Surat ul Mudassir
Surah: 74
Verse: 17
سورة المدثر
سَاُرۡہِقُہٗ صَعُوۡدًا ﴿ؕ۱۷﴾
I will cover him with arduous torment.
عنقریب میں اسے ایک سخت چڑھائی چڑھاؤں گا ۔
سَاُرۡہِقُہٗ صَعُوۡدًا ﴿ؕ۱۷﴾
I will cover him with arduous torment.
عنقریب میں اسے ایک سخت چڑھائی چڑھاؤں گا ۔
I shall force him to Sa`ud! Qatadah reported from Ibn `Abbas that he said, "Sa`ud is a rock in Hell that the disbeliever will be dragged across on his face." As-Suddi said, "Sa`ud is a slippery rock in Hell that he will be forced to climb." Mujahid said, سَأُرْهِقُهُ صَعُودًا I shall force him to Sa`ud! "This is a harsh portion of the torment." Qatadah said, "It is a torment that contains no relaxation (break for relief)." Concerning Allah's statement, إِنَّهُ فَكَّرَ وَقَدَّر
17۔ 1 یعنی ایسے عذاب میں مبتلا کروں گا جس کا برداشت کرنا نہایت سخت ہوگا، بعض کہتے ہیں، جہنم میں آگ کا پہاڑ ہوگا جس پر اس کو چڑھایا جائے گا (فتح القدیر)
[١٠۔ ا لف ] اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ میں اس کو اس کی زندگی میں سخت مشکلات سے دو چار کردوں گا اور دوسرا مطلب اخروی عذاب سے تعلق رکھتا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ ابو سعید کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : صعود دوزخ میں ایک پہاڑ ہے جس پر دوزخی کو چڑھایا جائے گا۔ پھر اسے وہاں سے نیچے گرایا جائے گا اسے ہمیشہ یہی عذاب ہوتا رہے گا۔ (ترمذی ابو اب التفسیر)
سارھقۃ صعوداً :” سازھقۃ “ ” ارھق یرھق “ (افعال) کسی کو ایسے کام کی تکلیف دینا جس کی وہ طاقت نہ رکھتا ہو۔ ” صوداً “ (صعد یصعد “ (س) (چڑھنا) سے ، سخت دشوار گھاٹی۔ یعنی میں اسے قیامت کے دن ایک دشوار گزار گھاٹی پر چڑھنے کے لئے مجبور کروں گا۔ قیامت کے دن کی اور جہنم کی مصیبتیں جھیلنے پر مجبور کرنے کو دشوار چڑھائی کی تکلیف دینے کے الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ ترمذی میں ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ ” سعود “ آگ کا ایک پہاڑ ہے جس پر کافر ہمیشہ ستر (٧٠) برس چڑھتا رہے گا اور اتنا عرصہ ہی اترتا رہے گا۔ (دیکھیے ترمذی، ٢٥٧٦، ٣٣٢٦) مگر اس کی سند کمزور ہے۔
سَاُرْہِقُہٗ صَعُوْدًا ١٧ ۭ رهق رَهِقَهُ الأمر : غشيه بقهر، يقال : رَهِقْتُهُ وأَرْهَقْتُهُ ، نحو ردفته وأردفته، وبعثته وابتعثته قال : وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [يونس/ 27] ، وقال : سَأُرْهِقُهُ صَعُوداً [ المدثر/ 17] ، ومنه : أَرْهَقْتُ الصّلاة : إذا أخّرتها حتّى غشي وقت الأخری. ( ر ھ ق ) رھقہ ( س ) رھقا ۔ الامر ۔ کسی معاملہ نے اسے بزور و جبر دبا لیا ۔ اور رھقہ وارھقہ ( مجرد و مزید فیہ ) دونوں کے ایک ہی معنی ہیں جیسے ۔ ردفہ اردفہ وبعثہ وابعثہ ۔ قرآن میں ہے ۔ وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ [يونس/27] اور ان پر ذلت چھا رہی ہوگی ۔ سَأُرْهِقُهُ صَعُوداً [ المدثر/ 17] ہم عنقریب اس کو عذاب سخت میں مبتلا کردیں گے ، اور اسی سے ارھقت الصلوٰۃ ہے جس کے معنی نماز کو آخر وقت تک موخر کرنے کے ہیں ۔ حتی ٰ کہ دوسری نماز کا وقت آجائے ۔ صعد الصُّعُودُ : الذّهاب في المکان العالي، والصَّعُودُ والحَدُورُ لمکان الصُّعُودِ والانحدار، وهما بالذّات واحد، وإنّما يختلفان بحسب الاعتبار بمن يمرّ فيهما، فمتی کان المارّ صَاعِداً يقال لمکانه : صَعُودٌ ، وإذا کان منحدرا يقال لمکانه : حَدُور، والصَّعَدُ والصَّعِيدُ والصَّعُودُ في الأصل واحدٌ ، لكنِ الصَّعُودُ والصَّعَدُ يقال للعَقَبَةِ ، ويستعار لكلّ شاقٍّ. قال تعالی: وَمَنْ يُعْرِضْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِ يَسْلُكْهُ عَذاباً صَعَداً [ الجن/ 17] ، أي : شاقّا، وقال : سَأُرْهِقُهُ صَعُوداً [ المدثر/ 17] ، أي : عقبة شاقّة، والصَّعِيدُ يقال لوجه الأرض، قال : فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً [ النساء/ 43] ، وقال بعضهم : الصَّعِيدُ يقال للغبار الذي يَصْعَدُ من الصُّعُودِ «1» ، ولهذا لا بدّ للمتیمّم أن يعلق بيده غبار، وقوله : كَأَنَّما يَصَّعَّدُ فِي السَّماءِ [ الأنعام/ 125] ، أي : يَتَصَعَّدُ. وأما الْإِصْعَادُ فقد قيل : هو الإبعاد في الأرض، سواء کان ذلک في صُعُودٍ أو حدور . وأصله من الصُّعُودُ ، وهو الذّهاب إلى الأمكنة المرتفعة، کالخروج من البصرة إلى نجد، وإلى الحجاز، ثم استعمل في الإبعاد وإن لم يكن فيه اعتبار الصُّعُودِ ، کقولهم : تعال، فإنّه في الأصل دعاء إلى العلوّ صار أمرا بالمجیء، سواء کان إلى أعلی، أو إلى أسفل . قال تعالی: إِذْ تُصْعِدُونَ وَلا تَلْوُونَ عَلى أَحَدٍ [ آل عمران/ 153] ، وقیل : لم يقصد بقوله إِذْ تُصْعِدُونَ إلى الإبعاد في الأرض وإنّما أشار به إلى علوّهم فيما تحرّوه وأتوه، کقولک : أبعدت في كذا، وارتقیت فيه كلّ مرتقی، وكأنه قال : إذ بعدتم في استشعار الخوف، والاستمرار علی الهزيمة . واستعیر الصُّعُودُ لما يصل من العبد إلى الله، كما استعیر النّزول لما يصل من اللہ إلى العبد، فقال سبحانه : إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر/ 10] ، وقوله : يَسْلُكْهُ عَذاباً صَعَداً [ الجن/ 17] ، أي : شاقّا، يقال : تَصَعَّدَنِي كذا، أي : شَقَّ علَيَّ. قال عُمَرُ : ما تَصَعَّدَنِي أمرٌ ما تَصَعَّدَنِي خِطبةُ النّكاحِ «2» . ( ص ع د ) الصعود کے معنی اوپر چڑھنے کے ہیں ایک ہی جگہ کو اوپر چڑھنے کے لحاظ سے صعود اور نیچے اترنے کے لحاظ سے حدودکہاجاتا ہے کہا جاتا ہے اصل میں صعد وصعید وصعود وصعد کا لفظ عقبہ یعنی کھا ٹی پر بولا جاتا ہے اور استعارہ کے طور پر ہر دشوار اور گراں امر کو صعد کہہ دیتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ يُعْرِضْ عَنْ ذِكْرِ رَبِّهِ يَسْلُكْهُ عَذاباً صَعَداً [ الجن/ 17] اور جو شخص اپنے پروردگار کی یاد سے منہ پھیریگا وہ اس کو سخت عذاب میں داخل کرلیگا سَأُرْهِقُهُ صَعُوداً [ المدثر/ 17] ہم اسے صعود پر چڑہائیں گے ۔ اور صعید کا لفظ وجہ الارض یعنی زمین کے بالائی حصہ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً [ النساء/ 43] تو پاک مٹی لو اور بعض نے کہا ہے کہ صعید اس گرد غیار کو کہتے ہیں جو اوپر چڑھ جاتا ہے لہذا نماز کے تیمم کے لئے ضروری ہے کہ گرد و غبار سے ہاتھ آلودہ ہوجائیں اور آیت کریمہ : ۔ كَأَنَّما يَصَّعَّدُ فِي السَّماءِ [ الأنعام/ 125] گویا وہ آسمان پر چڑھ رہا ہے ۔ میں یصعد اصل میں یتصعد ہے جس کے معنی اوپر چڑھنے کے ہیں ۔ الاصعاد ( افعال ) بقول بعض اس کے معنی زمین میں دور تک چلے جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ جانا بلندی کیطرف ہو یا پستی کی طرف گو اس کے اصل معنی بلندجگہوں کی طرف جانا کے ہیں ۔ مثلابصرہ سے بخد یا حجازی کی طرف جانا بعد ہ صرف دور نکل جانے پر اصعاد کا لفط بولا جانے لگا ہے جیسا کہ تعال کہ اس کے اصل معنی علو بلندی کی طرف بلانے کے ہیں اس کے بعد صرف آنے کے معنی میں بطور امر استعمال ہونے لگا ہے عام اس سے وہ آنا بالائی کی طرف ہو یا پستی کی طرف قرآن میں ہے : ۔ إِذْ تُصْعِدُونَ وَلا تَلْوُونَ عَلى أَحَدٍ [ آل عمران/ 153] جب تم لوگ دور نکلے جارہے تھے اور کسی کو پیچھے پھر کر نہیں دیکھتے تھے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں اصعاد سے دور نکل جانا مراد ہے ۔ بلکہ اشارہ ہے کہ انہوں نے بھاگنے میں علو اختیار کیا یعنی کوئی کسر باقی نہ چھوڑی جیسے محاورہ ہے : ۔ ابعدت فی کذا وار تقیت فیہ کل مرتقی یعنی میں نے اس میں انتہائی کوشش کی لہذا آیت کے معنی یہ ہیں کہ تم نے دشمن کا خوف محسوس کرنے اور لگاتار ہزیمت کھانے میں انتہا کردی اور استعارہ کے طور پر صعود کا لفظ انسانی اعمال کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے جو خدا تک پہنچتے ہیں جیسا کہ ہر وہ چیز جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے انسان تک پہنچتی ہے اسے نزول سے تعبیر کیا جاتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ [ فاطر/ 10] اسی کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ :۔ يَسْلُكْهُ عَذاباً صَعَداً [ الجن/ 17] وہ اس کو سخت عذاب میں داخل کریگا ۔ میں صعدا کے معنی شاق یعنی سخت کے ہیں اور یہ تصعدفی کذا کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی کیس امر کے دشوار اور مشکل ہونے کے ہیں ۔ چناچہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا ( 4 ) ما تصعد لی امر ماتصعدنی خطبۃ النکاح کے مجھے کوئی چیز خطبہ نکاح سے زیادہ دشوار محسوس نہیں ہوتی ۔
آیت ١٨{ اِنَّہٗ فَکَّرَ وَقَدَّرَ ۔ } ” اس نے غور کیا اور کچھ اندازہ کیا۔ “ اس نے سوچا کہ دل کی بات زبان پر لانے یعنی حق کو مان لینے سے کیا ہوگا اور نہ ماننے کا کیا نتیجہ نکلے گا۔ پھر جب اسے اپنے دنیوی مفادات خطرے میں پڑتے نظر آئے تو اس نے ضمیر کی آواز کو دبالینے کا فیصلہ کرلیا۔
