Surat ul Maarijj

Surah: 70

Verse: 44

سورة المعارج

خَاشِعَۃً اَبۡصَارُہُمۡ تَرۡہَقُہُمۡ ذِلَّۃٌ ؕ ذٰلِکَ الۡیَوۡمُ الَّذِیۡ کَانُوۡا یُوۡعَدُوۡنَ ﴿۴۴﴾٪  8

Their eyes humbled, humiliation will cover them. That is the Day which they had been promised.

ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہو ں گی ، ان پر ذلت چھا رہی ہوگی یہ ہے وہ دن جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا تھا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

خَاشِعَةً أَبْصَارُ ... With their eyes lowered in fear, meaning humbled. ... هُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ... covering them with humility. meaning, in return for how they behaved arrogantly in the worldly life by refusing to be obedient (to Allah). ... ذَلِكَ الْيَوْمُ الَّذِي كَانُوا يُوعَدُونَ That is the Day which they were promised! This is the end of the Tafsir of Surah Ma'arij. And all praise and thanks are due to Allah.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

44۔ 1 جس طرح مجرموں کی آنکھیں جھکی ہوتی ہیں کیونکہ انہیں اپنے کرتوتوں کا علم ہوتا ہے۔ 44۔ 2 یعنی سخت ذلت انہیں اپنی لپیٹ میں لے رہی ہوگی اور ان کے چہرے مارے خوف کے سیاہ ہوں گے۔ 44۔ 3 یعنی رسولوں کی زبانی اور آسمانی کتابوں کے ذریعے سے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

خَاشِعَۃً اَبْصَارُہُمْ تَرْہَقُہُمْ ذِلَّۃٌ۝ ٠ ۭ ذٰلِكَ الْيَوْمُ الَّذِيْ كَانُوْا يُوْعَدُوْنَ۝ ٤٤ ۧ خشع الخُشُوع : الضّراعة، وأكثر ما يستعمل الخشوع فيما يوجد علی الجوارح . والضّراعة أكثر ما تستعمل فيما يوجد في القلب ولذلک قيل فيما روي : روي : «إذا ضرع القلب خَشِعَتِ الجوارح» قال تعالی: وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعاً [ الإسراء/ 109] ، وقال : الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خاشِعُونَ [ المؤمنون/ 2] ، وَكانُوا لَنا خاشِعِينَ [ الأنبیاء/ 90] ، وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ [ طه/ 108] ، خاشِعَةً أَبْصارُهُمْ [ القلم/ 43] ، أَبْصارُها خاشِعَةٌ [ النازعات/ 9] ، كناية عنها وتنبيها علی تزعزعها کقوله : إِذا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا [ الواقعة/ 4] ، وإِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها [ الزلزلة/ 1] ، يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً وَتَسِيرُ الْجِبالُ سَيْراً [ الطور/ 9- 10] . ( خ ش ع ) الخشوع ۔ ( ان ) کے معنی ضواعۃ یعنی عاجزی کرنے اور جھک جانے کے ہیں ۔ مگر زیادہ تر خشوع کا لفظ جوارح اور ضراعت کا لفظ قلب کی عاجزی پر بولا جاتا ہے ۔ اسی لئے ایک روایت میں ہے :۔ (112) اذا ضرعت القلب خشعت الجوارح جب دل میں فروتنی ہو تو اسی کا اثر جوارح پر ظاہر ہوجاتا ہے قرآن میں ہے : وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعاً [ الإسراء/ 109] اور اس سے ان کو اور زیادہ عاجزی پید اہوتی ہے ۔ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلاتِهِمْ خاشِعُونَ [ المؤمنون/ 2] جو نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں ۔ وَكانُوا لَنا خاشِعِينَ [ الأنبیاء/ 90] اور ہمارے آگے عاجزی کیا کرتے تھے ۔ وَخَشَعَتِ الْأَصْواتُ [ طه/ 108] آوازیں پست ہوجائیں گے ۔ ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی ۔ أَبْصارُها خاشِعَةٌ [ النازعات/ 9] یہ ان کی نظروں کے مضطرب ہونے سے کنایہ ہے ۔ جیسا کہ زمین وآسمان کے متعلق بطور کنایہ کے فرمایا ۔ إِذا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا [ الواقعة/ 4] جب زمین بھونچال سے لرزنے لگے ۔ وإِذا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزالَها [ الزلزلة/ 1] جب زمین بھونچال سے ہلا دی جائے گی ۔ يَوْمَ تَمُورُ السَّماءُ مَوْراً وَتَسِيرُ الْجِبالُ سَيْراً [ الطور/ 9- 10] جس دن آسمان لرزنے لگے کپکپا کر۔ اور پہاڑ اڑانے لگیں ( اون ہوکر ) بصر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل/ 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔ وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ رهق رَهِقَهُ الأمر : غشيه بقهر، يقال : رَهِقْتُهُ وأَرْهَقْتُهُ ، نحو ردفته وأردفته، وبعثته وابتعثته قال : وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [يونس/ 27] ، وقال : سَأُرْهِقُهُ صَعُوداً [ المدثر/ 17] ، ومنه : أَرْهَقْتُ الصّلاة : إذا أخّرتها حتّى غشي وقت الأخری. ( ر ھ ق ) رھقہ ( س ) رھقا ۔ الامر ۔ کسی معاملہ نے اسے بزور و جبر دبا لیا ۔ اور رھقہ وارھقہ ( مجرد و مزید فیہ ) دونوں کے ایک ہی معنی ہیں جیسے ۔ ردفہ اردفہ وبعثہ وابعثہ ۔ قرآن میں ہے ۔ وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [يونس/27] اور ان پر ذلت چھا رہی ہوگی ۔ سَأُرْهِقُهُ صَعُوداً [ المدثر/ 17] ہم عنقریب اس کو عذاب سخت میں مبتلا کردیں گے ، اور اسی سے ارھقت الصلوٰۃ ہے جس کے معنی نماز کو آخر وقت تک موخر کرنے کے ہیں ۔ حتی ٰ کہ دوسری نماز کا وقت آجائے ۔ ذلت يقال : الذُّلُّ والقُلُّ ، والذِّلَّةُ والقِلَّةُ ، قال تعالی: تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [ المعارج/ 44] ، وقال : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة/ 61] ، وقال : سَيَنالُهُمْ غَضَبٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَذِلَّةٌ [ الأعراف/ 152] ، وذَلَّتِ الدّابة بعد شماس، ذِلًّا، وهي ذَلُولٌ ، أي : ليست بصعبة، قال تعالی: لا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ [ البقرة/ 71] ، بغیر تاء کے ذل اور تار کے ساتھ ذلتہ کہا جاتا ہے جیسا کہ قل اور قلتہ ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [ المعارج/ 44] اور ان کے مونہوں پر ذلت چھا جائے گی ۔ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة/ 61] اور ( آخری کار ) زلت ( اور رسوائی ) اور محتاجی ( اور بےتوانائی ) ان سے چنٹادی گئی ۔ سَيَنالُهُمْ غَضَبٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَذِلَّةٌ [ الأعراف/ 152] پروردگار کا غضب واقع ہوگا اور ذلت ( نصیب ہوگی ) منہ زوزی کے بعد سواری کا مطیع ہوجانا اور اس قسم کی مطیع اور مئقاد سواری کا ذلول ( صفت فاعلی ) کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا ذَلُولٌ تُثِيرُ الْأَرْضَ [ البقرة/ 71] کہ وہ بیل کام میں لگا ہوا نہ ۔ نہ تو زمین جوتتا ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

