاتی ہے۔ یعنی وعید عذاب حشر۔ کیونکہ قیامت کا دن مومنوں کیلئے وعید کا دن نہیں ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 11 یعنی قیامت کا دن

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿فَذَرْهُمْ يَخُوْضُوْا وَ يَلْعَبُوْا ﴾ (سو آپ انہیں چھوڑیے۔ یہ باطل چیزوں میں پڑے رہیں اور کھیل میں لگے رہیں) انہیں ایمان لانا نہیں ہے۔ انکار وعناد پر تلے ہوئے ہیں انہیں اس دن سے سابقہ پڑنا ہی ہے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے (اس سے قیامت کا دن مراد ہے) جس دن صور پھونکا جائے گا یہ اس دن اپنی قبروں سے ایسی تیزی سے نکلیں گے جیسا کہ دنیا میں پرستش گاہوں کی طرف جلدی جلدی جایا کرتے تھے جن میں بت وغیرہ رکھے ہوئے ہوتے تھے یہ لوگ دنیا میں بڑا شور مچاتے تھے قیامت کے دن ان کا یہ حال ہوگا کہ ان کی آنکھیں نیچے کو جھکی ہوں گی اور ان پر ذلت چھائی ہوگی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

ٖ 14:۔ ” فذرھم “ زجر مع تخویف دنیوی۔ فرمایا آپ ان مشرکین کے عناد و تعنت اور استکبار و انکار کی پرواہ نہ کریں اور ان کو استہزاء و انکار اور لہو ولعب میں منہمک ہونے دیں یہاں تک کہ وہ اس دن کو پالیں جس کا انسے وعدہ کیا جا رہا ہے۔ مراد قیامت کا دن ہے یعنی اب تو لہو و لعب میں کھوئے ہوئے ہیں اور حق کو نہیں مانتے قیامت کے دن سیدھے ہوجائیں گے۔ ” یوم یخرجون “ یہ وہ دن ہے جب وہ قبروں سے نکل کر جلدی جلدی چلیں گے گویا کہ نشانے کی طرف دوڑ رہے ہیں جیسے انسان نشانے کی طرف سیدھا اور تیز دوڑتا ہے اسی طرح وہ بھی داعی کی طرف سیدھے دوڑیں گے ” یوفضون ای یوعون “ (روح) ۔ خاشعۃ ابصارہم، ان کی آنکھوں مارے خوف کے جھکی ہوں گی اور ان پر ذلت ورسوائی چھائی ہوگی اور تبکیت و تحسیر کے طور پر ان سے کہا جائیگا کہ یہ ہے وہ دن جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا کہ اگر نہیں مانو گے تو قیامت کے دن دردناک اور رسوا کن عذاب میں مبتلا کیے جاؤ گے۔ ذلک الیوم سے پہلے یقال لہم محذوف ہے۔ سورة المعارج ختم ہوئی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(42) تو اے پیغمبر آپ ان کو انہی بےہودہ نکتہ چینیوں اور کھیل و تفریح میں مشغول رہنے دیجئے یہاں تک کہ یہ اپنے اس دن سے جاملیں اور ان کو اس دن سے سابقہ پڑجائے جس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔ یعنی آپ ان پر سے اپنا ہاتھ اٹھا لیجئے اور ان کو اسی کفروعناد اور تعصب میں پڑا رہنے دیجئے کہ یہ دین حق کو اپنے کھیل و تفریح کا مشغلہ بناتے رہیں یہاں تک کہ اپنے اس دن سے ججاملیں جس دن کا ان سے وعدہ کررکھا ہے یعنی قیامت آجائے اور یہ قیامت سے جاملیں آگے مختصر اس دن کا احوال بیان فرمایا۔