6: قرآنِ کریم میں اصل لفظ صعود ہے جس کے لفظی معنیٰ پُر مشقت چڑھائی کے ہیں۔ اور بعض روایات میں ہے کہ یہ دوزخ کے ایک پہاڑ کا نام ہے۔
(74:17) سارھقہ صعودا : س مضارع پر داخل ہوکر اس کے معنی مستقبل قریب کے کردیتا ہے۔ ارھق مضارع واحد متکلم ارھاق (افعال) مصدر بمعنی کسی ناگوار کام کرنے پر انسان کو مجبور کرنا۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب کا مرجع ولید بن مغیرہ ہے۔ صعودا بڑی چڑھائی، سخت گھاٹی۔ دوزخ میں ایک پہاڑ کا نام۔ منصوب بوجہ ارھق کے مفعول ثانی کی۔ اصل میں صعود اس گھاٹی کو کہتے ہیں کہ جس کی چڑھائی سخت ہو۔ جو سختیاں اور دشواریاں پیش آتی ہیں ان کے لئے یہ لفظ بطور مثال مستعمل ہے۔ حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے کہ آیت سارھقہ صعودا کی تشریح میں جناب رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ :۔ وہ دوزخ میں آگ کا ایک پہاڑ ہے ولید کو اس پر چڑھنے کا حکم ہوگا۔ جب وہ اپنا ہاتھ اس پر رکھے گا تو ہاتھ پگھل جائے گا۔ جب اٹھائے گا تو دوبارہ پھر اپنی اصلی حالت پر آجائے گا اور جب اس پر اپنا قدم رکھے گا تو قدم بھی پگھل جائے گا پھر جب وہ قدم اٹھائے گا تو پھر وہ اپنی اصلی حالت پر ہوجائے گا۔ (بغوی) ترجمہ ہوگا :۔ ہم عنقریب اسے صعود پر چڑھائیں گے (ترجمہ فتح محمد جالندھری) میں ابھی اسے جھنڈے پر چڑھاتا ہوں (حقانی) میں اسے مجبور کر دوں گا کہ وہ کٹھن چڑھائی چڑھے۔ (ضیاء القرآن)
ف 12 ترمذی وغیرہ کی بعض روایات میں ہے کہ آنحضرت نے فرمایا : ” صعود “ دوزخ میں آگ کا پہاڑ ہے۔ کافر ستر برس تک اس میں چڑھایا جاتا رہے گا پھر نیچے گرے گا پھر چڑھایا جائیگا اور اسی طرح اسے چڑھنے اترنے کا یہ عذاب ہوتا رہے گا۔ “ ان روایات کی چونکہ سند کمزور ہے اس لئے امام ابن جریر وغیرہ نے آیت کا یہ مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ” میں اسے ایسا مشقت طلب عذاب دوں گا جس میں کوئی آرام نہ ہوگا۔ ابن کثیر
سارھقہ صعودا (74:17) ” عنقریب ایک کٹھن چڑھائی چڑھواﺅں گا “۔ مشقت اور دشواری کی یہ بہترین تمثیل وتصویر ہے۔ چڑھائی چڑھنا نہایت مشقت کا عمل ہوتا ہے اور انسان کے لئے سانس لینا دشوار ہوجاتا ہے۔ اور اگر یہ کام کسی سے زبردستی لیا جائے اور چڑھنے والے کی کوئی ذاتی دلچسپی نہ ہو تو یہ عمل پھر مزید دشوار ہوجاتا ہے۔ یہ تمثیل اور تصویر ایک حقیقی تعبیر بھی ہے۔ کیونکہ جو شخص ایمان کے سیدھے ، ہموار اور خوشگکوار راہ سے منحرف ہوجاتا ہے تو اسے انحراف کی راہ میں مشکلات پیش آتی۔ بیشمار ناہمواریاں اور مشکلات ایسے شخص کی زندگی قلق اور بےچینی میں گزرتی ہے۔ وہ ہمیشہ حیران وپریشان رہتا ہے ، گویا اسے زبردست آسمان پر اور سولی پر چڑھایا جارہا ہو ، اس کی زندگی میں نہ تروتازگی ہوتی ہے ، نہ راحت ، نہ خوشی ، اور نہ سکون اور نہ یہ امید کہ اس پر مشقت سفر کے نتیجے میں وہ منزل مقصود تک پہنچ جائے گا۔ اب اس شخص کی ذہنی کیفیت اور اندرونی نفسیات کی وہ بھدی تصویر کھینچی جاتی ہے جس میں ہر شخص خود اپنے تاثرات اور احساسات کی تکذیب کرتا ہے۔ یہ اپنے اعصاب پر دباﺅ ڈالتا ہے ، ماتھے پر شکن آتی ہے اور منہ بناتا ہے۔ اور یہ تمام ذہنی اور فکری زور اس بات کے لئے لگاتا ہے کہ قرآن اور صاحب قرآن کے اندر کوئی عیب نکال لائے۔