ان کی آنکھیں جھکی ہوں گی اور ان کی صورت پر پھٹکار اور ذلت پڑے ہوگی یہ ان کا وہ دن جس میں ان سے عذاب کا وعدہ کیا جاتا تھا جیسا کہ حضرت نوح کا وعدہ کرنا اور قیامت کے دن سے ڈرانا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٤{ خَاشِعَۃً اَبْصَارُہُمْ تَرْہَقُہُمْ ذِلَّــۃٌط } ” ان کی نگاہیں زمین میں گڑی ہوئی ہوں گی ‘ ذلت ان پر چھائی ہوئی ہوگی۔ “ { ذٰلِکَ الْیَوْمُ الَّذِیْ کَانُوْا یُوْعَدُوْنَ ۔ } ” یہ ہے وہ دن جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(70:44) خاشعۃ ابصارھم ترھقہم ذلۃ : خاشعۃ منصوب ہے کیونکہ ضمیر یوفضون سے حال ہے اور ابصارہم مرفوع ہے کیونکہ یہ خاشعۃ کا فاعل ہے۔ خاشعۃ ذلیل ہونے والی۔ ذلیل و خوار۔ خشوع (باب فتح) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مؤنث ہے۔ ان کی نگاہیں نیچی ہو رہی ہوں گی۔ ترھقہم ذلۃ یہ جملہ بھی یوفضون سے حال ہے، ذلت ان پر چھا رہی ہوگی۔ ترہق مضارع واحد مؤنث غائب رھن (باب سمع) مصدر جس کے معنی کسی چیز کا دوسری چیز پر زبردستی چھاجانے کے ہیں۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ اور جگہ قرآن مجید میں ہے ولا یرھق وجوہہم قتر ولا ذلۃ (10:26) اور ان کے چہروں پر نہ تو سیاہی چھایے گی اور نہ رسوائی ذلک الیوم الذی کانوا یوعدون : ذلک مبتداء الیوم ۔۔ الخ ۔ اس کی خبر۔ کانوا یوعدون ماضی استمراری مجہول جمع مذکر غائب وعد (باب ضرب) مصدر ان کو وعید دی جاتی تھی یعنی یہ ہے دن جس کا ان سے وعدہ عذاب کیا جا رہا تھا۔ یہ جملہ معترضہ ہے۔ ماقبل کی اہمیت کو ذہن نشین کرانے کے لئے آیا ہے۔ سورة القمر میں اس کا نقشہ یوں کھینچا ہے :۔ یوم یدع الداع الی شیء نکر ، خشعا ابصارھم یخرجون من الاجداث کانھم جراد منتشرہ مھطعین الی الداع یقول الکافرون ھذا یوم عسرہ (54:6 تا 8) (آپ بھی ان کی پرواہ نہ کریں) جس دن بلانے والا ان کو ایک ناخوش چیز کی طرف بلائیگا تو آنکھیں نیچی کئے ہوئے قبروں سے نکل پڑیں گے گویا وہ بکھری ہوئی ٹڈیاں ہیں۔ اس بلانے والے کی طرف دوڑتے جاتے ہوں گے۔ کافر کہیں گے یہ دن بڑا سخت ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اس کے بعد ان کی حالت کی تصویریوں کھینچی جاتی ہے : خاشعة .................... ذلة (٠٧ : ٤٤) ” ان کی نگاہیں جھکی ہوئی ہوں گی ، ذلت ان پر چھارہی ہوگی “۔ ان الفاظ سے ان کی ہیئت کذائی کی خوب تصویر کھینچی گئی ہے۔ اور وہ نہایت تھکے ماندے اور ذلیل و خوار نظر آتے ہیں۔ اس سے قبل دنیا میں ان کی دوڑ دھوپ ، سستی اور کھیل کود کی تھی اور اب یہ ذلیل و خوار ہوکر ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں۔ ذلک ................ یوعدون (٠٧ : ٤٤) ” یہ دن ہے جس کا ان سے وعدہ کیا جارہا تھا “۔ اور یہ اس میں شک کرتے تھے ، تکذیب کرتے تھے اور جلدی مچاتے تھے۔ یوں سورت کا آغاز اور انجام ایک ہوجاتا ہے۔ اور بعث بعدالموت کے مسئلہ کا یہ حلقہ بھی اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔ اور یوں زندگی کے جاہلی تصور اور اسلامی تصور کے مابین یہ معرکہ اپنے انجام کو پہنچتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

