Surat ul Maarijj

Surah: 70

Verse: 7

سورة المعارج

وَّ نَرٰىہُ قَرِیۡبًا ؕ﴿۷﴾

But We see it [as] near.

اور ہم اسے قریب ہی دیکھتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

But We see it (quite) near. meaning, the believers believe that its occurrence is near, even though its time of occurrence is unknown and no one knows when it will be except Allah. All of what is approaching then it is near and it will definitely happen.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

7۔ 1 دور سے مراد ناممکن اور قریب سے اس کا یقینی واقع ہونا ہے۔ یعنی کافر قیامت کو ناممکن سمجھتے ہیں اور مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ وہ ضرور آکر رہے گی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَّنَرٰىہُ قَرِيْبًا۝ ٧ ۭ قرب الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] ، وَلا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام/ 152] ، وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء/ 32] ، فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة/ 28] . وقوله : وَلا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة/ 222] ، كناية عن الجماع کقوله : فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ [ التوبة/ 28] ، وقوله : فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات/ 27] . وفي الزّمان نحو : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء/ 1] ، ( ق ر ب ) القرب القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة/ 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ وَلا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام/ 152] اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا ۔ وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء/ 32] اور زنا کے پا س بھی نہ جانا ۔ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة/ 28] تو اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں ۔ اور آیت کریمہ ولا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة/ 222] ان سے مقاربت نہ کرو ۔ میں جماع سے کنایہ ہے ۔ فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات/ 27] اور ( کھانے کے لئے ) ان کے آگے رکھ دیا ۔ اور قرب زمانی کے متعلق فرمایا : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء/ 1] لوگوں کا حساب ( اعمال کا وقت نزدیک پہنچا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

7 This can have two meanings: (1) "That these people think it cannot possibly take place, and in Our view it is going to take place very soon"; and (2) "that these people think Resurrection is yet remote and far off, and in Our sight it is close at hand and may occur any moment. "

سورة الْمَعَارِج حاشیہ نمبر :7 اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ یہ لوگ اسے بعید از امکان سمجھتے ہیں اور ہمارے نزدیک وہ قریب الوقوع ہے ۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ قیامت کو بڑی دور کی چیز سمجھتے ہیں اور ہماری نگاہ میں وہ اس قدر قریب ہے گویا کل پیش آنے والی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(70:7) ونراہ قریبا : واؤ عاطفہ اس جملہ کا عطف جملہ سابقہ پر ہے نری مضارع جمع متکلم رؤیۃ (باب فتح) مصدر سے ۔ ہم دیکھتے ہیں۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب کا مرجع عذاب ہے اور ہم عذاب کو قریب الوقوع دیکھ رہے ہیں ۔ کیونکہ جو چیز آنے والی یقینی ہو تو وہ قریب ہی ہے۔ بعیدا ، قریبا دونوں ضمیر مفعول ہ سے حال ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(7) اور ہم اس عذاب اور عذاب کے دن کو نزدیک دیکھ رہے ہیں۔ چونکہ یہ قوع عذاب اور وقوع قیامت کا اعتقاد نہیں رکھتے اس لئے اس کے وقوع کو دوراز فہم خیال کرتے ہیں اور ہم بوجہ تعلق بالوقوع کے اس عذاب کو وقوع سے قریب دیکھ رہے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ اس کو نہ ہونے والا سمجھتے ہیں اور ہم اس کو لامحالہ واقع ہونے والا سمجھتے ہیں۔