اس کے بعد فرمایا ﴿ سَاُرْهِقُهٗ صَعُوْدًاؕ٠٠١٧﴾ (میں اسے صعود پر چڑھاؤں گا) حضرت ابو سعید خدری (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ” صعود “ آگ کا ایک پہاڑ ہے جس پر دوزخی کو ستر سال تک چڑھایا جائے گا۔ جب ایک بار چڑھایا جائے گا تو اسی طرح ستر سال تک اترتا رہے گا اور ہمیشہ اسی طرح ہوتا رہے گا یعنی ہمیشہ ہمیشہ چڑھنے اور اترنے میں رہے گا اس سے کبھی فارغ نہ ہوگا (اور یہ اترنا چڑھنا جبری ہوگا) ۔ (رواہ الترمذی)
8:۔ سارھقہ صعودا۔ یہ تخویف اخروی ہے۔ صعود دوزخ میں آگ کا نہایت ہی بلند پہاڑ ہے جس پر چڑھنے کے لیے جہنمیوں کو مجبور کیا جائے گا۔ یہ بھی ایک قسم کا نہایت تکلیف دہ عذاب ہوگا۔ ” انہ فکر “ یہ اس کی سزا کی علت ہے اس نے قرآن اور پیغمبر کے بارے میں غور و فکر کیا کہ ان کی حقیقت کیا ہے پھر اپنے ذہن میں ایک بات طے کرلی کہ یہ قرآن جادو ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جادوگر ہے (العیاذ باللہ) ۔ اس ملعون اور راندہ درگاہ ایزدی نے یہ فیصلہ کس طرح کرلیا۔ اس کے بعد اس نے نظر اٹھا کر دیکھا، ترش رو ہوا اور سخت ناک بھوں چڑھائی اور پھر پیٹھ پھیر کر غرور و نخوت سے چل دیا اور کہنے لگا یہ تو جادو ہے جو بابل کے جادوگروں سے چلا آرہا ہے اور لوگ اسے سیکھتے سکھاتے چلے آرہے ہیں یہ بھی کہیں سے سیکھ کر آگیا ہے اور یہ قرٓان جسے وہ خدا کا کلام بتاتا ہے خدا کا کلام نہیں یہ انسانی کلام ہے جسے وہ خود بنا کر یا کسی سے بنوا کر لاتا ہے۔ ولید بن مغیرہ نے اپنی قوم بنی مخزوم سے کہا تم کہتے ہو محمد دیوانہ ہے، کیا تم نے کبھی اس پر دیوانگی کا دور پڑتے دیکھا ہے ؟ اور تم کہتے ہو وہ کاہن ہے، کیا تم نے کبھی اسے کاہنوں کی سی باتیں کرتے سنا ہے ؟ نیز تم کہتے ہو وہ شاعر ہے، کیا تم نے کبھی اسے شعر پڑھتے یا بناتے سنا ہے ؟ اور تمہارا خیال ہے کہ وہ جھوٹا ہے کیا تم نے کبھی اس کو جھوٹ بولتے سنا ہے ؟ ہر سوال کے جواب میں سب نے کہا : نہیں، پھر کہنے لگے تو بتاؤ ناں آخر یہ کیا معاملہ تو غور و فکر کے بعد کہنے لگا وہ جادوگر ہے کیا تم دیکھتے نہیں کہ اس نے خاوند بیوی باپ بیٹے اور اور بھائی بھائی میں جدائی ڈال دی ہے۔ اس جواب سے تمام ملعونین بہت خوش ہوئے۔ (مدارک) ۔ ” ثم قتل “ تعقیب ذکری کے لیے ہے۔ یعنی میں پھر کہتا ہوں کہ اس ملعون نے یہ کس طرح اندازہ لگایا کہ آپ جادوگر ہیں۔ ثم نظر، یعنی پہلے تو آنکھیں بند کر کے سوچا، پھر آنکھوں کھول کر دیکھا پھر ترش رو ہوا اور سخت ناک بھوں چڑھائی اور پھر متکبرانہ انداز میں پشت پھیر دی جیسا کہ آج کل کے متکبر کرتے ہیں۔ قالہ الشیخ (رح)۔