﴿ ذٰلِكَ الْيَوْمُ الَّذِيْ كَانُوْا يُوْعَدُوْنَ (رح) ٠٠٤٤﴾ (یہ وہ دن ہے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا تھا) ۔ دنیا میں جو اس دن کے واقع ہونے کی خبر دی جاتی تھی اور یہاں کے احوال و اھوال سے باخبر کیا جاتا تھا اسے نہیں مانتے تھے آج سب کچھ سامنے آگیا۔ تو ذلت چھائی ہے اور عذاب سامنے ہے۔ وھذا اٰخر تفسیر سورة المعارج وللہ الحمد علی اتمامہ وانعامہ واکرامہ

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(44) ان کی آنکھیں شرمندگی سے نیچی ہورہی ہوں گی اور ان پر ذلت و پھٹکار چھائی ہوئی ہوگی یہ ہے وہ یوم موعود جن کا ان سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ نصب کے معنی میں مفسرین کے کئی قول تھے ہم نے ان میں سے دو مشہور قولوں کی طرف اشارہ کردیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قبروں سے نکل کر بلانے والے اور پکارنے والے کی طرف بےتحاشہ اور ایسے بےاوسان ہوکر بھاگیں گے کہ ایک کو دوسرے کی فکر نہ ہوگی بلکہ ہر شخص یہ چاہے گا کہ میں جلدی سے پہنچ جائوں۔ اور جب وہ دن جس کو ساری عمر جھٹلاتے رہے سامنے آجائے گا تو شرمندگی سے نگاہوں کا نیچا ہونا اور بدن پر اور منہ پر پھٹکار کا برسنا ظاہر ہے۔ ان کو اس حالت میں دیکھ کر فرشتے کہیں گے، یہی تو وہ دن ہے جس دن کا ان سے وعدہ کیا جاتا تھا اور یہ کسی طرح یقین نہ کرتے تھے۔ تم تفسیر سورة المعارج